کہاں ہیں اب جو محبّت میں مارے جاتے ہیں ؟  عجیب دور ہے دہشت میں مارے جاتے ہیں ۔   مخالفین تو ہوتے ہیں سرخرو اکثر ۔  یہ ایک ہم کہ حمایت میں مارے جاتے ہیں ۔   کہ بد کلامی سے مرتا نہیں ہے کوئی مگر ۔  نفیس لوگ نفاست میں مارے جاتے ہیں ۔   تمام عُمر لڑائی میں جو رہے غازی ۔  وہ ایک رات عبادت میں مارے جاتے ہیں ۔   یہ اہلِ حق نہیں مرتے ہیں دشمنوں سے کبھی ۔  فقیر لوگ مروّت میں مارے جاتے ہیں ۔   لَہُو پکارے گا اُن کا بھی روزِ محشر میں ۔  جو تیرے عہدِ امارت میں مارے جاتے ہیں ۔   جو چاہتے ہیں کہ انصاف ہو عدالت میں ۔  وہی تو لوگ عدالت میں مارے جاتے ہیں ۔   لٹیرے بخشے گئے " قومی مفاہمت" کے سبب ۔  شریف لوگ شرافت میں مارے جاتے ہیں ۔   یہ بے شمار جگر گوشے ماؤں کے وامِق ۔  فصول شوقِ شہادت میں مارے جاتے ہیں ۔ #  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔  بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مورخہ 10، اکتوبر سال 2007ء میں کہی گئی غزل ۔  # ۔ وہ عناصر جو جہاد سمجھ کر اپنے ہی مسلمانوں کو مارتے ہیں، اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ (افسوس) ۔  نظرِ ثانی ۔ 6 جون سال 2024ء بروز جمعرات ۔

کہاں ہیں اب جو محبّت میں مارے جاتے ہیں ؟ عجیب دور ہے دہشت میں مارے جاتے ہیں ۔ مخالفین تو ہوتے ہیں سرخرو اکثر ۔ یہ ایک ہم کہ حمایت میں مارے جاتے ہیں ۔ کہ بد کلامی سے مرتا نہیں ہے کوئی مگر ۔ نفیس لوگ نفاست میں مارے جاتے ہیں ۔ تمام عُمر لڑائی میں جو رہے غازی ۔ وہ ایک رات عبادت میں مارے جاتے ہیں ۔ یہ اہلِ حق نہیں مرتے ہیں دشمنوں سے کبھی ۔ فقیر لوگ مروّت میں مارے جاتے ہیں ۔ لَہُو پکارے گا اُن کا بھی روزِ محشر میں ۔ جو تیرے عہدِ امارت میں مارے جاتے ہیں ۔ جو چاہتے ہیں کہ انصاف ہو عدالت میں ۔ وہی تو لوگ عدالت میں مارے جاتے ہیں ۔ لٹیرے بخشے گئے " قومی مفاہمت" کے سبب ۔ شریف لوگ شرافت میں مارے جاتے ہیں ۔ یہ بے شمار جگر گوشے ماؤں کے وامِق ۔ فصول شوقِ شہادت میں مارے جاتے ہیں ۔ # ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 10، اکتوبر سال 2007ء میں کہی گئی غزل ۔ # ۔ وہ عناصر جو جہاد سمجھ کر اپنے ہی مسلمانوں کو مارتے ہیں، اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ (افسوس) ۔ نظرِ ثانی ۔ 6 جون سال 2024ء بروز جمعرات ۔


+++  غزل  +++ 
غلام محمد وامِق 



 کہاں ہیں اب جو محبّت میں مارے جاتے ہیں ؟ 
عجیب دور ہے دہشت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

مخالفین تو ہوتے ہیں سرخرو اکثر ۔ 
یہ ایک ہم کہ حمایت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

کہ بد کلامی سے مرتا نہیں ہے کوئی مگر ۔ 
نفیس لوگ نفاست میں مارے جاتے ہیں ۔ 

تمام عُمر لڑائی میں جو رہے غازی ۔ 
وہ ایک رات عبادت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

یہ اہلِ حق نہیں مرتے ہیں دشمنوں سے کبھی ۔ 
فقیر لوگ مروّت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

لَہُو پکارے گا اُن کا بھی روزِ محشر میں ۔ 
جو تیرے عہدِ امارت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

