درج ذیل حدیث سے تین اہم باتیں ظاہر ہوتی ہیں، اول تو یہ کہ کوئی شخص مسجد میں بھی اپنا اونٹ ( سواری کا جانور ) باندھ سکتا ہے ـ اور دوئم کسی بھی معزز شخص کو اس کے دادے کی نسبت سے بھی پکارا جاسکتا ہے ـ اور سوئم دینی باتیں رسول اللہﷺ سے سختی سے پوچھی گئیں لیکن آپﷺ نے برا نہیں منایا ــ صحیح بخاری ، حدیث نمبر ـ 63 ـ
استغفرالله ـ رسول اکرمﷺ کو بھی تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ ، اے نبی اللہ سے ڈرتے رہنا، تم کافروں اور منافقوں کی باتوں میں مت آجانا ـ سورۃ الاحزاب ـ آیت نمبر ـ 1 ـ
لے پالک ( گود لئے گئے ) بچوں کو ان کے اصل باپوں کے نام کی نسبت کرکے بلاؤ ـ آیت نمبر ـ 5 ، سورۃ الاحزاب ـ
استغفرالله ـ نبیﷺ کی بیویوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر تم کھلی بےحیائی کروگی تو تم کو دوہرا عذاب دیا جائے گا ـ ( کیا ازواجِ مطہرات سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے ؟) ـ اور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری کرے گی تو اسے اجر بھی دوہرا دیا جائے گا ـ سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ـ 30 - 31 ـــ
پردے کی حقیقت اس آیت میں بیان کی گئی ہے ، رسول اللہﷺ کی بیویوں سے کہا جارہا ہے کہ غیروں کے سامنے اپنے بناؤ ( سنگھار ) کو ظاہر مت کیا کرو، کیوں کہ یہ زمانہء جاہلیت کی رسم ہوتی تھی ـ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ـ 33 ( آج ہم دوبارہ سے زمانۂ جاہلیت کی رسم اپنے اوپر رائج کر رہے ہیں ،افسوس ) ـ
پردے کے معاملے میں جن لوگوں سے استثنا دیا گیا ہے ان میں اپنے ہاتھ کے مال یعنی لونڈیاں اور غلام بھی شامل ہیں ، ( آج کے زمانے میں غلام نہیں ہوتے ملازم یا نوکر ہوتے ہیں ) ـ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتی رہو ـ سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ـ 55 ـ
پردے کے حکم کی یہ بہت اہم آیت ہے ، لیکن اس میں بھی اپنے اوپر ( سر پر یا سینے پر ) اپنی چادریں لٹکانے کا حکم دیا گیا ہے ، چہرہ چھپانے کا نہیں ـ اور چادر لٹکانے کی وجہ بھی بتادی گئی کہ لوگ انہیں عزت دار سمجھیں اور انہیں ستائیں نہ یعنی تنگ نہ کریں ـــ اہم بات :-- یہ موجودہ دور کا ٹوپی والا برقعہ تو اُس زمانے میں تھا نہیں ،تو پھر چہرے پر کپڑا ڈال کر خواتین گھر سے باہر نکل کر آسانی کے ساتھ راستہ وغیرہ کیسے دیکھ سکتی ہیں ؟ آیت نمبر ـ 59 ـ سورۃ الاحزاب ـ
اللہ کا ذکر ( یاد) اپنے دل میں کیا کرو ، عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ ـ اور زور کی آواز کی بجائے کم آواز کے ساتھ ، صبح اور شام ـ سورۃ الاعراف ، آیت نمبر ـ 205 ـ
حضرت ابراہیم نے بڑھاپے میں بھی جب ان کو بی بی سارہ سے حضرت اسحاق بھی پیدا ہوچکا تھا ، تب بھی اپنی ماں اور باپ کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ـ سورۃ ابراہیم ، آیت نمبر ـ 39 - 40 - 41 ـ
Gm Wamiq Toor
1:40 AM
0 Comment
حضرت ابراہیم نے اپنے بڑھاپے میں بھی اپنے والد کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ــ
