اوہام پرستی یا جہالت  ===  یہ غالباً 1978، کی بات ہے۔ کراچی لانڈھی سے صدر ملازمت کے سلسلے ميں روزانہ میرا آنا جانا رہتا تھا۔ صدر کی طرف آتے ہوئے کالے پل سے جونہی بس جناح ہسپتال کی طرف مڑتی تھی تو ریلوے ٹریک کی طرف ہم دیکھتے تھے کہ ایک کیکر کے درخت کے سائے میں ایک بوڑھا فقیر بیٹھا ہوتا تھا۔ اس کے سامنے سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے اور ٹوٹے سے برتن میں پانی وغیرہ پڑا رہتا تھا۔ ہم بس میں سے اسے روزانہ دیکھتے اور اس کی حالت زار پر افسوس کرتے, کچھ دن کے بعد ہم اسے وہیں پر پڑا ہوا یا لیٹا ہوا دیکھتے تھے۔ اس پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوتی تھیں. ایک روز ہم نے دیکھا کہ وہ مرا پڑا ہے اور لوگ اس کے گرد جمع ہیں۔ دوسرے روز ہم نے دیکھا کہ وہیں پر اس کی قبر بنادی گئی ہے۔ دو تین روز کے بعد دیکھا کہ قبر پر مٹی کا چراغ رکھ دیا گیا ہے۔ اور کیکر کے درخت پر نیلے پیلے کپڑوں کی جھنڈیاں لگادی گئی ہیں۔ اور ایک شخص وہاں پر صفائی وغیرہ کرکے مجاور بن کر بیٹھ گیا ہے۔ پھر کچھ دن کے بعد دیکھا کہ اس قبر پر ایک تختی لگا دی گئی ہے۔ اور اس پر باقاعدہ ایک پیر کا نام مع سید اور شاہ صاحب وغیرہ کر کے لکھ دیا گیا ہے۔ میرا کام وہاں سے ختم ہوا پھر کئی سالوں کے بعد اس طرف جانا ہوا تو یہ جان کر میں حیران رہ گیا کہ اب وہاں پر باقاعدہ ایک پیر صاحب کا مزار بنا ہوا ہے۔ اب آپ وہاں پر جاکر دیکھیں, یا ریل سے کینٹ اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے کالا پل کراس کر کے دائیں طرف دیکھیں تو آپ کو ایک بڑا مزار نظر آئے گا,  جس کے بارے میں اب لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پر سالانہ عرس مبارک بھی ہوتا ہے۔ اور دور دور سے لوگ وہاں پر اپنی منتیں مانگنے اور نذر و نیاز چڑھانے آتے ہیں۔ ان حالات میں میری اس بات پر کون یقین کرے گا۔ ؟؟. بعض لوگ درست کہتے ہیں کہ شاید ہم ہیں ہی مردہ پرست لوگ.  (تحریر ــ  غلام محمد وامق، محراب پور سندھ )  ‏