جو چاہتے ہیں کہ انصاف ہو عدالت میں ۔ 
وہی تو لوگ عدالت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

لٹیرے بخشے گئے " قومی مفاہمت" کے سبب ۔ 
شریف لوگ شرافت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

یہ بے شمار جگر گوشے ماؤں کے وامِق ۔ 
فصول شوقِ شہادت میں مارے جاتے ہیں ۔ # 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ 
بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
مورخہ 10، اکتوبر سال 2007ء میں کہی گئی غزل ۔ 
# ۔ وہ عناصر جو جہاد سمجھ کر اپنے ہی مسلمانوں کو مارتے ہیں، اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ (افسوس) ۔ 
نظرِ ثانی ۔ 6 جون سال 2024ء بروز جمعرات ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بینظیربھٹو ‏کے ‏قتل ‏کے ‏بعد ‏ملک ‏بھر ‏میں ‏ہونے ‏والے ‏افسوسناک ‏سانحہ ‏پر ‏کہا ‏گیا ‏،ایک ‏قطعہ ‏ـ ‏شاعر ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

بینظیربھٹو ‏کے ‏قتل ‏کے ‏بعد ‏ملک ‏بھر ‏میں ‏ہونے ‏والے ‏افسوسناک ‏سانحہ ‏پر ‏کہا ‏گیا ‏،ایک ‏قطعہ ‏ـ ‏شاعر ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

مورخہ، 27 دسمبر 2007ء کو شام تقریباً ساڑھے چھ بجے راولپنڈی " لیاقت باغ " میں جلسہءعام کے بعد واپسی پر روڈ پر،  سابق وزیرِاعظم پاکستان، بینظیربھٹو شہید کردی گئیں، جس کے ردِعمل میں دوتین روز تک ملک بھر میں زبردست اور خوفناک جلاؤ گھیراﺅ کیا گیا، جس کے تاثرات میں نے درج ذیل قطعہ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ـ از ـ غلام محمد وامِق محرابپور سندھ.  
=== بینظیربھٹو قتل === 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
       غلام محمد وامِق  

اِس سانحے کا ردِعمل بھی عجب ہوا ...ـ

بیشک عظیم تھی، جو ہوئی قتل بینظیر ... 

لیکن یہ لوٹ مار ہوئی جس قدر یہاں ... 

تاریخ میں تو اس کی بھی ملتی نہیں نظیر ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مورخہ 30 دسمبر،2007ء بروز اتوار،  لکھا گیا قطعہ، 
از ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ،                  فون نمبر ـ 03153533437 ـــ

عجیب لوگ ہیں شب بھر قیام کرتے ہیں ۔  کہ زیست بھر کا مگر اہتمام کرتے ہیں ۔   جو ناگوارِ طبیعت ہیں روز ملتے ہیں ۔  طلَب ہے جن کی کہاں وہ کلام کرتے ہیں ۔   وہ مل بھی جائیں تو ملتے ہیں چند لمحوں کو ۔  کہ گھنٹوں جن کے لئے ہم قیام کرتے ہیں ۔   یہاں پہ کون کسی کو سلام کرتا ہے ؟  جو کرتے ہیں، وہ غرَض کو سلام کرتے ہیں ۔   جنازے میں کہاں آئے گا کوئی مفلس کے ۔  یہ کس کے واسطے اعلانِ عام کرتے ہیں ۔   غریب کو بھی ملے کوئی حق تو جینے کا ۔  اسی امید میں جیون تمام کرتے ہیں ۔   زہے نصیب سرِ راہ ہم جو مل جائیں ۔  وہ مسکرا کے نظر سے سلام کرتے ہیں ۔   عجیب اب تو طبیعت یہ ہو گئی وامق۔  کہ دن گزار کے مشکل سے شام کرتے ہیں ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق  مورخہ 23 جنوری سال 2008ء کو کہی گئی غزل ۔