حضرت ابراہیم کو جب اس کے والد نے خود سے الگ کردیا ،اور اسے پتھروں سے مارنے کی دھمکی دی ، تب بھی حضرت ابراہیم نے اپنے والد کے لئے مغفرت کی دعا کی ـ سورۃ مریم ، آیت نمبر ـ 46 - 47 ـ
حضرت ابراہیم کا اپنے والد کے لئے دعائے مغفرت کرنا ، اس لئے تھا کہ اس نے وعدہ کرلیا تھا ، جب ابراہیم پر یہ ظاہر ہوگیا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے تو پھر اس سے بے تعلق ہوگئے ـ آیت نمبر ـ 114 ، سورۃ التوبہ ـ
زمین اور آسمان پہلے آپس میں ملے ہوئے تھے ، جنہیں بعد میں ایک دوسرے سے جدا کیا گیا ـ سائنسدانوں نے یہ حقیقت موجودہ زمانے میں دریافت کی ہے جوکہ قرآن کریم تقریباﹰ ساڑھے چودہ سو سال قبل بیان کردی تھی ـ سبحان اللہ ـ سورۃ الانبیاء ، آیت نمبر ـ 30
آؤ پھر چاکِ گریباں کا تماشا دیکھیں ـ پھر وہی دشتِ جنوں، درد کا صحرا دیکھیں ـ آؤ دیکھیں کہ چمن میں ہیں نئے پھول کھلے ـ اور ٹوٹے ہوئے پھولوں کا سسکنا دیکھیں ۔۔۔ بڑھتے کیوں رہتے ہیں طوفانِ بلاخیز یہاں؟ ـ بحرِ ظلمات کا ہم چیر کے سینہ دیکھیں ـ۔۔ کاش آئے مرے بچپن کا زمانہ پھر سے ۔۔۔ پھر وہی ہاتھ میں تختی، وہی بستہ دیکھیں ـ یہ عجب شوقِ ملاقات کا عالَم ہے کہ ہم ـ جس قدر تم سے ملیں، شوق کو بڑھتا دیکھیں ـ ایک ہی شکل بسی ہے یوں دل و جان میں اب ـ تم نہیں ہو تو کوئی دوسرا تم سا دیکھیں ـ تجھ سے مِل کر یہ ہی الجھن رہی اکثر ہم کو ـ گفتگو تجھ سے کریں، یا تیرا چہرہ دیکھیں ـ کوئی وامِق کا نہیں، دوست یہاں پر شاید ـ جب بھی دیکھیں تو اسے شہر میں تنہا دیکھیں ـ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن ۔ بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع === ۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ مارچ 1985ء، میں کہی گئی غزل ... شاعر ۔ غلام محمد وامق محراب پور سندھ ۔
Gm Wamiq Toor
1:27 AM
0 Comment
آؤ پھر چاکِ گریباں کا تماشا دیکھیں ـ غزل ـ غلام محمد وامِق ـ
===== غــــزل =====
غلام محمد وام
آؤ پھر چاکِ گریباں کا تماشا دیکھیں ـ
پھر وہی دشتِ جنوں، درد کا صحرا دیکھیں ـ
آؤ دیکھیں کہ چمن میں ہیں نئے پھول کھلے ـ
اور ٹوٹے ہوئے پھولوں کا سسکنا دیکھیں ۔۔۔
بڑھتے کیوں رہتے ہیں طوفانِ بلاخیز یہاں؟ ـ
بحرِ ظلمات کا ہم چیر کے سینہ دیکھیں ـ۔۔
کاش آئے مرے بچپن کا زمانہ پھر سے ۔۔۔
پھر وہی ہاتھ میں تختی، وہی بستہ دیکھیں ـ
یہ عجب شوقِ ملاقات کا عالَم ہے کہ ہم ـ
جس قدر تم سے ملیں، شوق کو بڑھتا دیکھیں ـ
ایک ہی شکل بسی ہے یوں دل و جان میں اب ـ
تم نہیں ہو تو کوئی دوسرا تم سا دیکھیں ـ
تجھ سے مِل کر یہ ہی الجھن رہی اکثر ہم کو ـ
گفتگو تجھ سے کریں، یا تیرا چہرہ دیکھیں ـ
کوئی وامِق کا نہیں، دوست یہاں پر شاید ـ
جب بھی دیکھیں تو اسے شہر میں تنہا دیکھیں ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن ۔
بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
=== ۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔
مارچ 1985ء، میں کہی گئی غزل ...