اوہام پرستی یا جہالت === یہ غالباً 1978، کی بات ہے۔ کراچی لانڈھی سے صدر ملازمت کے سلسلے ميں روزانہ میرا آنا جانا رہتا تھا۔ صدر کی طرف آتے ہوئے کالے پل سے جونہی بس جناح ہسپتال کی طرف مڑتی تھی تو ریلوے ٹریک کی طرف ہم دیکھتے تھے کہ ایک کیکر کے درخت کے سائے میں ایک بوڑھا فقیر بیٹھا ہوتا تھا۔ اس کے سامنے سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے اور ٹوٹے سے برتن میں پانی وغیرہ پڑا رہتا تھا۔ ہم بس میں سے اسے روزانہ دیکھتے اور اس کی حالت زار پر افسوس کرتے, کچھ دن کے بعد ہم اسے وہیں پر پڑا ہوا یا لیٹا ہوا دیکھتے تھے۔ اس پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوتی تھیں. ایک روز ہم نے دیکھا کہ وہ مرا پڑا ہے اور لوگ اس کے گرد جمع ہیں۔ دوسرے روز ہم نے دیکھا کہ وہیں پر اس کی قبر بنادی گئی ہے۔ دو تین روز کے بعد دیکھا کہ قبر پر مٹی کا چراغ رکھ دیا گیا ہے۔ اور کیکر کے درخت پر نیلے پیلے کپڑوں کی جھنڈیاں لگادی گئی ہیں۔ اور ایک شخص وہاں پر صفائی وغیرہ کرکے مجاور بن کر بیٹھ گیا ہے۔ پھر کچھ دن کے بعد دیکھا کہ اس قبر پر ایک تختی لگا دی گئی ہے۔ اور اس پر باقاعدہ ایک پیر کا نام مع سید اور شاہ صاحب وغیرہ کر کے لکھ دیا گیا ہے۔ میرا کام وہاں سے ختم ہوا پھر کئی سالوں کے بعد اس طرف جانا ہوا تو یہ جان کر میں حیران رہ گیا کہ اب وہاں پر باقاعدہ ایک پیر صاحب کا مزار بنا ہوا ہے۔ اب آپ وہاں پر جاکر دیکھیں, یا ریل سے کینٹ اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے کالا پل کراس کر کے دائیں طرف دیکھیں تو آپ کو ایک بڑا مزار نظر آئے گا, جس کے بارے میں اب لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پر سالانہ عرس مبارک بھی ہوتا ہے۔ اور دور دور سے لوگ وہاں پر اپنی منتیں مانگنے اور نذر و نیاز چڑھانے آتے ہیں۔ ان حالات میں میری اس بات پر کون یقین کرے گا۔ ؟؟. بعض لوگ درست کہتے ہیں کہ شاید ہم ہیں ہی مردہ پرست لوگ. (تحریر ــ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ) ‏

سال 1982ء میں لکھی گئی  میری ایک تحریر,جسے ریڑیو پاکستان کراچی  کے ایک پروگرام " بزمِ طلباء "  کے تحریری مقابلے میں اول انعام حاصل ہوا۔ـــ ازــ غلام محمد وامِق  ===   زندگی... آج اور صرف آج  ===   زندگی ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر لمحہ غیر محسوس ہے۔ ہمیں احساس نہیں کہ زندگی برف کی مانند پگھل رہی ہے۔... چونکتے اس وقت ہیں جب آئینہ ہمیں چہرے پر پڑی ہوئی سلوٹیں دکھاتا ہے, کل کے لئے آج قربان کر دیتے ہیں۔ مگر کل کہاں... ؟   کسی نے کبھی کل نہیں دیکھا, سب کچھ آج ہے اور کچھ نہیں,...  ہم آج ہی پیدا ہوئے اور آج ہی مرجائیں گے, میں آج چھوٹا سا ایک بچہ ہوں, کل بڑا ہونے کی خواہش میں آج فضول گزار دیتا ہوں, مگر کل نہیں ملتا,... میں آج بچہ ہوں, مجھے کھلونے چاہئے, میں بچہ ہوں مجھے ٹافیاں چاہئے۔...... میں آج ایک لڑکا ہوں, مجھے پیسے چاہئے, فلم دیکھنے کے لئے, دوستوں میں خرچ کرنے کے لئے, مگر پیسے نہیں ملتے,... مجھے کل کا انتظار ہے  جب میں جوان ہوجاؤں گا۔ میرے پاس بھی پیسے ہوں گے۔ میں خود مختار ہوں گا, فلمیں دیکھوں گا۔ ڈرامے دیکھوں گا, دوستوں کے ساتھ محفلیں جماؤں گا, پیسہ دل کھول کر خرچ کروں گا۔....  میں آج ایک ذمیدار نوجوان ہوں مگر کل نہیں آیا... آج کا دن مجھ پر بہت گراں ہے۔ پیسوں کی ضرورت ہے, ایک ایک پیسہ دیکھ بھال کر خرچ کرتا ہوں, مجھے کل کا انتظار ہے۔ کل یکم کو تنخواہ ملے گی۔ آج کا دن گزرتا ہی نہیں کہ کل پیسے آئیں اور اپنے بچوں کے چہروں پر مسرت کی ایک چھوٹی سی لہر دیکھ سکوں, کل نہیں آیا, مگر آج ہی یکم تاریخ ہے۔ تنخواہ بھی ملی ہے۔... مگر یہ چھوٹی سی رقم کس طرح خرچ کروں، کہ مہینہ پورا ہو.. ؟  مجھے بہت فکر ہے۔ آخر یہ مہینہ اتنا طویل کیوں ہے۔ ؟ وقت کیوں نہیں گزرتا کہ کل سکون مل سکے,...  مگر کل کہاں... ؟  اوہ...  یہ کیا ؟ ... آج ہی آج میں میرے چہرے پر جھریوں کا جال بنتا جا رہا ہے،  میں کیا کروں۔  ؟ .... ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏محراب ‏پور ‏سندھ ‏ــ ‏سال ‏1982ء ‏ــ ‏

