نظم  موسم بہار  = غلام محمد وامق = دیکھو تو کتنا پیارا موسم بہار آیا ۔  پھول و شجر پہ دیکھو کیسا نکھار چھایا ۔   کتنے سہانے ہوگئے، اپنے یہ روز اور شب ...  خوشبو میں جیسے کھوگئے اپنے یہ روز اور شب ...   چڑیوں کی چُو چُو کہیں، کوئل کی کُوکُو کہیں ... بولے  پپیہا  پی پی ،  گلشن  اداس  نہیں ...    موسم نے پہنے گہنے،  نئے نئے رنگ آئے ...  پنچھی بھی اپنے اپنے ساجن کے سنگ آئے ...   خوشبو فضاؤں میں ہے، ہر دل میں آرزو ہے ...  اپنے مطلوب کی تو، سب کو ہی جستجو ہے ...  پھولوں کے گِرد دیکھو بھؤنرا منڈلائے کیسے ...  من کی جو آرزو ہے،  وہ لب پہ  لائے  کیسے؟  ...   شاخوں پہ بُور آیا،  آنکھوں میں نُور آیا ...  نینوں سے نین ملے،  دل میں  سرور آیا ...   رنگوں میں ڈوبا ہوا ہر گُل مستی میں ڈولے ...  مست ہوائیں آئیں،  بلبل  پھولوں  پہ بولے ...   گُلشن سرسبز  دیکھو،  رنگیں ہر پیرہن ہے ...  موروں کے ناچ میں بھی کیسا مستانہ پن ہے ...   خوش ہے ہر ایک ذی روح، انساں مسرور سارے ...  وامِق !  خدا کا عطیہ،  موسم بہار  پیارے ...  دیکھو تو کتنا پیارا موسم بہار آیا ۔  پھول و شجر پہ دیکھو موسم بہار چھایا ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ مورخہ 15 ـ مارچ، 2004 ء کو کہی گئی ـ  بحر ۔ مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن رمل مثمن مشکول مسکّن

نظم موسم بہار = غلام محمد وامق = دیکھو تو کتنا پیارا موسم بہار آیا ۔ پھول و شجر پہ دیکھو کیسا نکھار چھایا ۔ کتنے سہانے ہوگئے، اپنے یہ روز اور شب ... خوشبو میں جیسے کھوگئے اپنے یہ روز اور شب ... چڑیوں کی چُو چُو کہیں، کوئل کی کُوکُو کہیں ... بولے پپیہا پی پی ، گلشن اداس نہیں ... موسم نے پہنے گہنے، نئے نئے رنگ آئے ... پنچھی بھی اپنے اپنے ساجن کے سنگ آئے ... خوشبو فضاؤں میں ہے، ہر دل میں آرزو ہے ... اپنے مطلوب کی تو، سب کو ہی جستجو ہے ... پھولوں کے گِرد دیکھو بھؤنرا منڈلائے کیسے ... من کی جو آرزو ہے، وہ لب پہ لائے کیسے؟ ... شاخوں پہ بُور آیا، آنکھوں میں نُور آیا ... نینوں سے نین ملے، دل میں سرور آیا ... رنگوں میں ڈوبا ہوا ہر گُل مستی میں ڈولے ... مست ہوائیں آئیں، بلبل پھولوں پہ بولے ... گُلشن سرسبز دیکھو، رنگیں ہر پیرہن ہے ... موروں کے ناچ میں بھی کیسا مستانہ پن ہے ... خوش ہے ہر ایک ذی روح، انساں مسرور سارے ... وامِق ! خدا کا عطیہ، موسم بہار پیارے ... دیکھو تو کتنا پیارا موسم بہار آیا ۔ پھول و شجر پہ دیکھو موسم بہار چھایا ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ مورخہ 15 ـ مارچ، 2004 ء کو کہی گئی ـ بحر ۔ مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن رمل مثمن مشکول مسکّن


      ★★★ نظم ـ موسم بہار ★★★
               غلام محمد وامق 

دیکھو تو کتنا پیارا موسم بہار آیا ۔ 
پھول و شجر پہ دیکھو کیسا نکھار چھایا ۔ 

کتنے سہانے ہوگئے، اپنے یہ روز اور شب ... 
خوشبو میں جیسے کھوگئے اپنے یہ روز اور شب ... 

