باتیں جو یاد آتی ہیں گزری کبھی کبھی ۔ ہوتے ہیں شادمان سے ہم بھی کبھی کبھی ۔ رنگ و نشاط نغمہ و آہنگ ہی نہیں ۔ کٹتی ہے حسرتوں میں جوانی کبھی کبھی ۔ مِلتے ہی تم سے دیکھئے الفاظ جم گئے ۔ دِل کی کہانی کہنا جو چاہی کبھی کبھی ۔ کرلو کبھی تو مشورہ ہم سے بھی دوستو ۔ کہتے ہیں بات کام کی ہم بھی کبھی کبھی ۔ دیکھا تھا اِس طرح سے کہ دیکھا نہ دیکھ کر ۔ رستے میں ہم جو مل گئے یوں ہی کبھی کبھی ۔ سمجھے تری جفاؤں سے ہم تو فقط یہ بات ۔ طوفاں سے بچ بھی جاتی ہے کشتی کبھی کبھی ۔ شاید ترے خیال سے آزاد ہو چلے ۔ مِلنے لگے ہیں لوگوں سے ہم بھی کبھی کبھی ۔ وامِق تمہیں سکون ملے کس طرح یہاں ؟ ۔ چہرے بدل کے ملتا ہے غم بھی کبھی کبھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر۔ غلام محمد وامق اکتوبر سال 1983ء میں کہی گئی غزل ۔

                  === غزل  === 
                 غلام محمد وامق 

باتیں جو یاد آتی ہیں گزری کبھی کبھی ۔ 
ہوتے ہیں شادمان سے ہم بھی کبھی کبھی ۔ 

رنگ و نشاط نغمہ و آہنگ ہی نہیں ۔ 
کٹتی ہے حسرتوں میں جوانی کبھی کبھی ۔ 

مِلتے ہی تم سے دیکھئے الفاظ جم گئے ۔ 
دِل کی کہانی کہنا جو چاہی کبھی کبھی ۔ 

کرلو کبھی تو مشورہ ہم سے بھی دوستو ۔ 
کہتے ہیں بات کام کی ہم بھی کبھی کبھی ۔ 

دیکھا تھا اِس طرح سے کہ دیکھا نہ دیکھ کر ۔ 
رستے میں ہم جو مل گئے یوں ہی کبھی کبھی ۔ 

سمجھے تری جفاؤں سے ہم تو فقط یہ بات ۔ 
طوفاں سے بچ بھی جاتی ہے کشتی کبھی کبھی ۔ 

شاید ترے خیال سے آزاد ہو چلے ۔ 
مِلنے لگے ہیں لوگوں سے ہم بھی کبھی کبھی ۔ 

وامِق تمہیں سکون ملے کس طرح یہاں ؟ ۔ 
چہرے بدل کے ملتا ہے غم بھی کبھی کبھی ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ 
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 
شاعر۔ غلام محمد وامق 
اکتوبر سال 1983ء میں کہی گئی غزل ۔

SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.