عجیب لوگ ہیں شب بھر قیام کرتے ہیں ۔ کہ زیست بھر کا مگر اہتمام کرتے ہیں ۔ جو ناگوارِ طبیعت ہیں روز ملتے ہیں ۔ طلَب ہے جن کی کہاں وہ کلام کرتے ہیں ۔ وہ مل بھی جائیں تو ملتے ہیں چند لمحوں کو ۔ کہ گھنٹوں جن کے لئے ہم قیام کرتے ہیں ۔ یہاں پہ کون کسی کو سلام کرتا ہے ؟ جو کرتے ہیں، وہ غرَض کو سلام کرتے ہیں ۔ جنازے میں کہاں آئے گا کوئی مفلس کے ۔ یہ کس کے واسطے اعلانِ عام کرتے ہیں ۔ غریب کو بھی ملے کوئی حق تو جینے کا ۔ اسی امید میں جیون تمام کرتے ہیں ۔ زہے نصیب سرِ راہ ہم جو مل جائیں ۔ وہ مسکرا کے نظر سے سلام کرتے ہیں ۔ عجیب اب تو طبیعت یہ ہو گئی وامق۔ کہ دن گزار کے مشکل سے شام کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق مورخہ 23 جنوری سال 2008ء کو کہی گئی غزل ۔

              +++   غزل    +++ 
               غلام محمد وامِق 

عجیب لوگ ہیں شب بھر قیام کرتے ہیں ۔ 
کہ زیست بھر کا مگر اہتمام کرتے ہیں ۔ 

جو ناگوارِ طبیعت ہیں روز ملتے ہیں ۔ 
طلَب ہے جن کی کہاں وہ کلام کرتے ہیں ۔ 

وہ مل بھی جائیں تو ملتے ہیں چند لمحوں کو ۔ 
کہ گھنٹوں جن کے لئے ہم قیام کرتے ہیں ۔ 

یہاں پہ کون کسی کو سلام کرتا ہے ؟ 
جو کرتے ہیں، وہ غرَض کو سلام کرتے ہیں ۔ 

جنازے میں کہاں آئے گا کوئی مفلس کے ۔ 
یہ کس کے واسطے اعلانِ عام کرتے ہیں ۔ 

غریب کو بھی ملے کوئی حق تو جینے کا ۔ 
اسی امید میں جیون تمام کرتے ہیں ۔ 

زہے نصیب سرِ راہ ہم جو مل جائیں ۔ 
وہ مسکرا کے نظر سے سلام کرتے ہیں ۔ 

عجیب اب تو طبیعت یہ ہو گئی وامق۔ 
کہ دن گزار کے مشکل سے شام کرتے ہیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔
بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق 
مورخہ 23 جنوری سال 2008ء کو کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
محراب ‏پور ‏کا ‏مردِ ‏حُر ‏ــ ‏محمد ‏ہاشم ‏گھانگھرو ‏... تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

محراب ‏پور ‏کا ‏مردِ ‏حُر ‏ــ ‏محمد ‏ہاشم ‏گھانگھرو ‏... تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

