‎بلدیہ محرابپور کے چیئرمینوں پر ایک نظر ـــــــــــــــــــــ  تحریر  ــ  غلام محمد  وامِق ـــ   ہم نے ہوش سنبھالا تو شوکت خان لودھی (مرحوم) کو ٹاؤن کمیٹی محرابپور کا چیئرمین دیکھا، جوکہ شہر کا سب سے پہلا منتخب چیئرمین تھا ـ شوکت خان لودھی صاحب بڑے بردبار، ادب پرور، اور اعلیٰ ظرف کے حامل دوراندیش انسان تھے،  انہوں نے اپنے ابتدائی دور میں ہی گندے پانی کی نکاسی کے لئے ایک بہت بڑا نالہ بنوایا تھا، جوکہ اُس زمانے میں عجیب اور غیرضروری محسوس ہوتا تھا، لیکن آج ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نالہ نہ ہوتا تو شہر آج گندے پانی میں ڈوب چکا ہوتا ـ  1983ء میں،  جب میں چھ، سات سال کراچی میں گزار کر واپس محرابپور آیا تو اس وقت شہر کے چیئرمین مغل عبدالغفور ساجد صاحب تھے ـ مغل عبدالغفور ساجد صاحب ایسی شخصیت تھے جن کی مثال محرابپور تو کیا،  شاید دنیا بھر میں نہ مل سکے، وہ شاعر اور ادیب تھے ـ وہ اپنے گھر یا آفس میں آرام سے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ہمہ وقت متحرک رہتے تھے ـ  ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی جب ہم ان کو مزدوروں اور خاکروبوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور کام کرواتے دیکھتے تھے ـ  جہاں بھی ٹاؤن کا کام ہورہا ہوتا، چاہے وہ نالیاں ہوں یا کچرا کنڈی وہاں پر کھڑے رہتے یا پھر کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور اپنی نظرداری میں کام کرواتے ـ  وہ سارا دن شہر کے بازاروں اور گلیوں میں وزٹ کرتے اور لوگوں سے ملتے ـ  بعض اوقات تو اکیلے ہی رات کو کسی کام کے معائنے کو نکل کھڑے ہوتے ـ  کہیں ضرورت پڑتی تو اپنی جیب سے خرچ کرتے، کسی تقریب میں ہوتے تو نماز کے وقت جماعت کی امامت خود کرتے ــ  انہوں نے ہی شہر کا موجودہ انڈرگراؤنڈ ڈرینج سسٹم بنوایا تھا، جس کا آج برا حال کردیا گیا ہے،  شہر میں تین عدد گیٹ تعمیر کروائے، جوکہ آج محرابپور کی شناخت بن چکے ہیں ـ  صفائی کے لحاظ سے محرابپور، سندھ کے بہترین شہروں میں شامل ہوتا تھا ـ سڑکیں اور گلیاں انتہائی کشادہ اور صاف ہوتی تھیں ـ  لودھی اور مغل صاحبان کے زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کا بجٹ ہمیشہ سرپلس رہتا تھا ـ محرابپور کی ٹاؤن کمیٹی،  سندھ کی دیگر ٹاؤن کمیٹیوں سے زیادہ خوشحال تھی،  مغل عبدالغفور ساجد صاحب کا ایک شعری مجموعہ بھی " نوائے ساجد " کے نام سے  اس زمانے میں منظرعام پر آچکا تھا،  عبدالغفور ساجد صاحب نفیس انسان تھے لہٰذا وہ سابقہ چیئرمین شوکت خان لودھی صاحب سے بھی بڑے انکسار سے ملتے تھے ـ  بہرحال 1983ء میں ہم نے " بزمِ ادب محرابپور " کی بنیاد رکھی، صدر عبدالغفور ساجد صاحب کو بنایا گیا،  سرپرست شوکت خان لودھی کو بنایا  جبکہ جنرل سیکریٹری مجھے (راقم الحروف بندہء ناچیز  کو) بنایا گیا ـ 1985ء میں ہم نے ایک عظیم الشان  کُل سندھ مشاعرہ ٹاؤن ہال میں منعقد کروایا، جس کی صدارت شوکت خان لودھی صاحب نے کی تھی ـ اس مشاعرے میں مغل عبدالغفور ساجد صاحب اس لئے شرکت نہ کرسکے کہ وہ شاید بیرونِ ملک یا بیرونِ شہر گئے ہوئے تھے ـ ان لوگوں کے دور میں گو راستے کچے تھے لیکن شہر کی ترقی کے ارادے پکے تھے ـ شوکت لودھی کے ابتدائی دور میں محرابپور میں بجلی نہیں آئی تھی ،  لیکن شہر کے مختلف راستوں اور چوراہوں پر  ٹاؤن کی طرف سے جگہ جگہ تیل سے جلنے والی لالٹینیں لگائی گئی تھیں، شہر کے راستوں اور گلیوں میں دن میں تین بار ماشکی اپنی مشکوں سے پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے، جس کے باعث گرمی کے موسم میں ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا ـ  مغل عبدالغفور ساجد کے بعد پھر سے شوکت خان  لودھی صاحب چیئرمین بن گئے تھے ـ ـ ـ  بعدازاں ایڈمنسٹریٹرز کا دور آگیا ـ  اور ایک وقت آیا جب شوکت لودھی صاحب رات کے وقت اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کرگئے ـ  اور کچھ عرصہ کے بعد مغل عبدالغفور ساجد صاحب بھی دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہی انتقال کرگئے ــ صدرِ پاکستان، جرنل پرویزمشرف صاحب  کے زمانے میں چیئرمین کے بجائے ناظم اعلیٰ بنائے گئے ـ اور اس نئے سسٹم کے تحت شہر کو دوحصوں میں تقسیم کرکے یوسی ون اور یوسی ٹو میں تقسیم کردیا گیا،  جس پر ایک بار شوکت خان لودھی کے فرزند " فاروق خان لودھی " اور مغل عبدالغفور کے بھتیجے " منوربیگ مغل " ناظم اعلیٰ منتخب کئے گئے ـ دونوں منتخب ناظمین اپنے بڑوں کے شاندار اصول بھول کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سرگرم ہوگئے ـ  حالانکہ انفرادی طور پر دونوں موصوف بڑے ملنسار خوش اخلاق اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے والے ہیں ـ  فاروق خان لودھی دو بار ناظم مقرر کئے گئے، اور اب موصوف پورے شہر کے چیئرمین ہیں، لیکن آپ بیرونِ ملک کے دوروں پر اکثر نظر آتے ہیں،  شہر کا دورہ کبھی نہیں کیا،   ٹاؤن کے خاکروب روزانہ ہڑتال پر ہیں کہ انہیں تنخواہیں نہیں ملتیں ـ لہٰزا شہر میں گندے پانی کے گٹر  اور نالیاں ابل رہی ہیں ـ  جناب کو شہر کی حالت دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں ہے ـ جبکہ ان کے والد ہر دوسرے تیسر روز شہر کے بازاروں کا دورہ کرتے اور لوگوں سے حال احوال پوچھتے تھے ــ اب شہر زخموں سے چُور رات دن گندے پانی میں پڑا تڑپ رہا ہے،  گلیوں میں پیدل چلنا مشکل ہوگیا ہے ــاب شہر والے جائیں تو جائیں کہاں؟  کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ــ  ؟ ہم نے یہ لکھ کر اپنی ذمیداری پوری کردی،  اللہ تعالیٰ تمام اہلیانِ شہر اور ملک پر اپنا فضل فرمائے ـ آمین ــــــــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ  فون،  03153533437 ـــ                            تاریخ ـ 18.12.2019 ــــ

