دشمنوں کی دشمنی نے مجھ پہ احساں کر دیا ۔ جو سفر مشکل تھا مجھ پر وہ بھی آساں کر دیا ۔ یوں تو تھا، میں دشمنوں کے واسطے آساں ہَدَف ۔ پر خدا نے اُن کو ہی دست و گریباں کر دیا ۔ مسکرا کر دیکھتا ہے وہ مسلسل اب ہمیں ۔ دُشمنِ جاں نے ہمیں دیکھو پریشاں کر دیا ۔ جلد ہی ہوگا تمہارا بھی مکافاتِ عمل ۔ گو کہ تم نے ہم کو اب قیدیء زنداں کر دیا ۔ مسکرا کر ہم جو آئے جانبِ دار و رَسَن ۔ اِس عمل نے دیکھیے قاتل پریشاں کر دیا ہم نہیں پیچھے ہٹے اپنے عزائم سے مگر ۔ اُن کو آزادی کے نعرے نے حراساں کر دیا ۔ یہ ہمارے خوابِ آزادی بہت انمول ہیں ۔ تم نے اپنے زعم میں خوابوں کو ارزاں کر دیا ۔ وقت ہے وامِق ہمارے سارے دردوں کا علاج ۔ رات دن کے اِس تغیّر نے تو حیراں کر دیا ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن ۔ بحر - رمل مثمن محذوف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 06 ستمبر 2025ء مطابق 12 ربیع الاوّل 1447ھ بروز ہفتہ کہی گئی غزل ۔
غزل
غلام محمد وامِق
دشمنوں کی دشمنی نے مجھ پہ احساں کر دیا ۔
جو سفر مشکل تھا مجھ پر وہ بھی آساں کر دیا ۔
یوں تو تھا، میں دشمنوں کے واسطے آساں ہَدَف ۔
پر خدا نے اُن کو ہی دست و گریباں کر دیا ۔
مسکرا کر دیکھتا ہے وہ مسلسل اب ہمیں ۔
دُشمنِ جاں نے ہمیں دیکھو پریشاں کر دیا ۔
جلد ہی ہوگا تمہارا بھی مکافاتِ عمل ۔
گو کہ تم نے ہم کو اب قیدیء زنداں کر دیا ۔
مسکرا کر ہم جو آئے جانبِ دار و رَسَن ۔
اِس عمل نے دیکھیے قاتل پریشاں کر دیا
ہم نہیں پیچھے ہٹے اپنے عزائم سے مگر ۔
اُن کو آزادی کے نعرے نے حراساں کر دیا ۔
یہ ہمارے خوابِ آزادی بہت انمول ہیں ۔
تم نے اپنے زعم میں خوابوں کو ارزاں کر دیا ۔
وقت ہے وامِق ہمارے سارے دردوں کا علاج ۔
رات دن کے اِس تغیّر نے تو حیراں کر دیا ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن ۔
بحر - رمل مثمن محذوف ۔
شاعر - غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 06 ستمبر 2025ء مطابق 12 ربیع الاوّل 1447ھ بروز ہفتہ کہی گئی غزل ۔
مدینہ شاعر - غلام محمد وامِق حَسیں منظر حَسیں گُنبد ضیا دیکھو مدینے کی ۔ چلے آؤ مسَلمانو فضا دیکھو مدینے کی ۔ بَرَستی ہے یہاں رحمت شریف النفس ہیں سارے ۔ سُکونِ دل سُکونِ جاں حیا دیکھو مدینے کی ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔ بحر - ہَزج مثمن سالم ۔ مورخہ 03 اگست 2016ء کو کہے گئے اشعار ۔
مدینہ
شاعر - غلام محمد وامِق
حَسیں منظر حَسیں گُنبد ضیا دیکھو مدینے کی ۔
چلے آؤ مسَلمانو فضا دیکھو مدینے کی ۔
بَرَستی ہے یہاں رحمت شریف النفس ہیں سارے ۔
سُکونِ دل سُکونِ جاں حیا دیکھو مدینے کی ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔
بحر - ہَزج مثمن سالم ۔
مورخہ 03 اگست 2016ء کو کہے گئے اشعار ۔
