ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس کام کے لئے ہے؟ ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ کم و بیش چالیس سال قبل ٹاؤن کمیٹی محراب پور کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی تھے، اس زمانے میں ٹاؤن کی ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی، جس میں ہم بھی موجود تھے، اس میں بتایا گیا تھا کہ پورے سندھ میں محراب پور واحد ٹاؤن کمیٹی ہے جو مقروض نہیں ہے اور سب سے زیادہ خوشحال ہے ـ اس زمانے میں مغل عبدالغفور ساجد بھی شہر کے چیئرمین رہے، الحمدللہ ان دونوں شخصیات سے ہمارے قریبی روابط رہے ہیں ـہمارے بچپن میں جب شہر میں بجلی نہیں آئی تھی، تب ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے شہر کے مختلف چوراہوں پر لالٹینیں نصب کی گئی تھیں، ان میں روزانہ شام کے وقت مٹی کا تیل ڈال کر انہیں روشن کیا جاتا تھا ـدن میں تین بار صبح دوپہر شام سڑکوں اور بازاروں میں ٹاؤن کی طرف سے ماشکی پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے ـ روزانہ گلیوں اور سڑکوں کی باقائدہ صفائی کی جاتی تھی، پانی کی نکاسی کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا، اور ان امور کی نگرانی خود چیئرمین کرتے تھے، وہ ہر دوسرے تیسرے روز شہر کا دورہ کرتے تھے، مغل عبدالغفور ساجد تو درویش صفت چیئرمین تھا، وہ روزانہ نالیوں کی صفائی کے وقت خاکروبوں کے ساتھ کھڑے ہوکر صفائی کرواتا تھا، اسی نے شہر میں پہلی بار ڈرینج سسٹم بنوایا، جوکہ اب ناکارہ ہوکر ختم ہو چکا ہے ـاُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی سڑکیں بنواتی، گلیاں پکی کرواتی، شہر سے کچرا اٹھایا جاتا اور لوگوں کے پینے کے لئے صاف پانی کا انتظام کیا جاتا، نئے نلکے لگوائے جاتے، اور شہر بھر میں بڑے بڑے کنووں کا انتظام بھی کیا گیا تھا ـاُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کو صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی تھی بلکہ آمدنی کا دارومدار ناکوں پر ہوتا تھا، یہ ناکے شہر میں داخلے کے تمام راستوں پر بنائے گئے تھے، لہٰذا شہر میں جو بھی مال یا سامان لایا جاتا تو اس پر ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور یہ ہی شہر کی اصل آمدنی کا ذریعہ ہوتا تھا ـ ٹاؤن کمیٹی کا مختصر سا عملہ ہوتا تھا، جنہیں شہر کا ہر فرد جانتا تھا، شہر کا سارا ستھرائی صفائی کا کام. اسی مختصر سے عملے کے ذریعے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا جاتا تھا ـاس زمانے میں خاکروب بڑی تندہی اور جانفشانی سے اپنا کام کرتے تھے، یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے لئے ایک محاورہ استمال کیا جاتا تھا کہ " یہ ہی لوگ حلال خور ہیں، یعنی اصل حلال کمائی یہ خاکروب ہی کماتے ہیں " ـ لیکن اب ہر چیز الٹ ہوگئی ہے، حلال خور بھی حرام خور بن گئے ہیں ـاب ٹاؤن کمیٹی کے ناکے ختم کردئے گئے لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے ٹاؤن کو کروڑوں روپئے کے فنڈ ( امداد) ملتے ہیں، اس کے باوجود شہر ویران کردیا گیا ہے، شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے ـاگر کہیں پر کچرا پڑا ہے تو اسے عوام خود اپنے خرچے پر اٹھواتے ہیں ـ نالیوں کی اور گلیوں کی صفائی بھی محلے والے یا بازار والے اپنا خرچہ کرکے کرواتے ہیں ـاب حلال خور ( خاکروب) بھی کسی منسٹر کی طرح بات کرتے ہیں اور اپنا کام تنخواہ پر نہیں بلکہ اضافی معاوضے پر انجام دیتے ہیں ـ اب ٹاؤن کے بیشمار ملازمین ہیں لیکن سڑکوں پر کام کرتے ہوئے کوئی نظر نہیں آتا ـحالیہ تباہ کن بارشوں کے دوران اور بعد میں بھی ٹاؤن کمیٹی کے کسی ملازم نے کوئی کام نہیں کیا ـ سڑکوں کی گلیوں کی اور بازاروں کی صفائی کا کام اور گندے پانی کی نکاسی کا سارا کام شہر کے لوگوں نے خود کیا ہے، یا پھر شہر کی چند فلاحی تنظیموں اور سماجی ورکروں نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر سے پانی کو نکالا ہے، اور کچرا خود اٹھوایا ہے، یہاں تک کہ بازار والوں نے بازار کی سڑکیں بھی دوبارہ سے خود اپنا خرچہ کر کے بنوائی ہیں، اور بنوا رہے ہیں ـتو ایسے میں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ " ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس مقصد کے لئے ہے؟ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـمورخہ 29، ستمبر 2022ء بروز جمعرات ـ
ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس کام کے لئے ہے؟ ـ
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
کم و بیش چالیس سال قبل ٹاؤن کمیٹی محراب پور کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی تھے، اس زمانے میں ٹاؤن کی ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی، جس میں ہم بھی موجود تھے، اس میں بتایا گیا تھا کہ پورے سندھ میں محراب پور واحد ٹاؤن کمیٹی ہے جو مقروض نہیں ہے اور سب سے زیادہ خوشحال ہے ـ
اس زمانے میں مغل عبدالغفور ساجد بھی شہر کے چیئرمین رہے، الحمدللہ ان دونوں شخصیات سے ہمارے قریبی روابط رہے ہیں ـ
