سال 1975 کراچی میں پرانے زمانے کے بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے اسٹوڈیو میں کھنچوائی گئی تصویر جسے اب رنگین بنایا گیا۔
سال 1975 کراچی میں پرانے زمانے کے بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے اسٹوڈیو میں کھنچوائی گئی تصویر ۔جسے اب رنگین بنایا گیا
آج وفاتِ حضرت ابوبکر صدیق اکبر ہے اس نسبت سے اشعارِ منقبت - جِن کو رسولِ پاک نے صدّیق خود کہا جِن کو رفیقِ غار کا حاصل شرف ہُوا سردارِ دو جہان کے پہلوُ میں سوئے ہیں کتنا عظیم مرتبہ دیکھو انہیں مِلا اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے قائم اِسی عقیدے پہ دین و ایمان ہے ۔ شاعر- غلام محمد وامِق
آج وفاتِ حضرت ابوبکر صدیق اکبر ہے اس نسبت سے اشعارِ منقبت -
جِن کو رسولِ پاک نے صدّیق خود کہا
جِن کو رفیقِ غار کا حاصل شرف ہُوا
سردارِ دو جہان کے پہلوُ میں سوئے ہیں
کتنا عظیم مرتبہ دیکھو انہیں مِلا
اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے
قائم اِسی عقیدے پہ دین و ایمان ہے ۔
شاعر- غلام محمد وامِق
دلبر بروہی کی فرمائش پر ان کی نئی آنے والی کتاب کے لیے لکھی گئی نظم ۔ === دلبر بروہی === شاعر- غلام محمد وامِق دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ "تاریخ کا جو عکس" ہے اِن کی کتاب ہے ۔ اعلیٰ ترین ان کو قلم کاری کا ہے ذوق ۔ تاریخ کا بھی دیکھیے ان کو بڑا ہے شوق ۔ اِن میں خلوص اور وفا بے حساب ہے ۔ دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ ہالانی کا ہی شہر ہے اِن کا جَنَم سَتھان ۔ سندھ بھر میں ان کی دیکھیے قائم ہے آن بان ۔ اور گھر ہے اِن کا دوسرا دیکھو یہ محرابپور ۔ گاؤں سے یہ قریب ہے بالکل نہیں یہ دور ۔ اِس شہر کی فضاؤں میں گزرا شباب ہے ۔ دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ تاریخ سے ہے اِن کو لگاوٹ بہت بڑی ۔ لکھنے لکھانے سے ہے محبّت بہت بڑی ۔ تاریخ پر یہ دیکھیے لِکّھی نئی کتاب ۔ تاریخ میں اضافہ کیا ایک اور باب ۔ "تاریخ جی ہے واٹ" یہ تازہ کتاب ہے ۔ دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ـــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر - مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف مورخہ 22 نومبر 2025ء بروز ہفتہ کو کہی گئی
دلبر بروہی کی فرمائش پر ان کی نئی آنے والی کتاب کے لیے لکھی گئی نظم ۔
=== دلبر بروہی ===
شاعر- غلام محمد وامِق
دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔
"تاریخ کا جو عکس" ہے اِن کی کتاب ہے ۔
اعلیٰ ترین ان کو قلم کاری کا ہے ذوق ۔
تاریخ کا بھی دیکھیے ان کو بڑا ہے شوق ۔
اِن میں خلوص اور وفا بے حساب ہے ۔
دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔
ہالانی کا ہی شہر ہے اِن کا جَنَم سَتھان ۔
سندھ بھر میں ان کی دیکھیے قائم ہے آن بان ۔
اور گھر ہے اِن کا دوسرا دیکھو یہ محرابپور ۔
گاؤں سے یہ قریب ہے بالکل نہیں یہ دور ۔
اِس شہر کی فضاؤں میں گزرا شباب ہے ۔
دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔
تاریخ سے ہے اِن کو لگاوٹ بہت بڑی ۔
لکھنے لکھانے سے ہے محبّت بہت بڑی ۔
تاریخ پر یہ دیکھیے لِکّھی نئی کتاب ۔
تاریخ میں اضافہ کیا ایک اور باب ۔
"تاریخ جی ہے واٹ" یہ تازہ کتاب ہے ۔
دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔
بحر - مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مورخہ 22 نومبر 2025ء بروز ہفتہ کو کہی گئی
غزل= جانے والے کو کہاں بھول سکا ہے کوئی ۔ مَن کے آنگن میں ابھی گھوم رہا ہے کوئی ۔ خواب و بے خوابی برابر یوں ہوئی ہے مجھ پر ۔ آنکھیں مُون٘دوں تو مجھے پھر بھی دِکھا ہے کوئی ۔ ہم سمجھتے تھے کہ بِکنے کا نہیں ہر گز وہ ۔ دام اچھے تھے تو رغبت سے بِکا ہے کوئی ۔ قَت٘ل کی دیتا نہیں کوئی گواہی دیکھو ۔ سامنے سب کے عدالت میں مرا ہے کوئی ۔ سجدہ سمجھوں میں اِسے یا کہ عقیدت سمجھوں ۔ عاملِ شہر کے قدموں پہ جُھکا ہے کوئی ۔ اپنے مطلب کے لیے سودا بھی غیرت کا کیا ۔ تُھوک کر چاٹ لیا ایسا گِرا ہے کوئی ۔ دیکھ وامِق یہ زمانہ ہے فقط مطلب کا ۔ کب بھلا حِرص کے چکّر سے بچا ہے کوئی ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن بحر - رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔ یہ غزل 20 نومبر 2025ء بروز جمعرات مکمل ہوئی ۔
غزل
غلام محمد وامِق
جانے والے کو کہاں بھول سکا ہے کوئی ۔
مَن کے آنگن میں ابھی گھوم رہا ہے کوئی ۔
خواب و بے خوابی برابر یوں ہوئی ہے مجھ پر ۔
آنکھیں مُون٘دوں تو مجھے پھر بھی دِکھا ہے کوئی ۔
ہم سمجھتے تھے کہ بِکنے کا نہیں ہر گز وہ ۔
دام اچھے تھے تو رغبت سے بِکا ہے کوئی ۔
قَت٘ل کی دیتا نہیں کوئی گواہی دیکھو ۔
سامنے سب کے عدالت میں مرا ہے کوئی ۔
سجدہ سمجھوں میں اِسے یا کہ عقیدت سمجھوں ۔
عاملِ شہر کے قدموں پہ جُھکا ہے کوئی ۔
اپنے مطلب کے لیے سودا بھی غیرت کا کیا ۔
تُھوک کر چاٹ لیا ایسا گِرا ہے کوئی ۔
دیکھ وامِق یہ زمانہ ہے فقط مطلب کا ۔
کب بھلا حِرص کے چکّر سے بچا ہے کوئی ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
بحر - رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔
یہ غزل 20 نومبر 2025ء بروز جمعرات مکمل ہوئی ۔
غزل= کم ہیں لیکن ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ۔ جن سے مل کر دل کو راحت روح کو آئے سرور ۔ گردشوں میں گردشیں ہیں کیا پتا حالات کا ۔ کب تلک مجھ سے رہو گے تم بھلا یوں دور دور ۔ تیری گردن میں جو سریا آ گیا ہے دیکھنا ۔ خاک میں مل جائے گا اِک روز یہ سارا غرور ۔ قَب٘ل اس کے جو مجھے تم سنگ دل کہنے لگو ۔ اپنے اندازِ سُخَن پر غور فرمائیں حضور ۔ حِرصِ دولت بڑھ رہی ہے حضرتِ انسان میں ۔ جیسے بھی ہو مال ہم نے جَم٘ع کرنا ہے ضرور ۔۔ کچھ نہیں ملتا ہے جنگوں سے یہ وامِق جان لے ۔ عورتیں اور بَچًے بوڑھے مرتے ہیں سب بے قصور ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ۔ بحر - رمل مثمن محذوف ۔ یہ غزل 19 نومبر 2925ء بروز بدھ مکمل ہوئی ۔
غزل
غلام محمد وامِق
کم ہیں لیکن ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ۔
جن سے مل کر دل کو راحت روح کو آئے سرور ۔
گردشوں میں گردشیں ہیں کیا پتا حالات کا ۔
کب تلک مجھ سے رہو گے تم بھلا یوں دور دور ۔
تیری گردن میں جو سریا آ گیا ہے دیکھنا ۔
خاک میں مل جائے گا اِک روز یہ سارا غرور ۔
قَب٘ل اس کے جو مجھے تم سنگ دل کہنے لگو ۔
اپنے اندازِ سُخَن پر غور فرمائیں حضور ۔
حِرصِ دولت بڑھ رہی ہے حضرتِ انسان میں ۔
جیسے بھی ہو مال ہم نے جَم٘ع کرنا ہے ضرور ۔۔
کچھ نہیں ملتا ہے جنگوں سے یہ وامِق جان لے ۔
عورتیں اور بَچًے بوڑھے مرتے ہیں سب بے قصور ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ۔
بحر - رمل مثمن محذوف ۔
یہ غزل 19 نومبر 2925ء بروز بدھ مکمل ہوئی ۔
