★★★ بھیڈا ( بھیڑیا ) ★★★
ـــــــ مکمل داستان ..... قسط نمبر ـ 1 ـ 2 ـ 3 ـ 4،
( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) ــ
ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ
جیند کی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی، وہ کال کوٹھری میں پڑا ہوا بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا، گزرے لمحات فلم سکرین کی طرح اس کے سامنے سے گزر رہے تھے، اس کی عمر ستر سال سے تجاوز کرچکی تھی ـ جسم پر ہلکا ہلکا رعشہ طاری ہوچکا تھا ـ وہ سوچ رہا تھا ابھی کل کی ہی تو بات ہے، گاؤں ( کالوا) بھر میں اس کا دبدبہ تھا، کس کی مجال جو اس سے نظریں ملا سکے ـ اس کی آنکھوں میں ہلکے سرخ ڈورے تو اب بھی دیکھے جا سکتے تھے، وہ سوچ رہا کہ زندگی کے دن ویسے بھی پورے ہوچکے تھے اب اگر پھانسی بھی ہوگئی تو کیا ہے ـ اس نے اپنی زندگی بھرپور انداز سے گزاری تھی ـ اس کا قد سات فوٹ کے قریب تھا وہ کالوے اور اردگرد کے گاؤں کا مشہور بہادر اور نڈر نوجوان ہوتا تھا ـ اس کے دونوں کانوں میں چاندی کے بالے پڑے ہوتے تھے، سرخ و سفید چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں جنہوں نے اس کے بالائی لب کو ڈھانپ لیا تھا، اس کے مہم جُو ہونے کی غمازی کر رہی تھیں ـ
کالوا اور قرب و جوار کے علاقے میں اس کی بہادری کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی ـ کوئی بھی شخص اس کے گھر کے سامنے سے گھوڑے پر سوار ہوکر نہیں گزرتا تھا، یا نہیں گزر سکتا تھا ( شاید اس کے احترام کے باعث) ـ وہ ہر مظلوم کے درد کا درماں تھا، گاؤں کا ہر شخص اپنے تنازعات اسی سے حل کروانے کی کوشش کرتا تھا، جب کہ بدمعاش لوگ اس سے کنی کترا کے گذرتے تھے ـ اس کی گلی میں اس کے گھر کے سامنے والے گھروں کی قطار کے آخری کونے پر بنی حویلی کے سامنے والے حصے پر اس کی پورٹریٹ پتھر پر نقش کر کے آویزاں کی گئی تھی، حالاں کہ وہ حویلی ایک ہندو بنئے کی تھی، لیکن یہ پورٹریٹ اس سے عقیدت و محبت کا مظہر تھی ـ
اس کا نام تو " غلام حسین " تھا، لیکن لوگ اسے " بھیڈا " کے نام سے پکارتے تھے ـ یہ نام گویا اس کی بہادری کے ایک واقعہ کی یادگار تھا ـ اس کے سامنے بیتے زمانے کا وہ منظر آگیا جب گاؤں کے چوپایوں کے باڑے سے ہر رات ایک جانور غائب ہونے لگا، لوگ پریشان تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ـ کون ہے جو باڑے سے جانور اٹھا کر لے جاتا ہے؟ ـ اس زمانے میں جانوروں کے باڑے ایک میدان میں کانٹوں کی باڑ لگا کر بنائے جاتے تھے، جس میں بھیڑ بکریاں رکھی جاتی تھیں ـ باڑے کا دروازہ برائے نام ہوتا تھا جسے گھاس پھوس یا ٹوٹے پھوٹے پھٹوں سے ڈھک دیا جاتا تھا ـ جب وارداتوں میں اضافہ ہوا تو سب کی نظریں غلام حسین پر پڑیں، اسی سے کہا گیا کہ اس مسئلے کا حل نکالیں ـ تب اس نے چور کو پکڑنے کے لئے خود اکیلے رات بھر پہرہ دینے کا لائحہ عمل ترتیب دیا، سردیوں کا موسم تھا، وہ رات کو باڑے کے ایک کونے میں خود کو رضائی میں لپیٹ کر بیٹھ گیا کہ دیکھیں کون سا چور ہے جو ہر رات جانور نکال کر لے جاتا ہے ـ رات گذرتی گئی مگر کوئی نہ آیا، وہ انتظار کرکے مایوس ہوچلا تھا کہ رات کے آخری پہر اسے کھٹکا محسوس ہوا، وہ تیار ہوکر بیٹھ گیا، مگر یہ دیکھ کر اسے مایوسی ہوئی کہ کسی چور کے بجائے اندھیرے میں گیدڑ نما کوئی جانور باڑے میں داخل ہورہا ہے، اس نے اندر آتے ہی اچانک ایک بکری کو دبوچا ہی تھا کہ اس نے اپنی لاٹھی اٹھا کر اس پر وار کیا لیکن حیرت انگیز طور پر جانور نے غلام حسین پر چھلانگ لگادی، غلام حسین اس سے لپٹ گیا مگر اسے محسوس ہوا کہ یہ کوئی عام گیدڑ یا کتا وغیره نہیں ہے، اس درندے جانور میں اس قدر طاقت تھی کہ غلام حسین کو اپنے جسم کی ہڈیاں چٹختی محسوس ہوئیں، تب اس درندے نے اپنا مُنہ کھولا اور اپنے جبڑوں میں اسے چبانا چاہا کہ اچانک غلام حسین نے اپنا ایک ہاتھ رضائی میں لپیٹ کر اس کے جبڑوں میں گھسیڑ دیا، جس سے اس کے دانت رضائی میں پھنس گئے اور اس کا مُنہ قابو میں آگیا ـ اس کے بعد بہت دیر تک ان دونوں میں کُشتی ہوتی رہی ـ غلام حسین جیسا طاقتور شخص حیران تھا کہ آخر یہ کیا بلا ہے؟ جو نہ تو قابو ہی آرہی ہے اور نہ ہی چھوڑ کر بھاگ رہی ہے ـ یہاں تک کہ صبح فجر کی آذان ہوگئی ـ باڑے کے قریب ہی مسجد تھی، نمازی نماز کے لئے آنے لگے تو انہوں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا، لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہوگئی تو غلام حسین نے چیخ کر کہا کہ دیکھ کیا رہے ہو؟ اس کتے کو لٹھوں سے مارو، تب لوگوں نے بتایا کہ غلام حسین یہ کتّا نہیں بھیڑیا ہے ـ بالآخر گاؤں کے لوگوں نے لٹھوں، اور ڈنڈوں وغیرہ سے اس بھیڑئے کو مارنا شروع کردیا، جب وہ ادھ مرا ہوگیا تو اس کی گرفت ڈھیلی پڑی، اس طرح اس بھیڑئیے کو ہلاک کردیا گیا ـ
اس واقعے کے بعد سے غلام حسین کی شناخت بھیڑئیے کے نام سے ہونے لگی، بھیڑئیے کو ہریانوی زبان میں " بھیڈا " کہا جاتا ہے ـ اس طرح رفتہ رفتہ تمام لوگ اسے غلام حسین کے بجائے " بھیڈا " کے نام سے پکارنے اور جاننے لگے ـ
=== بھیڈا ( بھیڑیا) === قسط ـ 2 ...