‎بلدیہ محرابپور کے چیئرمینوں پر ایک نظر ـــــــــــــــــــــ تحریر ــ غلام محمد وامِق ـــ ہم نے ہوش سنبھالا تو شوکت خان لودھی (مرحوم) کو ٹاؤن کمیٹی محرابپور کا چیئرمین دیکھا، جوکہ شہر کا سب سے پہلا منتخب چیئرمین تھا ـ شوکت خان لودھی صاحب بڑے بردبار، ادب پرور، اور اعلیٰ ظرف کے حامل دوراندیش انسان تھے، انہوں نے اپنے ابتدائی دور میں ہی گندے پانی کی نکاسی کے لئے ایک بہت بڑا نالہ بنوایا تھا، جوکہ اُس زمانے میں عجیب اور غیرضروری محسوس ہوتا تھا، لیکن آج ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نالہ نہ ہوتا تو شہر آج گندے پانی میں ڈوب چکا ہوتا ـ 1983ء میں، جب میں چھ، سات سال کراچی میں گزار کر واپس محرابپور آیا تو اس وقت شہر کے چیئرمین مغل عبدالغفور ساجد صاحب تھے ـ مغل عبدالغفور ساجد صاحب ایسی شخصیت تھے جن کی مثال محرابپور تو کیا، شاید دنیا بھر میں نہ مل سکے، وہ شاعر اور ادیب تھے ـ وہ اپنے گھر یا آفس میں آرام سے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ہمہ وقت متحرک رہتے تھے ـ ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی جب ہم ان کو مزدوروں اور خاکروبوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور کام کرواتے دیکھتے تھے ـ جہاں بھی ٹاؤن کا کام ہورہا ہوتا، چاہے وہ نالیاں ہوں یا کچرا کنڈی وہاں پر کھڑے رہتے یا پھر کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور اپنی نظرداری میں کام کرواتے ـ وہ سارا دن شہر کے بازاروں اور گلیوں میں وزٹ کرتے اور لوگوں سے ملتے ـ بعض اوقات تو اکیلے ہی رات کو کسی کام کے معائنے کو نکل کھڑے ہوتے ـ کہیں ضرورت پڑتی تو اپنی جیب سے خرچ کرتے، کسی تقریب میں ہوتے تو نماز کے وقت جماعت کی امامت خود کرتے ــ انہوں نے ہی شہر کا موجودہ انڈرگراؤنڈ ڈرینج سسٹم بنوایا تھا، جس کا آج برا حال کردیا گیا ہے، شہر میں تین عدد گیٹ تعمیر کروائے، جوکہ آج محرابپور کی شناخت بن چکے ہیں ـ صفائی کے لحاظ سے محرابپور، سندھ کے بہترین شہروں میں شامل ہوتا تھا ـ سڑکیں اور گلیاں انتہائی کشادہ اور صاف ہوتی تھیں ـ لودھی اور مغل صاحبان کے زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کا بجٹ ہمیشہ سرپلس رہتا تھا ـ محرابپور کی ٹاؤن کمیٹی، سندھ کی دیگر ٹاؤن کمیٹیوں سے زیادہ خوشحال تھی، مغل عبدالغفور ساجد صاحب کا ایک شعری مجموعہ بھی " نوائے ساجد " کے نام سے اس زمانے میں منظرعام پر آچکا تھا، عبدالغفور ساجد صاحب نفیس انسان تھے لہٰذا وہ سابقہ چیئرمین شوکت خان لودھی صاحب سے بھی بڑے انکسار سے ملتے تھے ـ بہرحال 1983ء میں ہم نے " بزمِ ادب محرابپور " کی بنیاد رکھی، صدر عبدالغفور ساجد صاحب کو بنایا گیا، سرپرست شوکت خان لودھی کو بنایا جبکہ جنرل سیکریٹری مجھے (راقم الحروف بندہء ناچیز کو) بنایا گیا ـ 1985ء میں ہم نے ایک عظیم الشان کُل سندھ مشاعرہ ٹاؤن ہال میں منعقد کروایا، جس کی صدارت شوکت خان لودھی صاحب نے کی تھی ـ اس مشاعرے میں مغل عبدالغفور ساجد صاحب اس لئے شرکت نہ کرسکے کہ وہ شاید بیرونِ ملک یا بیرونِ شہر گئے ہوئے تھے ـ ان لوگوں کے دور میں گو راستے کچے تھے لیکن شہر کی ترقی کے ارادے پکے تھے ـ شوکت لودھی کے ابتدائی دور میں محرابپور میں بجلی نہیں آئی تھی ، لیکن شہر کے مختلف راستوں اور چوراہوں پر ٹاؤن کی طرف سے جگہ جگہ تیل سے جلنے والی لالٹینیں لگائی گئی تھیں، شہر کے راستوں اور گلیوں میں دن میں تین بار ماشکی اپنی مشکوں سے پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے، جس کے باعث گرمی کے موسم میں ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا ـ مغل عبدالغفور ساجد کے بعد پھر سے شوکت خان لودھی صاحب چیئرمین بن گئے تھے ـ ـ ـ بعدازاں ایڈمنسٹریٹرز کا دور آگیا ـ اور ایک وقت آیا جب شوکت لودھی صاحب رات کے وقت اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کرگئے ـ اور کچھ عرصہ کے بعد مغل عبدالغفور ساجد صاحب بھی دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہی انتقال کرگئے ــ صدرِ پاکستان، جرنل پرویزمشرف صاحب کے زمانے میں چیئرمین کے بجائے ناظم اعلیٰ بنائے گئے ـ اور اس نئے سسٹم کے تحت شہر کو دوحصوں میں تقسیم کرکے یوسی ون اور یوسی ٹو میں تقسیم کردیا گیا، جس پر ایک بار شوکت خان لودھی کے فرزند " فاروق خان لودھی " اور مغل عبدالغفور کے بھتیجے " منوربیگ مغل " ناظم اعلیٰ منتخب کئے گئے ـ دونوں منتخب ناظمین اپنے بڑوں کے شاندار اصول بھول کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سرگرم ہوگئے ـ حالانکہ انفرادی طور پر دونوں موصوف بڑے ملنسار خوش اخلاق اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے والے ہیں ـ فاروق خان لودھی دو بار ناظم مقرر کئے گئے، اور اب موصوف پورے شہر کے چیئرمین ہیں، لیکن آپ بیرونِ ملک کے دوروں پر اکثر نظر آتے ہیں، شہر کا دورہ کبھی نہیں کیا، ٹاؤن کے خاکروب روزانہ ہڑتال پر ہیں کہ انہیں تنخواہیں نہیں ملتیں ـ لہٰزا شہر میں گندے پانی کے گٹر اور نالیاں ابل رہی ہیں ـ جناب کو شہر کی حالت دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں ہے ـ جبکہ ان کے والد ہر دوسرے تیسر روز شہر کے بازاروں کا دورہ کرتے اور لوگوں سے حال احوال پوچھتے تھے ــ اب شہر زخموں سے چُور رات دن گندے پانی میں پڑا تڑپ رہا ہے، گلیوں میں پیدل چلنا مشکل ہوگیا ہے ــاب شہر والے جائیں تو جائیں کہاں؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ــ ؟ ہم نے یہ لکھ کر اپنی ذمیداری پوری کردی، اللہ تعالیٰ تمام اہلیانِ شہر اور ملک پر اپنا فضل فرمائے ـ آمین ــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ فون، 03153533437 ـــ تاریخ ـ 18.12.2019 ــــ

