حبیب جالب کو منظوم خراجِ عقیدت  پیش کرنے کے لئے ستمبر 1996ء  میں شایع ہونے والی کتاب  " حبیب جالب فن اور شخصیت " میں میری ایک نظم اور ایک  قطعہ شایع کیا گیا تھا، پرانی یاد کے طور پر پیشِ خدمت ہے ـ ( کتاب میں کتابت کی ایک دو غلطیاں رہ گئی ہیں ) ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ===  جالب کے نام  === اِک شخص کہ تھا درویش منش، نہ جھکتا تھا نہ بِکتا تھا .. وہ ٹوٹ کے تو گِر سکتا تھا پر، ظالم سے نہ ڈرتا تھا ... کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ... ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ... محنت کش اور مزدوروں کا بوجھ اٹھایا اُس سر نے ... سردار وڈیروں کے آگے وہ سر جو کبھی نہ جھکتا تھا ... اِک پل نہ گوارا اُس نے کیا، عیاش حکومت میں رہنا ... وہ روز سسکتے لوگوں کے سنگ جیتا تھا اور مرتا تھا ... غُربا کے لئے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ـ ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ، شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا ـ وہ حق کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ... بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ... وہ جالِب تو تھا سب ہی کا، لوگوں کا مگر وہ حبیب بھی تھا ... کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ                   === جالب کی یاد میں ===  سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ... مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ... حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ... پی کر جو ہوا، امر وہ سقراط ہے جالب ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حبیب جالب کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ستمبر 1996ء میں شایع ہونے والی کتاب " حبیب جالب فن اور شخصیت " میں میری ایک نظم اور ایک قطعہ شایع کیا گیا تھا، پرانی یاد کے طور پر پیشِ خدمت ہے ـ ( کتاب میں کتابت کی ایک دو غلطیاں رہ گئی ہیں ) ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ === جالب کے نام === اِک شخص کہ تھا درویش منش، نہ جھکتا تھا نہ بِکتا تھا .. وہ ٹوٹ کے تو گِر سکتا تھا پر، ظالم سے نہ ڈرتا تھا ... کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ... ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ... محنت کش اور مزدوروں کا بوجھ اٹھایا اُس سر نے ... سردار وڈیروں کے آگے وہ سر جو کبھی نہ جھکتا تھا ... اِک پل نہ گوارا اُس نے کیا، عیاش حکومت میں رہنا ... وہ روز سسکتے لوگوں کے سنگ جیتا تھا اور مرتا تھا ... غُربا کے لئے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ـ ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ، شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا ـ وہ حق کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ... بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ... وہ جالِب تو تھا سب ہی کا، لوگوں کا مگر وہ حبیب بھی تھا ... کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ === جالب کی یاد میں === سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ... مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ... حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ... پی کر جو ہوا، امر وہ سقراط ہے جالب ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حبیب جالب کو منظوم خراجِ عقیدت  پیش کرنے کے لئے ستمبر 1996ء  میں شایع ہونے والی کتاب  " حبیب جالب فن اور شخصیت " میں میری ایک نظم اور ایک  قطعہ شایع کیا گیا تھا، پرانی یاد کے طور پر پیشِ خدمت ہے ـ 
( کتاب میں کتابت کی ایک دو غلطیاں رہ گئی ہیں ) 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

===  جالب کے نام  === 

اِک شخص کہ تھا درویش منش، نہ جھکتا تھا نہ بِکتا تھا .. 
وہ ٹوٹ کے تو گِر سکتا تھا پر، ظالم سے نہ ڈرتا تھا ... 

کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ... 
ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ... 

محنت کش اور مزدوروں کا بوجھ اٹھایا اُس سر نے ... 
سردار وڈیروں کے آگے وہ سر جو کبھی نہ جھکتا تھا ... 

اِک پل نہ گوارا اُس نے کیا، عیاش حکومت میں رہنا ... 
وہ روز سسکتے لوگوں کے سنگ جیتا تھا اور مرتا تھا ... 

غُربا کے لئے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ـ
ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ، شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا ـ

وہ حق کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ... 
بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ... 

وہ جالِب تو تھا سب ہی کا، لوگوں کا مگر وہ حبیب بھی تھا ... 
کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ   
                
=== جالب کی یاد میں ===  

سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ... 

مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ... 

حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ... 

