دُنیا بھر کے شعراء کی عالمی ڈکشنری شایع ہو گئی ہے ، جس میں الحمدللہ میرا نام بھی شامل ہے صفحہ نمبر -181 کا عکس ـ یہ ڈکشنری بھارت کے شہر دربھنگہ سے محترم مشتاق احمد دربھنگوی صاحب Mushtaque Darbhangvi نے شایع کی ہے ۔

دُنیا بھر کے شعراء کی عالمی ڈکشنری شایع ہو گئی ہے ، جس میں الحمدللہ میرا نام بھی شامل ہے صفحہ نمبر -181 کا عکس ـ یہ ڈکشنری بھارت کے شہر دربھنگہ سے محترم مشتاق احمد دربھنگوی صاحب Mushtaque Darbhangvi نے شایع کی ہے ۔

 دُنیا بھر کے شعراء کی عالمی ڈکشنری شایع ہو گئی ہے ، جس میں الحمدللہ میرا نام بھی شامل ہے صفحہ نمبر -181 کا عکس ـ یہ ڈکشنری بھارت کے شہر دربھنگہ سے محترم مشتاق احمد دربھنگوی صاحب Mushtaque Darbhangvi نے شایع کی ہے ۔


دشمنوں کی دشمنی نے مجھ پہ احساں کر دیا ۔  جو سفر مشکل تھا مجھ پر وہ بھی آساں کر دیا ۔   یوں تو تھا، میں دشمنوں کے واسطے آساں ہَدَف ۔ پر خدا نے اُن کو ہی دست و گریباں کر دیا ۔   مسکرا کر دیکھتا ہے وہ مسلسل اب ہمیں ۔  دُشمنِ جاں نے ہمیں دیکھو پریشاں کر دیا ۔   جلد ہی ہوگا تمہارا بھی مکافاتِ عمل ۔  گو کہ تم نے ہم کو اب قیدیء زنداں کر دیا ۔  مسکرا کر ہم جو آئے جانبِ دار و رَسَن ۔  اِس عمل نے دیکھیے قاتل پریشاں کر دیا   ہم نہیں پیچھے ہٹے اپنے عزائم سے مگر ۔  اُن کو آزادی کے نعرے نے حراساں کر دیا ۔   یہ ہمارے خوابِ آزادی بہت انمول ہیں ۔  تم نے اپنے زعم میں خوابوں کو ارزاں کر دیا ۔   وقت ہے وامِق ہمارے سارے دردوں کا علاج ۔  رات دن کے اِس تغیّر نے تو حیراں کر دیا ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن ۔  بحر - رمل مثمن محذوف ۔  شاعر - غلام محمد وامِق ۔  مورخہ 06 ستمبر 2025ء مطابق 12 ربیع الاوّل 1447ھ بروز ہفتہ کہی گئی غزل ۔

دشمنوں کی دشمنی نے مجھ پہ احساں کر دیا ۔ جو سفر مشکل تھا مجھ پر وہ بھی آساں کر دیا ۔ یوں تو تھا، میں دشمنوں کے واسطے آساں ہَدَف ۔ پر خدا نے اُن کو ہی دست و گریباں کر دیا ۔ مسکرا کر دیکھتا ہے وہ مسلسل اب ہمیں ۔ دُشمنِ جاں نے ہمیں دیکھو پریشاں کر دیا ۔ جلد ہی ہوگا تمہارا بھی مکافاتِ عمل ۔ گو کہ تم نے ہم کو اب قیدیء زنداں کر دیا ۔ مسکرا کر ہم جو آئے جانبِ دار و رَسَن ۔ اِس عمل نے دیکھیے قاتل پریشاں کر دیا ہم نہیں پیچھے ہٹے اپنے عزائم سے مگر ۔ اُن کو آزادی کے نعرے نے حراساں کر دیا ۔ یہ ہمارے خوابِ آزادی بہت انمول ہیں ۔ تم نے اپنے زعم میں خوابوں کو ارزاں کر دیا ۔ وقت ہے وامِق ہمارے سارے دردوں کا علاج ۔ رات دن کے اِس تغیّر نے تو حیراں کر دیا ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن ۔ بحر - رمل مثمن محذوف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 06 ستمبر 2025ء مطابق 12 ربیع الاوّل 1447ھ بروز ہفتہ کہی گئی غزل ۔

 غزل 

         غلام محمد وامِق 


دشمنوں کی دشمنی نے مجھ پہ احساں کر دیا ۔ 

جو سفر مشکل تھا مجھ پر وہ بھی آساں کر دیا ۔ 


یوں تو تھا، میں دشمنوں کے واسطے آساں ہَدَف ۔

پر خدا نے اُن کو ہی دست و گریباں کر دیا ۔ 


مسکرا کر دیکھتا ہے وہ مسلسل اب ہمیں ۔ 

دُشمنِ جاں نے ہمیں دیکھو پریشاں کر دیا ۔ 


جلد ہی ہوگا تمہارا بھی مکافاتِ عمل ۔ 

گو کہ تم نے ہم کو اب قیدیء زنداں کر دیا ۔


مسکرا کر ہم جو آئے جانبِ دار و رَسَن ۔ 

اِس عمل نے دیکھیے قاتل پریشاں کر دیا 


ہم نہیں پیچھے ہٹے اپنے عزائم سے مگر ۔ 

اُن کو آزادی کے نعرے نے حراساں کر دیا ۔ 


یہ ہمارے خوابِ آزادی بہت انمول ہیں ۔ 

تم نے اپنے زعم میں خوابوں کو ارزاں کر دیا ۔ 


وقت ہے وامِق ہمارے سارے دردوں کا علاج ۔ 

رات دن کے اِس تغیّر نے تو حیراں کر دیا ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن ۔ 