چڑیوں کی چُو چُو کہیں، کوئل کی کُوکُو کہیں ...
بولے  پپیہا  پی پی ،  گلشن  اداس  نہیں ...  

موسم نے پہنے گہنے،  نئے نئے رنگ آئے ... 
پنچھی بھی اپنے اپنے ساجن کے سنگ آئے ... 

خوشبو فضاؤں میں ہے، ہر دل میں آرزو ہے ... 
اپنے مطلوب کی تو، سب کو ہی جستجو ہے ...

پھولوں کے گِرد دیکھو بھؤنرا منڈلائے کیسے ... 
من کی جو آرزو ہے،  وہ لب پہ  لائے  کیسے؟  ... 

شاخوں پہ بُور آیا،  آنکھوں میں نُور آیا ... 
نینوں سے نین ملے،  دل میں  سرور آیا ... 

رنگوں میں ڈوبا ہوا ہر گُل مستی میں ڈولے ... 
مست ہوائیں آئیں،  بلبل  پھولوں  پہ بولے ... 

گُلشن سرسبز  دیکھو،  رنگیں ہر پیرہن ہے ... 
موروں کے ناچ میں بھی کیسا مستانہ پن ہے ... 

خوش ہے ہر ایک ذی روح، انساں مسرور سارے ... 
وامِق !  خدا کا عطیہ،  موسم بہار  پیارے ...

دیکھو تو کتنا پیارا موسم بہار آیا ۔ 
پھول و شجر پہ دیکھو موسم بہار چھایا ۔ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
مورخہ 15 ـ مارچ، 2004 ء کو کہی گئی ـ 
بحر ۔ مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
رمل مثمن مشکول مسکّن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان دے کر بھی تیرے وحشی کو شکوہ نہ ہوا ـ لاکھوں بسمل تھے مگر کوئی بھی ہم سا نہ ہوا ـ    بعد مرنے کے تو سب کو ہی بھلا کہتے ہیں ـ زندگی بھر تو یہاں کوئی بھی اپنا نہ ہوا ـ   سربلندی ہے درِ یار پہ رسوائی بھی ۔  بدنصیبی ہے ترے در پہ جو رسوا نہ ہوا ۔   آسماں رونے لگا میری تباہی پہ مگر ۔  اُن کی آنکھوں سے عیاں ایک بھی قطرہ نہ ہوا ۔   میری ہر سمت رہا تیرے خیالوں کا ہجوم ـ میں تو ویرانوں میں رہ کر بھی اکیلا نہ ہوا ـ  لوگ شہروں میں بھی رہتے ہوئے ڈر جاتے ہیں ـ تیرے مجنوں کو تو صحرا میں بھی خطرہ نہ ہوا ـ   عید ہے دید ، اگر دید نہیں ...... عید نہیں ـ  میری کیا عید؟ .....  اگر تیرا نظارہ نہ ہوا ـ   پھول چوما تھا کبھی ، اُس کو دکھا کر ہم نے ۔  ہائے ! اُس شوخ کا غصہ ہے کہ ٹھنڈا نہ ہوا ـ  یوں تو مجنوں، کبھی فرہاد بھی گزرا وامِق ـ اِن میں دیوانہ مگر کوئی بھی ہم سا نہ ہوا ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فِعلن ۔  فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فَعِلن ۔  بحر ۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف  شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ نومبر، 1982ء میں کہی گئی غزل .