<<<<<  محراب پور کا مردِ حُر  >>>>>
میں نے ہوش سنبھالتے ہی اسے سیاسی طور پر متحرک دیکھا، دیواروں پر "اندھا ٹیکس مردہ باد " لکھتا، تو کبھی اپنے گھر کے ایک درجن سے زیادہ افراد کے ساتھ سڑکوں پر حکمرانوں کے خلاف نعرے بازی کرتا ہوا نظر آتا، اُس وقت تک مجھے ان باتوں کا شعور نہ تھا، وہ جنرل ایوب خان کا دور تھا، سنتے تھے کہ اس نے اپنا بہت بڑا کاروبار "ہاری مزدور حقوق " کے حصول کی جدوجہد میں تباہ کر دیا تھا، 
سنتے تھے کہ وہ مولانا عبیداللہ سندھی کی ریشمی رومال تحریک سے بھی وابستہ رہا تھا، جب ہم جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے، وہ عمر کے آخری حصے میں تھا، اور اپنی معاشی ضروریات کے لئے ہاتھوں میں خوان رکھ کر دودھ سے بنا ماوہ اور سوہن حلوہ بیچتا تھا،  ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت تھا، وہ کاغز پر کوئلے سے کچھ لکھ رہا تھا، 
میں نے از راه تفنن پوچھا،  کیا آپ بھٹو صاحب کو خط لکھ رہے ہو؟ ۔۔۔ تو اس نے حقارت آمیز انداز میں جواب دیا، ہونہہ،  بھٹو کو خط کوئلے سے؟  اگر لکھنا پڑا تو اس گندی نالی کے پانی سے اسے خط لکھوں گا، اس نے نالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔  
جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس کے داماد، اور ہاری کمیٹی کے مشہور رہنما،  " نزیر عباسی " کو پھانسی دے دی گئی ... اس بہیمانہ قتل پر ہم نے نزیر عباسی کی بیوہ اور اس کی  بیٹی حمیدہ گھانگھرو کا ایک مفصل انٹرویو اسی دور میں بی بی سی لندن کی خبروں میں سنا تھا، جس میں حمیدہ گھانگھرو نے بڑی دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ..... 
بعد ازاں شاید بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں محراب پور میں ہاری حقوق کمیٹی کا جلسہ تھا،  جس میں مرکزی لیڈر شریک تھے .... 
 دورانِ جلسہ فیصلہ کیا گیا کہ اس بزرگ رہنما کو بھی اجلاس میں لایا جائے، جو کہ ان دونوں اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہا تھا ۔۔۔ بہرحال اسے اسٹیج پر لا کر بٹھایا گیا، وہ کرسی پر نہیں بیٹھا بلکہ نماز پڑھنے کی حالت میں عوام کی طرف رخ کر کے اسٹیج پر ہی  نیچے بیٹھ گیا،،،  جلسہ کے اختتام پر انہیں بھی دعوتِ کلام دی گئی،،،  وہ اس وقت بیخودی کے عالم میں تھا، عصر کی آذان ہوچکی تھی، اس نے وہیں اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا، میں چوں کہ اگلی صف میں بلکل اس کے سامنے کرسی پر موجود تھا،  اس لئے سب صاف سن رہا تھا ... 
اس نے کہنا شروع کیا، بھائیو!  یہ نعرے بازی، جلسے جلوس، فضول ہیں، میں سب کچھ سمجھ چکا ہوں، یہ تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، اگر اپنی نجات اور بھلائی چاہتے ہو تو آؤ،  میرے ساتھ نماز پڑھو،  انہوں نے یہ کہا اور وہیں پر بیٹھے بیٹھے، اللہ اکبر  کہہ کر نماز کی نیت باندھ لی ۔۔۔۔
جلسہ ختم ہو چکا تھا، اور حاضرین حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، ۔۔۔۔۔۔ کچھ دنوں کے بعد وہ اس ظالم دنیا کو چھوڑ گیا ۔۔۔۔  اُس مردِ مجاہد اور حریت پسند شخص کا نام تھا  ۔۔۔۔۔۔۔  محمد ہاشم گھانگھرو، ۔۔۔۔.....                        (تحریر ـ غلام محمد وامق).... 
بقول اقبال،  تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میری ‏ایک ‏یادگار ‏مزاحیہ ‏غزل ‏ــــ  ‏مجھ کو غریب اور قرضدار دیکھ کر.....  جسے ‏سن ‏کر ‏محترم ‏" ‏رئیس ‏امروہوی ‏" ‏مرحوم ‏اور ‏،  ‏" ‏راغب ‏مراد ‏آبادی " ‏مرحوم  ‏نے  ‏بیساختہ داد ‏دی ‏تھی ... تحریر ‏ـ ‏غلام محمد وامِق ‏... ‏

میری ‏ایک ‏یادگار ‏مزاحیہ ‏غزل ‏ــــ ‏مجھ کو غریب اور قرضدار دیکھ کر..... جسے ‏سن ‏کر ‏محترم ‏" ‏رئیس ‏امروہوی ‏" ‏مرحوم ‏اور ‏، ‏" ‏راغب ‏مراد ‏آبادی " ‏مرحوم ‏نے ‏بیساختہ داد ‏دی ‏تھی ... تحریر ‏ـ ‏غلام محمد وامِق ‏... ‏

میری ایک یادگار " مزاحیہ غزل "  جو حیدرآباد میں منعقدہ کُل پاک و ہند مشاعرہ میں پڑھی گئی، جسے سن کر، محترم رئیس امروہوی صاحب مرحوم، اور راغب مرادآبادی مرحوم، نے بہت داد دی ـ غزل اور واقعہ،  اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
===   چٹ پٹی غزل  === 
       غلام محمد وامق 