گذشتہ سے پیوستہ
( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے )
ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ
وہ یوں تو ہر فن مولا تھا، لیکن اپنی معاشی ضروریات کے لئے اس کے پاس تھوڑی سی زرعی زمین بھی تھی، لیکن اس کے اصل کام دو تھے جن سے اسے دلچسپی تھی، ایک تو وہ خود جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انہیں تراش کر ان سے ضروریاتِ زندگی کی اشیاء تیار کر کے انہیں فروخت کرتا، جیسا کہ گھریلو استعمال کی تمام اشیاء و فرنیچر وغیرہ ـ دوسرا کام جس سے اسے عشق کی حد تک دلچسپی تھی، وہ تھا ہر قسم کے سانپ ( ناگ ) پکڑنا، اور ان کے زہر سے اور ان کی جلد سے مختلف قسم کی ادویات تیار کرنا، جس میں خاص طور پر سانپ کے کاٹنے کا علاج اور سانپ کے ڈسے جانے کے بعد مریض کے جسم سے سانپ کا زہر اپنے مُنہ سے چوس کر نکالنا تھا ـ دور و نزدیک کے بہت سے لوگ سانپ کے ڈسے ہوئے لوگوں کو اس کے پاس لاتے جسے وہ اپنی تیار کردہ دوائیاں کھلا کر یا سانپ کا زہر نکال کر مریض کو تندرست کردیتا تھا ـ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ حکمت اس نے کہاں سے حاصل کی تھی، کیوں کہ خاندانی طور پر وہ سپیرا نہیں تھا، اس کے بڑوں نے بھی کبھی سانپ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، لیکن اسے سانپوں سے انتہائی دلچسپی تھی، اسے اگر معلوم ہوجاتا کہ فلاں علاقے میں کوئی نئی نسل کا سانپ ہے تو وہ اسے پکڑنے کے لئے وہاں پہنچ جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اس کے پاس ایک " بِین " بھی تھی ـ اس کے گھر میں مختلف قسم کے سینکڑوں سانپ ہر وقت موجود ہوتے تھے، جنہیں مٹی کی ہانڈیوں میں یا مٹکوں میں ڈال کر رکھا جاتا تھا، اس کے پاس اکیلے سانپ کے لئے پٹاریاں بھی تھیں ـ اس نے اژدھے بھی پال رکھے تھے جن کے لئے الگ سے انتظام کیا گیا تھا، جس جگہ اژدھے رکھے جاتے تھے اس میں ریت بچھائی جاتی تھی اور موسمِ گرما میں اس ریت کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے پانی کا چھڑکاﺅ کیا جاتا تھا، جوکہ گھر میں موجود بچے بھی کردیتے تھے، لیکن تمام بچوں کو سانپوں سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی تھی، حالاں کہ اکثر سانپوں کا زہر نکالا ہوا ہوتا تھا ـ
وہ سانپوں کے زہر سے یا دیگر اجزاء سے ایک خاص قسم کا سرمہ بھی بناتا تھا جسے وہ خود ہی استعمال کرتا تھا، جس سے اس کی آنکھوں میں خاص قسم کی چمک پیدا ہوگئی تھی اور اس کے استعمال سے کبھی نظر کمزور نہیں ہوتی تھی ، کہا جاتا ہے کہ اس سرمے کی تاثیر یہ تھی کہ جو بھی غیرمحرم جوان عورت اس کی آنکھوں میں دیکھ لیتی تو اس پر فریفتہ ہوجاتی، اس روایت سے منسوب بہت سی کہانیاں زبانِ زدِعام تھیں ـ اس کے باوجود اس نے صرف تین خواتین سے نکاح کیا اور انہیں اپنے ساتھ گھر میں رکھا، جن میں سے ایک خاتون آرائیں قوم سے تعلق رکھتی تھی، جسے بعدازاں چند ناگزیر وجوہات کے باعث چھوڑنا پڑا ـ
