دلبر بروہی کی فرمائش پر ان کی نئی آنے والی کتاب کے لیے لکھی گئی نظم ۔  === دلبر بروہی ===  شاعر- غلام محمد وامِق   دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔  "تاریخ کا جو عکس" ہے اِن کی کتاب ہے ۔   اعلیٰ ترین ان کو قلم کاری کا ہے ذوق ۔  تاریخ کا بھی دیکھیے ان کو بڑا ہے شوق ۔   اِن میں خلوص اور وفا بے حساب ہے ۔  دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔   ہالانی کا ہی شہر  ہے اِن کا جَنَم سَتھان ۔  سندھ بھر میں ان کی دیکھیے قائم ہے آن بان ۔   اور گھر ہے اِن کا دوسرا دیکھو یہ محرابپور ۔  گاؤں سے یہ قریب ہے بالکل نہیں یہ دور ۔   اِس شہر کی فضاؤں میں گزرا شباب ہے ۔  دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔   تاریخ سے ہے اِن کو لگاوٹ بہت بڑی ۔  لکھنے لکھانے سے ہے محبّت بہت بڑی ۔   تاریخ پر یہ دیکھیے لِکّھی نئی کتاب ۔  تاریخ میں اضافہ کیا ایک اور باب ۔   "تاریخ جی ہے واٹ" یہ تازہ کتاب ہے ۔  دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ـــــ  مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔  بحر - مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف  مورخہ 22 نومبر 2025ء بروز ہفتہ کو کہی گئی

دلبر بروہی کی فرمائش پر ان کی نئی آنے والی کتاب کے لیے لکھی گئی نظم ۔ === دلبر بروہی === شاعر- غلام محمد وامِق دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ "تاریخ کا جو عکس" ہے اِن کی کتاب ہے ۔ اعلیٰ ترین ان کو قلم کاری کا ہے ذوق ۔ تاریخ کا بھی دیکھیے ان کو بڑا ہے شوق ۔ اِن میں خلوص اور وفا بے حساب ہے ۔ دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ ہالانی کا ہی شہر ہے اِن کا جَنَم سَتھان ۔ سندھ بھر میں ان کی دیکھیے قائم ہے آن بان ۔ اور گھر ہے اِن کا دوسرا دیکھو یہ محرابپور ۔ گاؤں سے یہ قریب ہے بالکل نہیں یہ دور ۔ اِس شہر کی فضاؤں میں گزرا شباب ہے ۔ دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ تاریخ سے ہے اِن کو لگاوٹ بہت بڑی ۔ لکھنے لکھانے سے ہے محبّت بہت بڑی ۔ تاریخ پر یہ دیکھیے لِکّھی نئی کتاب ۔ تاریخ میں اضافہ کیا ایک اور باب ۔ "تاریخ جی ہے واٹ" یہ تازہ کتاب ہے ۔ دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ـــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر - مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف مورخہ 22 نومبر 2025ء بروز ہفتہ کو کہی گئی

 دلبر بروہی کی فرمائش پر ان کی نئی آنے والی کتاب کے لیے لکھی گئی نظم ۔ 

=== دلبر بروہی === 

شاعر- غلام محمد وامِق 


دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ 

"تاریخ کا جو عکس" ہے اِن کی کتاب ہے ۔ 


اعلیٰ ترین ان کو قلم کاری کا ہے ذوق ۔ 

تاریخ کا بھی دیکھیے ان کو بڑا ہے شوق ۔ 


اِن میں خلوص اور وفا بے حساب ہے ۔ 

دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ 


ہالانی کا ہی شہر  ہے اِن کا جَنَم سَتھان ۔ 

سندھ بھر میں ان کی دیکھیے قائم ہے آن بان ۔ 


اور گھر ہے اِن کا دوسرا دیکھو یہ محرابپور ۔ 

گاؤں سے یہ قریب ہے بالکل نہیں یہ دور ۔ 


اِس شہر کی فضاؤں میں گزرا شباب ہے ۔ 

دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ 


تاریخ سے ہے اِن کو لگاوٹ بہت بڑی ۔ 

لکھنے لکھانے سے ہے محبّت بہت بڑی ۔ 


تاریخ پر یہ دیکھیے لِکّھی نئی کتاب ۔ 

تاریخ میں اضافہ کیا ایک اور باب ۔ 


"تاریخ جی ہے واٹ" یہ تازہ کتاب ہے ۔ 

دلبر بروہی شخص بڑا لاجواب ہے ۔ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔

 بحر - مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف 

مورخہ 22 نومبر 2025ء بروز ہفتہ کو کہی گئی


غزل= جانے والے کو کہاں بھول سکا ہے کوئی ۔  مَن کے آنگن میں ابھی گھوم رہا ہے کوئی ۔   خواب و بے خوابی برابر یوں ہوئی ہے مجھ پر ۔  آنکھیں مُون٘دوں تو مجھے پھر بھی دِکھا ہے کوئی ۔   ہم سمجھتے تھے کہ بِکنے کا نہیں ہر گز وہ ۔  دام اچھے تھے تو رغبت سے بِکا ہے کوئی ۔   قَت٘ل کی دیتا نہیں کوئی گواہی دیکھو ۔  سامنے سب کے عدالت میں مرا ہے کوئی ۔   سجدہ سمجھوں میں اِسے یا کہ عقیدت سمجھوں ۔  عاملِ شہر کے قدموں پہ جُھکا ہے کوئی ۔   اپنے مطلب کے لیے سودا بھی غیرت کا کیا ۔  تُھوک کر چاٹ لیا ایسا گِرا ہے کوئی ۔   دیکھ وامِق یہ زمانہ ہے فقط مطلب کا ۔  کب بھلا حِرص کے چکّر سے بچا ہے کوئی ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن  بحر - رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔  یہ غزل 20 نومبر 2025ء بروز جمعرات مکمل ہوئی ۔

غزل= جانے والے کو کہاں بھول سکا ہے کوئی ۔ مَن کے آنگن میں ابھی گھوم رہا ہے کوئی ۔ خواب و بے خوابی برابر یوں ہوئی ہے مجھ پر ۔ آنکھیں مُون٘دوں تو مجھے پھر بھی دِکھا ہے کوئی ۔ ہم سمجھتے تھے کہ بِکنے کا نہیں ہر گز وہ ۔ دام اچھے تھے تو رغبت سے بِکا ہے کوئی ۔ قَت٘ل کی دیتا نہیں کوئی گواہی دیکھو ۔ سامنے سب کے عدالت میں مرا ہے کوئی ۔ سجدہ سمجھوں میں اِسے یا کہ عقیدت سمجھوں ۔ عاملِ شہر کے قدموں پہ جُھکا ہے کوئی ۔ اپنے مطلب کے لیے سودا بھی غیرت کا کیا ۔ تُھوک کر چاٹ لیا ایسا گِرا ہے کوئی ۔ دیکھ وامِق یہ زمانہ ہے فقط مطلب کا ۔ کب بھلا حِرص کے چکّر سے بچا ہے کوئی ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن بحر - رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔ یہ غزل 20 نومبر 2025ء بروز جمعرات مکمل ہوئی ۔

 غزل 

غلام محمد وامِق 


جانے والے کو کہاں بھول سکا ہے کوئی ۔

 مَن کے آنگن میں ابھی گھوم رہا ہے کوئی ۔ 


خواب و بے خوابی برابر یوں ہوئی ہے مجھ پر ۔ 

آنکھیں مُون٘دوں تو مجھے پھر بھی دِکھا ہے کوئی ۔ 


ہم سمجھتے تھے کہ بِکنے کا نہیں ہر گز وہ ۔ 

دام اچھے تھے تو رغبت سے بِکا ہے کوئی ۔ 


قَت٘ل کی دیتا نہیں کوئی گواہی دیکھو ۔ 

سامنے سب کے عدالت میں مرا ہے کوئی ۔ 


سجدہ سمجھوں میں اِسے یا کہ عقیدت سمجھوں ۔ 

عاملِ شہر کے قدموں پہ جُھکا ہے کوئی ۔ 


اپنے مطلب کے لیے سودا بھی غیرت کا کیا ۔ 

تُھوک کر چاٹ لیا ایسا گِرا ہے کوئی ۔ 


دیکھ وامِق یہ زمانہ ہے فقط مطلب کا ۔ 

کب بھلا حِرص کے چکّر سے بچا ہے کوئی ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن 

