شاہین،  ‏بمقابلہ طوطا ‏ـــ ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏فکرِ ‏اقبال ‏سے ‏معذرت ‏ــ ‏

شاہین، ‏بمقابلہ طوطا ‏ـــ ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏فکرِ ‏اقبال ‏سے ‏معذرت ‏ــ ‏

= شاہین بمقابلہ طوطا = 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (فکرِ اقبال سے معذرت) ... چند تلخ حقائق ............ تحریر ــ غلام محمد وامِق  

شاہین (عقاب) بیشک ایک بلند پرواز پرندہ ہے، اس کی بیشمار اعلیٰ خصوصیات ہیں،  یہ ایک جنگی جہاز جتنی اونچائی پر اڑتا ہے، اس کی نظر تقریباﹰ ایک میل کی دوری سے اپنے شکار کو دیکھ لیتی ہے ـ اور فوراً اسے جھپٹ لیتا ہے ـ اسی لئے اقبال نے کہا ہے کہ " جھپٹ کر پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا ــ اور غالبآ انہی بہادرانہ  خصوصیات کی بنا پر ہماری بہادر فضائیہ ( ایئر فورس)  نے اپنا نشان " شاہین " کو ہی بنایا ہے ـــ  لیکن .............  لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان تمام بہادرانہ صفات کے باوجود یہ ایک غلامی پسند پرندہ ہے، نہ صرف خود بلکہ اپنی قوم اور نسل کو بھی غلام دیکھنا پسند کرتا ہے ــ نیز دیگر پرندوں کو بھی اپنے آقاؤں کے لئے شکار کرتا ہے ـ
ہمارے ملک میں اس کی بیشمار مثالیں موجود ہیں، ہمارے ہاں ہر سال عرب ممالک کے شہزادے اور دیگر امراء اپنے پالتو شاہینوں، بازوں اور شہبازوں کے ساتھ پاکستان میں انتہائی قیمتی، خوبصورت اور نادر پرندے " تلور " کا شکار کرتے نظر آتے ہیں ... اس کے علاوہ شاہینوں کو دیگر بہت سے امور کی انجام دہی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ـ
جب کہ " طوطا " ( تُوتا) ایک انتہائی پیارا اور خوبصورت پرندہ ہے، لوگ اسے محبت سے پالتے ہیں، اس کو چُوری کھلاتے ہیں، اس کے ناز اٹھاتے ہیں، اس کے باوجود طوطا کسی بھی حالت میں کسی کی غلامی پسند نہیں کرتا ـ یہ نیچی پرواز کے باوجود ایک آزادی پسند پرندہ ہے ـ یہ نہ صرف خود بلکہ اپنی قوم کو بھی غلام بنوانا ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتا ـ اس کو جب بھی موقع ملتا ہے، یہ خود کو آزاد کروا کر اُڑ جاتا ہے ... اسی لئے اس کی نسبت سے لوگوں نے " طوطا چشم " کا محاورہ بھی ایجاد کرلیا ہے ـ  
ـــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ،
مورخہ 21 فروری، 2021ء ـ بروز اتوار .................            فون ـ 03153533437 ـــــ
میرے ‏( ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏) ‏والد ‏ ‏" ‏شیر ‏محمد ‏طور ‏ولد ‏غلام ‏حسین ‏" ‏ ‏اور ‏میری ‏والدہ ‏" ‏شربتی ‏بنت ‏لعل ‏خان ‏غوری ‏" ‏کی ‏شادی ‏کی ‏تاریخ ‏... ‏

میرے ‏( ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏) ‏والد ‏ ‏" ‏شیر ‏محمد ‏طور ‏ولد ‏غلام ‏حسین ‏" ‏ ‏اور ‏میری ‏والدہ ‏" ‏شربتی ‏بنت ‏لعل ‏خان ‏غوری ‏" ‏کی ‏شادی ‏کی ‏تاریخ ‏... ‏