لارڈ میکالے ( جس نے مقبوضہ ہندوستان میں موجودہ غلامانہ اور ڈیوائڈ اینڈ رول والا نظامِ تعلیم ترتیب دیا ) کا برطانیہ کی پارلیامنٹ کو 2 فروری 1835ء  میں کئے گئے خطاب سے اقتباس ===  تحقیق و تحریر ــ  غلام محمد  وامِق ـ                                    ــــ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے،  مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا ـ  اس ملک میں، میں نے بہت دولت دیکھی ہے ـ  لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں،  اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اُس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اُن کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں،  جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ـاس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں  کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب تبدیل کردیں ـ  کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیرملکی شےء ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے ـ  اور حقیقتاّ ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے، جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں ـ( واضح رہے کہ اُس زمانے میں ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت میں تعلیم دی جاتی تھی ) .......اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ ــــــ چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا ـــ شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر، اسکول جا ـــ چار دن کی زندگی ہے، کوفت سے کیا فائدہ؟ ـ کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر خوشی سے پھول جا ــ   تحریر و تحقیق ـ غلام محمد وامِق ـ محراب پور سندھ،  مورخہ، 7 دسمبر، 2019 ـــ

لارڈ میکالے ( جس نے مقبوضہ ہندوستان میں موجودہ غلامانہ اور ڈیوائڈ اینڈ رول والا نظامِ تعلیم ترتیب دیا ) کا برطانیہ کی پارلیامنٹ کو 2 فروری 1835ء میں کئے گئے خطاب سے اقتباس === تحقیق و تحریر ــ غلام محمد وامِق ـ ــــ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے، مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا ـ اس ملک میں، میں نے بہت دولت دیکھی ہے ـ لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں، اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اُس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اُن کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں، جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ـاس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب تبدیل کردیں ـ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیرملکی شےء ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے ـ اور حقیقتاّ ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے، جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں ـ( واضح رہے کہ اُس زمانے میں ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت میں تعلیم دی جاتی تھی ) .......اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ ــــــ چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا ـــ شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر، اسکول جا ـــ چار دن کی زندگی ہے، کوفت سے کیا فائدہ؟ ـ کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر خوشی سے پھول جا ــ تحریر و تحقیق ـ غلام محمد وامِق ـ محراب پور سندھ، مورخہ، 7 دسمبر، 2019 ـــ