جان دے کر بھی تیرے وحشی کو شکوہ نہ ہوا ـ لاکھوں بسمل تھے مگر کوئی بھی ہم سا نہ ہوا ـ بعد مرنے کے تو سب کو ہی بھلا کہتے ہیں ـ زندگی بھر تو یہاں کوئی بھی اپنا نہ ہوا ـ سربلندی ہے درِ یار پہ رسوائی بھی ۔ بدنصیبی ہے ترے در پہ جو رسوا نہ ہوا ۔ آسماں رونے لگا میری تباہی پہ مگر ۔ اُن کی آنکھوں سے عیاں ایک بھی قطرہ نہ ہوا ۔ میری ہر سمت رہا تیرے خیالوں کا ہجوم ـ میں تو ویرانوں میں رہ کر بھی اکیلا نہ ہوا ـ لوگ شہروں میں بھی رہتے ہوئے ڈر جاتے ہیں ـ تیرے مجنوں کو تو صحرا میں بھی خطرہ نہ ہوا ـ عید ہے دید ، اگر دید نہیں ...... عید نہیں ـ میری کیا عید؟ ..... اگر تیرا نظارہ نہ ہوا ـ پھول چوما تھا کبھی ، اُس کو دکھا کر ہم نے ۔ ہائے ! اُس شوخ کا غصہ ہے کہ ٹھنڈا نہ ہوا ـ یوں تو مجنوں، کبھی فرہاد بھی گزرا وامِق ـ اِن میں دیوانہ مگر کوئی بھی ہم سا نہ ہوا ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فِعلن ۔ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فَعِلن ۔ بحر ۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ نومبر، 1982ء میں کہی گئی غزل .

=====      غــــــزل     ===== 
              غلام محمد وامِق     

جان دے کر بھی تیرے وحشی کو شکوہ نہ ہوا ـ
لاکھوں بسمل تھے مگر کوئی بھی ہم سا نہ ہوا ـ  

بعد مرنے کے تو سب کو ہی بھلا کہتے ہیں ـ
زندگی بھر تو یہاں کوئی بھی اپنا نہ ہوا ـ 

سربلندی ہے درِ یار پہ رسوائی بھی ۔ 
بدنصیبی ہے ترے در پہ جو رسوا نہ ہوا ۔ 

آسماں رونے لگا میری تباہی پہ مگر ۔ 
اُن کی آنکھوں سے عیاں ایک بھی قطرہ نہ ہوا ۔ 

میری ہر سمت رہا تیرے خیالوں کا ہجوم ـ
میں تو ویرانوں میں رہ کر بھی اکیلا نہ ہوا ـ

لوگ شہروں میں بھی رہتے ہوئے ڈر جاتے ہیں ـ
تیرے مجنوں کو تو صحرا میں بھی خطرہ نہ ہوا ـ 

عید ہے دید ، اگر دید نہیں ...... عید نہیں ـ 
میری کیا عید؟ .....  اگر تیرا نظارہ نہ ہوا ـ 

پھول چوما تھا کبھی ، اُس کو دکھا کر ہم نے ۔ 
ہائے ! اُس شوخ کا غصہ ہے کہ ٹھنڈا نہ ہوا ـ