شاعر ۔ غلام محمد وامق محراب پور سندھ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں بچ جانے والے لوگوں کی اولاد میں یہ انبیاء تھے اور ححضرت ادریس آدم کے بعد دوسرے پیغمبر نہیں تھے ـ جب کہ کئی روایات میں بتایا جاتا ہے کہ حضرت ادریس حضرت نوح سے پہلے مبعوث کئے گئے تھے ، اور حضرت آدم کے بعد پہلے رسول یا نبی تھے ، لیکن قرآن کریم کی مسلسل آیات میں واضح طور پر نام لے کر بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ ، حضرت اسماعیل، حضرت ادریس ، اسحٰق ، اور یعقوب ، حضرت نوح کی کشتی میں بیٹھ کر طوفان سے بچنے والے لوگوں کی اولاد میں سے ہیں ـ سورۃ مریم ، آیت نمبر ـ 51- 52- 53- 54 - 55 - 56 - 57 - 58 - ملاحظہ فرمائیں ـ
حضرت ادریس کے ذکر میں فرمایا گیا ہے کہ " ورفعنٰہُ " اور مسلمانوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ اسے اونچا درجہ عطا کیا گیا ، حالاں کہ اسی لفظ کا حضرت عیسیٰ کے ضمن میں ترجمہ کیا گیا ہے کہ " اسے آسمانوں پر اٹھالیا گیا " ... سورۃ مریم آیت نمبر ـ 56 ـ 57 ...جبکہ اسرائیلیات میں بھی حضرت ادریس کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا ہے کہ انہیں بھی حضرت عیسٰی کی طرح آسمانوں پر اٹھالیا گیا تھا ـ
بکثرت استعمال ہونے والا ایک غلط العام لفظ " مشکور " ــــــــــــــــــــــــــــــ میں آپ کا بے حد مشکور ہوں، یا ہم آپ کے بہت زیادہ مشکور ہیں ـ یہ اور اس قبیل کے بیشمار جملے ہم اکثر سنتے رہتے ہیں ، افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ جملے ایک عام مزدور اور ان پڑھ شخص سمیت اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات ، اعلیٰ حکام، اور رابطے کے تمام ذرائع یعنی ٹیلیویژن، اخبار، صحافی، اینکر پرسن، سربراہانِ مملکت، بہت سے ادیب اور شعراء بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں ـ لفظ مشکور عربی زبان سے لیا گیا ہے، اور لفظ " مشکور " کے لغوی معنی شکرگزار، شاکر، قدردان، ممنون، یا احسان مند، ہرگز ہرگز نہیں ہے ـ بلکہ ان کے الٹ اور متضاد ہے ـ لغوی طور پر مشکور کا مطلب ہوتا ہے، جس کا شکر ادا کیا جائے یا جس کی قدر کی جائے، یعنی قابلِ قدر شخص ـ اہلِ علم یہ لفظ ممنون اور شکرگزار کے معنی میں استعمال نہیں کرتے ـ ممنون اور مشکور ہم معنی نہیں ہیں بلکہ متضاد الفاظ ہیں ـ مثال کے طور پر لفظ " سجدہ " ایک فعل ہے، اور سجدہ کرنے والے کو " ساجد " کہا جاتا ہے، اور جس کو سجدہ کیا جائے اسے " مسجود " کہا جاتا ہے ـ اسی طرح لفظ " شُکر " ہے، اور شکر کرنے والے کو شاکر یا شکرگزار کہا جاتا ہے، اور جس کا شکر ادا کیا جائے اسے " مشکور " کہا جاتاہے ـ جب کہ آج کل اس لفظ کو مکمل طور الٹ معنی میں استعمال کیا جارہا ہے، ـ اگر ہم کسی غلطی کو درست نہیں کرسکتے تو کم از کم ہمیں اس غلطی کا علم تو ہونا چاہئے ـ اور میری اس تحریر کا یہ ہی مقصد ہے ـ جیو مگر جان کر جیو ـ ( ازقلم غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ)مورخہ ۱۵، اپریل ۲۰۲۲ ء ـ
بکثرت استعمال ہونے والا ایک غلط العام لفظ " مشکور " ...