پی کر جو ہوا، امر وہ سقراط ہے جالب ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج آف ایجوکیشن سکھر کے میگزین ( المُعلِّم)  سال 2016 - 17، میں میری یہ غزل میرے شعری مجموعے  " نقشِ وفا "  سے لے کر شایع کی گئی تھی، اور اس کی اطلاع مجھے میگزین کی اعزازی کاپی بھیج کر دی گئی تھی ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ                 غــــزل =  ایک ایک کرکے چھوڑ مجھے ہم سفر گئے ... شاید وہ راہِ شوق کی سختی سے ڈر گئے ... بکھرے تھے راہِ شوق میں کانٹے تو کیا ہوا ... ہم آبلہ پا کانٹوں پہ چل کر مگر گئے ... میں احترامِ حسن میں خاموش جو رہا ... تہمت تمام میرے ہی وہ نام دھر گئے ... رہتا ہمیشہ کون ہے،  دنیا سرائے ہے ...  کچھ لوگ باقی ہیں ابھی، کچھ اپنے گھر گئے ... پوچھے گا کون،  حاکمِ دورِ جدید  سے ؟ ... کیوں بھوک سے اِس دور میں کچھ لوگ مر گئے؟ ... وامِق، نہ پھول کھِل سکا کوئی، بقولِ میر ... " اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے " ...  عوامی شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج آف ایجوکیشن سکھر کے میگزین ( المُعلِّم) سال 2016 - 17، میں میری یہ غزل میرے شعری مجموعے " نقشِ وفا " سے لے کر شایع کی گئی تھی، اور اس کی اطلاع مجھے میگزین کی اعزازی کاپی بھیج کر دی گئی تھی ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ غــــزل = ایک ایک کرکے چھوڑ مجھے ہم سفر گئے ... شاید وہ راہِ شوق کی سختی سے ڈر گئے ... بکھرے تھے راہِ شوق میں کانٹے تو کیا ہوا ... ہم آبلہ پا کانٹوں پہ چل کر مگر گئے ... میں احترامِ حسن میں خاموش جو رہا ... تہمت تمام میرے ہی وہ نام دھر گئے ... رہتا ہمیشہ کون ہے، دنیا سرائے ہے ... کچھ لوگ باقی ہیں ابھی، کچھ اپنے گھر گئے ... پوچھے گا کون، حاکمِ دورِ جدید سے ؟ ... کیوں بھوک سے اِس دور میں کچھ لوگ مر گئے؟ ... وامِق، نہ پھول کھِل سکا کوئی، بقولِ میر ... " اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے " ... عوامی شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج آف ایجوکیشن سکھر کے میگزین ( المُعلِّم)  سال 2016 - 17، میں میری یہ غزل میرے شعری مجموعے  " نقشِ وفا "  سے لے کر شایع کی گئی تھی، اور اس کی اطلاع مجھے میگزین کی اعزازی کاپی بھیج کر دی گئی تھی ـ 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 
                   غــــزل

ایک ایک کرکے چھوڑ مجھے ہم سفر گئے ... 
شاید وہ راہِ شوق کی سختی سے ڈر گئے ... 

بکھرے تھے راہِ شوق میں کانٹے تو کیا ہوا ... 
ہم آبلہ پا کانٹوں پہ چل کر مگر گئے ... 

میں احترامِ حسن میں خاموش جو رہا ... 
تہمت تمام میرے ہی وہ نام دھر گئے ... 

رہتا ہمیشہ کون ہے،  دنیا سرائے ہے ...  
کچھ لوگ باقی ہیں ابھی، کچھ اپنے گھر گئے ... 

پوچھے گا کون،  حاکمِ دورِ جدید  سے ؟ ... 
کیوں بھوک سے اِس دور میں کچھ لوگ مر گئے؟ ... 

وامِق، نہ پھول کھِل سکا کوئی، بقولِ میر ... 
" اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے " ...  