یہ عکس ہے میرے (غلام محمد وامِق طور) والد شیر محمد عرف شیرو ولد غلام حسین طور کی شادی کے سلسلے میں لئے گئے نوتہ ( بہی) کا ـ جس کے مطابق چھبیس 26 دسمبر، 1951ء ـ بروز بدھ،  مطابق 25 یا 26 ربیع الاول 1371، ھجری ـ کو ولیمے کا نوتہ لیا گیا ـ ہریانوی رواج کے مطابق تقریبِ ولیمے کا نوتہ، شادی (نکاح) سے ایک دن پہلے لیا جاتا تھا ـ چنانچہ اس لحاظ سے ہمارے والدین کی شادی کی تاریخ بنتی ہے، نوتے سے اگلے روز یعنی ـ مورخہ 27، دسمبر سال 1951 عیسوی، بروز جمعرات ... مطابق ھجری تاریخ 26 یا 27 ربیع الاول سال 1371، ہجری،
 
ہمارا ‏شجرہ ‏نسب ‏،ہمارے ‏والد ‏" ‏شیر ‏محمد ‏طور ‏" ‏کی ‏جانب ‏سے ‏...

ہمارا ‏شجرہ ‏نسب ‏،ہمارے ‏والد ‏" ‏شیر ‏محمد ‏طور ‏" ‏کی ‏جانب ‏سے ‏...

ہمارا شجرہ نصب، والد شیر محمد طور، کی طرف سے،  جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ـ از ـ غلام محمد وامِق طور ... 
ہمارا ‏شجرہ ‏نسب ‏،میری ‏والدہ ‏ ‏" ‏شربتی ‏" ‏کی ‏طرف ‏سے ‏... ‏ترتیب ‏و ‏تکمیل ‏ازـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

ہمارا ‏شجرہ ‏نسب ‏،میری ‏والدہ ‏ ‏" ‏شربتی ‏" ‏کی ‏طرف ‏سے ‏... ‏ترتیب ‏و ‏تکمیل ‏ازـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

میری والدہ " شربتی " کا شجرہ نسب ـ جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ... از ـ غلام محمد وامِق ... 
ہمارے ‏خاندان ‏طور ‏( ‏راجپوت ‏) ‏کا ‏مکمل ‏شجرہ ‏نسب ‏ـ ‏اپنی ‏معلومات ‏کی ‏بنیاد ‏پر ‏...تحریر ‏و ‏ترتیب ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏طور ‏... ‏

ہمارے ‏خاندان ‏طور ‏( ‏راجپوت ‏) ‏کا ‏مکمل ‏شجرہ ‏نسب ‏ـ ‏اپنی ‏معلومات ‏کی ‏بنیاد ‏پر ‏...تحریر ‏و ‏ترتیب ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏طور ‏... ‏

میرا شجرہ نسب میری معلومات کے مطابق اس طرح ہے ـــ میرا نام = غلام محمد....  
ادبی تخلص = وامِق ـ...
خاندان و ذات = طور ـ راجپوت ... 
تاریخ پیدائش اصل = 28 نومبر، 1957ء ... 
تاریخ پیدائش اسکول سرٹیفکیٹ = 04.09.1958 ...
پیدائش کا شہر = محراب پور، ضلع نوشہروفیروز، سندھ، پاکستان ... 
اولاد = پانچ بچے ـ تین بیٹے اور دو بیٹیاں ـ سب سے بڑا بیٹا " محمد جاوید اقبال "(سب انسپیکٹر پولیس)
منجھلا بیٹا ــ  " محمد عابد ... 
چھوٹا بیٹا ــ " محمد راشد ... 
ایک بیٹی ــ  " فاطمہ زوجہ تنویر غوری پنوعاقل " ... 
دوسری بیٹی ــ  " نمرہ بانو زوجہ فرحان کھوکھر پنوعاقل " ... 
میرے والد کا نام ــ  " شیر محمد طور " 
شیر محمد طور کے والد ــ " غلام حسین طور " ــ
غلام حسین طور کے والد ـــ  " غوث بخش طور " ... 
غوث بخش طور کے والد ــ  " جیونا " ... 
اس سے آگے کا نسب مجھے معلوم نہیں ہوسکا ... 
تیرا جمال ہے، فصلِ بہار ہے، کیا ہے۔ تیرا شباب ہے، گل پہ نکھار ہے، کیا ہے   نہ پا سکو گے مجھے، تم یہاں پہ کل یارو ۔ میرا وجود کسی کا ادھار ہے،  کیا ہے ۔۔۔۔  میں اپنے شہر میں رہتا ہوں اجنبی کی طرح ۔ دیارِ غیر  ہے ۔۔۔ میرا دیار ہے ،۔۔۔۔ کیا ہے ۔۔؟  سلگ رہا ہے، میرے جسم و جاں کا ہر پہلو ۔ دلِ حزیں ہے کہ جلتا شرار ہے کیا ہے   زمیں سے حدِ فلک تک یہ روشنی وامِق ! ۔۔۔ تمہاری  راہ  کا  گرد و غبار  ہے ، کیا ہے ؟ ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔  بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔  اپریل، 1980 میں لکھی گٸی غزل۔  شاعر ـ غلام محمد وامق۔۔

