حضرت ‏علی ‏رضہ ‏کی ‏حضرت ‏فاطمہ ‏سمیت ‏، ‏نو ‏9 ‏بیویاں ‏تھیں ‏ـ ‏جوکہ ‏درج ‏ذیل ‏ہیں ‏ـ ‏۱. ‏لیلیٰ ‏بنتِ ‏مسعود ‏تمیمی ‏۲. ‏ام ‏البنین ‏بنتِ ‏حزام ‏۳. ‏اسماء ‏بنتِ ‏عمیس ‏۴. ‏صہباء ‏بنتِ ‏ربیعہ ‏( ‏امِ ‏حبیبہ ‏بنتِ ‏زمعہ ‏) ‏۵. ‏امامہ ‏بنتِ ‏ابی ‏العاص ‏۶. ‏خولہ ‏بنتِ ‏جعفر ‏حنفیہ ‏۷. ‏امِ ‏سعید ‏بنتِ ‏عروہ ‏۸. ‏محیّات ‏بنتِ ‏امرء ‏القیس  ‏ـــ ‏ان ‏کے ‏علاوہ ‏حضرت ‏علی ‏کی ‏متعد ‏لونڈیاں ‏بھی ‏تھیں ‏، ‏ان ‏بیویوں ‏اور ‏لونڈیوں ‏سے ‏آپ ‏کے ‏چودہ ‏بیٹے ‏اور ‏سترہ ‏بیٹیاں ‏تھیں ‏ــ اہلِ  ‏تشعیع ‏کی ‏کتب ‏کے ‏مطابق ‏علی ‏رضہ ‏کے ‏بیس ‏20  بیٹے ‏اور  ‏19 ‏بیٹیاں ‏تھیں ‏ـ ‏جبکہ ‏اہلِ ‏تشعیع ‏کی ‏کتاب ‏العکبری ‏نے ‏امام ‏علی ‏کی ‏اولاد ‏کی ‏تعداد ‏انتالیس ‏لکھی ‏ہے ‏ـ ‏اور ‏الشیخ ‏ابوالحسن ‏عمری ‏نے ‏اپنے ‏والد ‏سے ‏روایت ‏کی ‏ہے ‏کہ ‏امام ‏علی ‏بن ‏ابی ‏طالب ‏کی ‏37 ‏اولادیں ‏تھیں ‏ـ ‏ ‏بحوالہ ‏" ‏مُدرکُ ‏الطالب ‏فی ‏نسب ‏آلِ ‏ابی ‏طالب ‏" ‏صفحہ ‏نمبر ‏40 ‏ـ ‏مؤلف ‏ـ ‏السید ‏الشریف ‏قمر ‏عباس ‏الاعرجی ‏الحسینی ‏الھمدانی ‏ــ ‏

