‎بلدیہ محرابپور کے چیئرمینوں پر ایک نظر ـــــــــــــــــــــ  تحریر  ــ  غلام محمد  وامِق ـــ   ہم نے ہوش سنبھالا تو شوکت خان لودھی (مرحوم) کو ٹاؤن کمیٹی محرابپور کا چیئرمین دیکھا، جوکہ شہر کا سب سے پہلا منتخب چیئرمین تھا ـ شوکت خان لودھی صاحب بڑے بردبار، ادب پرور، اور اعلیٰ ظرف کے حامل دوراندیش انسان تھے،  انہوں نے اپنے ابتدائی دور میں ہی گندے پانی کی نکاسی کے لئے ایک بہت بڑا نالہ بنوایا تھا، جوکہ اُس زمانے میں عجیب اور غیرضروری محسوس ہوتا تھا، لیکن آج ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نالہ نہ ہوتا تو شہر آج گندے پانی میں ڈوب چکا ہوتا ـ  1983ء میں،  جب میں چھ، سات سال کراچی میں گزار کر واپس محرابپور آیا تو اس وقت شہر کے چیئرمین مغل عبدالغفور ساجد صاحب تھے ـ مغل عبدالغفور ساجد صاحب ایسی شخصیت تھے جن کی مثال محرابپور تو کیا،  شاید دنیا بھر میں نہ مل سکے، وہ شاعر اور ادیب تھے ـ وہ اپنے گھر یا آفس میں آرام سے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ہمہ وقت متحرک رہتے تھے ـ  ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی جب ہم ان کو مزدوروں اور خاکروبوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور کام کرواتے دیکھتے تھے ـ  جہاں بھی ٹاؤن کا کام ہورہا ہوتا، چاہے وہ نالیاں ہوں یا کچرا کنڈی وہاں پر کھڑے رہتے یا پھر کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور اپنی نظرداری میں کام کرواتے ـ  وہ سارا دن شہر کے بازاروں اور گلیوں میں وزٹ کرتے اور لوگوں سے ملتے ـ  بعض اوقات تو اکیلے ہی رات کو کسی کام کے معائنے کو نکل کھڑے ہوتے ـ  کہیں ضرورت پڑتی تو اپنی جیب سے خرچ کرتے، کسی تقریب میں ہوتے تو نماز کے وقت جماعت کی امامت خود کرتے ــ  انہوں نے ہی شہر کا موجودہ انڈرگراؤنڈ ڈرینج سسٹم بنوایا تھا، جس کا آج برا حال کردیا گیا ہے،  شہر میں تین عدد گیٹ تعمیر کروائے، جوکہ آج محرابپور کی شناخت بن چکے ہیں ـ  صفائی کے لحاظ سے محرابپور، سندھ کے بہترین شہروں میں شامل ہوتا تھا ـ سڑکیں اور گلیاں انتہائی کشادہ اور صاف ہوتی تھیں ـ  لودھی اور مغل صاحبان کے زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کا بجٹ ہمیشہ سرپلس رہتا تھا ـ محرابپور کی ٹاؤن کمیٹی،  سندھ کی دیگر ٹاؤن کمیٹیوں سے زیادہ خوشحال تھی،  مغل عبدالغفور ساجد صاحب کا ایک شعری مجموعہ بھی " نوائے ساجد " کے نام سے  اس زمانے میں منظرعام پر آچکا تھا،  عبدالغفور ساجد صاحب نفیس انسان تھے لہٰذا وہ سابقہ چیئرمین شوکت خان لودھی صاحب سے بھی بڑے انکسار سے ملتے تھے ـ  بہرحال 1983ء میں ہم نے " بزمِ ادب محرابپور " کی بنیاد رکھی، صدر عبدالغفور ساجد صاحب کو بنایا گیا،  سرپرست شوکت خان لودھی کو بنایا  جبکہ جنرل سیکریٹری مجھے (راقم الحروف بندہء ناچیز  کو) بنایا گیا ـ 1985ء میں ہم نے ایک عظیم الشان  کُل سندھ مشاعرہ ٹاؤن ہال میں منعقد کروایا، جس کی صدارت شوکت خان لودھی صاحب نے کی تھی ـ اس مشاعرے میں مغل عبدالغفور ساجد صاحب اس لئے شرکت نہ کرسکے کہ وہ شاید بیرونِ ملک یا بیرونِ شہر گئے ہوئے تھے ـ ان لوگوں کے دور میں گو راستے کچے تھے لیکن شہر کی ترقی کے ارادے پکے تھے ـ شوکت لودھی کے ابتدائی دور میں محرابپور میں بجلی نہیں آئی تھی ،  لیکن شہر کے مختلف راستوں اور چوراہوں پر  ٹاؤن کی طرف سے جگہ جگہ تیل سے جلنے والی لالٹینیں لگائی گئی تھیں، شہر کے راستوں اور گلیوں میں دن میں تین بار ماشکی اپنی مشکوں سے پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے، جس کے باعث گرمی کے موسم میں ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا ـ  مغل عبدالغفور ساجد کے بعد پھر سے شوکت خان  لودھی صاحب چیئرمین بن گئے تھے ـ ـ ـ  بعدازاں ایڈمنسٹریٹرز کا دور آگیا ـ  اور ایک وقت آیا جب شوکت لودھی صاحب رات کے وقت اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کرگئے ـ  اور کچھ عرصہ کے بعد مغل عبدالغفور ساجد صاحب بھی دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہی انتقال کرگئے ــ صدرِ پاکستان، جرنل پرویزمشرف صاحب  کے زمانے میں چیئرمین کے بجائے ناظم اعلیٰ بنائے گئے ـ اور اس نئے سسٹم کے تحت شہر کو دوحصوں میں تقسیم کرکے یوسی ون اور یوسی ٹو میں تقسیم کردیا گیا،  جس پر ایک بار شوکت خان لودھی کے فرزند " فاروق خان لودھی " اور مغل عبدالغفور کے بھتیجے " منوربیگ مغل " ناظم اعلیٰ منتخب کئے گئے ـ دونوں منتخب ناظمین اپنے بڑوں کے شاندار اصول بھول کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سرگرم ہوگئے ـ  حالانکہ انفرادی طور پر دونوں موصوف بڑے ملنسار خوش اخلاق اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے والے ہیں ـ  فاروق خان لودھی دو بار ناظم مقرر کئے گئے، اور اب موصوف پورے شہر کے چیئرمین ہیں، لیکن آپ بیرونِ ملک کے دوروں پر اکثر نظر آتے ہیں،  شہر کا دورہ کبھی نہیں کیا،   ٹاؤن کے خاکروب روزانہ ہڑتال پر ہیں کہ انہیں تنخواہیں نہیں ملتیں ـ لہٰزا شہر میں گندے پانی کے گٹر  اور نالیاں ابل رہی ہیں ـ  جناب کو شہر کی حالت دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں ہے ـ جبکہ ان کے والد ہر دوسرے تیسر روز شہر کے بازاروں کا دورہ کرتے اور لوگوں سے حال احوال پوچھتے تھے ــ اب شہر زخموں سے چُور رات دن گندے پانی میں پڑا تڑپ رہا ہے،  گلیوں میں پیدل چلنا مشکل ہوگیا ہے ــاب شہر والے جائیں تو جائیں کہاں؟  کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ــ  ؟ ہم نے یہ لکھ کر اپنی ذمیداری پوری کردی،  اللہ تعالیٰ تمام اہلیانِ شہر اور ملک پر اپنا فضل فرمائے ـ آمین ــــــــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ  فون،  03153533437 ـــ                            تاریخ ـ 18.12.2019 ــــ

‎بلدیہ محرابپور کے چیئرمینوں پر ایک نظر ـــــــــــــــــــــ تحریر ــ غلام محمد وامِق ـــ ہم نے ہوش سنبھالا تو شوکت خان لودھی (مرحوم) کو ٹاؤن کمیٹی محرابپور کا چیئرمین دیکھا، جوکہ شہر کا سب سے پہلا منتخب چیئرمین تھا ـ شوکت خان لودھی صاحب بڑے بردبار، ادب پرور، اور اعلیٰ ظرف کے حامل دوراندیش انسان تھے، انہوں نے اپنے ابتدائی دور میں ہی گندے پانی کی نکاسی کے لئے ایک بہت بڑا نالہ بنوایا تھا، جوکہ اُس زمانے میں عجیب اور غیرضروری محسوس ہوتا تھا، لیکن آج ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نالہ نہ ہوتا تو شہر آج گندے پانی میں ڈوب چکا ہوتا ـ 1983ء میں، جب میں چھ، سات سال کراچی میں گزار کر واپس محرابپور آیا تو اس وقت شہر کے چیئرمین مغل عبدالغفور ساجد صاحب تھے ـ مغل عبدالغفور ساجد صاحب ایسی شخصیت تھے جن کی مثال محرابپور تو کیا، شاید دنیا بھر میں نہ مل سکے، وہ شاعر اور ادیب تھے ـ وہ اپنے گھر یا آفس میں آرام سے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ہمہ وقت متحرک رہتے تھے ـ ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی جب ہم ان کو مزدوروں اور خاکروبوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور کام کرواتے دیکھتے تھے ـ جہاں بھی ٹاؤن کا کام ہورہا ہوتا، چاہے وہ نالیاں ہوں یا کچرا کنڈی وہاں پر کھڑے رہتے یا پھر کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور اپنی نظرداری میں کام کرواتے ـ وہ سارا دن شہر کے بازاروں اور گلیوں میں وزٹ کرتے اور لوگوں سے ملتے ـ بعض اوقات تو اکیلے ہی رات کو کسی کام کے معائنے کو نکل کھڑے ہوتے ـ کہیں ضرورت پڑتی تو اپنی جیب سے خرچ کرتے، کسی تقریب میں ہوتے تو نماز کے وقت جماعت کی امامت خود کرتے ــ انہوں نے ہی شہر کا موجودہ انڈرگراؤنڈ ڈرینج سسٹم بنوایا تھا، جس کا آج برا حال کردیا گیا ہے، شہر میں تین عدد گیٹ تعمیر کروائے، جوکہ آج محرابپور کی شناخت بن چکے ہیں ـ صفائی کے لحاظ سے محرابپور، سندھ کے بہترین شہروں میں شامل ہوتا تھا ـ سڑکیں اور گلیاں انتہائی کشادہ اور صاف ہوتی تھیں ـ لودھی اور مغل صاحبان کے زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کا بجٹ ہمیشہ سرپلس رہتا تھا ـ محرابپور کی ٹاؤن کمیٹی، سندھ کی دیگر ٹاؤن کمیٹیوں سے زیادہ خوشحال تھی، مغل عبدالغفور ساجد صاحب کا ایک شعری مجموعہ بھی " نوائے ساجد " کے نام سے اس زمانے میں منظرعام پر آچکا تھا، عبدالغفور ساجد صاحب نفیس انسان تھے لہٰذا وہ سابقہ چیئرمین شوکت خان لودھی صاحب سے بھی بڑے انکسار سے ملتے تھے ـ بہرحال 1983ء میں ہم نے " بزمِ ادب محرابپور " کی بنیاد رکھی، صدر عبدالغفور ساجد صاحب کو بنایا گیا، سرپرست شوکت خان لودھی کو بنایا جبکہ جنرل سیکریٹری مجھے (راقم الحروف بندہء ناچیز کو) بنایا گیا ـ 1985ء میں ہم نے ایک عظیم الشان کُل سندھ مشاعرہ ٹاؤن ہال میں منعقد کروایا، جس کی صدارت شوکت خان لودھی صاحب نے کی تھی ـ اس مشاعرے میں مغل عبدالغفور ساجد صاحب اس لئے شرکت نہ کرسکے کہ وہ شاید بیرونِ ملک یا بیرونِ شہر گئے ہوئے تھے ـ ان لوگوں کے دور میں گو راستے کچے تھے لیکن شہر کی ترقی کے ارادے پکے تھے ـ شوکت لودھی کے ابتدائی دور میں محرابپور میں بجلی نہیں آئی تھی ، لیکن شہر کے مختلف راستوں اور چوراہوں پر ٹاؤن کی طرف سے جگہ جگہ تیل سے جلنے والی لالٹینیں لگائی گئی تھیں، شہر کے راستوں اور گلیوں میں دن میں تین بار ماشکی اپنی مشکوں سے پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے، جس کے باعث گرمی کے موسم میں ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا ـ مغل عبدالغفور ساجد کے بعد پھر سے شوکت خان لودھی صاحب چیئرمین بن گئے تھے ـ ـ ـ بعدازاں ایڈمنسٹریٹرز کا دور آگیا ـ اور ایک وقت آیا جب شوکت لودھی صاحب رات کے وقت اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کرگئے ـ اور کچھ عرصہ کے بعد مغل عبدالغفور ساجد صاحب بھی دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہی انتقال کرگئے ــ صدرِ پاکستان، جرنل پرویزمشرف صاحب کے زمانے میں چیئرمین کے بجائے ناظم اعلیٰ بنائے گئے ـ اور اس نئے سسٹم کے تحت شہر کو دوحصوں میں تقسیم کرکے یوسی ون اور یوسی ٹو میں تقسیم کردیا گیا، جس پر ایک بار شوکت خان لودھی کے فرزند " فاروق خان لودھی " اور مغل عبدالغفور کے بھتیجے " منوربیگ مغل " ناظم اعلیٰ منتخب کئے گئے ـ دونوں منتخب ناظمین اپنے بڑوں کے شاندار اصول بھول کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سرگرم ہوگئے ـ حالانکہ انفرادی طور پر دونوں موصوف بڑے ملنسار خوش اخلاق اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے والے ہیں ـ فاروق خان لودھی دو بار ناظم مقرر کئے گئے، اور اب موصوف پورے شہر کے چیئرمین ہیں، لیکن آپ بیرونِ ملک کے دوروں پر اکثر نظر آتے ہیں، شہر کا دورہ کبھی نہیں کیا، ٹاؤن کے خاکروب روزانہ ہڑتال پر ہیں کہ انہیں تنخواہیں نہیں ملتیں ـ لہٰزا شہر میں گندے پانی کے گٹر اور نالیاں ابل رہی ہیں ـ جناب کو شہر کی حالت دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں ہے ـ جبکہ ان کے والد ہر دوسرے تیسر روز شہر کے بازاروں کا دورہ کرتے اور لوگوں سے حال احوال پوچھتے تھے ــ اب شہر زخموں سے چُور رات دن گندے پانی میں پڑا تڑپ رہا ہے، گلیوں میں پیدل چلنا مشکل ہوگیا ہے ــاب شہر والے جائیں تو جائیں کہاں؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ــ ؟ ہم نے یہ لکھ کر اپنی ذمیداری پوری کردی، اللہ تعالیٰ تمام اہلیانِ شہر اور ملک پر اپنا فضل فرمائے ـ آمین ــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ فون، 03153533437 ـــ تاریخ ـ 18.12.2019 ــــ

لارڈ میکالے ( جس نے مقبوضہ ہندوستان میں موجودہ غلامانہ اور ڈیوائڈ اینڈ رول والا نظامِ تعلیم ترتیب دیا ) کا برطانیہ کی پارلیامنٹ کو 2 فروری 1835ء  میں کئے گئے خطاب سے اقتباس ===  تحقیق و تحریر ــ  غلام محمد  وامِق ـ                                    ــــ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے،  مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا ـ  اس ملک میں، میں نے بہت دولت دیکھی ہے ـ  لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں،  اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اُس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اُن کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں،  جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ـاس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں  کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب تبدیل کردیں ـ  کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیرملکی شےء ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے ـ  اور حقیقتاّ ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے، جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں ـ( واضح رہے کہ اُس زمانے میں ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت میں تعلیم دی جاتی تھی ) .......اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ ــــــ چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا ـــ شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر، اسکول جا ـــ چار دن کی زندگی ہے، کوفت سے کیا فائدہ؟ ـ کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر خوشی سے پھول جا ــ   تحریر و تحقیق ـ غلام محمد وامِق ـ محراب پور سندھ،  مورخہ، 7 دسمبر، 2019 ـــ

لارڈ میکالے ( جس نے مقبوضہ ہندوستان میں موجودہ غلامانہ اور ڈیوائڈ اینڈ رول والا نظامِ تعلیم ترتیب دیا ) کا برطانیہ کی پارلیامنٹ کو 2 فروری 1835ء میں کئے گئے خطاب سے اقتباس === تحقیق و تحریر ــ غلام محمد وامِق ـ ــــ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے، مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا ـ اس ملک میں، میں نے بہت دولت دیکھی ہے ـ لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں، اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اُس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اُن کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں، جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ـاس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب تبدیل کردیں ـ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیرملکی شےء ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے ـ اور حقیقتاّ ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے، جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں ـ( واضح رہے کہ اُس زمانے میں ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت میں تعلیم دی جاتی تھی ) .......اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ ــــــ چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا ـــ شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر، اسکول جا ـــ چار دن کی زندگی ہے، کوفت سے کیا فائدہ؟ ـ کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر خوشی سے پھول جا ــ تحریر و تحقیق ـ غلام محمد وامِق ـ محراب پور سندھ، مورخہ، 7 دسمبر، 2019 ـــ

قطعہ ( رئیس امروہوی ) ـــــ         کیسے ممکن ہے کہ طوفان آئے دنیا میں کہیں ـــ    اور اس طوفان کی تہہ میں کوئی دریا نہ ہو  ـــــ        بین الاقوامی سیا ست میں ہو بحران شدید ــــ   اور اس بحران کے پردے میں  امریکہ نہ ہو  ـ                                                 شاعر ـ رئیس امروہوی،  قطعہ شایع شدہ روزنامہ          " جنگ کراچی "  ــ  ‏

قطعہ ( رئیس امروہوی ) ـــــ کیسے ممکن ہے کہ طوفان آئے دنیا میں کہیں ـــ اور اس طوفان کی تہہ میں کوئی دریا نہ ہو ـــــ بین الاقوامی سیا ست میں ہو بحران شدید ــــ اور اس بحران کے پردے میں امریکہ نہ ہو ـ شاعر ـ رئیس امروہوی، قطعہ شایع شدہ روزنامہ " جنگ کراچی " ــ ‏

★★★  قطعہ ـ رئیس امروہوی  ★★★ 

کیسے ممکن ہے کہ طوفان آئے دنیا میں کہیں ... 

اور اس طوفان کی تہہ میں کوئی دریا نہ ہو؟ ... 

بین الاقوامی سیاست میں ہو بحران شدید ... 

اور اس بحران کے پردے میں امریکہ نہ ہو؟ ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
محترم رئیس امروہوی صاحب کا یہ قطعہ روزنامہ جنگ کراچی میں شایع ہوا تھا ـ تاریخِ اشاعت یاد نہیں ـ ( غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ)

""""""" تقسیم در تقسیم عوام """"""" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ دو قومی نظریہ کے تحت ہندوستان تقسیم ہوا، اور پاکستانیوں کی طرف سے ہندو مذہب ( سناتن دھرم)  سے نفرت کا اظہار کیا گیا ـ  ہندوؤں سے جان چھڑا کر متحدہ پاکستان بنایا گیا اور بظاہر  مسلمان قوم متحد ہوکر سامنے آئی ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ صرف چوبیس 24 , سال کے قلیل عرصہ میں ہی بنگالی اور غیر  بنگالی تعصب کی بنا پر، متحدہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا، چنانچہ مشرقی پاکستان،  بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا ـاب بقایا پاکستان میں اصولی طور پر عوام میں باہم کوئی نفرت نہیں ہونی چاہئے تھی ـ لیکن پھر نجانے کیسے " شیعہ کافر " کا عجیب نعرہ سننے میں آیا،  بعدازاں شیعہ سنی کا بھرپور تصادم ہوا، عوام دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے ـ  پھر شیعوں میں بھی نظریاتی طور پر مزید گروہ بن گئے ـ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سنیوں میں بھی بیشمار فرقے ظاہر ہونا شروع ہوگئے، جس پر دوطرفہ تماشہ یہ کہ، سب گروہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگے ـ اسی تقسیم اور گروہ بندی کے دوران ہی آئینی طور پر قادیانیوں کو " غیرمسلم اقلیت " قرار دے دیا گیا ـ  بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، نجانے کیا جادو ہوا کہ یکایک زبان کی بنیاد پر نفرتیں پیدا ہونا شروع ہوگئیں،  پھر کیا تھا "قوم پرستی " کی مختلف تحریکیں زور پکڑنے لگیں ـلطف یہ ہوا کہ اب جو لوگ عقیدے کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں قومیت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کردیا گیا،  اور جو قومیت کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں عقیدے کی جنگ چھڑ گئی ــ  اور چند ایک لوگ جو ان تفرقہ بازیوں  سے اب تک دور تھے،  ان کو سیاست کا چسکہ ڈال دیا گیا، چنانچہ وہ جمہوریت، جمہوریت پکارتے ہوئے مختلف سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر، ایک دوسرے پر  ملک دشمنی کا یا غداری کا الزام لگانے لگے، اور مزید تقسیم ہوگئے،تقسیم کا عمل یہاں پر بھی ختم نہیں ہوا،  بلکہ عوام کو معاشی طور پر تنگدست بناکر خاندانوں اور گھروں میں بھی دشمنی کا بیج بودیا گیا،  چنانچہ اب صورتحال کچھ یوں نظر آرہی ہے کہ ملکی سطح پر سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی دشمن ـ  صوبائی سطح پر ہر صوبہ دوسرے صوبہ کے خلاف ـ شہری سطح پر، ہر قوم دوسری قوم کے خلاف،  ہر زبان بولنے والا اپنی زبان کو دوسروں کی زبان سے برتر تسلیم کروانے پر بضد ـ  ایک عقیدے کا حامل شخص دوسرے عقیدے والے کو کافر سمجھنے لگا،  مزید یہ کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے، اپنے اپنے خیالات اور سوچ کی بنیاد پر  ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، بھائی، بھائی کا دشمن،  بیٹا باپ اور ماں کا دشمن، ایک ہی خاندان اور برادری کے لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف سرگرم سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ تقسیم کہاں پر جاکر ختم ہوگی ـ؟ بقولِ غالب ــ یوں ہی روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں ــــــــــــــــــ  دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں ــــــــــــــــــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ ـ مورخہ ـ 3 , دسمبر،  2019 ــ

""""""" تقسیم در تقسیم عوام """"""" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ دو قومی نظریہ کے تحت ہندوستان تقسیم ہوا، اور پاکستانیوں کی طرف سے ہندو مذہب ( سناتن دھرم) سے نفرت کا اظہار کیا گیا ـ ہندوؤں سے جان چھڑا کر متحدہ پاکستان بنایا گیا اور بظاہر مسلمان قوم متحد ہوکر سامنے آئی ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ صرف چوبیس 24 , سال کے قلیل عرصہ میں ہی بنگالی اور غیر بنگالی تعصب کی بنا پر، متحدہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا، چنانچہ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا ـاب بقایا پاکستان میں اصولی طور پر عوام میں باہم کوئی نفرت نہیں ہونی چاہئے تھی ـ لیکن پھر نجانے کیسے " شیعہ کافر " کا عجیب نعرہ سننے میں آیا، بعدازاں شیعہ سنی کا بھرپور تصادم ہوا، عوام دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے ـ پھر شیعوں میں بھی نظریاتی طور پر مزید گروہ بن گئے ـ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سنیوں میں بھی بیشمار فرقے ظاہر ہونا شروع ہوگئے، جس پر دوطرفہ تماشہ یہ کہ، سب گروہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگے ـ اسی تقسیم اور گروہ بندی کے دوران ہی آئینی طور پر قادیانیوں کو " غیرمسلم اقلیت " قرار دے دیا گیا ـ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، نجانے کیا جادو ہوا کہ یکایک زبان کی بنیاد پر نفرتیں پیدا ہونا شروع ہوگئیں، پھر کیا تھا "قوم پرستی " کی مختلف تحریکیں زور پکڑنے لگیں ـلطف یہ ہوا کہ اب جو لوگ عقیدے کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں قومیت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کردیا گیا، اور جو قومیت کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں عقیدے کی جنگ چھڑ گئی ــ اور چند ایک لوگ جو ان تفرقہ بازیوں سے اب تک دور تھے، ان کو سیاست کا چسکہ ڈال دیا گیا، چنانچہ وہ جمہوریت، جمہوریت پکارتے ہوئے مختلف سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر، ایک دوسرے پر ملک دشمنی کا یا غداری کا الزام لگانے لگے، اور مزید تقسیم ہوگئے،تقسیم کا عمل یہاں پر بھی ختم نہیں ہوا، بلکہ عوام کو معاشی طور پر تنگدست بناکر خاندانوں اور گھروں میں بھی دشمنی کا بیج بودیا گیا، چنانچہ اب صورتحال کچھ یوں نظر آرہی ہے کہ ملکی سطح پر سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی دشمن ـ صوبائی سطح پر ہر صوبہ دوسرے صوبہ کے خلاف ـ شہری سطح پر، ہر قوم دوسری قوم کے خلاف، ہر زبان بولنے والا اپنی زبان کو دوسروں کی زبان سے برتر تسلیم کروانے پر بضد ـ ایک عقیدے کا حامل شخص دوسرے عقیدے والے کو کافر سمجھنے لگا، مزید یہ کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے، اپنے اپنے خیالات اور سوچ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، بھائی، بھائی کا دشمن، بیٹا باپ اور ماں کا دشمن، ایک ہی خاندان اور برادری کے لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف سرگرم سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ تقسیم کہاں پر جاکر ختم ہوگی ـ؟ بقولِ غالب ــ یوں ہی روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں ــــــــــــــــــ دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں ــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ ـ 3 , دسمبر، 2019 ــ

....... غیرت کے نام پر قتل،  یا " کاروکاری " .......ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق :ـــ  نظریاتی اور سرحدی اختلافات کے باوجود پاک و ہند کے مابین چند گہرے ثقافتی اور جزباتی رسم و رواج ابھی تک برقرار اور یکساں ہیں ـ ان میں اچھی روایات کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی تشویشناک اور قبیح عمل کا رواج بھی شامل ہے،  جی ہاں وہ ہے غیرت کے نام پر قتل،  جسے ہمارے ہاں سندھ میں " کاروکاری " بھی کہا جاتا ہے ـیہ ایک انتہائی متشددانہ، غیرفطری اور غیرانسانی رسم ہے،  جوکہ قدیم دور سے چلی آرہی ہے، اس ہیبت ناک رسم پر دونوں ممالک میں سے کسی ملک میں بھی اعلیٰ سطح پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا ـ اور نہ ہی اس مسئلے پر لوگوں کی ذہنی تربیت کا کوئی معقول بندوبست کیا گیا ہے ـ " بس چلی جارہی ہے خدا کے سہارے "  ــــــــانڈیا میں یہ قتل و غارتگری خاندانی غیرت اور خاندانی وقار کے نام پر کی جاتی ہے ـ  جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ درندگی خاندانی وقار کے علاوہ اسلام اور قبائلی جذبۂ انتقام کے نام پر بھی کی جاتی ہے ـ  ستم ظریفی یہ ہے کہ اس قدر گھناؤنے جرم پر کوئی بھی پشیمان یا شرمسار نہیں ہوتا،  بلکہ اس شرمناک فعل کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے،  اور اس فعل کے بعد اپنی انا کی ناک کو مزید اونچا سمجھ لیا جاتا ہے ـالمیہ یہ ہے کہ اس طرح کے قتل یا جرائم کوئی باقائدہ جرائم پیشہ قاتل، یا کوئی جنونی لوگ نہیں کرتے، بلکہ بقول شاعر ـــ " اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے "،  کے مصداق یہ قابلِ نفرت کام قریب ترین اعزاء اور رشتہ دار انجام دیتے ہیں،  جیسا کہ باپ،  ماں، بیٹا،  بھائی،  چچا، تایا،  دیور،  جیٹھ، بھتیجا،  بھانجہ وغیرہ ـ  بعض مقامات پر یہ درندگی قبیلے کے سردار یا سرپنچ کے حکم پر بھی عمل میں لائی جاتی ہے ـــاس طرح کے قتل کو عام طور پر " اسلامی غیرت "  کا نام بھی دیا جاتا ہے،  حالانکہ تاریخِ اسلام اور اسلامی احکامات میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ـ  جبکہ مشرکینِ مکہ نے دورِ جہالت میں چند ایک واقعات کے مطابق اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور ضرور کیا تھا، وہ بھی اس لئے کہ جہالت کے زیرِ اثر ان کا خیال تھا کہ ہم کسی کو اپنا داماد بناکر اپنی بیٹی اس کے حوالے کیوں کریں ـ وہ اس لئے کہ اس بات سے انہیں  ندامت اور اپنی کمتری کا احساس ہوتا تھا ـ دوسرا یہ کہ بچیوں کو ماردینے کی ایک وجہ ان لوگوں کی غربت بھی ہوتی تھی ـ  مزید یہ کہ اس طرح کے واقعات بھی تاریخ میں تقریباّ نہ ہونے کے برابر ہیں ـ  قرآن و احادیث میں کہیں پر بھی اس طرح کے فعلِ مذموم کرنے کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا ـ  اسلامی تعلیم کے مطابق تو اگر آپ کی بیوی اپنی عصمت میں خیانت کی مرتکب پائی جاتی ہے تو آپ اسے زیادہ سے زیادہ طلاق دیکر خود کو اس سے علیحدہ کرسکتے ہیں،  اسے قتل نہیں کرسکتے ـ اگر آپ کی بہن یا بیٹی آپ کی مرضی کے خلاف کسی سے شادی کرنا چاہتی ہے تو آپ اسے سمجھا سکتے ہیں، بصورتِ دیگر اس کی پسند میں رکاوٹ اس حد تک نہ بنیں کہ اسے قتل کرنے کی نوبت آجائے ـ  اگر کوئی لڑکی کسی غیر مذہب سے شادی کرنا چاہتی ہے تو تب بھی قتل کرنا حد درجہ ظلم سمجھا جائے گا ـ ان باتوں کا حل صرف یہ ہی ہوسکتا ہے کہ بچی کو اس کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے، اور اس کی بھلائی کے لئے خدا سے دعا کرنی چاہئے ـ اگر وہ غلط ہے تو اس کی سرکشی کا بدلہ خدا کے ہاں اسے مل جائے گا ـــ آپ کو اسے اپنی ناک یا خاندانی غیرت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے ـ کیونکہ ہر عمل انسان کی تربیت اور  سوچ کی وجہ سے ہوتا ہے ــ ان تمام محرکات میں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ اگر آپ کی بیٹی کسی کو چاہتی ہے تو آپ اسے اور اس کے آشنا کو قتل کردیتے ہیں، اس کے برعکس اگر آپ کا بیٹا کسی لڑکی کے ساتھ پکڑا جائے تو آپ اس معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اسے جوانی کی بھول کہہ کر بھلا دیا جاتا ہے ـ ـ ـ  کیا یہ غیرت کا دوہرا معیار نہیں ہے ــ؟ ؟ ؟  ــــسوچئے گا ضرور ــ کہ کہیں یہ مکافاتِ عمل تو نہیں ـ؟  کسی بچی کو قتل کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لیجئے گا،  کہ کہیں آپ کے فعلِ بد کی سزا تو آپ کو آپ کی بچی یا بہن کے فعلِ بد کی شکل میں تو نہیں مل رہی ـ؟ ؟ ؟  ـــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ محراب پور سندھ                                فون ـ 03153533437 ..... ‏dt: 19.11.2019