تیرا جمال ہے، فصلِ بہار ہے، کیا ہے۔ تیرا شباب ہے، گل پہ نکھار ہے، کیا ہے نہ پا سکو گے مجھے، تم یہاں پہ کل یارو ۔ میرا وجود کسی کا ادھار ہے، کیا ہے ۔۔۔۔ میں اپنے شہر میں رہتا ہوں اجنبی کی طرح ۔ دیارِ غیر ہے ۔۔۔ میرا دیار ہے ،۔۔۔۔ کیا ہے ۔۔؟ سلگ رہا ہے، میرے جسم و جاں کا ہر پہلو ۔ دلِ حزیں ہے کہ جلتا شرار ہے کیا ہے زمیں سے حدِ فلک تک یہ روشنی وامِق ! ۔۔۔ تمہاری راہ کا گرد و غبار ہے ، کیا ہے ؟ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ اپریل، 1980 میں لکھی گٸی غزل۔ شاعر ـ غلام محمد وامق۔۔

=== غزل === 
غلام محمد وامِق 

تیرا جمال ہے، فصلِ بہار ہے، کیا ہے۔
تیرا شباب ہے، گل پہ نکھار ہے، کیا ہے 

نہ پا سکو گے مجھے، تم یہاں پہ کل یارو ۔
میرا وجود کسی کا ادھار ہے،  کیا ہے ۔۔۔۔

میں اپنے شہر میں رہتا ہوں اجنبی کی طرح ۔
دیارِ غیر  ہے ۔۔۔ میرا دیار ہے ،۔۔۔۔ کیا ہے ۔۔؟

سلگ رہا ہے، میرے جسم و جاں کا ہر پہلو ۔
دلِ حزیں ہے کہ جلتا شرار ہے کیا ہے 

زمیں سے حدِ فلک تک یہ روشنی وامِق ! ۔۔۔
تمہاری  راہ  کا  گرد و غبار  ہے ، کیا ہے ؟ ۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ 
بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ 
اپریل، 1980 میں لکھی گٸی غزل۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامق۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتہائی ‏عزیز ‏دوست ‏، ‏ڈاکٹر ‏غلام ‏محمد ‏اعوان ‏ـ ‏جوکہ ‏کانگو ‏وائرس ‏کا ‏شکار ‏ہوکر ‏، ‏مورخہ ‏24فروری 1988ء ‏بروز بدھ، اپنے ‏خالقِ ‏حقیقی ‏سے ‏جا ‏ملے تھے ‏..... ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏محراب ‏پور ‏سندھ ‏... ‏

انتہائی ‏عزیز ‏دوست ‏، ‏ڈاکٹر ‏غلام ‏محمد ‏اعوان ‏ـ ‏جوکہ ‏کانگو ‏وائرس ‏کا ‏شکار ‏ہوکر ‏، ‏مورخہ ‏24فروری 1988ء ‏بروز بدھ، اپنے ‏خالقِ ‏حقیقی ‏سے ‏جا ‏ملے تھے ‏..... ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏محراب ‏پور ‏سندھ ‏... ‏