یوں تو مجنوں، کبھی فرہاد بھی گزرا وامِق ـ
اِن میں دیوانہ مگر کوئی بھی ہم سا نہ ہوا ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فِعلن ۔ 
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فَعِلن ۔ 
بحر ۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
نومبر، 1982ء میں کہی گئی غزل ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 کچھ لوگوں کی نظر میں ہے بدنام شاعری ۔  جیسے گناہ کا ہے کوئی کام  شاعری ...        اپنے لئے تو ہے یہ ہی بس اہتمامِ شوق ...  شعر و سخن شراب ہے، تو جام شاعری ...  بے چینیء فراق سے جب دِل ہو مضمحل ...  دیتی ہے کِس قدر ہمیں آرام شاعری ...   ممکن نہیں ہے جو کسی تلوار و تیغ سے ...  کرتی ہے کس صفائی سے وہ کام شاعری ...   حق بات کہہ رہے ہیں، کہیں گے ہزار بار ...  چاہے زمانہ اس کو دے اب نام شاعری ...   عالَم نہ پوچھ کیسے کہ اُس پردہ دار کو ...  لائی ہے کھینچ کر جو  لبِ بام شاعری ...  شعر و ادب ہے درد کے ماروں کا مشغلہ ...  سمجھیں گے کیسے، پتھّر و اصنام شاعری ...   کچھ کر رہے ہیں شاعری میں نام اور کچھ ...  اپنی طرح سے کرتے ہیں گمنام شاعری ...   لکھا ہے ہم نے درد کو اتنا کہ دیکھئے ۔۔۔   آخر ہوا ہے، اپنا بھی انجام شاعری ...  وامِق، یوں شاعری میں کھُلے رازہائے دل ...  گویا کہ ہم پہ ہوتی ہے، الہام شاعری ...  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔  مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات ۔  بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔  شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ دسمبر 1983ء میں کہی گئی غزل ـ

کچھ لوگوں کی نظر میں ہے بدنام شاعری ۔ جیسے گناہ کا ہے کوئی کام شاعری ... اپنے لئے تو ہے یہ ہی بس اہتمامِ شوق ... شعر و سخن شراب ہے، تو جام شاعری ... بے چینیء فراق سے جب دِل ہو مضمحل ... دیتی ہے کِس قدر ہمیں آرام شاعری ... ممکن نہیں ہے جو کسی تلوار و تیغ سے ... کرتی ہے کس صفائی سے وہ کام شاعری ... حق بات کہہ رہے ہیں، کہیں گے ہزار بار ... چاہے زمانہ اس کو دے اب نام شاعری ... عالَم نہ پوچھ کیسے کہ اُس پردہ دار کو ... لائی ہے کھینچ کر جو لبِ بام شاعری ... شعر و ادب ہے درد کے ماروں کا مشغلہ ... سمجھیں گے کیسے، پتھّر و اصنام شاعری ... کچھ کر رہے ہیں شاعری میں نام اور کچھ ... اپنی طرح سے کرتے ہیں گمنام شاعری ... لکھا ہے ہم نے درد کو اتنا کہ دیکھئے ۔۔۔ آخر ہوا ہے، اپنا بھی انجام شاعری ... وامِق، یوں شاعری میں کھُلے رازہائے دل ... گویا کہ ہم پہ ہوتی ہے، الہام شاعری ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات ۔ بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ دسمبر 1983ء میں کہی گئی غزل ـ

 ===== غـــــزل ===== 
       غلام محمد وامِق 

کچھ لوگوں کی نظر میں ہے بدنام شاعری ۔ 
جیسے گناہ کا ہے کوئی کام  شاعری ...      

اپنے لئے تو ہے یہ ہی بس اہتمامِ شوق ... 
شعر و سخن شراب ہے، تو جام شاعری ...

بے چینیء فراق سے جب دِل ہو مضمحل ... 
دیتی ہے کِس قدر ہمیں آرام شاعری ... 

ممکن نہیں ہے جو کسی تلوار و تیغ سے ... 
کرتی ہے کس صفائی سے وہ کام شاعری ... 

حق بات کہہ رہے ہیں، کہیں گے ہزار بار ... 
چاہے زمانہ اس کو دے اب نام شاعری ... 

عالَم نہ پوچھ کیسے کہ اُس پردہ دار کو ... 
لائی ہے کھینچ کر جو  لبِ بام شاعری ...

شعر و ادب ہے درد کے ماروں کا مشغلہ ... 
سمجھیں گے کیسے، پتھّر و اصنام شاعری ... 

کچھ کر رہے ہیں شاعری میں نام اور کچھ ... 
اپنی طرح سے کرتے ہیں گمنام شاعری ... 