....... غیرت کے نام پر قتل، یا " کاروکاری " .......ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق :ـــ نظریاتی اور سرحدی اختلافات کے باوجود پاک و ہند کے مابین چند گہرے ثقافتی اور جزباتی رسم و رواج ابھی تک برقرار اور یکساں ہیں ـ ان میں اچھی روایات کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی تشویشناک اور قبیح عمل کا رواج بھی شامل ہے، جی ہاں وہ ہے غیرت کے نام پر قتل، جسے ہمارے ہاں سندھ میں " کاروکاری " بھی کہا جاتا ہے ـیہ ایک انتہائی متشددانہ، غیرفطری اور غیرانسانی رسم ہے، جوکہ قدیم دور سے چلی آرہی ہے، اس ہیبت ناک رسم پر دونوں ممالک میں سے کسی ملک میں بھی اعلیٰ سطح پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا ـ اور نہ ہی اس مسئلے پر لوگوں کی ذہنی تربیت کا کوئی معقول بندوبست کیا گیا ہے ـ " بس چلی جارہی ہے خدا کے سہارے " ــــــــانڈیا میں یہ قتل و غارتگری خاندانی غیرت اور خاندانی وقار کے نام پر کی جاتی ہے ـ جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ درندگی خاندانی وقار کے علاوہ اسلام اور قبائلی جذبۂ انتقام کے نام پر بھی کی جاتی ہے ـ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس قدر گھناؤنے جرم پر کوئی بھی پشیمان یا شرمسار نہیں ہوتا، بلکہ اس شرمناک فعل کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، اور اس فعل کے بعد اپنی انا کی ناک کو مزید اونچا سمجھ لیا جاتا ہے ـالمیہ یہ ہے کہ اس طرح کے قتل یا جرائم کوئی باقائدہ جرائم پیشہ قاتل، یا کوئی جنونی لوگ نہیں کرتے، بلکہ بقول شاعر ـــ " اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے "، کے مصداق یہ قابلِ نفرت کام قریب ترین اعزاء اور رشتہ دار انجام دیتے ہیں، جیسا کہ باپ، ماں، بیٹا، بھائی، چچا، تایا، دیور، جیٹھ، بھتیجا، بھانجہ وغیرہ ـ بعض مقامات پر یہ درندگی قبیلے کے سردار یا سرپنچ کے حکم پر بھی عمل میں لائی جاتی ہے ـــاس طرح کے قتل کو عام طور پر " اسلامی غیرت " کا نام بھی دیا جاتا ہے، حالانکہ تاریخِ اسلام اور اسلامی احکامات میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ـ جبکہ مشرکینِ مکہ نے دورِ جہالت میں چند ایک واقعات کے مطابق اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور ضرور کیا تھا، وہ بھی اس لئے کہ جہالت کے زیرِ اثر ان کا خیال تھا کہ ہم کسی کو اپنا داماد بناکر اپنی بیٹی اس کے حوالے کیوں کریں ـ وہ اس لئے کہ اس بات سے انہیں ندامت اور اپنی کمتری کا احساس ہوتا تھا ـ دوسرا یہ کہ بچیوں کو ماردینے کی ایک وجہ ان لوگوں کی غربت بھی ہوتی تھی ـ مزید یہ کہ اس طرح کے واقعات بھی تاریخ میں تقریباّ نہ ہونے کے برابر ہیں ـ قرآن و احادیث میں کہیں پر بھی اس طرح کے فعلِ مذموم کرنے کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا ـ اسلامی تعلیم کے مطابق تو اگر آپ کی بیوی اپنی عصمت میں خیانت کی مرتکب پائی جاتی ہے تو آپ اسے زیادہ سے زیادہ طلاق دیکر خود کو اس سے علیحدہ کرسکتے ہیں، اسے قتل نہیں کرسکتے ـ اگر آپ کی بہن یا بیٹی آپ کی مرضی کے خلاف کسی سے شادی کرنا چاہتی ہے تو آپ اسے سمجھا سکتے ہیں، بصورتِ دیگر اس کی پسند میں رکاوٹ اس حد تک نہ بنیں کہ اسے قتل کرنے کی نوبت آجائے ـ اگر کوئی لڑکی کسی غیر مذہب سے شادی کرنا چاہتی ہے تو تب بھی قتل کرنا حد درجہ ظلم سمجھا جائے گا ـ ان باتوں کا حل صرف یہ ہی ہوسکتا ہے کہ بچی کو اس کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے، اور اس کی بھلائی کے لئے خدا سے دعا کرنی چاہئے ـ اگر وہ غلط ہے تو اس کی سرکشی کا بدلہ خدا کے ہاں اسے مل جائے گا ـــ آپ کو اسے اپنی ناک یا خاندانی غیرت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے ـ کیونکہ ہر عمل انسان کی تربیت اور سوچ کی وجہ سے ہوتا ہے ــ ان تمام محرکات میں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ اگر آپ کی بیٹی کسی کو چاہتی ہے تو آپ اسے اور اس کے آشنا کو قتل کردیتے ہیں، اس کے برعکس اگر آپ کا بیٹا کسی لڑکی کے ساتھ پکڑا جائے تو آپ اس معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اسے جوانی کی بھول کہہ کر بھلا دیا جاتا ہے ـ ـ ـ کیا یہ غیرت کا دوہرا معیار نہیں ہے ــ؟ ؟ ؟ ــــسوچئے گا ضرور ــ کہ کہیں یہ مکافاتِ عمل تو نہیں ـ؟ کسی بچی کو قتل کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لیجئے گا، کہ کہیں آپ کے فعلِ بد کی سزا تو آپ کو آپ کی بچی یا بہن کے فعلِ بد کی شکل میں تو نہیں مل رہی ـ؟ ؟ ؟ ـــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ محراب پور سندھ فون ـ 03153533437 ..... ‏dt: 19.11.2019

جِبِلَّت اور فطرت === تحریر  ــ  غلام محمد وامِق ــــــــــــ یہ ایک خالص علمی گفتگو ہے، لہٰذا  دلیل کے ساتھ  اختلاف کرنے کا آپ کو مکمل حق حاصل ہے ــــ       اہلِ علم حضرات کے لئے یہ عنوان کوئی غیرمانوس نہیں ہے ـ دراصل یہ علمی اور فلسفیانہ بحث ہے،  بہت سے علماء نے اس موضوع پر اپنی بیش قیمت آراء لکھی ہیں ـ لیکن کوئی ٹھوس، مدلل اور قطعی فیصلہ نہیں دیا گیا ـ  مختلف مکتبہء فکر نے مختلف آراء کا اظہار فرمایا ہے ـ  اور اس مسئلے پر بڑی بڑی فلسفیانہ بحثیں کی گئی ہیں،  بات تو بہت لمبی ہوسکتی ہے لیکن میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس مسئلے پر بات کروں گا ــ کچھ علماء نے فطرت اور جبلت کی الگ الگ تشریحات کی ہیں، اور کچھ نے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کردیا ہے ـ  جبکہ کچھ نے جبلت اور فطرت کو ایک ہی جذبے اور احساس کا نام دیا ہے، اس مسئلے پر میں کسی سے اختلاف نہیں کررہا بلکہ بات مزید واضح کرنے اور سمجھنے کے لئے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں ـ مختصراّ یہ کہ جِبِلَّت میں کوئی بھی ارادہ یا اختیار شامل نہیں ہوتا، جبکہ فطرت میں تھوڑا بہت ارادہ بھی شامل ہوتا ہے،  دوسرے لفظوں میں فطرت،  عادت کے قریب ترین عمل ہے ـ عادت کو تبدیل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا جبکہ فطرت پر کنٹرول کرنا تقریباّ ناممکن ہوتا ہے ـ فطرت اور جبلت میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ سب انسانوں کی فطرت ایک جیسی نہیں ہوتی،  فطرت نیک اور بد بھی ہوتی ہے، جبکہ تمام انسانوں کی جبلت ایک جیسی ہوتی ہے ـ  فطرت کے متعلق ہم عام طور پر سنتے ہیں کہ فلاں شخص نیک فطرت ہے، اور فلاں شخص بدفطرت ہے ـ بعض جبلتیں انسانوں اور حیوانوں میں یکساں ہوتی ہیں، مثال کے طور پر بھوک، پیاس لگنا، رفع حاجت کرنا،  کسی بھی قسم کی قید اور پابندیوں کو برضا ورغبت قبول نہ کرنا، جنسی تسکین حاصل کرنا، دشمن سے محفوظ ہونا، وغیرہ  وغیرہ  ــ ـ جبکہ انسانی فطرت میں خوب سے خوب تر کی تلاش، رہائش اور جنسی تسکین کے لئے پرسکون حالات، شامل ہیں ـ مزید انسانی فطرت میں زندگی کو خوبصورت بنانا، اپنی نسل کی بقا کی خواہش کرنا، بھی شامل ہیں، جنہیں ہر انسان اپنے اپنے دستیاب ماحول اور حالات کے مطابق پورا کرتا ہے ـ نیز حاکم بننا، محکوم رہنا، لڑنا جھگڑنا، حسد کرنا، اور چاہنا، اور چاہے جانے کی خواہش، نفرت اور محبت کے جزبات بھی انسانی فطرت میں شامل ہیں ـ  نیز مل جل کر رہنا اور سماجی و معاشی زندگی گزارنا بھی انسانی فطرت کی خصوصیات ہیں ـ جبلت، فطرت سے اولین درجہ رکھتی ہے، کیونکہ جبلت انسانی ہو یا حیوانی تبدیل نہیں ہوسکتی ـ جیسا کہ درندے ( شیر وغیرہ)  چیر پھاڑ کر کھاتے ہیں " گوشت کھاتے ہیں،  وہ گھاس نہیں کھاسکتے، اسی طرح چوپائے گھاس کھاتے ہیں وہ گوشت نہیں کھاسکتے یہ ان کی جبلت میں شامل ہے،  اسے مزید ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے،  جیسا کہ اولین انسان حضرت آدم کے بڑے بیٹے قابیل نے اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کو فقط ایک عورت کے حصول کے لئے قتل کردیا تھا، وجہ جنسی رقابت تھی، جنسی تسکین ہر انسان کی جبلت میں شامل ہے، لیکن اس کا حصول ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق کرتا ہے. قابیل اور ہابیل اپنی جبلت ( جنسی تسکین)  کے لئے فطری طور پر ایک ہی عورت کو چاہتے تھے ـ  چنانچہ قابیل کی فطرت میں جارحیت اور تشدد تھا، لہٰذا اس نے اپنی فطرت سے مجبور ہوکر اپنے بھائی کو بھی قتل کردیا، جبکہ ہابیل کی فطرت میں امن پسندی، رحم اور صلح جوئی تھا، جس کی وجہ سے ہابیل نے خود جارحیت مناسب نہ سمجھی اور قاتل بننے کی بجائے مقتول بن گیا ــ  میرے اندازِ فکر کے مطابق جبلت اور فطرت کا فرق شاید بہت حد تک واضح ہوگیا ہے، وماعلیناالی البلاغ  ـــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ  07.11.2019. ‏dt ‎.... فون ـ 03153533437

جِبِلَّت اور فطرت === تحریر ــ غلام محمد وامِق ــــــــــــ یہ ایک خالص علمی گفتگو ہے، لہٰذا دلیل کے ساتھ اختلاف کرنے کا آپ کو مکمل حق حاصل ہے ــــ اہلِ علم حضرات کے لئے یہ عنوان کوئی غیرمانوس نہیں ہے ـ دراصل یہ علمی اور فلسفیانہ بحث ہے، بہت سے علماء نے اس موضوع پر اپنی بیش قیمت آراء لکھی ہیں ـ لیکن کوئی ٹھوس، مدلل اور قطعی فیصلہ نہیں دیا گیا ـ مختلف مکتبہء فکر نے مختلف آراء کا اظہار فرمایا ہے ـ اور اس مسئلے پر بڑی بڑی فلسفیانہ بحثیں کی گئی ہیں، بات تو بہت لمبی ہوسکتی ہے لیکن میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس مسئلے پر بات کروں گا ــ کچھ علماء نے فطرت اور جبلت کی الگ الگ تشریحات کی ہیں، اور کچھ نے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کردیا ہے ـ جبکہ کچھ نے جبلت اور فطرت کو ایک ہی جذبے اور احساس کا نام دیا ہے، اس مسئلے پر میں کسی سے اختلاف نہیں کررہا بلکہ بات مزید واضح کرنے اور سمجھنے کے لئے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں ـ مختصراّ یہ کہ جِبِلَّت میں کوئی بھی ارادہ یا اختیار شامل نہیں ہوتا، جبکہ فطرت میں تھوڑا بہت ارادہ بھی شامل ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں فطرت، عادت کے قریب ترین عمل ہے ـ عادت کو تبدیل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا جبکہ فطرت پر کنٹرول کرنا تقریباّ ناممکن ہوتا ہے ـ فطرت اور جبلت میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ سب انسانوں کی فطرت ایک جیسی نہیں ہوتی، فطرت نیک اور بد بھی ہوتی ہے، جبکہ تمام انسانوں کی جبلت ایک جیسی ہوتی ہے ـ فطرت کے متعلق ہم عام طور پر سنتے ہیں کہ فلاں شخص نیک فطرت ہے، اور فلاں شخص بدفطرت ہے ـ بعض جبلتیں انسانوں اور حیوانوں میں یکساں ہوتی ہیں، مثال کے طور پر بھوک، پیاس لگنا، رفع حاجت کرنا، کسی بھی قسم کی قید اور پابندیوں کو برضا ورغبت قبول نہ کرنا، جنسی تسکین حاصل کرنا، دشمن سے محفوظ ہونا، وغیرہ وغیرہ ــ ـ جبکہ انسانی فطرت میں خوب سے خوب تر کی تلاش، رہائش اور جنسی تسکین کے لئے پرسکون حالات، شامل ہیں ـ مزید انسانی فطرت میں زندگی کو خوبصورت بنانا، اپنی نسل کی بقا کی خواہش کرنا، بھی شامل ہیں، جنہیں ہر انسان اپنے اپنے دستیاب ماحول اور حالات کے مطابق پورا کرتا ہے ـ نیز حاکم بننا، محکوم رہنا، لڑنا جھگڑنا، حسد کرنا، اور چاہنا، اور چاہے جانے کی خواہش، نفرت اور محبت کے جزبات بھی انسانی فطرت میں شامل ہیں ـ نیز مل جل کر رہنا اور سماجی و معاشی زندگی گزارنا بھی انسانی فطرت کی خصوصیات ہیں ـ جبلت، فطرت سے اولین درجہ رکھتی ہے، کیونکہ جبلت انسانی ہو یا حیوانی تبدیل نہیں ہوسکتی ـ جیسا کہ درندے ( شیر وغیرہ) چیر پھاڑ کر کھاتے ہیں " گوشت کھاتے ہیں، وہ گھاس نہیں کھاسکتے، اسی طرح چوپائے گھاس کھاتے ہیں وہ گوشت نہیں کھاسکتے یہ ان کی جبلت میں شامل ہے، اسے مزید ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے، جیسا کہ اولین انسان حضرت آدم کے بڑے بیٹے قابیل نے اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کو فقط ایک عورت کے حصول کے لئے قتل کردیا تھا، وجہ جنسی رقابت تھی، جنسی تسکین ہر انسان کی جبلت میں شامل ہے، لیکن اس کا حصول ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق کرتا ہے. قابیل اور ہابیل اپنی جبلت ( جنسی تسکین) کے لئے فطری طور پر ایک ہی عورت کو چاہتے تھے ـ چنانچہ قابیل کی فطرت میں جارحیت اور تشدد تھا، لہٰذا اس نے اپنی فطرت سے مجبور ہوکر اپنے بھائی کو بھی قتل کردیا، جبکہ ہابیل کی فطرت میں امن پسندی، رحم اور صلح جوئی تھا، جس کی وجہ سے ہابیل نے خود جارحیت مناسب نہ سمجھی اور قاتل بننے کی بجائے مقتول بن گیا ــ میرے اندازِ فکر کے مطابق جبلت اور فطرت کا فرق شاید بہت حد تک واضح ہوگیا ہے، وماعلیناالی البلاغ ـــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ 07.11.2019. ‏dt ‎.... فون ـ 03153533437

.ــــــــــ دلفریب نعرے اور مایوس عوام ــــــــ تحریر ــ  غلام محمد  وامِق، ـــــ     ہمارے بچپن اور لڑکپن میں ملک پر " مارشل لاء " نافذ تھا ہم (عوام) نے سمجھا کہ مارشل لاء ہی ملک کے لئے بہتر ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ مارشل لاء کے ہوتے ہوئے ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے ـــــ ۲. پھر ملک میں " سوشلزم " کے ساتھ "روٹی، کپڑا اور مکان " کا دلفریب نعرہ آیا ــــ ہم (عوام) نے سمجھا کہ یہ ہی نعرہ ملک کے مفاد میں ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس نعرہ کے خالق کا انجام انتہائی خوفناک ہوا ـ۳. پھر ملک میں " اسلامی نظام کے نفاذ " کا دعویٰ کیا گیا اور ساتھ ہی " اسلامی جہاد " شروع کردیا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ شاید ملک اب اپنی اصل منزل پر پہنچ چکا ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ اسلامی نظام نافذ کرنے والے مجاہد کا انجام انتہائی ہیبت ناک ہوا ـ  ۴. پھر ملک کو " ملک سنوارو، قرض اتارو " کا نعرہ دیا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ اب ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس نعرے کے خالق کو ہی  ملک بدر ہونا پڑا ـ  ۵. پھر ملک میں " اصل جمہوریت " کا نعرہ لگایا گیا ــ ہم (عوام)  نے سمجھا کہ شاید اب ملک کا نظام تبدیل ہونے والا ہے ــ لیکن ہم نے دیکھا کہ بعدازاں اصل جمہوریت کی دعویدار کو بھی سرِ عام گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا ـ  ۶. پھر ملک میں سب سے "پہلے پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ " کا نعرہ لگایا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ اصل منزل اب قریب ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ دہشت گردی کے خلاف بات کرنے والے کو غدار کہا گیا، چنانچہ اسے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی ـ ۷. پھر ملک میں "پاکستان کھپے " اور " جمہوریت ہی اصل انتقام ہے " کا نعرہ لگایا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ اب منزل دور نہیں ـــ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس طرح کے نعرے مارنے والے کو بھی پابندِ سلاسل ہونا پڑا ـ۸. پھر ملک میں " معاشی اصلاحات اور سی پیک سے سڑکوں کا جال بچھانے " کا نعرہ لگایا گیا ـ ہم (عوام)  نے سمجھا کہ شاید اب ملک خوشحال ہونے والا ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس نعرہ کے مارنے والے کو بھی مع اہلِ خانہ قید میں ڈال دیا گیا ـ۹. ( اس دوران ملک بھر میں قوم پرست تحریکیں زور پکڑنے لگیں، اور قوم پرستی کے نعرے سننے میں آئے)  ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ اب ہمارے تمام حقوق ملنے والے ہیں ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ تمام قوم پرست تحاریک کچل دی گئیں، اور قوم پرستوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچادیا گیا ــ  ۱۰.  پھر ملک میں "چوروں کے احتساب " نیا پاکستان "اور "ریاستِ مدینہ " کا پرجوش نعرہ لگایا گیا  ـ  ہم (عوام) نے یقین کرلیا کہ یہ ہی اس ملک کی اصل منزل ہے ـ  لیکن ہم نے دیکھا کہ غریب کی زندگی محال اور ابتر ہوگئی، اور اب عوام منتظر ہیں کہ دیکھئے اس جدید نعرے کا کیا حشر ہوتا ہے ـــ؟ــــــــــــــــــــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ  فون ـ 03153533437 .......... ‏dt: 27.10.2019

.ــــــــــ دلفریب نعرے اور مایوس عوام ــــــــ تحریر ــ غلام محمد وامِق، ـــــ ہمارے بچپن اور لڑکپن میں ملک پر " مارشل لاء " نافذ تھا ہم (عوام) نے سمجھا کہ مارشل لاء ہی ملک کے لئے بہتر ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ مارشل لاء کے ہوتے ہوئے ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے ـــــ ۲. پھر ملک میں " سوشلزم " کے ساتھ "روٹی، کپڑا اور مکان " کا دلفریب نعرہ آیا ــــ ہم (عوام) نے سمجھا کہ یہ ہی نعرہ ملک کے مفاد میں ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس نعرہ کے خالق کا انجام انتہائی خوفناک ہوا ـ۳. پھر ملک میں " اسلامی نظام کے نفاذ " کا دعویٰ کیا گیا اور ساتھ ہی " اسلامی جہاد " شروع کردیا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ شاید ملک اب اپنی اصل منزل پر پہنچ چکا ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ اسلامی نظام نافذ کرنے والے مجاہد کا انجام انتہائی ہیبت ناک ہوا ـ ۴. پھر ملک کو " ملک سنوارو، قرض اتارو " کا نعرہ دیا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ اب ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس نعرے کے خالق کو ہی ملک بدر ہونا پڑا ـ ۵. پھر ملک میں " اصل جمہوریت " کا نعرہ لگایا گیا ــ ہم (عوام) نے سمجھا کہ شاید اب ملک کا نظام تبدیل ہونے والا ہے ــ لیکن ہم نے دیکھا کہ بعدازاں اصل جمہوریت کی دعویدار کو بھی سرِ عام گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا ـ ۶. پھر ملک میں سب سے "پہلے پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ " کا نعرہ لگایا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ اصل منزل اب قریب ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ دہشت گردی کے خلاف بات کرنے والے کو غدار کہا گیا، چنانچہ اسے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی ـ ۷. پھر ملک میں "پاکستان کھپے " اور " جمہوریت ہی اصل انتقام ہے " کا نعرہ لگایا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ اب منزل دور نہیں ـــ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس طرح کے نعرے مارنے والے کو بھی پابندِ سلاسل ہونا پڑا ـ۸. پھر ملک میں " معاشی اصلاحات اور سی پیک سے سڑکوں کا جال بچھانے " کا نعرہ لگایا گیا ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ شاید اب ملک خوشحال ہونے والا ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ اس نعرہ کے مارنے والے کو بھی مع اہلِ خانہ قید میں ڈال دیا گیا ـ۹. ( اس دوران ملک بھر میں قوم پرست تحریکیں زور پکڑنے لگیں، اور قوم پرستی کے نعرے سننے میں آئے) ـ ہم (عوام) نے سمجھا کہ اب ہمارے تمام حقوق ملنے والے ہیں ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ تمام قوم پرست تحاریک کچل دی گئیں، اور قوم پرستوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچادیا گیا ــ ۱۰. پھر ملک میں "چوروں کے احتساب " نیا پاکستان "اور "ریاستِ مدینہ " کا پرجوش نعرہ لگایا گیا ـ ہم (عوام) نے یقین کرلیا کہ یہ ہی اس ملک کی اصل منزل ہے ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ غریب کی زندگی محال اور ابتر ہوگئی، اور اب عوام منتظر ہیں کہ دیکھئے اس جدید نعرے کا کیا حشر ہوتا ہے ـــ؟ــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ فون ـ 03153533437 .......... ‏dt: 27.10.2019

 ‎مرتد کی سزا موت نہیں ـ  ایک  تاریخی حکایت ===  شام کا ایک نامور فرمانروا جبلہ بن ابہم غسانی. مسلمان ہوگیا تھا، کعبۃ اللہ کا طواف کرتے وقت اس کی چادر کا کونہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آگیا ـ  جبلہ نے اسے تھپڑ مارا، اس شخص نے بھی برابر کا جواب دیا، جبلہ نے آکر حضرت عمر رضہ سے شکایت کی ـ آپ نے فرمایا تم نے جیسا کیا ویسا پایا، جبلہ نے پندارِ امارت میں کہا،  ہم وہ ہیں کہ اگر کوئی شخص ہم سے گستاخی سے پیش آئے تو ہم اسے قتل کردیتے ہیں ـ حضرت عمر رضہ نے فرمایا کہ ہاں جاہلیت میں ایسا ہی تھا، لیکن اسلام نے پست و بلند کو ایک کردیا ـ جبلہ نے کہا اگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں شریف و ذلیل کا امتیاز ہی نہیں تو میں اس سے باز آتا ہوں ـ  لیکن حضرت عمر رضہ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی ــ   (بحوالہ تاریخِ اسلام، از شاہ معین الدین احمد ندوی) ـــــــــــــ اس میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے تو جبلہ جو کہ مرتد ہوگیا تھا، اسے قتل کیوں نہیں کیا گیا ـ؟؟؟  ــ  ( صرف ایک علمی تحقیق کے لئے) ـــ  تحریر ـ  غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ ـ                      فون، 03153533437

‎مرتد کی سزا موت نہیں ـ ایک تاریخی حکایت === شام کا ایک نامور فرمانروا جبلہ بن ابہم غسانی. مسلمان ہوگیا تھا، کعبۃ اللہ کا طواف کرتے وقت اس کی چادر کا کونہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آگیا ـ جبلہ نے اسے تھپڑ مارا، اس شخص نے بھی برابر کا جواب دیا، جبلہ نے آکر حضرت عمر رضہ سے شکایت کی ـ آپ نے فرمایا تم نے جیسا کیا ویسا پایا، جبلہ نے پندارِ امارت میں کہا، ہم وہ ہیں کہ اگر کوئی شخص ہم سے گستاخی سے پیش آئے تو ہم اسے قتل کردیتے ہیں ـ حضرت عمر رضہ نے فرمایا کہ ہاں جاہلیت میں ایسا ہی تھا، لیکن اسلام نے پست و بلند کو ایک کردیا ـ جبلہ نے کہا اگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں شریف و ذلیل کا امتیاز ہی نہیں تو میں اس سے باز آتا ہوں ـ لیکن حضرت عمر رضہ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی ــ (بحوالہ تاریخِ اسلام، از شاہ معین الدین احمد ندوی) ـــــــــــــ اس میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے تو جبلہ جو کہ مرتد ہوگیا تھا، اسے قتل کیوں نہیں کیا گیا ـ؟؟؟ ــ ( صرف ایک علمی تحقیق کے لئے) ـــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ فون، 03153533437

 ‎نظریاتی عدم برداشت کا خوفناک رجحان  ــ      تحریر ـ  غلام محمد وامِق ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے لوگوں میں تحمل، برداشت اور بردباری عروج پر ہوتی تھی ـ کسی بھی خلافِ مِزاج بات یا خلافِ عقیدہ بات کا جواب دلیل سے دیا جاتا تھا،  دونوں اطراف سے دلائل کی جنگ ہوتی تھی، جس کے باعث لوگوں میں علمی ذوق بڑھتا تھا ـ ـ ـ  آج تو کسی بھی قسم کی نظریاتی مخالفت ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے ـــ اور مخالف سوچ کے آدمی کو ردِعمل میں قتل کردیا جاتا ہے ـ  کسی بھی شخص کے ماردینے سے اس کے نظریات ختم نہیں ہوتے،  بلکہ مزید بڑھتے ہیں ـ یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ مخالف نظریات کی بنا پر کسی آدمی کو ماردینے سے، آدمی تو مر جاتا ہے لیکن اس کے نظریات زندہ ہوجاتے ہیں ـ زور اور زبردستی سے کئے گئے ہر عمل کا ردِعمل انتہائی شدید ہوتا ہے ـ اگر کسی کے نظریات کو مارنا ہے تو دلائل سے مارو ـ ـ ـ اگر آپ کے دلائل میں وزن ہے اور وہ مضبوط اور سچے ہیں تو مخالف نظریات خودبخود مرجائیں گے ـــ اور جب کسی کے نظریات مرجائیں تو ان کا حامل شخص بھی خودبخود اپنی حیثیت کھودیتا ہے، گویا وہ بھی مرجاتا ہے ـ چنانچہ دلیل کا جواب دلیل سے دو، اور خود بھی جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو ـــ  اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ ـ           ( وماعلینا الی البلاغ ) ـ ـ ـ  از ـ جی ایم وامِق، محراب پور سندھ ـ ‏dated..25.08.2019 ــ فون  ــ 03153533437

‎نظریاتی عدم برداشت کا خوفناک رجحان ــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے لوگوں میں تحمل، برداشت اور بردباری عروج پر ہوتی تھی ـ کسی بھی خلافِ مِزاج بات یا خلافِ عقیدہ بات کا جواب دلیل سے دیا جاتا تھا، دونوں اطراف سے دلائل کی جنگ ہوتی تھی، جس کے باعث لوگوں میں علمی ذوق بڑھتا تھا ـ ـ ـ آج تو کسی بھی قسم کی نظریاتی مخالفت ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے ـــ اور مخالف سوچ کے آدمی کو ردِعمل میں قتل کردیا جاتا ہے ـ کسی بھی شخص کے ماردینے سے اس کے نظریات ختم نہیں ہوتے، بلکہ مزید بڑھتے ہیں ـ یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ مخالف نظریات کی بنا پر کسی آدمی کو ماردینے سے، آدمی تو مر جاتا ہے لیکن اس کے نظریات زندہ ہوجاتے ہیں ـ زور اور زبردستی سے کئے گئے ہر عمل کا ردِعمل انتہائی شدید ہوتا ہے ـ اگر کسی کے نظریات کو مارنا ہے تو دلائل سے مارو ـ ـ ـ اگر آپ کے دلائل میں وزن ہے اور وہ مضبوط اور سچے ہیں تو مخالف نظریات خودبخود مرجائیں گے ـــ اور جب کسی کے نظریات مرجائیں تو ان کا حامل شخص بھی خودبخود اپنی حیثیت کھودیتا ہے، گویا وہ بھی مرجاتا ہے ـ چنانچہ دلیل کا جواب دلیل سے دو، اور خود بھی جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو ـــ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ ـ ( وماعلینا الی البلاغ ) ـ ـ ـ از ـ جی ایم وامِق، محراب پور سندھ ـ ‏dated..25.08.2019 ــ فون ــ 03153533437

یومِ آزادی پاکستان ـ یومِ قیامِ پاکستان ـ یومِ تشکیلِ پاکستان ـ؟؟؟ انتہائی معزرت کے ساتھ ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق  ــــــــــ   برائے تمہید ـــ ایک عام آدمی کی سوچ ــ ایک خاص آدمی کی سوچ ـ ایک محقق آدمی کی سوچ ـ عام آدمی سے مراد، وہ لوگ ہیں جو ہر کام صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے کرتے ہیں ـ خاص آدمی سے مراد ایسے تمام متحرک لوگ ہیں جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق معاشرے کے تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ـ ـ ـ  مثلاﹰ، سماجی ورکر، سیاستدان، شاعر، ادیب،  صحافی وغیرہ ـ ـ ـ جبکہ محقق آدمی تمام مروج اصولوں اور نظریات سے قطع نظر اپنے سامنے آنے والے ہر مسئلے اور ہر منظر کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، اور بغیر تحقیق کسی بھی سوچ یا نظرئے کے مقلد نہیں بنتے ـــ تو جب ہم ایک محقق کی نظر سے مذکورہ بالا عنوان کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شدید حیرت و استعجاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ہم لوگ ہرسال باقاعدگی سے پاکستان کی آزادی کا جشن مناتے ہیں لیکن کسی بھی اربابِ اقتدار نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ " پاکستان " تو کبھی غلام رہا ہی نہیں تو آزادی کس بات کی ـ؟  غلام تو برِصغیر ہندوستان تھا ـ جس میں ہمارا یہ خطہ جسے بعد میں پاکستان کا نام دیاگیا، یہ متحدہ ہندوستان کی صورت میں برطانیہ کا غلام تھا ـ  ہندوستان کی آزادی کے فوراﹰ  بعد ہی پاکستان دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا ـ اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا، یا پاکستان کی تشکیل ہوئی ـ  لہٰذا ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ، یہ خطہ غلام ضرور رہا ہے، لیکن بحیثیتِ پاکستان ہم کبھی کسی کے غلام نہیں رہے ـ ــ یعنی ہندوستان کی آزادی کے بعد پاکستان تخلیق کیا گیا ـ  لہٰذا ہمیں چودہ اگست کے دن کو " جشنِ آزادی " کے بجائے " جشنِ قیامِ پاکستان " منانا چاہئے ـــ ‏No, ‏Independence day of Pakistan.  ‏But ‎...... ‏Creative day of Pakistan  ‎................................  اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے ـــ شاید کہ اتر جائے، تیرے دل میں میری بات ـ (علامہ اقبال) تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ                فون نمبر ـ 03153533437 ...... ‏dt: 14.08.2019