عوامی شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
میری شاعری کی کتاب " نقشِ وفا " کا تعارف، اور اس پر تبصرہ ماہنامہ " روحانی ڈائجسٹ " کے مئی 2001ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا ـ اب یادِ ماضی کے طور پر اسے اپنی فیس بک کی نذر کر رہا ہوں ـ ملاحظہ فرمائیں ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ نقشِ وفا ـ مصنف ـ غلام محمد وامِق ـ ناشر ـ المہران بک ڈیپو، محراب پور جنکشن سندھ ـ صفحات 160قیمت 80 روپئے ــ ساغر و مینا اور بادہ و جام اردو شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن دورِ جدید میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت سی قدروں کو یکسر بدل دیا ہے وہیں شاعری پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے ـ اب نئے نئے استعارے سامنے آرہے ہیں ـ غلام محمد وامِق  کی زیرِ تبصرہ کتاب " نقشِ وفا " میں شایع کی گئی مختلف غزلوں اور نظموں میں بھی ہمیں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید طرزوں کا مشاہدہ ہوتا ہے،  یہ غلام محمد وامِق کی آگے بڑھتی ہوئی اس سوچ کا مظہر ہے جو ماضی سے رشتہ توڑے بغیر حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو دیکھتی ہے ـ وامِق نے اپنی غزلوں میں محض زلفِ درازِ یار کی مدح خوانی میں اپنی ذہنی توانائی کو خرچ نہیں کیا بلکہ معاشرے اور معاشرتی اقدار پر ایک چبھتی ہوئی نگاہ ڈالی ہے، اور اس نگاہ سے فرسودہ روایات اور منافقانہ قدروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں افرادِ معاشرہ کے شعوری ارتقاء میں حائل اہم رکاوٹ قرار دیا ہے ـ وامِق کے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجئے ـ جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو ـ جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو،  اور اوپر نیچے حدت ہو ـ جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعین مدت ہو ـ کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے؟ ـ  ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری ـ کہ اب ہے یہود و نصاریٰ سے یاری ـ یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی ـ کہ دنیا ہے کافر کی، مسجد ہماری ـ تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ـ صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ـ مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ـ ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ــ  محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ـ محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالَم ہے ـ محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ـ محبت در حقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ـ کتاب میں وامِق کی سندھی شاعری سے بھی کچھ اقتباس موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے کم وسائل میں شایع ہونے کے باوجود یہ کتاب یقیناً منفرد مقام حاصل کر لے گی کہ اس میں افکار کی آبیاری کے لئے خاصا مواد موجود ہے ـ ہم توقع کرتے ہیں کہ وامِق نے افکار کے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ  " منزل نہ کر قبول "  کے مصداق سے ہمیشہ آگے  بڑھتا رہے گا ـ( تبصرہ نگار ـ   ‏یوسفی)  ‏

میری شاعری کی کتاب " نقشِ وفا " کا تعارف، اور اس پر تبصرہ ماہنامہ " روحانی ڈائجسٹ " کے مئی 2001ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا ـ اب یادِ ماضی کے طور پر اسے اپنی فیس بک کی نذر کر رہا ہوں ـ ملاحظہ فرمائیں ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ نقشِ وفا ـ مصنف ـ غلام محمد وامِق ـ ناشر ـ المہران بک ڈیپو، محراب پور جنکشن سندھ ـ صفحات 160قیمت 80 روپئے ــ ساغر و مینا اور بادہ و جام اردو شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن دورِ جدید میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت سی قدروں کو یکسر بدل دیا ہے وہیں شاعری پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے ـ اب نئے نئے استعارے سامنے آرہے ہیں ـ غلام محمد وامِق کی زیرِ تبصرہ کتاب " نقشِ وفا " میں شایع کی گئی مختلف غزلوں اور نظموں میں بھی ہمیں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید طرزوں کا مشاہدہ ہوتا ہے، یہ غلام محمد وامِق کی آگے بڑھتی ہوئی اس سوچ کا مظہر ہے جو ماضی سے رشتہ توڑے بغیر حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو دیکھتی ہے ـ وامِق نے اپنی غزلوں میں محض زلفِ درازِ یار کی مدح خوانی میں اپنی ذہنی توانائی کو خرچ نہیں کیا بلکہ معاشرے اور معاشرتی اقدار پر ایک چبھتی ہوئی نگاہ ڈالی ہے، اور اس نگاہ سے فرسودہ روایات اور منافقانہ قدروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں افرادِ معاشرہ کے شعوری ارتقاء میں حائل اہم رکاوٹ قرار دیا ہے ـ وامِق کے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجئے ـ جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو ـ جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو، اور اوپر نیچے حدت ہو ـ جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعین مدت ہو ـ کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے؟ ـ ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری ـ کہ اب ہے یہود و نصاریٰ سے یاری ـ یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی ـ کہ دنیا ہے کافر کی، مسجد ہماری ـ تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ـ صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ـ مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ـ ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ــ محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ـ محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالَم ہے ـ محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ـ محبت در حقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ـ کتاب میں وامِق کی سندھی شاعری سے بھی کچھ اقتباس موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے کم وسائل میں شایع ہونے کے باوجود یہ کتاب یقیناً منفرد مقام حاصل کر لے گی کہ اس میں افکار کی آبیاری کے لئے خاصا مواد موجود ہے ـ ہم توقع کرتے ہیں کہ وامِق نے افکار کے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ " منزل نہ کر قبول " کے مصداق سے ہمیشہ آگے بڑھتا رہے گا ـ( تبصرہ نگار ـ ‏یوسفی) ‏