لکھا ہے ہم نے درد کو اتنا کہ دیکھئے ۔۔۔  
آخر ہوا ہے، اپنا بھی انجام شاعری ...

وامِق، یوں شاعری میں کھُلے رازہائے دل ... 
گویا کہ ہم پہ ہوتی ہے، الہام شاعری ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات ۔ 
بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
دسمبر 1983ء میں کہی گئی غزل ـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

  بے مروت ہے، زندگی کیسی ـ  پھر بھی اس سے یہ دوستی کیسی ...   آج محفل میں ہو گیا  تنہا   ... سچ کی عادت یہ پڑ گئی کیسی؟  دن نکلتا ہے،  رات ہوتی ہے ...  اور ہوتی ہے، زندگی کیسی ...؟  اگلے دَم کا پتا نہیں،  لیکن ...  بات کرتا ہے آدمی کیسی ...  جِس کی آنکھوں میں کچھ شناس نہ ہوـ ایسے بندے سے،  دوستی کیسی؟  ...   اِک ذرا سے مفاد کی خاطِر ...  دُم ہِلاتا ہے،  آدمی کیسی  ! ...   زخم کھائے تو یہ سمجھ آیا ...  دنیا ہوتی ہے،  مطلبی کیسی  ...   میرے لُٹنے کی داستاں سن کر ـ تیرے لہجے میں بے رخی کیسی ...   ایسے مکّار دور میں وامِق  ! ...  تیرے چہرے پہ سادگی کیسی؟ ...  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع  شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ تاریخ ـ  15.10.2019 کو کہی گئی ...

بے مروت ہے، زندگی کیسی ـ پھر بھی اس سے یہ دوستی کیسی ... آج محفل میں ہو گیا تنہا ... سچ کی عادت یہ پڑ گئی کیسی؟ دن نکلتا ہے، رات ہوتی ہے ... اور ہوتی ہے، زندگی کیسی ...؟ اگلے دَم کا پتا نہیں، لیکن ... بات کرتا ہے آدمی کیسی ... جِس کی آنکھوں میں کچھ شناس نہ ہوـ ایسے بندے سے، دوستی کیسی؟ ... اِک ذرا سے مفاد کی خاطِر ... دُم ہِلاتا ہے، آدمی کیسی ! ... زخم کھائے تو یہ سمجھ آیا ... دنیا ہوتی ہے، مطلبی کیسی ... میرے لُٹنے کی داستاں سن کر ـ تیرے لہجے میں بے رخی کیسی ... ایسے مکّار دور میں وامِق ! ... تیرے چہرے پہ سادگی کیسی؟ ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ تاریخ ـ 15.10.2019 کو کہی گئی ...

★★★    غزل  ★★★
           غلام محمد وامِق 

بے مروت ہے،     زندگی کیسی ـ 
پھر بھی اس سے یہ دوستی کیسی ... 

آج محفل میں ہو گیا  تنہا   ...
سچ کی عادت یہ پڑ گئی کیسی؟

دن نکلتا ہے،  رات ہوتی ہے ... 
اور ہوتی ہے، زندگی کیسی ...؟

اگلے دَم کا پتا نہیں،  لیکن ... 
بات کرتا ہے آدمی کیسی ...

جِس کی آنکھوں میں کچھ شناس نہ ہوـ
ایسے بندے سے،  دوستی کیسی؟  ... 

اِک ذرا سے مفاد کی خاطِر ... 
دُم ہِلاتا ہے،  آدمی کیسی  ! ... 

زخم کھائے تو یہ سمجھ آیا ... 
دنیا ہوتی ہے،  مطلبی کیسی  ... 

میرے لُٹنے کی داستاں سن کر ـ
تیرے لہجے میں بے رخی کیسی ... 

ایسے مکّار دور میں وامِق  ! ... 
تیرے چہرے پہ سادگی کیسی؟ ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن
بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ
تاریخ ـ  15.10.2019 کو کہی گئی ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
Powered by Blogger.