ہمارے بچپن میں جب شہر میں بجلی نہیں آئی تھی، تب ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے شہر کے مختلف چوراہوں پر لالٹینیں نصب کی گئی تھیں، ان میں روزانہ شام کے وقت مٹی کا تیل ڈال کر انہیں روشن کیا جاتا تھا ـ
دن میں تین بار صبح دوپہر شام سڑکوں اور بازاروں میں ٹاؤن کی طرف سے ماشکی پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے ـ روزانہ گلیوں اور سڑکوں کی باقائدہ صفائی کی جاتی تھی، پانی کی نکاسی کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا، اور ان امور کی نگرانی خود چیئرمین کرتے تھے، وہ ہر دوسرے تیسرے روز شہر کا دورہ کرتے تھے، مغل عبدالغفور ساجد تو درویش صفت چیئرمین تھا، وہ روزانہ نالیوں کی صفائی کے وقت خاکروبوں کے ساتھ کھڑے ہوکر صفائی کرواتا تھا، اسی نے شہر میں پہلی بار ڈرینج سسٹم بنوایا، جوکہ اب ناکارہ ہوکر ختم ہو چکا ہے ـ
اُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی سڑکیں بنواتی، گلیاں پکی کرواتی، شہر سے کچرا اٹھایا جاتا اور لوگوں کے پینے کے لئے صاف پانی کا انتظام کیا جاتا، نئے نلکے لگوائے جاتے، اور شہر بھر میں بڑے بڑے کنووں کا انتظام بھی کیا گیا تھا ـ
اُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کو صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی تھی بلکہ آمدنی کا دارومدار ناکوں پر ہوتا تھا، یہ ناکے شہر میں داخلے کے تمام راستوں پر بنائے گئے تھے، لہٰذا شہر میں جو بھی مال یا سامان لایا جاتا تو اس پر ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور یہ ہی شہر کی اصل آمدنی کا ذریعہ ہوتا تھا ـ ٹاؤن کمیٹی کا مختصر سا عملہ ہوتا تھا، جنہیں شہر کا ہر فرد جانتا تھا، شہر کا سارا ستھرائی صفائی کا کام. اسی مختصر سے عملے کے ذریعے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا جاتا تھا ـ
اس زمانے میں خاکروب بڑی تندہی اور جانفشانی سے اپنا کام کرتے تھے، یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے لئے ایک محاورہ استمال کیا جاتا تھا کہ " یہ ہی لوگ حلال خور ہیں، یعنی اصل حلال کمائی یہ خاکروب ہی کماتے ہیں " ـ لیکن اب ہر چیز الٹ ہوگئی ہے، حلال خور بھی حرام خور بن گئے ہیں ـ
اب ٹاؤن کمیٹی کے ناکے ختم کردئے گئے لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے ٹاؤن کو کروڑوں روپئے کے فنڈ ( امداد) ملتے ہیں، اس کے باوجود شہر ویران کردیا گیا ہے، شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے ـ
اگر کہیں پر کچرا پڑا ہے تو اسے عوام خود اپنے خرچے پر اٹھواتے ہیں ـ نالیوں کی اور گلیوں کی صفائی بھی محلے والے یا بازار والے اپنا خرچہ کرکے کرواتے ہیں ـ
اب حلال خور ( خاکروب) بھی کسی منسٹر کی طرح بات کرتے ہیں اور اپنا کام تنخواہ پر نہیں بلکہ اضافی معاوضے پر انجام دیتے ہیں ـ
اب ٹاؤن کے بیشمار ملازمین ہیں لیکن سڑکوں پر کام کرتے ہوئے کوئی نظر نہیں آتا ـ
حالیہ تباہ کن بارشوں کے دوران اور بعد میں بھی ٹاؤن کمیٹی کے کسی ملازم نے کوئی کام نہیں کیا ـ سڑکوں کی گلیوں کی اور بازاروں کی صفائی کا کام اور گندے پانی کی نکاسی کا سارا کام شہر کے لوگوں نے خود کیا ہے، یا پھر شہر کی چند فلاحی تنظیموں اور سماجی ورکروں نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر سے پانی کو نکالا ہے، اور کچرا خود اٹھوایا ہے، یہاں تک کہ بازار والوں نے بازار کی سڑکیں بھی دوبارہ سے خود اپنا خرچہ کر کے بنوائی ہیں، اور بنوا رہے ہیں ـ
تو ایسے میں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ " ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس مقصد کے لئے ہے؟ ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 29، ستمبر 2022ء بروز جمعرات ـ
قرآنِ کریم میں بیان کردہ لفظ " جن " کے میرے تحقیق شدہ اصل معانی اور مفہوم کی، مستند احادیث کی روشنی میں تصدیق = -- ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ. ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ.ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ میری کتاب " جنّات کی حقیقت " کی تقریبِ رونمائی 12 نومبر، سال 2016ء بروز ہفتہ " کراچی پریس کلب " کراچی میں منعقد کی گئی تھی، جدید تحقیق کے اس موضوع پر یہ دنیا بھر میں پہلی کتاب ہے ـ اس کتاب میں قرآنِ کریم میں ذکر کئے گئے لفظ " جن " کے عام مروّج روایتی معنی، آسیب، بھوت، پریت، دیو، جن، چڑیل، وغیرہ کے بجائے اس کے حقیقی معنی ہم نے دلائل کے ساتھ بیان کئے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ـ لفظ " جن " کے لغوی معنی ہیں عام طور پر نظر نہ آنے والی مخلوق ـ یعنی شیطان اور شیطان کے پیروکار افراد، اسلام دشمن جاسوس، انتہائی طاقتور سرکش لوگ، خفیہ تخریب کار، ناقابلِ یقین امور انجام دینے والے لوگ مثلاﹰ سائنسدان، اور انجنیئر وغیرہ جو تخریب کاری کے لئے اپنے امور انجام دیں ـ اور دلوں میں وسوسے پیدا کرنے والی خفیہ تنظیمیں اور ادارے، اور پُراسرار علوم کے ماہر لوگ، ان کے علاوہ جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، ریڈیائی لہریں، وغیرہ ـلفظ " جن " کے یہ مفاہیم قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اور مختلف واقعات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں ـ ایک غلط فہمی کا ازالہ = جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 130 میں فرمایا گیا ہے کہ " اے جماعتِ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے؟ ـ میری کتاب میں اس آیت کی تشریح کچھ لوگوں پر واضح نہیں ہوسکی تھی، یا شاید کچھ مبہم رہ گئی تھی، اس لئے یہاں اس کی مزید وضاحت کی جا رہی ہے ـ" عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیه السّلام، جنوں ( جنّات) کے بادشاہ تھے، میرے نظرئیے کے مطابق بھی یہ بات درست ہے، دراصل حضرت سلیمان کی اکثر رعایا سرکش اور تخریب کار افراد پر اور انجنیئرز و سائنسدانوں پر اور پُراسرار علوم کے ماہر افراد پر مشتمل تھی، وہ لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے رہتے تھے اسی لئے انہیں " جن " کہا گیا ہے ـ اور ظاہر ہے کہ جنوں کا جو حکمران ہوگا وہ بھی " جن " ہی ہوگا، جس طرح جانوروں کا بادشاہ جانور، شہد کی مکھیوں کی ملکہ مکھی، اور چیونٹیوں کی حکمران چیونٹی ہی ہوتی ہے ـ اسی طرح جنوں کا بادشاہ بھی " جن " ہی کہلائے گا، اور یہ ہی مذکورہ آیت کی تشریح بنتی ہے ـ میں نے اپنی کتاب میں ان باتوں کو واضح کرنے کے لئے عقلی، سائنسی، اور روزمرّہ کے مشاہدات و تجربات پر مبنی دلائل دئے تھے، اور قرآنِ کریم سے بھی دلائل پیش کئے تھے ـ جب کہ صحیح بخاری سے بھی چند ایک دلائل بیان کئے تھے ـ لیکن اُس وقت مجھے اس سلسلے میں واضح آحادیث نہیں مل سکی تھیں، اب حسنِ اتفاق سے الحمدللہ، مجھے چند ایسی مستند احادیث مل گئی ہیں جن سے میرے نظرئیے کی تصدیق احادیث مبارکہ کے مطابق بھی ہو رہی ہے ـ ان میں سے چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں، ملاحظہ فرمائیں ـ1. حدیث نمبر 3913، سُنن ابوداؤد = حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، " کوئی جن بھوت نہیں " ـ 2. حدیث نمبر 7757، مُسند احمد = سیدنا جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا " کوئی بیماری متعدی نہیں ہے، نہ کوئی صفر ہے اور نہ غُول " ـ اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ صفر سے مراد پیٹ ہے، جب ان سے کہا گیا کہ اس قول سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا پیٹ کے کیڑے ہیں، پھر انہوں نے غُول کی تعریف نہیں کی، البتہ ابوزبیر نے اپنی طرف سے کہا کہ غُول سے مراد وہ چیز ہے جس کو لوگ چڑیل یا جن کہتے ہیں ـ3. حدیث نمبر 5797، صحیح مسلم = ابنِ جریج نے کہا مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے جابر بن عبدالله کو کہتے سنا، میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں لگ جاتا، نہ صفر ( کی نحوست) اور نہ چھلاوا ( جن بھوت) کوئی چیز ہے ـ4. حدیث نمبر 5796، صحیح المسلم = یزید تِستری نے کہا ہمیں ابوزبیرنے، حضرت جابر رضہ سے روایت کی کہا، رسول اللہﷺ نے فرمایا کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں چمٹتا، نہ چھلاوا کوئی چیز ہے، نہ صفر کی ( نحوست) کوئی حقیقت ہے ـ5. حدیث نمبر 4580، مشکوٰۃ المصابیح = حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، کوئی بیماری متعدی ہے نہ ماہِ صفر منحوس ہے، نہ کوئی بھوت ہے ـ رواہ مسلم ـ واضح ہوکہ عربی زبان میں لفظ " غُول " کے لغوی معنی ہیں، جن بھوت، دیو، چھلاوا، چڑیل، وغیرہ، جوکہ سب خیالی نظریات ہیں ـ وماعلینا الی البلاغ المبین ـ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ـ ( آمین) ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 28 ستمبر، سال 2022ء بروز بدھ ـ
قرآنِ کریم میں بیان کردہ لفظ " جن " کے میرے تحقیق شدہ اصل معانی اور مفہوم کی، مستند احادیث کی روشنی میں تصدیق = --
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ. ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ.ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
میری کتاب " جنّات کی حقیقت " کی تقریبِ رونمائی 12 نومبر، سال 2016ء بروز ہفتہ " کراچی پریس کلب " کراچی میں منعقد کی گئی تھی، جدید تحقیق کے اس موضوع پر یہ دنیا بھر میں پہلی کتاب ہے ـ اس کتاب میں قرآنِ کریم میں ذکر کئے گئے لفظ " جن " کے عام مروّج روایتی معنی، آسیب، بھوت، پریت، دیو، جن، چڑیل، وغیرہ کے بجائے اس کے حقیقی معنی ہم نے دلائل کے ساتھ بیان کئے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ـ لفظ " جن " کے لغوی معنی ہیں عام طور پر نظر نہ آنے والی مخلوق ـ یعنی شیطان اور شیطان کے پیروکار افراد، اسلام دشمن جاسوس، انتہائی طاقتور سرکش لوگ، خفیہ تخریب کار، ناقابلِ یقین امور انجام دینے والے لوگ مثلاﹰ سائنسدان، اور انجنیئر وغیرہ جو تخریب کاری کے لئے اپنے امور انجام دیں ـ اور دلوں میں وسوسے پیدا کرنے والی خفیہ تنظیمیں اور ادارے، اور پُراسرار علوم کے ماہر لوگ، ان کے علاوہ جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، ریڈیائی لہریں، وغیرہ ـ
لفظ " جن " کے یہ مفاہیم قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اور مختلف واقعات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں ـ