سب کہاں کچھ، لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں ـ
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی، کہ پنہاں ہوگئیں ـ (غالب)
دیکھ کے یہ تصویر ہماری، شاید ہم آجائیں یاد ـ
ایسے نقش و نین کا انساں بھی تھا دنیا میں آباد ـ (جی ایم وامق)
کانگووائرس ایک انتہائی خوفناک جان لیوا بیماری ہے، جس کا نام پہلی بار ہم نے سال 1988 میں سنا تھا ـ اس سال پاکستان میں اور خاص طور پر کراچی میں اس بیماری نے بیشمار قیمتی جانیں ہڑپ کرلی تھیں ـ عجیب بات یہ تھی کہ زیادہ تر ڈاکٹرز اس بیماری کے باعث لقمہ اجل کا شکار ہوئے تھے ـ چنانچہ آج کی تاریخ، 24 فروری سال 1988 , بروز بدھ، اسکول و کالیج لائف میں  ہمارے انتہائی پیارے دوست ڈاکٹر " غلام محمد اعوان " بھی جناح ہسپتال کراچی میں اپنی ڈیوٹی کے دوران اس بیماری کا شکار ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ـ  نماز جنازہ اور تدفین اگلے روز لاکھاروڈ کے قریب ان کے آبائی گاؤں "گوٹھ حاجی عبدالرحیم اعوان " میں کی گئی ـ اس سانحے کو آج 31 سال بیت چکے ہیں، لیکن یوں لگتا ہے کہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے ـ ـ تحریر ــ غلام محمد  وامق، محراب پور سندھ. ــ
 Dated.  24.02.2019.
منقبت ‏= ‏خلفائے ‏راشدین ‏= ‏نظم ‏از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏..‏اعلیٰ ‏نبی ‏کے ‏بعد ‏صحابہ ‏کی ‏شان ‏ہے ‏... ‏

منقبت ‏= ‏خلفائے ‏راشدین ‏= ‏نظم ‏از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏..‏اعلیٰ ‏نبی ‏کے ‏بعد ‏صحابہ ‏کی ‏شان ‏ہے ‏... ‏

** منقبت ـ خلفائے راشدین ** 
   ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
         غلام محمد وامِق  

اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ... 
قائم اسی عقیدے سے دین و ایمان ہے ... 

لوگو رسولِ پاک نے فرمایا بارہا ... 
دشمن صحابہ کا جو ہے، دشمن ہے وہ میرا ... 
اصحاب ہیں ستاروں کی مانند سب میرے ... 
راہِ نجات تم کو دکھائیں گے وہ سدا ... 

جن کو رسولِ پاک نے صدیق خود کہا ... 
جن کو رفیقِ غار کا حاصل شرف ہوا ... 
سردارِ دوجہان کے پہلو میں سوئے ہیں ... 
کتنا عظیم مرتبہ،  دیکھو انہیں مِلا ...

شانِ عمر تو دیکھئے، اسلام کے لئے ... 
اللہ کے رسول نے مخصوص خود کئے ... 
اعلان ایسے وقت میں اسلام کا کیا ... 
جرئت نہ تھی کسی میں، جو تائیدِ حق کرے ... 

شرم و حیا، مجسّمِ عثمان دیکھئے ... 
گھر میں نبی کی بیٹیاں ہیں، شان دیکھئے ... 
جس جذبۂ قصاص سے نکلے رسولِ پاک ... 
مظہر ہے اس کی بیعتِ رضوان دیکھئے ... 

علم و ادب کا باب ہے، شیرِ خدا علی ... 
گھر میں رسولِ پاک کے پلتا رہا علی ... 
جرئت بہادری و سخا، اُن پہ ختم ہے ...
غلبہ جہاں میں، دین کا بھی کر گیا علی ...

پیارے نبی کا ادنیٰ سا، ساتھی بھی ہو اگر ... 
اس کے مقابل ہیچ ہے، دنیا تمام تر ... 
اصحاب میں عظیم ہیں، سب سے یہ چار یار ... 
صدیق و عمر، عثمان اور حیدرِ کرار ... 

اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ... 
قائم اسی عقیدے سے دین و ایمان یے ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ،
مورخہ 26 ستمبر، 1984ء، میں کہی گئی نظم ...

کرسی ‏پر ‏نماز ‏پڑھنا ‏ایک ‏نئی ‏بدعت ‏ـ  ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

کرسی ‏پر ‏نماز ‏پڑھنا ‏ایک ‏نئی ‏بدعت ‏ـ ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