یومِ آزادی پاکستان ـ یومِ قیامِ پاکستان ـ یومِ تشکیلِ پاکستان ـ؟؟؟ انتہائی معزرت کے ساتھ ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق ــــــــــ برائے تمہید ـــ ایک عام آدمی کی سوچ ــ ایک خاص آدمی کی سوچ ـ ایک محقق آدمی کی سوچ ـ عام آدمی سے مراد، وہ لوگ ہیں جو ہر کام صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے کرتے ہیں ـ خاص آدمی سے مراد ایسے تمام متحرک لوگ ہیں جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق معاشرے کے تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ـ ـ ـ مثلاﹰ، سماجی ورکر، سیاستدان، شاعر، ادیب، صحافی وغیرہ ـ ـ ـ جبکہ محقق آدمی تمام مروج اصولوں اور نظریات سے قطع نظر اپنے سامنے آنے والے ہر مسئلے اور ہر منظر کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، اور بغیر تحقیق کسی بھی سوچ یا نظرئے کے مقلد نہیں بنتے ـــ تو جب ہم ایک محقق کی نظر سے مذکورہ بالا عنوان کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شدید حیرت و استعجاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ہم لوگ ہرسال باقاعدگی سے پاکستان کی آزادی کا جشن مناتے ہیں لیکن کسی بھی اربابِ اقتدار نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ " پاکستان " تو کبھی غلام رہا ہی نہیں تو آزادی کس بات کی ـ؟ غلام تو برِصغیر ہندوستان تھا ـ جس میں ہمارا یہ خطہ جسے بعد میں پاکستان کا نام دیاگیا، یہ متحدہ ہندوستان کی صورت میں برطانیہ کا غلام تھا ـ ہندوستان کی آزادی کے فوراﹰ بعد ہی پاکستان دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا ـ اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا، یا پاکستان کی تشکیل ہوئی ـ لہٰذا ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ، یہ خطہ غلام ضرور رہا ہے، لیکن بحیثیتِ پاکستان ہم کبھی کسی کے غلام نہیں رہے ـ ــ یعنی ہندوستان کی آزادی کے بعد پاکستان تخلیق کیا گیا ـ لہٰذا ہمیں چودہ اگست کے دن کو " جشنِ آزادی " کے بجائے " جشنِ قیامِ پاکستان " منانا چاہئے ـــ ‏No, ‏Independence day of Pakistan. ‏But ‎...... ‏Creative day of Pakistan ‎................................ اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے ـــ شاید کہ اتر جائے، تیرے دل میں میری بات ـ (علامہ اقبال) تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ فون نمبر ـ 03153533437 ...... ‏dt: 14.08.2019