ایک غلط فہمی کا ازالہ =
جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 130 میں فرمایا گیا ہے کہ " اے جماعتِ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے؟ ـ
میری کتاب میں اس آیت کی تشریح کچھ لوگوں پر واضح نہیں ہوسکی تھی، یا شاید کچھ مبہم رہ گئی تھی، اس لئے یہاں اس کی مزید وضاحت کی جا رہی ہے ـ
" عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیه السّلام، جنوں ( جنّات) کے بادشاہ تھے، میرے نظرئیے کے مطابق بھی یہ بات درست ہے، دراصل حضرت سلیمان کی اکثر رعایا سرکش اور تخریب کار افراد پر اور انجنیئرز و سائنسدانوں پر اور پُراسرار علوم کے ماہر افراد پر مشتمل تھی، وہ لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے رہتے تھے اسی لئے انہیں " جن " کہا گیا ہے ـ اور ظاہر ہے کہ جنوں کا جو حکمران ہوگا وہ بھی " جن " ہی ہوگا، جس طرح جانوروں کا بادشاہ جانور، شہد کی مکھیوں کی ملکہ مکھی، اور چیونٹیوں کی حکمران چیونٹی ہی ہوتی ہے ـ اسی طرح جنوں کا بادشاہ بھی " جن " ہی کہلائے گا، اور یہ ہی مذکورہ آیت کی تشریح بنتی ہے ـ
میں نے اپنی کتاب میں ان باتوں کو واضح کرنے کے لئے عقلی، سائنسی، اور روزمرّہ کے مشاہدات و تجربات پر مبنی دلائل دئے تھے، اور قرآنِ کریم سے بھی دلائل پیش کئے تھے ـ جب کہ صحیح بخاری سے بھی چند ایک دلائل بیان کئے تھے ـ لیکن اُس وقت مجھے اس سلسلے میں واضح آحادیث نہیں مل سکی تھیں، اب حسنِ اتفاق سے الحمدللہ، مجھے چند ایسی مستند احادیث مل گئی ہیں جن سے میرے نظرئیے کی تصدیق احادیث مبارکہ کے مطابق بھی ہو رہی ہے ـ
ان میں سے چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں، ملاحظہ فرمائیں ـ
1. حدیث نمبر 3913، سُنن ابوداؤد =
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، " کوئی جن بھوت نہیں " ـ
2. حدیث نمبر 7757، مُسند احمد =
سیدنا جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا " کوئی بیماری متعدی نہیں ہے، نہ کوئی صفر ہے اور نہ غُول " ـ اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ صفر سے مراد پیٹ ہے، جب ان سے کہا گیا کہ اس قول سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا پیٹ کے کیڑے ہیں، پھر انہوں نے غُول کی تعریف نہیں کی، البتہ ابوزبیر نے اپنی طرف سے کہا کہ غُول سے مراد وہ چیز ہے جس کو لوگ چڑیل یا جن کہتے ہیں ـ
3. حدیث نمبر 5797، صحیح مسلم =
ابنِ جریج نے کہا مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے جابر بن عبدالله کو کہتے سنا، میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں لگ جاتا، نہ صفر ( کی نحوست) اور نہ چھلاوا ( جن بھوت) کوئی چیز ہے ـ
4. حدیث نمبر 5796، صحیح المسلم =
یزید تِستری نے کہا ہمیں ابوزبیرنے، حضرت جابر رضہ سے روایت کی کہا، رسول اللہﷺ نے فرمایا کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں چمٹتا، نہ چھلاوا کوئی چیز ہے، نہ صفر کی ( نحوست) کوئی حقیقت ہے ـ
5. حدیث نمبر 4580، مشکوٰۃ المصابیح =
حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، کوئی بیماری متعدی ہے نہ ماہِ صفر منحوس ہے، نہ کوئی بھوت ہے ـ رواہ مسلم ـ
واضح ہوکہ عربی زبان میں لفظ " غُول " کے لغوی معنی ہیں، جن بھوت، دیو، چھلاوا، چڑیل، وغیرہ، جوکہ سب خیالی نظریات ہیں ـ
وماعلینا الی البلاغ المبین ـ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ـ ( آمین) ـ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 28 ستمبر، سال 2022ء بروز بدھ ـ
یادش بخیر = میری پہلی کتاب " نقشِ وفا " ( شاعری) دسمبر 2000ء میں شایع ہوئی تھی، یہ کتاب میں نے اس وقت کے ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات، نامور مصنف، شاعر اور تنقید نگار، جناب ڈاکٹر عبدالحق خاں حسرت کاسگنجوی ( مرحوم) کو بھی بھجوائی تھی، جسے پڑھ کر انہوں نے ذرہ نوازی فرمائی اور مجھے یہ جوابی خط تحریر فرمایا ـ از ـ غلام محمد وامِق ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تاریخ ـ ۱۸ جون ۲۰۰۱ ء .... جناب غلام محمد وامِق صاحب،السلام علیکم ـ آپ کی کتاب پڑھ رہا ہوں، لطف لے رہا ہوں، جس سادگی سے آپ نے دل کی کیفیت کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ پر خود بڑی چیز ہے ـ میری نظر میں بڑی شاعری وہ ہے جو دلوں کی کیفیت بدلنے کی قوت رکھتی ہو، اور اس کے لئے کسی فلسفیانہ اور نفسیاتی تحریکوں کے اظہار کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کردینا ایک نصابی شاعری کا وجود تو عمل میں لاسکتی ہے لیکن روح سنے اور روح سنائے والی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی، آپ کی شاعری یقیناّ اس اسٹیج پر نہیں ہے، لیکن جس خلوص کے ساتھ آپ آگے بڑھے اور انسانیت کے جس جذبے اور ولولے کو آپ نے عام کرنے کی سعی کی ہے وہ بڑی شاعری کے دائرے میں آنے والی چیز ہے ـ فنی طور پر کہیں کہیں انگلی رکھی جاسکتی ہے لیکن اس بات کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ یہ شاعری کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنی ہے ـ فقط والسلام .... مخلص ـ دستخط ....