=== کُرسی پر نماز ـ؟  === تحریر ـ غلام محمد وامِق 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کل ہر مسلک اور ہر عقیدے والوں کی مسجد میں معذور لوگ بڑی تعداد میں کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے نظر آتے ہیں ـ آج سے غالباً چالیس پچاس سال قبل کسی بھی مسجد میں یہ منظر نظر نہیں آتا تھا، معذور لوگ نماز کی صف میں نیچے فرش پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے ـ
ابتداء میں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو، میں نے جنگ اخبار میں،  " مولانا یوسف لدھیانوی مرحوم "  کا فتویٰ پڑھا تھا، جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ، جو لوگ اپنے قدموں سے چل کر مسجد آتے ہیں، انہیں کرسیوں پر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھنی چایئے ـ اب تو یہ سلسلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ، جو لوگ اپنا سارا کاروبار،  دکانداری، اور آفیشل کام بڑے آرام سے انجام دیتے ہیں، وہ بھی آکر کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں، ـــ
میں کوئی فتویٰ تو نہیں دے سکتا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ " ربًِ ذوالجلال " کے سامنے جس قدر اپنی عاجزی اور اپنی ذلت اور ناداری کا اظہار کیا جائے تو اللہ اس بندے کو پسند کرتا ہے اور اونچا درجہ عطا فرماتا یے ـ لیکن اگر ہم خالقِ کائنات کے سامنے اپنی شان یا بڑائی کا اظہار کریں گے تو اللہ ایسے بندے کو ناپسند کرتا ہے، اور اسے لوگوں کے سامنے ذلیل کردیتا ہے ـ کرسی پر بیٹھنا زمین پر بیٹھنے کے مقابلے میں زیادہ آسان اور باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے، اسی لئے اب ذرا سا بھی معذور شخص ہو وہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے، اور اس میں کوئی عیب نہیں سمجھتا ـ جبکہ اکثر علماء نے اسے جائز بھی قرار دیا ہوا ہے ـ ایک بات مزید ذہن نشین ہونی چاہئے کہ کرسیوں پر بیٹھ کر عبادت کرنا، عیسائیوں اور یہودیوں کی روایت رہی ہے ـ اور مسلمان بھی شاید غیردانستہ طور پر عبادت میں  یہودی اور نصاریٰ کی مشابہت کرنا عین ثواب سمجھنے لگ گئے ہیں ـ
واللہ اعلم باالصواب ـ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ـــ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ 
مورخہ ـ 13، ستمبر 2020ء ـــ بروز ـ اتوار ........
کشمیر ‏بنے ‏گا ‏پاکستان ‏ـ ‏؟؟؟ـ ‏کیا ‏واقعی ‏؟ ‏=== ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

کشمیر ‏بنے ‏گا ‏پاکستان ‏ـ ‏؟؟؟ـ ‏کیا ‏واقعی ‏؟ ‏=== ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

کشمیر بنے گا پاکستان ـ یہ نعرہ ہم بچپن سے سنتے آئے اور لڑکپن میں مارتے آئے تھے، پھر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر تو پاکستان نہ بن سکا البتہ،  آدھا پاکستان  "  بنگلہ دیش "  بن گیا ـ پھر ہمارے بچے بھی یہ ہی نعرہ " کشمیر بنے گا پاکستان "  مارتے رہے،  اور اب ماشاءاللہ ہمارے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی یہ ہی نعرہ مار رہے ہیں، اور نجانے آئندہ کتنی نسلیں یہ نعرہ مار مار کر خوش ہوتی رہیں گی ...؟؟؟  ــ 
مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے یہ شعر بھی ہر خاص و عام سے اور میڈیا پر سننے میں آرہا ہے کہ " جنت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی " ـــ
چنانچہ یہ شعر سن کر ہمیں بڑا تعجب ہوتا ہے کہ، گذشتہ ترہتر 73 سالوں سے یہ جنت کس کے قبضے میں ہے ـ؟؟؟ ... 
اللہ تعالیٰ ہمارے بقیہ پاکستان کی حفاظت فرمائے ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ... مورخہ، 05 فروری ـ 2021 ء ـــ
دل ‏میں ‏اچانک ‏جانے ‏کیوں ‏اک ‏کانٹا ‏سا ‏چبھ ‏جاتا ‏ہے ‏ـ ‏نظم ‏ـ  ‏شاعر ــ  ‏غلام ‏محمد ‏وامِق  ‏... ‏

دل ‏میں ‏اچانک ‏جانے ‏کیوں ‏اک ‏کانٹا ‏سا ‏چبھ ‏جاتا ‏ہے ‏ـ ‏نظم ‏ـ ‏شاعر ــ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

           نظم ۔۔۔۔ اندازِ نظر ۔۔۔۔۔۔
( یہ میرا اندازِ نظر ہے، آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
    شاعر ۔ غلام محمد وامق