  ‎ایک زرداری سب پہ بھاری ــ  اس ریسرچ آرٹیکل میں موجود تقریباً تمام واقعات کی تفصیلات گوگل پر انگلش میں موجود ھیں ـــ اللّٰه نے شیطان کو اس کے تکبر کی وجہ سے بدترین مخلوق بنا دیا۔ اور اس کی وجہ وہ آدم علیہ السلام کو سمجھتا ھے۔ لیکن کبھی کبھی تو وہ اولاد آدم کے کرتوت دیکھ کر خود بھی ششدر رہ جاتاھے۔ ان ھی میں سے ایک کا ناام آصف علی زرداری ھے  آصف علی زرداری نی 26 جولاٸی 1955 کو کراچی میں حاکم علی زرداری کے گھر جنم لیا۔ حاکم علی زرداری ایک عام سے زمیندار تھے اور ذولفقار علی بھٹو کی قریبی ساتھیوں میں ان کا شمار ھوتاتھا۔ 1972 سے 1977 تک قومی اسمبلی کے ممبر رھے۔ حکومت کے آخری حصے میں بھٹو صاحب بڑی ٹینشن میں تھے ۔ کسی بات پر حاکم علی زرداری کو ایک بڑا ھی زوردار تھپڑ دے مارا۔ حاکم علی زرداری اپنی انسلٹ نہ سہہ سکے۔ اور پی پی پی چھوڑ کر اے این پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اور بھٹو سے خار دل میں رکھ لی۔ بھٹو کی پھانسی پر صدر جنرل ضیا۶ الحق کو اجرک پیش کی۔ لیکن غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ھوسکا اور یہ انتقام ان کی اگلی نسل کو منتقل ھو گیا جو بھٹو خاندان کے مکمل صفایا کردینے پر منتج ھوا  حاکم علی زرداری نے  1988 اور 1993 کے انتخابات میں پی پی پی کے پلیٹ فارم سے کامیابی حاصل کی۔ 24 مٸی 2011 کو بڑھاپے کے باعث بہت سی تکالیف میں مبتلا ھوکر پمز میں انتقال کرگٸے۔  آصف علی زرداری نے ابتداٸی تعلیم سینٹ  پیٹرک ھاٸی سکول کراچی میں حاصل کی اور اوسط درجہ میں میٹرک کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رھے۔ اس دوران بطور چاٸلڈ اداکار فلم ساز سجاد کی فلم ”منزل دور نہیں“ میں کام کیا لیکن یہ فلم بالکل ھی ناکام رھی۔ اس کے بعد پٹارو کیڈٹ کالج میں داخلہ لیا لیکن پڑھاٸی پر توجہ نہ ھونے کے برابر تھی۔ اسی دوران بمبینو سینما میں جاب کرنے کا موقع ملا تو اپنے فلمی رحجان کے سبب زرداری نے یہ جاب کرلی اور ترقی کرتے کرتے بالآخر ٹکٹ کلرک کے عہدے تک پہنچ جانے میں کامیاب رھے اور کافی دیر تک بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک کرکے بلیک منی کماتے رھے جسے عرف عام میں حرام کہتے ھیں۔ بمبینو ایک مضبوط کاروباری گروپ تھا جس کے مالک شیخ کاشف امتیاز تھے۔ ایک دن زرداری کے ھاتھ ایسا ڈاکومنٹ لگا جس پر اس کے مالک شیخ امتیاز کے دستخط تھے۔ زرداری کے ذھن میں ایک شیطانی آٸیڈیا آگیا۔ زرداری نے ان دستخطوں کی بھر پور پریکٹس کی۔ اس دوران شیخ کاشف صاحب نے بمبینو کے نام سے سوفٹ ڈرنکس اور ڈبہ پیکنگ میں جوس متعارف کرواٸے۔ ان کا بڑا اچھا رسپانس ملنے پر شیخ صاحب کی زیادہ توجہ اس نٸے کاروبار کی طرف ھوگٸی۔ زرداری نے اپنے والد کو ساتھ ملا کر بمبینو سینما کو ٹھیکے پر لینے کی آفر کی۔ شیخ صاحب نے بدقسمتی سے ان کی آفر قبول کرلی۔ زرداری نے دو ایگریمینٹ تیار کروالٸے ۔ ایک تو ٹھیکے کا ایگریمنٹ تھا اور دوسرا بمبینو سینما کی فروخت کا ایگریمنٹ سیل ڈیڈ تھی۔ کچھ عرصے کے بعد زرداری اور اس کے والد نے سیاسی اثر رسوخ کام میں لاتے ھوٸے جعلی سیل ڈیڈ کی بنیاد پر اس سینما پر قبضہ کرلیا۔ زرداری کی یہ باقاعدہ پہلی بڑی واردات تھی۔ جس کے نتیجے میں شیخ کاشف امتیاز صاحب ٹینشن سے بیمار پڑ گٸے اور ان کا بمبینو بزنس گروپ بھی دیوالیہ ھوگیا۔  1985 میں غیر جاعتی انتخابات ھوٸے تو زرداری نے نواب شاہ سے صوباٸی اسمبلی کے لٸے کاغذات نامزدگی جمع کرواٸے لیکن اخراجات کے لٸے مناسب رقم دستیاب نہ ھونے پر واپس لے لٸے۔  اس دوران بے نظیر بھٹو واپس پاکستان آٸیں تو زرداری کے ذھن میں ایک نیا آٸیڈیا آگیا۔ زرداری کی بہن فریال تالپور کی بے نظیر سے بچپن کی دوستی تھی۔ زرداری نے اپنا آٸیڈیا اپنی فیملی سے ڈسکس کیا اور بےنظیر کا ذھن زرداری سےشادی کے لٸے ھموار کرنے کا ٹاسک فریال تالپور کو دے دیا۔ فریال تالپور پرانی دوستی کے بہانے بےنظیر سے چپک گٸی۔ بےنظیر کو تنہا اور مشکلات کا شکار دیکھ کر اپنا کام بڑے عمدہ طریقے سے کرنے لگ پڑی اور زرداری اور بےنظیر کی ملاقاتیں کرواٸیں جن میں بےنظیر کو احساس دلایا کہ زرداری اس کے لٸے بڑے ھی کام کی چیز ھے۔ دھڑلے والا اور قابل اعتبار ھے۔ اس کے راستوں کے کانٹے چن لے گا۔  بےنظیر شادی کے لٸے مان گٸی اور اس طرح سے زرداری کی تو گویا لاٹری ھی نکل آٸی۔  18 دسمبر 1987 کے دن بڑی دھوم دھام سے یہ شادی انجام پاٸی۔  1988 کے انتخابات میں بینظیر کامیاب ھو کر وزیراعظم بن گٸی اور زرداری ایک شیڈو وزیراعظم۔  ھر ایک فاٸل پر بینظیر کے دستخط کروانے کا معاوضہ زرداری وصول کرنے لگا۔ پھر اس سے آگے بات بڑھی تو مسٹر ٹین پرسنٹ مشھور ھوگیا۔ بے نظیر سے جب اس کی شکاٸت کی گٸی تو اس نے الٹا زرداری کو ڈانٹا کہ تم اتنے کم ریٹ پر کیوں کام کر رھے ھو۔ چنانچہ بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں بات بڑھتے بڑھتے پچاس پرسینٹ تک جاپہنچی۔  1990 برطانوی تاجر مرتضی ٰبخاری کی ٹانگ سے بم باندھ کر زبردستی اس کے بنک اکاٶنٹ میں موجود 8 لاکھ ڈالر نکلوا کر ھتیا لٸے جس پر بہت زیادہ شور مچ گیا تو  کرپشن کے الزامات پر غلام اسحاق خان نے بینظیر حکومت کو برطرف کرکے آصف زرداری اور بینظیر کے خلاف 19 ریفرینس فاٸل کردٸیے۔ لیکن بروقت کوٸی فیصلہ نہ ھونے سے 1990 کے انتخابات میں یہ دونوں میاں بیوی دوبارہ منتخب ھوجانے میں کامیاب رھے۔ اس دفعہ نواز شریف وزیراعظم بن گٸے۔ مگر ہر کسی سے ٹکراٶ اور اختیارات اور دولت کی ھوس میں 1993 میں کرپشن کے الزامات پر دفعہ   2b( 58) کے تحت برطرف کردٸے گٸے۔  میر بلخ شیر مزاری کی نگران کابینہ بنی تو زرداری اس میں شامل ھوگٸے۔ اسی دوران غلام اسحق خان کا انتقال ھوگیا۔ انتخابات میں بینظیر کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ سردار فاروق احمد لغاری صدر منتخب ھوگٸے اور کرپشن کے وہ 19 ریفرنس بالکل ھی بے اثر ھو کر رہ گٸے۔ زرداری کا ھاتھ اور کھل گیا اور وہ بڑے بڑے ھاتھ مارنے لگے۔ اس دور میں فرانس سے میراج لڑاکاطیارے اور ایٹمی آبدوز کے 4 ارب ڈالر مالیت کے سودے ھوٸے ۔ آبدوز کی اسمبلنگ کراچی یارڈ میں ھوناطے پاٸی۔ ان دونوں سودوں میں مبینہ طور پر بہت بھاری کمیشن طے پاٸی۔ آبدوز کے کمیشن کی آخری قسط حکومت پاکستان کی طرف سے واجبات کی مکمل اداٸیگی کے بعد ھونا قرار پاٸی۔  ستمبر 1996 کے پہلے ھفتے میں زرداری پہلی دفعہ کلین شیو نظر آٸے۔ یہ بڑی ھی حیران کن بات تھی۔ واقفان حال نے بتایا کہ مسٹر زرداری حکومتی طاقت کے زعم میں میر مرتضیٰ بھٹو کے ھاں جا گھسے اور ان سے لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لٸے دیا گیا بلینک چیک مانگا۔ اس پر دونوں میں شدید جھگڑا ھوگیا۔ میر مرتضیٰ بھٹو نے اپنے گارڈز سے زرداری کو خوب اچھی طرح پٹوایا۔ جوتے مرواۓ اور گندے ناپاک پانی سے اس کی آدھی مونچھ بھی منڈوادی۔ زرداری کو اچھی خاصی چوٹیں بھی لگیں۔ کچھ جسم پر اور کچھ دل و دماغ پر ۔  20 ستمبر 1996 کی رات ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراھی میں سندھ پولیس نے نہ رکنے کے الزام پر فاٸرنگ کرکے میر مرتضی بھٹو کو قتل کرڈالا۔ جب تک میر مرتضیٰ بھٹو کا دم نکل نہ گیا، جاۓ وقوع پر ایمبولینس کو نہ آنے دیا گیا۔  وجہ موت وہ گولی بنی جو ایک پسٹل سے تھوڑی کے نیچے رکھ کر چلاٸی گٸی۔ اتنے قریب سے یہ انتقامی گولی کون چلا سکتا تھا؟ اس قتل پر بینظیر نے صرف زبانی واویلا کیا ۔ کیوں کہ اس بلینک چیک کا راز صرف میر مرتضیٰ بھٹو اور بےنظیر کے درمیان تھا۔ یہ کیس بہت جلد داخلِ دفتر کردیا گیا۔  میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور دفاعی سودوں میں اس قدر بڑی کرپشن پر صدر فاروق لغاری شدید پریشان ھوگٸے اور انھوں نے بھی کرپشن کے بھیانک  الزامات پر 5 نومبر 1996 کے دن پی پی پی کی حکومت کو برطرف کردیا۔ برطرفی کے الزامات بہت زیادہ تھے۔ مختصراً کچھ یہاں بیان کردیتے ھیں۔  1۔ دفاعی سودوں میں اور حکومت چلانے میں ہر مرحلے پر کرپشن  2۔ میر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے رفقا۶ کا قتل 3۔ پاکستان سٹیل مل کے چیٸرمین سجاد حسین کا قتل  4۔ سندھ ھاٸیکورٹ کے جسٹس نظام احمد کا قتل  5۔ 9 جنوری 1996 سلطان راھی کا ھوٹل زرداری کے حوالے نہ کرنے پر قتل۔ مقتول کو زرداری نے وزیراعظم ھاٶس بلا کر اس سے ھوٹل بیچنے کو کہا اور انکار پر کھلی دھمکی دی کہ تم اب لاھور نہیں پہنچ پاٶ گے۔ گجرانوالہ تک فیصلہ کرنے کی مہلت دی۔ سلطان راھی بہت ھی پریشان ھوگیا اور وہاں سے نکلتے ھی اپنے دوستوں کو صورتحال فون پر بتادی۔ اس کا باقاعدہ تعاقب کیا جانے لگا۔ گوجرانوالہ کے پاس اس کو روک کر منہ کے اندر پستول کی نالی ڈال کر فلمی انداز میں گولی ماردی گٸی اور وہ واقعی لاھور نہ پہنچ سکا ۔  6۔منشیات کی بہت بھاری پیمانے پر اسمگلنگ اور اس کے لٸے وزیراعظم کے عہدے کا استعمال  7۔ ‏ARY ‎دوبٸی سے 5 میلین ڈالر لے کر اس کو پاکستان کے لٸے اکلوتے سول گولڈ امبورٹر کا سٹیٹس دینا اور خود بھی بھاری مقدار میں سونے کی خریداری ، اسمگلنگ اور اس کا منی لانڈرنگ میں استعمال  8۔ ھیلی کاپٹروں کی خریداری میں گھپلے  9۔ پولینڈ سے ٹریکٹروں کی پراسرار خریداری جبکہ پاکستان دنیا کے مانے ھوٸے بہترین ٹریکٹر خود بہت سستے بنارھا تھا۔  10۔ راک وڈ اسٹیٹ سرے کاٶنٹی کے نام کا ایک بہت ھی بڑے محل کی خریداری  11۔ بے حد مہنگے ھیروں کے ھار کی خریداری  12۔ سوٸس اکاٶنٹس میں 60 کروڑ ڈالر موجودگی  13۔ کوٹیکنا کے نام سے ایک پراسرار فرم بناکر اسے پاکستانی کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں ٹھیکے دینا  14۔ سپین میں آٸل فار فوڈ سکینڈل  15۔ 6 شوگر ملز میں بھاری مالیت کے حصص ھتیانا  16۔ حیدرآباد ، سانگھڑ اور نواب شاہ میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین حکومتی اثر رسوخ سے حاصل کرنا۔  17۔ مختلف ممالک میں مختلف کاروباروں میں مختلف ناموں سے کمپنیاں بنا کر بھاری سرمایہ کاری کرنا  زرداری کے خلاف سوٸس عدالتوں میں کک بیکس اور کرپش کے مقدمات چل پڑے جن میں سٹی بنک میں زرداری کے اکاٶنٹس کو بنیاد بنایا گیا اور اسی بنا۶ پر سٹی بنک کو پاکستان میں اپنے بنکنگ آپریشن سے ھاتھ دھونے پڑے  5 نومبر 1996 کے دن زرداری کو گورنر ھاٶس پنجاب سے گرفتار کیا گیا۔ زرداری نے فرار ھونے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن قسمت نے اس دفعہ ساتھ نہ دیا۔ مسٹر زرداری حکومت پنجاب حاصل کرنے کے لٸے جوڑ توڑ کرنے اور ایم پی اے خریدنے کے لٸے کیمپ لگاٸے ھوٸے تھے جہاں خواجہ احمدطارق رحیم گورنر پنجاب ان کے میزبان اور اس مہم میں مددگار بھی تھے۔ یہاں سے زرداری کا جیل میں قیام کا ایک لمبا دور شروع ھوا جو نومبر 2004 تک جاری رھا۔  جنوری 1998 میں نیویارک ٹاٸمز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ آصف علی زرداری نے فرانس سے 4 ارب ڈالر کے  دفاعی معاھدوں میں 200 ملین ڈالرز کی کک بیکس وصول کیں اور باقی کی پراجیکٹس مکمل ھونے پر کمٹمنٹس لیں۔ اس کے علاوہ زرداری نے پبلک فنڈز میں وسیع پیمانے پر غبن کیا۔ تحقیقاتی ایجینسیوں نے 1.5 ارب ڈالر کی ایک اور کک بیک کا بھی سراغ لگایا۔ زرداری نے بہت سے خفیہ معاہدے بھی کٸے اور ان میں کک بیکس اور کمیشن دوبٸی اور لندن میں کیش وصول کٸے۔ اور اس دوران جس نے بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی زرداری نے اس کو قتل کروادیا۔     1999 میں امریکی سینیٹ میں آصف علی زرداری کی کرپشن اور فنانشل ھسٹری کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر پیش کیا گیا۔ جس میں سٹی بنک نے بڑی ھی جاندار معلومات فراھم کیں۔  1998 میں سوٸس گورنمنٹ نے حکومت پاکستان کو کچھ سرکاری دستاویزات فراھم کیں جن سے پتا چلا کہ بینظیر اور آصف علی زرداری ، دونوں میاں بیوی منی لانڈرنگ میں ملوث پاٸے گٸے ھیں۔ جس پر سوٸس حکومت نے ان دونوں کے خلاف عدالتی کارواٸی شروع کردی ھے۔ ان کا جرم ثابت ھوجانے پر دونوں میاں بیوی کو سوٸس عدالت نے چھ ماہ کی قید اور 50 ھزار ڈالر جرمانے کی سزا سناتے ھوٸے حکم دیا کہ وہ دونوں حکومت پاکستان کو کسٹم ڈیوٹی فراڈ سے حاصل کٸے گٸے 11 ملین ڈالر واپس کریں۔ جو کہ آج تک نہ ھوسکے۔  فرانس، پولینڈ اور سوٸزر لینڈ میں ان دونوں کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کٸی اور کیس بھی داٸر ھوگٸے۔  جیل میں قیام کے دوران بظاہر تو نادار قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیٸے کام کیا جو چھوٹے چھوٹے جراٸم کے الزامات میں اپنی غربت کی وجہ سے قید تھے۔ لیکن زرداری نے درحقیقت جیل کی دنیا کے بڑے بڑے مجرموں پر مشتمل ایک گینگ بنانے کا عمل بڑی رازداری سے شروع کردیا اور جیل کے اندر رھتے رھتے کراچی میں خون خرابہ کروانا شروع کردیا۔ اغوا براٸے تاوان کا دھندہ بہت جلد اتنی ترقی کرگیا کہ زرداری نے تو اتنا زیادہ تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جیل میں قیام کے دوران ھی مارچ 1997 میں زرداری کا بطور سینیٹر انتخاب ان کی حالات پر ان کی مضبوط گرفت کا اظہار تھا۔ جیل میں قیام کے دوران بہت سے نامی گرامی قاتل زرداری نیٹ ورک کا حصہ بن گٸے جن میں رحمٰن ڈکیت، بابا لاڈلا، عزیر بلوچ اور سینکڑوں خطرناک مجرم تھے۔ فرنچ وزیراعظم سے بذریعہ بےنظیر رابطہ کرکے اپنی کمیشن قبل از وقت مانگ لی تو فرنچ وزیراعظم نے جواب دیا کہ ابھی تو پراجیکٹ پر کام جاری ھے اور فاٸنل پیمنٹ سے قبل ایسا کچھ بھی ممکن نہیں۔ لیکن زرداری نے اپنا اصرار جاری رکھا اور دھمکی دی کہ اس انکار کا انجام بےحد خطرناک ھوگا۔ اور پھر ایسا ھی ھوا۔  یہ 8 مٸی 2002 کی صبح تھی ۔ موسم قدرے گرم تھا۔ سورج چمک رھا تھا۔ نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان ٹیسٹ میچ کراچی میں کھیلا جارھا تھا جس کا تیسرے دن کا کھیل شروع ھونے کو تھا۔ دونوں ٹیمیں کراچی کے دو فاٸیو سٹار ھوٹلز کی لابی میں بسوں میں سوار ھونے کے لٸے اپنے اپنے ھوٹلز کے کمپاٶنڈز میں آرھی تھیں۔ ھوٹل آمنے سامنے ھونے کے باعث کھلاڑی ایک دوسرے کو دیکھ کر ھاتھ ھلا رھے تھے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ھو رھا تھا۔ دونوں ھوٹلز کے درمیان ایک چوڑی شاہراہ پر ٹریفک رواں دواں تھی۔ اچانک ھی ایک بہت بڑی بلیک کار نے اپنی لاٸن توڑتے ھوٸے دوسری لاٸن میں جانے والی ایک خوبصورت بس کو ٹکر دے ماری۔ بلیک کار ٹی این ٹی بارود سے بھری ھوٸی تھی۔ اور یہ بس فرنچ انجینٸیرز کو لے کر کراچی شپ یارڈ لے جارھی تھی۔ کان پھاڑ دینے والا ایک دھماکا ھوا جو کسی کے  وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دونوں کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑی دور دور جاگرے اور ان کو چوٹیں بھی لگیں۔ لیکن اصل تباھی تو فرنچ انجینیٸرز کی ھو گٸی جن کی بس اس دھماکے سے مکمل تباہ ھوگٸی۔ اس دھماکے میں 15 فرنچ انجینٸرز جان سے ھاتھ دھو بیٹھے اور 40 افراد زخمی ھوگٸے۔  نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم فوری طور پر اپنے ملک روانہ ھوگٸی۔  فرنچ انجینیٸرز کی بس دھماکے سے تباہ کرنا پاکستان میں خودکش دھماکوں کی ابتدا تھی۔ اس سے پہلے ایسے ھولناک دھماکے کی کوٸی مثال نہیں ملتی۔ اس دھشت گردی کے واقعے نے انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر پاکستان کی پرامن شہرت کو داغدار کرڈالا۔  9/11 کے واقعات کے بعد تو آھستہ آھستہ یہ جنگ اور دھشت گردی پاکستان میں سرایت ھی کرگٸی اور پاکستان میں اوپر تلے بہت سے خودکش دھماکے ھوٸے۔  نومبر 2002 میں کے جیل میں قیام کے دوران آصف زرداری کی والدہ کا انتقال ھوگیا۔ اس سے ان کے لٸے میڈیا میں لابنگ کے ذریعے ھمدردی کے احساسات کو اجاگر کیا گیا۔ بینظیر نے خودساختہ جلاوطنی کے دوران جنرل مشرف پر دباٶ ڈالنے کی اور اپنے لٸے کوٸی راستہ نکالنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ امریکی حکام سے ایٹمی پروگرام پر کمپروماٸز کرنے تک چلی گٸیں مگر امریکی اعلیٰ حکام بے حد محتاط تھے اور اتنی کرپٹ عورت جو کوٹیکنا کیس میں اپنے شوہر سمیت سوٸس عدالت سے سزا یافتہ ھو ، اس پر اعتبار نہ کیا۔ پاکستان کے اندرونی حالات میں کچھ ایسے موڑ آٸے جن سے جنرل مشرف کی گرفت اقتدار پر کچھ کمزور پڑنے لگی۔ پہلے نواب اکبر بگٹی کی پاک فوج کے چار اعلیٰ افسران سے مذاکرات کے دوران دھماکے میں ان سب کی ھلاکت ھو گٸی۔ پھر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا واقعہ ھوگیا۔ ملک بھر میں خودکش دھماکوں کی ایک لہر چل پڑی۔ جنرل مشرف اور بےنظیر میں بیک ڈور چینل سے رابطے 2004 میں شروع ھوچکے تھے۔ کچھ برف پگھلی تو آصف علی زرداری کو جذبہ ۶ خیرسگالی کے تحت نومبر 2004 میں ضمانت پر رھا کردیا گیا۔ لیکن میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے کیس میں پیش نہ ھونے پر ایک دفعہ پھر گرفتار ھوگٸے۔ لیکن اس دفعہ حکومت کا رویہ نرم تھا۔ آصف زرداری کو ھاٶس اریسٹ کرکے ان کے گھر کو ھی سب جیل کا درجہ دے دیا گیا۔ جنرل مشرف سے تعلقات میں مزید بہتری پر آصف علی زرداری کو ایک مرتبہ پھر ضمانت پر رھاٸی مل گٸی اور اس نے اس موقع کو غنیمت جانا اور فوراً دوبٸی فرار ھوگیا۔ اپریل 2005 میں زرداری نے لاھور کا ایک مختصر دورہ کیا اور دوبٸی واپس چلا گیا۔ اس دورے میں جنرل مشرف سے تعلقات کو مزید وسعت دی اور اپنے خلاف انتہاٸی سنگین مقدمات پر عدالتی کارواٸیاں ختم یا غیر مٶثر کرنے پر نتیجہ خیز بات چیت ھوٸی اور جنرل مشرف نے خود کو محفوظ راستہ یعنی سیف ایگزٹ کے عوض ان میاں بیوی کے لٸے راستہ نکالنے کی حامی بھرلی۔ جو بالآخر ‏NRO ‎پر منتج ھوٸی۔   یہ دو قانون کے مجرمان کا ایک دوسرے کو سزا سے بچانے کے لٸے باھمی معاھدہ تھا۔  پیپلز پارٹی کے ایک ترجمان کے مطابق ستمبر 2005 میں زرداری کی امریکا سے انجیو پلاسٹی بھی کرواٸی گٸی۔  جنرل مشرف سے گو اھیڈ کا اشارہ ملتے ھی ستمبر 2007 میں بینظیر نے دھوم دھڑکے سے پاکستان واپسی کا اعلان کردیا۔ جہاں جنرل مشرف نے این آر او کے تحت ان میاں بیوی اور دیگر بہت سے سیاستدانوں پر عاٸد مقدمات ختم کردٸیے۔ اور نٸے انتخابات کا اعلان کردیا۔  ان انتخابات کو بینظیر نے اپنی ذاتی کامیابی سے تعبیر کرتے ھوٸے سارے ثمرات خود سمیٹنے کی ٹھانی اور آصف زرداری کو نٸی حکومت کے قیام سے پہلے پاکستان آنے سے صاف منع کردیا۔ آصف زرداری کو محسوس ھوا  کہ اسکی بے حد و حساب بے راہ روی، شیریں رحمان اور اس طرح کی کٸی عورتوں سے زرداری کے تعلقات نے بینظیر کو اس سے بدظن کردیا ھے اور اب بینظیر کو شاٸد اس کی ضرورت ھی نہیں رھی اور وہ اس کو ساٸیڈ لاٸن کرنا چاہ رھی ھے ۔   اس نے فوراً ھی متبادل پلاننگ شروع کردی اور بینظیر کے چیف سکیورٹی افسر اپنے خاص الخاص بندے خالد شہنشاہ سے رابطہ کرلیا۔ طالبان اور محسود قباٸل سے رابطہ کرکے ایک نیا پلان ترتیب دےلیا۔ بینظیر کا آخری انتخابی جلسہ 27 دسمبر 2007 کی شام لیاقت باغ راولپنڈی میں تھا۔ بینظیر کے چیف سیکیورٹی افسر خالد شہنشاہ کی بدقسمتی کہ وہ بینظیر کے ڈاٸس کے بالکل ساتھ الٹے ھاتھ پر کھڑا  حملے اور بینظیر کو قتل کرنے کے اشارے کرتا ھوا گلے پر انگلی چھری کے انداز میں پھیرتا ھوا کیمروں کی ریکارڈنگ میں نظر آگیا۔ جو یوٹیوب پر بھی  موجود ھے۔  ‏https://youtu.be/V4M3jyf6fOc   https://youtu.be/Po5BxiLAUFI  ‎اسی وقت زرداری نے بینظیر سے رابطہ کیا اور فون پر مبارکباد دی ۔ بےنظیر لیاقت باغ راولپنڈی کے اپنے اس کامیاب جلسے پر بہت خوش تھی۔ زرداری نے اس کو سن روف سے باھر نکل کر مجمعے کو ھاتھ ھلا کر شکریہ ادا کرنے کو کہا اور انتہاٸی شاطر اور ذھین بےنظیر نے بدقسمتی سے یہ بات مان لی اور بلٹ پروف اور بم پروف لینڈ کروزر کی سن روف سے باھر نکل کر مجمعے کی طرف ھاتھ ھلانے لگی۔ اور ایک سناٸپر نے اس کو نشانے پر رکھ لیا۔ ایک ھی گولی اس اسناٸپر نے چلاٸی جو بےنظیر کی کنپٹی پر جالگی ۔ جس سے بےنظیر کا بھیجہ باہر نکل آیا۔ اور کچھ لوگوں نے افراتفری پھیلانے کے لٸے بم دھماکے بھی کردٸیے۔ تاکہ سب کچھ گڈ مڈ ھو جاٸے۔ 27 دسمبر 2007 کی اس شام بینظیر کی زندگی کا سورج بھی غروب ھوگیا۔   زرداری نے فوراً عزیر بلوچ کو اگلا ٹاسک دیا اور خالد شہنشاہ بھی پیچھے پیچھے بنظیر کے پاس پہنچ گیا۔ زرداری اس قدر محتاط ھوگیا کہ اس نے اس پورے واقعے کے ان کرداروں کو قتل کروادیا جن کو اس نے خود یہ کام سونپا تھا۔ اس طرح سے اس کے خلاف عذیر بلوچ کے علاوہ کوٸی برہ راست گواہ زندہ نہ رھا۔ عذیر بلوچ چونکہ اس پلاننگ کا براہ راست حصہ نہیں تھا اس لٸیے وہ زندہ رھا۔ ملک بھر میں امن امان کی صورتحال سخت کشیدہ ھوگٸی۔ اس صورتحال  میں زرداری فوراً پاکستان پہنچ گیا اور اس نے اس قتل سے ابھرنے والی ھمدردی کی لہر کا بھرپور فاٸدہ اٹھاتے ہوٸے مرکز میں اور سندھ میں حکومت بنالی۔ کے پی کے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت بن گٸی جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنی۔ زرداری نے پلاننگ کے تحت پہلے سے تیار کردہ ایک جعلی وصیت نامے کو سامنے لا کر پیپلز پارٹی پر قبضہ کرلیا۔ یہاں بمبینو سینما والی واردات کا تجربہ بہت کام آیا ۔ اور اسی وصیت نامے کی رو سے بلاول زرداری کا سیاسی نام بلاول بھٹو زرداری رکھ دیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ اس کے بعد حسب وعدہ صدارتی انتخابات ھوٸے اور زرداری نے کسی بھی بدمزگی سے بچنے کے لٸے اپنا نام آخری لمحات تک ظاہر نہ ھونے دیا اور کراچی کے ڈان الطاف حسین کی نامزدگی پر آخری لمحات میں صدارتی امیدوار بن گیا۔ 6 ستمبر کو صدارتی انتخابات کے نتاٸج کے مطابق زرداری نے صدرپاکستان کا انتخاب جیت لیا۔ 9 ستمبر 2008 کے دن آصف علی زرداری نے صدارتی حلف لیا اور حسب وعدہ جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر عزت سے محفوظ راستہ دے کر صدارتی محل سے رخصت کردیا۔ ورنہ ازروٸے قانون یہ ایک جینوین آرٹیکل 6 کا ثابت شدہ کیس تھا۔  آصف زردری نے جنرل مشرف کو سیف ایگزٹ دینے کے عوض اپنے اور بےنظیر کے خلاف کرپشن اور  میموگیٹ سکینڈل سمیت تمام تر مقدمات ‏NRO ‎میں ختم کروالٸیے ۔ یہ ایک بڑے ہی ھاٸی لیول کی سودےبازی تھی۔ ورنہ تو یہ دونوں میاں بیوی بھی اپنے مشترکہ دوست حسین حقانی سمیت آرٹیکل 6 کے ثابت شدہ مجرم تھے۔ ‏NRO ‎کے ذریعے دونوں نے ایک دوسرے کے سنگین جراٸم کی پردہ پوشی کی اور بونس میں زرداری کو پاکستان کی حکومت اور صدارت مل گٸی۔  آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ھی اپنے جیل میں بھرتی کٸے خفیہ گینگ کے تمام ممبران سے عزیر بلوچ کی محل نما رھاٸش گاہ میں  فرداً ملاقاتیں کیں اور ان کو سیریل کلنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے بہت سے نٸے مشن سونپے۔ جس کی وجہ سے کراچی کے حالات خراب ھوگٸے۔ اور روزانہ درجنوں شھریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا۔ لیاری وار گینگ اور پیپلز امن کمیٹی میں تو جیسے ایک لمبی جنگ چھڑ گٸ۔ نو گو ایریاز بن گٸے  بھتے کی پرچیاں بڑے تسلسل سے کاروباری لوگوں تک پہنچنے لگیں۔ زرداری نے اپنے قریبی سیاسی دوستوں کو مجرموں کو پالنے اور ان کی سرپرستی کرکے گینگ بنانے کی ترغیب دی اور سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے ان سب کو ملوا کر پولیس کے تعاون کی یقین دھانی بھی کروادی۔ بہت جلد سندھ کا چپہ چپہ نیٹو اسلحے سے لیس ڈاکوٶں سے بھر گیا۔  انڈس ھاٸی وے پر سفر کرنا مشکل ھوگیا۔ بہت سے ڈاکوٶں کو ان سیاستدانوں نے اکٹھا کرکے ان کے گینگ بناۓ۔ اور ان کو جدید ترین مہلک اسلحہ فراھم کرکے ان کو اپنی اپنی پراٸیویٹ فوج کا درجہ دے دیا۔ اور ان سے اپنے سیاسی مخالفین کو بھی ٹھکانے لگوادیا۔ گینگ تو بےشمار بنے  لیکن سب سے زیادہ مشھور آغا سراج درانی کا بنایا ھوا ”چھوٹو گینگ“ تھا۔ اس کا سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو تھا۔ اس گینگ نے تو سندھ پولیس کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالی اور بالآخر جنرل راحیل کے ھاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔  اقتدار سنبھالتے ھی زرداری نے صدرالدین ھاشوانی سے اور میاں منشا۶ سے رابطہ کیا۔ ھاشوانی سے ان کی ملکیت میریٹ ھوٹلز کی چین خریدنے کی خواھش ظاہر کی اور میاں منشا۶ سے نشاط گروپ اور ایم سی بی بینک خریدنا چاھا۔ میاں منشا۶ نے ایک بھاری رقم تاوان دے کر جان چھڑاٸی اور دوبٸی شفٹ ھوگٸے۔ جبکہ ھاشوانی فوری طور پر لندن نکل گٸے اور زرداری کو ھوٹل چین دینے سے انکار کردیا۔ ان کو سلطان راھی مرحوم کا قتل بڑی ھی اچھی طرح سے یاد تھا۔ زرداری کی کچھ نشے میں لڑاٸی جھگڑے اور غل غپاڑے پر ھوٹل سے بے عزت کرکے نکالے جانے کی بری یادیں اسلام آباد کے میریٹ ھوٹل سے وابستہ تھیں۔ اور زرداری جیسے شیطان کو انکار کرنے کی جرات کی گٸی تھی۔  20 ستمبر 2008 کی رات میریٹ ھوٹل کے داخلی راستے کے آگے سے ایک ڈبل کیبن گاڑی آھستگی سے گزری۔ یہ ایک بہت بڑے ڈمپر ٹرک کو راستہ دکھا رھی تھی۔ تھوڑا سا ھی آگے جاکر گاڑی رک گٸی اور اس میں سے ایک شخص نے اپنے پیچھے آنے والے ٹرک کو باٸیں سمت میں مڑ کر ھوٹل کی پارکنگ میں جانے کا اشارہ کیا۔ وہ شخص دوبارہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی تیزی سے آگے کو چل دی۔ پیچھے آنے والا ٹرک ھوٹل کی پارکنگ میں مڑ گیا۔ یہ  ٹرک ٹی این ٹی بارود سے بھرا ھوا تھا جسے ایک افغانی پٹھان خودکش حملہ آور چلا رھا تھا۔ ھوٹل کے پارکنگ سٹاف کو ایک بڑی گڑبڑ کا فوراً اندازہ ھوگیا۔ لیکن اس کے باوجود ھوٹل سٹاف نے اس بارودی ٹرک کو روکنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ ایک گارڈ نے ٹرک کے اگلے ٹاٸر پر فاٸر کردیا۔ جب افغانی ڈراٸیور  نے دیکھ لیا کہ اب اور آگے جانا ناممکن ھے اور کسی بھی لمحے وہ کسی گارڈ کی گولی کا نشانہ بن سکتاھے تو اس نے اپنی بارودی خودکش جیکٹ کا بٹن دبا دیا۔ اسکی جیکٹ کو آگ تو لگ گٸی لیکن کوٸی بڑا دھماکا نہ ھوا۔ اتنے میں ایک گارڈ نے اس کو گولی بھی مار دی۔ ان سب نے مل کر اس کی جلتی ھوٸی لاش ٹرک سے باہر نکالنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ھو سکے۔ ایک گارڈ نے آگ بجھانے والا سلنڈر لاکر بہت سارا فیوم سپرے کیا لیکن بارودی کیمیکل کی آگ نہ بجھ سکی اور ٹرک کے کیبن میں آگ پھیلنے لگی۔ کچھ گارڈز نے ھوٹل کے اندر جاکر شور مچایا اور لوگوں کو ھوٹل کے پچھلے راستے سے نکالنے کی کوشش کی۔ تقریباً پانچ منٹ کے وقفے سے آگ ٹرک کے پچھلے حصے تک پہنچ گٸی اور پھر ایسا خوفناک دھماکا ھوا کہ اسلام آباد کے مکینوں نے کبھی سوچا بھی نہ ھوگا۔ چار منزلہ ھوٹل میں ھر جگہ آگ بھڑک اٹھی اور تمام شیشے چکنا چور ھوگٸے۔ دھماکے کی جگہ پر  60 فٹ چوڑا اور بیس فٹ گہرا ایک خوفناک گڑھا پڑگیا ۔ 54 لوگ ھلاک ھوٸے اور 266 لوگ  زخمی ھوٸے۔  زرداری کو انکار کرنا ھاشوانی کو کافی مہنگا پڑا۔  زرداری دور پاکستان میں صنعت و زراعت کے لٸیے بہت بھیانک ثابت ھوا۔ لوڈ شیڈنگ بڑھتے بڑھتے 22 گھنٹے روزانہ تک جا پہنچی۔ یہ وہ بدترین وقت تھا جب پاکستان کی تمام تر انڈسٹری بند ھونے پر آگٸی تھی۔ زرداری کو ڈالر 63 روپے پر ملا تھا جو اس کے دور حکومت کے اختتام پر 100 روپے کی حد عبور کرگیا تھا۔ پٹرول 50 روپے فی لٹر پر ملا تھا جو 117 روپے تک بیچا گیا۔  11 مٸی 2011 کو زرداری روس کے دورے پر ماسکو پہنچا۔ اس کے ھم منصب نے اس کا استقبال کیا اور بڑی حیرانی سے دریافت کیا کہ پاکستان میں موجودہ دور میں صرف دو گھنٹے روزانہ عوام کو بجلی ملتی ھے۔ روس نے جدید ترین آبدوز نما سمارٹ بوٹس پر ایٹمی ری ایکٹر نصب کٸے ھیں۔ ایک ایسا سسٹم ایک دفعہ آن کٸے جانے کے بعد 50 سال تک متواتر لگاتار 1350 میگا واٹ بجلی دیتا ھے۔ آپ بتاٸیں پاکستان کو کتنی بجلی درکارھے؟ آپ اپنے ملک فون کرکے کہیں کہ ٹرانسمیشن لاٸن بندرگاہ تک لے آٸیں۔ آپ کی پاکستان واپسی سے پہلے یہ جدید ترین حفاظتی انتظامات سے لیس بوٹس پاکستان پہنچ جاٸیں گی۔  انھوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ ان کا چرنوبل اٹامک پاور ری ایکٹر 128,000 میگاواٹ پیداواری صلاحیت رکھتا تھا لیکن اس میں حادثے کے بعد رشین ساٸنسدانوں نے ایسے سمارٹ اور بہت ھی مختصر ساٸز کے بہت ھی محفوظ اٹامک ری ایکٹر بنالٸے ھیں جو ایک بہت ھی مضبوط دھاتی باکس میں بند ھیں اور ایک درمیانے ساٸز کی آبدوز نما موٹر بوٹ پر نصب ھیں۔ اگر کسی حادثے کا شکار ھو بھی جاٸیں تو ان کی تابکاری باہر نہیں نکلتی۔ اور اگر کوٸی خطرہ محسوس ھو تو دس کلومیٹر دور سے بھی ایک ریموٹ کا بٹن دبانے سے یہ بوٹ اپنے مقام سے تین کلومیٹر دور ھٹ کر ایک آبدوز کی طرح پانی کی تہہ میں چلی جاتی ھے۔ اور ریموٹ کا بٹن دوبارہ دبانے سے ایک دفع پھر سطح آب پر نمودار ھوجاتی ھے اور ریموٹ کی مدد سے اپنی پہلی جگہ یا کسی نٸی جگہ پر دوبارہ کھڑی کی جاسکتی ھے۔  انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ کی انوسٹمنٹ کے بعد  50سال تک مسلسل مفت بجلی ملے گی۔ 50 سال کے بعد ری فیولنگ کرکے پھر اگلے پچاس سال بجلی مل جاٸے گی۔  پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے پیش نظر وہ پاکستانی ساٸنسدانوں کو مکمل تربیت اور سمارٹ پاور ری ایکٹر ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لٸے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ مستقبل میں پاکستان کی اھم پوزیشن کے پیش نظر وہ پاکستان سے گرم جوش تعلقات بنانے کے لٸے بہت زیادہ پرجوش اور خواھش مند تھے۔ تاکہ پرانی تلخیاں مٹا کر روس اور پاکستان اتحادی بننے کی سمت میں آگے بڑھ سکیں۔ انھوں نے پاکستان سٹیل مل کی دگرگوں حالت پر پریشانی کا اظھار کرتے ھوٸے زبردست تعاون کی پیشکش کردی کہ وہ پاکستان سٹیل مل کو اپ گریڈ کرنے کے لٸے مشینری اور ماہرین بھی دینے کو آمادہ ھیں۔   زرداری اور بےنظیر ھی وہ سیاستدان حکمران تھے جنہوں نے اپنے پہلے اور دوسرے دور حکومت میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی تیل سے بجلی پیدا کرنے والے پاور ھاٶسز لگواٸے اور ان سے بہت مہنگی بجلی خرید کر کمیشن حاصل کیا۔ زرداری پاکستان بھر کی بجلی مفت کیسے ھونے دیتا؟  پاکستان کے لٸے اتنی بڑی پیشکش پر زرداری نے انکار کردیا۔ کیوں کہ وہ تو رشین لڑکیوں کے حسن کی شہرت سن کر ماسکو پہنچا تھا۔ انھوں نے جب زرداری کی دلچسپی دیگر امور میں دیکھی تو متعلقہ سپلاٸرز سے زرداری کی ملاقات کروادی۔ اور اس کے بعد زرداری کی فرماٸش پر روس سے لڑکیوں کا ایک گروپ اسلام آباد اٸیرپورٹ پہنچ جاتا ۔ زرداری کے صدارتی دور میں ان گروپس کا تواتر سے آنا اور جانا لگا رھا۔  صدارتی محل کی گاڑی ان کو لینے پہنچ جاتی۔ امیگریشن حکام کو سختی سے ھداٸیت کی گٸی تھی کہ ان کی آمد ورفت کا ریکارڈ مت رکھا جاٸے۔ اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ زرداری کے حکم کی خلاف ورزی کا سوچ بھی سکتا۔  زرداری نے روس سے واپس آکر رینٹل پاور پلانٹس کے منصوبے پر عمل کیا۔ واپڈا کے پاور ھاٶسز بند کروا کر بجلی کا شدید بحران پیدا کردیا جو لنبے عرصے تک جاری رھا۔ اور ترکی سے کارکے رینٹل پاور پلانٹ نامی ایک بحری جھاز منگوالیا۔ اس کی کپیسیٹی تقریباً 80 میگا واٹ تھی۔ کاغذات میں اس کو 220 میگاواٹ ظاہر کرکے اس سے 43 روپے فی یونٹ بجلی کی خریداری کا معاھدہ کرلیا۔ اس ڈیل میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے بیٹے کو کنسلٹنٹ بھرتی کرکے 5 لاکھ روپے ماھانہ سیلری پر رکھ لیا۔ اسی طرح کے مزید رینٹل پاور اگریمنٹ کرکے پاکستان کی اکانومی کو کاری زخم لگا ڈالے۔ اپنے ایک دوست ریاض لال جی کے ساتھ مل کر زرداری نے پاکستان سٹیل کو برباد کرڈالا۔ جنرل مشرف کے آخری سال میں پاکستان اسٹیل ملز کا منافع چھ ارب روپے تھا۔ تمام سٹور خام مال سے بھرے ھوٸے تھے اور پاکستان سٹیل مل کے اکاٶنٹ میں 22 ارب روپے موجود تھے۔ اور پاکستان سٹیل مل نے کسی کا کوٸی قرض نہیں دینا تھا۔ جنرل مشرف کے راٸٹ ھینڈ لیفٹیننٹ جنرل ریٹاٸرڈ عبدالقیوم سٹیل مل کے چٸیرمین تھے  زرداری نے اپنے پارٹنر ریاض لال جی کا مینیجر معین آفتاب شیخ پاکستان سٹیل مل کا مینیجر مقرر کردیا اور پاکستان سٹیل ملز اپنے عروج سے زوال پذیر ھوکر 200 ارب روپے کے خسارے کے بعد بالآخر بند ھوگٸی۔  معین آفتاب پر اس وقت بھی 358 ملین روپے کی خردبرد کا کیس نیب میں زیر سماعت ھے۔ گوگل پر معین آفتاب شیخ لکھ کر چیک کرسکتے ھیں۔  اپٹما کے ایک وفد نے ملنا چاھا تو ان کو بتایا گیا کہ زرداری سے پانچ منٹ کی ملاقات کا علیحدہ ریٹ ھے اور اس سے زیادہ کا علیحدہ۔ اپٹما کے وفد کے 5 اراکین بے حد حیران ھوۓ۔ لیکن انھوں نے آپس میں 10 لاکھ فی کس پول کرکے اس بھاری رقم کا بندوبست کیا اور بڑی مشکل سے زرداری کو ملنے میں کامیاب ھوۓ۔ اور رو رو کر بتایا کہ انڈسٹری کی بہت بری حالت ھے۔ لوڈ شیڈنگ 22 گھنٹے تک جا پہنچی ھے اور ٹیکسٹاٸل ملز بند پڑی ھیں ۔ تقریباً تمام ملز اونر اپنی مشینری کھول کر بنگلہ دیش شفٹ کر رھے ھیں۔ کٸی دھاٸیوں میں کھربوں کی مالیت سے لگی انڈسٹری تباہ ھو رھی ھے۔  زرداری نے ان کی باتیں سن کر بندر کی طرح دانت نکالے اور پوچھا ،”آپ نے ابھی تک اپنے لٸے بنگلہ دیش میں مشینری کی شفٹنگ کے لٸے کوٸی موزوں پلاٹ نہیں دیکھا؟ اگر نہیں دیکھا تو اب دیکھ لیں۔ آپ کا ملاقات کا وقت ختم ھوچکا ھے۔ خدا حافظ۔ اب آپ جاسکتے ھیں “ اور اپنے سکریٹری کو ھداٸت کی کہ ان کو مزید وقت ضاٸع کٸے بغیر باہر چھوڑ آٶ۔  یہ تھا زرداری کا پاکستان کی صنعت و تجارت سے رویہ۔ زرداری کے دور حکومت میں سیلاب نے بہت نقصان کیا لیکن زرداری نے اسکی طرف توجہ ھی نہ دی اور پورے ملک کو لاوارث چھوڑ کر بیرونی دوروں پر نکل گیا۔  اس وقت کے اخبارات نے خبریں شاٸع کیں کہ زرداری نے راک وڈ اسٹیٹ محل سرے کاٶنٹی بیچ دیا ھے اور سپین میں بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کا دریا کے کنارے واقع مشھور تاریخ محل خرید لیا ھے جو دودھیا رنگت کے سنگ سفید سے بنا ھوا ھے اور سپین میں وھاٸٹ پیلیس کے نام سے مشھور ھے۔ اس کے علاوہ زرداری نے لندن میں چرچل حیات ریجنسی ھوٹل خرید کر سب کو حیران  کرکے رکھ دیا۔ اس ھوٹل کی اس وقت مالیت 295 ملین پاٶنڈز تھی۔ اس کے دور میں پاکستان ایک بغیر ڈراٸیور کے ویران صحرا میں چلتی گاڑی تھی جس کی کوٸی سمت ھی نہ تھی۔  سندھ میں کل 31 شوگر ملز ھیں جن میں سے 27 پر زرداری کا مکمل قبضہ ھے۔ جس میں عذیر بلوچ کا مرکزی کردار ھے۔  ان کا طریقہ واردات کچھ یوں ھے کہ عزیر بلوچ اور اس کا گینگ کسی ایک شوگر مل کو ٹارگٹ کرتے اور وھاں پر فاٸرنگ کرکے ورکرز کو فاٸرنگ کرکے قتل اور زخمی کردیتے۔ وزیر داخلہ کے احکامات پر شوگر ملز کے تمام مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو پولیس گرفتار کرلیتی تھی اور ان کو تشدد کا نشانہ بنا کر اور سزاٸے موت کا ڈراوا دے کر ان سے یہ مقدمہ ختم کرنے کے عوض اس شوگر مل کے تمام ملکیتی حصص حاصل کرلٸے جاتے۔ اور یہی شوگر مل کسی اور کو آدھی قیمت پر بیچ دی جاتی۔ اور اس نٸے خریدار سے بھی کچھ عرصہ بعد ایسی ھے واردات دھرا دی جاتی۔ سندھ میں واقع پاور ھاٶسز اور دیگر بڑی فیکٹریوں کے ساتھ بھی ایسی ھی وارداتیں ھوٸیں۔  زرداری کو جو بھی جاٸیداد پسند آجاتی وہ اس کے مالک کو ھاتھ جوڑ کر وہ زرداری کے حوالے کرنا پڑجاتی۔ بلاول ھاٶس کے ارد گرد تمام گھر زرداری نے عذیر بلوچ کے ذریعے حاصل کرلٸے۔ زمینوں اور بڑی بڑی جاٸیدادوں پر قبضے میں اویس مظفر ٹپی نام کے زرداری کے منہ بولے بھاٸی نے بھی طوفان کھڑا کٸے رکھا اور جیسے ھی زرداری دور ختم ھونے کے بعد اسے محسوس ھوا کہ وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ریڈار پر آچکا ھے تو وہ لندن فرار ھوگیا اور ابھی تک پاکستان واپس نہیں آیا۔ زرداری نے ایسے اور بھی کردار پالے ھوٸے تھے۔  کراچی الیکٹرک کارپوریشن پر زرداری کی بہت دیر سے نظر تھی۔ اس کو اونے پونے بکوا کر اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے خود حاصل کرلی۔ کاپر کے سکریپ کی قیمت بھی اس دور میں ایک ہزار روپے فی کلو سے  تجاوز کرگٸی تو زرداری نے زرداری نے کراچی الیکٹرک کے تمام مین سپلاٸی لاٸن کے موٹے تانبے کے ہزاروں ٹن تار اتروا کر بیچ دٸے اور سستے ترین سلور کے تار لگوا دٸے۔ آج تک ان کاپر کے ھیوی ویٹ پاور سپلاٸی کیبلز کا کوٸی سراغ نہ مل سکا۔  زرداری نے دیکھتے ھی دیکھتے حرام لوٹی دولت کے بہت بڑے انبار لگا لٸے۔ پھر اس دولت کو دوبٸی شفٹ کرنے کے لٸے موٹر بوٹس اور فلم انڈسٹری کی ماڈلز کا چینل استعمال کرنا شروع کردیا۔ تحقیقاتی اداروں نے اب تک 26 ٹاپ ماڈلز کے نیٹ ورک کاظہار سراغفلت لگا لیا ھے۔ ان کا ٹور کا مکمل خرچہ اور شاپنگ کے اخراجات فری کرکے ان کے ذریعے بھاری رقوم دوبٸی منتقل کردیں۔ اس کا راز ایک مشہور ٹاپ ماڈل ایان علی کی گرفتاری سے ھوا۔ پانچ لاکھ ڈالر برآمد کرلٸے گٸے۔ جو ملزمہ کے مطابق عزیر بلوچ کے وکیل کو دٸے جانے تھے۔ زرداری نے لطیف کھوسہ کو وکیل مقرر کر کے ہر ممکن کوشش شروع کردی کہ کسی بھی طرح سے منی لانڈرنگ کے اس کیس کو ختم کیا جاسکے۔ متعلقہ کسٹم انسپیکٹر جس نے ایان علی کو گرفتار کیا تھا، اس کو سر میں گولی مار کر قتل کردیا اور اس کو خودکشی کا کیس ثابت کرنے کے لٸے  ہر ممکن کوشش کرڈالی۔ مگر قتل کا کیس صاف نظر آگیا۔ تفتیشی اداروں نے مزید تحقیق کی تو کٸی نٸے حیران کن حقاٸق ھاتھ لگ گٸے۔ زرداری نے اندھا دھند طاقت ، دولت اور اثر رسوخ استعمال کرکے ماڈل ایان علی کے ضمانت کروالی اور ایان علی فوراً فرار ھو کر دوبٸی زرداری ھاٶس پہنچ گٸی جہاں سے ابھی تک اس کی واپسی ممکن نہیں ھو سکی۔  زرداری کو نٸے حکومتی سیٹ میں حصہ بنانے کے اور مقتدر قوتوں سے مصالحت کے بہانے زرداری  اور اس کے کاروباری پارٹنر عبدالمجید کو پاکستان بلا کر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ اومنی گروپ کے سربراہ عبدالمجید نے تفتیشی اداروں کے سامنے  1,100  ارب روپے کا فراڈ اور منی لانڈرنگ تسلیم کی۔ اس پر تو ابھی منی لانڈرنگ کے جتنے بڑے الزامات ھیں  ان کی رقم تو  پاکستان  کے کل قومی بجٹ سے بھی زیادہ ھے۔  تحقیق کا داٸرہ آگے بڑھا تو بہت سے اور گھوسٹ اکاٶنٹس سامنے آنے لگے۔ سینکڑوں ایسی بھاری رقوم کی ٹرانزیکشنز کا سراغ لگا جو اتنے غریب آدمیوں کے اکاٶنٹس میں کی گٸیں جو کبھی بھی بنک جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ھوں گے۔  مثلاً مالی پاپڑ بیچنے والا چوکیدار جمعدار سویپر  صرف ان گھوسٹ اکاٶنٹس میں مزید 1,500 ارب زاٸد رقم کی ٹرانزیکشن اور منی لانڈرنگ  کا سراغ لگا ھے اور ابھی تفتیش مزید آگے بڑھ رھی ھے۔ زرداری کو عدالت سے بار بار ضمانت ملنے کی وجہ سے نیب نے بہت لمبا انتظار کیا لیکن بالآخر 11 جون 2019 کے دن عدالت سے حصل ضمانت میں توسیع نہ ھونے کے سبب نیب نے زرداری کو گرفتار کرلیا۔ اور تین دن کے بعد اسکی بہن فریال تالپور کو گرفتار کرکے اس کی اسلام آباد میں واقع رھاٸش گاہ کو میں ھاٶس اریسٹ کردیا۔ اسمبلی کے جاریس اجلاس میں شرکت کے لٸے زرداری کو پروڈکشن آرڈر پر عارضی رھاٸی ملی ھے۔   یاد رھے کہ یہ سہولت ھر ملزم اور مجرم کو میّسر نہیں اور یہ مجرم کے خلاف قدرے نرم کارواٸی شمار ھوتی ھے۔ اور اس سے سودے بازی اور ڈیل کے تاثرات ابھرنے لگتے ھیں۔   موجودہ حالات میں شدت سے ایک نٸے نظام حکومت کی ضرورت محسوس ھو رھی ھے تاکہ جہالت اور کرپشن سے لتھڑے ھوۓ زرداری اور نواز شریف جیسے لوگوں کا اقتدار کے نظام میں داخلہ بند کیا جاسکے۔  دنیا بھر میں ایسا پراجیکٹ سر انجام دینے کے لٸے دو میں سے ایک طریقہ اختیار کرنا پڑتا ھے۔  1۔ سارا پراسیس خود نٸے سرے سے ڈیزاٸن کرنا  2۔ پہلے سے موجود ایسے کسی کامیاب پراسیس کو ایک ماڈل کے طور پر پر  لے کر اپنی ضروریات کے مطابق ترمیم کرلینا  پاکستان جب وجود میں آیا تو قاٸد اعظم نے کبھی بھی برطانوی نظام حکومت کو پسند نہیں کیا تھا۔ علامہ اقبال بھی جمھوریت کے شدید مخالف تھے۔ پھر یہ پارلیمانی جمھوریت زبردستی ھم پر کیوں مسلط کردی گٸی؟   یہ نظام فیوڈل لارڈز مافیا کے مفادات کی حفاظت کرنے والا نظام ھے جس میں تمام سیاستدان مل کر اپنا نماٸندہ وزیراعظم بناکر کرپشن کرتے ھیں اور کسی کی بھی پکڑ ممکن ھی نہیں۔ بیورو کریسی اور عدلیہ میں اپنے ذاتی وفاداروں کو تعینات کرکے پورے سسٹم کو ھی بے اثر کردیا ھے۔  دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ کامیاب لوگوں کو کاپی کرلینا ھے۔ دنیا میں اس وقت سب سے مضبوط اور کامیاب نظاام حکومت امریکہ کے پاس ھے۔ جو حیرت انگیز طور پر اسلامی تعلیمات کے قریب ترین بھی ھے۔ اگر امریکہ میں پارلیمانی جمھوریت ھوتی تو 52 ریاستیں اکٹھی ھوکر دنیا کو آگے لگا لینے کی بجاٸے خود ایک ایک ریاست کے کٸی کٸی ٹکڑے ھوجاتے۔  ھمیں پاکستان کے لٸے بھی امریکی نظام حکومت کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ ری ڈیزاٸن کرکے اپنا لینا چاھٸے جس میں براہ راست ووٹنگ سے انتخاب ھو اور فاٸنل مقابلہ صرف دو قریب ترین امیدواروں میں ھو۔ ملکی مساٸل اور معیشت پر مناظرے ھوں اور سوال جواب کے اوپن سیشن ھوں جن میں کسی پرچی کی اجازت اور گنجاٸش نہ ھو۔ سیاسی جلوسوں اور بریانی پروگرامز پر سختی سے پابندی لگا دی جاۓ جب تک کہ تمام بڑے ملکی مساٸل پر وہ مناظروں میں کوٸی مضبوط اور واضع مٶقف نہ ثابت کردیں۔  چاٸینہ کی مثال سامنے رکھتے ھوۓ کابینہ میں شمولیت پروفیشنل ڈگری اور اسی فیلڈ میں تجربہ بہت ضروری قرار دیا جاۓ۔ اس سلسلے میں پی ایچ ڈی لوگوں کو واضع فوقیت دی جاۓ۔  یہ اھم بات دھیان میں رھے کہ ھم اسراٸیل، افغانستان، ایران، امریکہ اور انڈیا کے اتحاد کے خلاف ایک ڈھکی چھپی یا اعلانیہ جنگ لڑنے پر مجبور ھیں ۔ ھمارا دل چاھے یا نہ چاھے ھم اپنی بقا کے لٸے اس پر مجبور ھیں۔ اسراٸیل میں سب سے زیادہ اھمیت علم اور ریسرچ کو دی جاتی ھے۔ دنیامیں سب سے زیادہ کتابیں اسراٸیل میں ھی لکھی اور پڑھی جاتی ھیں۔ اور اس قدر تعلیم یافتہ دشمن کا مقابلہ ھمارے انتہاٸی کم  پڑھے لکھے کارٹون نما کرپٹ سیاستدان بالکل بھی نہیں کرسکتے۔  اس لٸے ھمیں بھی امریکی نظام حکومت کو اس طرح سے کاپی کرنا ھے جس میں ھم علم ، ریسرچ اور انصاف کو اھمیت دے سکیں اور انتہاٸی کم وقت میں بہترین قانون سازی کرسکیں۔  یہ اب بہترین وقت ھے کہ ھم اس موضوع پر سب مل کر سوچ بچار کریں اور ایک بہترین نظام حکومت اختیار کریں۔  ‏www.zaidhamid.pk www.brasstacks.pk