سال 1982ء میں لکھی گئی میری ایک تحریر,جسے ریڑیو پاکستان کراچی کے ایک پروگرام " بزمِ طلباء " کے تحریری مقابلے میں اول انعام حاصل ہوا۔ـــ ازــ غلام محمد وامِق === زندگی... آج اور صرف آج === زندگی ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر لمحہ غیر محسوس ہے۔ ہمیں احساس نہیں کہ زندگی برف کی مانند پگھل رہی ہے۔... چونکتے اس وقت ہیں جب آئینہ ہمیں چہرے پر پڑی ہوئی سلوٹیں دکھاتا ہے, کل کے لئے آج قربان کر دیتے ہیں۔ مگر کل کہاں... ؟ کسی نے کبھی کل نہیں دیکھا, سب کچھ آج ہے اور کچھ نہیں,... ہم آج ہی پیدا ہوئے اور آج ہی مرجائیں گے, میں آج چھوٹا سا ایک بچہ ہوں, کل بڑا ہونے کی خواہش میں آج فضول گزار دیتا ہوں, مگر کل نہیں ملتا,... میں آج بچہ ہوں, مجھے کھلونے چاہئے, میں بچہ ہوں مجھے ٹافیاں چاہئے۔...... میں آج ایک لڑکا ہوں, مجھے پیسے چاہئے, فلم دیکھنے کے لئے, دوستوں میں خرچ کرنے کے لئے, مگر پیسے نہیں ملتے,... مجھے کل کا انتظار ہے جب میں جوان ہوجاؤں گا۔ میرے پاس بھی پیسے ہوں گے۔ میں خود مختار ہوں گا, فلمیں دیکھوں گا۔ ڈرامے دیکھوں گا, دوستوں کے ساتھ محفلیں جماؤں گا, پیسہ دل کھول کر خرچ کروں گا۔.... میں آج ایک ذمیدار نوجوان ہوں مگر کل نہیں آیا... آج کا دن مجھ پر بہت گراں ہے۔ پیسوں کی ضرورت ہے, ایک ایک پیسہ دیکھ بھال کر خرچ کرتا ہوں, مجھے کل کا انتظار ہے۔ کل یکم کو تنخواہ ملے گی۔ آج کا دن گزرتا ہی نہیں کہ کل پیسے آئیں اور اپنے بچوں کے چہروں پر مسرت کی ایک چھوٹی سی لہر دیکھ سکوں, کل نہیں آیا, مگر آج ہی یکم تاریخ ہے۔ تنخواہ بھی ملی ہے۔... مگر یہ چھوٹی سی رقم کس طرح خرچ کروں، کہ مہینہ پورا ہو.. ؟ مجھے بہت فکر ہے۔ آخر یہ مہینہ اتنا طویل کیوں ہے۔ ؟ وقت کیوں نہیں گزرتا کہ کل سکون مل سکے,... مگر کل کہاں... ؟ اوہ... یہ کیا ؟ ... آج ہی آج میں میرے چہرے پر جھریوں کا جال بنتا جا رہا ہے، میں کیا کروں۔ ؟ .... ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏محراب ‏پور ‏سندھ ‏ــ ‏سال ‏1982ء ‏ــ ‏