حضرت ‏علی ‏رضہ ‏کی ‏حضرت ‏فاطمہ ‏سمیت ‏، ‏نو ‏9 ‏بیویاں ‏تھیں ‏ـ ‏جوکہ ‏درج ‏ذیل ‏ہیں ‏ـ ‏۱. ‏لیلیٰ ‏بنتِ ‏مسعود ‏تمیمی ‏۲. ‏ام ‏البنین ‏بنتِ ‏حزام ‏۳. ‏اسماء ‏بنتِ ‏عمیس ‏۴. ‏صہباء ‏بنتِ ‏ربیعہ ‏( ‏امِ ‏حبیبہ ‏بنتِ ‏زمعہ ‏) ‏۵. ‏امامہ ‏بنتِ ‏ابی ‏العاص ‏۶. ‏خولہ ‏بنتِ ‏جعفر ‏حنفیہ ‏۷. ‏امِ ‏سعید ‏بنتِ ‏عروہ ‏۸. ‏محیّات ‏بنتِ ‏امرء ‏القیس ‏ـــ ‏ان ‏کے ‏علاوہ ‏حضرت ‏علی ‏کی ‏متعد ‏لونڈیاں ‏بھی ‏تھیں ‏، ‏ان ‏بیویوں ‏اور ‏لونڈیوں ‏سے ‏آپ ‏کے ‏چودہ ‏بیٹے ‏اور ‏سترہ ‏بیٹیاں ‏تھیں ‏ــ اہلِ ‏تشعیع ‏کی ‏کتب ‏کے ‏مطابق ‏علی ‏رضہ ‏کے ‏بیس ‏20 بیٹے ‏اور ‏19 ‏بیٹیاں ‏تھیں ‏ـ ‏جبکہ ‏اہلِ ‏تشعیع ‏کی ‏کتاب ‏العکبری ‏نے ‏امام ‏علی ‏کی ‏اولاد ‏کی ‏تعداد ‏انتالیس ‏لکھی ‏ہے ‏ـ ‏اور ‏الشیخ ‏ابوالحسن ‏عمری ‏نے ‏اپنے ‏والد ‏سے ‏روایت ‏کی ‏ہے ‏کہ ‏امام ‏علی ‏بن ‏ابی ‏طالب ‏کی ‏37 ‏اولادیں ‏تھیں ‏ـ ‏ ‏بحوالہ ‏" ‏مُدرکُ ‏الطالب ‏فی ‏نسب ‏آلِ ‏ابی ‏طالب ‏" ‏صفحہ ‏نمبر ‏40 ‏ـ ‏مؤلف ‏ـ ‏السید ‏الشریف ‏قمر ‏عباس ‏الاعرجی ‏الحسینی ‏الھمدانی ‏ــ ‏