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میں آپ کا بے حد مشکور ہوں، یا ہم آپ کے بہت زیادہ مشکور ہیں ـ
یہ اور اس قبیل کے بیشمار جملے ہم اکثر سنتے رہتے ہیں،
افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ جملے ایک عام مزدور اور ان پڑھ شخص سمیت اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات ، اعلیٰ حکام، اور رابطے کے تمام ذرائع یعنی ٹیلیویژن، اخبار، صحافی، اینکر پرسن، سربراہانِ مملکت، بہت سے ادیب اور شعراء بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں ـ لفظ مشکور عربی زبان سے لیا گیا ہے، اور لفظ " مشکور " کے لغوی معنی شکرگزار، شاکر، قدردان، ممنون، یا احسان مند، ہرگز ہرگز نہیں ہے ـ بلکہ ان کے الٹ اور متضاد ہے ـ
لغوی طور پر مشکور کا مطلب ہوتا ہے، جس کا شکر ادا کیا جائے یا جس کی قدر کی جائے، یعنی قابلِ قدر شخص ـ
اہلِ علم یہ لفظ ممنون اور شکرگزار کے معنی میں استعمال نہیں کرتے ـ ممنون اور مشکور ہم معنی نہیں ہیں بلکہ متضاد الفاظ ہیں ـ
مثال کے طور پر لفظ " سجدہ " ایک فعل ہے، اور سجدہ کرنے والے کو " ساجد " کہا جاتا ہے، اور جس کو سجدہ کیا جائے اسے " مسجود " کہا جاتا ہے ـ اسی طرح لفظ " شُکر " ہے، اور شکر کرنے والے کو شاکر یا شکرگزار کہا جاتا ہے، اور جس کا شکر ادا کیا جائے اسے " مشکور " کہا جاتا ہے ـ جب کہ آج کل اس لفظ کو مکمل طور الٹ معنی میں استعمال کیا جارہا ہے، ـ اگر ہم کسی غلطی کو درست نہیں کرسکتے تو کم از کم ہمیں اس غلطی کا علم تو ہونا چاہئے ـ اور میری اس تحریر کا یہ ہی مقصد ہے ـ جیو مگر جان کر جیو ـ
( ازقلم غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ)
مورخہ ۱۵، اپریل ۲۰۲۲ ء ـ
علم دنیا سے اس طرح نہیں اٹھایا جائے گا کہ اسے چھین لیا جائے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا سے اصل علماء کو اٹھالے گا تو علم خود بخود دنیا سے ختم ہوجائے گا ،اور لوگ جعلی علماء کے پیچھے لگ جائیں گے ، جوکہ غلط فتوے دے کر لوگوں کو گمراہ کریں گے ـ صحیح بخاری حدیث نمبر ـ 100 , اور ابومسلم حدیث نمبر ـ 6796 ...
Gm Wamiq Toor
9:20 AM
0 Comment
دنیا سے اصل علماء چلے جائیں گے تو ان کی جگہ جعلی علماء آجائیں گے ـ
خفا تجھ سے ہونا بھی چاہوں تو کیسے؟ خود اپنے سے ہی میں جو روٹھوں تو کیسے؟ نہیں مجھ کو فرصت تجھے دیکھنے سے ـ کسی اور جانب جو دیکھوں تو کیسے؟ مجھے تو فقط خواب میں ہی سکوں ہے ـ میں خوابوں کی دنیا سے جاگوں تو کیسے؟ ہے دریا میں برپا یہ طوفاں بلا کا ۔۔۔ میں کچے گھڑے پر جو آؤں تو کیسے؟ مجھے ہے خبر، موت برحق ہے لیکن ! میں قاتل کو خود ہی بلاؤں تو کیسے؟ یہ حیلے بہانے، نہیں جانتا میں ـ کسی کو اگر آزماؤں، تو کیسے؟ اجل آگئی، شام سے پہلے پہلے ـ تھا ملنے کا وعدہ، نبھاؤں تو کیسے؟ رُخِ یار کو، دیکھتی ہے یہ اکثر ـ میں اپنی نظر کو، جو چوموں تو کیسے؟ سرِ بزم اس نے، مجھے جب پکارا ـ میں لوگوں سے خود کو چھپاؤں تو کیسے؟ مجھے ربِِّ عالَم پہ کامل یقیں ہے ـ کسی سے اگر کچھ میں چاہوں تو کیسے؟ غزل تو یہ وامِق، مکمل ہے لیکن ـ یہ جانِ غزل کو، سناؤں تو کیسے؟ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فعولن فعولن فعولن فعولن ۔ بحر ۔ متقارب مثمن سالم ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ جون 1985ء میں کہی گئی غزل ...
