۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔۔۔۔۔۔ نظم ۔
غلام محمد وامق
کہیں ایسا نہ ہو ہمدم کہ دیکھو اب بچھڑ کے ہم ۔
رہیں تیری محبت کا لئے دل میں ہمیشہ غم ۔
کہیں دنیا میں کھو جائیں یوں ہی بے نام ہو جائیں ۔
کہ ہم جاں سے گزر جائیں، کہیں گمنام ہو جائیں ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
ابھی تو نوجوانی کا ، مہکتا گلستاں ہو تم ۔
ابھی تو چاندنی راتوں میں جیسے کہکشاں ہو تم ۔
کہ جب یہ پھول گلشن کے تیرے کمہلا چکے ہوں گے ۔
تمہارے چاہنے والے تمہیں ٹھکرا چکے ہوں گے ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
ابھی جو تیری زلفوں کی سیاہی پھیل جاتی ہے ۔
گھٹائیں جھومتی ہیں اور ہوا بھی گیت گاتی ہے ۔
کبھی اے جانِ من ایسا زمانہ بھی تو آئے گا ۔
گھٹائیں پھٹ پڑیں گی اور سورج جگمگائے گا ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے
یہ تیری خوبرو آنکھیں ابھی مخمور رہتی ہیں ۔
کہ اپنے چاہنے والوں پہ یہ مغرور رہتی ہیں ۔
کسی دن تیری یہ آنکھیں اگر بے نور ہو جائیں ۔
کسی کو دیکھنا چاہیں مگر مجبور ہو جائیں ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
تمہارے اِن لبوں کی نازکی کلیوں کو شرمائے ۔
انہیں بھونرا، سمجھ کے پھول اب ہر ایک منڈلائے
خدا نہ خواستہ تیرا چمن پُر خار ہو جائے ۔
تیرا دنیا میں جب جینا بڑا دشوار ہو جائے ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
یہ تیرا جسم تیرا حسن ، یہ رنگین پیراہن ۔
مہکتا ہو نسیمِ صبح سے جیسے کوئی گلشن ۔
ہمیشہ پھول کوئی بھی بہاروں میں نہیں رہتا ۔
کوئی کتنا ہی پیارا ہو ، پیاروں میں نہیں رہتا ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
ابھی بھی وقت ہے جاناں کہ تم پھر لوٹ کر آؤ ۔
بہت تڑپا ہوں تیرے واسطے بس اب نہ تڑپاؤ ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر ہماری یاد آجائے
کہیں لب پر تمہارے بھی کبھی فریاد آجائے ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
پھرو گے ڈھونڈتے وامِق کو تم دشت و بیاباں میں ۔
کبھی غیروں کی چوکھٹ پر کبھی اپنے گریباں میں ۔
کبھی آواز دو گے اور کبھی آنسو بہاؤ گے ۔
تڑپتے یوں ہی دنیا سے کبھی تو تم بھی جاؤ گے ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔
بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔
جون سال 1984ء میں کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