===  اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟  ===ــــــــــــــ ایک منطقی جائزہ،  تحریر ـ غلام محمد وامِق ... نوٹ : -- ہمارے بزرگانِ دین نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، ان کے مطابق ہماری دنیاوی آنکھوں میں اتنی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ ذاتِ باری تعالیٰ کو دیکھ سکیں، ہماری آنکھیں تو فرشتوں اور جراثیم تک کو نہیں دیکھ سکتیں تو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ـ وغیرہ وغیرہ ... بہرحال منطقی لحاظ سے ہم اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ــ  عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کو واضح طور پر دیکھنے کے لئے اس کے قریب جانا پڑتا ہے، حالاں کہ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے ـ چھوٹی چیز کے لئے تو یہ اصول درست ہے لیکن کسی بڑی چیز کو دیکھنے کے لئے ہمیں اس سے دور ہٹنا پڑتا ہے ـ یعنی اگر ہم زمین پر کھڑے ہوکر اپنی مکمل زمین کو ایک ہی لمحے میں دیکھنا چاہیں تو نہیں دیکھ سکتے، اس کے لئے ہمیں زمین کے کناروں سے باہر نکلنا پڑے گا جیسا کہ چاند پر جاکر زمین کو دیکھا جاسکتا ہے، اور زمین سے چاند کو دیکھا جاسکتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ سورج کی روشنی چاند پر، یا زمین پر پڑتی ہو ـ ہم اپنی آنکھوں سے آنکھوں کی نزدیک ترین چیز پلکوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے، اپنی بھنویں نہیں دیکھ سکتے، یہاں تک کہ ہم اپنا چہرہ بھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے،   اسی طرح  ہم دور سے تو کسی بڑی عمارت کو دیکھ سکتے ہیں لیکن جیسے جیسے ہم عمارت کے قریب آتے جائیں گے اس کے گوشے آنکھوں سے اوجھل ہوتے چلے جائیں گے ـ یہاں تک کہ اگر ہم عمارت کی دیوار کے قریب پہنچیں گے تو صرف دیوار ہی ہمیں نظر آئے گی، پھر اگر دیوار کے ساتھ آنکھیں لگادیں تو ہمیں دیوار نظر آنا بھی بند ہوجائے گی ـ بات شاید کچھ واضح ہوگئی ہو ـ یعنی جتنی بڑی چیز ہوگی اس کو دیکھنے کے لئے ہمیں اس سے اتنا ہی دور ہٹنا پڑے گا،  اور اگر کوئی شےء بہت بڑی بھی ہو اور ہماری آنکھیں اس کو چھوُ بھی رہی ہوں تو پھر وہ چیز ہمیں نظر نہیں آسکتی،  اب اسی تناظر میں ہمیں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ اللہ کتنا بڑا ہے؟ ـ تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اللہ تو ہر شے سے بڑا ہے، اور لامحدود ہے، اس کی مثال کسی بھی چیز سے نہیں دی جا سکتی ـ اس کی ذات زمین و آسمان اور پوری کائنات سے بھی بڑی ہے ـ تو اب مذکورہ بالا اصول کے تحت اتنی بڑی ذات کو دیکھنے کے لئے ہمیں زمین و آسمان کے کناروں سے نکلنا پڑے گا، کائنات میں موجود بڑی بڑی کہکشاؤں سے بھی دور نکلنا پڑے گا، تب بھی اللہ تعالیٰ کا وجود ہماری نظروں کے سامنے نہیں آسکتا،  کیوں کہ وہ تو لامحدود ہے، اور ہم کچھ بھی کرلیں، کتنی ہی سائنس لڑا لیں ہم لامحدود کو محدود نہیں کرسکتے، اور جب کوئی بھی چیز محدود نہ ہو تو اس کو کسی بھی مقام سے دیکھنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے، اس پر مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن کے مطابق  " اللہ تعالیٰ تو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے " ـ تو پھر ہم کیسے اس قدر قریب ترین اور بڑی اور عظیم ذات کو دیکھ سکتے ہیں،اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس دنیا سے جانے کے بعد  " جنت الفردوس " میں اللہ جلِ شانہ، جنتیوں کو اپنے جلوے سے سرفراز فرمائے گا ...  بقول شاعر ــ*  میں کامیابِ دید بھی، محرومِ دید بھی ...     جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا ..... ( اصغر گونڈوی)*  اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے ... جلوے بڑھے جو حد سے تو بے نوُر ہوگئے ...                   ( غلام محمد وامِق) ـــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ ـ مورخہ 15 ستمبر 2021ء ـ بروز بدھ ـ

=== اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟ ===ــــــــــــــ ایک منطقی جائزہ، تحریر ـ غلام محمد وامِق ... نوٹ : -- ہمارے بزرگانِ دین نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، ان کے مطابق ہماری دنیاوی آنکھوں میں اتنی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ ذاتِ باری تعالیٰ کو دیکھ سکیں، ہماری آنکھیں تو فرشتوں اور جراثیم تک کو نہیں دیکھ سکتیں تو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ـ وغیرہ وغیرہ ... بہرحال منطقی لحاظ سے ہم اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ــ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کو واضح طور پر دیکھنے کے لئے اس کے قریب جانا پڑتا ہے، حالاں کہ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے ـ چھوٹی چیز کے لئے تو یہ اصول درست ہے لیکن کسی بڑی چیز کو دیکھنے کے لئے ہمیں اس سے دور ہٹنا پڑتا ہے ـ یعنی اگر ہم زمین پر کھڑے ہوکر اپنی مکمل زمین کو ایک ہی لمحے میں دیکھنا چاہیں تو نہیں دیکھ سکتے، اس کے لئے ہمیں زمین کے کناروں سے باہر نکلنا پڑے گا جیسا کہ چاند پر جاکر زمین کو دیکھا جاسکتا ہے، اور زمین سے چاند کو دیکھا جاسکتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ سورج کی روشنی چاند پر، یا زمین پر پڑتی ہو ـ ہم اپنی آنکھوں سے آنکھوں کی نزدیک ترین چیز پلکوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے، اپنی بھنویں نہیں دیکھ سکتے، یہاں تک کہ ہم اپنا چہرہ بھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے، اسی طرح ہم دور سے تو کسی بڑی عمارت کو دیکھ سکتے ہیں لیکن جیسے جیسے ہم عمارت کے قریب آتے جائیں گے اس کے گوشے آنکھوں سے اوجھل ہوتے چلے جائیں گے ـ یہاں تک کہ اگر ہم عمارت کی دیوار کے قریب پہنچیں گے تو صرف دیوار ہی ہمیں نظر آئے گی، پھر اگر دیوار کے ساتھ آنکھیں لگادیں تو ہمیں دیوار نظر آنا بھی بند ہوجائے گی ـ بات شاید کچھ واضح ہوگئی ہو ـ یعنی جتنی بڑی چیز ہوگی اس کو دیکھنے کے لئے ہمیں اس سے اتنا ہی دور ہٹنا پڑے گا، اور اگر کوئی شےء بہت بڑی بھی ہو اور ہماری آنکھیں اس کو چھوُ بھی رہی ہوں تو پھر وہ چیز ہمیں نظر نہیں آسکتی، اب اسی تناظر میں ہمیں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ اللہ کتنا بڑا ہے؟ ـ تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اللہ تو ہر شے سے بڑا ہے، اور لامحدود ہے، اس کی مثال کسی بھی چیز سے نہیں دی جا سکتی ـ اس کی ذات زمین و آسمان اور پوری کائنات سے بھی بڑی ہے ـ تو اب مذکورہ بالا اصول کے تحت اتنی بڑی ذات کو دیکھنے کے لئے ہمیں زمین و آسمان کے کناروں سے نکلنا پڑے گا، کائنات میں موجود بڑی بڑی کہکشاؤں سے بھی دور نکلنا پڑے گا، تب بھی اللہ تعالیٰ کا وجود ہماری نظروں کے سامنے نہیں آسکتا، کیوں کہ وہ تو لامحدود ہے، اور ہم کچھ بھی کرلیں، کتنی ہی سائنس لڑا لیں ہم لامحدود کو محدود نہیں کرسکتے، اور جب کوئی بھی چیز محدود نہ ہو تو اس کو کسی بھی مقام سے دیکھنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے، اس پر مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن کے مطابق " اللہ تعالیٰ تو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے " ـ تو پھر ہم کیسے اس قدر قریب ترین اور بڑی اور عظیم ذات کو دیکھ سکتے ہیں،اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس دنیا سے جانے کے بعد " جنت الفردوس " میں اللہ جلِ شانہ، جنتیوں کو اپنے جلوے سے سرفراز فرمائے گا ... بقول شاعر ــ* میں کامیابِ دید بھی، محرومِ دید بھی ... جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا ..... ( اصغر گونڈوی)* اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے ... جلوے بڑھے جو حد سے تو بے نوُر ہوگئے ... ( غلام محمد وامِق) ـــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 15 ستمبر 2021ء ـ بروز بدھ ـ

===  اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟  ===

ــــــــــــــ ایک منطقی جائزہ،  تحریر ـ غلام محمد وامِق ... 