Gm Wamiq Toor
4:01 AM
0 Comment
خفا تجھ سے ہونا بھی چاہوں تو کیسے ؟ ـ غزل ـ غلام محمد وامِق ...
***** غــــزل ****
غلام محمد وامِق
خفا تجھ سے ہونا بھی چاہوں تو کیسے؟
خود اپنے سے ہی میں جو روٹھوں تو کیسے؟
نہیں مجھ کو فرصت تجھے دیکھنے سے ـ
کسی اور جانب جو دیکھوں تو کیسے؟
مجھے تو فقط خواب میں ہی سکوں ہے ـ
میں خوابوں کی دنیا سے جاگوں تو کیسے؟
ہے دریا میں برپا یہ طوفاں بلا کا ۔۔۔
میں کچے گھڑے پر جو آؤں تو کیسے؟
مجھے ہے خبر، موت برحق ہے لیکن !
میں قاتل کو خود ہی بلاؤں تو کیسے؟
یہ حیلے بہانے، نہیں جانتا میں ـ
کسی کو اگر آزماؤں، تو کیسے؟
اجل آگئی، شام سے پہلے پہلے ـ
تھا ملنے کا وعدہ، نبھاؤں تو کیسے؟
رُخِ یار کو، دیکھتی ہے یہ اکثر ـ
میں اپنی نظر کو، جو چوموں تو کیسے؟
سرِ بزم اس نے، مجھے جب پکارا ـ
میں لوگوں سے خود کو چھپاؤں تو کیسے؟
مجھے ربِِّ عالَم پہ کامل یقیں ہے ـ
کسی سے اگر کچھ میں چاہوں تو کیسے؟
غزل تو یہ وامِق، مکمل ہے لیکن ـ
یہ جانِ غزل کو، سناؤں تو کیسے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فعولن فعولن فعولن فعولن ۔
بحر ۔ متقارب مثمن سالم ۔
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
جون 1985ء میں کہی گئی غزل ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمن سے اہلِ جنوں ہوکے سوگوار چلے ـ قرار ڈھونڈنے آئے تھے، بیقرار چلے ـ چلے گو جائیں گے سب ہی، مگر جہاں سے ہم ـ تمہارے وعدے کا، دِل میں لئے غُبار چلے ـ خدا کرے کہ یہ دنیا تمہاری شاد رہے ـ گزر سکی یہاں جیسی بھی ہم گزار چلے ـ نہیں ہے غم ہمیں کوئی اگر جو جاں سے گئے ـ کہ اہلِ حق تو ہمیشہ ہی سُوئے دار چلے ـ سجا تو لیجئے مقتل کہ اپنے خون سے بھی ۔ رواج قتلِ محبت ہی شاندار چلے ـ سنا تھا بزم میں تیری قرار ملتا ہے ـ مگر یہاں سے بھی اکثر ہی بیقرار چلے ـ ہزار دعوے ہیں الفت کے بزمِ جاناں میں ـ مزا تو تب ہے کہ مقتل میں ذکرِ یار چلے ـ کسی نے کچھ نہ کہا پھر بھی جانے کیوں وامِق ـ تمہاری بزم سے ہم ہوکے اشکبار چلے ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔ بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ اگست 1986ء، میں کہی گئی غزل ـ
Gm Wamiq Toor
7:46 AM
0 Comment
چمن سے اہلِ جنوں ہوکے سوگوار چلے ـ غزل ـ غلام محمد وامِق ـ
ـ=== غــــزل ===
غلام محمد وامِق
چمن سے اہلِ جنوں ہوکے سوگوار چلے ـ
قرار ڈھونڈنے آئے تھے، بیقرار چلے ـ
چلے گو جائیں گے سب ہی، مگر جہاں سے ہم ـ
تمہارے وعدے کا، دِل میں لئے غُبار چلے ـ
خدا کرے کہ یہ دنیا تمہاری شاد رہے ـ
گزر سکی یہاں جیسی بھی ہم گزار چلے ـ
نہیں ہے غم ہمیں کوئی اگر جو جاں سے گئے ـ
کہ اہلِ حق تو ہمیشہ ہی سُوئے دار چلے ـ
سجا تو لیجئے مقتل کہ اپنے خون سے بھی ۔
رواج قتلِ محبت ہی شاندار چلے ـ
سنا تھا بزم میں تیری قرار ملتا ہے ـ