ان بیویوں سے اس کو بہت سی اولادیں تھیں، جن میں بیٹیاں زیادہ تھیں، جب کہ بیٹے فقط چار ہی تھے، بڑا بیٹا علی شیر لڑکپن میں انتقال کرگیا تھا، اس سے چھوٹا نواز علی جوکہ اپنے والد سے مشابہ تھا اور اسی کی طرح دلیر بھی تھا اور شادی شدہ تھا ، وہ گاؤں کے میلے میں منعقدہ انعامی مقابلے کی ایک تقریب میں بھاری وزن اٹھانے کا مظاہرہ کرتے ہوئے جسم میں کوئی تکلیف پیدا ہونے کے باعث بیمار ہوا اور چند دنوں کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا ـ اس کے بعد محمد شریف اور اس سے تقریباً دس سال چھوٹا بیٹا شیر محمد تھا ـ
جب وہ اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر نکلتا تو لوگ اسے احترام سے دیکھتے اور سرگوشی میں ایک دوسرے کو بتاتے کہ یہ " بھیڈا " ہے ـ
ایک رات وہ اپنی گھوڑی پر سوار عازمِ سفر تھا تو راستے میں ایک گاؤں میں اس نے دیکھا کہ ہندؤوں کے ایک گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آرہی ہیں، اس نے گھوڑی کو روکا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک نوجوان سانپ کے ڈسنے سے مرگیا ہے، اور اب اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے اسے شمشان گھاٹ لے جانے کی تیاری ہو رہی ہے ـ وہ ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس کے وارثین نے کہا کہ مرنے کے بعد کون زندہ ہوتا ہے؟ پھر بھی آپ جو کرنا چاہیں کرلیں، اب اس کو مزید تو کوئی نقصان پہنچنے سے رہا ـ
بھیڈے نے اپنی جیب سے کسی دوا کی شیشی نکالی اس میں سے چند قطرے مرنے والے کا مُنہ کھول کر اس میں ٹپکائے اور شاید اس کا زہر بھی چوس کر نکالا، بہرحال روایت کے مطابق کچھ دیر بعد مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں، یہ دیکھ کر ماتم زدہ گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے ـ. اس کا کہنا تھا کہ سانپ کے ڈسنے کے بعد چوبیس گھنٹے تک مریض زندہ ہوتا ہے ـ افسوس کہ اس قدر قیمتی حکمت اور انمول نسخہ جات "بھیڈے " کی اگلی نسل کو منتقل نہیں ہوسکے ـ
بقایا .... قسط نمبر تین 3، میں ملاحظہ فرمائیں ـ ان شاءالله العزیز ...
=== بھیڈا ( بھیڑیا ) === قسط ـ 3 ...
گذشتہ سے پیوستہ ...
( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے )
ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ
جیل کی کال کوٹھری میں اپنی موت کا منتظر وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا والد " غوث بخش " دھنانہ گاؤں میں رہتا تھا، جہاں پر اس کی بہترین زرعی زمین پر اس کے چار بھائیوں نے قبضہ کرکے اسے زمین سے بے دخل کردیا تھا، چناں چہ اس کا والد حالات سے مجبور ہوکر اپنے گاؤں دھنانہ سے ہجرت کرکے اپنی سسرال کے پاس " کالوا " میں آکر آباد ہوگیا تھا، جہاں پر وہ پیدا ہوا تھا ـ
وہ سوچ رہا تھا اپنے سگے بھائی بھی حصولِ دنیا کے لئے برادرانِ یوسف کیوں بن جاتے ہیں؟ ـ اور حرصِ دنیا میں اپنے خون کے رشتوں کو بھی ان کے گھربار اور شہر سے نکال دیتے ہیں ـ
اسی طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آرہے تھے کہ پھر اسے اپنا ایک پیارا دوست یاد آیا، وہ ہندو ( سناتھن ) دھرم سے تعلق رکھتا تھا، اس کا نام " ہری چند " ( یہ فرضی نام ہے اصل نام یاد نہیں آرہا) تھا جس نے اس کے کہنے پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا، یہ بھی بڑا عجیب قصہ تھا ـ ہری چند اکثر غلام حسین سے ملنے اس کے گھر اس کی بیٹھک میں آتا ، اس کے ساتھ باتیں کرتا اور اکٹھے بیٹھ کر ساتھ کھانا کھاتے تھے، ایک روز ہری چند نے بھی غلام حسین کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دی جسے قبول کرلیا گیا، مگر جب وہ دعوت پر ہری چند کے گھر پہنچا تو اس نے ان کی بیٹھک میں سُوَّر ( سُووَر ) بندھے دیکھے، یہ دیکھ کر اس کا جی خراب ہوگیا اور ہری چند سے کہا کہ بھائی میں اس وقت تک تمہارے گھر نہیں جاسکتا جب تک تمہارے گھر میں سوّر موجود ہیں، چنانچہ وہ اس کی دعوت پر اس کے گھر نہیں گیا ـ