بحر - رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔ 

یہ غزل 20 نومبر 2025ء بروز جمعرات مکمل ہوئی ۔


غزل= کم ہیں لیکن ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ۔  جن سے مل کر دل کو راحت روح کو آئے سرور ۔   گردشوں میں گردشیں ہیں کیا پتا حالات کا ۔  کب تلک مجھ سے رہو گے تم بھلا یوں دور دور ۔   تیری گردن میں جو سریا آ گیا ہے دیکھنا ۔  خاک میں مل جائے گا اِک روز یہ سارا غرور ۔   قَب٘ل اس کے جو مجھے تم سنگ دل کہنے لگو ۔  اپنے اندازِ سُخَن پر غور فرمائیں حضور ۔   حِرصِ دولت بڑھ رہی ہے حضرتِ انسان میں ۔  جیسے بھی ہو مال ہم نے جَم٘ع کرنا ہے ضرور ۔۔  کچھ نہیں ملتا ہے جنگوں سے یہ وامِق جان لے ۔ عورتیں اور بَچًے بوڑھے مرتے ہیں سب بے قصور ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ۔  بحر - رمل مثمن محذوف ۔  یہ غزل 19 نومبر 2925ء بروز بدھ مکمل ہوئی ۔

غزل= کم ہیں لیکن ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ۔ جن سے مل کر دل کو راحت روح کو آئے سرور ۔ گردشوں میں گردشیں ہیں کیا پتا حالات کا ۔ کب تلک مجھ سے رہو گے تم بھلا یوں دور دور ۔ تیری گردن میں جو سریا آ گیا ہے دیکھنا ۔ خاک میں مل جائے گا اِک روز یہ سارا غرور ۔ قَب٘ل اس کے جو مجھے تم سنگ دل کہنے لگو ۔ اپنے اندازِ سُخَن پر غور فرمائیں حضور ۔ حِرصِ دولت بڑھ رہی ہے حضرتِ انسان میں ۔ جیسے بھی ہو مال ہم نے جَم٘ع کرنا ہے ضرور ۔۔ کچھ نہیں ملتا ہے جنگوں سے یہ وامِق جان لے ۔ عورتیں اور بَچًے بوڑھے مرتے ہیں سب بے قصور ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ۔ بحر - رمل مثمن محذوف ۔ یہ غزل 19 نومبر 2925ء بروز بدھ مکمل ہوئی ۔

 غزل  

غلام محمد وامِق 


کم ہیں لیکن ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ۔ 

جن سے مل کر دل کو راحت روح کو آئے سرور ۔ 


گردشوں میں گردشیں ہیں کیا پتا حالات کا ۔ 

کب تلک مجھ سے رہو گے تم بھلا یوں دور دور ۔ 


تیری گردن میں جو سریا آ گیا ہے دیکھنا ۔ 

خاک میں مل جائے گا اِک روز یہ سارا غرور ۔ 


قَب٘ل اس کے جو مجھے تم سنگ دل کہنے لگو ۔ 

اپنے اندازِ سُخَن پر غور فرمائیں حضور ۔

 

حِرصِ دولت بڑھ رہی ہے حضرتِ انسان میں ۔ 

جیسے بھی ہو مال ہم نے جَم٘ع کرنا ہے ضرور ۔۔


کچھ نہیں ملتا ہے جنگوں سے یہ وامِق جان لے ۔

عورتیں اور بَچًے بوڑھے مرتے ہیں سب بے قصور ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ۔ 

بحر - رمل مثمن محذوف ۔ 

یہ غزل 19 نومبر 2925ء بروز بدھ مکمل ہوئی ۔


ادبی خدمات کے اعتراف میں مجھے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ مورخہ 09 نومبر 2025ء بروز اتوار ، کتابی میلہ محراب پور میں ۔

ادبی خدمات کے اعتراف میں مجھے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ مورخہ 09 نومبر 2025ء بروز اتوار ، کتابی میلہ محراب پور میں ۔

 میری ادبی خدمات کے اعتراف میں مجھے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا ، الحمدللہ ۔ سچل کمیونٹی ڈیولپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن محراب پور سندھ کی طرف سے ، محراب پور میں منعقدہ تین روزہ کتاب میلے میں ۔ مورخہ 09 نومبر 2025ء بروز اتوار ۔ 