دل میں اچانک جانے کیوں اک کانٹا سا چبھ جاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

فاقہ کش کمزور جوانی زرد سے لاغر چہرے ہیں ۔ 
لب بستہ فریادیں ان کی کون سنے سب بہرے ہیں ۔ 
ان کو لوٹا ہے شرفا نے بن گئیں زندہ لاشیں یہ ۔ 
پتھر دل ہیں دنیا والے کون سنے گا باتیں یہ ۔ 
جھوٹے ہیں سب پیر و پنڈت کوئی نہ سچا عالم ہے ۔ 
ظاہر میں ہیں عابد زاہد باطن سب کا ظالم ہے ۔ 

ایسے لوگوں کے باعث دنیا میں عزاب آجاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

ایک طرح کے انساں ہیں سب، لیکن اونچ اور نیچ ہے کیوں ؟ 
کوئی خدا بن بیٹھا ہے اور کوئی اتنا ہیچ ہے کیوں ؟ 
مال و دولت کا جو پجاری دولت اس پر برسے ہے ۔ 
ایک خدا کو ماننے والا روٹی کو بھی ترسے ہے ۔ 
کیسا یہ اندھیر ہے لوگو کیسا ہے جنجال یہاں ۔ 
نام خدا بدنام کیا اور مزہب کو پامال یہاں ۔ 

کیسی بھیانک رسمیں ہیں یہ جن سے اب خوف آتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

دولت مند سرمایہ دار، کوٹھی بنگلے اور ہے کار ۔ 
مزدوروں کے خون پہ قائم ان کا سارا دارومدار ۔ 
ملک کو بیچ کے کھا گئے دیکھو اپنے ہی سب سیاستدان ۔ 
ووٹ عوام سے لے کر جائیں ، عیش کریں وہ انگلستان ۔ 
امریکہ کے شیطانوں کے آگے سجدہ ریز ہیں یہ ۔ 
اپنی قوم کو لوٹنے میں تو سب سے بڑھ کر تیز ہیں یہ ۔ 

ایسے لیڈروں کے ہاتھوں ہی ملک تباہ ہو جاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

کوئی یہاں پر انگلش پڑھ کر عُجب سے پھولا جاتا ہے ۔ 
کوئی یہاں پر افسر ہو کر انساں کو ٹھکراتا ہے ۔ 
کوئی یہاں پر پِیر بنا ہے ، لوگوں کی تحقیر کرے ۔ 
کوئی عقیدے کی منطق پر اوروں کی تکفیر کرے ۔
انساں کی عظمت کا دیکھو کوئی یہاں دستور نہیں ۔ 
اپنے عیبوں کو بھی دیکھے کسی کو یہ منظور نہیں ۔ 

کتنے جھوٹے ہیں یہ انساں جن سے دل گھبراتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

علماء اپنے علم کو بیچیں، علمی تجارت کرتے ہیں ۔ 
چھوٹے موٹے لوگوں سے وہ ملنا پسند کب کرتے ہیں ۔ 
ان کا کھانا پینا اعلیٰ ، ان کی شان نرالی ہے ۔ 
درسِ سیرت دیتے ہیں اور حالت شیطاں والی ہے ۔ 
کِس شعبے کو دیکھیں وامِق، کس شعبے کی بات کریں ۔ 
اِس سسٹم کے حصے ہیں سب کیسے ان کو مات کریں ۔ 

بڑھتا ہے جب ظلم و ستم تو آخر وہ مٹ جاتا ہے ۔ 
اِس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع ۔ 
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فع ۔ 
بحر ہندی/ متقارب مثمن مضاعف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔
جنوری سال 1998ء میں کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
نہ ‏ہو ‏جو ‏دل ‏میں ‏عقیدت ‏،تو ‏چاہتیں ‏کیسی ‏؟ ‏ـ ‏غزل  ‏ـ  شاعر ـــ غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

نہ ‏ہو ‏جو ‏دل ‏میں ‏عقیدت ‏،تو ‏چاہتیں ‏کیسی ‏؟ ‏ـ ‏غزل ‏ـ شاعر ـــ غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