‎ایک زرداری سب پہ بھاری ــ اس ریسرچ آرٹیکل میں موجود تقریباً تمام واقعات کی تفصیلات گوگل پر انگلش میں موجود ھیں ـــ اللّٰه نے شیطان کو اس کے تکبر کی وجہ سے بدترین مخلوق بنا دیا۔ اور اس کی وجہ وہ آدم علیہ السلام کو سمجھتا ھے۔ لیکن کبھی کبھی تو وہ اولاد آدم کے کرتوت دیکھ کر خود بھی ششدر رہ جاتاھے۔ ان ھی میں سے ایک کا ناام آصف علی زرداری ھے آصف علی زرداری نی 26 جولاٸی 1955 کو کراچی میں حاکم علی زرداری کے گھر جنم لیا۔ حاکم علی زرداری ایک عام سے زمیندار تھے اور ذولفقار علی بھٹو کی قریبی ساتھیوں میں ان کا شمار ھوتاتھا۔ 1972 سے 1977 تک قومی اسمبلی کے ممبر رھے۔ حکومت کے آخری حصے میں بھٹو صاحب بڑی ٹینشن میں تھے ۔ کسی بات پر حاکم علی زرداری کو ایک بڑا ھی زوردار تھپڑ دے مارا۔ حاکم علی زرداری اپنی انسلٹ نہ سہہ سکے۔ اور پی پی پی چھوڑ کر اے این پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اور بھٹو سے خار دل میں رکھ لی۔ بھٹو کی پھانسی پر صدر جنرل ضیا۶ الحق کو اجرک پیش کی۔ لیکن غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ھوسکا اور یہ انتقام ان کی اگلی نسل کو منتقل ھو گیا جو بھٹو خاندان کے مکمل صفایا کردینے پر منتج ھوا حاکم علی زرداری نے  1988 اور 1993 کے انتخابات میں پی پی پی کے پلیٹ فارم سے کامیابی حاصل کی۔ 24 مٸی 2011 کو بڑھاپے کے باعث بہت سی تکالیف میں مبتلا ھوکر پمز میں انتقال کرگٸے۔ آصف علی زرداری نے ابتداٸی تعلیم سینٹ  پیٹرک ھاٸی سکول کراچی میں حاصل کی اور اوسط درجہ میں میٹرک کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رھے۔ اس دوران بطور چاٸلڈ اداکار فلم ساز سجاد کی فلم ”منزل دور نہیں“ میں کام کیا لیکن یہ فلم بالکل ھی ناکام رھی۔ اس کے بعد پٹارو کیڈٹ کالج میں داخلہ لیا لیکن پڑھاٸی پر توجہ نہ ھونے کے برابر تھی۔ اسی دوران بمبینو سینما میں جاب کرنے کا موقع ملا تو اپنے فلمی رحجان کے سبب زرداری نے یہ جاب کرلی اور ترقی کرتے کرتے بالآخر ٹکٹ کلرک کے عہدے تک پہنچ جانے میں کامیاب رھے اور کافی دیر تک بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک کرکے بلیک منی کماتے رھے جسے عرف عام میں حرام کہتے ھیں۔ بمبینو ایک مضبوط کاروباری گروپ تھا جس کے مالک شیخ کاشف امتیاز تھے۔ ایک دن زرداری کے ھاتھ ایسا ڈاکومنٹ لگا جس پر اس کے مالک شیخ امتیاز کے دستخط تھے۔ زرداری کے ذھن میں ایک شیطانی آٸیڈیا آگیا۔ زرداری نے ان دستخطوں کی بھر پور پریکٹس کی۔ اس دوران شیخ کاشف صاحب نے بمبینو کے نام سے سوفٹ ڈرنکس اور ڈبہ پیکنگ میں جوس متعارف کرواٸے۔ ان کا بڑا اچھا رسپانس ملنے پر شیخ صاحب کی زیادہ توجہ اس نٸے کاروبار کی طرف ھوگٸی۔ زرداری نے اپنے والد کو ساتھ ملا کر بمبینو سینما کو ٹھیکے پر لینے کی آفر کی۔ شیخ صاحب نے بدقسمتی سے ان کی آفر قبول کرلی۔ زرداری نے دو ایگریمینٹ تیار کروالٸے ۔ ایک تو ٹھیکے کا ایگریمنٹ تھا اور دوسرا بمبینو سینما کی فروخت کا ایگریمنٹ سیل ڈیڈ تھی۔ کچھ عرصے کے بعد زرداری اور اس کے والد نے سیاسی اثر رسوخ کام میں لاتے ھوٸے جعلی سیل ڈیڈ کی بنیاد پر اس سینما پر قبضہ کرلیا۔ زرداری کی یہ باقاعدہ پہلی بڑی واردات تھی۔ جس کے نتیجے میں شیخ کاشف امتیاز صاحب ٹینشن سے بیمار پڑ گٸے اور ان کا بمبینو بزنس گروپ بھی دیوالیہ ھوگیا۔ 1985 میں غیر جاعتی انتخابات ھوٸے تو زرداری نے نواب شاہ سے صوباٸی اسمبلی کے لٸے کاغذات نامزدگی جمع کرواٸے لیکن اخراجات کے لٸے مناسب رقم دستیاب نہ ھونے پر واپس لے لٸے۔  اس دوران بے نظیر بھٹو واپس پاکستان آٸیں تو زرداری کے ذھن میں ایک نیا آٸیڈیا آگیا۔ زرداری کی بہن فریال تالپور کی بے نظیر سے بچپن کی دوستی تھی۔ زرداری نے اپنا آٸیڈیا اپنی فیملی سے ڈسکس کیا اور بےنظیر کا ذھن زرداری سےشادی کے لٸے ھموار کرنے کا ٹاسک فریال تالپور کو دے دیا۔ فریال تالپور پرانی دوستی کے بہانے بےنظیر سے چپک گٸی۔ بےنظیر کو تنہا اور مشکلات کا شکار دیکھ کر اپنا کام بڑے عمدہ طریقے سے کرنے لگ پڑی اور زرداری اور بےنظیر کی ملاقاتیں کرواٸیں جن میں بےنظیر کو احساس دلایا کہ زرداری اس کے لٸے بڑے ھی کام کی چیز ھے۔ دھڑلے والا اور قابل اعتبار ھے۔ اس کے راستوں کے کانٹے چن لے گا۔  بےنظیر شادی کے لٸے مان گٸی اور اس طرح سے زرداری کی تو گویا لاٹری ھی نکل آٸی۔  18 دسمبر 1987 کے دن بڑی دھوم دھام سے یہ شادی انجام پاٸی۔ 1988 کے انتخابات میں بینظیر کامیاب ھو کر وزیراعظم بن گٸی اور زرداری ایک شیڈو وزیراعظم۔  ھر ایک فاٸل پر بینظیر کے دستخط کروانے کا معاوضہ زرداری وصول کرنے لگا۔ پھر اس سے آگے بات بڑھی تو مسٹر ٹین پرسنٹ مشھور ھوگیا۔ بے نظیر سے جب اس کی شکاٸت کی گٸی تو اس نے الٹا زرداری کو ڈانٹا کہ تم اتنے کم ریٹ پر کیوں کام کر رھے ھو۔ چنانچہ بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں بات بڑھتے بڑھتے پچاس پرسینٹ تک جاپہنچی۔ 1990 برطانوی تاجر مرتضی ٰبخاری کی ٹانگ سے بم باندھ کر زبردستی اس کے بنک اکاٶنٹ میں موجود 8 لاکھ ڈالر نکلوا کر ھتیا لٸے جس پر بہت زیادہ شور مچ گیا تو  کرپشن کے الزامات پر غلام اسحاق خان نے بینظیر حکومت کو برطرف کرکے آصف زرداری اور بینظیر کے خلاف 19 ریفرینس فاٸل کردٸیے۔ لیکن بروقت کوٸی فیصلہ نہ ھونے سے 1990 کے انتخابات میں یہ دونوں میاں بیوی دوبارہ منتخب ھوجانے میں کامیاب رھے۔ اس دفعہ نواز شریف وزیراعظم بن گٸے۔ مگر ہر کسی سے ٹکراٶ اور اختیارات اور دولت کی ھوس میں 1993 میں کرپشن کے الزامات پر دفعہ   2b( 58) کے تحت برطرف کردٸے گٸے۔ میر بلخ شیر مزاری کی نگران کابینہ بنی تو زرداری اس میں شامل ھوگٸے۔ اسی دوران غلام اسحق خان کا انتقال ھوگیا۔ انتخابات میں بینظیر کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ سردار فاروق احمد لغاری صدر منتخب ھوگٸے اور کرپشن کے وہ 19 ریفرنس بالکل ھی بے اثر ھو کر رہ گٸے۔ زرداری کا ھاتھ اور کھل گیا اور وہ بڑے بڑے ھاتھ مارنے لگے۔ اس دور میں فرانس سے میراج لڑاکاطیارے اور ایٹمی آبدوز کے 4 ارب ڈالر مالیت کے سودے ھوٸے ۔ آبدوز کی اسمبلنگ کراچی یارڈ میں ھوناطے پاٸی۔ ان دونوں سودوں میں مبینہ طور پر بہت بھاری کمیشن طے پاٸی۔ آبدوز کے کمیشن کی آخری قسط حکومت پاکستان کی طرف سے واجبات کی مکمل اداٸیگی کے بعد ھونا قرار پاٸی۔ ستمبر 1996 کے پہلے ھفتے میں زرداری پہلی دفعہ کلین شیو نظر آٸے۔ یہ بڑی ھی حیران کن بات تھی۔ واقفان حال نے بتایا کہ مسٹر زرداری حکومتی طاقت کے زعم میں میر مرتضیٰ بھٹو کے ھاں جا گھسے اور ان سے لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لٸے دیا گیا بلینک چیک مانگا۔ اس پر دونوں میں شدید جھگڑا ھوگیا۔ میر مرتضیٰ بھٹو نے اپنے گارڈز سے زرداری کو خوب اچھی طرح پٹوایا۔ جوتے مرواۓ اور گندے ناپاک پانی سے اس کی آدھی مونچھ بھی منڈوادی۔ زرداری کو اچھی خاصی چوٹیں بھی لگیں۔ کچھ جسم پر اور کچھ دل و دماغ پر ۔ 20 ستمبر 1996 کی رات ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراھی میں سندھ پولیس نے نہ رکنے کے الزام پر فاٸرنگ کرکے میر مرتضی بھٹو کو قتل کرڈالا۔ جب تک میر مرتضیٰ بھٹو کا دم نکل نہ گیا، جاۓ وقوع پر ایمبولینس کو نہ آنے دیا گیا۔  وجہ موت وہ گولی بنی جو ایک پسٹل سے تھوڑی کے نیچے رکھ کر چلاٸی گٸی۔ اتنے قریب سے یہ انتقامی گولی کون چلا سکتا تھا؟ اس قتل پر بینظیر نے صرف زبانی واویلا کیا ۔ کیوں کہ اس بلینک چیک کا راز صرف میر مرتضیٰ بھٹو اور بےنظیر کے درمیان تھا۔ یہ کیس بہت جلد داخلِ دفتر کردیا گیا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور دفاعی سودوں میں اس قدر بڑی کرپشن پر صدر فاروق لغاری شدید پریشان ھوگٸے اور انھوں نے بھی کرپشن کے بھیانک  الزامات پر 5 نومبر 1996 کے دن پی پی پی کی حکومت کو برطرف کردیا۔ برطرفی کے الزامات بہت زیادہ تھے۔ مختصراً کچھ یہاں بیان کردیتے ھیں۔ 1۔ دفاعی سودوں میں اور حکومت چلانے میں ہر مرحلے پر کرپشن 2۔ میر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے رفقا۶ کا قتل 3۔ پاکستان سٹیل مل کے چیٸرمین سجاد حسین کا قتل 4۔ سندھ ھاٸیکورٹ کے جسٹس نظام احمد کا قتل 5۔ 9 جنوری 1996 سلطان راھی کا ھوٹل زرداری کے حوالے نہ کرنے پر قتل۔ مقتول کو زرداری نے وزیراعظم ھاٶس بلا کر اس سے ھوٹل بیچنے کو کہا اور انکار پر کھلی دھمکی دی کہ تم اب لاھور نہیں پہنچ پاٶ گے۔ گجرانوالہ تک فیصلہ کرنے کی مہلت دی۔ سلطان راھی بہت ھی پریشان ھوگیا اور وہاں سے نکلتے ھی اپنے دوستوں کو صورتحال فون پر بتادی۔ اس کا باقاعدہ تعاقب کیا جانے لگا۔ گوجرانوالہ کے پاس اس کو روک کر منہ کے اندر پستول کی نالی ڈال کر فلمی انداز میں گولی ماردی گٸی اور وہ واقعی لاھور نہ پہنچ سکا ۔ 6۔منشیات کی بہت بھاری پیمانے پر اسمگلنگ اور اس کے لٸے وزیراعظم کے عہدے کا استعمال 7۔ ‏ARY ‎دوبٸی سے 5 میلین ڈالر لے کر اس کو پاکستان کے لٸے اکلوتے سول گولڈ امبورٹر کا سٹیٹس دینا اور خود بھی بھاری مقدار میں سونے کی خریداری ، اسمگلنگ اور اس کا منی لانڈرنگ میں استعمال 8۔ ھیلی کاپٹروں کی خریداری میں گھپلے 9۔ پولینڈ سے ٹریکٹروں کی پراسرار خریداری جبکہ پاکستان دنیا کے مانے ھوٸے بہترین ٹریکٹر خود بہت سستے بنارھا تھا۔ 10۔ راک وڈ اسٹیٹ سرے کاٶنٹی کے نام کا ایک بہت ھی بڑے محل کی خریداری 11۔ بے حد مہنگے ھیروں کے ھار کی خریداری 12۔ سوٸس اکاٶنٹس میں 60 کروڑ ڈالر موجودگی 13۔ کوٹیکنا کے نام سے ایک پراسرار فرم بناکر اسے پاکستانی کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں ٹھیکے دینا 14۔ سپین میں آٸل فار فوڈ سکینڈل 15۔ 6 شوگر ملز میں بھاری مالیت کے حصص ھتیانا 16۔ حیدرآباد ، سانگھڑ اور نواب شاہ میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین حکومتی اثر رسوخ سے حاصل کرنا۔ 17۔ مختلف ممالک میں مختلف کاروباروں میں مختلف ناموں سے کمپنیاں بنا کر بھاری سرمایہ کاری کرنا زرداری کے خلاف سوٸس عدالتوں میں کک بیکس اور کرپش کے مقدمات چل پڑے جن میں سٹی بنک میں زرداری کے اکاٶنٹس کو بنیاد بنایا گیا اور اسی بنا۶ پر سٹی بنک کو پاکستان میں اپنے بنکنگ آپریشن سے ھاتھ دھونے پڑے 5 نومبر 1996 کے دن زرداری کو گورنر ھاٶس پنجاب سے گرفتار کیا گیا۔ زرداری نے فرار ھونے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن قسمت نے اس دفعہ ساتھ نہ دیا۔ مسٹر زرداری حکومت پنجاب حاصل کرنے کے لٸے جوڑ توڑ کرنے اور ایم پی اے خریدنے کے لٸے کیمپ لگاٸے ھوٸے تھے جہاں خواجہ احمدطارق رحیم گورنر پنجاب ان کے میزبان اور اس مہم میں مددگار بھی تھے۔ یہاں سے زرداری کا جیل میں قیام کا ایک لمبا دور شروع ھوا جو نومبر 2004 تک جاری رھا۔ جنوری 1998 میں نیویارک ٹاٸمز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ آصف علی زرداری نے فرانس سے 4 ارب ڈالر کے  دفاعی معاھدوں میں 200 ملین ڈالرز کی کک بیکس وصول کیں اور باقی کی پراجیکٹس مکمل ھونے پر کمٹمنٹس لیں۔ اس کے علاوہ زرداری نے پبلک فنڈز میں وسیع پیمانے پر غبن کیا۔ تحقیقاتی ایجینسیوں نے 1.5 ارب ڈالر کی ایک اور کک بیک کا بھی سراغ لگایا۔ زرداری نے بہت سے خفیہ معاہدے بھی کٸے اور ان میں کک بیکس اور کمیشن دوبٸی اور لندن میں کیش وصول کٸے۔ اور اس دوران جس نے بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی زرداری نے اس کو قتل کروادیا۔    1999 میں امریکی سینیٹ میں آصف علی زرداری کی کرپشن اور فنانشل ھسٹری کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر پیش کیا گیا۔ جس میں سٹی بنک نے بڑی ھی جاندار معلومات فراھم کیں۔ 1998 میں سوٸس گورنمنٹ نے حکومت پاکستان کو کچھ سرکاری دستاویزات فراھم کیں جن سے پتا چلا کہ بینظیر اور آصف علی زرداری ، دونوں میاں بیوی منی لانڈرنگ میں ملوث پاٸے گٸے ھیں۔ جس پر سوٸس حکومت نے ان دونوں کے خلاف عدالتی کارواٸی شروع کردی ھے۔ ان کا جرم ثابت ھوجانے پر دونوں میاں بیوی کو سوٸس عدالت نے چھ ماہ کی قید اور 50 ھزار ڈالر جرمانے کی سزا سناتے ھوٸے حکم دیا کہ وہ دونوں حکومت پاکستان کو کسٹم ڈیوٹی فراڈ سے حاصل کٸے گٸے 11 ملین ڈالر واپس کریں۔ جو کہ آج تک نہ ھوسکے۔ فرانس، پولینڈ اور سوٸزر لینڈ میں ان دونوں کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کٸی اور کیس بھی داٸر ھوگٸے۔ جیل میں قیام کے دوران بظاہر تو نادار قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیٸے کام کیا جو چھوٹے چھوٹے جراٸم کے الزامات میں اپنی غربت کی وجہ سے قید تھے۔ لیکن زرداری نے درحقیقت جیل کی دنیا کے بڑے بڑے مجرموں پر مشتمل ایک گینگ بنانے کا عمل بڑی رازداری سے شروع کردیا اور جیل کے اندر رھتے رھتے کراچی میں خون خرابہ کروانا شروع کردیا۔ اغوا براٸے تاوان کا دھندہ بہت جلد اتنی ترقی کرگیا کہ زرداری نے تو اتنا زیادہ تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جیل میں قیام کے دوران ھی مارچ 1997 میں زرداری کا بطور سینیٹر انتخاب ان کی حالات پر ان کی مضبوط گرفت کا اظہار تھا۔ جیل میں قیام کے دوران بہت سے نامی گرامی قاتل زرداری نیٹ ورک کا حصہ بن گٸے جن میں رحمٰن ڈکیت، بابا لاڈلا، عزیر بلوچ اور سینکڑوں خطرناک مجرم تھے۔ فرنچ وزیراعظم سے بذریعہ بےنظیر رابطہ کرکے اپنی کمیشن قبل از وقت مانگ لی تو فرنچ وزیراعظم نے جواب دیا کہ ابھی تو پراجیکٹ پر کام جاری ھے اور فاٸنل پیمنٹ سے قبل ایسا کچھ بھی ممکن نہیں۔ لیکن زرداری نے اپنا اصرار جاری رکھا اور دھمکی دی کہ اس انکار کا انجام بےحد خطرناک ھوگا۔ اور پھر ایسا ھی ھوا۔ یہ 8 مٸی 2002 کی صبح تھی ۔ موسم قدرے گرم تھا۔ سورج چمک رھا تھا۔ نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان ٹیسٹ میچ کراچی میں کھیلا جارھا تھا جس کا تیسرے دن کا کھیل شروع ھونے کو تھا۔ دونوں ٹیمیں کراچی کے دو فاٸیو سٹار ھوٹلز کی لابی میں بسوں میں سوار ھونے کے لٸے اپنے اپنے ھوٹلز کے کمپاٶنڈز میں آرھی تھیں۔ ھوٹل آمنے سامنے ھونے کے باعث کھلاڑی ایک دوسرے کو دیکھ کر ھاتھ ھلا رھے تھے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ھو رھا تھا۔ دونوں ھوٹلز کے درمیان ایک چوڑی شاہراہ پر ٹریفک رواں دواں تھی۔ اچانک ھی ایک بہت بڑی بلیک کار نے اپنی لاٸن توڑتے ھوٸے دوسری لاٸن میں جانے والی ایک خوبصورت بس کو ٹکر دے ماری۔ بلیک کار ٹی این ٹی بارود سے بھری ھوٸی تھی۔ اور یہ بس فرنچ انجینٸیرز کو لے کر کراچی شپ یارڈ لے جارھی تھی۔ کان پھاڑ دینے والا ایک دھماکا ھوا جو کسی کے  وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دونوں کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑی دور دور جاگرے اور ان کو چوٹیں بھی لگیں۔ لیکن اصل تباھی تو فرنچ انجینیٸرز کی ھو گٸی جن کی بس اس دھماکے سے مکمل تباہ ھوگٸی۔ اس دھماکے میں 15 فرنچ انجینٸرز جان سے ھاتھ دھو بیٹھے اور 40 افراد زخمی ھوگٸے۔ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم فوری طور پر اپنے ملک روانہ ھوگٸی۔ فرنچ انجینیٸرز کی بس دھماکے سے تباہ کرنا پاکستان میں خودکش دھماکوں کی ابتدا تھی۔ اس سے پہلے ایسے ھولناک دھماکے کی کوٸی مثال نہیں ملتی۔ اس دھشت گردی کے واقعے نے انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر پاکستان کی پرامن شہرت کو داغدار کرڈالا۔ 9/11 کے واقعات کے بعد تو آھستہ آھستہ یہ جنگ اور دھشت گردی پاکستان میں سرایت ھی کرگٸی اور پاکستان میں اوپر تلے بہت سے خودکش دھماکے ھوٸے۔ نومبر 2002 میں کے جیل میں قیام کے دوران آصف زرداری کی والدہ کا انتقال ھوگیا۔ اس سے ان کے لٸے میڈیا میں لابنگ کے ذریعے ھمدردی کے احساسات کو اجاگر کیا گیا۔ بینظیر نے خودساختہ جلاوطنی کے دوران جنرل مشرف پر دباٶ ڈالنے کی اور اپنے لٸے کوٸی راستہ نکالنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ امریکی حکام سے ایٹمی پروگرام پر کمپروماٸز کرنے تک چلی گٸیں مگر امریکی اعلیٰ حکام بے حد محتاط تھے اور اتنی کرپٹ عورت جو کوٹیکنا کیس میں اپنے شوہر سمیت سوٸس عدالت سے سزا یافتہ ھو ، اس پر اعتبار نہ کیا۔ پاکستان کے اندرونی حالات میں کچھ ایسے موڑ آٸے جن سے جنرل مشرف کی گرفت اقتدار پر کچھ کمزور پڑنے لگی۔ پہلے نواب اکبر بگٹی کی پاک فوج کے چار اعلیٰ افسران سے مذاکرات کے دوران دھماکے میں ان سب کی ھلاکت ھو گٸی۔ پھر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا واقعہ ھوگیا۔ ملک بھر میں خودکش دھماکوں کی ایک لہر چل پڑی۔ جنرل مشرف اور بےنظیر میں بیک ڈور چینل سے رابطے 2004 میں شروع ھوچکے تھے۔ کچھ برف پگھلی تو آصف علی زرداری کو جذبہ ۶ خیرسگالی کے تحت نومبر 2004 میں ضمانت پر رھا کردیا گیا۔ لیکن میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے کیس میں پیش نہ ھونے پر ایک دفعہ پھر گرفتار ھوگٸے۔ لیکن اس دفعہ حکومت کا رویہ نرم تھا۔ آصف زرداری کو ھاٶس اریسٹ کرکے ان کے گھر کو ھی سب جیل کا درجہ دے دیا گیا۔ جنرل مشرف سے تعلقات میں مزید بہتری پر آصف علی زرداری کو ایک مرتبہ پھر ضمانت پر رھاٸی مل گٸی اور اس نے اس موقع کو غنیمت جانا اور فوراً دوبٸی فرار ھوگیا۔ اپریل 2005 میں زرداری نے لاھور کا ایک مختصر دورہ کیا اور دوبٸی واپس چلا گیا۔ اس دورے میں جنرل مشرف سے تعلقات کو مزید وسعت دی اور اپنے خلاف انتہاٸی سنگین مقدمات پر عدالتی کارواٸیاں ختم یا غیر مٶثر کرنے پر نتیجہ خیز بات چیت ھوٸی اور جنرل مشرف نے خود کو محفوظ راستہ یعنی سیف ایگزٹ کے عوض ان میاں بیوی کے لٸے راستہ نکالنے کی حامی بھرلی۔ جو بالآخر ‏NRO ‎پر منتج ھوٸی۔   یہ دو قانون کے مجرمان کا ایک دوسرے کو سزا سے بچانے کے لٸے باھمی معاھدہ تھا۔ پیپلز پارٹی کے ایک ترجمان کے مطابق ستمبر 2005 میں زرداری کی امریکا سے انجیو پلاسٹی بھی کرواٸی گٸی۔ جنرل مشرف سے گو اھیڈ کا اشارہ ملتے ھی ستمبر 2007 میں بینظیر نے دھوم دھڑکے سے پاکستان واپسی کا اعلان کردیا۔ جہاں جنرل مشرف نے این آر او کے تحت ان میاں بیوی اور دیگر بہت سے سیاستدانوں پر عاٸد مقدمات ختم کردٸیے۔ اور نٸے انتخابات کا اعلان کردیا۔ ان انتخابات کو بینظیر نے اپنی ذاتی کامیابی سے تعبیر کرتے ھوٸے سارے ثمرات خود سمیٹنے کی ٹھانی اور آصف زرداری کو نٸی حکومت کے قیام سے پہلے پاکستان آنے سے صاف منع کردیا۔ آصف زرداری کو محسوس ھوا  کہ اسکی بے حد و حساب بے راہ روی، شیریں رحمان اور اس طرح کی کٸی عورتوں سے زرداری کے تعلقات نے بینظیر کو اس سے بدظن کردیا ھے اور اب بینظیر کو شاٸد اس کی ضرورت ھی نہیں رھی اور وہ اس کو ساٸیڈ لاٸن کرنا چاہ رھی ھے ۔  اس نے فوراً ھی متبادل پلاننگ شروع کردی اور بینظیر کے چیف سکیورٹی افسر اپنے خاص الخاص بندے خالد شہنشاہ سے رابطہ کرلیا۔ طالبان اور محسود قباٸل سے رابطہ کرکے ایک نیا پلان ترتیب دےلیا۔ بینظیر کا آخری انتخابی جلسہ 27 دسمبر 2007 کی شام لیاقت باغ راولپنڈی میں تھا۔ بینظیر کے چیف سیکیورٹی افسر خالد شہنشاہ کی بدقسمتی کہ وہ بینظیر کے ڈاٸس کے بالکل ساتھ الٹے ھاتھ پر کھڑا  حملے اور بینظیر کو قتل کرنے کے اشارے کرتا ھوا گلے پر انگلی چھری کے انداز میں پھیرتا ھوا کیمروں کی ریکارڈنگ میں نظر آگیا۔ جو یوٹیوب پر بھی  موجود ھے۔ ‏https://youtu.be/V4M3jyf6fOc  https://youtu.be/Po5BxiLAUFI ‎اسی وقت زرداری نے بینظیر سے رابطہ کیا اور فون پر مبارکباد دی ۔ بےنظیر لیاقت باغ راولپنڈی کے اپنے اس کامیاب جلسے پر بہت خوش تھی۔ زرداری نے اس کو سن روف سے باھر نکل کر مجمعے کو ھاتھ ھلا کر شکریہ ادا کرنے کو کہا اور انتہاٸی شاطر اور ذھین بےنظیر نے بدقسمتی سے یہ بات مان لی اور بلٹ پروف اور بم پروف لینڈ کروزر کی سن روف سے باھر نکل کر مجمعے کی طرف ھاتھ ھلانے لگی۔ اور ایک سناٸپر نے اس کو نشانے پر رکھ لیا۔ ایک ھی گولی اس اسناٸپر نے چلاٸی جو بےنظیر کی کنپٹی پر جالگی ۔ جس سے بےنظیر کا بھیجہ باہر نکل آیا۔ اور کچھ لوگوں نے افراتفری پھیلانے کے لٸے بم دھماکے بھی کردٸیے۔ تاکہ سب کچھ گڈ مڈ ھو جاٸے۔ 27 دسمبر 2007 کی اس شام بینظیر کی زندگی کا سورج بھی غروب ھوگیا۔  زرداری نے فوراً عزیر بلوچ کو اگلا ٹاسک دیا اور خالد شہنشاہ بھی پیچھے پیچھے بنظیر کے پاس پہنچ گیا۔ زرداری اس قدر محتاط ھوگیا کہ اس نے اس پورے واقعے کے ان کرداروں کو قتل کروادیا جن کو اس نے خود یہ کام سونپا تھا۔ اس طرح سے اس کے خلاف عذیر بلوچ کے علاوہ کوٸی برہ راست گواہ زندہ نہ رھا۔ عذیر بلوچ چونکہ اس پلاننگ کا براہ راست حصہ نہیں تھا اس لٸیے وہ زندہ رھا۔ ملک بھر میں امن امان کی صورتحال سخت کشیدہ ھوگٸی۔ اس صورتحال  میں زرداری فوراً پاکستان پہنچ گیا اور اس نے اس قتل سے ابھرنے والی ھمدردی کی لہر کا بھرپور فاٸدہ اٹھاتے ہوٸے مرکز میں اور سندھ میں حکومت بنالی۔ کے پی کے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت بن گٸی جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنی۔ زرداری نے پلاننگ کے تحت پہلے سے تیار کردہ ایک جعلی وصیت نامے کو سامنے لا کر پیپلز پارٹی پر قبضہ کرلیا۔ یہاں بمبینو سینما والی واردات کا تجربہ بہت کام آیا ۔ اور اسی وصیت نامے کی رو سے بلاول زرداری کا سیاسی نام بلاول بھٹو زرداری رکھ دیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ اس کے بعد حسب وعدہ صدارتی انتخابات ھوٸے اور زرداری نے کسی بھی بدمزگی سے بچنے کے لٸے اپنا نام آخری لمحات تک ظاہر نہ ھونے دیا اور کراچی کے ڈان الطاف حسین کی نامزدگی پر آخری لمحات میں صدارتی امیدوار بن گیا۔ 6 ستمبر کو صدارتی انتخابات کے نتاٸج کے مطابق زرداری نے صدرپاکستان کا انتخاب جیت لیا۔ 9 ستمبر 2008 کے دن آصف علی زرداری نے صدارتی حلف لیا اور حسب وعدہ جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر عزت سے محفوظ راستہ دے کر صدارتی محل سے رخصت کردیا۔ ورنہ ازروٸے قانون یہ ایک جینوین آرٹیکل 6 کا ثابت شدہ کیس تھا۔ آصف زردری نے جنرل مشرف کو سیف ایگزٹ دینے کے عوض اپنے اور بےنظیر کے خلاف کرپشن اور  میموگیٹ سکینڈل سمیت تمام تر مقدمات ‏NRO ‎میں ختم کروالٸیے ۔ یہ ایک بڑے ہی ھاٸی لیول کی سودےبازی تھی۔ ورنہ تو یہ دونوں میاں بیوی بھی اپنے مشترکہ دوست حسین حقانی سمیت آرٹیکل 6 کے ثابت شدہ مجرم تھے۔ ‏NRO ‎کے ذریعے دونوں نے ایک دوسرے کے سنگین جراٸم کی پردہ پوشی کی اور بونس میں زرداری کو پاکستان کی حکومت اور صدارت مل گٸی۔ آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ھی اپنے جیل میں بھرتی کٸے خفیہ گینگ کے تمام ممبران سے عزیر بلوچ کی محل نما رھاٸش گاہ میں  فرداً ملاقاتیں کیں اور ان کو سیریل کلنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے بہت سے نٸے مشن سونپے۔ جس کی وجہ سے کراچی کے حالات خراب ھوگٸے۔ اور روزانہ درجنوں شھریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا۔ لیاری وار گینگ اور پیپلز امن کمیٹی میں تو جیسے ایک لمبی جنگ چھڑ گٸ۔ نو گو ایریاز بن گٸے بھتے کی پرچیاں بڑے تسلسل سے کاروباری لوگوں تک پہنچنے لگیں۔ زرداری نے اپنے قریبی سیاسی دوستوں کو مجرموں کو پالنے اور ان کی سرپرستی کرکے گینگ بنانے کی ترغیب دی اور سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے ان سب کو ملوا کر پولیس کے تعاون کی یقین دھانی بھی کروادی۔ بہت جلد سندھ کا چپہ چپہ نیٹو اسلحے سے لیس ڈاکوٶں سے بھر گیا۔  انڈس ھاٸی وے پر سفر کرنا مشکل ھوگیا۔ بہت سے ڈاکوٶں کو ان سیاستدانوں نے اکٹھا کرکے ان کے گینگ بناۓ۔ اور ان کو جدید ترین مہلک اسلحہ فراھم کرکے ان کو اپنی اپنی پراٸیویٹ فوج کا درجہ دے دیا۔ اور ان سے اپنے سیاسی مخالفین کو بھی ٹھکانے لگوادیا۔ گینگ تو بےشمار بنے  لیکن سب سے زیادہ مشھور آغا سراج درانی کا بنایا ھوا ”چھوٹو گینگ“ تھا۔ اس کا سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو تھا۔ اس گینگ نے تو سندھ پولیس کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالی اور بالآخر جنرل راحیل کے ھاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ اقتدار سنبھالتے ھی زرداری نے صدرالدین ھاشوانی سے اور میاں منشا۶ سے رابطہ کیا۔ ھاشوانی سے ان کی ملکیت میریٹ ھوٹلز کی چین خریدنے کی خواھش ظاہر کی اور میاں منشا۶ سے نشاط گروپ اور ایم سی بی بینک خریدنا چاھا۔ میاں منشا۶ نے ایک بھاری رقم تاوان دے کر جان چھڑاٸی اور دوبٸی شفٹ ھوگٸے۔ جبکہ ھاشوانی فوری طور پر لندن نکل گٸے اور زرداری کو ھوٹل چین دینے سے انکار کردیا۔ ان کو سلطان راھی مرحوم کا قتل بڑی ھی اچھی طرح سے یاد تھا۔ زرداری کی کچھ نشے میں لڑاٸی جھگڑے اور غل غپاڑے پر ھوٹل سے بے عزت کرکے نکالے جانے کی بری یادیں اسلام آباد کے میریٹ ھوٹل سے وابستہ تھیں۔ اور زرداری جیسے شیطان کو انکار کرنے کی جرات کی گٸی تھی۔ 20 ستمبر 2008 کی رات میریٹ ھوٹل کے داخلی راستے کے آگے سے ایک ڈبل کیبن گاڑی آھستگی سے گزری۔ یہ ایک بہت بڑے ڈمپر ٹرک کو راستہ دکھا رھی تھی۔ تھوڑا سا ھی آگے جاکر گاڑی رک گٸی اور اس میں سے ایک شخص نے اپنے پیچھے آنے والے ٹرک کو باٸیں سمت میں مڑ کر ھوٹل کی پارکنگ میں جانے کا اشارہ کیا۔ وہ شخص دوبارہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی تیزی سے آگے کو چل دی۔ پیچھے آنے والا ٹرک ھوٹل کی پارکنگ میں مڑ گیا۔ یہ  ٹرک ٹی این ٹی بارود سے بھرا ھوا تھا جسے ایک افغانی پٹھان خودکش حملہ آور چلا رھا تھا۔ ھوٹل کے پارکنگ سٹاف کو ایک بڑی گڑبڑ کا فوراً اندازہ ھوگیا۔ لیکن اس کے باوجود ھوٹل سٹاف نے اس بارودی ٹرک کو روکنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ ایک گارڈ نے ٹرک کے اگلے ٹاٸر پر فاٸر کردیا۔ جب افغانی ڈراٸیور  نے دیکھ لیا کہ اب اور آگے جانا ناممکن ھے اور کسی بھی لمحے وہ کسی گارڈ کی گولی کا نشانہ بن سکتاھے تو اس نے اپنی بارودی خودکش جیکٹ کا بٹن دبا دیا۔ اسکی جیکٹ کو آگ تو لگ گٸی لیکن کوٸی بڑا دھماکا نہ ھوا۔ اتنے میں ایک گارڈ نے اس کو گولی بھی مار دی۔ ان سب نے مل کر اس کی جلتی ھوٸی لاش ٹرک سے باہر نکالنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ھو سکے۔ ایک گارڈ نے آگ بجھانے والا سلنڈر لاکر بہت سارا فیوم سپرے کیا لیکن بارودی کیمیکل کی آگ نہ بجھ سکی اور ٹرک کے کیبن میں آگ پھیلنے لگی۔ کچھ گارڈز نے ھوٹل کے اندر جاکر شور مچایا اور لوگوں کو ھوٹل کے پچھلے راستے سے نکالنے کی کوشش کی۔ تقریباً پانچ منٹ کے وقفے سے آگ ٹرک کے پچھلے حصے تک پہنچ گٸی اور پھر ایسا خوفناک دھماکا ھوا کہ اسلام آباد کے مکینوں نے کبھی سوچا بھی نہ ھوگا۔ چار منزلہ ھوٹل میں ھر جگہ آگ بھڑک اٹھی اور تمام شیشے چکنا چور ھوگٸے۔ دھماکے کی جگہ پر  60 فٹ چوڑا اور بیس فٹ گہرا ایک خوفناک گڑھا پڑگیا ۔ 54 لوگ ھلاک ھوٸے اور 266 لوگ  زخمی ھوٸے۔ زرداری کو انکار کرنا ھاشوانی کو کافی مہنگا پڑا۔ زرداری دور پاکستان میں صنعت و زراعت کے لٸیے بہت بھیانک ثابت ھوا۔ لوڈ شیڈنگ بڑھتے بڑھتے 22 گھنٹے روزانہ تک جا پہنچی۔ یہ وہ بدترین وقت تھا جب پاکستان کی تمام تر انڈسٹری بند ھونے پر آگٸی تھی۔ زرداری کو ڈالر 63 روپے پر ملا تھا جو اس کے دور حکومت کے اختتام پر 100 روپے کی حد عبور کرگیا تھا۔ پٹرول 50 روپے فی لٹر پر ملا تھا جو 117 روپے تک بیچا گیا۔ 11 مٸی 2011 کو زرداری روس کے دورے پر ماسکو پہنچا۔ اس کے ھم منصب نے اس کا استقبال کیا اور بڑی حیرانی سے دریافت کیا کہ پاکستان میں موجودہ دور میں صرف دو گھنٹے روزانہ عوام کو بجلی ملتی ھے۔ روس نے جدید ترین آبدوز نما سمارٹ بوٹس پر ایٹمی ری ایکٹر نصب کٸے ھیں۔ ایک ایسا سسٹم ایک دفعہ آن کٸے جانے کے بعد 50 سال تک متواتر لگاتار 1350 میگا واٹ بجلی دیتا ھے۔ آپ بتاٸیں پاکستان کو کتنی بجلی درکارھے؟ آپ اپنے ملک فون کرکے کہیں کہ ٹرانسمیشن لاٸن بندرگاہ تک لے آٸیں۔ آپ کی پاکستان واپسی سے پہلے یہ جدید ترین حفاظتی انتظامات سے لیس بوٹس پاکستان پہنچ جاٸیں گی۔ انھوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ ان کا چرنوبل اٹامک پاور ری ایکٹر 128,000 میگاواٹ پیداواری صلاحیت رکھتا تھا لیکن اس میں حادثے کے بعد رشین ساٸنسدانوں نے ایسے سمارٹ اور بہت ھی مختصر ساٸز کے بہت ھی محفوظ اٹامک ری ایکٹر بنالٸے ھیں جو ایک بہت ھی مضبوط دھاتی باکس میں بند ھیں اور ایک درمیانے ساٸز کی آبدوز نما موٹر بوٹ پر نصب ھیں۔ اگر کسی حادثے کا شکار ھو بھی جاٸیں تو ان کی تابکاری باہر نہیں نکلتی۔ اور اگر کوٸی خطرہ محسوس ھو تو دس کلومیٹر دور سے بھی ایک ریموٹ کا بٹن دبانے سے یہ بوٹ اپنے مقام سے تین کلومیٹر دور ھٹ کر ایک آبدوز کی طرح پانی کی تہہ میں چلی جاتی ھے۔ اور ریموٹ کا بٹن دوبارہ دبانے سے ایک دفع پھر سطح آب پر نمودار ھوجاتی ھے اور ریموٹ کی مدد سے اپنی پہلی جگہ یا کسی نٸی جگہ پر دوبارہ کھڑی کی جاسکتی ھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ کی انوسٹمنٹ کے بعد  50سال تک مسلسل مفت بجلی ملے گی۔ 50 سال کے بعد ری فیولنگ کرکے پھر اگلے پچاس سال بجلی مل جاٸے گی۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے پیش نظر وہ پاکستانی ساٸنسدانوں کو مکمل تربیت اور سمارٹ پاور ری ایکٹر ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لٸے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ مستقبل میں پاکستان کی اھم پوزیشن کے پیش نظر وہ پاکستان سے گرم جوش تعلقات بنانے کے لٸے بہت زیادہ پرجوش اور خواھش مند تھے۔ تاکہ پرانی تلخیاں مٹا کر روس اور پاکستان اتحادی بننے کی سمت میں آگے بڑھ سکیں۔ انھوں نے پاکستان سٹیل مل کی دگرگوں حالت پر پریشانی کا اظھار کرتے ھوٸے زبردست تعاون کی پیشکش کردی کہ وہ پاکستان سٹیل مل کو اپ گریڈ کرنے کے لٸے مشینری اور ماہرین بھی دینے کو آمادہ ھیں۔  زرداری اور بےنظیر ھی وہ سیاستدان حکمران تھے جنہوں نے اپنے پہلے اور دوسرے دور حکومت میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی تیل سے بجلی پیدا کرنے والے پاور ھاٶسز لگواٸے اور ان سے بہت مہنگی بجلی خرید کر کمیشن حاصل کیا۔ زرداری پاکستان بھر کی بجلی مفت کیسے ھونے دیتا؟ پاکستان کے لٸے اتنی بڑی پیشکش پر زرداری نے انکار کردیا۔ کیوں کہ وہ تو رشین لڑکیوں کے حسن کی شہرت سن کر ماسکو پہنچا تھا۔ انھوں نے جب زرداری کی دلچسپی دیگر امور میں دیکھی تو متعلقہ سپلاٸرز سے زرداری کی ملاقات کروادی۔ اور اس کے بعد زرداری کی فرماٸش پر روس سے لڑکیوں کا ایک گروپ اسلام آباد اٸیرپورٹ پہنچ جاتا ۔ زرداری کے صدارتی دور میں ان گروپس کا تواتر سے آنا اور جانا لگا رھا۔  صدارتی محل کی گاڑی ان کو لینے پہنچ جاتی۔ امیگریشن حکام کو سختی سے ھداٸیت کی گٸی تھی کہ ان کی آمد ورفت کا ریکارڈ مت رکھا جاٸے۔ اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ زرداری کے حکم کی خلاف ورزی کا سوچ بھی سکتا۔ زرداری نے روس سے واپس آکر رینٹل پاور پلانٹس کے منصوبے پر عمل کیا۔ واپڈا کے پاور ھاٶسز بند کروا کر بجلی کا شدید بحران پیدا کردیا جو لنبے عرصے تک جاری رھا۔ اور ترکی سے کارکے رینٹل پاور پلانٹ نامی ایک بحری جھاز منگوالیا۔ اس کی کپیسیٹی تقریباً 80 میگا واٹ تھی۔ کاغذات میں اس کو 220 میگاواٹ ظاہر کرکے اس سے 43 روپے فی یونٹ بجلی کی خریداری کا معاھدہ کرلیا۔ اس ڈیل میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے بیٹے کو کنسلٹنٹ بھرتی کرکے 5 لاکھ روپے ماھانہ سیلری پر رکھ لیا۔ اسی طرح کے مزید رینٹل پاور اگریمنٹ کرکے پاکستان کی اکانومی کو کاری زخم لگا ڈالے۔ اپنے ایک دوست ریاض لال جی کے ساتھ مل کر زرداری نے پاکستان سٹیل کو برباد کرڈالا۔ جنرل مشرف کے آخری سال میں پاکستان اسٹیل ملز کا منافع چھ ارب روپے تھا۔ تمام سٹور خام مال سے بھرے ھوٸے تھے اور پاکستان سٹیل مل کے اکاٶنٹ میں 22 ارب روپے موجود تھے۔ اور پاکستان سٹیل مل نے کسی کا کوٸی قرض نہیں دینا تھا۔ جنرل مشرف کے راٸٹ ھینڈ لیفٹیننٹ جنرل ریٹاٸرڈ عبدالقیوم سٹیل مل کے چٸیرمین تھے زرداری نے اپنے پارٹنر ریاض لال جی کا مینیجر معین آفتاب شیخ پاکستان سٹیل مل کا مینیجر مقرر کردیا اور پاکستان سٹیل ملز اپنے عروج سے زوال پذیر ھوکر 200 ارب روپے کے خسارے کے بعد بالآخر بند ھوگٸی۔ معین آفتاب پر اس وقت بھی 358 ملین روپے کی خردبرد کا کیس نیب میں زیر سماعت ھے۔ گوگل پر معین آفتاب شیخ لکھ کر چیک کرسکتے ھیں۔ اپٹما کے ایک وفد نے ملنا چاھا تو ان کو بتایا گیا کہ زرداری سے پانچ منٹ کی ملاقات کا علیحدہ ریٹ ھے اور اس سے زیادہ کا علیحدہ۔ اپٹما کے وفد کے 5 اراکین بے حد حیران ھوۓ۔ لیکن انھوں نے آپس میں 10 لاکھ فی کس پول کرکے اس بھاری رقم کا بندوبست کیا اور بڑی مشکل سے زرداری کو ملنے میں کامیاب ھوۓ۔ اور رو رو کر بتایا کہ انڈسٹری کی بہت بری حالت ھے۔ لوڈ شیڈنگ 22 گھنٹے تک جا پہنچی ھے اور ٹیکسٹاٸل ملز بند پڑی ھیں ۔ تقریباً تمام ملز اونر اپنی مشینری کھول کر بنگلہ دیش شفٹ کر رھے ھیں۔ کٸی دھاٸیوں میں کھربوں کی مالیت سے لگی انڈسٹری تباہ ھو رھی ھے۔ زرداری نے ان کی باتیں سن کر بندر کی طرح دانت نکالے اور پوچھا ،”آپ نے ابھی تک اپنے لٸے بنگلہ دیش میں مشینری کی شفٹنگ کے لٸے کوٸی موزوں پلاٹ نہیں دیکھا؟ اگر نہیں دیکھا تو اب دیکھ لیں۔ آپ کا ملاقات کا وقت ختم ھوچکا ھے۔ خدا حافظ۔ اب آپ جاسکتے ھیں “ اور اپنے سکریٹری کو ھداٸت کی کہ ان کو مزید وقت ضاٸع کٸے بغیر باہر چھوڑ آٶ۔ یہ تھا زرداری کا پاکستان کی صنعت و تجارت سے رویہ۔ زرداری کے دور حکومت میں سیلاب نے بہت نقصان کیا لیکن زرداری نے اسکی طرف توجہ ھی نہ دی اور پورے ملک کو لاوارث چھوڑ کر بیرونی دوروں پر نکل گیا۔  اس وقت کے اخبارات نے خبریں شاٸع کیں کہ زرداری نے راک وڈ اسٹیٹ محل سرے کاٶنٹی بیچ دیا ھے اور سپین میں بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کا دریا کے کنارے واقع مشھور تاریخ محل خرید لیا ھے جو دودھیا رنگت کے سنگ سفید سے بنا ھوا ھے اور سپین میں وھاٸٹ پیلیس کے نام سے مشھور ھے۔ اس کے علاوہ زرداری نے لندن میں چرچل حیات ریجنسی ھوٹل خرید کر سب کو حیران  کرکے رکھ دیا۔ اس ھوٹل کی اس وقت مالیت 295 ملین پاٶنڈز تھی۔ اس کے دور میں پاکستان ایک بغیر ڈراٸیور کے ویران صحرا میں چلتی گاڑی تھی جس کی کوٸی سمت ھی نہ تھی۔ سندھ میں کل 31 شوگر ملز ھیں جن میں سے 27 پر زرداری کا مکمل قبضہ ھے۔ جس میں عذیر بلوچ کا مرکزی کردار ھے۔ ان کا طریقہ واردات کچھ یوں ھے کہ عزیر بلوچ اور اس کا گینگ کسی ایک شوگر مل کو ٹارگٹ کرتے اور وھاں پر فاٸرنگ کرکے ورکرز کو فاٸرنگ کرکے قتل اور زخمی کردیتے۔ وزیر داخلہ کے احکامات پر شوگر ملز کے تمام مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو پولیس گرفتار کرلیتی تھی اور ان کو تشدد کا نشانہ بنا کر اور سزاٸے موت کا ڈراوا دے کر ان سے یہ مقدمہ ختم کرنے کے عوض اس شوگر مل کے تمام ملکیتی حصص حاصل کرلٸے جاتے۔ اور یہی شوگر مل کسی اور کو آدھی قیمت پر بیچ دی جاتی۔ اور اس نٸے خریدار سے بھی کچھ عرصہ بعد ایسی ھے واردات دھرا دی جاتی۔ سندھ میں واقع پاور ھاٶسز اور دیگر بڑی فیکٹریوں کے ساتھ بھی ایسی ھی وارداتیں ھوٸیں۔ زرداری کو جو بھی جاٸیداد پسند آجاتی وہ اس کے مالک کو ھاتھ جوڑ کر وہ زرداری کے حوالے کرنا پڑجاتی۔ بلاول ھاٶس کے ارد گرد تمام گھر زرداری نے عذیر بلوچ کے ذریعے حاصل کرلٸے۔ زمینوں اور بڑی بڑی جاٸیدادوں پر قبضے میں اویس مظفر ٹپی نام کے زرداری کے منہ بولے بھاٸی نے بھی طوفان کھڑا کٸے رکھا اور جیسے ھی زرداری دور ختم ھونے کے بعد اسے محسوس ھوا کہ وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ریڈار پر آچکا ھے تو وہ لندن فرار ھوگیا اور ابھی تک پاکستان واپس نہیں آیا۔ زرداری نے ایسے اور بھی کردار پالے ھوٸے تھے۔ کراچی الیکٹرک کارپوریشن پر زرداری کی بہت دیر سے نظر تھی۔ اس کو اونے پونے بکوا کر اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے خود حاصل کرلی۔ کاپر کے سکریپ کی قیمت بھی اس دور میں ایک ہزار روپے فی کلو سے  تجاوز کرگٸی تو زرداری نے زرداری نے کراچی الیکٹرک کے تمام مین سپلاٸی لاٸن کے موٹے تانبے کے ہزاروں ٹن تار اتروا کر بیچ دٸے اور سستے ترین سلور کے تار لگوا دٸے۔ آج تک ان کاپر کے ھیوی ویٹ پاور سپلاٸی کیبلز کا کوٸی سراغ نہ مل سکا۔ زرداری نے دیکھتے ھی دیکھتے حرام لوٹی دولت کے بہت بڑے انبار لگا لٸے۔ پھر اس دولت کو دوبٸی شفٹ کرنے کے لٸے موٹر بوٹس اور فلم انڈسٹری کی ماڈلز کا چینل استعمال کرنا شروع کردیا۔ تحقیقاتی اداروں نے اب تک 26 ٹاپ ماڈلز کے نیٹ ورک کاظہار سراغفلت لگا لیا ھے۔ ان کا ٹور کا مکمل خرچہ اور شاپنگ کے اخراجات فری کرکے ان کے ذریعے بھاری رقوم دوبٸی منتقل کردیں۔ اس کا راز ایک مشہور ٹاپ ماڈل ایان علی کی گرفتاری سے ھوا۔ پانچ لاکھ ڈالر برآمد کرلٸے گٸے۔ جو ملزمہ کے مطابق عزیر بلوچ کے وکیل کو دٸے جانے تھے۔ زرداری نے لطیف کھوسہ کو وکیل مقرر کر کے ہر ممکن کوشش شروع کردی کہ کسی بھی طرح سے منی لانڈرنگ کے اس کیس کو ختم کیا جاسکے۔ متعلقہ کسٹم انسپیکٹر جس نے ایان علی کو گرفتار کیا تھا، اس کو سر میں گولی مار کر قتل کردیا اور اس کو خودکشی کا کیس ثابت کرنے کے لٸے  ہر ممکن کوشش کرڈالی۔ مگر قتل کا کیس صاف نظر آگیا۔ تفتیشی اداروں نے مزید تحقیق کی تو کٸی نٸے حیران کن حقاٸق ھاتھ لگ گٸے۔ زرداری نے اندھا دھند طاقت ، دولت اور اثر رسوخ استعمال کرکے ماڈل ایان علی کے ضمانت کروالی اور ایان علی فوراً فرار ھو کر دوبٸی زرداری ھاٶس پہنچ گٸی جہاں سے ابھی تک اس کی واپسی ممکن نہیں ھو سکی۔ زرداری کو نٸے حکومتی سیٹ میں حصہ بنانے کے اور مقتدر قوتوں سے مصالحت کے بہانے زرداری  اور اس کے کاروباری پارٹنر عبدالمجید کو پاکستان بلا کر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ اومنی گروپ کے سربراہ عبدالمجید نے تفتیشی اداروں کے سامنے  1,100  ارب روپے کا فراڈ اور منی لانڈرنگ تسلیم کی۔ اس پر تو ابھی منی لانڈرنگ کے جتنے بڑے الزامات ھیں  ان کی رقم تو  پاکستان  کے کل قومی بجٹ سے بھی زیادہ ھے۔ تحقیق کا داٸرہ آگے بڑھا تو بہت سے اور گھوسٹ اکاٶنٹس سامنے آنے لگے۔ سینکڑوں ایسی بھاری رقوم کی ٹرانزیکشنز کا سراغ لگا جو اتنے غریب آدمیوں کے اکاٶنٹس میں کی گٸیں جو کبھی بھی بنک جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ھوں گے۔  مثلاً مالی پاپڑ بیچنے والا چوکیدار جمعدار سویپر صرف ان گھوسٹ اکاٶنٹس میں مزید 1,500 ارب زاٸد رقم کی ٹرانزیکشن اور منی لانڈرنگ  کا سراغ لگا ھے اور ابھی تفتیش مزید آگے بڑھ رھی ھے۔ زرداری کو عدالت سے بار بار ضمانت ملنے کی وجہ سے نیب نے بہت لمبا انتظار کیا لیکن بالآخر 11 جون 2019 کے دن عدالت سے حصل ضمانت میں توسیع نہ ھونے کے سبب نیب نے زرداری کو گرفتار کرلیا۔ اور تین دن کے بعد اسکی بہن فریال تالپور کو گرفتار کرکے اس کی اسلام آباد میں واقع رھاٸش گاہ کو میں ھاٶس اریسٹ کردیا۔ اسمبلی کے جاریس اجلاس میں شرکت کے لٸے زرداری کو پروڈکشن آرڈر پر عارضی رھاٸی ملی ھے۔  یاد رھے کہ یہ سہولت ھر ملزم اور مجرم کو میّسر نہیں اور یہ مجرم کے خلاف قدرے نرم کارواٸی شمار ھوتی ھے۔ اور اس سے سودے بازی اور ڈیل کے تاثرات ابھرنے لگتے ھیں۔  موجودہ حالات میں شدت سے ایک نٸے نظام حکومت کی ضرورت محسوس ھو رھی ھے تاکہ جہالت اور کرپشن سے لتھڑے ھوۓ زرداری اور نواز شریف جیسے لوگوں کا اقتدار کے نظام میں داخلہ بند کیا جاسکے۔ دنیا بھر میں ایسا پراجیکٹ سر انجام دینے کے لٸے دو میں سے ایک طریقہ اختیار کرنا پڑتا ھے۔ 1۔ سارا پراسیس خود نٸے سرے سے ڈیزاٸن کرنا 2۔ پہلے سے موجود ایسے کسی کامیاب پراسیس کو ایک ماڈل کے طور پر پر  لے کر اپنی ضروریات کے مطابق ترمیم کرلینا پاکستان جب وجود میں آیا تو قاٸد اعظم نے کبھی بھی برطانوی نظام حکومت کو پسند نہیں کیا تھا۔ علامہ اقبال بھی جمھوریت کے شدید مخالف تھے۔ پھر یہ پارلیمانی جمھوریت زبردستی ھم پر کیوں مسلط کردی گٸی؟  یہ نظام فیوڈل لارڈز مافیا کے مفادات کی حفاظت کرنے والا نظام ھے جس میں تمام سیاستدان مل کر اپنا نماٸندہ وزیراعظم بناکر کرپشن کرتے ھیں اور کسی کی بھی پکڑ ممکن ھی نہیں۔ بیورو کریسی اور عدلیہ میں اپنے ذاتی وفاداروں کو تعینات کرکے پورے سسٹم کو ھی بے اثر کردیا ھے۔ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ کامیاب لوگوں کو کاپی کرلینا ھے۔ دنیا میں اس وقت سب سے مضبوط اور کامیاب نظاام حکومت امریکہ کے پاس ھے۔ جو حیرت انگیز طور پر اسلامی تعلیمات کے قریب ترین بھی ھے۔ اگر امریکہ میں پارلیمانی جمھوریت ھوتی تو 52 ریاستیں اکٹھی ھوکر دنیا کو آگے لگا لینے کی بجاٸے خود ایک ایک ریاست کے کٸی کٸی ٹکڑے ھوجاتے۔ ھمیں پاکستان کے لٸے بھی امریکی نظام حکومت کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ ری ڈیزاٸن کرکے اپنا لینا چاھٸے جس میں براہ راست ووٹنگ سے انتخاب ھو اور فاٸنل مقابلہ صرف دو قریب ترین امیدواروں میں ھو۔ ملکی مساٸل اور معیشت پر مناظرے ھوں اور سوال جواب کے اوپن سیشن ھوں جن میں کسی پرچی کی اجازت اور گنجاٸش نہ ھو۔ سیاسی جلوسوں اور بریانی پروگرامز پر سختی سے پابندی لگا دی جاۓ جب تک کہ تمام بڑے ملکی مساٸل پر وہ مناظروں میں کوٸی مضبوط اور واضع مٶقف نہ ثابت کردیں۔ چاٸینہ کی مثال سامنے رکھتے ھوۓ کابینہ میں شمولیت پروفیشنل ڈگری اور اسی فیلڈ میں تجربہ بہت ضروری قرار دیا جاۓ۔ اس سلسلے میں پی ایچ ڈی لوگوں کو واضع فوقیت دی جاۓ۔ یہ اھم بات دھیان میں رھے کہ ھم اسراٸیل، افغانستان، ایران، امریکہ اور انڈیا کے اتحاد کے خلاف ایک ڈھکی چھپی یا اعلانیہ جنگ لڑنے پر مجبور ھیں ۔ ھمارا دل چاھے یا نہ چاھے ھم اپنی بقا کے لٸے اس پر مجبور ھیں۔ اسراٸیل میں سب سے زیادہ اھمیت علم اور ریسرچ کو دی جاتی ھے۔ دنیامیں سب سے زیادہ کتابیں اسراٸیل میں ھی لکھی اور پڑھی جاتی ھیں۔ اور اس قدر تعلیم یافتہ دشمن کا مقابلہ ھمارے انتہاٸی کم  پڑھے لکھے کارٹون نما کرپٹ سیاستدان بالکل بھی نہیں کرسکتے۔ اس لٸے ھمیں بھی امریکی نظام حکومت کو اس طرح سے کاپی کرنا ھے جس میں ھم علم ، ریسرچ اور انصاف کو اھمیت دے سکیں اور انتہاٸی کم وقت میں بہترین قانون سازی کرسکیں۔ یہ اب بہترین وقت ھے کہ ھم اس موضوع پر سب مل کر سوچ بچار کریں اور ایک بہترین نظام حکومت اختیار کریں۔ ‏www.zaidhamid.pk www.brasstacks.pk