نظم - جالب کے نام  غلام محمد وامِق   اِک شخص بہادر ایسا تھا جو جُھکتا اور نہ بِکتا تھا ۔  وہ ظلم حکومت کے سہتا اور پھر بھی سچ ہی لکھتا تھا ۔   کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ۔  ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ۔   ہاں محنت کش مزدوروں کا بھی بوجھ اٹھایا اُس سَر نے ۔  وہ سَر جو کسی بھی آمر کے آگے نہ کبھی بھی جھکتا تھا ۔   اِک پَل نہ گوارا اُس نے کیا عیّاش حکومت میں رہنا ۔  مِسکین غریبوں کی خاطر وہ جیتا تھا اور مرتا تھا ۔   غُرَبا کے لیے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ۔  ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا   وہ سچ کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ۔  بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ۔   وہ جالِب تو تھا سب ہی کا اور سب ہی کا وہ حبیب بھی تھا  کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ۔  ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فَعِلن فعلن فعلن ۔  بحر- زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔  جنوری 1996ء میں کہی گئی نظم ۔

نظم - جالب کے نام غلام محمد وامِق اِک شخص بہادر ایسا تھا جو جُھکتا اور نہ بِکتا تھا ۔ وہ ظلم حکومت کے سہتا اور پھر بھی سچ ہی لکھتا تھا ۔ کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ۔ ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ۔ ہاں محنت کش مزدوروں کا بھی بوجھ اٹھایا اُس سَر نے ۔ وہ سَر جو کسی بھی آمر کے آگے نہ کبھی بھی جھکتا تھا ۔ اِک پَل نہ گوارا اُس نے کیا عیّاش حکومت میں رہنا ۔ مِسکین غریبوں کی خاطر وہ جیتا تھا اور مرتا تھا ۔ غُرَبا کے لیے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ۔ ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا وہ سچ کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ۔ بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ۔ وہ جالِب تو تھا سب ہی کا اور سب ہی کا وہ حبیب بھی تھا کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فَعِلن فعلن فعلن ۔ بحر- زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔ جنوری 1996ء میں کہی گئی نظم ۔

 نظم - جالب کے نام 

غلام محمد وامِق 


اِک شخص بہادر ایسا تھا جو جُھکتا اور نہ بِکتا تھا ۔ 

وہ ظلم حکومت کے سہتا اور پھر بھی سچ ہی لکھتا تھا ۔ 


کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ۔ 

ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ۔ 


ہاں محنت کش مزدوروں کا بھی بوجھ اٹھایا اُس سَر نے ۔ 

وہ سَر جو کسی بھی آمر کے آگے نہ کبھی بھی جھکتا تھا ۔ 


اِک پَل نہ گوارا اُس نے کیا عیّاش حکومت میں رہنا ۔ 

مِسکین غریبوں کی خاطر وہ جیتا تھا اور مرتا تھا ۔ 


غُرَبا کے لیے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ۔ 

ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا 


وہ سچ کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ۔ 

بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ۔ 


وہ جالِب تو تھا سب ہی کا اور سب ہی کا وہ حبیب بھی تھا 

کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ۔ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فَعِلن فعلن فعلن ۔ 

بحر- زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔ 

جنوری 1996ء میں کہی گئی نظم ۔


قطعہ - حبیب جالب  شاعر- غلام محمد وامِق   اِک شخص کہ جو شاعرِ درویش صفت تھا ۔   سرمائے کا خُوگَر تھا نہ شہرت کا وہ طالِب ۔   سچ کے لیے اُس نے تھا پیا زہر کا پیالہ ۔   کہتے تھے اسی مردِ مجاہد کو ہی جالِب ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــ  مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن  بحر- ہَزَج مثمن اخرب مکفوف محذوف  اپریل 1993ء میں کہا گیا

قطعہ - حبیب جالب شاعر- غلام محمد وامِق اِک شخص کہ جو شاعرِ درویش صفت تھا ۔ سرمائے کا خُوگَر تھا نہ شہرت کا وہ طالِب ۔ سچ کے لیے اُس نے تھا پیا زہر کا پیالہ ۔ کہتے تھے اسی مردِ مجاہد کو ہی جالِب ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن بحر- ہَزَج مثمن اخرب مکفوف محذوف اپریل 1993ء میں کہا گیا

 قطعہ - حبیب جالب 

شاعر- غلام محمد وامِق 


اِک شخص کہ جو شاعرِ درویش صفت تھا ۔ 


سرمائے کا خُوگَر تھا نہ شہرت کا وہ طالِب ۔ 


سچ کے لیے اُس نے تھا پیا زہر کا پیالہ ۔ 


کہتے تھے اسی مردِ مجاہد کو ہی جالِب ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــ 