ادبی خدمات کے اعتراف میں مجھے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ مورخہ 09 نومبر 2025ء بروز اتوار ، کتابی میلہ محراب پور میں ۔
میری ادبی خدمات کے اعتراف میں مجھے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا ، الحمدللہ ۔ سچل کمیونٹی ڈیولپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن محراب پور سندھ کی طرف سے ، محراب پور میں منعقدہ تین روزہ کتاب میلے میں ۔ مورخہ 09 نومبر 2025ء بروز اتوار ۔
نظم - جالب کے نام غلام محمد وامِق اِک شخص بہادر ایسا تھا جو جُھکتا اور نہ بِکتا تھا ۔ وہ ظلم حکومت کے سہتا اور پھر بھی سچ ہی لکھتا تھا ۔ کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ۔ ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ۔ ہاں محنت کش مزدوروں کا بھی بوجھ اٹھایا اُس سَر نے ۔ وہ سَر جو کسی بھی آمر کے آگے نہ کبھی بھی جھکتا تھا ۔ اِک پَل نہ گوارا اُس نے کیا عیّاش حکومت میں رہنا ۔ مِسکین غریبوں کی خاطر وہ جیتا تھا اور مرتا تھا ۔ غُرَبا کے لیے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ۔ ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا وہ سچ کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ۔ بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ۔ وہ جالِب تو تھا سب ہی کا اور سب ہی کا وہ حبیب بھی تھا کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فَعِلن فعلن فعلن ۔ بحر- زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔ جنوری 1996ء میں کہی گئی نظم ۔
نظم - جالب کے نام
غلام محمد وامِق
اِک شخص بہادر ایسا تھا جو جُھکتا اور نہ بِکتا تھا ۔
وہ ظلم حکومت کے سہتا اور پھر بھی سچ ہی لکھتا تھا ۔
کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ۔
ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ۔
ہاں محنت کش مزدوروں کا بھی بوجھ اٹھایا اُس سَر نے ۔
وہ سَر جو کسی بھی آمر کے آگے نہ کبھی بھی جھکتا تھا ۔
اِک پَل نہ گوارا اُس نے کیا عیّاش حکومت میں رہنا ۔
مِسکین غریبوں کی خاطر وہ جیتا تھا اور مرتا تھا ۔
غُرَبا کے لیے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ۔
ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا
وہ سچ کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ۔
بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ۔
وہ جالِب تو تھا سب ہی کا اور سب ہی کا وہ حبیب بھی تھا
کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فَعِلن فعلن فعلن ۔
بحر- زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔
جنوری 1996ء میں کہی گئی نظم ۔
قطعہ - حبیب جالب شاعر- غلام محمد وامِق اِک شخص کہ جو شاعرِ درویش صفت تھا ۔ سرمائے کا خُوگَر تھا نہ شہرت کا وہ طالِب ۔ سچ کے لیے اُس نے تھا پیا زہر کا پیالہ ۔ کہتے تھے اسی مردِ مجاہد کو ہی جالِب ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن بحر- ہَزَج مثمن اخرب مکفوف محذوف اپریل 1993ء میں کہا گیا
قطعہ - حبیب جالب
شاعر- غلام محمد وامِق
اِک شخص کہ جو شاعرِ درویش صفت تھا ۔
سرمائے کا خُوگَر تھا نہ شہرت کا وہ طالِب ۔
سچ کے لیے اُس نے تھا پیا زہر کا پیالہ ۔
کہتے تھے اسی مردِ مجاہد کو ہی جالِب ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
بحر- ہَزَج مثمن اخرب مکفوف محذوف
اپریل 1993ء میں کہا گیا
نظم - بیادِ فیض غلام محمد وامِق آزادی کا ہے دیکھیے پیغام فیض کا ۔ انسانیت کے واسطے ہر کام فیض کا ۔ جذبات ہوں وہ پیار کے یا انقلاب کے ۔ زندان میں بھی جاری رہا کام فیض کا ۔ ہر شاعری میں آج بھی شامل ہے دیکھ فیض ۔ روشن رہے گا تا اَبَد اب نام فیض کا ۔ دنیائے شاعری میں ہے صدیوں پہ یہ محیط ۔ سُننے میں گو کہ چھوٹا ہے یہ نام فیض کا ۔ محشر میں اے خدا تو اُسے بخش دیجیو ۔ دُنیا میں کیا ہی خوب ہے انجام فیض کا ۔ وامِق ہو تم بھی فیض کے ممنون گر تو کیا ۔ فیضِ ادب ہُوا ہے سَرِ عام فیض کا ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ دسمبر 1984ء میں کہی گئی نظم ۔
نظم - بیادِ فیض
غلام محمد وامِق
آزادی کا ہے دیکھیے پیغام فیض کا ۔
انسانیت کے واسطے ہر کام فیض کا ۔
جذبات ہوں وہ پیار کے یا انقلاب کے ۔
زندان میں بھی جاری رہا کام فیض کا ۔
ہر شاعری میں آج بھی شامل ہے دیکھ فیض ۔
روشن رہے گا تا اَبَد اب نام فیض کا ۔
دنیائے شاعری میں ہے صدیوں پہ یہ محیط ۔
سُننے میں گو کہ چھوٹا ہے یہ نام فیض کا ۔
محشر میں اے خدا تو اُسے بخش دیجیو ۔
دُنیا میں کیا ہی خوب ہے انجام فیض کا ۔
وامِق ہو تم بھی فیض کے ممنون گر تو کیا ۔
فیضِ ادب ہُوا ہے سَرِ عام فیض کا ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
دسمبر 1984ء میں کہی گئی نظم ۔
ایک نظم - اقبال کے نام ۔ شاعر- غلام محمد وامِق اقبال کی جو فِکر ہے اُس پر ہمیں ہے ناز ۔ اقبال ہر زمانے میں رہتا ہے سرفراز ۔ اُمّت کے وہ حکیم تھے اور شاعرِ عوام ۔ مِلّت کے واسطے کیے اُس نے تمام کام ۔ اسلام کے عروج کی تھی اُن کو دیکھ فِکر ۔ اُن کے لبوں پہ رہتا تھا ہر دم خدا کا ذکر ۔ مشرق میں اُن کے فلسفے کی دھوم ہے مچی ۔ مغرب بھی اُن کی قدر تو کرتا ہے آج بھی ۔ طالب وہ خود کو کہتے تھے مولانا روم کے ۔ روحانی طور پر بھی جُڑے تھے وہ روم سے ۔ مدہوش ہم جو رہتے تھے لیل و نہار دیکھ ۔ سِرّ نہاں کو ہم پہ کیا آشکار دیکھ ۔ خودداری کا جو درس ہے، اقبال کا ہمیں ۔ قومی شعور اس سے ملا حال کا ہمیں ۔ شاہین کا لقب دیا اقبال نے ہمیں ۔ کرگس مگر بنا دیا ہے مال نے ہمیں ۔ ہم نے بھلا دیا ہے جو اقبال کا پیام ۔ ہم پھنس گئے ہیں مال کے اِس جال میں تمام ۔ اقبال کو بلند سدا رکھے گا خدا ۔ وامِق ہمیشہ کرتے رہو تم یہ ہی دعا ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ یہ نظم یکم نومبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔
ایک نظم - اقبال کے نام ۔
شاعر- غلام محمد وامِق
اقبال کی جو فِکر ہے اُس پر ہمیں ہے ناز ۔
اقبال ہر زمانے میں رہتا ہے سرفراز ۔
اُمّت کے وہ حکیم تھے اور شاعرِ عوام ۔
مِلّت کے واسطے کیے اُس نے تمام کام ۔
اسلام کے عروج کی تھی اُن کو دیکھ فِکر ۔
اُن کے لبوں پہ رہتا تھا ہر دم خدا کا ذکر ۔
مشرق میں اُن کے فلسفے کی دھوم ہے مچی ۔
مغرب بھی اُن کی قدر تو کرتا ہے آج بھی ۔
طالب وہ خود کو کہتے تھے مولانا روم کے ۔
روحانی طور پر بھی جُڑے تھے وہ روم سے ۔
مدہوش ہم جو رہتے تھے لیل و نہار دیکھ ۔
سِرّ نہاں کو ہم پہ کیا آشکار دیکھ ۔
خودداری کا جو درس ہے، اقبال کا ہمیں ۔
قومی شعور اس سے ملا حال کا ہمیں ۔
شاہین کا لقب دیا اقبال نے ہمیں ۔
کرگس مگر بنا دیا ہے مال نے ہمیں ۔
ہم نے بھلا دیا ہے جو اقبال کا پیام ۔
ہم پھنس گئے ہیں مال کے اِس جال میں تمام ۔
اقبال کو بلند سدا رکھے گا خدا ۔
وامِق ہمیشہ کرتے رہو تم یہ ہی دعا ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