بعد مَرنے کے اپنے، کیا ہوگا ۔ عارضی  ماتمِ رِیا  ہوگا ۔ لوگ روئیں گے بس گھڑی بھر کو ۔ میلہ خوشیوں کا پھر سجا ہوگا  ۔ اے غمِ دوست بس ٹھہر دم بھر ۔  دل میں کیا غم بھی دوسرا ہوگا ۔   یوں تو کہنے کو یاد باقی ہے ۔  دل جلا ہے تو کیا بچا ہوگا ؟ ۔   حال میرا بھی پوچھ لے کوئی ۔  اِس سے دل کو تو حوصلہ ہوگا ۔   بات کہنے کو کچھ نہیں لیکن ۔  تیرا لہجہ نہ وہ رہا ہوگا ۔   لوگ مخلص بہت ملے ہوں گے ۔  کوئی مجھ سا نہیں ملا ہوگا ۔   لوگ کرتے ہیں کس لئے وعدہ ؟ ۔  ایسا وعدہ کہ نا وفا ہو گا ۔   بات کرتے ہو آج وامِق کی ۔  آتشِ غم میں جل گیا ہوگا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔  بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مورخہ 28 فروری سال 2019ء کو کہی گئی غزل ۔

بعد مَرنے کے اپنے، کیا ہوگا ۔ عارضی ماتمِ رِیا ہوگا ۔ لوگ روئیں گے بس گھڑی بھر کو ۔ میلہ خوشیوں کا پھر سجا ہوگا ۔ اے غمِ دوست بس ٹھہر دم بھر ۔ دل میں کیا غم بھی دوسرا ہوگا ۔ یوں تو کہنے کو یاد باقی ہے ۔ دل جلا ہے تو کیا بچا ہوگا ؟ ۔ حال میرا بھی پوچھ لے کوئی ۔ اِس سے دل کو تو حوصلہ ہوگا ۔ بات کہنے کو کچھ نہیں لیکن ۔ تیرا لہجہ نہ وہ رہا ہوگا ۔ لوگ مخلص بہت ملے ہوں گے ۔ کوئی مجھ سا نہیں ملا ہوگا ۔ لوگ کرتے ہیں کس لئے وعدہ ؟ ۔ ایسا وعدہ کہ نا وفا ہو گا ۔ بات کرتے ہو آج وامِق کی ۔ آتشِ غم میں جل گیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 28 فروری سال 2019ء کو کہی گئی غزل ۔

÷÷÷  غزل  ÷÷÷
غلام محمد وامِق 

بعد مَرنے کے اپنے، کیا ہوگا ۔             }
عارضی  ماتمِ رِیا  ہوگا ۔                  }
                                                   }   ق 
لوگ روئیں گے بس گھڑی بھر کو ۔۔   }  
میلہ خوشیوں کا پھر سجا ہوگا ۔     }  