مجھ کو غریب اور قرضدار دیکھ کر ۔ 
مجھ سے وہ دور ہے مجھے بے کار دیکھ کر ۔ 

پیدل ہمیں جو دیکھ کے کتراتے تھے کبھی ۔ 
اب لفٹ مانگتے ہیں وہی کار دیکھ کر ۔ 

عُشّاق سارے مر گئے اُن کے تو دیکھئے ۔ 
پچھتا رہے ہیں اب ہمیں بیمار دیکھ کر ۔ 

اب رہنمائی کرنے سے کترا رہے ہیں سب ۔ 
مشہور رہنما کو سرِ دار دیکھ کر ۔ 

کل رات اُس نے باجی بھی معشوق کو کہا ۔ 
اُس گھر میں اُس کی امّاں کو بیدار دیکھ کر ۔ 

مفلس تھا جب گلی میں بھی گھسنے نہیں دیا ۔ 
اب رشتہ دے رہے ہیں وہی کار دیکھ کر ۔ 

نکلا سنگھار خانے سے تُو بن سنور کے یوں ۔ 
میں ڈر گیا تھا کل تجھے اے یار دیکھ کر ۔ 

جب تم حسین تھے تو کبھی بات بھی نہ کی ۔ 
اب رو رہے ہو ضعف کے آثار دیکھ کر ۔ 

اچھّا ہے کوئی تو رہے آپس میں راز دار ۔ 
کیوں جل رہا ہے بے وجہ تُو پیار دیکھ کر ۔ 

وامِق کبھی تو ہم بھی بہت ہی شریف تھے ۔ 
بگڑا ہے یہ مزاج وی سی آر دیکھ کر ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ 
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 
شاعر۔ غلام محمد وامق ۔ 
اپریل سال 1986ء میں کہی گئی غزل ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
وضاحت:-- یہ غزل میں نے کُل پاک و ہند طنز و مزاح مشاعرہ حیدرآباد منعقدہ 17 اپریل سال 1986ء میں سنائی تھی جس پر رئیس امروہوی صاحب نے پیٹھ تھپک کر داد دی ۔ جب کہ ناظم مشاعرہ جناب راغب مرادآبادی صاحب نے فی البدیہہ یہ شعر پڑھ کر مجھے سراہا ۔ 
شرما رہی ہیں چند خواتین بزم میں ۔ 
وامِق کو نوجوانِ طرح دار دیکھ کر ۔ ۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
غزل سے منسلک واقعہ: -- مورخہ 17. اپریل 1986ء حیدرآباد سندھ میں،  ملک کے مشہور ادیب، صحافی، شاعر اور ڈرامہ نویس "عطاءالحق قاسمی "  کے بڑے  بھائی.        " ضیاءالحق قاسمی " صاحب مرحوم نے،  کُل پاک و ہند مشاعرہ منعقد کروایا، جس کی صدارت " سید ضمیر جعفری صاحب " نے کی،  جس میں ہندوستان کے معروف شعراء کے علاوہ، پاکستان کے تمام ہی معتبر اور مشہور شعراء کرام نے شرکت کی تھی ـ جن میں  دلاور فگار، انور مسعود، گستاخ گیاوی، خالد عرفان،  عطاءالحق قاسمی، پروفیسر عنایت علی خان صاحب،  عبیر ابوذری،  رئیس امروہوی، انعام الحق جاوید،  راغب مرادآبادی ( نظامت) ـ کے علاوہ دیگر بہت سے نامور شعراء شامل تھے،  جبکہ سامعین میں، صوبائی وزیر، سید احد یوسف، حیدرآباد کے ڈپٹی کمشنر، اور بیشمار اعلیٰ افسران بھی شامل تھے ــ اس مشاعرے کی روداد ملک کے تمام ہی بڑے  اخبارات میں شایع ہوئی، اور. 16, مئی، 1986ء کے روزنامہ " نوائے وقت " میں عطاءالحق قاسمی نے اپنے مشہور کالم،  " روزنِ دیوار سے " میں بھی شایع کی تھی ـ بعدازاں حیدرآباد، کراچی سے شایع ہونے والے " ماہنامہ ظرافت " کے پہلے شمارے میں مکمل روداد تمام شعراء کے منتخب اشعار کے ساتھ شایع کی گئی ـــ
وہ دور جنرل ضیاءالحق کی صدارت کا زمانہ تھا، اور کچھ ہی سال قبل، پاکستان کے پہلے  منتخب وزیرِاعظم،     " ذوالفقار علی بھٹو " کو پھانسی دی گئی تھی ـ چنانچہ جب میں نے اسٹیج پر آکر،  اپنی غزل کا یہ شعر ــ 
اب رہنمائی کرنے سے کترا رہے ہیں سب ... 
مشہور رہنما کو سرِ دار دیکھ کر ... 
پڑھا تو، میرے قریب بیٹھے ہوئے،  جناب "رئیس امروہوی " صاحب نے بے اختیار میری پیٹھ پر تھپکی دی اور بہت داد دی، بعدازاں جب میں نے اپنا کلام ختم کرکے اپنی جگہ لی تو مشاعرے کے اسٹیج سیکریٹری، اور ملک کے مشہور فی البدیہہ اشعار کہنے والے، محترم راغب مرادآبادی صاحب نے مجھے اپنے اس فی البدیہہ شعر کے ساتھ داد عنایت فرمائی، جوکہ میرے لئے ایک اعزاز ہے ـ
شرما رہی ہیں چند خواتین بزم میں ... 
وامِق،  کو نوجوانِ طرحدار دیکھ کر ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ میرے لئے " راغب مرادآبادی صاحب "  کا  یہ شعر پاکستان کے پہلے مزاحیہ رسالے، ــــ         " ماہنامہ  ظرافت "  میں بھی شامل کیا گیا تھا ــ
ــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
مورخہ،  15، ستمبر ـ 2020ء ــ فون ـ 03153533437 ...
یومِ ‏دفاع ‏، ‏چھ ‏ستمبر ‏ـ ‏نظم ‏ـ ‏از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ــ  ‏