یادش بخیر = میری پہلی کتاب " نقشِ وفا " ( شاعری) دسمبر 2000ء میں شایع ہوئی تھی، یہ کتاب میں نے اس وقت کے ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات، نامور مصنف، شاعر اور تنقید نگار، جناب ڈاکٹر عبدالحق خاں حسرت کاسگنجوی ( مرحوم) کو بھی بھجوائی تھی، جسے پڑھ کر انہوں نے ذرہ نوازی فرمائی اور مجھے یہ جوابی خط تحریر فرمایا ـ از ـ غلام محمد وامِق ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ ـ ۱۸ جون ۲۰۰۱ ء ....
جناب غلام محمد وامِق صاحب،
السلام علیکم ـ
آپ کی کتاب پڑھ رہا ہوں، لطف لے رہا ہوں، جس سادگی سے آپ نے دل کی کیفیت کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ پر خود بڑی چیز ہے ـ میری نظر میں بڑی شاعری وہ ہے جو دلوں کی کیفیت بدلنے کی قوت رکھتی ہو، اور اس کے لئے کسی فلسفیانہ اور نفسیاتی تحریکوں کے اظہار کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کردینا ایک نصابی شاعری کا وجود تو عمل میں لاسکتی ہے لیکن روح سنے اور روح سنائے والی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی، آپ کی شاعری یقیناّ اس اسٹیج پر نہیں ہے، لیکن جس خلوص کے ساتھ آپ آگے بڑھے اور انسانیت کے جس جذبے اور ولولے کو آپ نے عام کرنے کی سعی کی ہے وہ بڑی شاعری کے دائرے میں آنے والی چیز ہے ـ فنی طور پر کہیں کہیں انگلی رکھی جاسکتی ہے لیکن اس بات کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ یہ شاعری کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنی ہے ـ
فقط والسلام ....
مخلص ـ دستخط ....
ایک ادبی دستاویز ـ ( محترم رئیس امروہوی کی چونتیسویں برسی پر) ... غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے، لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور غلطی کی نشاندہی کرنے والے کو شاباش دینا بڑی بات ہوتی ہے، یہ عظیم انسانوں کا وطیرہ ہے، ایسے ہی عظیم انسان اور نابغہء روزگار شخصیت محترم رئیس امروہوی صاحب بھی تھے، جو کہ آج کے دن بائیس (۲۲) ستمبر ۱۹۸۸ء کو شہید کردئے گئے تھے ـ رئیس صاحب نے مجھ جیسے کم علم انسان کو بھی اپنی غلطی کی نشاندہی کرنے پر نہ صرف شاباش دی بلکہ مستقل رابطہ رکھنے کی بھی ہدایت فرمائی ـ ان کا " روزنامہ جنگ کراچی " میں مستقل شایع ہونے والے قطعہ کی غلطی پر میرا لکھا گیا خط اور ان کے جوابی خط کا عکس بھی پیشِ خدمت ہے ـ ملاحظہ فرمائیں ـ ان کے خط کی تحریر بھی یہاں درج کر رہا ہوں تاکہ جو دوست رئیس صاحب کی تحریر نہ پڑھ سکیں وہ بھی پڑھ لیں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تاریخ ـ ۱۸ جنوری ۱۹۸۸ ءبرادر عزیزم غلام محمد وامِق، السلام علیکم یادآوری کا شکریہ، آپ نے بالکل برمحل نشاندہی کی ہے اس قطعے میں قافیے کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بہت عجلت میں ٹیلیفون پر میں نے یہ قطعہ ایڈیٹر جنگ کو کہلوایا تھا، عجلت میں خیال ہی نہ رہا کیا کہلوا رہا ہوں، بہت شدید فنی سقم ہے، لیکن تعجب ہے میرے قطعے کو لاکھوں آدمی پڑھتے ہیں، سوائے آپ کے اور کسی نے اس غلطی کی نشاندہی نہیں کی ـ شاباش، جزاک اللہ ـ کبھی کبھی یاد فرماتے رہا کریں ..... رئیس ـ
Gm Wamiq Toor
9:57 AM
0 Comment
رئیس امروہوی کے نام میرا خط ، اور رئیس صاحب کا جوابی خط ـ
ایک ادبی دستاویز ـ ( محترم رئیس امروہوی کی چونتیسویں برسی پر) ...
غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے، لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور غلطی کی نشاندہی کرنے والے کو شاباش دینا بڑی بات ہوتی ہے، یہ عظیم انسانوں کا وطیرہ ہے، ایسے ہی عظیم انسان اور نابغہء روزگار شخصیت محترم رئیس امروہوی صاحب بھی تھے، جو کہ آج کے دن بائیس (۲۲) ستمبر ۱۹۸۸ء کو شہید کردئے گئے تھے ـ
رئیس صاحب نے مجھ جیسے کم علم انسان کو بھی اپنی غلطی کی نشاندہی کرنے پر نہ صرف شاباش دی بلکہ مستقل رابطہ رکھنے کی بھی ہدایت فرمائی ـ
ان کا " روزنامہ جنگ کراچی " میں مستقل شایع ہونے والے قطعہ کی غلطی پر میرا لکھا گیا خط اور ان کے جوابی خط کا عکس بھی پیشِ خدمت ہے ـ ملاحظہ فرمائیں ـ
ان کے خط کی تحریر بھی یہاں درج کر رہا ہوں تاکہ جو دوست رئیس صاحب کی تحریر نہ پڑھ سکیں وہ بھی پڑھ لیں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ ـ ۱۸ جنوری ۱۹۸۸ ء
برادر عزیزم غلام محمد وامِق، السلام علیکم
یادآوری کا شکریہ، آپ نے بالکل برمحل نشاندہی کی ہے اس قطعے میں قافیے کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بہت عجلت میں ٹیلیفون پر میں نے یہ قطعہ ایڈیٹر جنگ کو کہلوایا تھا، عجلت میں خیال ہی نہ رہا کیا کہلوا رہا ہوں، بہت شدید فنی سقم ہے، لیکن تعجب ہے میرے قطعے کو لاکھوں آدمی پڑھتے ہیں، سوائے آپ کے اور کسی نے اس غلطی کی نشاندہی نہیں کی ـ شاباش، جزاک اللہ ـ کبھی کبھی یاد فرماتے رہا کریں ..... رئیس ـ
اپنی گزری ہے زندگی ایسی ... سرد موسم میں چاندنی جیسی ... دیکھو اتنا شعور ہے مجھ کو ... جان لیتا ہوں چال ہو جیسی ... جو بھی کہتے ہیں، دل ربا تجھ کو ... ایسے لوگوں کی ایسی کی تیسی ... جیسی چاہی تھی زندگی ہم نے ۔۔۔ اپنی گزری نہ زندگی ویسی ۔۔۔ بات وامِق کی چھوڑو جی دیکھو ... اِس بڑھاپے میں، آرزو کیسی؟ ... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 29 نومبر، 2021ء میں کہی گئی غزل ۔
=== غزل ===
غلام محمد وامِق
اپنی گزری ہے زندگی ایسی ...
سرد موسم میں چاندنی جیسی ...
دیکھو اتنا شعور ہے مجھ کو ...
جان لیتا ہوں چال ہو جیسی ...
جو بھی کہتے ہیں، دل ربا تجھ کو ...
ایسے لوگوں کی ایسی کی تیسی ...
جیسی چاہی تھی زندگی ہم نے ۔۔۔
اپنی گزری نہ زندگی ویسی ۔۔۔
بات وامِق کی چھوڑو جی دیکھو ...
اِس بڑھاپے میں، آرزو کیسی؟ ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔
بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 29 نومبر، 2021ء میں کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بارہ (12) ستمبر رئیس امروہوی ( سید محمد مہدی) کی تاریخِ پیدائش ہے ( سال 1914ء) ـ اس مناسبت سے کچھ یادیں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ ادبی لحاظ سے سند رہے ـ فروری سال 1986ء کے اوائل میں، رئیس امروہوی کے دفتر " گارڈن ایسٹ کراچی " میں، میں نے ان سے ملاقات کی، اور انہیں محراب پور آنے کی دعوت دی، انہوں نے بڑی شفقت سے میری دعوت قبول کی اور 27 مارچ کی تاریخ طے کرلی، ( میری ان سے بالمشافہ اور خط و کتابت کے ذریعے ایک عرصہ سے مختلف امور پر مثلاﹰ ادب، سیاست، لسانی تنظیمیں، اور روحانیت وغیرہ پر گفتگو ہوتی رہتی تھی) ہم نے ان کے اعزاز میں شہر کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی ( مرحوم) کے بنگلے پر تقریب منعقد کرنے کا پروگرام ترتیب دیا تھا، ( شوکت لودھی صاحب ہماری ادبی تنظیم " بزمِ ادب " کے سرپرست بھی تھے) ان کو جب مذکورہ تاریخ بتائی گئی تو انہوں نے کہا کہ ستائیس مارچ کو تو مجھے اپنے ضروری کام سے پنجاب جانا ہے، لہٰذا آپ رئیس صاحب سے کوئی دوسری تاریخ طے کرلیں، جب میں نے اس سلسلے میں رئیس صاحب کو خط لکھا تو انہوں نے جواب میں مجھے دو خطوط ارسال کئے جن کا عکس یہاں دیا جارہا ہے، جن میں انہوں نے پروگرام اپریل میں رکھنے کا کہا، مگر پھر سیاسی اور سماجی حالات اس قدر تبدیل ہوتے گئے کہ پروگرام منعقد نہ ہوسکا، جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ـ رئیس امروہوی کی آمد کی خبر جب اخبارات میں چھپی تو ان کے کچھ چاہنے والوں نے بھی خطوط لکھے جس میں ان سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا گیا تھا، جن میں سے ایک خط جو کہ خیرپور میرس سے لکھا گیا تھا اس کا عکس بھی شامل ہے ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
آج بارہ (12) ستمبر رئیس امروہوی ( سید محمد مہدی) کی تاریخِ پیدائش ہے ( سال 1914ء) ـ اس مناسبت سے کچھ یادیں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ ادبی لحاظ سے سند رہے ـ