میری شاعری کی کتاب " نقشِ وفا " کا تعارف، اور اس پر تبصرہ ماہنامہ " روحانی ڈائجسٹ " کے مئی 2001ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا ـ اب یادِ ماضی کے طور پر اسے اپنی فیس بک کی نذر کر رہا ہوں ـ ملاحظہ فرمائیں ـ
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 

نقشِ وفا
مصنف ـ غلام محمد وامِق ـ 
ناشر ـ المہران بک ڈیپو، 
محراب پور جنکشن سندھ ـ 
صفحات 160
قیمت 80 روپئے ـ 

ساغر و مینا اور بادہ و جام اردو شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن دورِ جدید میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت سی قدروں کو یکسر بدل دیا ہے وہیں شاعری پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے ـ اب نئے نئے استعارے سامنے آرہے ہیں ـ غلام محمد وامِق  کی زیرِ تبصرہ کتاب " نقشِ وفا " میں شایع کی گئی مختلف غزلوں اور نظموں میں بھی ہمیں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید طرزوں کا مشاہدہ ہوتا ہے،  یہ غلام محمد وامِق کی آگے بڑھتی ہوئی اس سوچ کا مظہر ہے جو ماضی سے رشتہ توڑے بغیر حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو دیکھتی ہے ـ
وامِق نے اپنی غزلوں میں محض زلفِ درازِ یار کی مدح خوانی میں اپنی ذہنی توانائی کو خرچ نہیں کیا بلکہ معاشرے اور معاشرتی اقدار پر ایک چبھتی ہوئی نگاہ ڈالی ہے، اور اس نگاہ سے فرسودہ روایات اور منافقانہ قدروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں افرادِ معاشرہ کے شعوری ارتقاء میں حائل اہم رکاوٹ قرار دیا ہے ـ 
وامِق کے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجئے ـ 

جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو ـ 
جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو،  اور اوپر نیچے حدت ہو ـ 
جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعین مدت ہو ـ
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے؟ 

ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری ـ 
کہ اب ہے یہود و نصاریٰ سے یاری ـ 
یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی ـ 
کہ دنیا ہے کافر کی، مسجد ہماری ـ 
تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ـ
صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ـ 
مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ـ 
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ـ 

محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ـ 
محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالَم ہے ـ 
محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ـ
محبت در حقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ـ 

کتاب میں وامِق کی سندھی شاعری سے بھی کچھ اقتباس موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے کم وسائل میں شایع ہونے کے باوجود یہ کتاب یقیناً منفرد مقام حاصل کر لے گی کہ اس میں افکار کی آبیاری کے لئے خاصا مواد موجود ہے ـ 
ہم توقع کرتے ہیں کہ وامِق نے افکار کے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ  " منزل نہ کر قبول "  کے مصداق سے ہمیشہ آگے  بڑھتا رہے گا ـ 
( تبصرہ نگار ـ یوسفی ) 
پاکستان کے معروف رسالے  " روحانی ڈائجسٹ "  کے شمارے اگست 2001 ء میں، ادارے نے مجھ ناچیز پر ایک مضمون شایع کیا تھا، اس کا عکس پرانی یاد کے طور پر یہاں فیس بک پر شایع کیا جارہا ہے ـ ( ذرا سی ترمیم کے ساتھ) ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ مضمون نگار ـ احتشام الحق     ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ    روایات شکنی کی راہ کا مسافر  " غلام محمد وامِق " ان کی شاعری سے پسماندہ اور مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ... وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات  میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے،  روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـجاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـغلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی  اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـنقلی چہرے،  جھوٹے رشتے،  ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ وامِق کہتے ہیں ... میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ  کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام " بزمِ طلباء " کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ " نقشِ وفا " کے نام سے شایع ہوچکا ہے ـ وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ـ شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ آزادیء اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا  " ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات  سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے ـ وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے  " میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے ـ وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ غلام محمد وامِق کا منتخب کلام ... ـــــــــــــــــــــــــــ   ہر دوست یہاں واعظ، ہر دوست یہاں ناصح ـ کیا خوب ہے اپنوں کا،  یہ اندازِ کرم بھی ـ سجدے تو کئے وامِق، لیکن یہ کئے کس کو؟ اے دوست تیرے دل میں خدا بھی ہے صنم بھی ـ مجھ سے غمِ حیات کی نہ داستان پوچھ ـبے پردہ ہوں گے پردہ نشینوں کے نام کچھ ـ تیرا شباب دیکھ کے  پیتا شراب کون ـ؟ ٹوٹے پڑے ہیں ساقی تیرے در پہ جام کچھ ـ ایسے ہوئے ہیں بدگماں انسانیت سے لوگ ـ اب مسلکِ انسان کو وہ مانتے نہیں ـ وامِق، لہو سے ہم نے جو سینچا تھا گلستاں ـ ہم کو وہاں اب خار بھی پہچانتے نہیں ـانسان اگر چاہے تو اسے دنیا میں خدا مل جاتا ہے ـ افسوس مگر انسان یہاں انسانوں کو ٹھکراتا ہے ـ ایثار و وفا، اخلاص و حیا اور پیار جو یکجا ہوتے ہیں ـ تب عشق کی منزل کا رستہ دھندلا سا نظر میں آتا ہے ـ تو مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر ـ مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو ـ صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ـ سڄڻ مان ته توکي دعاؤن ڪريان ٿو  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