میری نظروں کی پاکیزگی پر اگر ، کوئی تہمت لگائے تو  میں  کیا کروں؟ ــ  شاعر ـ   غلام محمد وامِق ـ                           ‏

میری نظروں کی پاکیزگی پر اگر ، کوئی تہمت لگائے تو میں کیا کروں؟ ــ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏

       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
     غلام محمد وامق

میری نظروں کی پاکیزگی پر اگر کوئی تہمت لگائے تو میں کیا کروں ؟ 
جب دعا مانگوں تو لب پہ بے ساختہ بس ترا نام آئے تو میں کیا کروں ؟ 

مجھ کو شوقِ نظارہ زیادہ نہ تھا اور محبت کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔۔۔ 
میں تو نظریں بچا کر گزرتا مگر کوئی پردہ اٹھائے تو میں کیا کروں ؟ 

میرے لفظوں پہ کوئی توجہ نہ دو میرے چہرے کو تم غور سے دیکھ لو ۔۔۔ 
تم سے اظہارِ الفت کے الفاظ گر یہ زباں کہہ نہ پائے تو میں کیا کروں ؟ 

میں نے گلشن میں خاروں سے کی دوستی میری خواہش مگر یہ کبھی بھی نہ تھی ۔۔۔ 
پھول تو پھول ہے، اس کی خوشبو بھی گر مجھ سے دامن بچائے تو میں کیا کروں ؟ 

آ زَمایا بہت میں نے یاروں کو بھی غم گساروں کو بھی اپنے پیاروں کو بھی ۔۔۔ 
جب مصیبت پڑے تو کوئی شخص بھی پاس میرے نہ آئے تو میں کیا کروں ؟ 

اُس کے آنے کے لاکھوں وسیلے کئے میں نے دن رات کتنے ہی حیلے کئے ۔۔۔ 
محفلیں اس کی خاطر سجائیں بہت اب وہ خود ہی نہ آئے تو میں کیا کروں ؟ 

کر کے سجدے خدا کو منا ہی لیا اپنی عقبیٰ کو آخر بنا ہی لیا ۔۔۔  
یار کو دل نے لاکھوں ہی سجدے کئے وہ ستم پھر بھی ڈھائے تو میں کیا کروں ؟ 

میں ترے ناز و نخرے اٹھاتا رہا تیری ہر بات پر سر جھکاتا رہا ۔۔۔ 
پھر بھی تُو مجھ سے اے سنگدل سوچ تو بے وجہ روٹھ جائے تو میں کیا کروں ؟ 

میں نے چاہا تھا کشتی سلامت رہے ہر مسافر کے دل میں محبت رہے ۔۔۔ 
میں نے اپنی سی کوشش تو کی تھی مگر ناخدا ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں ؟ 

تم نہ قسمیں اٹھاؤ مجھے ہے یقیں، اِس مکاں میں ازل سے ہے انساں مکیں ۔۔۔ 
پھر بھی انساں کی دنیا میں انسانیت گر مجھے مل نہ پائے تو میں کیا کروں ؟ 

لوگ قصّے وفا کے سناتے رہے،  نام وامِق کا بھی لب پہ لاتے رہے ۔۔۔ 
اور جفاؤں کے قصوں میں اے بے وفا گر ترا نام آئے تو میں کیا کروں ؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔ 
بحر۔ متدارک مثمن سالم مضاعف 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔۔۔ 
اگست سال 1987ء میں لکھی گئی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Powered by Blogger.