اے غمِ دوست بس ٹھہر دم بھر ۔ 
دل میں کیا غم بھی دوسرا ہوگا ۔ 

یوں تو کہنے کو یاد باقی ہے ۔ 
دل جلا ہے تو کیا بچا ہوگا ؟ ۔ 

حال میرا بھی پوچھ لے کوئی ۔ 
اِس سے دل کو تو حوصلہ ہوگا ۔ 

بات کہنے کو کچھ نہیں لیکن ۔ 
تیرا لہجہ نہ وہ رہا ہوگا ۔ 

لوگ مخلص بہت ملے ہوں گے ۔ 
کوئی مجھ سا نہیں ملا ہوگا ۔ 

لوگ کرتے ہیں کس لئے وعدہ ؟ ۔ 
ایسا وعدہ کہ نا وفا ہو گا ۔ 

بات کرتے ہو آج وامِق کی ۔ 
آتشِ غم میں جل گیا ہوگا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ 
بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
مورخہ 28 فروری سال 2019ء کو کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفکر پاکستان علامہ اقبال  کی ایک نایاب نظم، یہ نظم خلافت تحریک کے دوران انگریز حکمرانوں کی حمایت میں لکھی گئی تھی ـ جوکہ ہفتے وار رسالے;امرتسر میں 11 مئی 1918 , کو شایع ہوئی بعد ازاں علامہ صاحب نے اس نظم کو متروک قرار دیا، اور اپنی کسی بھی کتاب میں اسے شایع نہیں کیا،  ہم نے اسے ایک نادر تاریخی دستاویز خیال کرتے ہوئے، ایک سندھی کتاب سے اخذ کیا ہے، ـــ ملاحظہ فرمائیں ـــ انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ   18, اپریل 2019 ـــ فون، ــ 03153533437  ــــ                             اے تاجدارِ خطہء جنت نشانِ ہند  ـــ                            روشن تجلیوں سے تیری کاروانِ ہند ـ  محکم ترے قلم سے، نظامِ جہانِ ہند ــ تیغِ جگر شگاف،  تیری پاسبانِ ہند ــ  ہنگامہ و غا میں سراسر قبول ہو ـ ـ اھلِ وفا کی نذرِ محقر قبول ہو ــ تلوار تیری دہر میں، نقادِ خیر و شر ــ بروزِ جنگ توز سوز،  سینہ و جگر ــ رایت تیری سپاہ کا سرمایہء ظفر ــ آزاد بر کشادہ، پری زادہ یم سپر ـــ سطوت سے تیری پختہ، جہاں کا نظام ہے ـ ذرے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے ـــ آزادیء زبان و قلم ہے اگر یہاں ـــ  سامانِ صُلح دیر و حرم ہے اگر یہاں ــ تہذیب کاروبارِ امم ہے اگر یہاں ـــ خنجر میں تاب، تیغ میں دم ہے اگر یہاں ــ جو کچھ بھی ہے، عطائے شہہء محترم سے ہے ــ آباد یہ دیار،  تیرے دم قدم سے ہے ــــ وقت آگیا کہ گرم ہو میدانِ کار زار ـــ پنجاب ہے مخاطبِ پیغام  شر پسار ــ اہلِ وفا کے جوہرِ پنہاں ہوں آشکار  ـــ معمور ہو،  سپاہ سے پنہائے روزگار  ـــ تاجر کا زر ہو،  اور سپاہی کا زور ہو ـــ غالب جہاں میں سطوتِ شاہی کا زور ہو ـــ دیکھے ہیں میں نے سنکڑوں ہنگامہء نبرد ـــ صدیوں رہا ہوں،  میں اسی وادی کا رہ نورد ـــ طفلِ صغیر بھی میرے، ہنگامہ میں ہے مرد ـــ ہوتے ہیں ان کے سامنے،  شیروں کے رنگ زرد ـــ  میں نخل ہوں وفا کا، محبت ہے پھل میرا ــ   اس قول پر ہے شاہد،  عادل عمل میرا ـــ ہندوستاں کی تیغ ہے، فتاحِ بہشت باب ـــ خونخوار لائے بار ،  جگردار،  برق تاب  ــــ بیباک،  تابناک،  گہر پاک،  بے حجاب ــــ دلبند،  ارجمند،  سحر خند، سیم تاب ــ   یہ تیغِ دل نواز،  اگر بے نیام ہو ـــ دشمن کا سر ہو، اور نہ سودائے خام ہو ـــ  اہلِ وفا کا کام ہے،  دنیا میں سوز و ساز  ـــ بے نور ہے وہ شمع جو ہوتی نہیں گداز ـــ پردے میں موت کے ہے نہاں زندگی کا راز  ـــ سِر یہ حقیقتِ کبریٰ ہے،  ہے یہ مجاز  ــــ سمجھو تو موت ایک مقامِ حیات ہے ــ قوموں کے واسطے یہ پیامِ حیات ہے ـــ اخلاص بے غرض ہے،  صداقت بھی بیغرض ـــ خدمت بھی بیغرض ہے،  اطاعت بھی بے غرض ـــ عہدِ وفا،  و مہر و محبت بھی بے غرض ـــ تختِ شہہ شہی سے،  عقیدت بھی بیغرض  ـــ لیکن خیالِ فطرت ِ انساں ضرور ہے ـــ  ہندوستاں پہ لطفِ نمایاں ضرور ہے ـــ جب تک چمن کی جلوہء گُل پر اساس ہے ـــ جب تک فروغِ لالہ احمر لباس ہے ـــ جب تک نسیمِ صبح،  عنادل کو راس ہے ـ جب تک کلی کو قطرہء  شبنم کی پیاس ہے ـــ قائم رہے حکومتِ آئین،  اسی طرح ـــ دبتا رہے چکور سے،  شاہین اسی طرح ـــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ                 نوٹ: ---  جیسا کہ یہ نظم ایک سندھی قدیم کتاب سے نقل کی گئی ہے، مزکورہ کتاب میں کچھ کتابت کی غلطیاں بھی ہیں، اور الفاظ سمجھنے میں بھی بہت مشکل پیش آرہی تھی ـ اس لئے علامہ کی مندرجہ بالا نظم میں چند ایک مقام پر الفاظ اندازے سے لکھے گئے، اہلِ ذوق حضرات اگر کہیں پر سقم محسوس کریں تو، برائے کرم مجھے ضرور مطلع فرمائیں ــ شکریہ ـ طالبِ دعا، غلام محمد وامق ــ  محراب ‏پور ‏سندھ ‏

مفکر پاکستان علامہ اقبال کی ایک نایاب نظم، یہ نظم خلافت تحریک کے دوران انگریز حکمرانوں کی حمایت میں لکھی گئی تھی ـ جوکہ ہفتے وار رسالے;امرتسر میں 11 مئی 1918 , کو شایع ہوئی بعد ازاں علامہ صاحب نے اس نظم کو متروک قرار دیا، اور اپنی کسی بھی کتاب میں اسے شایع نہیں کیا، ہم نے اسے ایک نادر تاریخی دستاویز خیال کرتے ہوئے، ایک سندھی کتاب سے اخذ کیا ہے، ـــ ملاحظہ فرمائیں ـــ انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 18, اپریل 2019 ـــ فون، ــ 03153533437 ــــ اے تاجدارِ خطہء جنت نشانِ ہند ـــ روشن تجلیوں سے تیری کاروانِ ہند ـ محکم ترے قلم سے، نظامِ جہانِ ہند ــ تیغِ جگر شگاف، تیری پاسبانِ ہند ــ ہنگامہ و غا میں سراسر قبول ہو ـ ـ اھلِ وفا کی نذرِ محقر قبول ہو ــ تلوار تیری دہر میں، نقادِ خیر و شر ــ بروزِ جنگ توز سوز، سینہ و جگر ــ رایت تیری سپاہ کا سرمایہء ظفر ــ آزاد بر کشادہ، پری زادہ یم سپر ـــ سطوت سے تیری پختہ، جہاں کا نظام ہے ـ ذرے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے ـــ آزادیء زبان و قلم ہے اگر یہاں ـــ سامانِ صُلح دیر و حرم ہے اگر یہاں ــ تہذیب کاروبارِ امم ہے اگر یہاں ـــ خنجر میں تاب، تیغ میں دم ہے اگر یہاں ــ جو کچھ بھی ہے، عطائے شہہء محترم سے ہے ــ آباد یہ دیار، تیرے دم قدم سے ہے ــــ وقت آگیا کہ گرم ہو میدانِ کار زار ـــ پنجاب ہے مخاطبِ پیغام شر پسار ــ اہلِ وفا کے جوہرِ پنہاں ہوں آشکار ـــ معمور ہو، سپاہ سے پنہائے روزگار ـــ تاجر کا زر ہو، اور سپاہی کا زور ہو ـــ غالب جہاں میں سطوتِ شاہی کا زور ہو ـــ دیکھے ہیں میں نے سنکڑوں ہنگامہء نبرد ـــ صدیوں رہا ہوں، میں اسی وادی کا رہ نورد ـــ طفلِ صغیر بھی میرے، ہنگامہ میں ہے مرد ـــ ہوتے ہیں ان کے سامنے، شیروں کے رنگ زرد ـــ میں نخل ہوں وفا کا، محبت ہے پھل میرا ــ اس قول پر ہے شاہد، عادل عمل میرا ـــ ہندوستاں کی تیغ ہے، فتاحِ بہشت باب ـــ خونخوار لائے بار ، جگردار، برق تاب ــــ بیباک، تابناک، گہر پاک، بے حجاب ــــ دلبند، ارجمند، سحر خند، سیم تاب ــ یہ تیغِ دل نواز، اگر بے نیام ہو ـــ دشمن کا سر ہو، اور نہ سودائے خام ہو ـــ اہلِ وفا کا کام ہے، دنیا میں سوز و ساز ـــ بے نور ہے وہ شمع جو ہوتی نہیں گداز ـــ پردے میں موت کے ہے نہاں زندگی کا راز ـــ سِر یہ حقیقتِ کبریٰ ہے، ہے یہ مجاز ــــ سمجھو تو موت ایک مقامِ حیات ہے ــ قوموں کے واسطے یہ پیامِ حیات ہے ـــ اخلاص بے غرض ہے، صداقت بھی بیغرض ـــ خدمت بھی بیغرض ہے، اطاعت بھی بے غرض ـــ عہدِ وفا، و مہر و محبت بھی بے غرض ـــ تختِ شہہ شہی سے، عقیدت بھی بیغرض ـــ لیکن خیالِ فطرت ِ انساں ضرور ہے ـــ ہندوستاں پہ لطفِ نمایاں ضرور ہے ـــ جب تک چمن کی جلوہء گُل پر اساس ہے ـــ جب تک فروغِ لالہ احمر لباس ہے ـــ جب تک نسیمِ صبح، عنادل کو راس ہے ـ جب تک کلی کو قطرہء شبنم کی پیاس ہے ـــ قائم رہے حکومتِ آئین، اسی طرح ـــ دبتا رہے چکور سے، شاہین اسی طرح ـــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ نوٹ: --- جیسا کہ یہ نظم ایک سندھی قدیم کتاب سے نقل کی گئی ہے، مزکورہ کتاب میں کچھ کتابت کی غلطیاں بھی ہیں، اور الفاظ سمجھنے میں بھی بہت مشکل پیش آرہی تھی ـ اس لئے علامہ کی مندرجہ بالا نظم میں چند ایک مقام پر الفاظ اندازے سے لکھے گئے، اہلِ ذوق حضرات اگر کہیں پر سقم محسوس کریں تو، برائے کرم مجھے ضرور مطلع فرمائیں ــ شکریہ ـ طالبِ دعا، غلام محمد وامق ــ محراب ‏پور ‏سندھ ‏

*محمد بن قاسم پر الزامات کی تحقیق*    *انتخاب ـ غلام محمد وامق ـ محراب پور سندھ * *******÷  فاتح سندھ، عمادالدین محمد بن قاسمؒ کیخلاف ایک صحافی صاحب نے کچھ عرصہ قبل ایک بڑا سنگین مقدمہ قائم کیا تھا جو آج پھر دم بہ دم شئیر ہو رہا ہے۔  ویسے تو جس بندے کو سندھ میں پیرس جیسی ترقی کے آثار نظر آتے ہوں اور وہ اپنے اس دعوے پر مُصر بھی رہے تو اس کے تاریخی حوالے کتنے مستند ہوں گے یہ آپ خود بھی اندازہ لگا سکتے ہیں تاہم آپ کی سہولت کیلئے آج ہم صحافی صاحب کیساتھ ایک اوور کھیل کے دکھا دیتے ہیں۔ مقدمہ نمبر۔1 صحافی صاحب فرماتے ہیں کہ: مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ محمد بن قاسم کو ہیرو کیوں نہیں مانتے! میں نے کہا کیونکہ میں ایک مسلمان ہوں اور بطور مسلم میں مدینے کی بیٹیوں کی عزت خراب کرنے کی کوشش کرنے والے کی کم از کم عزت نہیں کرسکتا۔  گزارش ہے حضور کہ: یہ بہت ہی ڈھیلی سی بال تھی۔ ابن قاسمؒ نے کبھی کسی عورت کی عزت کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ وہ عرب کے قبیلہ بنو عزیز و بنو یربوع کی بیٹیوں کو قید سے چھڑانے کیلئے دیبل آیا تھا۔ یہ ان عرب تاجروں کی اہل خانہ تھیں جو سری لنکا میں مقیم ہوئے اور وہیں فوت ہوگئے، انہیں پتا چلا کہ جزیرہ یاقوت، سراندیپ، کا راجہ خیرسگالی اور دوستی کی غرض سے عرب حاکموں کو ہیرے، جواہرات، غلام اور کنیزیں بھیج رہا ہے تو یہ خواتین بھی زیارتِ حرم اور آبائی وطن کو دیکھنے کیلئے اس قافلے کے ہمراہ چل دیں۔ دیبل کے قزاقوں نے جب حملہ کیا تو اس پکڑ دھکڑ میں بنو یربوع کی ایک بیٹی نے حجاج کی دہائی دی، اغثنی یا حجاج اغثنی، ہمیں بچاؤ اے حجاج ہمیں بچاؤ، اس موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہونے والوں نے جب یہ بات حجاج تک پہنچائی تو اس نے غصے سے اٹھ کے کہا تھا، ابھی آیا، میں ابھی آیا۔  فتوح البلدان، صفحہ 184 چچ نامہ صفحہ 115 تاریخ سندھ، سید سلمان ندوی، صفحہ 44 تحفۃالکرام، میر شیر علی قانع، صفحہ، 26 تاریخ سندھ، محمد عبدالحلیم شرر، صفحہ 113 تاریخ ہند، حصہ سندھ، ابوظفر ندوی، صفحہ 58 انگلش بک، ہسٹری آف سندھ بائی موہن گیہانی، صفحہ 71 (ان کتابوں کے مختلف پبلشرز کے مختلف ایڈیشنز میں صفحہ نمبر کا تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے مگر حوالے مستند ہیں)  صحافی صاحب نے مدینے کی بیٹیوں کی عزت کا نام لیکر جن کتابوں کے حوالے سے مسلمانوں کو جذباتی کرنے کی کوشش کی ہے ان کے اندر سے اس دعوےٰ کا ثبوت قیامت تک نہیں ملے گا، اس فراڈ اور شقاوت قلبی کو آگے چل کر مزید بے نقاب کرتا ہوں، فی الحال بس یہ سمجھ لیں کہ یہ نو بال ہی تھی پھر بھی ہم نے ہلکی سی شاٹ مار دی ہے۔  نمبر۔2 صحافی کہتا ہے کہ: میرے پاک نبیؐ سے مدینے کی نسبت ہے، وہاں کی خاک بھی میرے لئے معتبر ہے تو کیسے ممکن ہے کہ میں وہاں کے لوگوں کے قاتل محمد بن قاسم کو ہیرو قرار دوں۔ یہ میری غیرت ایمانی کے تقاضوں کے برخلاف ہے۔ یہ معاملہ سمجھانے کے لئے میں آپ کے سامنے تاریخ کا ایک پہلو رکھتا ہوں۔  دوستو گزارش ہے کہ: یہ بھی مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی ایک کوشش ہے، محمد بن قاسم نے کبھی کسی ایسی مہم میں حصہ نہیں لیا جس نے مدینہ طیبہ کے اندر یا باہر اہل مدینہ کا قتل کیا ہو۔     دراصل پہلی اور دوسری بال انہوں نے کرائی ہی جذباتی کرنے کیلئے تھی تاکہ اگلی بال جس میں مدینے کے ان بیٹے، بیٹیوں کا ذکر ہوگا جن کیساتھ ابن قاسم نے ظلم کیا، تو اس پر لوگ ایکدم سے بھڑک اٹھیں، لہذا اس بال پر ہم بھی جذباتی اور سچے دل سے ایک سویپ ماریں گے۔  دیکھو بھیا: مدینہ طیبہ کی بیٹیاں اور بیٹے تو رہے ایک طرف، ابن قاسم نے اگر وہاں کے کسی کتے پر بھی ایک پتھر مارا ہو تو ہماری طرف سے اس فاتح سندھ پر چار حرف مگر پہلے کوئی مستند حوالہ پیش کرو، یہ آواز آندی اے والی گل نہ کرو، بے سروپا آوازیں ہم نہیں سنتے۔ ہمارے دیہاتوں کے بے علم مولوی جب اپنی تقریر میں سنی سنائی باتیں پیلتے ہیں تو حوالہ پاس کوئی نہیں ہوتا اسلئے ہر بات کے ساتھ یہ کہہ کے کلٹی کھا لیتے ہیں کہ: مومنو آواز آندی اے! مومنو آواز پئی آندی اے کہ اَینج ہوگیا تے اُونج ہوگیا۔  خیر اگلی بال دیکھتے ہیں جس میں صحافی صاحب اپنے پہلے دو دعووں کے حق میں اب تاریخ کا ایک پہلو ہمارے سامنے رکھیں گے۔  نمبر۔3 صحافی کہتا ہے کہ: جب بنوامیہ اور بنوہاشم کی لڑائی میں بنوہاشم کو شکست ہوئی تو اپنی خواتین کے ہمراہ کچھ گھرانے جان بچا کر سندھ آئے، سندھ اموی حکومت کی سرحدوں سے باہر تھا، روایات کے مطابق عرب سے سندھ آنے والوں میں عبداللہ شاہ غازی اور ان کے بھائی مصری شاہ بھی تھے۔  دوستو! دیکھا آپ نے: بس روایات کے مطابق، یعنی آواز پئی آندی اے، کوئی تاریخ نہیں، کوئی حوالہ نہیں، بس مومنو، یقین کرلو کیونکہ آواز پئی آندی اے۔  پہلی دو بال ہم نے بڑے صبر و تحمل سے کھیلیں ہیں لیکن اب صبر نہیں ہوتا، اب ہم ماریں گے ٹُلے، اور ٹکا کے ماریں گے۔  بنو ہاشم یعنی اہلبیتؓ اطہار کیساتھ ہمارا بڑا گہرا قلبی عقیدت کا معاملہ ہے، ان کے مقابلے میں ہم بنوامیہ کو رتی بھر اہمیت بھی نہیں دیتے۔ بنو امیہ کے خلیفہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ، یزید کی اولاد سے ہیں مگر یزید کو رحمۃاللہ علیہ کہنے والے بندے کو انہوں نے اپنے سامنےجوتے لگوائے تھے اسلئے کہ جہاں اہلبیتؓ کا معاملہ ہوگا وہاں مومنین کو اپنے باپ کی پرواہ بھی نہیں ہوتی، اسی تقوے کی بنیاد پر عمر بن عبدالعزیزؓ ہمارے سر کا تاج ہیں اور ہم انہیں خلفائے راشدینؓ میں شمار کرتے ہیں۔  لیکن حرمتِ سادات کی آڑ میں عوام کو کسی بیگناہ کیخلاف بڑھکانا بھی ایک انتہائی گھٹیا اور شنیع عمل ہے جس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔     اب تاریخی حقائق دیکھیں: حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ امام حسن مجتبےٰ علیہ السلام کی تیسری یا چوتھی نسل میں سید محمد نفس ذکیہؓ کے صاحبزادے ہیں، آپ واقعہ کربلا کے لگ بھگ چالیس سال بعد سن 720ء میں پیدا ہوئے تھے جبکہ محمد بن قاسمؒ نے سن 711ء میں سندھ فتح کیا اور سن 715ء میں واسط کے سرکاری زندان میں شہید ہوگئے۔  اب یہ کیسے ممکن ہے کہ عبداللہ شاہ غازیؒ اپنی پیدائش سے نو سال پہلے اپنے بھائی کیساتھ سندھ میں ابن قاسم کے ہاتھوں 711ء میں شہید ہوگئے۔  بنو ہاشمؓ کے مقابل بنوامیہ کی مجھے کوئی پرواہ نہیں مگر سچ یہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد ان کے درمیان کوئی قابل ذکر لڑائی نہیں ہوئی البتہ عباسی دور میں سید محمد نفس ذکیہؓ نے خلیفہ منصور کیخلاف حسینیؑ علم بلند کیا تھا اور اپنے بھائیوں اور صاحبزادوں کو اپنا نمائندہ بنا کر مختلف ممالک میں بھیجا تھا تاکہ وہ علوی حکومت کے قیام کیلئے جدوجہد کریں۔ اپنے والد صاحبؓ کے حکم پر سید عبداللہ شاہ غازیؒ، سید مصری شاہؒ اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سن 760ء میں سندھ تشریف لائے تھے، یہاں آپ نے تبلیغ دین کی اور ذریعہ معاش کیلئے گھوڑوں کی تجارت شروع کی، درجنوں عربی گھوڑے آپ اپنے ساتھ بھی لائے تھے۔ یہاں آپ نے نو سال قیام کیا، ماہ ذوالحج سن 769ء میں ایک سفر کے دوران جنگل میں گھات لگائے کچھ لوگوں نے ایک شدید حملہ کیا جس میں آپ شہید ہو گئے، حملہ آوروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خوارج کا کوئی ٹولہ تھا۔  حوالہ جات: تاریخ سندھ، مصنف اعجازالحق قدوسی صاحبؒ، صفحہ 260, 261, 262 انگلش بک، اے ہسٹری آف سندھ، مصنف سہیل ظہیر لاری، آکسفورڈ پریس ایڈیشن 1995، بحوالہ ندیم پراچہ، مضمون، عبداللہ شاہ غازیؒ دی سیوئیر سینٹ*، ڈان نیوز، 23 نومبر 2014، ‏the saviour saint*  (اسی مضمون میں ندیم پراچہ صاحب نے ڈاکٹر داؤد پوتا صاحب کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ سید عبداللہ شاہ غازیؒ، محمد بن قاسم کیساتھ سندھ آئے تھے اور ابن قاسم کے ایک ماتحت جرنیل کے نائب کمانڈر تھے، مگر یہ صحیح نہیں، ڈاکٹر محمد داؤد پوتا سندھ کے بہت بڑے محقق ہیں، وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے، یہ دراصل ایک کاؤنٹر نیریٹیو ہے، اسے ڈسکس کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔) کاؤنٹر نیریٹیو یہ ہے کہ پچھلے سال غازی صاحبؒ کا 1287 واں عرس تھا، 2017 میں سے اگر 1287 مائنس کریں تو ان کا سنِ وصال 730ء ہونا چاہئے، بنوامیہ کا دور 750ء تک ہے اس کے بعد عباسی دور شروع ہوتا ہے لہذا شنید ہے کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ ہی آئے تھے، اگر وہ بنو امیہ کے باغی ہوتے تو فتح سندھ کے دور میں شہید کر دئے گئے ہوتے مگر آپ اپنے کنبے سمیت 19 سال بعد تک بقید حیات رہے اور بوقت شہادت بھی صرف آپ کی شہادت بتائی گئی ہے باقی کنبہ اور احباب سلامت رہے، اور غازیؒ صاحب کے مزار کے پاس ہی آباد ہوئے، انہیں میٹھے پانی کی شدید قلت درپیش تھی، اسی پریشانی میں کسی ایک نے خواب میں دیکھا کہ غازی صاحبؒ پہاڑی کے نیچے اپنی قبر کے پاس میٹھے پانی کے چشمے کی نشاندہی کر رہے ہیں، وہ چشمہ اب بھی جاری ہے۔  تاریخ سندھ کے مصنف ابو ظفر ندویؒ اور تحفۃ الکرام کے مصنف میر شیر علی قانعؒ نے اپنی کتابوں میں علوی سکول آف تھاٹ پر بھی بحث کی ہے، ان کی بحث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سید محمد نفس ذکیہؓ اور ان کے بھائی نے عباسیوں کے خلاف ہی اسٹینڈ لیا تھا اور ان کے نمائندوں نے سندھ کے معروف اور مؤثر سومرہ خاندان کی حمایت بھی حاصل کرلی تھی، یہ سومرہ خاندان محمد بن قاسم کے جرنیل اور لشکری تھے جو سندھ میں آباد ہوگئے تھے، بنوامیہ کی موجودگی میں ان کے سپاہیوں سے لارج اسکیل پر علویت کیلئے حمایت حاصل کرنا بھلا کیسے ممکن ہو سکتا تھا لہذا یہ عباسی دور ہی کی بات ہے۔  سندھ میں علویت کے دوسرے بڑے علمبردار حضرت لعل شہباز قلندر ہیں، وہ اپنے خاص معتمدوں کو ہر سال درگاہ غازیؒ صاحب کی خدمت کیلئے بھیجا کرتے تھے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، سیہون شریف کی درگاہ سے کچھ لوگ آج بھی درگاہ عبداللہ شاہ غازیؒ کی خدمت کیلئے بھیجے جاتے ہیں۔  یہ کاونٹر نیریٹیو بھی بہرحال محمد بن قاسم کو اس بات سے بری کر دیتا ہے کہ وہ تبع تابعین اہل بیتؓ یعنی غازی صاحبان کا قاتل تھا کیونکہ ابن قاسم 715ء میں اور غازی صاحبؒ ایک گواہی کے مطابق 730ء اور دوسری گواہی کے مطابق 769ء میں شہید ہوئے تھے۔ نمبر۔4 اب صحافی کہتا ہے کہ: کعبے پر حملہ کرنے والے حجاج بن یوسف نے ان گھرانوں کی سرکوبی کے لئے محمد بن قاسم کو بھیجا۔  روایات کے مطابق عبداللہ شاہ غازی نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر محمد بن قاسم کے خلاف جہاد کیا سکھر میں سات سہیلیوں کا مزار ہے، روایات کے مطابق یہ وہی عرب خواتین ہیں، جنہوں نے سندھ میں پناہ لی۔     دوستو گزارش ہے کہ: خانہ ساز “روایات کے مطابق” یہ دو بزرگوں اور سات سہیلیوں کے بجائے اگر سات سو گھرانوں کا معاملہ بھی ہوتا تو بھی ان کے پیچھے چھ ہزار سپاہیوں کا لشکر، بتیس ہزار درہم کا خرچہ، چھوٹی منجنیقوں کے علاوہ عروس نامی سب سے بڑی منجنیق سے حملہ آور ہونا کسی کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔  اصل قصہ یوں ہے کہ: سندھ میں اکبر بادشاہ کا گورنر ابوالقاسم نمکین عرف خانِ زمانہ شاعر اور فطرت پسند آدمی تھا، اس نے سیر کے دوران دریائے سندھ کے اندر ایک خوبصورت جزیرہ دریافت کیا جہاں سات قبریں موجود تھیں۔ خانِ زمانہ نے اس جگہ کو صفحۂ صفا کا نام دیا اور وہاں چند چبوترے اور مینار تعمیر کرائے، اس کے بعد وہ چاندنی راتوں میں وہاں محفل مشاعرہ کیا کرتے تھے، ان کی وصیت کے مطابق وہ خود بھی وہیں مدفون ہیں اور سو کے قریب ان کے اہل خانہ و عزیزو اقارب بھی وہیں دفن ہیں۔ اس جگہ کو قاسم خانی اور ستین جو آستان بھی کہتے ہیں، ان سات قبروں کے حوالے سے خیرپور یونیورسٹی، شعبہ آرکیالوجی کے ڈاکٹر قاصد ملاح صاحب کہتے ہیں کہ غزنوی دور میں یہاں ازبک، افغان، ایران اور سندھ کے سات بزرگوں نے چلہ کاٹا تھا، ان میں شیخ عبدالحمید سہروردیؒ، شیخ عبداﷲ ہراریؒ، حمزہ بن رافعؒ، یوسف بن بکھریؒ، سیف الدین شیرازیؒ، عبدالحسن خیر خوانیؒ اور علی ڈنو احمد بصریؒ شامل ہیں، ان میں علی ڈنو بصریؒ مقامی درویش اور ان سب کے میزبان دکھائی دیتے ہیں۔ بحوالہ: آرکیالوجسٹ ڈاکٹر قاصد ملاح، ایکسپریس فیچر، 29 ستمبر، 2013 ریاست خیرپور کے ہسٹورین حکیم امیر علی شاہ فتحپوری نے لکھا ہے کہ غزنوی دور میں جب روہڑی پر حملہ ہوا تو یہاں سات بزرگ رہتے تھے جو بعد میں یہاں سے چلے گئے، ان کی یاد میں لوگوں نے اس جگہ کا نام ستین جو آستان رکھ دیا ہے یعنی سات لوگوں کے رہنے کی جگہ۔  محقق پیر حسام الدین راشدی صاحب اپنی کتاب “نہ کمرہ امیر خانی” میں کہتے ہیں کہ اس جگہ کو سات خدا رسیدہ سہیلیوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے بہت متبرک سمجھا جاتا ہے۔  مولوی محمد شفیع اپنی کتاب ضادید سندھ میں لکھتے ہیں کہ ان قبروں پر لگے کتبے سن 1884 کے ہیں اور نفیس نستعلیق خط میں لکھے گئے ہیں۔ بحوالہ: ستین جو آستان، تحریر غلام مصطفیٰ سولنگی ماہنامہ ساتھی کراچی، شمارہ اپریل 2016  علاوہ ازیں سینہ گزٹ یعنی کہی سنی بات جو مشہور ہے وہ یہ ہے کہ راجہ داہر کے عہد میں یہاں سات عبادت گزار سہیلیاں رہتی تھیں، ایک بار کچھ اوباش لڑکے وہاں آ دھمکے جن سے بچنے کیلئے انہوں نے دعا کی تو قبل اس کے کہ وہ لڑکے ٹیکری تک پہنچتے، وہ پہاڑی کھل گئی اور یہ سب اس میں سما گئیں، اب ان کی یاد میں وہاں سات قبریں ہیں جہاں خواتین اولاد کیلئے مَنتیں مانگنے جاتی ہیں۔ بحوالہ: ایکسپریس فیچر، 29 ستمبر، 2013  یہ ہیں وہ اصل کہانیاں جنہیں مس۔پریزنٹ کرکے یہ مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں، وہ بھی خانہ ساز “روایات” کے مطابق۔     جا بھیا: اپنی گیند ڈھونڈ لے، پویلین کے باہر پڑی ہے۔  نمبر۔5 صحافی صاحب مزید فرماتے ہیں: محمد بن قاسم نے راجہ داہر کی بیٹیوں کو غلام بنالیا، قدرت نے محمد بن قاسم کو بد ترین انجام سے دوچار کیا۔  چلیں ابن قاسمؒ کا بدترین انجام بھی دیکھ لیتے ہیں:  ملتان کی فتح کے بعد ابن قاسم ہندوستان فتح کرنے کی تیاریوں میں تھے کہ حجاج کا انتقال ہوگیا، اس کے آٹھ ماہ بعد خلیفہ ولید بھی وفات پاگئے اور سلمان تخت نشین ہوگیا، اس نے بغاوتوں کے خوف سے ولید کے تمام معتمد گورنروں، جرنیلوں اور افسروں کو معزول کیا یا سیدھا تہہ تیغ کر دیا، فاتح اندلس موسیٰؒ بن نُصَیر، فاتح ترکستان قتیبہؒ بن مسلم اور فاتح سندھ محمد بن قاسمؒ کو واپس بلوا کر واسط کے زندان میں قید کر دیا تھا۔  خلیفہ سلیمان نے جب پہلی بار راجہ داہر کی بڑی بیٹی کو شبستان میں طلب کیا تو سورج دیوی نے کہا میں آپ کے لائق نہیں کیونکہ ابن قاسم ہم دونوں بہنوں سے تین تین بار شب بسری کر چکا ہے۔  اس پر طیش میں آکے سلیمان نے خیانت کے جرم میں ابن قاسم کے قتل کا حکم نامہ جاری کر دیا، ابن قاسم کی شہادت کے بعد دونوں بہنوں نے قہقہے لگائے اور سلیمان کو بتایا کہ ہم نے جھوٹ بول کر اپنے باپ کا بدلہ لے لیا ہے، اب جو کرنا ہے کرلو، اس پر طیش میں آکے سلیمان نے ان دونوں کو دیوار میں چنوا دیا، ایک کتاب میں ہے کہ ہاتھی تلے روندوا ڈالا۔ بعد ازاں اپنے اس جذباتی فیصلے پر سلطان سلیمان اپنے ہاتھ دانتوں سے کاٹتا رہا اور ہمیشہ کفِ افسوس ملتا رہا کہ یہ میں نے کیا ظلم کر دیا۔ چچنامہ، صفحہ 335  سندھیوں نے محمد بن قاسمؒ کی وفات کی خبر سن کر بڑا ماتم کیا، اور ان کے اخلاق و اوصاف کو یاد کر کے روتے رہے، پھر شہر کیرا، یا، کیرج میں انہوں نے محمد بن قاسم کا ایک اسٹیچو بنا کر نصب کردیا۔ تاریخ سندھ، صفحہ 224، 225   مصنف اعجازالحق قدوسی صاحبؒ  محمد بن قاسمؒ کے حالات پر اہل ہند نے بہت آہ و زاری کی کیونکہ اس کی شجاعت اور اخلاق کی بدولت عام لوگوں کو اس کیساتھ بہت محبت ہو گئی تھی۔ تاریخ سندھ، صفحہ 274   محمد عبدالحلیم شرر  محمد بن قاسم کی موت پر اہل ہند و اہل عرب خون کے آنسو روئے۔ تاریخ سندھ، صفحہ 123    سید سلیمان ندوی  آخری شاٹ مارنے سے پہلے ابن قاسم کے دامن سے ایک اور داغ بھی دھوتے چلیں، محمد بن قاسم نے نہ تو راجہ داہر کی بیوی رانی لاڈلی سے شادی رچائی تھی نہ ہی اس کی بیٹیوں پریمل و سورج دیوی کیساتھ شب بسری کی اور نہ ہی انہیں خلیفہ سلیمان کیلئے بطور لونڈیاں بھیجا تھا، نہ سورج دیوی کے جھوٹ سے ابن قاسم شہید ہوئے اور نہ ہی ان دونوں بہنوں کو سلیمان نے بدلے میں قتل کیا تھا، یہ سب فیک سٹوریز ہیں اور کوئی بھی مستند حوالہ نہیں رکھتیں۔ چچ نامہ، صفحہ 335 فٹ نوٹ بائی ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، محقق سندھ یونیورسٹی، ممبر سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد  محمد بن قاسم کو خلیفہ سلیمان کے حکم سے کچے چمڑے یا صندوق میں بند کر کے لے جایا جانا بھی من گھڑت قصہ ہے، عرب مورخین نے ایسا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ چچ نامہ، صفحہ 335   تاریخ سندھ، اعجاز الحق قدوسیؒ، صفحہ 228، 229  نمبر۔6 صحافی صاحب کہتے ہیں: اعجازالحق قدوسی کی کتاب تاریخ سندھ اور چھج نامہ و دیگر کتب میں یہ تزکرے موجود ہیں۔  اب اس صورت حال میں بطور مسلمان کوئی کیسے محمد بن قاسم کو ہیرو یا نجات دہندہ کہہ سکتا ہے؟ میں پھر بھی کہنے کو تیار ہوں مگر کوئی معتبر حوالہ تو ہو، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ تاریخ کے ایک کردار محمد بن قاسم کو ہیرو نہ ماننے سے کسی کا اسلام مشتبہ ہوجائے گا؟  ارادہ تھا یہاں بھی کوئی شاٹ ماریں گے مگر اب موڈ بدل لیا ہے، اب ایک سویپ ہی کافی ہے۔ سندھیوں نے محمد بن قاسمؒ کی وفات کی خبر سن کر بڑا ماتم کیا، اور ان کے اخلاق و اوصاف کو یاد کر کے روتے رہے، پھر شہر کیرا، یا، کیرج میں انہوں نے محمد بن قاسم کا ایک اسٹیچو بنا کر نصب کردیا۔ بھیا گزارش ہے کہ: محمد بن قاسمؒ کو ہیرو نہ ماننے سے تو کسی کا اسلام مشتبہ نہیں ہوتا لیکن اگر عوام کو جذباتی اور گمراہ کرنے کیلئے اہل بیت اطہارؓ اور تبع تابعین کا نام استعمال کرنا اور کسی بے گناہ پر بے بنیاد کیچڑ اچھالنا بھی اسلام کو مشتبہ نہیں کرتا تو پھر بے حیا باش ہرچہ خواہی کن۔  اور ہاں: آپ کی بیان کی گئی “روایات” آپ کی بتائی ہوئی کسی ایک کتاب میں بھی نہیں ملیں گی بلکہ قیامت تک نہیں ملیں گی چاہیں جتنی بار مرضی پڑھ لیں اور لازمی پڑھیں کیونکہ آئینہ اصلاح کیلئے اچھا ہوتا ہے لیکن اصلاح کیلئے اتنی اسلامی غیرت کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے جتنی ابن قاسم کو رونے والے سندھیوں میں تھی۔ ۔۔۔  دوستو…! مجھے امید ہے کہ اب کوئی شیزوفیرنک آواز نہیں آئے گی، پھر بھی کوئی محمد بن قاسمؒ کا گریبان پکڑنے کی کوشش کرے تو پلیز وہاں یہ اسٹوری چپکا دیا کریں۔   ‏شکریہ ‏ ‏ـ ‏ ‏کاپی ‏پیسٹ ‏ـ ‏غلام محمد  ‏وامِق ‏، ‏محراب پور  ‏سندھ.  ‏ـــ