یہ نظم یکم نومبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔
دولت کے سب گورکھ دھندے نظم = غلام محمد وامِق دُنیا میں اندھیر مچا ہے الٹا ہر اِک کام ہوا ہے ۔ دیکھو کیسا دور ہے آیا باعثِ عزّت ہے سرمایہ رشتے ناطے خواب ہوئے ہیں مہر و وفا نایاب ہوئے ہیں ۔ شیطاں نے پھیلائے پھندے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ دولت دیکھ کے جھکتے ہیں سَر دولت مسجد ، دولت مندَر ۔ دولت دین ہے ، دولت مذہب ۔ غیرت عزّت ، دولت ہے سب ۔ دولت ہی مسجود ہوئی ہے ۔ دولت ہی معبود ہوئی ہے ۔ دولت کے سب بن گئے بندے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ دولت کا ہر اِک شیدائی ۔ دولت مند ہیں بھائی بھائی ۔ مفلس سے ہے کِس کا ناطہ ۔ دولت باپ ہے ، دولت بیٹا ۔ دولت ہے شیطاں کا حربہ ۔ ظلم و ستم ہے اِس سے برپا ۔ حرص و ہَوَس میں ہیں سب اندھے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ دولت ہے دشمن انساں کی ۔ یہ ہے خواہش ہر شیطاں کی ۔ اسی سے اکثر بنے ہیں شیطاں ۔ دولت آئے ، جائے ایماں ۔ گر مُنصِف کی جھولی بھر دے ۔ مقتولوں کو قاتِل کر دے ۔ بھینسیں اُن کی جن کے ڈنڈے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ تھانہ کچہری اور عدالت ۔ مُفلِس کے حق میں ہے آفت ۔ کیسی یاری کیسی عداوت ۔ کیسی شفقت اور سخاوت ۔ کیسی دلیری اور شجاعت ۔ کیسی وامِق تیری ریاضت ۔ بن گئے سب کھانے کے دھندے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فعلن فعلن فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن ۔ بحر- ہندی متقارب اثرم مقبوض محذوف ۔ دسمبر 1993ء میں کہی گئی ۔
دولت کے سب گورکھ دھندے
نظم = غلام محمد وامِق
دُنیا میں اندھیر مچا ہے
الٹا ہر اِک کام ہوا ہے ۔
دیکھو کیسا دور ہے آیا
باعثِ عزّت ہے سرمایہ
رشتے ناطے خواب ہوئے ہیں
مہر و وفا نایاب ہوئے ہیں ۔
شیطاں نے پھیلائے پھندے ۔
دولت کے سب گورکھ دھندے ۔
دولت دیکھ کے جھکتے ہیں سَر
دولت مسجد ، دولت مندَر ۔
دولت دین ہے ، دولت مذہب ۔
غیرت عزّت ، دولت ہے سب ۔
دولت ہی مسجود ہوئی ہے ۔
دولت ہی معبود ہوئی ہے ۔
دولت کے سب بن گئے بندے ۔
دولت کے سب گورکھ دھندے ۔
دولت کا ہر اِک شیدائی ۔
دولت مند ہیں بھائی بھائی ۔
مفلس سے ہے کِس کا ناطہ ۔
دولت باپ ہے ، دولت بیٹا ۔
دولت ہے شیطاں کا حربہ ۔
ظلم و ستم ہے اِس سے برپا ۔
حرص و ہَوَس میں ہیں سب اندھے ۔
دولت کے سب گورکھ دھندے ۔
دولت ہے دشمن انساں کی ۔
یہ ہے خواہش ہر شیطاں کی ۔
اسی سے اکثر بنے ہیں شیطاں ۔
دولت آئے ، جائے ایماں ۔
گر مُنصِف کی جھولی بھر دے ۔
مقتولوں کو قاتِل کر دے ۔
بھینسیں اُن کی جن کے ڈنڈے ۔
دولت کے سب گورکھ دھندے ۔
تھانہ کچہری اور عدالت ۔
مُفلِس کے حق میں ہے آفت ۔
کیسی یاری کیسی عداوت ۔
کیسی شفقت اور سخاوت ۔
کیسی دلیری اور شجاعت ۔
کیسی وامِق تیری ریاضت ۔
بن گئے سب کھانے کے دھندے ۔
دولت کے سب گورکھ دھندے ۔
دولت کے سب گورکھ دھندے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فعلن فعلن فعل فعولن
فعل فعولن فعل فعولن ۔
بحر- ہندی متقارب اثرم مقبوض محذوف ۔
دسمبر 1993ء میں کہی گئی ۔
تصاویر ، مجسمے ، قلعے ، حوضوں کے برابر بڑے بڑے پیالے یا تھال اور بڑی بڑی دیگیں جو کہ چولہوں پر دھری ہوئی ہوتی تھیں، جنّات ( یعنی حیرت انگیز طور پر انتہائی ماہر کاریگر ، آرکیٹیکچر اور انجینئرز) حضرت سلیمان کے لیے تیار کرتے تھے ۔ آیت نمبر 13 ، سورہ سبا ۔
تصاویر ، مجسمے ، قلعے ، حوضوں کے برابر بڑے بڑے پیالے یا تھال اور بڑی بڑی دیگیں جو کہ چولہوں پر دھری ہوئی ہوتی تھیں، جنّات ( یعنی حیرت انگیز طور پر انتہائی ماہر کاریگر ، آرکیٹیکچر اور انجینئرز) حضرت سلیمان کے لیے تیار کرتے تھے ۔ لفظ تماثیل کا مطلب تصاویر بھی ہوتا ہے اور مجسمے بھی ، اور دونوں بھی یعنی مجسمے اور تصاویر دونوں بناتے تھے ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر شرک کی نیت نہیں ہے تو تصاویر اور مجسمے بنانا ممنوع نہیں ہیں ۔
آیت نمبر 13 ، سورہ سبا ۔
ھریانوی نظم " آپنَے دیس کا حال " غلام محمد وامِق مھارَے دیس کی ماٹی مَیں تَے لِکڑَیں دیکھو ھیرے موتی ۔ کھاجَیں سب یہ مال لٹیرے قوم پھرَے سَے روتی روتی ۔ مِل جُل کَے نَیں لُٹ ٹیں ھام نَیں حاکم مھارے اِیسے اِیسے ۔ اِسے وجہ سَے مانگ کَے کھاوَیں ھالی ار مجدور بی روٹی ۔ سب پَے اے مانگَیں سَیں یہ قرضہ نام عوام کا لَے لَے کَے نَیں ۔ پھیر بی آپنے لوگاں کی یَیں کھاوَیں کر کَے تِکّہ بوٹی ۔ خان بڈیرے بَن جَیں سَیں یَیں خون چوس کَے مجبوراں کا ۔ مال پرایا کھا کھا کَے نَیں نیاڑ بی ھوجَے اِن کی موٹی ۔ عیش کَرَیں یہ بُڈ ڈے ھَوکَے، جاکَے باھر کے مُلکاں مَیں ۔ گات پَے مھارَے چھوڈی کونی اِن نَیں چھوٹی سی لنگوٹی ۔ کر کَے مال جخیرہ اِن نَیں کردی دیکھو مہنگائی ۔ پَیچ جو اِن کے کَسے جاوَیں تو سب نَیں مِل جَے گی روٹی ۔ اللّٰہ کی ھر نعمت سَے اِس دیس مَیں پھیر بی کیوں وامِق ؟ گات پَے کوئے لَتّا کونی قسمت ھوگی کیوں کھوٹی ؟ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ بحر- متقارب مثمن مضاعف ۔ پہلے دو اشعار - متقارب اثرم مقبوض محذوف مضاعف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 25 ستمبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔
ھریانوی نظم
" آپنَے دیس کا حال "
غلام محمد وامِق
مھارَے دیس کی ماٹی مَیں تَے لِکڑَیں دیکھو ھیرے موتی ۔
کھاجَیں سب یہ مال لٹیرے قوم پھرَے سَے روتی روتی ۔
مِل جُل کَے نَیں لُٹ ٹیں ھام نَیں حاکم مھارے اِیسے اِیسے ۔
اِسے وجہ سَے مانگ کَے کھاوَیں ھالی ار مجدور بی روٹی ۔
سب پَے اے مانگَیں سَیں یہ قرضہ نام عوام کا لَے لَے کَے نَیں ۔
پھیر بی آپنے لوگاں کی یَیں کھاوَیں کر کَے تِکّہ بوٹی ۔
خان بڈیرے بَن جَیں سَیں یَیں خون چوس کَے مجبوراں کا ۔
مال پرایا کھا کھا کَے نَیں نیاڑ بی ھوجَے اِن کی موٹی ۔
عیش کَرَیں یہ بُڈ ڈے ھَوکَے، جاکَے باھر کے مُلکاں مَیں ۔
گات پَے مھارَے چھوڈی کونی اِن نَیں چھوٹی سی لنگوٹی ۔
کر کَے مال جخیرہ اِن نَیں کردی دیکھو مہنگائی ۔
پَیچ جو اِن کے کَسے جاوَیں تو سب نَیں مِل جَے گی روٹی ۔
اللّٰہ کی ھر نعمت سَے اِس دیس مَیں پھیر بی کیوں وامِق ؟
گات پَے کوئے لَتّا کونی قسمت ھوگی کیوں کھوٹی ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بحر- متقارب مثمن مضاعف ۔
پہلے دو اشعار - متقارب اثرم مقبوض محذوف مضاعف ۔
شاعر - غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 25 ستمبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔
हरियाणवी कविता
आप्णे देस का हाल
ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़
म्हारे देश की माट्टी म्हं तै लिकड़ैं देक्खौ हीरे-मोत्ती ।
खा जैं सब यें माल़ लुटेरे क़ौम फिरै सै रोत्ती- रोत्ती ।
मिल जुल कै नै लुट्टैं हाम्नैं हाकिम म्हारे इसे-इसे ।
इसे वजह सै मांग कै खावैं हाल़ी अर मजदूर बि रोट्टी ।