وقت گزرتا گیا ایک روز ہری چند نے کہا کہ بھائی غلام حسین میں تمہارے مذہب اسلام کو سوفیصد سچا سمجھتا ہوں، اس لئے تم مجھے مسلمان بنالو ـ یہ سن کر غلام حسین خوشی سے جھوم اٹھا اور اسے مشورہ دیا کہ اسلام کی صحیح تعلیم کے لئے تم دہلی چلے جاؤ، وہاں پر فلاں مدرسہ ہے وہاں پر فلاں نام کے ایک عالم ہیں انہیں میرا سلام کہنا وہ تمہیں مدرسے میں داخل کرلیں گے، چنانچہ ہری چند نے ایسا ہی کیا، لیکن اس سلسلے میں ان کے گھر والوں کا کیا ردّعمل تھا یہ معلوم نہ ہوسکا ـ مسلمان ہونے کے بعد ہری چند کا نام " عبدالقادر " رکھا گیا، چند سالوں بعد عالم بن کر عبدالقادر ( یہ نام بھی فرضی ہے، اصل رکھا گیا نام بھی یاد نہیں) جب واپس اپنے گاؤں آیا تو غلام حسین نے اس کا پُرجوش استقبال کیا، اور اپنے گھر دعوت پر بلایا، لیکن عبدالقادر نے کہا کہ بھائی غلام حسین تمہارے کہنے پر اور اللہ کے فضل سے میں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا، اب تم ایک میری بات بھی مان لو اور وہ یہ ہے کہ تمہارے کانوں میں جو یہ بالے ہیں یہ ہندو دھرم کی علامت ہیں انہیں نکال دو، اور تمہاری یہ جو بڑی بڑی مونچھیں تمہارے لبوں پر آرہی ہیں انہیں ترشوا لو، کیوں کہ جب تم کھانا کھاتے ہو یا پانی پیتے ہو تو وہ مونچھوں کو لگ کر مُنہ میں جاتا ہے، جوکہ غیر شرعی ہے اور لقمہ حرام ہوجاتا ہے، یہ عمل سنّتِ رسولﷺ کے خلاف ہے ـ
یہ سن کر غلام حسین مسکرایا اور اسی وقت اپنے کانوں سے بالے اتار دئے اور حد سے بڑھی مونچھیں ترشوا لیں، اس خیال کے آتے ہی بھیڈے کے چہرے پر اطمینان ظاہر ہوا اور لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ـ
خیالات کا سلسلہ دوسری جانب مڑا تو اس کے سامنے وہ منظر آگیا جب وہ ایک رات اپنی گھوڑی پر سوار کہیں سے واپس گھر کی طرف آرہا تھا ... راستے میں وہ ایک قبرستان سے گزرا تو اچانک یہ دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا کہ ایک قبر پر کوئی مادرزاد برہنہ عورت بال بکھرائے کھڑی ہوئی کسی برتن میں موجود پانی سے نہا رہی ہے، یہ دیکھ کر وہ رک گیا، گھوڑی سے اترا اور اس عورت کے پاس گیا، وہ خوفزدہ نہیں ہوا اور نہ ہی اسے چڑیل وغیرہ سمجھا ـ اس عورت نے اسے ڈرانے کے لئے چیخ کر کہا کہ بھاگ جاؤ، اپنی جان بچاؤ، میں چڑیل ہوں تمہارا خون پی جاؤں گی، لیکن بھیڈے نے تو ڈرنا سیکھا ہی نہیں تھا، اس نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا ـ اپنی پگڑی اتار کر اس کی طرف پھینکی کہ اس سے اپنا جسم ڈھانپ لو، لڑکی نے ایسا ہی کیا، تب بھیڈے نے دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا کہ بتاؤ ... تم کون ہو ...؟ ورنہ تمہیں یہیں پر مار ڈالوں گا ـ وہ عورت اب بہت زیادہ خوفزدہ ہوگئی تھی ... وہ رونے لگی اور بتایا کہ وہ فلاں گاؤں کی رہنے والی ہے اور فلاں شخص کی بیوی ہے، شادی کو کئی سال ہوگئے ہیں مگر وہ اب تک اولاد سے محروم ہے، ہمارے پیر صاحب نے بتایا تھا کہ فلاں تاریخ کو، رات کو فلاں وقت پر قبرستان میں کسی پرانی قبر پر جاکر نہالو تو اولاد ہوجائے گی ـ یہ سن کر " غلام حسین بھیڈے " نے اسے سمجھایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، تمہیں فریب دیا گیا ہے، اولاد دینے والا تو صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے، فقط اسی سے ہر شے طلب کرو، وہی دعائیں قبول کرتا ہے، آئندہ ایسی غلطی ہرگز نہ کرنا، اب چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں ... لڑکی نے منتیں کرنی شروع کردیں کہ آپ یہ سب میرے گھر والوں کو مت بتانا، ورنہ وہ مجھے طلاق دے دیں گے، یا مجھے مار یں گے، اس نے وعدہ کرلیا، اور لڑکی کو گھوڑی پر اپنے پیچھے بٹھا کر خاموشی سے اس کے گھر پر اتار دیا ـ وہ لڑکی جس طرح چوری چھپے گھر سے نکلی تھی، اسی طرح چھپ کر گھر میں داخل ہوگئی، اور بات پردے کی پردے میں رہ گئی ـ
باقی ... قسط ـ 4 ( آخری قسط ) میں ملاحظہ فرمائیں ـ
=== بھیڈا ( بھیڑیا ) === قسط ـ 4 ـ آخری ـ
گذشتہ سے پیوستہ
( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے)
ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان
جیل کی کال کوٹھری میں اپنی موت کو قریب ترین محسوس کرتے ہوئے گزری زندگی کے تمام ورق خودبخود الٹتے جا رہے تھے، یہ سوچ کر اسے بے حد دکھ ہوا کہ ابھی چند ہی سال قبل اس کا شاگرد " منوہر لال " ( یہ نام بھی فرضی ہے، اصل نام یاد نہیں) جوکہ جاٹ قوم سے تھا، اس کے پاس آیا اور کہا کہ استاد جی مجھے کچھ دن کے لئے اپنی بندوق دے دو، مجھے اپنے چند دوستوں کے ساتھ شکار پر جانا یے، یہ سن کر اس نے بندوق دینے کے معاملے پر کچھ تردّد کیا، لیکن منوہر لال نے اس کی ہر طرح سے تشفّی کردی اور اطمینان دلایا کہ تمہاری بندوق کو غلط کام کے لئے استعمال ہرگزنہیں کیا جائے گا ـ بھیڈے نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی بندوق اس کو دے دی ـ اس کی بندوق کے بٹ پر کچھ مخصوص نقش و نگار اس نے خود اپنے ہاتھ سے کندہ کئے ہوئے تھے جوکہ اس کی بندوق کی شان اور پہچان تھے ـ بہرحال منوہر لال بندوق لے گیا ـ پھر کئی روز تک وہ واپس نہیں آیا، البتہ اس کے متعلق یہ خبر ضرور آگئی کہ منوہر لال روپوش ہوگیا ہے ـ بعدازاں یہ خبر آئی کہ منوہر لال نے اپنے بدمعاش جرائم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی قریبی گاؤں میں ایک ہندو سیٹھ کے گھر پر حملہ کیا تھا، پورے گھر کو لوٹ کر آگ لگادی، اور کچھ اہلِ خانہ کو قتل بھی کردیا گیا ہے ـ اس واردات میں استعمال ہونے والی " بھیڈے " کی بندوق بازیاب ہو گئی تھی ـ پولیس مجرمان کی تلاش میں چھاپے مار رہی تھی، یہ اطلاع ملتے ہی کچھ لوگوں کے کہنے پر غلام حسین بھیڈا بھی روپوش ہوگیا ـ وہ دراصل دھنانہ گاؤں میں جاکر اپنے عزیزوں کے ہاں چھپ گیا تھا ـ بہت عرصہ وہ روپوش رہا، لیکن اس کی غیرموجودگی میں اس کے گھر میں بچوں کو فاقہ کشی اور بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اوپر سے پولیس بار بار ان کو تنگ کر رہی تھی ـ
گھر میں بچوں کے دگرگوں حالات سن سن کر بالآخر غلام حسین نے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ـ