پاکستان کے معروف رسالے " روحانی ڈائجسٹ " کے شمارے اگست 2001 ء میں، ادارے نے مجھ ناچیز پر ایک مضمون شایع کیا تھا، اس کا عکس پرانی یاد کے طور پر یہاں فیس بک پر شایع کیا جارہا ہے ـ ( ذرا سی ترمیم کے ساتھ) ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ مضمون نگار ـ احتشام الحق ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ روایات شکنی کی راہ کا مسافر " غلام محمد وامِق " ان کی شاعری سے پسماندہ اور مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ... وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے، روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـجاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـغلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـنقلی چہرے، جھوٹے رشتے، ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ وامِق کہتے ہیں ... میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام " بزمِ طلباء " کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ " نقشِ وفا " کے نام سے شایع ہوچکا ہے ـ وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ـ شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ آزادیء اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا " ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے ـ وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے " میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے ـ وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ غلام محمد وامِق کا منتخب کلام ... ـــــــــــــــــــــــــــ ہر دوست یہاں واعظ، ہر دوست یہاں ناصح ـ کیا خوب ہے اپنوں کا، یہ اندازِ کرم بھی ـ سجدے تو کئے وامِق، لیکن یہ کئے کس کو؟ اے دوست تیرے دل میں خدا بھی ہے صنم بھی ـ مجھ سے غمِ حیات کی نہ داستان پوچھ ـبے پردہ ہوں گے پردہ نشینوں کے نام کچھ ـ تیرا شباب دیکھ کے پیتا شراب کون ـ؟ ٹوٹے پڑے ہیں ساقی تیرے در پہ جام کچھ ـ ایسے ہوئے ہیں بدگماں انسانیت سے لوگ ـ اب مسلکِ انسان کو وہ مانتے نہیں ـ وامِق، لہو سے ہم نے جو سینچا تھا گلستاں ـ ہم کو وہاں اب خار بھی پہچانتے نہیں ـانسان اگر چاہے تو اسے دنیا میں خدا مل جاتا ہے ـ افسوس مگر انسان یہاں انسانوں کو ٹھکراتا ہے ـ ایثار و وفا، اخلاص و حیا اور پیار جو یکجا ہوتے ہیں ـ تب عشق کی منزل کا رستہ دھندلا سا نظر میں آتا ہے ـ تو مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر ـ مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو ـ صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ـ سڄڻ مان ته توکي دعاؤن ڪريان ٿو ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

پاکستان کے معروف رسالے  " روحانی ڈائجسٹ "  کے شمارے اگست 2001 ء میں، ادارے نے مجھ ناچیز پر ایک مضمون شایع کیا تھا، اس کا عکس پرانی یاد کے طور پر یہاں فیس بک پر شایع کیا جارہا ہے ـ ( ذرا سی ترمیم کے ساتھ) 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ  مضمون نگار ـ احتشام الحق ـ 

روایات شکنی کی راہ کا مسافر  " غلام محمد وامِق " 
ان کی شاعری سے پسماندہ اور مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ... 

وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات  میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے،  روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـ
جاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـ
غلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی  اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ 
میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ 
غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... 
اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـ
نقلی چہرے،  جھوٹے رشتے،  ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ 

غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ 
وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ 
وامِق کہتے ہیں ... 
میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ  کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ 
کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام " بزمِ طلباء " کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ 
وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ " نقشِ وفا " کے نام سے شایع ہوچکا ہے ـ 
وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ـ 
شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ
اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ 
آزادیء اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا  " ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات  سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے ـ 
وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ 
شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے  " میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے ـ 
وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ـ 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 
غلام محمد وامِق کا منتخب کلام ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہر دوست یہاں واعظ، ہر دوست یہاں ناصح ـ
کیا خوب ہے اپنوں کا،  یہ اندازِ کرم بھی ـ 
سجدے تو کئے وامِق، لیکن یہ کئے کس کو؟
اے دوست تیرے دل میں خدا بھی ہے صنم بھی ـ

مجھ سے غمِ حیات کی نہ داستان پوچھ ـ
بے پردہ ہوں گے پردہ نشینوں کے نام کچھ ـ
تیرا شباب دیکھ کے  پیتا شراب کون ـ؟ 
ٹوٹے پڑے ہیں ساقی تیرے در پہ جام کچھ ـ 

ایسے ہوئے ہیں بدگماں انسانیت سے لوگ ـ 
اب مسلکِ انسان کو وہ مانتے نہیں ـ
وامِق، لہو سے ہم نے جو سینچا تھا گلستاں ـ
ہم کو وہاں اب خار بھی پہچانتے نہیں ـ

انسان اگر چاہے تو اسے دنیا میں خدا مل جاتا ہے ـ
افسوس مگر انسان یہاں انسانوں کو ٹھکراتا ہے ـ
ایثار و وفا، اخلاص و حیا اور پیار جو یکجا ہوتے ہیں ـ
تب عشق کی منزل کا رستہ دھندلا سا نظر میں آتا ہے ـ 

تو مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر ـ
مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو ـ
صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ـ
سڄڻ مان ته توکي دعاؤن ڪريان ٿو ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
غم تو یہ ہے کہ وہ عہدِ وفا ٹوٹ گیا ... بے وفا تم نہ سہی، بے وفا ہم ہی سہی ... شاعر ـ نامعلوم ــ ( کمپوزنگ ـ غلام محمد وامِق )

غم تو یہ ہے کہ وہ عہدِ وفا ٹوٹ گیا ... بے وفا تم نہ سہی، بے وفا ہم ہی سہی ... شاعر ـ نامعلوم ــ ( کمپوزنگ ـ غلام محمد وامِق )

غم تو یہ ہے کہ وہ عہدِ وفا ٹوٹ گیا ... 
بے وفا تم نہ سہی، بے وفا ہم ہی سہی ... 

شاعر ـ نامعلوم 

( کمپوزنگ ـ غلام محمد وامِق ) ...

ممکن ہے ایسا وقت ہو ترتیبِ وقت میں ـ دستک کو تیرا ہاتھ بڑھے، میرا در نہ ہو ــ  شاعر ـ نامعلوم ـ  ( کمپوزنگ غلام محمد وامِق)

ممکن ہے ایسا وقت ہو ترتیبِ وقت میں ـ دستک کو تیرا ہاتھ بڑھے، میرا در نہ ہو ــ شاعر ـ نامعلوم ـ ( کمپوزنگ غلام محمد وامِق)

ممکن ہے ایسا وقت ہو ترتیبِ وقت میں ـ
دستک کو تیرا ہاتھ بڑھے، میرا در نہ ہو ـ

شاعر ـ نامعلوم ـ
( کمپوزنگ غلام محمد وامِق) 
بارہ ( ۱۲ ) ربیع الاوّل ....؟؟؟  ہمیں اچھی طرح یاد ہے، تقریباً پچاس سال قبل ہمارے لڑکپن میں، اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ سے، بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کہا جاتا تھا، اور ماہِ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا مہینہ بولتے تھے ـ یعنی وہ مہینہ جس میں رسول اکرمﷺ نے وفات پائی ـنہ کوئی جلوس نکلتا تھا اور نہ کوئی نعرے بازی ہوتی تھی، اور نہ ہی کوئی عاشقِ رسولﷺ یا عاشقِ مصطفٰے ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، بس خود کو مسلمان کہلوانا ہی باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا، بس اور کچھ نہیں ـ آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ  غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 09 اکتوبر 2022ء ـ مطابق 12 ربیع الاوّل، سال 1444ہجری ـ بروز اتوار ـ