सबपै ए मांग्गैं सैं यें क़र्ज़ा नाम अवाम का ले ले कै नै।
फेर बि आप्णे लोगां की यें खावैं कर कै तिक्का-बोट्टी ।
ख़ान बडेरे बण जैं सैं यें खून चूस कै मजबूरां का ।
माल पराया खा खा कै नै नियाड़ बि हो जै इनकी मोटी ।
ऐश करैं यें बुड्डे हो कै, जा कै बाहर के मुल्कां मं ।
गात पै म्हारे छोड्डी कोनी इन नै छोट्टी सी लंगोट्टी ।
कर कै माल जखीरा इन नै कर दी देक्खो महंगाई।
पेच जो इनके कसे जावैं तो सब नै मिल जै गी रोट्टी ।
अल्लाह की हर नेमत सै इस देश मं फेर बि क्यूं वामिक़ ।
गात पै कोए लत्ता कोनी किस्मत होगी क्यूं खोट्टी ? ।
कवि - ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़
ھریانوی غزل - کام کِمے نئیں کرنا ھام نَیں نارے مار دے رھنا بس ۔ کِسے نَیں گھٹیا بولنا سَے تو کِسے نَیں بڈیا کہنا بس ۔ آپس مَیں اے لڑدے رہنا مجہب ار عقیدیاں پَے ۔ ناں سائنس ناں ٹیکنالوجی مارو ماری کرنا بس ۔ کوئے جِسا بی کام کَرے گا اس نے اَس کا پھل مل جَے گا ۔ قدرت کا قانون سَے یُو اے کرنَے کا سَے بھرنا بس ۔ جو بویا سَے کاٹنا سَے وہ قدرت کا دستور پرانا ۔ کانڈے تھام نَیں بوئے سَیں تو جخمی تھام نَیں ھونا بس ۔ انساناں کا جنگل سَے یُو دیکھو سارے بَیری سَیں ۔ آپنی ھمت آپے کر کَے پار یُو جنگل کرنا بس ۔ دُنیا کَے جو گَیل چلو گے جِبَے تو منجل پاؤ گے ۔ سمجھو گے جو سب نَیں بَیری پھیر تو پچھے اے رہنا بس ۔ کِس نَیں وامِق سمجھاوَے گا کوئے بی سننے آلا نئیں ۔ چالو گے جو مُوند کَے آنکھاں کھڈے مَیں پَھیر تو گِرنا بس ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق
ھریانوی غزل
غزل
غلام محمد وامِق
کام کِمے نئیں کرنا ھام نَیں نارے مار دے رھنا بس ۔
کِسے نَیں گھٹیا بولنا سَے تو کِسے نَیں بڈیا کہنا بس ۔
آپس مَیں اے لڑدے رہنا مجہب ار عقیدیاں پَے ۔
ناں سائنس ناں ٹیکنالوجی مارو ماری کرنا بس ۔
کوئے جِسا بی کام کَرے گا اس نے اَس کا پھل مل جَے گا ۔
قدرت کا قانون سَے یُو اے کرنَے کا سَے بھرنا بس ۔
جو بویا سَے کاٹنا سَے وہ قدرت کا دستور پرانا ۔
کانڈے تھام نَیں بوئے سَیں تو جخمی تھام نَیں ھونا بس ۔
انساناں کا جنگل سَے یُو دیکھو سارے بَیری سَیں ۔
آپنی ھمت آپے کر کَے پار یُو جنگل کرنا بس ۔
دُنیا کَے جو گَیل چلو گے جِبَے تو منجل پاؤ گے ۔
سمجھو گے جو سب نَیں بَیری پھیر تو پچھے اے رہنا بس ۔
کِس نَیں وامِق سمجھاوَے گا کوئے بی سننے آلا نئیں ۔
چالو گے جو مُوند کَے آنکھاں کھڈے مَیں پَھیر تو گِرنا بس ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔
شاعر - غلام محمد وامِق
دُنیا بھر کے شعراء کی عالمی ڈکشنری شایع ہو گئی ہے ، جس میں الحمدللہ میرا نام بھی شامل ہے صفحہ نمبر -181 کا عکس ـ یہ ڈکشنری بھارت کے شہر دربھنگہ سے محترم مشتاق احمد دربھنگوی صاحب Mushtaque Darbhangvi نے شایع کی ہے ۔
دُنیا بھر کے شعراء کی عالمی ڈکشنری شایع ہو گئی ہے ، جس میں الحمدللہ میرا نام بھی شامل ہے صفحہ نمبر -181 کا عکس ـ یہ ڈکشنری بھارت کے شہر دربھنگہ سے محترم مشتاق احمد دربھنگوی صاحب Mushtaque Darbhangvi نے شایع کی ہے ۔
دشمنوں کی دشمنی نے مجھ پہ احساں کر دیا ۔ جو سفر مشکل تھا مجھ پر وہ بھی آساں کر دیا ۔ یوں تو تھا، میں دشمنوں کے واسطے آساں ہَدَف ۔ پر خدا نے اُن کو ہی دست و گریباں کر دیا ۔ مسکرا کر دیکھتا ہے وہ مسلسل اب ہمیں ۔ دُشمنِ جاں نے ہمیں دیکھو پریشاں کر دیا ۔ جلد ہی ہوگا تمہارا بھی مکافاتِ عمل ۔ گو کہ تم نے ہم کو اب قیدیء زنداں کر دیا ۔ مسکرا کر ہم جو آئے جانبِ دار و رَسَن ۔ اِس عمل نے دیکھیے قاتل پریشاں کر دیا ہم نہیں پیچھے ہٹے اپنے عزائم سے مگر ۔ اُن کو آزادی کے نعرے نے حراساں کر دیا ۔ یہ ہمارے خوابِ آزادی بہت انمول ہیں ۔ تم نے اپنے زعم میں خوابوں کو ارزاں کر دیا ۔ وقت ہے وامِق ہمارے سارے دردوں کا علاج ۔ رات دن کے اِس تغیّر نے تو حیراں کر دیا ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن ۔ بحر - رمل مثمن محذوف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 06 ستمبر 2025ء مطابق 12 ربیع الاوّل 1447ھ بروز ہفتہ کہی گئی غزل ۔
غزل
غلام محمد وامِق
دشمنوں کی دشمنی نے مجھ پہ احساں کر دیا ۔
جو سفر مشکل تھا مجھ پر وہ بھی آساں کر دیا ۔
یوں تو تھا، میں دشمنوں کے واسطے آساں ہَدَف ۔
پر خدا نے اُن کو ہی دست و گریباں کر دیا ۔
مسکرا کر دیکھتا ہے وہ مسلسل اب ہمیں ۔
دُشمنِ جاں نے ہمیں دیکھو پریشاں کر دیا ۔
جلد ہی ہوگا تمہارا بھی مکافاتِ عمل ۔
گو کہ تم نے ہم کو اب قیدیء زنداں کر دیا ۔
مسکرا کر ہم جو آئے جانبِ دار و رَسَن ۔
اِس عمل نے دیکھیے قاتل پریشاں کر دیا
ہم نہیں پیچھے ہٹے اپنے عزائم سے مگر ۔
اُن کو آزادی کے نعرے نے حراساں کر دیا ۔
یہ ہمارے خوابِ آزادی بہت انمول ہیں ۔
تم نے اپنے زعم میں خوابوں کو ارزاں کر دیا ۔
وقت ہے وامِق ہمارے سارے دردوں کا علاج ۔
رات دن کے اِس تغیّر نے تو حیراں کر دیا ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن ۔
بحر - رمل مثمن محذوف ۔
شاعر - غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 06 ستمبر 2025ء مطابق 12 ربیع الاوّل 1447ھ بروز ہفتہ کہی گئی غزل ۔
مدینہ شاعر - غلام محمد وامِق حَسیں منظر حَسیں گُنبد ضیا دیکھو مدینے کی ۔ چلے آؤ مسَلمانو فضا دیکھو مدینے کی ۔ بَرَستی ہے یہاں رحمت شریف النفس ہیں سارے ۔ سُکونِ دل سُکونِ جاں حیا دیکھو مدینے کی ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔ بحر - ہَزج مثمن سالم ۔ مورخہ 03 اگست 2016ء کو کہے گئے اشعار ۔
مدینہ
شاعر - غلام محمد وامِق
حَسیں منظر حَسیں گُنبد ضیا دیکھو مدینے کی ۔
چلے آؤ مسَلمانو فضا دیکھو مدینے کی ۔
بَرَستی ہے یہاں رحمت شریف النفس ہیں سارے ۔
سُکونِ دل سُکونِ جاں حیا دیکھو مدینے کی ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔
بحر - ہَزج مثمن سالم ۔
مورخہ 03 اگست 2016ء کو کہے گئے اشعار ۔
اُن سنہری دنوں کی یادگار غزل جب خطوط لکھے جاتے تھے ، پڑھے جاتے تھے اور خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا ۔ غزل غلام محمد وامِق آج بھی ہوں منتظر اے کاش اُن کا آئے خط ۔ کچھ تو لکھیں وہ مجھے نفرت بھرا ہو چاہے خط ۔ اُن کی جانب سے کبھی ملتا نہیں خط کا جواب ۔ دل تو پاگل ہے مرا یہ بارہا لکھوائے خط ۔ انتظارِ حشر ہے یا تیرے خط کا انتظار ۔ روز راہیں دیکھتا ہوں کاش تیرا آئے خط ۔ کِس لیے ہوں منتظر اب کون لکھے گا مجھے ۔ جب مرا کوئی نہیں تو پھر کہاں سے آئے خط ۔ لِکھ رہا ہوں اِس تصوّر سے میں اُس کو بار بار ۔ کِس ادا سے پھاڑ ڈالے گا وہ ظالم ہائے خط ۔ چاک کرنا میرے خط کو اُس کی عادت ہے تو کیا ۔ لَمس میرے ہاتھ کا اُس ہاتھ تک پہنچائے خط ۔ کب سے ہم خط کے لیے خط آنے کے تھے منتظر ۔ ہے عجب یہ کھیل خط کا خط جو آیا آئے خط ۔ لکھ رہے ہو تم خطوں میں محفلوں کی داستاں ۔ اِس جگہ تنہائیوں میں دل مرا تڑپائے خط ۔ کیا ہوا جو فاصلے ہیں تیرے میرے درمیاں ۔ نِصف وصلِ یار کی لذت ہمیں پہنچائے خط ۔ تیرے خط سے ہوتی ہے تسکین میرے شوق کو ۔ اِضطرابِ ہجر میں یہ دل مرا بہلائے خط ۔ یہ ستم بھی ہے عجب ہم کو مِلا ایسا رقیب ۔ جب بھی خط لکھوائے اُن کو ہم سے ہی لکھوائے خط ۔ ہے اندھیری رات میں روشن لکیرِ کہکشاں ۔ کالی زلفوں میں عجب سی روشنی پھیلائے خط ۔ کِس قیامت کی گھڑی لکھا تھا وامِق تونے خط ۔ اُس کے کوچے میں ہے اب تک حشر برپا ہائے خط ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن بحر - رمل مثمن محذوف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق فروری 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔
اُن سنہری دنوں کی یادگار غزل جب خطوط لکھے جاتے تھے ، پڑھے جاتے تھے اور خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا ۔
غزل غلام محمد وامِق
آج بھی ہوں منتظر اے کاش اُن کا آئے خط ۔
کچھ تو لکھیں وہ مجھے نفرت بھرا ہو چاہے خط ۔
اُن کی جانب سے کبھی ملتا نہیں خط کا جواب ۔
دل تو پاگل ہے مرا یہ بارہا لکھوائے خط ۔
انتظارِ حشر ہے یا تیرے خط کا انتظار ۔
روز راہیں دیکھتا ہوں کاش تیرا آئے خط ۔
کِس لیے ہوں منتظر اب کون لکھے گا مجھے ۔
جب مرا کوئی نہیں تو پھر کہاں سے آئے خط ۔
لِکھ رہا ہوں اِس تصوّر سے میں اُس کو بار بار ۔
کِس ادا سے پھاڑ ڈالے گا وہ ظالم ہائے خط ۔
چاک کرنا میرے خط کو اُس کی عادت ہے تو کیا ۔
لَمس میرے ہاتھ کا اُس ہاتھ تک پہنچائے خط ۔
کب سے ہم خط کے لیے خط آنے کے تھے منتظر ۔
ہے عجب یہ کھیل خط کا خط جو آیا آئے خط ۔
لکھ رہے ہو تم خطوں میں محفلوں کی داستاں ۔
اِس جگہ تنہائیوں میں دل مرا تڑپائے خط ۔
کیا ہوا جو فاصلے ہیں تیرے میرے درمیاں ۔
نِصف وصلِ یار کی لذت ہمیں پہنچائے خط ۔
تیرے خط سے ہوتی ہے تسکین میرے شوق کو ۔
اِضطرابِ ہجر میں یہ دل مرا بہلائے خط ۔
یہ ستم بھی ہے عجب ہم کو مِلا ایسا رقیب ۔
جب بھی خط لکھوائے اُن کو ہم سے ہی لکھوائے خط ۔
ہے اندھیری رات میں روشن لکیرِ کہکشاں ۔
کالی زلفوں میں عجب سی روشنی پھیلائے خط ۔
کِس قیامت کی گھڑی لکھا تھا وامِق تونے خط ۔
اُس کے کوچے میں ہے اب تک حشر برپا ہائے خط ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
بحر - رمل مثمن محذوف ۔
شاعر - غلام محمد وامِق
فروری 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔
تین مزید ہائیکو ۔ کے پی اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں تباہ کن بارشوں پر میں نے مزید تین ہائیکو کہی ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ
کے پی اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں تباہ کن بارشوں پر سہیل احمد صدیقی کی خواہش پر میں نے مزید تین ہائیکو کہی ہیں ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
غلام محمد وامِق
کیسی برسی ہے
رحمت ہے یا زحمت ہے
بارش برسی ہے
کرنی کے باعث
بارش طوفاں اور بھونچال
باہم آئے ہیں
مسکینوں کے گھر
بارش کھل کے برسی جب
بہہ گئے سب آخر
شاعر - غلام محمد وامِق محراب پور سندھ
ہائیکو کے سرپرست اور ماہرِ لسانیات جناب سہیل احمد صدیقی صاحب کے مشورے سے میں نے مزید چھ عدد ہائیکو کہی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں سہیل احمد صدیقی = میرے شانوں پر دیکھو آ کر پھیلا ہے زلفوں کا بادل = میرے گلشن میں کتنا اچھا موسم ہے کوئل بولی ہے = آنکھیں تکتی ہیں پنچھی سارے گھر آئے تم کب لوٹو گے = صحرا میں ہم ہیں بے گھر ہم کہلاتے ہیں ان کے کہنے پر = تیرے لفظوں سے بارش ہونے والی ہے میری آنکھوں سے = پاس نہیں تو کیا میرا دل بہلاتی ہے سپنوں میں آ کر
پاکستان میں ہائیکو کے سرپرست اور ماہرِ لسانیات جناب سہیل احمد صدیقی صاحب کے مشورے پر الحمدللہ میں نے مزید چھ عدد ہائیکو کہی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں
سہیل احمد صدیقی
میرے شانوں پر
دیکھو آ کر پھیلا ہے
زلفوں کا بادل
میرے گلشن میں
کتنا اچھا موسم ہے
کوئل بولی ہے
آنکھیں تکتی ہیں
پنچھی سارے گھر آئے
تم کب لوٹو گے
صحرا میں ہم ہیں
بے گھر ہم کہلاتے ہیں
ان کے کہنے پر
تیرے لفظوں سے
بارش ہونے والی ہے
میری آنکھوں سے
پاس نہیں تو کیا
میرا دل بہلاتی ہے
سپنوں میں آ کر
میری سندھی زبان میں شاعری ، تین عدد سندھی غزلیں اور ایک سندھی قطعہ ( چو سٹو)
سنڌي چو سٽو
غلام محمد وامِق
تون مجبور سمجھي جفائون ڀلي ڪر .
مان ديوانو آھيان وفائون ڪيان ٿو .
صُبُح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ .
سڄڻ مان ته تو کي دعائون ڪيان ٿو.
____________
فعولن فعولن فعولن فعولن.
بحر- متقارب مثمن سالم .
نومبر 1987ء ۾ چيل شاعري .
سنڌي غزل
غلام محمد وامِق
ھي سورن کي سنھنجا ڪري ٿي محبت.
ھي ٽانڊن کي گلڙا ڪري ٿي محبت.
عجب معجزا ھي محبت جا ڏس تون .
پراون کي پنھنجا ڪري ٿي محبت .
ھي دنيا محبت سان گلزار آھي .
زماني تي ٿورا ڪري ٿي محبت.
محبت جا جلوا تڏھن مار ڪن ٿا .
جڏھن ناز نخرا ڪري ٿي محبت.
محبت جي جادو کي سمجھڻ آ مشڪل .
جو ڪوجھن کي سھڻا ڪري ٿي محبت .
حقيقت ۾ پاڻي جو قطرو آ دنيا.
ھي قطري کي دريا ڪري ٿي محبت.
غرور ۽ وڏائي جي بت کي سدائين.
ڀڃي ڀورا ڀورا ڪري ٿي محبت.
سبق ھي شجاعت جو سڀ کي ڏئي ٿي.
ضعيفن کي سوڍا ڪري ٿي محبت.
محبت ئي وامِق کي وامِق ٿي ٺاھي .
۽ عذرا کي عذرا ڪري ٿي محبت.
_________________
فعولن فعولن فعولن فعولن.
بحر- متقارب مثمن سالم.
ھي غزل نومبر 1987ء ۾ چئي وئي .
سنڌي غزل
غلام محمد وامِق
جي مون ڏي پيار سان پيارا نھاريندين ته ڇا ٿيندو .
ٻري ٿي ٻاھ ھن دل ۾ جي ٺاريندين ته ڇا ٿيندو.
ازل کان آھي دل پياسي مٺا تنھنجي ئي درشن جِي .
جَي مون کي شربتِ ديدار پياريندين ته ڇا ٿيندو.
سدائين رات ڏينهن پيارا رقيبن سان رھين ٿو گڏ .
اچي ٻه چار گھڙيون مون سان گھاريندين ته ڇا ٿيندو.
ستايل دنيا جا آھيون رڳو ڪو ھڪڙو غم ناھي .
اي منھنجا دوست، جي تون به ستائيندين ته ڇا ٿيندو.
حياتيء ۾ ته پڇيو حال به منھنجو نه تون وامِق.
قَبَر تي منھنجي تون ڳوڙھا وھائيندين ته ڇا ٿيندو.
------------------------
مفاعيلن مفاعيلن مفاعيلن مفاعيلن.
بحر- ھزج مثمن سالم.
اھا غزل فيبروري 1987ء ۾ چئي وئي.
غزل
غلام محمد وامِق
وڏيرن کي بي جي تون حق ٻڌائيندين ته ڇا ٿيندو.
فرعوني ٻاھ کي رت سان وسائيندين ته ڇا ٿيندو.
وڌل آھي ڳچين ۾ ھي غلاميء جو اسان کي طوق .
فرنگيء جي نظامن کي تون ڊاھيندين ته ڇا ٿيندو.
غريبن ۽ مزورن جو سدائين رت پيئن ٿا جي .
انھن وحشي درندن کي مٽائيندين ته ڇا ٿيندو.
وطن سان جنھن کي ڪا الفت نه ڪو ايمان آ جنھن جو.
مئل جزبات جي ان جا اڀاريندين ته ڇا ٿيندو.
ھي دنيا سامراجي آ سڄي دنيا کي ڊاھي ڇڏ .
رڳو پنھنجي ئي دنيا پاڻ ڊاھيندين ته ڇا ٿيندو.
اسان کي ھڪڙي ڏينھن وامِق زماني کان ئي اٿڻو آ .
سڄڻ جي پنھنجي محفل کان اٿاريندين ته ڇا ٿيندو.
--------------------------
مفاعيلن مفاعيلن مفاعيلن مفاعيلن.
بحر- ھزج مثمن سالم.