نوٹ : -- ہمارے بزرگانِ دین نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، ان کے مطابق ہماری دنیاوی آنکھوں میں اتنی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ ذاتِ باری تعالیٰ کو دیکھ سکیں، ہماری آنکھیں تو فرشتوں اور جراثیم تک کو نہیں دیکھ سکتیں تو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ـ وغیرہ وغیرہ ... 
بہرحال منطقی لحاظ سے ہم اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ـــ
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کو واضح طور پر دیکھنے کے لئے اس کے قریب جانا پڑتا ہے، حالاں کہ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے ـ چھوٹی چیز کے لئے تو یہ اصول درست ہے لیکن کسی بڑی چیز کو دیکھنے کے لئے ہمیں اس سے دور ہٹنا پڑتا ہے ـ یعنی اگر ہم زمین پر کھڑے ہوکر اپنی مکمل زمین کو ایک ہی لمحے میں دیکھنا چاہیں تو نہیں دیکھ سکتے، اس کے لئے ہمیں زمین کے کناروں سے باہر نکلنا پڑے گا جیسا کہ چاند پر جاکر زمین کو دیکھا جاسکتا ہے، اور زمین سے چاند کو دیکھا جاسکتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ سورج کی روشنی چاند پر، یا زمین پر پڑتی ہو ـ
ہم اپنی آنکھوں سے آنکھوں کی نزدیک ترین چیز پلکوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے، اپنی بھنویں نہیں دیکھ سکتے، یہاں تک کہ ہم اپنا چہرہ بھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے،   اسی طرح  ہم دور سے تو کسی بڑی عمارت کو دیکھ سکتے ہیں لیکن جیسے جیسے ہم عمارت کے قریب آتے جائیں گے اس کے گوشے آنکھوں سے اوجھل ہوتے چلے جائیں گے ـ یہاں تک کہ اگر ہم عمارت کی دیوار کے قریب پہنچیں گے تو صرف دیوار ہی ہمیں نظر آئے گی، پھر اگر دیوار کے ساتھ آنکھیں لگادیں تو ہمیں دیوار نظر آنا بھی بند ہوجائے گی ـ
بات شاید کچھ واضح ہوگئی ہو ـ یعنی جتنی بڑی چیز ہوگی اس کو دیکھنے کے لئے ہمیں اس سے اتنا ہی دور ہٹنا پڑے گا،  اور اگر کوئی شےء بہت بڑی بھی ہو اور ہماری آنکھیں اس کو چھوُ بھی رہی ہوں تو پھر وہ چیز ہمیں نظر نہیں آسکتی،  اب اسی تناظر میں ہمیں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ اللہ کتنا بڑا ہے؟ ـ تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اللہ تو ہر شے سے بڑا ہے، اور لامحدود ہے، اس کی مثال کسی بھی چیز سے نہیں دی جا سکتی ـ اس کی ذات زمین و آسمان اور پوری کائنات سے بھی بڑی ہے ـ تو اب مذکورہ بالا اصول کے تحت اتنی بڑی ذات کو دیکھنے کے لئے ہمیں زمین و آسمان کے کناروں سے نکلنا پڑے گا، کائنات میں موجود بڑی بڑی کہکشاؤں سے بھی دور نکلنا پڑے گا، تب بھی اللہ تعالیٰ کا وجود ہماری نظروں کے سامنے نہیں آسکتا،  کیوں کہ وہ تو لامحدود ہے، اور ہم کچھ بھی کرلیں، کتنی ہی سائنس لڑا لیں ہم لامحدود کو محدود نہیں کرسکتے، اور جب کوئی بھی چیز محدود نہ ہو تو اس کو کسی بھی مقام سے دیکھنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے، اس پر مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن کے مطابق  " اللہ تعالیٰ تو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے " ـ تو پھر ہم کیسے اس قدر قریب ترین اور بڑی اور عظیم ذات کو دیکھ سکتے ہیں،
اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس دنیا سے جانے کے بعد  " جنت الفردوس " میں اللہ جلِ شانہ، جنتیوں کو اپنے جلوے سے سرفراز فرمائے گا ... 
 بقول شاعر ــ
*  میں کامیابِ دید بھی، محرومِ دید بھی ... 
    جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا ..... ( اصغر گونڈوی)