بارہ ( ۱۲ ) ربیع الاوّل ....؟؟؟ ہمیں اچھی طرح یاد ہے، تقریباً پچاس سال قبل ہمارے لڑکپن میں، اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ سے، بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کہا جاتا تھا، اور ماہِ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا مہینہ بولتے تھے ـ یعنی وہ مہینہ جس میں رسول اکرمﷺ نے وفات پائی ـنہ کوئی جلوس نکلتا تھا اور نہ کوئی نعرے بازی ہوتی تھی، اور نہ ہی کوئی عاشقِ رسولﷺ یا عاشقِ مصطفٰے ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، بس خود کو مسلمان کہلوانا ہی باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا، بس اور کچھ نہیں ـ آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 09 اکتوبر 2022ء ـ مطابق 12 ربیع الاوّل، سال 1444ہجری ـ بروز اتوار ـ

بارہ ( ۱۲ ) ربیع الاوّل ....؟؟؟  

ہمیں اچھی طرح یاد ہے، تقریباً پچاس سال قبل ہمارے لڑکپن میں، اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ سے، بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کہا جاتا تھا، اور ماہِ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا مہینہ بولتے تھے ـ یعنی وہ مہینہ جس میں رسول اکرمﷺ نے وفات پائی ـ

نہ کوئی جلوس نکلتا تھا اور نہ کوئی نعرے بازی ہوتی تھی، اور نہ ہی کوئی عاشقِ رسولﷺ یا عاشقِ مصطفٰے ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، بس خود کو مسلمان کہلوانا ہی باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا، بس اور کچھ نہیں ـ 

آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 09 اکتوبر 2022ء ـ مطابق 12 ربیع الاوّل، سال 1444ہجری ـ بروز اتوار ـ 
اگر ‏تم ‏عورتوں ‏کو ‏طلاق (یہاں ‏پر پہلی دوسری یا تیسری طلاق نہیں کہا گیا)  دو ‏تو ‏انہیں ‏ان ‏کی ‏عدت ‏ختم ‏ہونے ‏سے ‏قبل، اگر ‏تم ‏چاہو ‏تو انہیں ‏واپس ‏رکھ ‏سکتے ‏ہو ‏ـ سورۃ ‏البقرۃ ‏، ‏آیت ‏نمبر ‏ـ ‏231 ‏... ‏

اگر ‏تم ‏عورتوں ‏کو ‏طلاق (یہاں ‏پر پہلی دوسری یا تیسری طلاق نہیں کہا گیا) دو ‏تو ‏انہیں ‏ان ‏کی ‏عدت ‏ختم ‏ہونے ‏سے ‏قبل، اگر ‏تم ‏چاہو ‏تو انہیں ‏واپس ‏رکھ ‏سکتے ‏ہو ‏ـ سورۃ ‏البقرۃ ‏، ‏آیت ‏نمبر ‏ـ ‏231 ‏... ‏

ایسی ‏حدیث ‏جس ‏میں ‏پردہ ‏والیوں ‏اور ‏بغیر ‏پردہ ‏دوشیزاؤں ‏کا ‏الگ ‏سے ‏بیان ‏کیا ‏گیا ‏ہے ‏، ‏یعنی ‏پردہ ‏اہم ‏نہیں ‏تھا ‏ـ حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏981 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

ایسی ‏حدیث ‏جس ‏میں ‏پردہ ‏والیوں ‏اور ‏بغیر ‏پردہ ‏دوشیزاؤں ‏کا ‏الگ ‏سے ‏بیان ‏کیا ‏گیا ‏ہے ‏، ‏یعنی ‏پردہ ‏اہم ‏نہیں ‏تھا ‏ـ حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏981 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

اور لوگوں کی بہ نسبت میں عیسٰی بن مریم سے زیادہ قریب ‏ہوں ‏،( ‏یعنی ‏ان ‏کے ‏حالات زندگی اور میرے حالات ملتے جُلتے ہیں)  ‏ـ ‏دنیا ‏کی ‏زندگی ‏میں ‏بھی ‏اور ‏آخرت ‏میں ‏بھی ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 3443 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

اور لوگوں کی بہ نسبت میں عیسٰی بن مریم سے زیادہ قریب ‏ہوں ‏،( ‏یعنی ‏ان ‏کے ‏حالات زندگی اور میرے حالات ملتے جُلتے ہیں) ‏ـ ‏دنیا ‏کی ‏زندگی ‏میں ‏بھی ‏اور ‏آخرت ‏میں ‏بھی ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 3443 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

