چند ‏متبرک ‏الفاظ ‏، ‏جو ‏اردو ‏میں ‏مطعون ‏اور ‏عربی ‏میں ‏مسنون ‏سمجھے ‏جاتے ‏ہیں ‏ـ ‏تحریر ‏و ‏تحقیق ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق  ‏ـ  ‏

چند ‏متبرک ‏الفاظ ‏، ‏جو ‏اردو ‏میں ‏مطعون ‏اور ‏عربی ‏میں ‏مسنون ‏سمجھے ‏جاتے ‏ہیں ‏ـ ‏تحریر ‏و ‏تحقیق ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ ‏

چند متبرک الفاظ جو اردو میں مطعون اور عربی میں مسنون سمجھے جاتے ہیں ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱. اگر ہم کسی کو ٹخنہ یا جوتے کی ایڑی کہہ کر پکاریں تو موصوف ہم سے ناراض ہوجائے گا ـ
لیکن اگر یہ ہی لفظ عربی میں " کعب " کہیں تو پھر یہ مشہور صحابی کا اسمِ گرامی بن جاتا ہے، اور مسلمان اس نام کو رکھنا فخر سمجھتے ہیں ... 
۲. اگر ہم کسی کو اے کسان یا اے کاشتکار کہہ کر بلائیں تو بلایا جانے والا شخص ناراض ہوجائے گا ـ  
لیکن اسی لفظ کو عربی میں " حارث " کہ کر بخوشی اپنے بچوں کا نام رکھتے ہیں ... 
۳. ہم اپنی کسی بھی قسم کی کمپنی، کاروبار یا دکان یا اولاد کا نام " کڑا " ـ " حلقہ " یا " دستہ یعنی ہینڈل " نہیں رکھتے ـ 
جب کہ ہم نے عروہ ٹریڈرز کے نام سے کاروبار ہوتے دیکھا ہے اور بعض لوگوں کا نام بھی " عروہ " رکھا جاتا ہے، اور عروہ کا مطلب بھی کڑا ـ حلقہ یا ہینڈل ہی ہوتا ہے ... 
۴. اگر کسی کو مسخرہ، یا مزاحیہ کہہ کر بلایا جائے تو یقیناً اسے برا محسوس ہوگا ـ
لیکن بیشمار لوگ اپنے بچوں کا  یہ ہی نام عربی میں،         " ظریف " رکھنا فخر سمجھتے ہیں ... 
۵. اگر کسی شخص کو بلی کا بچہ یا چھوٹی سی بلی کہا جائے تو وہ شخص لازمی غصہ کرے گا ـ
لیکن لوگ عقیدت کی وجہ سے عربی میں " ہریرہ "  نام رکھنا متبرک سمجھتے ہیں ... 
۶. کسی کو بھی اگر آپ " کتا " کہدیں تو لازمی آپ سے وہ شخص جھگڑا کرے گا ـ
لیکن بہت سے لوگوں کا نام " کلب علی " ہوتا ہے، جسے لوگ کلب کے نام سے پکارتے ہیں لیکن کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی، کیوں کہ یہ لفظ عربی میں کہا جاتا ہے ... 
۷. کوئی بھی شخص اپنے آپ کو " پرنالہ " کہلوانا ہرگز پسند نہیں کرے گا ـ
البتہ عربی میں لوگ " میزاب " نام رکھ کر خوش ہوتے ہیں ... 
۸. ہم کبھی بھی اپنے بچوں کا نام اردو میں " دور پرے " یا.  " سب سے زیادہ دور " نہیں رکھتے ـ
البتہ عربی میں اسی نام کو بڑے فخر کے ساتھ " اقصیٰ " کرکے رکھ لیتے ہیں ... 
۹.  کوئی بھی شخص اپنے آپ کو یا اپنی کسی عمات کو      " چیونٹی " یا " مکڑی "  کہلوانا پسند نہیں کرتا ـ
البتہ چیونٹی کو عربی میں تبدیل کرکے بعض مقامات یا اشخاص کا نام " نمل " رکھ لیتے ہیں،  جیسا کہ "  نمل یونیورسٹی " وغیرہ ... 
۱۰. کوئی بھی شخص خود کو اردو میں " ترازو " کہلوانا پسند  نہیں کرتا ـ 
البتہ عربی میں خوشی خوشی " میزان " کہلوا لے گا ... 
۱۱. کوئی بھی شخص کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے " بدل جانے والا یا تبدیل ہونے والا " کہہ کر پکارا جائے ـ
البتہ عربی کی محبت میں بخوشی. خود کو " مغیرہ " کہلوالے گا ... 
۱۲. اگر کسی کو " جوان اونٹ " یا " جوان اونٹ والا کہا جائے تو یقیناً وہ شخص آپ کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا ـ
البتہ یہ ہی لفظ عربی میں آکر متبرک اور مسنون بن جاتا یے، اور اکثر مسلمان خود کو فخریہ طور پر " بکر " اور         " ابوبکر "  کہلوانا پسند کرتے ہیں ... 
۱۳. اگر کسی کو " مٹی میں ملا ہوا "  یا  " خاک والا " کہا جائے تو پھر آپ کی خیر نہیں ـ
لیکن یہ ہی لفظ عربی میں آکر بڑا متبرک اور باعثِ شان بن جاتا ہے،  اور اسے حضرت علی رضہ کے لئے مخصوص کرلیا جاتا ہے ... 
اسی طرح کے اور بھی بہت سے نام اور الفاظ ڈھونڈنے سے مل سکتے ہیں ... 
واہ مولا تیری شان .... 
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ــ 
مورخہ ـ 24، جون 2021ء ... بروز جمعرات ـــ 