 ***   ــــــــ  غزل  ــــــــ   *** 
                     غلام محمد وامِق 

نہ ہو جو دل میں عقیدت تو چاہتیں کیسی ـ؟
نظر یہ آتی ہیں ماتھے پہ سَلوَٹیں کیسی ؟ 

تراشتے ہو صفائی میں، کتنے ہی حیلے ۔ 
نہ ہو جو دل میں کدورت حکایتیں کیسی ؟ 

ہماری راہ سے اکثر چلے ہو کترا کر ـ
تم ہی بتاؤ یہ ہم سے محبتیں کیسی ـ؟

تمہاری مرضی محبت جسے بھی چاہو کرو ـ
اگر ہوں جبر سے حاصل تو چاہتیں کیسی ـ؟

نہیں نصیب میں اپنے اگر تیرا ملنا ـ
تو ہے، خدا کی مشیت، شکایتیں کیسی ـ؟

ہے تِیرَگی ہی حقیقت میں، روشنی کی امیں ـ
نہیں جو دل میں محبت،  تو نفرتیں کیسی ـ؟

نہی ہے کوئی بھی میرے قریب پھر بھی کیوں ۔ 
سنائی دیتی ہیں، مجھ کو یہ آہٹیں کیسی ـ؟  

ہماری کانٹوں پہ چل کر حیات گذری ہے ـ
وفا کی راہ میں چلنے سے راحتیں کیسی ـ؟

دیارِ عشق میں وامِق، سکوت ہے کیسا ـ؟ 
لگی ہوئی ہیں زبانوں پہ بندشیں کیسی ـ؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ 
بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ 
جون سال 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔
دولت ‏کے ‏سب ‏گورکھ ‏دھندے ـ‏ـ ‏نظم ‏ـ  ‏شاعر  ـ غلام ‏محمد ‏وامِق ‏.. ‏

دولت ‏کے ‏سب ‏گورکھ ‏دھندے ـ‏ـ ‏نظم ‏ـ ‏شاعر ـ غلام ‏محمد ‏وامِق ‏.. ‏

= نظم ۔ــ  دولت کے سب گورکھ دھندے =
       شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیا میں اندھیر مچا ہے ۔۔۔ ظالم منصف بنا ہوا ہے 
دیکھو کیسا دور ہے آیا ۔۔۔  باعثِ عزّت ہے سرمایا ۔
رشتے ناطے خواب ہوۓ ہیں۔۔۔مہر و وفا نایاب ہوۓ ہیں
شیطاں نے پھیلاۓ پھندے ۔۔۔ دولت کے سب گورکھ دھندے

دولت دیکھ کے جھکتے ہیں سَر۔۔۔دولت مسجد دولت مندر
دولت دین ہے، دولت مزہب ۔۔۔ غیرت عزّت دولت ہےسب 
دولت ہی مسجود ہوٸی ہے۔۔۔ دولت ہی معبود ہوٸی ہے ۔
دولت کے سب بن گٸے بندے۔۔۔دولت کے سب گورکھ دھندے

دولت کا ہر اِک شیداٸی ۔۔۔ دولتمند سب بھاٸی بھاٸی ۔
مفلِس سے ہے کس کا ناطہ۔۔۔دولت باپ ہے دولت بیٹا ۔
دولت ہے شیطاں کا حَربہ ۔۔۔ظلم و ستم ہے اس سے برپا ہِرص و ہوس میں ہیں سب اندھے۔دولتکے سب گورکھدھندے

دولت ہے دشمن انساں کی ۔۔۔یہ ہے خواہش ہر شیطاں کی 
اس سے ہی سب بنے ہیں شیطاں۔۔۔دولت آٸے، جاٸے ایماں 
گر منصف کی جھولی بھر دے ۔۔۔ مقتولوں کو قاتل کر دے
بھینسیں اُن کی جن کے ڈنڈے۔۔۔دولت کے سب گورکھدھندے

تھانہ کچہری اور عدالت ۔۔۔ مُفلِس کے حق میں ہے آفت ۔
کیسی یاری کیسی عداوت ۔۔۔ کیسی شفقت اور سخاوت ۔
کیسی دلیری اور شجاعت ۔۔۔کیسی وامِق ! تیری ریاضت
بن گٸے سب کھانے کے دھندے۔۔۔دولت کے سب گورکھ دھندے
دولت کے سب گورکھ دھندے۔۔۔دولت کے سب گورکھ دھندے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شاعر ــ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ...  دسمبر سال 1993 میں لکھی گٸی۔
Powered by Blogger.