یومِ ‏دفاع ‏، ‏چھ ‏ستمبر ‏ـ ‏نظم ‏ـ ‏از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ــ ‏

===  یومِ دفاع ( چھ ستمبر)  === 
              غلام محمد وامِق 

چھ ستمبر حاصلِ آزادیء افکار ہے ... 
دشمنوں کے واسطے شمشیرِ بے زنہار ہے ... 

ہر سپاہی ملک پہ دینے کو جاں تیار ہے ... 
زندگی سے بھی زیادہ سرحدوں سے پیار ہے ... 

اہلِ پاکستان کے خوابوں کی یہ تعبیر ہے ... 
افواج پاکستان کی ناقابلِ تسخیر ہے ...

رات کو جب نیند میں غافل شہر لاہور تھا ... 
پر نکل آئے تھے چیونٹی کے عجب وہ دور تھا ... 

بھارتی ٹینکوں کے حملے کا اچانک شور تھا ... 
ہاں ملی ان کو سزا ایسی کہ منظر اور تھا ... 

دیکھ لو دشمن کو اب تک خوف دامنگیر ہے ... 
افواج پاکستان کی ناقابلِ تسخیر ہے ... 

کس قدر مخفی تھا دیکھو، سینہء دشمن میں کھوٹ ... 
جب کیا دشمن نے حملہ، پرسکوں تھا سیالکوٹ. ... 

تب بھی یوں دشمن کو مارا اور ماری ایسی چوٹ
آج بھی ڈرتے ہیں دشمن نام سن کر سیالکوٹ. ... 

کس قدر مضبوط یہ اتحاد کی زنجیر ہے. ... 
افواج پاکستان کی ناقابلِ تسخیر ہے ... 

چھ ستمبر اب تلک بھارت کو ایسا یاد ہے ... 
دیکھ لو ان کا سکونِ قلب تک برباد ہے ... 

یہ شکستِ ہند کی یکسر کھلی روداد ہے .. 
اور ہمارا ملک پاکستان،  زندہ باد ہے ... 

چھ ستمبر،  حق و باطل کی عیاں تصویر ہے ... 
افواج پاکستان کی ناقابلِ تسخیر ہے ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔  فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن 
بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ  ستمبر83 19
 ء میں کہی گئی نظم ـــ

کس شان سے یہ آنسو آنکھوں میں مچلتے ہیں ــ غزل ـ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏

کس شان سے یہ آنسو آنکھوں میں مچلتے ہیں ــ غزل ـ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏


                  +++  غزل  ++++ 
                     غلام محمد وامِق 

کِس شان سے یہ آنسو، آنکھوں میں مچلتے ہیں 
کچھ  لوگ  شناسا   جب،    انداز  بدلتے   ہیں 