فروری سال 1986ء کے اوائل میں، رئیس امروہوی کے دفتر " گارڈن ایسٹ کراچی " میں، میں نے ان سے ملاقات کی، اور انہیں محراب پور آنے کی دعوت دی، انہوں نے بڑی شفقت سے میری دعوت قبول کی اور 27 مارچ کی تاریخ طے کرلی، ( میری ان سے بالمشافہ اور خط و کتابت کے ذریعے ایک عرصہ سے مختلف امور پر مثلاﹰ ادب، سیاست، لسانی تنظیمیں، اور روحانیت وغیرہ پر گفتگو ہوتی رہتی تھی) ہم نے ان کے اعزاز میں شہر کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی ( مرحوم) کے بنگلے پر تقریب منعقد کرنے کا پروگرام ترتیب دیا تھا، ( شوکت لودھی صاحب ہماری ادبی تنظیم " بزمِ ادب " کے سرپرست بھی تھے) ان کو جب مذکورہ تاریخ بتائی گئی تو انہوں نے کہا کہ ستائیس مارچ کو تو مجھے اپنے ضروری کام سے پنجاب جانا ہے، لہٰذا آپ رئیس صاحب سے کوئی دوسری تاریخ طے کرلیں، جب میں نے اس سلسلے میں رئیس صاحب کو خط لکھا تو انہوں نے جواب میں مجھے دو خطوط ارسال کئے جن کا عکس یہاں دیا جارہا ہے، جن میں انہوں نے پروگرام اپریل میں رکھنے کا کہا، مگر پھر سیاسی اور سماجی حالات اس قدر تبدیل ہوتے گئے کہ پروگرام منعقد نہ ہوسکا، جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ـ رئیس امروہوی کی آمد کی خبر جب اخبارات میں چھپی تو ان کے کچھ چاہنے والوں نے بھی خطوط لکھے جس میں ان سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا گیا تھا، جن میں سے ایک خط جو کہ خیرپور میرس سے لکھا گیا تھا اس کا عکس بھی شامل ہے ـ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
گیارہ ستمبر، قائداعظم محمد علی جناح کی تاریخِ وفات ہے، اسی نسبت سے نظم " محمد علی جناح " پیشِ خدمت ہے ـ=== محمد علی جناح === غلام محمد وامِق = ہے رہنمائے ملّت، محمد علی جناح ... بنیادِ فخر و عزّت، محمد علی جناح ... نظم و یقین، اور کیا پیدا اتحاد ... سرمایۂ اخوّت، محمد علی جناح ... گفتار میں بھی اعلیٰ، کردار بھی عظیم ...منبعء مہر و الفت، محمد علی جناح ... پاکر تیرا اشارہ، جانیں لٹادی لاکھوں ... تجھ سے تھی وہ عقیدت، محمد علی جناح ... رکھتے ہیں ملکِ پاک کو جاں سے عزیز ہم ... تیری ہے یہ امانت، محمد علی جناح ... تُو پیکرِ انسانیت ہے، رہنمائے قوم ... بے لوث ہے قیادت، محمد علی جناح ... وامِق، ہر ایک دل میں تیری ہی تا ابد ... قائم رہے گی عظمت، محمد علی جناح ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـمورخہ 30 دسمبر، 1984ء کو کہی گئی نظم ـ
گیارہ ستمبر، قائداعظم محمد علی جناح کی تاریخِ وفات ہے، اسی نسبت سے نظم " محمد علی جناح " پیشِ خدمت ہے ــ
=== محمد علی جناح ===
غلام محمد وامِق
ہے رہنمائے ملّت، محمد علی جناح ...
بنیادِ فخر و عزّت، محمد علی جناح ...
نظم و یقین، اور کیا پیدا اتحاد ...
سرمایۂ اخوّت، محمد علی جناح ...
گفتار میں بھی اعلیٰ، کردار بھی عظیم ...
منبعء مہر و الفت، محمد علی جناح ...
پاکر تیرا اشارہ، جانیں لٹادی لاکھوں ...
تجھ سے تھی وہ عقیدت، محمد علی جناح ...
رکھتے ہیں ملکِ پاک کو جاں سے عزیز ہم ...
تیری ہے یہ امانت، محمد علی جناح ...
تُو پیکرِ انسانیت ہے، رہنمائے قوم ...
بے لوث ہے قیادت، محمد علی جناح ...
وامِق، ہر ایک دل میں تیری ہی تا ابد ...
قائم رہے گی عظمت، محمد علی جناح ...
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 30 دسمبر، 1984ء کو کہی گئی نظم ـ
رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے ... دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے ... تیری تمام خواہشیں پوری جو کر سکے ۔۔۔ ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟ ... اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے اِس خیال سے ... بلبل کو میرے سامنے، نیچا دکھا سکے ... تیری تباہ کار جوانی کے سامنے ... دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے ... یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے کبھی ۔۔۔ ہم کو بلایا اور نہ خود ملنے آ سکے؟ ... لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر ... دِل سے تمہاری یاد نہ ہرگز مٹا سکے ... وامِق ! تمہارے پیار میں ہر رنج و غم سہا ... لیکن غمِ فراق کبھی نا اٹھا سکے ... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ مارچ 1985ء میں کہی گئی غزل ـ
★★★ غــــــزل ★★★
غلام محمد وامِق
رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے ...
دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے ...
تیری تمام خواہشیں پوری جو کر سکے ۔۔۔
ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟ ...
اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے اِس خیال سے ...
بلبل کو میرے سامنے، نیچا دکھا سکے ...
تیری تباہ کار جوانی کے سامنے ...
دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے ...
یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے کبھی ۔۔۔
ہم کو بلایا اور نہ خود ملنے آ سکے؟ ...
لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر ...
دِل سے تمہاری یاد نہ ہرگز مٹا سکے ...
وامِق ! تمہارے پیار میں ہر رنج و غم سہا ...