قطعہ ( رئیس امروہوی ) ـــــ         کیسے ممکن ہے کہ طوفان آئے دنیا میں کہیں ـــ    اور اس طوفان کی تہہ میں کوئی دریا نہ ہو  ـــــ        بین الاقوامی سیا ست میں ہو بحران شدید ــــ   اور اس بحران کے پردے میں  امریکہ نہ ہو  ـ                                                 شاعر ـ رئیس امروہوی،  قطعہ شایع شدہ روزنامہ          " جنگ کراچی "  ــ  ‏

قطعہ ( رئیس امروہوی ) ـــــ کیسے ممکن ہے کہ طوفان آئے دنیا میں کہیں ـــ اور اس طوفان کی تہہ میں کوئی دریا نہ ہو ـــــ بین الاقوامی سیا ست میں ہو بحران شدید ــــ اور اس بحران کے پردے میں امریکہ نہ ہو ـ شاعر ـ رئیس امروہوی، قطعہ شایع شدہ روزنامہ " جنگ کراچی " ــ ‏

★★★  قطعہ ـ رئیس امروہوی  ★★★ 

کیسے ممکن ہے کہ طوفان آئے دنیا میں کہیں ... 

اور اس طوفان کی تہہ میں کوئی دریا نہ ہو؟ ... 

بین الاقوامی سیاست میں ہو بحران شدید ... 

اور اس بحران کے پردے میں امریکہ نہ ہو؟ ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
محترم رئیس امروہوی صاحب کا یہ قطعہ روزنامہ جنگ کراچی میں شایع ہوا تھا ـ تاریخِ اشاعت یاد نہیں ـ ( غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ)

""""""" تقسیم در تقسیم عوام """"""" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ دو قومی نظریہ کے تحت ہندوستان تقسیم ہوا، اور پاکستانیوں کی طرف سے ہندو مذہب ( سناتن دھرم)  سے نفرت کا اظہار کیا گیا ـ  ہندوؤں سے جان چھڑا کر متحدہ پاکستان بنایا گیا اور بظاہر  مسلمان قوم متحد ہوکر سامنے آئی ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ صرف چوبیس 24 , سال کے قلیل عرصہ میں ہی بنگالی اور غیر  بنگالی تعصب کی بنا پر، متحدہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا، چنانچہ مشرقی پاکستان،  بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا ـاب بقایا پاکستان میں اصولی طور پر عوام میں باہم کوئی نفرت نہیں ہونی چاہئے تھی ـ لیکن پھر نجانے کیسے " شیعہ کافر " کا عجیب نعرہ سننے میں آیا،  بعدازاں شیعہ سنی کا بھرپور تصادم ہوا، عوام دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے ـ  پھر شیعوں میں بھی نظریاتی طور پر مزید گروہ بن گئے ـ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سنیوں میں بھی بیشمار فرقے ظاہر ہونا شروع ہوگئے، جس پر دوطرفہ تماشہ یہ کہ، سب گروہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگے ـ اسی تقسیم اور گروہ بندی کے دوران ہی آئینی طور پر قادیانیوں کو " غیرمسلم اقلیت " قرار دے دیا گیا ـ  بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، نجانے کیا جادو ہوا کہ یکایک زبان کی بنیاد پر نفرتیں پیدا ہونا شروع ہوگئیں،  پھر کیا تھا "قوم پرستی " کی مختلف تحریکیں زور پکڑنے لگیں ـلطف یہ ہوا کہ اب جو لوگ عقیدے کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں قومیت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کردیا گیا،  اور جو قومیت کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں عقیدے کی جنگ چھڑ گئی ــ  اور چند ایک لوگ جو ان تفرقہ بازیوں  سے اب تک دور تھے،  ان کو سیاست کا چسکہ ڈال دیا گیا، چنانچہ وہ جمہوریت، جمہوریت پکارتے ہوئے مختلف سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر، ایک دوسرے پر  ملک دشمنی کا یا غداری کا الزام لگانے لگے، اور مزید تقسیم ہوگئے،تقسیم کا عمل یہاں پر بھی ختم نہیں ہوا،  بلکہ عوام کو معاشی طور پر تنگدست بناکر خاندانوں اور گھروں میں بھی دشمنی کا بیج بودیا گیا،  چنانچہ اب صورتحال کچھ یوں نظر آرہی ہے کہ ملکی سطح پر سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی دشمن ـ  صوبائی سطح پر ہر صوبہ دوسرے صوبہ کے خلاف ـ شہری سطح پر، ہر قوم دوسری قوم کے خلاف،  ہر زبان بولنے والا اپنی زبان کو دوسروں کی زبان سے برتر تسلیم کروانے پر بضد ـ  ایک عقیدے کا حامل شخص دوسرے عقیدے والے کو کافر سمجھنے لگا،  مزید یہ کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے، اپنے اپنے خیالات اور سوچ کی بنیاد پر  ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، بھائی، بھائی کا دشمن،  بیٹا باپ اور ماں کا دشمن، ایک ہی خاندان اور برادری کے لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف سرگرم سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ تقسیم کہاں پر جاکر ختم ہوگی ـ؟ بقولِ غالب ــ یوں ہی روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں ــــــــــــــــــ  دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں ــــــــــــــــــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ ـ مورخہ ـ 3 , دسمبر،  2019 ــ