اور جیند شہر آکر خود کو پولیس کے حوالے کردیا ـ
غلام حسین کے بیان کے بعد منوہر لال اور اس کے دیگر مجرم ساتھیوں کو پکڑ لیا گیا، لیکن ٹھوس ثبوت غلام حسین کے خلاف اس کی بندوق تھی، جوکہ موقعہء واردات سے بازیاب ہوئی تھی اور اب عدالت میں جج صاحب کے سامنے موجود تھی، آلہء قتل کی موجودگی میں مقدمہ چلا، منوہر لال اور دیگر مجرمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ وہ بندوق غلام حسین سے شکار کے لئے مانگ کر لے گئے تھے، ان کے بیان کے مطابق یہ کارروائی غلام حسین بھیڈے نے کی ہے ـ جج نے غلام حسین کو پھانسی کی سزا سنادی، اور دیگر مشکوک مجرموں کو بھی کچھ سال قید کی سزا سنائی گئی ـ
غلام حسین کی ایک ذہین بیٹی " شریفن " تھی، جس کی عمر بارہ، پندرہ سال کے درمیان ہوگی ـ وہ عدالت کے ایک سرکاری وکیل سے ملی، یہ وکیل ان کے گاؤں " کالوا " کا رہائشی تھا ـ اس کو ساری حقیقت بتائی گئی، وہ خود بھی ان حقائق سے آگاہ تھا اور غلام حسین کی عزت کرتا تھا، جب شریفن نے اس کے پاس آکر اپنے باپ کی رہائی کے لئے منتیں کرنی اور رونا شروع کیا تو اس کو اس پر بہت ترس آیا، اور اس نے ان کی مدد کرنے کا ارادہ کرلیا ـ اس نے شریفن کو کچھ اہم باتیں سمجھائیں اور کہا کہ جج صاحب ( جو کہ انگریز تھا ) بہت رحم دل، خدا ترس اور ایماندار آدمی ہے، میں تمہیں اس کے گھر کے باہر لے چلتا ہوں، وہ صبح جیسے ہی عدالت آنے کے لئے گھر سے نکلے تو تم اس کے سامنے جاکر اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوجانا، اس کے سامنے آہ و زاری کرنا، تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا ـ
شریفن نے ایسا ہی کیا، وہ جج کے پاؤں میں گر پڑی، اس نے جج کو روتے ہوئے بتایا کہ اس کا والد بالکل بے قصور ہے، وہ اب بوڑھا ہوچکا ہے، وہ تو اب رات کو کبھی گھر سے بھی باہر نہیں نکلتا، اور نہ ہی اس میں اب اتنی طاقت ہے کہ وہ ڈاکہ ڈال سکے ـ اور یہ کہ یہ واردات میرے باپ کے شاگرد منوہر لال نے کی ہے، جو کہ اس کی بندوق شکار کرنے کے بہانے سے لے گیا تھا ـ
جج صاحب کو اس پر بہت ترس آیا، اس نے بڑی توجہ سے بچی کی باتیں سنیں اور اس کی مدد کا وعدہ کر لیا، اس نے وکیل سے کہ کر کیس کی دوبارہ سماعت کے لئے اپیل کروائی ـ چنانچہ کچھ ضروری کارروائی کے بعد کیس کی دوبارہ سے سماعت شروع کی گئی ـ
دورانِ سماعت کچھ مزید شواہد کا مشاہدہ کرنے کے بعد کیس بہت کمزور ہوگیا اور آخری سماعت پر جج نے غلام حسین کی بندوق کو اچانک اٹھا کر اسے تھماتے ہوئے کہا کہ غلام حسین اس بندوق سے تم کیسے نشانہ لگاتے ہو ذرا اسے تھام کر تو دکھاؤ ـ غلام حسین نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے بندوق کو نشانہ لگانے والے انداز سے تھام کر دکھایا ـ پھر جج صاحب نے وہی بندوق منوہر لال کی طرف بڑھائی اور کہا کہ تم بھی بتاؤ کہ بندوق سے کیسے نشانہ لیا جاتا ہے؟ ـ منوہر لال نے فوراً بندوق کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر سیدھا کر کے دکھایا ـ یہ دیکھ کر جج صاحب نے بھری عدالت کے سامنے کہا کہ آپ سب نے دیکھ لیا کہ غلام حسین کے ہاتھوں میں اب اتنی سکت بھی نہیں ہے کہ وہ بندوق کو سیدھا کر کے تھام سکے، ایسی حالت میں کوئی ڈاکہ کیسے ڈال سکتا ہے اور کسی کو قتل کیسے کرسکتا ہے؟ ـ جب کہ آپ نے دیکھ لیا کہ منوہر لال نے کس چابکدستی اور مہارت کے ساتھ بندوق کو پکڑا اور نشانہ باندھا ـ لہٰذا صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قتل و ڈکیتی کی اس واردات میں غلام حسین ہرگز ملوّث نہیں ہے، اس لئے غلام حسین کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور اصل مجرم منوہر لال کو سزائے موت اور اس کے ساتھیوں کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ـ