آپﷺ ‏کو ‏کسی ‏مجلس ‏میں ‏ایک ‏پیالہ ‏مشروب ‏پینے ‏کو ‏دیا ‏گیا ‏، ‏آپﷺ ‏نے ‏خود ‏پیا ‏پھر ‏اپنے ‏داہنے ‏بیٹھے ‏لڑکے ‏سے ‏پوچھا ‏کہ ‏اگر ‏تم ‏اجازت ‏دو ‏تو ‏بائیں ‏طرف ‏بیٹھے ‏بوڑھوں ‏کو ‏دے ‏دوں ‏،لیکن ‏لڑکے ‏نے ‏انکار ‏کردیا ‏اور ‏رسول ‏اکرمﷺ ‏کا ‏جھوٹا ‏خود ‏پی ‏لیا ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 2366 ‏،  ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

آپﷺ ‏کو ‏کسی ‏مجلس ‏میں ‏ایک ‏پیالہ ‏مشروب ‏پینے ‏کو ‏دیا ‏گیا ‏، ‏آپﷺ ‏نے ‏خود ‏پیا ‏پھر ‏اپنے ‏داہنے ‏بیٹھے ‏لڑکے ‏سے ‏پوچھا ‏کہ ‏اگر ‏تم ‏اجازت ‏دو ‏تو ‏بائیں ‏طرف ‏بیٹھے ‏بوڑھوں ‏کو ‏دے ‏دوں ‏،لیکن ‏لڑکے ‏نے ‏انکار ‏کردیا ‏اور ‏رسول ‏اکرمﷺ ‏کا ‏جھوٹا ‏خود ‏پی ‏لیا ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 2366 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

قیامت ‏کی ‏آمد ‏کے ‏متعلق ‏ایک ‏عجیب ‏حدیث ‏، ‏کہ ‏یہ ‏لڑکا ‏جب ‏بوڑھا ‏ہوگا ‏تو ‏اس ‏سے ‏پہلے ‏ہی ‏قیامت ‏آجائے ‏گی ‏ـ  ‏حدیث ‏نمبر ‏7409 ‏، ‏صحیح ‏مسلم ‏ـ ‏

قیامت ‏کی ‏آمد ‏کے ‏متعلق ‏ایک ‏عجیب ‏حدیث ‏، ‏کہ ‏یہ ‏لڑکا ‏جب ‏بوڑھا ‏ہوگا ‏تو ‏اس ‏سے ‏پہلے ‏ہی ‏قیامت ‏آجائے ‏گی ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏7409 ‏، ‏صحیح ‏مسلم ‏ـ ‏

کسی ‏سفر ‏کے ‏دوران ‏ام ‏المؤمنین ‏حضرت ‏صفیہ ‏رضیہ ‏کا ‏اونٹ ‏بیمار ‏ہوگیا ‏، ‏تو ‏رسول ‏اللہﷺ ‏کے ‏کہنے ‏کے ‏باوجود ‏ام ‏المؤمنین ‏حضرت ‏زینب ‏رضیہ ‏نے ‏اپنا ‏اونٹ اپنی سوتن بی ‏بی ‏صفیہ ‏کو ‏دینے ‏سے ‏انکار ‏کردیا ‏کہ ‏" ‏اس ‏یہودن ‏کو ‏اپنا ‏اونٹ ‏کیوں ‏دوں ‏؟ـ ‏جس ‏پر ‏آپﷺ ‏زینب ‏سے ‏تقریباﹰ تین ماہ ‏تک ‏ناراض ‏رہے ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 5049 ‏ ‏، ‏مشکوٰۃ ‏المصابیح ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ  ‏4602 ‏ ‏، ‏سُنن ‏ابو ‏داؤد ‏ـ

کسی ‏سفر ‏کے ‏دوران ‏ام ‏المؤمنین ‏حضرت ‏صفیہ ‏رضیہ ‏کا ‏اونٹ ‏بیمار ‏ہوگیا ‏، ‏تو ‏رسول ‏اللہﷺ ‏کے ‏کہنے ‏کے ‏باوجود ‏ام ‏المؤمنین ‏حضرت ‏زینب ‏رضیہ ‏نے ‏اپنا ‏اونٹ اپنی سوتن بی ‏بی ‏صفیہ ‏کو ‏دینے ‏سے ‏انکار ‏کردیا ‏کہ ‏" ‏اس ‏یہودن ‏کو ‏اپنا ‏اونٹ ‏کیوں ‏دوں ‏؟ـ ‏جس ‏پر ‏آپﷺ ‏زینب ‏سے ‏تقریباﹰ تین ماہ ‏تک ‏ناراض ‏رہے ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 5049 ‏ ‏، ‏مشکوٰۃ ‏المصابیح ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏4602 ‏ ‏، ‏سُنن ‏ابو ‏داؤد ‏ـ

Powered by Blogger.