*محمد بن قاسم پر الزامات کی تحقیق* *انتخاب ـ غلام محمد وامق ـ محراب پور سندھ * *******÷ فاتح سندھ، عمادالدین محمد بن قاسمؒ کیخلاف ایک صحافی صاحب نے کچھ عرصہ قبل ایک بڑا سنگین مقدمہ قائم کیا تھا جو آج پھر دم بہ دم شئیر ہو رہا ہے۔ ویسے تو جس بندے کو سندھ میں پیرس جیسی ترقی کے آثار نظر آتے ہوں اور وہ اپنے اس دعوے پر مُصر بھی رہے تو اس کے تاریخی حوالے کتنے مستند ہوں گے یہ آپ خود بھی اندازہ لگا سکتے ہیں تاہم آپ کی سہولت کیلئے آج ہم صحافی صاحب کیساتھ ایک اوور کھیل کے دکھا دیتے ہیں۔ مقدمہ نمبر۔1 صحافی صاحب فرماتے ہیں کہ: مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ محمد بن قاسم کو ہیرو کیوں نہیں مانتے! میں نے کہا کیونکہ میں ایک مسلمان ہوں اور بطور مسلم میں مدینے کی بیٹیوں کی عزت خراب کرنے کی کوشش کرنے والے کی کم از کم عزت نہیں کرسکتا۔ گزارش ہے حضور کہ: یہ بہت ہی ڈھیلی سی بال تھی۔ ابن قاسمؒ نے کبھی کسی عورت کی عزت کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ وہ عرب کے قبیلہ بنو عزیز و بنو یربوع کی بیٹیوں کو قید سے چھڑانے کیلئے دیبل آیا تھا۔ یہ ان عرب تاجروں کی اہل خانہ تھیں جو سری لنکا میں مقیم ہوئے اور وہیں فوت ہوگئے، انہیں پتا چلا کہ جزیرہ یاقوت، سراندیپ، کا راجہ خیرسگالی اور دوستی کی غرض سے عرب حاکموں کو ہیرے، جواہرات، غلام اور کنیزیں بھیج رہا ہے تو یہ خواتین بھی زیارتِ حرم اور آبائی وطن کو دیکھنے کیلئے اس قافلے کے ہمراہ چل دیں۔ دیبل کے قزاقوں نے جب حملہ کیا تو اس پکڑ دھکڑ میں بنو یربوع کی ایک بیٹی نے حجاج کی دہائی دی، اغثنی یا حجاج اغثنی، ہمیں بچاؤ اے حجاج ہمیں بچاؤ، اس موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہونے والوں نے جب یہ بات حجاج تک پہنچائی تو اس نے غصے سے اٹھ کے کہا تھا، ابھی آیا، میں ابھی آیا۔ فتوح البلدان، صفحہ 184 چچ نامہ صفحہ 115 تاریخ سندھ، سید سلمان ندوی، صفحہ 44 تحفۃالکرام، میر شیر علی قانع، صفحہ، 26 تاریخ سندھ، محمد عبدالحلیم شرر، صفحہ 113 تاریخ ہند، حصہ سندھ، ابوظفر ندوی، صفحہ 58 انگلش بک، ہسٹری آف سندھ بائی موہن گیہانی، صفحہ 71 (ان کتابوں کے مختلف پبلشرز کے مختلف ایڈیشنز میں صفحہ نمبر کا تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے مگر حوالے مستند ہیں) صحافی صاحب نے مدینے کی بیٹیوں کی عزت کا نام لیکر جن کتابوں کے حوالے سے مسلمانوں کو جذباتی کرنے کی کوشش کی ہے ان کے اندر سے اس دعوےٰ کا ثبوت قیامت تک نہیں ملے گا، اس فراڈ اور شقاوت قلبی کو آگے چل کر مزید بے نقاب کرتا ہوں، فی الحال بس یہ سمجھ لیں کہ یہ نو بال ہی تھی پھر بھی ہم نے ہلکی سی شاٹ مار دی ہے۔ نمبر۔2 صحافی کہتا ہے کہ: میرے پاک نبیؐ سے مدینے کی نسبت ہے، وہاں کی خاک بھی میرے لئے معتبر ہے تو کیسے ممکن ہے کہ میں وہاں کے لوگوں کے قاتل محمد بن قاسم کو ہیرو قرار دوں۔ یہ میری غیرت ایمانی کے تقاضوں کے برخلاف ہے۔ یہ معاملہ سمجھانے کے لئے میں آپ کے سامنے تاریخ کا ایک پہلو رکھتا ہوں۔ دوستو گزارش ہے کہ: یہ بھی مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی ایک کوشش ہے، محمد بن قاسم نے کبھی کسی ایسی مہم میں حصہ نہیں لیا جس نے مدینہ طیبہ کے اندر یا باہر اہل مدینہ کا قتل کیا ہو۔ دراصل پہلی اور دوسری بال انہوں نے کرائی ہی جذباتی کرنے کیلئے تھی تاکہ اگلی بال جس میں مدینے کے ان بیٹے، بیٹیوں کا ذکر ہوگا جن کیساتھ ابن قاسم نے ظلم کیا، تو اس پر لوگ ایکدم سے بھڑک اٹھیں، لہذا اس بال پر ہم بھی جذباتی اور سچے دل سے ایک سویپ ماریں گے۔ دیکھو بھیا: مدینہ طیبہ کی بیٹیاں اور بیٹے تو رہے ایک طرف، ابن قاسم نے اگر وہاں کے کسی کتے پر بھی ایک پتھر مارا ہو تو ہماری طرف سے اس فاتح سندھ پر چار حرف مگر پہلے کوئی مستند حوالہ پیش کرو، یہ آواز آندی اے والی گل نہ کرو، بے سروپا آوازیں ہم نہیں سنتے۔ ہمارے دیہاتوں کے بے علم مولوی جب اپنی تقریر میں سنی سنائی باتیں پیلتے ہیں تو حوالہ پاس کوئی نہیں ہوتا اسلئے ہر بات کے ساتھ یہ کہہ کے کلٹی کھا لیتے ہیں کہ: مومنو آواز آندی اے! مومنو آواز پئی آندی اے کہ اَینج ہوگیا تے اُونج ہوگیا۔ خیر اگلی بال دیکھتے ہیں جس میں صحافی صاحب اپنے پہلے دو دعووں کے حق میں اب تاریخ کا ایک پہلو ہمارے سامنے رکھیں گے۔ نمبر۔3 صحافی کہتا ہے کہ: جب بنوامیہ اور بنوہاشم کی لڑائی میں بنوہاشم کو شکست ہوئی تو اپنی خواتین کے ہمراہ کچھ گھرانے جان بچا کر سندھ آئے، سندھ اموی حکومت کی سرحدوں سے باہر تھا، روایات کے مطابق عرب سے سندھ آنے والوں میں عبداللہ شاہ غازی اور ان کے بھائی مصری شاہ بھی تھے۔ دوستو! دیکھا آپ نے: بس روایات کے مطابق، یعنی آواز پئی آندی اے، کوئی تاریخ نہیں، کوئی حوالہ نہیں، بس مومنو، یقین کرلو کیونکہ آواز پئی آندی اے۔ پہلی دو بال ہم نے بڑے صبر و تحمل سے کھیلیں ہیں لیکن اب صبر نہیں ہوتا، اب ہم ماریں گے ٹُلے، اور ٹکا کے ماریں گے۔ بنو ہاشم یعنی اہلبیتؓ اطہار کیساتھ ہمارا بڑا گہرا قلبی عقیدت کا معاملہ ہے، ان کے مقابلے میں ہم بنوامیہ کو رتی بھر اہمیت بھی نہیں دیتے۔ بنو امیہ کے خلیفہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ، یزید کی اولاد سے ہیں مگر یزید کو رحمۃاللہ علیہ کہنے والے بندے کو انہوں نے اپنے سامنےجوتے لگوائے تھے اسلئے کہ جہاں اہلبیتؓ کا معاملہ ہوگا وہاں مومنین کو اپنے باپ کی پرواہ بھی نہیں ہوتی، اسی تقوے کی بنیاد پر عمر بن عبدالعزیزؓ ہمارے سر کا تاج ہیں اور ہم انہیں خلفائے راشدینؓ میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن حرمتِ سادات کی آڑ میں عوام کو کسی بیگناہ کیخلاف بڑھکانا بھی ایک انتہائی گھٹیا اور شنیع عمل ہے جس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ اب تاریخی حقائق دیکھیں: حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ امام حسن مجتبےٰ علیہ السلام کی تیسری یا چوتھی نسل میں سید محمد نفس ذکیہؓ کے صاحبزادے ہیں، آپ واقعہ کربلا کے لگ بھگ چالیس سال بعد سن 720ء میں پیدا ہوئے تھے جبکہ محمد بن قاسمؒ نے سن 711ء میں سندھ فتح کیا اور سن 715ء میں واسط کے سرکاری زندان میں شہید ہوگئے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ عبداللہ شاہ غازیؒ اپنی پیدائش سے نو سال پہلے اپنے بھائی کیساتھ سندھ میں ابن قاسم کے ہاتھوں 711ء میں شہید ہوگئے۔ بنو ہاشمؓ کے مقابل بنوامیہ کی مجھے کوئی پرواہ نہیں مگر سچ یہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد ان کے درمیان کوئی قابل ذکر لڑائی نہیں ہوئی البتہ عباسی دور میں سید محمد نفس ذکیہؓ نے خلیفہ منصور کیخلاف حسینیؑ علم بلند کیا تھا اور اپنے بھائیوں اور صاحبزادوں کو اپنا نمائندہ بنا کر مختلف ممالک میں بھیجا تھا تاکہ وہ علوی حکومت کے قیام کیلئے جدوجہد کریں۔ اپنے والد صاحبؓ کے حکم پر سید عبداللہ شاہ غازیؒ، سید مصری شاہؒ اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سن 760ء میں سندھ تشریف لائے تھے، یہاں آپ نے تبلیغ دین کی اور ذریعہ معاش کیلئے گھوڑوں کی تجارت شروع کی، درجنوں عربی گھوڑے آپ اپنے ساتھ بھی لائے تھے۔ یہاں آپ نے نو سال قیام کیا، ماہ ذوالحج سن 769ء میں ایک سفر کے دوران جنگل میں گھات لگائے کچھ لوگوں نے ایک شدید حملہ کیا جس میں آپ شہید ہو گئے، حملہ آوروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خوارج کا کوئی ٹولہ تھا۔ حوالہ جات: تاریخ سندھ، مصنف اعجازالحق قدوسی صاحبؒ، صفحہ 260, 261, 262 انگلش بک، اے ہسٹری آف سندھ، مصنف سہیل ظہیر لاری، آکسفورڈ پریس ایڈیشن 1995، بحوالہ ندیم پراچہ، مضمون، عبداللہ شاہ غازیؒ دی سیوئیر سینٹ*، ڈان نیوز، 23 نومبر 2014، ‏the saviour saint* (اسی مضمون میں ندیم پراچہ صاحب نے ڈاکٹر داؤد پوتا صاحب کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ سید عبداللہ شاہ غازیؒ، محمد بن قاسم کیساتھ سندھ آئے تھے اور ابن قاسم کے ایک ماتحت جرنیل کے نائب کمانڈر تھے، مگر یہ صحیح نہیں، ڈاکٹر محمد داؤد پوتا سندھ کے بہت بڑے محقق ہیں، وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے، یہ دراصل ایک کاؤنٹر نیریٹیو ہے، اسے ڈسکس کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔) کاؤنٹر نیریٹیو یہ ہے کہ پچھلے سال غازی صاحبؒ کا 1287 واں عرس تھا، 2017 میں سے اگر 1287 مائنس کریں تو ان کا سنِ وصال 730ء ہونا چاہئے، بنوامیہ کا دور 750ء تک ہے اس کے بعد عباسی دور شروع ہوتا ہے لہذا شنید ہے کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ ہی آئے تھے، اگر وہ بنو امیہ کے باغی ہوتے تو فتح سندھ کے دور میں شہید کر دئے گئے ہوتے مگر آپ اپنے کنبے سمیت 19 سال بعد تک بقید حیات رہے اور بوقت شہادت بھی صرف آپ کی شہادت بتائی گئی ہے باقی کنبہ اور احباب سلامت رہے، اور غازیؒ صاحب کے مزار کے پاس ہی آباد ہوئے، انہیں میٹھے پانی کی شدید قلت درپیش تھی، اسی پریشانی میں کسی ایک نے خواب میں دیکھا کہ غازی صاحبؒ پہاڑی کے نیچے اپنی قبر کے پاس میٹھے پانی کے چشمے کی نشاندہی کر رہے ہیں، وہ چشمہ اب بھی جاری ہے۔ تاریخ سندھ کے مصنف ابو ظفر ندویؒ اور تحفۃ الکرام کے مصنف میر شیر علی قانعؒ نے اپنی کتابوں میں علوی سکول آف تھاٹ پر بھی بحث کی ہے، ان کی بحث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سید محمد نفس ذکیہؓ اور ان کے بھائی نے عباسیوں کے خلاف ہی اسٹینڈ لیا تھا اور ان کے نمائندوں نے سندھ کے معروف اور مؤثر سومرہ خاندان کی حمایت بھی حاصل کرلی تھی، یہ سومرہ خاندان محمد بن قاسم کے جرنیل اور لشکری تھے جو سندھ میں آباد ہوگئے تھے، بنوامیہ کی موجودگی میں ان کے سپاہیوں سے لارج اسکیل پر علویت کیلئے حمایت حاصل کرنا بھلا کیسے ممکن ہو سکتا تھا لہذا یہ عباسی دور ہی کی بات ہے۔ سندھ میں علویت کے دوسرے بڑے علمبردار حضرت لعل شہباز قلندر ہیں، وہ اپنے خاص معتمدوں کو ہر سال درگاہ غازیؒ صاحب کی خدمت کیلئے بھیجا کرتے تھے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، سیہون شریف کی درگاہ سے کچھ لوگ آج بھی درگاہ عبداللہ شاہ غازیؒ کی خدمت کیلئے بھیجے جاتے ہیں۔ یہ کاونٹر نیریٹیو بھی بہرحال محمد بن قاسم کو اس بات سے بری کر دیتا ہے کہ وہ تبع تابعین اہل بیتؓ یعنی غازی صاحبان کا قاتل تھا کیونکہ ابن قاسم 715ء میں اور غازی صاحبؒ ایک گواہی کے مطابق 730ء اور دوسری گواہی کے مطابق 769ء میں شہید ہوئے تھے۔ نمبر۔4 اب صحافی کہتا ہے کہ: کعبے پر حملہ کرنے والے حجاج بن یوسف نے ان گھرانوں کی سرکوبی کے لئے محمد بن قاسم کو بھیجا۔ روایات کے مطابق عبداللہ شاہ غازی نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر محمد بن قاسم کے خلاف جہاد کیا سکھر میں سات سہیلیوں کا مزار ہے، روایات کے مطابق یہ وہی عرب خواتین ہیں، جنہوں نے سندھ میں پناہ لی۔ دوستو گزارش ہے کہ: خانہ ساز “روایات کے مطابق” یہ دو بزرگوں اور سات سہیلیوں کے بجائے اگر سات سو گھرانوں کا معاملہ بھی ہوتا تو بھی ان کے پیچھے چھ ہزار سپاہیوں کا لشکر، بتیس ہزار درہم کا خرچہ، چھوٹی منجنیقوں کے علاوہ عروس نامی سب سے بڑی منجنیق سے حملہ آور ہونا کسی کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ اصل قصہ یوں ہے کہ: سندھ میں اکبر بادشاہ کا گورنر ابوالقاسم نمکین عرف خانِ زمانہ شاعر اور فطرت پسند آدمی تھا، اس نے سیر کے دوران دریائے سندھ کے اندر ایک خوبصورت جزیرہ دریافت کیا جہاں سات قبریں موجود تھیں۔ خانِ زمانہ نے اس جگہ کو صفحۂ صفا کا نام دیا اور وہاں چند چبوترے اور مینار تعمیر کرائے، اس کے بعد وہ چاندنی راتوں میں وہاں محفل مشاعرہ کیا کرتے تھے، ان کی وصیت کے مطابق وہ خود بھی وہیں مدفون ہیں اور سو کے قریب ان کے اہل خانہ و عزیزو اقارب بھی وہیں دفن ہیں۔ اس جگہ کو قاسم خانی اور ستین جو آستان بھی کہتے ہیں، ان سات قبروں کے حوالے سے خیرپور یونیورسٹی، شعبہ آرکیالوجی کے ڈاکٹر قاصد ملاح صاحب کہتے ہیں کہ غزنوی دور میں یہاں ازبک، افغان، ایران اور سندھ کے سات بزرگوں نے چلہ کاٹا تھا، ان میں شیخ عبدالحمید سہروردیؒ، شیخ عبداﷲ ہراریؒ، حمزہ بن رافعؒ، یوسف بن بکھریؒ، سیف الدین شیرازیؒ، عبدالحسن خیر خوانیؒ اور علی ڈنو احمد بصریؒ شامل ہیں، ان میں علی ڈنو بصریؒ مقامی درویش اور ان سب کے میزبان دکھائی دیتے ہیں۔ بحوالہ: آرکیالوجسٹ ڈاکٹر قاصد ملاح، ایکسپریس فیچر، 29 ستمبر، 2013 ریاست خیرپور کے ہسٹورین حکیم امیر علی شاہ فتحپوری نے لکھا ہے کہ غزنوی دور میں جب روہڑی پر حملہ ہوا تو یہاں سات بزرگ رہتے تھے جو بعد میں یہاں سے چلے گئے، ان کی یاد میں لوگوں نے اس جگہ کا نام ستین جو آستان رکھ دیا ہے یعنی سات لوگوں کے رہنے کی جگہ۔ محقق پیر حسام الدین راشدی صاحب اپنی کتاب “نہ کمرہ امیر خانی” میں کہتے ہیں کہ اس جگہ کو سات خدا رسیدہ سہیلیوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے بہت متبرک سمجھا جاتا ہے۔ مولوی محمد شفیع اپنی کتاب ضادید سندھ میں لکھتے ہیں کہ ان قبروں پر لگے کتبے سن 1884 کے ہیں اور نفیس نستعلیق خط میں لکھے گئے ہیں۔ بحوالہ: ستین جو آستان، تحریر غلام مصطفیٰ سولنگی ماہنامہ ساتھی کراچی، شمارہ اپریل 2016 علاوہ ازیں سینہ گزٹ یعنی کہی سنی بات جو مشہور ہے وہ یہ ہے کہ راجہ داہر کے عہد میں یہاں سات عبادت گزار سہیلیاں رہتی تھیں، ایک بار کچھ اوباش لڑکے وہاں آ دھمکے جن سے بچنے کیلئے انہوں نے دعا کی تو قبل اس کے کہ وہ لڑکے ٹیکری تک پہنچتے، وہ پہاڑی کھل گئی اور یہ سب اس میں سما گئیں، اب ان کی یاد میں وہاں سات قبریں ہیں جہاں خواتین اولاد کیلئے مَنتیں مانگنے جاتی ہیں۔ بحوالہ: ایکسپریس فیچر، 29 ستمبر، 2013 یہ ہیں وہ اصل کہانیاں جنہیں مس۔پریزنٹ کرکے یہ مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں، وہ بھی خانہ ساز “روایات” کے مطابق۔ جا بھیا: اپنی گیند ڈھونڈ لے، پویلین کے باہر پڑی ہے۔ نمبر۔5 صحافی صاحب مزید فرماتے ہیں: محمد بن قاسم نے راجہ داہر کی بیٹیوں کو غلام بنالیا، قدرت نے محمد بن قاسم کو بد ترین انجام سے دوچار کیا۔ چلیں ابن قاسمؒ کا بدترین انجام بھی دیکھ لیتے ہیں: ملتان کی فتح کے بعد ابن قاسم ہندوستان فتح کرنے کی تیاریوں میں تھے کہ حجاج کا انتقال ہوگیا، اس کے آٹھ ماہ بعد خلیفہ ولید بھی وفات پاگئے اور سلمان تخت نشین ہوگیا، اس نے بغاوتوں کے خوف سے ولید کے تمام معتمد گورنروں، جرنیلوں اور افسروں کو معزول کیا یا سیدھا تہہ تیغ کر دیا، فاتح اندلس موسیٰؒ بن نُصَیر، فاتح ترکستان قتیبہؒ بن مسلم اور فاتح سندھ محمد بن قاسمؒ کو واپس بلوا کر واسط کے زندان میں قید کر دیا تھا۔ خلیفہ سلیمان نے جب پہلی بار راجہ داہر کی بڑی بیٹی کو شبستان میں طلب کیا تو سورج دیوی نے کہا میں آپ کے لائق نہیں کیونکہ ابن قاسم ہم دونوں بہنوں سے تین تین بار شب بسری کر چکا ہے۔ اس پر طیش میں آکے سلیمان نے خیانت کے جرم میں ابن قاسم کے قتل کا حکم نامہ جاری کر دیا، ابن قاسم کی شہادت کے بعد دونوں بہنوں نے قہقہے لگائے اور سلیمان کو بتایا کہ ہم نے جھوٹ بول کر اپنے باپ کا بدلہ لے لیا ہے، اب جو کرنا ہے کرلو، اس پر طیش میں آکے سلیمان نے ان دونوں کو دیوار میں چنوا دیا، ایک کتاب میں ہے کہ ہاتھی تلے روندوا ڈالا۔ بعد ازاں اپنے اس جذباتی فیصلے پر سلطان سلیمان اپنے ہاتھ دانتوں سے کاٹتا رہا اور ہمیشہ کفِ افسوس ملتا رہا کہ یہ میں نے کیا ظلم کر دیا۔ چچنامہ، صفحہ 335 سندھیوں نے محمد بن قاسمؒ کی وفات کی خبر سن کر بڑا ماتم کیا، اور ان کے اخلاق و اوصاف کو یاد کر کے روتے رہے، پھر شہر کیرا، یا، کیرج میں انہوں نے محمد بن قاسم کا ایک اسٹیچو بنا کر نصب کردیا۔ تاریخ سندھ، صفحہ 224، 225 مصنف اعجازالحق قدوسی صاحبؒ محمد بن قاسمؒ کے حالات پر اہل ہند نے بہت آہ و زاری کی کیونکہ اس کی شجاعت اور اخلاق کی بدولت عام لوگوں کو اس کیساتھ بہت محبت ہو گئی تھی۔ تاریخ سندھ، صفحہ 274 محمد عبدالحلیم شرر محمد بن قاسم کی موت پر اہل ہند و اہل عرب خون کے آنسو روئے۔ تاریخ سندھ، صفحہ 123 سید سلیمان ندوی آخری شاٹ مارنے سے پہلے ابن قاسم کے دامن سے ایک اور داغ بھی دھوتے چلیں، محمد بن قاسم نے نہ تو راجہ داہر کی بیوی رانی لاڈلی سے شادی رچائی تھی نہ ہی اس کی بیٹیوں پریمل و سورج دیوی کیساتھ شب بسری کی اور نہ ہی انہیں خلیفہ سلیمان کیلئے بطور لونڈیاں بھیجا تھا، نہ سورج دیوی کے جھوٹ سے ابن قاسم شہید ہوئے اور نہ ہی ان دونوں بہنوں کو سلیمان نے بدلے میں قتل کیا تھا، یہ سب فیک سٹوریز ہیں اور کوئی بھی مستند حوالہ نہیں رکھتیں۔ چچ نامہ، صفحہ 335 فٹ نوٹ بائی ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، محقق سندھ یونیورسٹی، ممبر سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد محمد بن قاسم کو خلیفہ سلیمان کے حکم سے کچے چمڑے یا صندوق میں بند کر کے لے جایا جانا بھی من گھڑت قصہ ہے، عرب مورخین نے ایسا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ چچ نامہ، صفحہ 335 تاریخ سندھ، اعجاز الحق قدوسیؒ، صفحہ 228، 229 نمبر۔6 صحافی صاحب کہتے ہیں: اعجازالحق قدوسی کی کتاب تاریخ سندھ اور چھج نامہ و دیگر کتب میں یہ تزکرے موجود ہیں۔ اب اس صورت حال میں بطور مسلمان کوئی کیسے محمد بن قاسم کو ہیرو یا نجات دہندہ کہہ سکتا ہے؟ میں پھر بھی کہنے کو تیار ہوں مگر کوئی معتبر حوالہ تو ہو، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ تاریخ کے ایک کردار محمد بن قاسم کو ہیرو نہ ماننے سے کسی کا اسلام مشتبہ ہوجائے گا؟ ارادہ تھا یہاں بھی کوئی شاٹ ماریں گے مگر اب موڈ بدل لیا ہے، اب ایک سویپ ہی کافی ہے۔ سندھیوں نے محمد بن قاسمؒ کی وفات کی خبر سن کر بڑا ماتم کیا، اور ان کے اخلاق و اوصاف کو یاد کر کے روتے رہے، پھر شہر کیرا، یا، کیرج میں انہوں نے محمد بن قاسم کا ایک اسٹیچو بنا کر نصب کردیا۔ بھیا گزارش ہے کہ: محمد بن قاسمؒ کو ہیرو نہ ماننے سے تو کسی کا اسلام مشتبہ نہیں ہوتا لیکن اگر عوام کو جذباتی اور گمراہ کرنے کیلئے اہل بیت اطہارؓ اور تبع تابعین کا نام استعمال کرنا اور کسی بے گناہ پر بے بنیاد کیچڑ اچھالنا بھی اسلام کو مشتبہ نہیں کرتا تو پھر بے حیا باش ہرچہ خواہی کن۔ اور ہاں: آپ کی بیان کی گئی “روایات” آپ کی بتائی ہوئی کسی ایک کتاب میں بھی نہیں ملیں گی بلکہ قیامت تک نہیں ملیں گی چاہیں جتنی بار مرضی پڑھ لیں اور لازمی پڑھیں کیونکہ آئینہ اصلاح کیلئے اچھا ہوتا ہے لیکن اصلاح کیلئے اتنی اسلامی غیرت کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے جتنی ابن قاسم کو رونے والے سندھیوں میں تھی۔ ۔۔۔ دوستو…! مجھے امید ہے کہ اب کوئی شیزوفیرنک آواز نہیں آئے گی، پھر بھی کوئی محمد بن قاسمؒ کا گریبان پکڑنے کی کوشش کرے تو پلیز وہاں یہ اسٹوری چپکا دیا کریں۔ ‏شکریہ ‏ ‏ـ ‏ ‏کاپی ‏پیسٹ ‏ـ ‏غلام محمد ‏وامِق ‏، ‏محراب پور ‏سندھ. ‏ـــ

Powered by Blogger.