*  اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے ... 
جلوے بڑھے جو حد سے تو بے نوُر ہوگئے ...                   ( غلام محمد وامِق) ـــ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ ـ مورخہ 15 ستمبر 2021ء ـ بروز بدھ ـ 
اپنے ‏مال ‏کی ‏حفاظت ‏کرتے ‏ہوئے ‏مارا ‏جانے ‏والا ‏شخص ‏بھی ‏شہید ‏ہے ‏، ‏جب ‏کہ ‏پرایا ‏مال ‏لوٹنے ‏والا ‏شخص ‏جہنم ‏میں ‏جائے ‏گا ‏ـ ‏صحیح ‏مسلم ‏شریف ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏360 ‏ــ ‏

اپنے ‏مال ‏کی ‏حفاظت ‏کرتے ‏ہوئے ‏مارا ‏جانے ‏والا ‏شخص ‏بھی ‏شہید ‏ہے ‏، ‏جب ‏کہ ‏پرایا ‏مال ‏لوٹنے ‏والا ‏شخص ‏جہنم ‏میں ‏جائے ‏گا ‏ـ ‏صحیح ‏مسلم ‏شریف ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏360 ‏ــ ‏

اس ‏حدیث ‏کے ‏مطابق ‏ہر ‏شہید ‏ہونے ‏والا ‏شخص ‏جنت ‏میں ‏نہیں ‏جائے ‏گا ‏، ‏سوائے ‏مومنین ‏کے ، یعنی ‏جو  ‏کہ  ‏پہلے ‏سے ‏ہی جنت ‏کے ‏مستحق ‏ہیں ‏ـ ‏صحیح ‏مسلم ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏309 ‏ــ ‏

اس ‏حدیث ‏کے ‏مطابق ‏ہر ‏شہید ‏ہونے ‏والا ‏شخص ‏جنت ‏میں ‏نہیں ‏جائے ‏گا ‏، ‏سوائے ‏مومنین ‏کے ، یعنی ‏جو ‏کہ ‏پہلے ‏سے ‏ہی جنت ‏کے ‏مستحق ‏ہیں ‏ـ ‏صحیح ‏مسلم ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏309 ‏ــ ‏

رسول ‏اکرمﷺ ‏ ‏کسی ‏بھی ‏پرائی ‏عورت ‏کے ‏گھر ‏نہیں ‏جاتے ‏تھے ‏، ‏سوائے ‏امِ ‏سلیم ‏کے ‏ـ ‏لیکن ‏اس ‏حدیث ‏میں ‏یہ ‏وضاحت ‏نہیں ‏کی ‏گئی ‏کہ ‏کیا ‏امِ ‏سلیم ‏آپﷺ ‏سے ‏پردہ ‏کرتی ‏تھیں ‏؟ـ صحیح ‏مسلم ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏6319 ‏ــ ‏

رسول ‏اکرمﷺ ‏ ‏کسی ‏بھی ‏پرائی ‏عورت ‏کے ‏گھر ‏نہیں ‏جاتے ‏تھے ‏، ‏سوائے ‏امِ ‏سلیم ‏کے ‏ـ ‏لیکن ‏اس ‏حدیث ‏میں ‏یہ ‏وضاحت ‏نہیں ‏کی ‏گئی ‏کہ ‏کیا ‏امِ ‏سلیم ‏آپﷺ ‏سے ‏پردہ ‏کرتی ‏تھیں ‏؟ـ صحیح ‏مسلم ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏6319 ‏ــ ‏

رسول ‏اکرمﷺ ‏نے ‏معراج ‏اپنے مادی جسم کے ساتھ نہیں بلکہ خواب ‏کی ‏حالت ‏میں ‏کی ‏تھی ‏ـ ‏‏ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏1386 ‏ـ ‏صحیح ‏بخاری ‏شریف ‏ـ ‏

رسول ‏اکرمﷺ ‏نے ‏معراج ‏اپنے مادی جسم کے ساتھ نہیں بلکہ خواب ‏کی ‏حالت ‏میں ‏کی ‏تھی ‏ـ ‏‏ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏1386 ‏ـ ‏صحیح ‏بخاری ‏شریف ‏ـ ‏