""""""" تقسیم در تقسیم عوام """"""" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ دو قومی نظریہ کے تحت ہندوستان تقسیم ہوا، اور پاکستانیوں کی طرف سے ہندو مذہب ( سناتن دھرم) سے نفرت کا اظہار کیا گیا ـ ہندوؤں سے جان چھڑا کر متحدہ پاکستان بنایا گیا اور بظاہر مسلمان قوم متحد ہوکر سامنے آئی ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ صرف چوبیس 24 , سال کے قلیل عرصہ میں ہی بنگالی اور غیر بنگالی تعصب کی بنا پر، متحدہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا، چنانچہ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا ـاب بقایا پاکستان میں اصولی طور پر عوام میں باہم کوئی نفرت نہیں ہونی چاہئے تھی ـ لیکن پھر نجانے کیسے " شیعہ کافر " کا عجیب نعرہ سننے میں آیا، بعدازاں شیعہ سنی کا بھرپور تصادم ہوا، عوام دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے ـ پھر شیعوں میں بھی نظریاتی طور پر مزید گروہ بن گئے ـ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سنیوں میں بھی بیشمار فرقے ظاہر ہونا شروع ہوگئے، جس پر دوطرفہ تماشہ یہ کہ، سب گروہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگے ـ اسی تقسیم اور گروہ بندی کے دوران ہی آئینی طور پر قادیانیوں کو " غیرمسلم اقلیت " قرار دے دیا گیا ـ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، نجانے کیا جادو ہوا کہ یکایک زبان کی بنیاد پر نفرتیں پیدا ہونا شروع ہوگئیں، پھر کیا تھا "قوم پرستی " کی مختلف تحریکیں زور پکڑنے لگیں ـلطف یہ ہوا کہ اب جو لوگ عقیدے کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں قومیت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کردیا گیا، اور جو قومیت کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں عقیدے کی جنگ چھڑ گئی ــ اور چند ایک لوگ جو ان تفرقہ بازیوں سے اب تک دور تھے، ان کو سیاست کا چسکہ ڈال دیا گیا، چنانچہ وہ جمہوریت، جمہوریت پکارتے ہوئے مختلف سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر، ایک دوسرے پر ملک دشمنی کا یا غداری کا الزام لگانے لگے، اور مزید تقسیم ہوگئے،تقسیم کا عمل یہاں پر بھی ختم نہیں ہوا، بلکہ عوام کو معاشی طور پر تنگدست بناکر خاندانوں اور گھروں میں بھی دشمنی کا بیج بودیا گیا، چنانچہ اب صورتحال کچھ یوں نظر آرہی ہے کہ ملکی سطح پر سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی دشمن ـ صوبائی سطح پر ہر صوبہ دوسرے صوبہ کے خلاف ـ شہری سطح پر، ہر قوم دوسری قوم کے خلاف، ہر زبان بولنے والا اپنی زبان کو دوسروں کی زبان سے برتر تسلیم کروانے پر بضد ـ ایک عقیدے کا حامل شخص دوسرے عقیدے والے کو کافر سمجھنے لگا، مزید یہ کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے، اپنے اپنے خیالات اور سوچ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، بھائی، بھائی کا دشمن، بیٹا باپ اور ماں کا دشمن، ایک ہی خاندان اور برادری کے لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف سرگرم سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ تقسیم کہاں پر جاکر ختم ہوگی ـ؟ بقولِ غالب ــ یوں ہی روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں ــــــــــــــــــ دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں ــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ ـ 3 , دسمبر، 2019 ــ

Powered by Blogger.