مگر یہاں سے بھی اکثر ہی بیقرار چلے ـ
ہزار دعوے ہیں الفت کے بزمِ جاناں میں ـ
مزا تو تب ہے کہ مقتل میں ذکرِ یار چلے ـ
کسی نے کچھ نہ کہا پھر بھی جانے کیوں وامِق ـ
تمہاری بزم سے ہم ہوکے اشکبار چلے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔
بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
اگست 1986ء، میں کہی گئی غزل ـ
قرآن کریم کے مطابق جو مساجد مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے ( فرقہ بندی کی بنیاد پر ) بنائی جائیں وہ مسجدِ ضرار یعنی اسلام کو نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں ـ حالاں کہ بنانے والے قسمیں کھاتے ہیں کہ بجز بھلائی کے ہمارا کچھ مقصد نہیں ـ ( سورۃ التوبہ آیت نمبر ـ 107) اور ایسی ایک مسجد کو رسولﷺ نے خود اپنے حکم سے منہدم کروادیا تھا ـ
Gm Wamiq Toor
7:43 AM
0 Comment
مسجدِ ضرار یعنی تفرقہ پیدا کرنے والی مساجد گرادی جائیں ( القرآن )
ہاں تجھ کو تیرا قصہ ہی گر ہم سنائیں تو ۔ ماضی وہ تیرا کیسا تھا یہ ہم بتائیں تو ۔ ؟ آنکھیں بچھائیں راہ میں، دل پیش ہم کریں ـ بن کے ہمارے پاس وہ مہمان آئیں تو ـ۔۔ اِس کشمکش میں زندگی ہم نے گزار دی ــ وہ آرہے ہیں، آئیں گے، وہ کاش آٰئیں تو ــ مانا کہ ہیں حَسِین ، مگر دادِ حسن کو ـ۔۔ وہ اپنے چہرے سے ذرا پردہ ہٹائیں تو ۔۔۔ وہ پوچھتے ہیں ہاتھ کی ریکھا میں کیا ہے جی ۔ اپنا ہی نام اُن کو اگر ہم دکھائیں تو ۔۔۔ ؟ وہ کہہ رہے ہیں، شعر تو کوئی سنائیں جی ! ۔۔۔ لیکن میں منتظر ہوں ، ذرا مسکرائیں تو ۔۔۔ وامِق! تمہارے شہر سے، لو جارہے ہیں ہم ۔۔۔ لیکن تمام راستے جو بند پائیں تو ؟ ۔۔۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعرــ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مارچ 1985، میں کہی گئی غزل ...
***** غــــــزل *****
غلام محمد وامِق
ہاں تجھ کو تیرا قصہ ہی گر ہم سنائیں تو ۔
ماضی وہ تیرا کیسا تھا یہ ہم بتائیں تو ۔ ؟
آنکھیں بچھائیں راہ میں، دل پیش ہم کریں ـ
بن کے ہمارے پاس وہ مہمان آئیں تو ـ۔۔
اِس کشمکش میں زندگی ہم نے گزار دی ــ
وہ آرہے ہیں، آئیں گے، وہ کاش آٰئیں تو ــ
مانا کہ ہیں حَسِین ، مگر دادِ حسن کو ـ۔۔
وہ اپنے چہرے سے ذرا پردہ ہٹائیں تو ۔۔۔
وہ پوچھتے ہیں ہاتھ کی ریکھا میں کیا ہے جی ۔
اپنا ہی نام اُن کو اگر ہم دکھائیں تو ۔۔۔ ؟
وہ کہہ رہے ہیں، شعر تو کوئی سنائیں جی ! ۔۔۔
لیکن میں منتظر ہوں ، ذرا مسکرائیں تو ۔۔۔
وامِق! تمہارے شہر سے، لو جارہے ہیں ہم ۔۔۔
لیکن تمام راستے جو بند پائیں تو ؟ ۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔
بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
شاعرــ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مارچ 1985، میں کہی گئی غزل ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.