ہے خوف کا عالم بھی، ظلمت بھی بہت لیکن 
امید کے کچھ جگنو،آنکھوں میں  چمکتے ہیں 

کچھ بات کہی ہم نے، کچھ کہہ نہیں پائے ہم 
جزبات کہاں سارے، الفاظ  میں ڈھلتے ہیں ؟   

کچھ لمحوں کی دنیا میں ہم لمحوں کے ساتھی ہیں 
پھر کس لئے نفرت کی، ہم آگ میں جلتے ہیں ؟  

جنگل میں درندے  بھی اس طرح نہیں کرتے   
بیدردی سے جیسے ہم، اپنوں کو کچلتے  ہیں 

کردار  بدلتا ہے  ،،،،،،،،  نا وقت  بدلتا  ہے   
بس لوگ بدلتے ہیں، اور چہرے  بدلتے  ہیں  

دشمن سے نہیں خطرہ، ہے خوف یہ ہی وامِق 
یاروں سے بچیں کیسے؟  جو زہر اگلتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن ۔ 
بحر ۔ ہزج مثمن اخرب سالم ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 03 فروری سال 2008ء میں کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



 

یوں دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل گئے ــ غزل ـ غلام محمد وامِق ـ

یوں دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل گئے ــ غزل ـ غلام محمد وامِق ـ



 

****** غزل **** 
غلام محمد وامِق ـ

یوں دیکھتے ہی دیکھتے،   منظر بدل گئے ـ 
موسم کے ساتھ پھولوں کے تیور بدل گئے ـ

کہنے کو انقلاب بھی آیا نہیں مگر ـ
صحرا بدل گئے ہیں، سمندر بدل گئے ـ 

محفل میں اُن کی دیکھئے ہم جو گئے تو وہ 
مفہوم اپنی بات کا یکسر بدل گئے ـ 

جب ذکر بیوفائی کا اُن سے شروع کیا ـ 

موضوع کا رخ وہ دیکھئے ہنس کر بدل گئے ـ 

میں نے فقط نظر کا ہی انداز بدلا تھا.      
لیکن یہ کیسے سارے ہی منظر بدل گئے.      

وہ جو ثبات رکھتے تھے مانند پہاڑ کے.     
دیکھا غرض میں اپنی وہ اکثر بدل گئے.     

ہم شوق و اضطراب میں پہنچے جو اُس گلی.
وامِق! ہوا یہ علم،  کہ وہ گھر بدل گئے ـــــ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف 
شاعر ۔ غلام محمد وامق 
  مورخہ 20 , جولائی، 2009. کو کہی گئی غزل ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نمکین غزل ـ شیخ صاحب جب حرم سے سوئے جاناں چل پڑے ــ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏

نمکین غزل ـ شیخ صاحب جب حرم سے سوئے جاناں چل پڑے ــ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏

           ===  نمکین غزل  === 
                 غلام محمد وامِق  

شیخ صاحب جب حرم سے سوئے جاناں چل پڑے ـ
تب اچانک سر پہ ان کے،  سینکڑوں  سینڈل پڑے . 

یوں ہی قصہ، ایک بڑھیا کے چلا تھا عشق کا ... 
چند بوڑھے جانے کیوں بس مُنہ چھپا کر چل پڑے ... 

میں نے سیٹی یوں ہی ماری تھی جو اپنے شوق میں ... 
کس لئے ماتھے پہ تیرے اتنے سارے بل پڑے ...

ایک دعوت میں جو دیکھی مولوی صاحب نے دال ... 
مُلّا جی،  لاحول پڑھتے، اس جگہ سے چل پڑے ... 

ایک دلہن شادی دفتر سے ملی جو دیکھئے ۔ 
آنکھ بھینگی، ناک غائب، چہرے پر تھے بَل پڑے ... 

جب کہ اِن آنکھوں میں تیری، کُکرے بھی، جالا بھی ہے ... 
کیسے ان میں سرمہ ڈالیں،  کس طرح کاجل پڑے؟ ... 

مولوی سب ڈٹ گئے تھے،  اپنے فتوے پر مگر ... 
جیب ان کی جب بھری، تو سارے واپس چل پڑے ... 

آؤ وامِق! ، پھر چلیں ہم شہرِ جاناں کی طرف ... 
چاہے اپنے راستے میں، پھر وہی دلدل پڑے ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔ 
بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مارچ سال 1986ء میں کہی گئی نمکین غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Powered by Blogger.