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن 

بحر- ہَزَج مثمن اخرب مکفوف محذوف 

اپریل 1993ء میں کہا گیا


نظم - بیادِ فیض  غلام محمد وامِق   آزادی کا ہے دیکھیے پیغام فیض کا ۔  انسانیت کے واسطے ہر کام فیض کا ۔   جذبات ہوں وہ پیار کے یا انقلاب کے ۔  زندان میں بھی جاری رہا کام فیض کا ۔   ہر شاعری میں آج بھی شامل ہے دیکھ فیض ۔  روشن رہے گا تا اَبَد اب نام فیض کا ۔   دنیائے شاعری میں ہے صدیوں پہ یہ محیط ۔  سُننے میں گو کہ چھوٹا ہے یہ نام فیض کا ۔   محشر میں اے خدا تو اُسے بخش دیجیو ۔  دُنیا میں کیا ہی خوب ہے انجام فیض کا ۔   وامِق ہو تم بھی فیض کے ممنون گر تو کیا ۔  فیضِ ادب ہُوا ہے سَرِ عام فیض کا ۔  ــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن  بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔  دسمبر 1984ء میں کہی گئی نظم ۔

نظم - بیادِ فیض غلام محمد وامِق آزادی کا ہے دیکھیے پیغام فیض کا ۔ انسانیت کے واسطے ہر کام فیض کا ۔ جذبات ہوں وہ پیار کے یا انقلاب کے ۔ زندان میں بھی جاری رہا کام فیض کا ۔ ہر شاعری میں آج بھی شامل ہے دیکھ فیض ۔ روشن رہے گا تا اَبَد اب نام فیض کا ۔ دنیائے شاعری میں ہے صدیوں پہ یہ محیط ۔ سُننے میں گو کہ چھوٹا ہے یہ نام فیض کا ۔ محشر میں اے خدا تو اُسے بخش دیجیو ۔ دُنیا میں کیا ہی خوب ہے انجام فیض کا ۔ وامِق ہو تم بھی فیض کے ممنون گر تو کیا ۔ فیضِ ادب ہُوا ہے سَرِ عام فیض کا ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ دسمبر 1984ء میں کہی گئی نظم ۔

 نظم - بیادِ فیض 

غلام محمد وامِق 


آزادی کا ہے دیکھیے پیغام فیض کا ۔ 

انسانیت کے واسطے ہر کام فیض کا ۔ 


جذبات ہوں وہ پیار کے یا انقلاب کے ۔ 

زندان میں بھی جاری رہا کام فیض کا ۔ 


ہر شاعری میں آج بھی شامل ہے دیکھ فیض ۔ 

روشن رہے گا تا اَبَد اب نام فیض کا ۔ 


دنیائے شاعری میں ہے صدیوں پہ یہ محیط ۔ 

سُننے میں گو کہ چھوٹا ہے یہ نام فیض کا ۔ 


محشر میں اے خدا تو اُسے بخش دیجیو ۔ 

دُنیا میں کیا ہی خوب ہے انجام فیض کا ۔ 


وامِق ہو تم بھی فیض کے ممنون گر تو کیا ۔ 

فیضِ ادب ہُوا ہے سَرِ عام فیض کا ۔ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن 

بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 

دسمبر 1984ء میں کہی گئی نظم ۔


ایک نظم - اقبال کے نام ۔ شاعر- غلام محمد وامِق   اقبال کی جو فِکر ہے اُس پر ہمیں ہے ناز ۔  اقبال ہر زمانے میں رہتا ہے سرفراز ۔   اُمّت کے وہ حکیم تھے اور شاعرِ عوام ۔  مِلّت کے واسطے کیے اُس نے تمام کام ۔   اسلام کے عروج کی تھی اُن کو دیکھ فِکر ۔  اُن کے لبوں پہ رہتا تھا ہر دم خدا کا ذکر ۔   مشرق میں اُن کے فلسفے کی دھوم ہے مچی ۔  مغرب بھی اُن کی قدر تو کرتا ہے آج بھی ۔   طالب وہ خود کو کہتے تھے مولانا روم کے ۔  روحانی طور پر بھی جُڑے تھے وہ روم سے ۔   مدہوش ہم جو رہتے تھے لیل و نہار دیکھ ۔  سِرّ نہاں کو ہم پہ کیا آشکار دیکھ ۔   خودداری کا جو درس ہے، اقبال کا ہمیں ۔  قومی شعور اس سے ملا حال کا ہمیں ۔   شاہین کا لقب دیا اقبال نے ہمیں ۔  کرگس مگر بنا دیا ہے مال نے ہمیں ۔   ہم نے بھلا دیا ہے جو اقبال کا پیام ۔  ہم پھنس گئے ہیں مال کے اِس جال میں تمام ۔   اقبال کو بلند سدا رکھے گا خدا ۔  وامِق ہمیشہ کرتے رہو تم یہ ہی دعا ۔  ــــــــــــــــــــــــــــــــ  مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات  بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔  یہ نظم یکم نومبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔

ایک نظم - اقبال کے نام ۔ شاعر- غلام محمد وامِق اقبال کی جو فِکر ہے اُس پر ہمیں ہے ناز ۔ اقبال ہر زمانے میں رہتا ہے سرفراز ۔ اُمّت کے وہ حکیم تھے اور شاعرِ عوام ۔ مِلّت کے واسطے کیے اُس نے تمام کام ۔ اسلام کے عروج کی تھی اُن کو دیکھ فِکر ۔ اُن کے لبوں پہ رہتا تھا ہر دم خدا کا ذکر ۔ مشرق میں اُن کے فلسفے کی دھوم ہے مچی ۔ مغرب بھی اُن کی قدر تو کرتا ہے آج بھی ۔ طالب وہ خود کو کہتے تھے مولانا روم کے ۔ روحانی طور پر بھی جُڑے تھے وہ روم سے ۔ مدہوش ہم جو رہتے تھے لیل و نہار دیکھ ۔ سِرّ نہاں کو ہم پہ کیا آشکار دیکھ ۔ خودداری کا جو درس ہے، اقبال کا ہمیں ۔ قومی شعور اس سے ملا حال کا ہمیں ۔ شاہین کا لقب دیا اقبال نے ہمیں ۔ کرگس مگر بنا دیا ہے مال نے ہمیں ۔ ہم نے بھلا دیا ہے جو اقبال کا پیام ۔ ہم پھنس گئے ہیں مال کے اِس جال میں تمام ۔ اقبال کو بلند سدا رکھے گا خدا ۔ وامِق ہمیشہ کرتے رہو تم یہ ہی دعا ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ یہ نظم یکم نومبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔

 ایک نظم - اقبال کے نام ۔

شاعر- غلام محمد وامِق 


اقبال کی جو فِکر ہے اُس پر ہمیں ہے ناز ۔ 

اقبال ہر زمانے میں رہتا ہے سرفراز ۔ 


اُمّت کے وہ حکیم تھے اور شاعرِ عوام ۔ 

مِلّت کے واسطے کیے اُس نے تمام کام ۔ 


اسلام کے عروج کی تھی اُن کو دیکھ فِکر ۔ 

اُن کے لبوں پہ رہتا تھا ہر دم خدا کا ذکر ۔ 


مشرق میں اُن کے فلسفے کی دھوم ہے مچی ۔ 

مغرب بھی اُن کی قدر تو کرتا ہے آج بھی ۔ 


طالب وہ خود کو کہتے تھے مولانا روم کے ۔ 

روحانی طور پر بھی جُڑے تھے وہ روم سے ۔ 


مدہوش ہم جو رہتے تھے لیل و نہار دیکھ ۔ 

سِرّ نہاں کو ہم پہ کیا آشکار دیکھ ۔ 


خودداری کا جو درس ہے، اقبال کا ہمیں ۔ 

قومی شعور اس سے ملا حال کا ہمیں ۔ 


شاہین کا لقب دیا اقبال نے ہمیں ۔ 

کرگس مگر بنا دیا ہے مال نے ہمیں ۔ 


ہم نے بھلا دیا ہے جو اقبال کا پیام ۔ 

ہم پھنس گئے ہیں مال کے اِس جال میں تمام ۔ 


اقبال کو بلند سدا رکھے گا خدا ۔ 

وامِق ہمیشہ کرتے رہو تم یہ ہی دعا ۔ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــ 

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات 

بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 

یہ نظم یکم نومبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔


Powered by Blogger.