لیکن غمِ فراق کبھی نا اٹھا سکے ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔
مارچ 1985ء میں کہی گئی غزل ـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
=== فلسطین === غلام محمد وامِق غم کیسے کم ہوں ارضِ فلسطین کے بھلا ۔ آپس میں مسلمین کی جنگ ہے چھڑی ہوئی ۔ اوپر سے اِسرَئیل کے حملے بھی بڑھ گئے ۔ تینوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 17 جون سال 2007 ء کو کہا گیا قطعہ
=== فلسطین ===
غلام محمد وامِق
غم کیسے کم ہوں ارضِ فلسطین کے بھلا ۔
آپس میں مسلمین کی جنگ ہے چھڑی ہوئی ۔
اوپر سے اِسرَئیل کے حملے بھی بڑھ گئے ۔
تینوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 17 جون سال 2007 ء کو کہا گیا قطعہ
نوٹ:- ان دنوں حماس اور الفتح تنظیمیں آپس میں ہی لڑ رہی تھیں ۔
=== اجازت === غلام محمد وامِق اپنے ہاں اجازت نہیں دی جاتی کسی کو ۔ اس ملک میں قانون کبھی بھی کوئی توڑے ۔ البتّہ اجازت کے سوا چاہے جو کر لے ۔ قانون کو پیروں تلے روندے کہ وہ چھوڑے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ بحر۔ ہَزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 20 ، اکتوبر سال 2006ء میں کہا گیا قطعہ ۔
=== اجازت ===
غلام محمد وامِق ۔
اپنے ہاں اجازت نہیں دی جاتی کسی کو ۔
اس ملک میں قانون کبھی بھی کوئی توڑے ۔
البتّہ اجازت کے سوا چاہے جو کر لے ۔
قانون کو پیروں تلے روندے کہ وہ چھوڑے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔
بحر۔ ہَزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 20 ، اکتوبر سال 2006ء میں کہا گیا قطعہ ۔
=== ملکی مفاد === غلام محمد وامِق = ملکی مفاد کے لئے اجلاس تھا بڑا ۔ اس ملک کے پِسے ہوئے طبقات کے لئے ۔ اپنا مفاد دیکھ کے ہم بھی گئے وہاں ۔ فرصت نہیں تھی اُن کو ملاقات کے لئے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 19، اپریل سال 2007ء کو کہا گیا قطعہ ۔
=== ملکی مفاد ===
غلام محمد وامِق
ملکی مفاد کے لئے اجلاس تھا بڑا ۔
اس ملک کے پِسے ہوئے طبقات کے لئے ۔
اپنا مفاد دیکھ کے ہم بھی گئے وہاں ۔
فرصت نہیں تھی اُن کو ملاقات کے لئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
اہلِ نظر دلیل سے کرتے ہیں گفتگو ۔ ناداں جو ہیں وہ بات کبھی تولتے نہیں ۔ اہلِ ہَوَس نے شور مچایا ہو جس جگہ ۔ ایسی جگہ پہ ہم کبھی کچھ بولتے نہیں ۔ (شاعر ۔ غلام محمد وامق) مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
۔۔۔ قطعہ ۔۔۔
اہلِ نظر دلیل سے کرتے ہیں گفتگو ۔
ناداں جو ہیں وہ بات کبھی تولتے نہیں ۔
اہلِ ہَوَس نے شور مچایا ہو جس جگہ ۔
ایسی جگہ پہ ہم کبھی کچھ بولتے نہیں ۔
(شاعر ۔ غلام محمد وامق)
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مورخہ 21 اگست سال 2022 ء کو کہا گیا قطعہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاکاری کی عبادت = غلام محمد وامِق = رکھنے کو روزے بھی رکھے اور حج بھی ہر اِک سال کیا ۔ لیکن نہ حسد کی آگ بجھی اور نا ہی اَنا کا خون ہُوا ـ پڑھ پڑھ کے نمازیں مسجد میں اوراد و وضائف خوب کئے ۔ لیکن نہ ادب کوئی سیکھا اور نا ہی طمع کا روگ گیا ـ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فَعِلن ۔ فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن ۔ بحر زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 25 ، اپریل 2022ء کو کہا گیا قطعہ ـ مطابق ـ 22 رمضان المبارک 1443 ھجری ـ بروز پیر ـ
ـ === ریاکاری کی عبادت ===
غلام محمد وامِق
رکھنے کو روزے بھی رکھے اور حج بھی ہر اِک سال کیا ۔
لیکن نہ حسد کی آگ بجھی اور نا ہی اَنا کا خون ہُوا ـ
پڑھ پڑھ کے نمازیں مسجد میں اوراد و وضائف خوب کئے ۔
لیکن نہ ادب کوئی سیکھا اور نا ہی طمع کا روگ گیا ـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فَعِلن ۔
فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن ۔
بحر زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 25 ، اپریل 2022ء کو کہا گیا قطعہ ـ
مطابق ـ 22 رمضان المبارک 1443 ھجری ـ بروز پیر ـ
مزاحیہ پیروڈی = ( مومن خان مومن سے معزرت) غلام محمد وامِق = " ناوک انداز جدھر دیدہء جاناں ہوں گے " ... قتل و غارت کے وہیں دیکھئے ساماں ہوں گے ... جلوہ افروز جہاں ہوں گے یہ نازک اندام ... کرفیو لگنے کے آثار نمایاں ہوں گے ... ــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن مفعول ۔ بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ... مورخہ 17 فروری، 1995 ء کو کہی گئی مزاحیہ پیروڈی ۔
=== مزاحیہ پیروڈی === ( مومن خان مومن سے معزرت)
غلام محمد وامِق
" ناوک انداز جدھر دیدہء جاناں ہوں گے " ...
قتل و غارت کے وہیں دیکھئے ساماں ہوں گے ...
جلوہ افروز جہاں ہوں گے یہ نازک اندام ...
کرفیو لگنے کے آثار نمایاں ہوں گے ...
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن مفعول ۔
بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ...
مورخہ 17 فروری، 1995 ء کو کہی گئی مزاحیہ پیروڈی ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.