غلام حسین اس کے بعد تقریباﹰ دس گیارہ سال مزید زندہ رہا، اس دوران اس نے اپنی بیٹی " شریفن " کی شادی کردی، شریفن شادی کے بعد اپنے شوہر کے پاس " شملہ " چلی گئی، جہاں پر اس کا شوہر ریلوے میں ملازم تھا ـ پاکستان آنے کے بعد شوہر انتقال کرگیا، پھر دوسرا نکاح ٹنڈوآدم میں " فتح محمد " سے ہوا تھا، دیگر بچیوں کی بھی شادیاں کردی گئیں ـ
بڑے بیٹے "نوازعلی" ( جوکہ وزن اٹھانے کے ایک مظاہرے کے دوران تکلیف ہونے کے باعث انتقال کرگیا تھا) کی بیوہ کا نکاح اپنے بیٹے "محمد شریف " سے کروا دیا، جس کی عمر تقرباً اٹھارہ سال تھی ـ
غلام حسین ( بھیڈا) نے کم و بیش اسی ( 80 ) سال کی عمر میں انتقال کیا ـ اس کے انتقال کے دو تین سال بعد ملک تقسیم ہوا تو یہ تمام خاندان ہجرت کرکے براستہ " اٹاری ریلوے اسٹیشن " پاکستان کے شہر لاہور " والٹن کیمپ " پہنچے، جن تکالیف اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے یہ خاندان پاکستان پہنچا یہ الگ سے ایک دردناک داستان ہے ـ ہجرت کے وقت بڑے بیٹے " محمد شریف " کی عمر اکیس بائیس سال کے قریب تھی ، جبکہ چھوٹا بیٹا " شیر محمد " تیرہ چودہ سال کا تھا، شیر محمد دنیاداری سے دور ، فقیرمنش، درویش صفت انسان تھا ـ والٹن کیمپ سے حکومت نے انہیں سندھ بھجوادیا، جہاں پر انہوں نے محراب پور میں سکونت اختیار کی ـ پانچ چھ سال بعد شیر محمد اور محمد شریف نے پنوعاقل سندھ میں ایک ہی گھر میں دو بہنوں سے شادیاں کیں ، یہ محمد شریف کی دوسری شادی تھی ـ
محمد شریف کو پاکستان آنے کے بعد پہلی بیوی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، دوسری سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، جب کہ شیرمحمد کو تین بیٹیاں اور چار بیٹے پیدا ہوئے، جن میں سے دو بیٹے بچپن میں ہی انتقال کر گئے، اور دو بیٹے جن میں سے بڑا بیٹا غلام محمد وامِق ( راقم الحروف ) اور چھوٹا بیٹا ڈاکٹر محمد شفیع طور، ماشاءاللہ حیات ہیں ( الحمدللہ ربّ العالمین) ـ
شیرمحمد طور کا انتقال مورخہ 27 مئی 1986ء، مطابق 17 رمضان المبارک 1406ھجری، بروز منگل تقریباﹰ 52 سال کی عمر میں ہوا، ـ اور اس کے بڑے بھائی محمد شریف طور کا انتقال مورخہ 15 مارچ 2005ء، مطابق 4 صفر 1426ھجری بروز منگل، تقریباﹰ 80 ـ 79 سال کی عمر میں ہوا ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وضاحت = یہ داستان " غلام حسین عرف بھیڈا " کے بڑے فرزند محمد شریف طور نے بارہا اہلِ خانہ کے سامنے سنائی، اور برادرِ خورد ڈاکٹر محمد شفیع طور نے اس کی تصدیق کی، جب کہ راقم الحروف غلام محمد وامِق نے اسے داستان کی شکل میں ترتیب دیا اور قلمبند کیا ـ
یہ تحریر، آج سات ( 7 ) نومبر سال 2022 ء بروز سوموار کو پایۂ تکمیل کو پہنچی ـ
غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