اُن سنہری دنوں کی یادگار غزل جب خطوط لکھے جاتے تھے ، پڑھے جاتے تھے اور خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا ۔ غزل غلام محمد وامِق آج بھی ہوں منتظر اے کاش اُن کا آئے خط ۔ کچھ تو لکھیں وہ مجھے نفرت بھرا ہو چاہے خط ۔ اُن کی جانب سے کبھی ملتا نہیں خط کا جواب ۔ دل تو پاگل ہے مرا یہ بارہا لکھوائے خط ۔ انتظارِ حشر ہے یا تیرے خط کا انتظار ۔ روز راہیں دیکھتا ہوں کاش تیرا آئے خط ۔ کِس لیے ہوں منتظر اب کون لکھے گا مجھے ۔ جب مرا کوئی نہیں تو پھر کہاں سے آئے خط ۔ لِکھ رہا ہوں اِس تصوّر سے میں اُس کو بار بار ۔ کِس ادا سے پھاڑ ڈالے گا وہ ظالم ہائے خط ۔ چاک کرنا میرے خط کو اُس کی عادت ہے تو کیا ۔ لَمس میرے ہاتھ کا اُس ہاتھ تک پہنچائے خط ۔ کب سے ہم خط کے لیے خط آنے کے تھے منتظر ۔ ہے عجب یہ کھیل خط کا خط جو آیا آئے خط ۔ لکھ رہے ہو تم خطوں میں محفلوں کی داستاں ۔ اِس جگہ تنہائیوں میں دل مرا تڑپائے خط ۔ کیا ہوا جو فاصلے ہیں تیرے میرے درمیاں ۔ نِصف وصلِ یار کی لذت ہمیں پہنچائے خط ۔ تیرے خط سے ہوتی ہے تسکین میرے شوق کو ۔ اِضطرابِ ہجر میں یہ دل مرا بہلائے خط ۔ یہ ستم بھی ہے عجب ہم کو مِلا ایسا رقیب ۔ جب بھی خط لکھوائے اُن کو ہم سے ہی لکھوائے خط ۔ ہے اندھیری رات میں روشن لکیرِ کہکشاں ۔ کالی زلفوں میں عجب سی روشنی پھیلائے خط ۔ کِس قیامت کی گھڑی لکھا تھا وامِق تونے خط ۔ اُس کے کوچے میں ہے اب تک حشر برپا ہائے خط ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن بحر - رمل مثمن محذوف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق فروری 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔
اُن سنہری دنوں کی یادگار غزل جب خطوط لکھے جاتے تھے ، پڑھے جاتے تھے اور خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا ۔
غزل غلام محمد وامِق
آج بھی ہوں منتظر اے کاش اُن کا آئے خط ۔
کچھ تو لکھیں وہ مجھے نفرت بھرا ہو چاہے خط ۔
اُن کی جانب سے کبھی ملتا نہیں خط کا جواب ۔
دل تو پاگل ہے مرا یہ بارہا لکھوائے خط ۔
انتظارِ حشر ہے یا تیرے خط کا انتظار ۔
روز راہیں دیکھتا ہوں کاش تیرا آئے خط ۔
کِس لیے ہوں منتظر اب کون لکھے گا مجھے ۔
جب مرا کوئی نہیں تو پھر کہاں سے آئے خط ۔
لِکھ رہا ہوں اِس تصوّر سے میں اُس کو بار بار ۔
کِس ادا سے پھاڑ ڈالے گا وہ ظالم ہائے خط ۔
چاک کرنا میرے خط کو اُس کی عادت ہے تو کیا ۔
لَمس میرے ہاتھ کا اُس ہاتھ تک پہنچائے خط ۔
کب سے ہم خط کے لیے خط آنے کے تھے منتظر ۔
ہے عجب یہ کھیل خط کا خط جو آیا آئے خط ۔
لکھ رہے ہو تم خطوں میں محفلوں کی داستاں ۔
اِس جگہ تنہائیوں میں دل مرا تڑپائے خط ۔
کیا ہوا جو فاصلے ہیں تیرے میرے درمیاں ۔
نِصف وصلِ یار کی لذت ہمیں پہنچائے خط ۔
تیرے خط سے ہوتی ہے تسکین میرے شوق کو ۔
اِضطرابِ ہجر میں یہ دل مرا بہلائے خط ۔
یہ ستم بھی ہے عجب ہم کو مِلا ایسا رقیب ۔
جب بھی خط لکھوائے اُن کو ہم سے ہی لکھوائے خط ۔
ہے اندھیری رات میں روشن لکیرِ کہکشاں ۔
کالی زلفوں میں عجب سی روشنی پھیلائے خط ۔
کِس قیامت کی گھڑی لکھا تھا وامِق تونے خط ۔
اُس کے کوچے میں ہے اب تک حشر برپا ہائے خط ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
بحر - رمل مثمن محذوف ۔
شاعر - غلام محمد وامِق
فروری 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