اھا غزل جنوري 1991ء ۾ چئي وئي
نہ ہو جو دل میں عقیدت تو چاہتیں کیسی ـ؟ نظر یہ آتی ہیں ماتھے پہ سَلوَٹیں کیسی ؟ تراشتے ہو صفائی میں، کتنے ہی حیلے ۔ نہ ہو جو دل میں کدورت وضاحتیں کیسی ؟ ہماری راہ سے اکثر چلے ہو کترا کر ـ تم ہی بتاؤ یہ ہم سے محبتیں کیسی ـ؟ تمہاری مرضی محبت جسے بھی چاہو کرو ـ اگر ہوں جبر سے حاصل تو چاہتیں کیسی ـ؟ نہیں نصیب میں اپنے اگر تیرا ملنا ـ تو ہے، خدا کی مشیت، شکایتیں کیسی ـ؟ ہے تِیرَگی ہی حقیقت میں، روشنی کی امیں ـ نہیں جو دل میں محبت، تو نفرتیں کیسی ـ؟ نہی ہے کوئی بھی میرے قریب پھر بھی کیوں ۔ سنائی دیتی ہیں، مجھ کو یہ آہٹیں کیسی ـ؟ ہماری کانٹوں پہ چل کر حیات گذری ہے ـ وفا کی راہ میں چلنے سے راحتیں کیسی ـ؟ دیارِ عشق میں وامِق، سکوت ہے کیسا ـ؟ لگی ہوئی ہیں زبانوں پہ بندشیں کیسی ـ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ جون سال 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔
*** ــــــــ غزل ــــــــ ***
غلام محمد وامِق
نہ ہو جو دل میں عقیدت تو چاہتیں کیسی ـ؟
نظر یہ آتی ہیں ماتھے پہ سَلوَٹیں کیسی ؟
تراشتے ہو صفائی میں، کتنے ہی حیلے ۔
نہ ہو جو دل میں کدورت وضاحتیں کیسی ؟
ہماری راہ سے اکثر چلے ہو کترا کر ـ
تم ہی بتاؤ یہ ہم سے محبتیں کیسی ـ؟
تمہاری مرضی محبت جسے بھی چاہو کرو ـ
اگر ہوں جبر سے حاصل تو چاہتیں کیسی ـ؟
نہیں نصیب میں اپنے اگر تیرا ملنا ـ
تو ہے، خدا کی مشیت، شکایتیں کیسی ـ؟
ہے تِیرَگی ہی حقیقت میں، روشنی کی امیں ـ
نہیں جو دل میں محبت، تو نفرتیں کیسی ـ؟
نہی ہے کوئی بھی میرے قریب پھر بھی کیوں ۔
سنائی دیتی ہیں، مجھ کو یہ آہٹیں کیسی ـ؟
ہماری کانٹوں پہ چل کر حیات گذری ہے ـ
وفا کی راہ میں چلنے سے راحتیں کیسی ـ؟
دیارِ عشق میں وامِق، سکوت ہے کیسا ـ؟
لگی ہوئی ہیں زبانوں پہ بندشیں کیسی ـ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔
بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔
جون سال 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔
ھریانوی غزل = چاند پہ مانس چلے گئے پر دلاں مَیں بسنا بھول گئے ۔ انٹرنیٹ پہ رھن لاگ گے گھراں میں رھنا بھول گئے ۔ ایک بگڑ مَیں سویا کردے مِل کَے نَیں سب بھائی بھائی ۔ بنگلے گاڈی سب نَیں لے لی مِلنا جُلنا بھول گئے ۔ دیکھو بَڈیاں کی عِجَت آلا دور تو کَد کا چلیا گیا ۔ اِب تو چھوٹے ، بَڈیاں کَے گلَّے بات بی کرنا بھول گئے ۔ پنکھ پکھیرو اُڈن لاگ رے، ھام جو لالچ مَیں آئے ۔ اِسے پھنسے ھاں جال مَیں آ کَے، دانہ چُگنا بھول گئے ۔ مَن کا دریا چُپ سا ہوگیا کوئے بی اِس مَیں شور نہیں ۔ پیار کی لہراں کا وہ دریا، سُندر سپنا بھول گئے ۔ ڈاکو کیوکر بن گیا وہ، مجدور جو بالَک پالَے تھا ۔ قاضی جی نَیں سب کچھ پوچھا، پر اتنا پوچھنا بھول گئے ۔ بَکھت بڑا اے جالم سَے یُو، وامِق سوچ ریا سَے کے ؟ بُڈّے ہوگے ٹھاٹھ باٹھ تَے رھنا سھنا بھول گئے ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔ مورخہ 25 جولائی 2025 ء کو کہی گئی غزل ۔۔۔
ھریانوی غزل
غلام محمد وامِق
چاند پہ مانس چلے گئے پر دلاں مَیں بسنا بھول گئے ۔
انٹرنیٹ پہ رھن لاگ گے گھراں میں رھنا بھول گئے ۔
ایک بگڑ مَیں سویا کردے مِل کَے نَیں سب بھائی بھائی ۔
بنگلے گاڈی سب نَیں لے لی مِلنا جُلنا بھول گئے ۔
دیکھو بَڈیاں کی عِجَت آلا دور تو کَد کا چلیا گیا ۔
اِب تو چھوٹے ، بَڈیاں کَے گلَّے بات بی کرنا بھول گئے ۔
پنکھ پکھیرو اُڈن لاگ رے، ھام جو لالچ مَیں آئے ۔
اِسے پھنسے ھاں جال مَیں آ کَے، دانہ چُگنا بھول گئے ۔
مَن کا دریا چُپ سا ہوگیا کوئے بی اِس مَیں شور نہیں ۔
پیار کی لہراں کا وہ دریا، سُندر سپنا بھول گئے ۔
ڈاکو کیوکر بن گیا وہ، مجدور جو بالَک پالَے تھا ۔
قاضی جی نَیں سب کچھ پوچھا، پر اتنا پوچھنا بھول گئے ۔
بَکھت بڑا اے جالم سَے یُو، وامِق سوچ ریا سَے کے ؟
بُڈّے ہوگے ٹھاٹھ باٹھ تَے رھنا سھنا بھول گئے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔
مورخہ 25 جولائی 2025 ء کو کہی گئی غزل ۔۔۔
हरियाणवी ग़ज़ल
ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़
चांद प मांणस चले गऐ पर दिलां मं बसणा भूल गये।
इंटरनेट प रहण लाग गे घरां मं रहणा भूल गये।
एक बगड़ मं सोया कर्दे मिल क नं सब भाई भाई।
बंग्ले गाडी सब नं लेली , मिलणा जुलणा भूल गये।
देखो बडियां कि इजत आला दोर तो कद का चल्या गया।
इब तो छोटे, बडियां क गल्ल बात बि करणा भूल गये।
पंख पखेरु उडण लाग रे, हाम जो लालच मं आए ।
इसे फंसे हां जाल मं आ क, दाणा चुगणा भूल गये।
मन का दरिया चुप सा होगया कोए बि इस मं शोर नही।
पियार कि लहरां का वो दरिया, सुन्दर सपना भूल गये।
डाकू कियु कर बण गया वो, मजदूर जो बालक पा ल था।
क़ाज़ी जि नं सब कुछ पुछा, पर इतना पुछणा भूल गये।
बख्त बड़ा ए जालिम स उ, वामिक़ सोच रया स के ?