داڑھی ‏چھوڑ ‏دو ‏اور ‏مونچھیں ‏کترواؤ ‏، ‏کے ‏متعلق ‏اصل ‏دو ‏احادیث ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏5892 ‏ـ ‏صحیح ‏بخاری ‏شریف ‏ــ ‏اور صحیح ‏مسلم ‏، ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏604 ‏ــ ‏

داڑھی ‏چھوڑ ‏دو ‏اور ‏مونچھیں ‏کترواؤ ‏، ‏کے ‏متعلق ‏اصل ‏دو ‏احادیث ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏5892 ‏ـ ‏صحیح ‏بخاری ‏شریف ‏ــ ‏اور صحیح ‏مسلم ‏، ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏604 ‏ــ ‏

رسولﷺ ‏، ‏نماز ‏پڑھتے ‏وقت ‏، ‏حضرت ‏عائشہ ‏کی ‏چارپائی ‏اپنے ‏آگے ‏کر ‏لیتے ‏تھے ‏، ‏یا ‏چارپائی ‏کے ‏سامنے ‏درمیان ‏میں ‏نماز ‏پڑھتے ‏تھے ‏، ‏حالانکہ ‏حضرت ‏عائشہ ‏اس ‏وقت ‏چارپائی ‏پر ‏لیٹی ‏ہوتی ‏تھیں ‏ـ ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏508 ‏

رسولﷺ ‏، ‏نماز ‏پڑھتے ‏وقت ‏، ‏حضرت ‏عائشہ ‏کی ‏چارپائی ‏اپنے ‏آگے ‏کر ‏لیتے ‏تھے ‏، ‏یا ‏چارپائی ‏کے ‏سامنے ‏درمیان ‏میں ‏نماز ‏پڑھتے ‏تھے ‏، ‏حالانکہ ‏حضرت ‏عائشہ ‏اس ‏وقت ‏چارپائی ‏پر ‏لیٹی ‏ہوتی ‏تھیں ‏ـ ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏508 ‏

بئر ‏معونہ ‏کے ‏اندوہناک ‏واقعہ ‏میں ‏ستر ‏صحابہ ‏جوکہ ‏عالم ‏اور ‏قاری ‏تھے ‏، ‏شہید ‏کردئے ‏گئے  ‏تھے،  ‏جن ‏کے ‏غم ‏میں ‏رسول ‏کریمﷺ ‏ ‏ایک ‏ماہ ‏تک ‏قاتلوں ‏کے ‏لئے ‏بددعا ‏کرتے ‏رہے ‏، ‏اور ‏اس ‏واقعہ ‏کے ‏متعلق ‏قرآن ‏کا ‏کچھ ‏حصہ ‏نازل ‏ہوا تھا ‏جوکہ ‏بعد ‏میں ‏منسوخ ‏کردیا ‏ گیا ــــ  حدیث ـ نمبر ‏1545 ‏، ‏صحیح ‏مسلم ‏شریف ‏ـ ‏

بئر ‏معونہ ‏کے ‏اندوہناک ‏واقعہ ‏میں ‏ستر ‏صحابہ ‏جوکہ ‏عالم ‏اور ‏قاری ‏تھے ‏، ‏شہید ‏کردئے ‏گئے ‏تھے، ‏جن ‏کے ‏غم ‏میں ‏رسول ‏کریمﷺ ‏ ‏ایک ‏ماہ ‏تک ‏قاتلوں ‏کے ‏لئے ‏بددعا ‏کرتے ‏رہے ‏، ‏اور ‏اس ‏واقعہ ‏کے ‏متعلق ‏قرآن ‏کا ‏کچھ ‏حصہ ‏نازل ‏ہوا تھا ‏جوکہ ‏بعد ‏میں ‏منسوخ ‏کردیا ‏ گیا ــــ حدیث ـ نمبر ‏1545 ‏، ‏صحیح ‏مسلم ‏شریف ‏ـ ‏

Powered by Blogger.