بحر - رمل مثمن محذوف ۔ 

شاعر - غلام محمد وامِق ۔ 

مورخہ 06 ستمبر 2025ء مطابق 12 ربیع الاوّل 1447ھ بروز ہفتہ کہی گئی غزل ۔


مدینہ  شاعر - غلام محمد وامِق   حَسیں منظر حَسیں گُنبد ضیا دیکھو مدینے کی ۔   چلے آؤ مسَلمانو فضا دیکھو مدینے کی ۔   بَرَستی ہے یہاں رحمت شریف النفس ہیں سارے ۔   سُکونِ دل سُکونِ جاں حیا دیکھو مدینے کی ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــــ  مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔  بحر - ہَزج مثمن سالم ۔ مورخہ 03 اگست 2016ء کو کہے گئے اشعار ۔

مدینہ شاعر - غلام محمد وامِق حَسیں منظر حَسیں گُنبد ضیا دیکھو مدینے کی ۔ چلے آؤ مسَلمانو فضا دیکھو مدینے کی ۔ بَرَستی ہے یہاں رحمت شریف النفس ہیں سارے ۔ سُکونِ دل سُکونِ جاں حیا دیکھو مدینے کی ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔ بحر - ہَزج مثمن سالم ۔ مورخہ 03 اگست 2016ء کو کہے گئے اشعار ۔

 مدینہ 

شاعر - غلام محمد وامِق 


حَسیں منظر حَسیں گُنبد ضیا دیکھو مدینے کی ۔ 


چلے آؤ مسَلمانو فضا دیکھو مدینے کی ۔ 


بَرَستی ہے یہاں رحمت شریف النفس ہیں سارے ۔ 


سُکونِ دل سُکونِ جاں حیا دیکھو مدینے کی ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــ 

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔ 

بحر - ہَزج مثمن سالم ۔

مورخہ 03 اگست 2016ء کو کہے گئے اشعار ۔


اُن سنہری دنوں کی یادگار غزل جب خطوط لکھے جاتے تھے ، پڑھے جاتے تھے اور خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا ۔               غزل                                           غلام محمد وامِق   آج بھی ہوں منتظر اے کاش اُن کا آئے خط ۔  کچھ تو لکھیں وہ مجھے نفرت بھرا ہو چاہے خط ۔   اُن کی جانب سے کبھی ملتا نہیں خط کا جواب ۔  دل تو پاگل ہے مرا یہ بارہا لکھوائے خط ۔   انتظارِ حشر ہے یا تیرے خط کا انتظار ۔  روز راہیں دیکھتا ہوں کاش تیرا آئے خط ۔   کِس لیے ہوں منتظر اب کون لکھے گا مجھے ۔  جب مرا کوئی نہیں تو پھر کہاں سے آئے خط ۔   لِکھ رہا ہوں اِس تصوّر سے میں اُس کو بار بار ۔  کِس ادا سے پھاڑ ڈالے گا وہ ظالم ہائے خط ۔   چاک کرنا میرے خط کو اُس کی عادت ہے تو کیا ۔  لَمس میرے ہاتھ کا اُس ہاتھ تک پہنچائے خط ۔   کب سے ہم خط کے لیے خط آنے کے تھے منتظر ۔  ہے عجب یہ کھیل خط کا خط جو آیا آئے خط ۔   لکھ رہے ہو تم خطوں میں محفلوں کی داستاں ۔  اِس جگہ تنہائیوں میں دل مرا تڑپائے خط ۔   کیا ہوا جو فاصلے ہیں تیرے میرے درمیاں ۔  نِصف وصلِ یار کی لذت ہمیں پہنچائے خط ۔   تیرے خط سے ہوتی ہے تسکین میرے شوق کو ۔  اِضطرابِ ہجر میں یہ دل مرا بہلائے خط ۔   یہ ستم بھی ہے عجب ہم کو مِلا ایسا رقیب ۔  جب بھی خط لکھوائے اُن کو ہم سے ہی لکھوائے خط ۔   ہے اندھیری رات میں روشن لکیرِ کہکشاں ۔  کالی زلفوں میں عجب سی روشنی پھیلائے خط ۔   کِس قیامت کی گھڑی لکھا تھا وامِق تونے خط ۔  اُس کے کوچے میں ہے اب تک حشر برپا ہائے خط ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن   بحر - رمل مثمن محذوف ۔  شاعر - غلام محمد وامِق  فروری 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔

اُن سنہری دنوں کی یادگار غزل جب خطوط لکھے جاتے تھے ، پڑھے جاتے تھے اور خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا ۔ غزل غلام محمد وامِق آج بھی ہوں منتظر اے کاش اُن کا آئے خط ۔ کچھ تو لکھیں وہ مجھے نفرت بھرا ہو چاہے خط ۔ اُن کی جانب سے کبھی ملتا نہیں خط کا جواب ۔ دل تو پاگل ہے مرا یہ بارہا لکھوائے خط ۔ انتظارِ حشر ہے یا تیرے خط کا انتظار ۔ روز راہیں دیکھتا ہوں کاش تیرا آئے خط ۔ کِس لیے ہوں منتظر اب کون لکھے گا مجھے ۔ جب مرا کوئی نہیں تو پھر کہاں سے آئے خط ۔ لِکھ رہا ہوں اِس تصوّر سے میں اُس کو بار بار ۔ کِس ادا سے پھاڑ ڈالے گا وہ ظالم ہائے خط ۔ چاک کرنا میرے خط کو اُس کی عادت ہے تو کیا ۔ لَمس میرے ہاتھ کا اُس ہاتھ تک پہنچائے خط ۔ کب سے ہم خط کے لیے خط آنے کے تھے منتظر ۔ ہے عجب یہ کھیل خط کا خط جو آیا آئے خط ۔ لکھ رہے ہو تم خطوں میں محفلوں کی داستاں ۔ اِس جگہ تنہائیوں میں دل مرا تڑپائے خط ۔ کیا ہوا جو فاصلے ہیں تیرے میرے درمیاں ۔ نِصف وصلِ یار کی لذت ہمیں پہنچائے خط ۔ تیرے خط سے ہوتی ہے تسکین میرے شوق کو ۔ اِضطرابِ ہجر میں یہ دل مرا بہلائے خط ۔ یہ ستم بھی ہے عجب ہم کو مِلا ایسا رقیب ۔ جب بھی خط لکھوائے اُن کو ہم سے ہی لکھوائے خط ۔ ہے اندھیری رات میں روشن لکیرِ کہکشاں ۔ کالی زلفوں میں عجب سی روشنی پھیلائے خط ۔ کِس قیامت کی گھڑی لکھا تھا وامِق تونے خط ۔ اُس کے کوچے میں ہے اب تک حشر برپا ہائے خط ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن بحر - رمل مثمن محذوف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق فروری 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔

 اُن سنہری دنوں کی یادگار غزل جب خطوط لکھے جاتے تھے ، پڑھے جاتے تھے اور خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا ۔ 

             غزل                                           غلام محمد وامِق 


آج بھی ہوں منتظر اے کاش اُن کا آئے خط ۔ 

کچھ تو لکھیں وہ مجھے نفرت بھرا ہو چاہے خط ۔ 


اُن کی جانب سے کبھی ملتا نہیں خط کا جواب ۔ 

دل تو پاگل ہے مرا یہ بارہا لکھوائے خط ۔ 


انتظارِ حشر ہے یا تیرے خط کا انتظار ۔ 

روز راہیں دیکھتا ہوں کاش تیرا آئے خط ۔ 


کِس لیے ہوں منتظر اب کون لکھے گا مجھے ۔ 

جب مرا کوئی نہیں تو پھر کہاں سے آئے خط ۔ 


لِکھ رہا ہوں اِس تصوّر سے میں اُس کو بار بار ۔ 

کِس ادا سے پھاڑ ڈالے گا وہ ظالم ہائے خط ۔ 


چاک کرنا میرے خط کو اُس کی عادت ہے تو کیا ۔ 

لَمس میرے ہاتھ کا اُس ہاتھ تک پہنچائے خط ۔ 


کب سے ہم خط کے لیے خط آنے کے تھے منتظر ۔ 

ہے عجب یہ کھیل خط کا خط جو آیا آئے خط ۔ 


لکھ رہے ہو تم خطوں میں محفلوں کی داستاں ۔ 

اِس جگہ تنہائیوں میں دل مرا تڑپائے خط ۔ 


کیا ہوا جو فاصلے ہیں تیرے میرے درمیاں ۔ 

نِصف وصلِ یار کی لذت ہمیں پہنچائے خط ۔ 


تیرے خط سے ہوتی ہے تسکین میرے شوق کو ۔ 

اِضطرابِ ہجر میں یہ دل مرا بہلائے خط ۔ 


یہ ستم بھی ہے عجب ہم کو مِلا ایسا رقیب ۔ 

جب بھی خط لکھوائے اُن کو ہم سے ہی لکھوائے خط ۔ 


ہے اندھیری رات میں روشن لکیرِ کہکشاں ۔ 

کالی زلفوں میں عجب سی روشنی پھیلائے خط ۔ 


کِس قیامت کی گھڑی لکھا تھا وامِق تونے خط ۔ 

اُس کے کوچے میں ہے اب تک حشر برپا ہائے خط ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن  

بحر - رمل مثمن محذوف ۔ 

شاعر - غلام محمد وامِق 

فروری 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔


Powered by Blogger.