बुड्डे होगे ठाठ बाठ त रहणा सहणा भूल गये।
____________________
बहर - हिंदी मुतक़ारब मुसम्मन मुज़ाइफ़
25 जुलाई 2025 को कही ग ई ग़ज़ल।
اسٹیشن = کہتے ہیں جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے ، اور شہر بھی لاہور جس کے باشندوں کا دعویٰ ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ( جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں ) بالفاظِ دیگر کسی کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نادرا کا سرٹیفیکیٹ نہیں لاہور کی ٹکیٹ ہو گئی ۔ تو جناب ہم نے بھی راولپنڈی سے محراب پور واپسی کے لیے ریل کا ٹکیٹ لینے کے بجائے بذریعہ بس لاہور کا ٹکیٹ خرید لیا ، ان دنوں موٹر وے نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں تھا یہ غالباً سال 1995-96 کا زمانہ تھا ۔ نئی نئی ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلی تھیں جن میں وی سی آر پر انڈین فلموں سے بھی مسافروں کو محظوظ کیا جاتا تھا، یہ ہی سب کچھ سوچ کر ہم نے براستہ لاہور محراب پور سندھ واپسی کا ارادہ کر لیا اور بس میں سوار ہو گئے میرا ایک ہمسفر بھی تھا جسے راستے میں لاہور سے پہلے کسی مقام پر اترنا تھا ، بس بہت آرام دہ تھی مزید لطف یہ کہ وی سی آر پر انڈین فلم " کرن ارجن" چلادی گئی تھی جو کہ ان دنوں نئی نئی ریلیز ہوئی تھی ۔ راستے میں میرا ہم سفر بھی لاہور سے کچھ مسافت پہلے اپنی منزل پر اتر گیا اور جاتے جاتے بس کنڈکٹر کو خاص تاکید کرتا گیا کہ وہ مجھے یاد کر کے اسٹیشن پر اتار دے ( یعنی لاہور اسٹیشن پر) وی سی آر پر اب کوئی دوسری مووی چلا دی گئی تھی لہٰذا وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا کہ اچانک کنڈکٹر کی آواز نے چونکا دیا کہ باؤ جی اترو اسٹیشن آگیا میں نے باہر کی طرف دیکھا شام ہو چلی تھی مگر مجھے لاہور اسٹیشن کے آثار کہیں نظر نہیں آئے تو پوچھا کہ ادھر تو کوئی اسٹیشن نظر نہیں آ رہا ؟ تو کنڈکٹر نے کہا کہ جناب آپ اتریں تو سہی تھوڑا سا آگے چلو گے تو اسٹیشن بھی نظر آجائے گا ، میں بڑا پریشان کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ، لاہور اسٹیشن کوئی ماچس کی ڈبیہ تو نہیں کہ آگے چل کر نظر آجائے گا ۔ خیر میں نے اپنا مختصر سا بیگ اٹھایا اور حیران پریشان نظروں سے باہر دیکھتے ہوئے بس سے اتر گیا تو بس فوراً چل دی ۔ وہاں پر موجود لوگوں سے دریافت کیا کہ بھائی جی اسٹیشن کدھر ہے ؟ تو ایک نیم پختہ سی سڑک کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس پر چلتے جائیں یہ سیدھا اسٹیشن جائے گی ۔ بات سمجھ سے باہر ہوتی جا رہی تھی کہ لاہور اسٹیشن ہے یا کسی گاؤں کا بس اڈہ ہے ؟ بہرحال مرتا کیا نہ کرتا سڑک پر چل پڑا وہ سڑک ویران و سنسان تھی دونوں طرف جھاڑیاں تھیں جس کے باعث خوف کی سرد سی لہر پورے جسم میں پھیلتی جا رہی تھی ۔ دس پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد ریلوے لائن کے آثار نظر آئے ، تھوڑا آگے چلا تو ایک اسٹیشن بھی نظر آگیا ، اسٹیشن کا نام پڑھا تو لکھا تھا " شاہدرہ " وہاں سے فوراً پسپائی اختیار کی اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا ، واپس بس اسٹاپ پر آکر وہاں پر موجود لوگوں سے اپنی پریشانی بیان کی تو انہوں نے بتایا کہ جناب لاہور تو ابھی بہت آگے ہے یہ اسٹاپ تو شاہدرہ اسٹیشن کا ہے ۔ اور اس اسٹاپ کو اسٹیشن کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ۔ اب نہیں معلوم اس سارے مسئلے میں قصوروار کون تھا مگر میں اب درمیان میں پھنس چکا تھا وہاں سے کوئی بھی بس مُجھے لاہور تک پہنچانے کے لیے آمادہ نہیں تھی ، اب یاد نہیں کہ کس ذریعے سے میں لاہور اسٹیشن تک پہنچا لیکن پہنچ گیا ۔ میرا لاہور میں کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جاننے والا تھا لہٰذا مجھے اسی رات واپس آنا تھا ۔ چنانچہ جب اسٹیشن پر ٹکیٹ لینے کے لیے آیا تو دیکھا کہ سامنے دوسرے پلیٹ سے گاڑی روانہ ہو رہی ہے اس کے بعد رات بھر کوئی دوسری گاڑی بھی نہیں تھی، اب ٹکیٹ خریدنے کا اور پل کے ذریعے دوسرے پلیٹ فارم تک پہنچنے کا وقت بھی نہیں تھا چنانچہ بھاگ کر لائنوں کے درمیان لکڑی کی بنی ہوئی حدبندی ( ریلنگ) پر چڑھ گیا اور جیسے ہی ٹرین کے سیکنڈ کلاس کے ڈبے کا دروازہ میرے سامنے آیا فوراً ہی اللّٰہ کا نام لے کر چھلانگ لگا دی اور دھڑام سے جس چیز پر میں جا کر پڑا وہ نیچے سوئی ہوئی اللّٰہ کی غریب عوام تھی ۔ وہ اچانک آنے والی اس ناگہانی آفت سے ہڑ بڑا کر اٹھے اور پھر پنجابی زبان میں جس قدر وہ احتجاج کر سکتے تھے کیا ۔ میں خاموشی سے سنتا رہا کہ ہمارے ملک میں غریب عوام فقط احتجاج ہی تو کر سکتی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ میں نے بہت ساری معزرتیں ( یہ معزرت کی نئی ترکیب میں نے ابھی ایجاد کی ہے) کیں تو وہ غریب عوام ٹھنڈے ہوئے ۔ بہرحال جیسے تیسے خانیوال اسٹیشن آیا تو میں نے وہاں سے محراب پور کے لئے ٹکیٹ خریدی اور خیر سے بدھو گھر کو آئے ۔۔۔ واقعی سچ کہا جاتا ہے کہ " لہور لہور اے " ۔۔۔ تحریر - غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔۔۔ تاریخ 26جولائی 2025ء بروز ہفتہ ۔۔۔۔۔۔
حقیقت پر مبنی ایک شگفتہ تحریر ۔
اسٹیشن
کہتے ہیں جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے ، اور شہر بھی لاہور جس کے باشندوں کا دعویٰ ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ( جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں ) بالفاظِ دیگر کسی کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نادرا کا سرٹیفیکیٹ نہیں لاہور کی ٹکیٹ ہو گئی ۔ تو جناب ہم نے بھی راولپنڈی سے محراب پور واپسی کے لیے ریل کا ٹکیٹ لینے کے بجائے بذریعہ بس لاہور کا ٹکیٹ خرید لیا ، ان دنوں موٹر وے نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں تھا یہ غالباً سال 1995-96 کا زمانہ تھا ۔ نئی نئی ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلی تھیں جن میں وی سی آر پر انڈین فلموں سے بھی مسافروں کو محظوظ کیا جاتا تھا، یہ ہی سب کچھ سوچ کر ہم نے براستہ لاہور محراب پور سندھ واپسی کا ارادہ کر لیا اور بس میں سوار ہو گئے میرا ایک ہمسفر بھی تھا جسے راستے میں لاہور سے پہلے کسی مقام پر اترنا تھا ، بس بہت آرام دہ تھی مزید لطف یہ کہ وی سی آر پر انڈین فلم " کرن ارجن" چلادی گئی تھی جو کہ ان دنوں نئی نئی ریلیز ہوئی تھی ۔ راستے میں میرا ہم سفر بھی لاہور سے کچھ مسافت پہلے اپنی منزل پر اتر گیا اور جاتے جاتے بس کنڈکٹر کو خاص تاکید کرتا گیا کہ وہ مجھے یاد کر کے اسٹیشن پر اتار دے ( یعنی لاہور اسٹیشن پر) وی سی آر پر اب کوئی دوسری مووی چلا دی گئی تھی لہٰذا وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا کہ اچانک کنڈکٹر کی آواز نے چونکا دیا کہ باؤ جی اترو اسٹیشن آگیا میں نے باہر کی طرف دیکھا شام ہو چلی تھی مگر مجھے لاہور اسٹیشن کے آثار کہیں نظر نہیں آئے تو پوچھا کہ ادھر تو کوئی اسٹیشن نظر نہیں آ رہا ؟ تو کنڈکٹر نے کہا کہ جناب آپ اتریں تو سہی تھوڑا سا آگے چلو گے تو اسٹیشن بھی نظر آجائے گا ، میں بڑا پریشان کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ، لاہور اسٹیشن کوئی ماچس کی ڈبیہ تو نہیں کہ آگے چل کر نظر آجائے گا ۔ خیر میں نے اپنا مختصر سا بیگ اٹھایا اور حیران پریشان نظروں سے باہر دیکھتے ہوئے بس سے اتر گیا تو بس فوراً چل دی ۔ وہاں پر موجود لوگوں سے دریافت کیا کہ بھائی جی اسٹیشن کدھر ہے ؟ تو ایک نیم پختہ سی سڑک کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس پر چلتے جائیں یہ سیدھا اسٹیشن جائے گی ۔ بات سمجھ سے باہر ہوتی جا رہی تھی کہ لاہور اسٹیشن ہے یا کسی گاؤں کا بس اڈہ ہے ؟ بہرحال مرتا کیا نہ کرتا سڑک پر چل پڑا وہ سڑک ویران و سنسان تھی دونوں طرف جھاڑیاں تھیں جس کے باعث خوف کی سرد سی لہر پورے جسم میں پھیلتی جا رہی تھی ۔ دس پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد ریلوے لائن کے آثار نظر آئے ، تھوڑا آگے چلا تو ایک اسٹیشن بھی نظر آگیا ، اسٹیشن کا نام پڑھا تو لکھا تھا " شاہدرہ " وہاں سے فوراً پسپائی اختیار کی اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا ، واپس بس اسٹاپ پر آکر وہاں پر موجود لوگوں سے اپنی پریشانی بیان کی تو انہوں نے بتایا کہ جناب لاہور تو ابھی بہت آگے ہے یہ اسٹاپ تو شاہدرہ اسٹیشن کا ہے ۔ اور اس اسٹاپ کو اسٹیشن کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ۔ اب نہیں معلوم اس سارے مسئلے میں قصوروار کون تھا مگر میں اب درمیان میں پھنس چکا تھا وہاں سے کوئی بھی بس مُجھے لاہور تک پہنچانے کے لیے آمادہ نہیں تھی ، اب یاد نہیں کہ کس ذریعے سے میں لاہور اسٹیشن تک پہنچا لیکن پہنچ گیا ۔ میرا لاہور میں کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جاننے والا تھا لہٰذا مجھے اسی رات واپس آنا تھا ۔ چنانچہ جب اسٹیشن پر ٹکیٹ لینے کے لیے آیا تو دیکھا کہ سامنے دوسرے پلیٹ سے گاڑی روانہ ہو رہی ہے اس کے بعد رات بھر کوئی دوسری گاڑی بھی نہیں تھی، اب ٹکیٹ خریدنے کا اور پل کے ذریعے دوسرے پلیٹ فارم تک پہنچنے کا وقت بھی نہیں تھا چنانچہ بھاگ کر لائنوں کے درمیان لکڑی کی بنی ہوئی حدبندی ( ریلنگ) پر چڑھ گیا اور جیسے ہی ٹرین کے سیکنڈ کلاس کے ڈبے کا دروازہ میرے سامنے آیا فوراً ہی اللّٰہ کا نام لے کر چھلانگ لگا دی اور دھڑام سے جس چیز پر میں جا کر پڑا وہ نیچے سوئی ہوئی اللّٰہ کی غریب عوام تھی ۔ وہ اچانک آنے والی اس ناگہانی آفت سے ہڑ بڑا کر اٹھے اور پھر پنجابی زبان میں جس قدر وہ احتجاج کر سکتے تھے کیا ۔ میں خاموشی سے سنتا رہا کہ ہمارے ملک میں غریب عوام فقط احتجاج ہی تو کر سکتی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ میں نے بہت ساری معزرتیں ( یہ معزرت کی نئی ترکیب میں نے ابھی ایجاد کی ہے) کیں تو وہ غریب عوام ٹھنڈے ہوئے ۔ بہرحال جیسے تیسے خانیوال اسٹیشن آیا تو میں نے وہاں سے محراب پور کے لئے ٹکیٹ خریدی اور خیر سے بدھو گھر کو آئے ۔۔۔ واقعی سچ کہا جاتا ہے کہ " لہور لہور اے " ۔۔۔
تحریر - غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔۔۔
تاریخ 26جولائی 2025ء بروز ہفتہ ۔۔۔۔۔۔
بغیر حساب کے ستر ہزار لوگ جنت میں جائیں گے وہ کون ہوں گے ؟ حدیث نمبر - 525 صحیح مسلم ، اس مضمون کی روایات اور بھی بہت سی کتب احادیث میں ہیں ۔
=== غزل= تجھ سے ہرگز نہیں غافِل ٹھہرے ۔ پھر بھی ہم ہی ہیں کہ سنگ دِل ٹھہرے ۔ جدّتِ علم کے جو ہیں وارث ۔ کیا تماشا ہے کہ جاہِل ٹھہرے ۔ زہر پیتے ہیں جو سچ کی خاطر ۔ ہائے سقراط وہ باطِل ٹھہرے ۔ پکڑا قاتل نہیں جا سکتا کبھی ۔ جب کہ قاتِل ہی جو عادِل ٹھہرے ۔ ہاں ڈبونے کو مجھے دریا میں ۔ جو بھی تھے ساتھ وہ ساحل ٹھہرے ۔ جن کو کہتے تھے کبھی سب پاگل ۔ عہدِ کم ظرف میں عاقل ٹھہرے ۔ زندگی کی جو دعا دیتے ہیں ۔ دیکھ وامِق ! وہی قاتل ٹھہرے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ بحر۔ رمل مسدس مخبون محذوف مسکن ۔ شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔ 8 جون سال 2024ء کو کہی گئی ۔
=== غزل ===
غلام محمد وامِق
تجھ سے ہرگز نہیں غافِل ٹھہرے ۔
پھر بھی ہم ہی ہیں کہ سنگ دِل ٹھہرے ۔
جدّتِ علم کے جو ہیں وارث ۔
کیا تماشا ہے کہ جاہِل ٹھہرے ۔
زہر پیتے ہیں جو سچ کی خاطر ۔
ہائے سقراط وہ باطِل ٹھہرے ۔
پکڑا قاتل نہیں جا سکتا کبھی ۔
جب کہ قاتِل ہی جو عادِل ٹھہرے ۔
ہاں ڈبونے کو مجھے دریا میں ۔
جو بھی تھے ساتھ وہ ساحل ٹھہرے ۔
جن کو کہتے تھے کبھی سب پاگل ۔
عہدِ کم ظرف میں عاقل ٹھہرے ۔
زندگی کی جو دعا دیتے ہیں ۔
دیکھ وامِق ! وہی قاتل ٹھہرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاعلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔
بحر۔ رمل مسدس مخبون محذوف مسکن ۔
شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔
8 جون سال 2024ء کو کہی گئی ۔
ہائیکو ایک جاپانی صنفِ شاعری ہے جس کا ایک خاص وزن ہے ، فعلن فعلن فع ۔ فعلن فعلن فعلن فع ۔ فعلن فعلن فع ۔ یعنی بحرِ متقارب میں کہی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اور کسی بحر کی نظم کو ہائیکو نہیں کہا جا سکتا ۔ الحمدللہ بندہء ناچیز نے بھی زندگی میں پہلی بار پانچ عدد اردو ہائیکو کہنے کی کوشش کی ہے ۔ جسے پاکستان میں ہائیکو کے ماہر اور سرپرست جناب سہیل احمد صدیقی صاحب نے دیکھ کر درست قرار دیا ہے ۔ ..... (Haiku)
(Haiku)
کیا بولوں میں اب
مجھ سے پوچھا حالِ دل
چلتے چلتے جب ۔
دنیا روشن ہے
خوشبو ہر سو پھیلی ہے
اس کے آنے سے
اس کو دیکھا تب
موسم پیارا پیارا تھا
بادل برسا جب
بولا نفرت سے
ہم سے تم کو مطلب کیا
دیکھا جب اس نے
ہم کو لوٹیں سب
جس کو دیکھو لیڈر ہے
دیکھو دیکھو اب
کربلا میں شہید ہونے والے 72 شہیدوں کے نام ۔۔۔ لیکن سند نامعلوم ہے ۔ سچ یا جھوٹ اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے ۔
کربلا میں شہید ہونے والے 72 شہیدوں کے نام ۔ لیکن اس کی سند نامعلوم ہے ۔ سچ یا جھوٹ اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔
غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔
رسول اللّٰہ کی اپنی نواسی " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔ صحیح البخاری ۔ حدیث نمبر - 516 النسائی ۔ حدیث نمبر - 712 سُنن ابن ماجہ ۔ حدیث نمبر - 3644
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ، کی اپنی نواسی " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔
صحیح البخاری ۔ حدیث نمبر - 516
النسائی ۔ حدیث نمبر - 712
سُنن ابن ماجہ ۔ حدیث نمبر - 3644
مغیث و بریرہ ( ایک سادہ مگر معنی خیز قصہ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سی روایات احادیث کے مطابق، حضرت مغیث اور ان کی بیوی " بریرہ " مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے ، دونوں مسلمان ہو چکے تھے ، اس لئے ان کا مالک ان پر تشدد کرتا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید لو ۔ چنانچہ بی بی عائشہ رضہ نے بریرہ کو خرید لیا، اور کچھ عرصے بعد اسے آزاد کردیا، لیکن بریرہ پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں ہی رہی ۔ لیکن اس کا شوہر مغیث ابھی بھی غلام ہی تھا تو اس لئے شریعت کے مطابق ان کا نکاح فسخ ہو چکا تھا ۔ لیکن اگر آزاد بیوی چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھ سکتی تھی اور اپنے شوہر کے پاس جا سکتی تھی ۔ مگر بریرہ نے اپنے شوہر کی طرف واپس رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور قطع تعلق کر لیا ۔ اب بریرہ جب بھی سودا سلف لانے کے لئے بازار جاتیں تو، مغیث اس کے پیچھے پیچھے روتا ہوا چلتا رہتا اور اسے واپس رجوع کرنے کے لئے التجا کرتا رہتا تھا ۔ یہ صورتحال دیکھ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم نے کبھی ایسا شوہر دیکھا ہے جو اپنی بیوی کے لئے اس قدر روتا ہو اور پیچھے پیچھے پھرتا ہو ؟ ۔ اور بریرہ سے بھی کہا کہ تم مغیث سے رجوع کر لو ۔ بریرہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ، کیا یہ آپ کا حکم ہے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ یہ حکم نہیں بلکہ سفارش ہے ، یا میرا مشورہ ہے ۔ اس پر بریرہ نے کہا تو پھر میرا دل مغیث کے پاس واپس جانے کو نہیں کرتا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ۔ یاد رہے کہ مغیث کالے رنگ کا حبشی غلام تھا ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء ۔ بروز ہفتہ ۔
مغیث و بریرہ ( ایک سادہ مگر معنی خیز قصہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی روایات احادیث کے مطابق، حضرت مغیث اور ان کی بیوی " بریرہ " مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے ، دونوں مسلمان ہو چکے تھے ، اس لئے ان کا مالک ان پر تشدد کرتا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید لو ۔ چنانچہ بی بی عائشہ رضہ نے بریرہ کو خرید لیا، اور کچھ عرصے بعد اسے آزاد کردیا، لیکن بریرہ پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں ہی رہی ۔ لیکن اس کا شوہر مغیث ابھی بھی غلام ہی تھا تو اس لئے شریعت کے مطابق ان کا نکاح فسخ ہو چکا تھا ۔ لیکن اگر آزاد بیوی چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھ سکتی تھی اور اپنے شوہر کے پاس جا سکتی تھی ۔
مگر بریرہ نے اپنے شوہر کی طرف واپس رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور قطع تعلق کر لیا ۔
اب بریرہ جب بھی سودا سلف لانے کے لئے بازار جاتیں تو، مغیث اس کے پیچھے پیچھے روتا ہوا چلتا رہتا اور اسے واپس رجوع کرنے کے لئے التجا کرتا رہتا تھا ۔
یہ صورتحال دیکھ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم نے کبھی ایسا شوہر دیکھا ہے جو اپنی بیوی کے لئے اس قدر روتا ہو اور پیچھے پیچھے پھرتا ہو ؟ ۔
اور بریرہ سے بھی کہا کہ تم مغیث سے رجوع کر لو ۔
بریرہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ، کیا یہ آپ کا حکم ہے ؟
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ یہ حکم نہیں بلکہ سفارش ہے ، یا میرا مشورہ ہے ۔
اس پر بریرہ نے کہا تو پھر میرا دل مغیث کے پاس واپس جانے کو نہیں کرتا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ۔ یاد رہے کہ مغیث کالے رنگ کا حبشی غلام تھا ۔
تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔
تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء ۔ بروز ہفتہ ۔

