 کوئی منطق نہ وضاحت نہ کوئی اس کا اصول ۔  عزت و جاہ کی طلب ہے نہ اسے زر کا حصول ۔  اِس کی راہوں میں برابر ہیں سبھی شاہ و گدا اس کی منزل پہ پہنچ جائیں تو ملتا ہے خدا ۔  یہ ضروری نہیں تاروں سے سجی سیج ملے  یہ بھی لازم نہیں گلشن میں ہر اِک پھول کھلے ۔   یہ خزاں سے کبھی تاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔  یہ محبّت ہے ستاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔   اس کو دنیا کے سہاروں کی ضرورت ہی نہیں اس چمن کو تو بہاروں کی ضرورت ہی نہیں ۔  یہ وہ دانہ ہے جو مٹی سے ابھرتا ہے سدا اس کے باعث ہی معطر ہے جہاں کی یہ فضا ۔  یہ کسی تیر سے تلوار سے ڈر سکتی نہیں یہ محبت ہے کبھی موت سے مر سکتی نہیں ۔   یہ تو خنجر سے بھی قاتل سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو سنگدل سے بھی ہو سکتی ہے ۔   یہ ضروری تو نہیں عشوہ و انداز سے ہو  یہ بھی لازم نہیں حسن سے ہو ناز سے ہو ۔  یہ کسی تخت کو تاراج بھی کر سکتی ہے یہ شہنشاہوں کو بے تاج بھی کر سکتی ہے ۔  یہ پہاڑوں سے جوئے شِیر رواں کرتی ہے یہ تو پتھر سے بھی دھڑکن کو عیاں کرتی ہے ۔   یہ تو صحرا سے سرابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔  یہ محبت ہے جو خوابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔   یہ کسی لالچی انسان کی جاگیر نہیں یہ محبت کسی کم ظرف کی تقدیر نہیں ۔  یہ شہنشاہوں کو نادار بھی کر سکتی ہے اور ناداروں کو سردار بھی کر سکتی ہے ۔  یہ کسی سیٹھ کی بخشی ہوئی خیرات نہیں  یہ محبت ہے کسی کی بھی کوئی ذات نہیں ۔   یہ خرد مندوں کو دیوانوں سے ہو سکتی ہے ۔  یہ محبت ہے جو ویرانوں سے ہو سکتی ہے ۔   ایک محبوب کے صدقے میں جہاں پیدا ہوا  اور دنیا میں محبت کا نشاں پیدا ہوا ۔  اس سے ہی معرفتِ حق کا حصول ہوتا ہے اس کے باعث ہی تیرا سجدہ قبول ہوتا ہے ۔  عشق کو دل میں لئے کوئی کہاں جائے گا ؟  لوٹ کے آخر وہ درِ یار پہ پھر آئے گا ۔   یہ تو محشر سے قیامت سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے عبادت سے بھی ہو سکتی ہے ۔   یہ تو اپنوں سے پرایوں سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو مظلوم کی آہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔  یہ تو بیواؤں یتیموں سے بھی ہو سکتی ہے یہ فقیروں سے بھی شاہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔  یہ تو خاموش نگاہوں سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو لب بستہ صداؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔   یہ تو زلفوں سے اداؤں سے بھی ہو سکتی ہے یہ محبت ہے جفاؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔   یہ گنہگار کو زاہد سے بھی ہو سکتی ہے ایک بدکار کو عابد سے بھی ہو سکتی ہے ۔  منکرِ حق کو یہ سجدے سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو منزل نہیں رستے سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو مخلوق کو خالق سے بھی ہو سکتی ہے  یہ تو معشوق سے عاشق کو بھی ہو سکتی ہے ۔   قیس سے وامِق و عذرا سے بھی ہو سکتی ہے ۔  یہ محبت ہے جو لیلیٰ سے بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔  فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔  بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔  اگست 1985ء میں کہی گئی نظم ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔

کوئی منطق نہ وضاحت نہ کوئی اس کا اصول ۔ عزت و جاہ کی طلب ہے نہ اسے زر کا حصول ۔ اِس کی راہوں میں برابر ہیں سبھی شاہ و گدا اس کی منزل پہ پہنچ جائیں تو ملتا ہے خدا ۔ یہ ضروری نہیں تاروں سے سجی سیج ملے یہ بھی لازم نہیں گلشن میں ہر اِک پھول کھلے ۔ یہ خزاں سے کبھی تاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبّت ہے ستاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ اس کو دنیا کے سہاروں کی ضرورت ہی نہیں اس چمن کو تو بہاروں کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ وہ دانہ ہے جو مٹی سے ابھرتا ہے سدا اس کے باعث ہی معطر ہے جہاں کی یہ فضا ۔ یہ کسی تیر سے تلوار سے ڈر سکتی نہیں یہ محبت ہے کبھی موت سے مر سکتی نہیں ۔ یہ تو خنجر سے بھی قاتل سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو سنگدل سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ ضروری تو نہیں عشوہ و انداز سے ہو یہ بھی لازم نہیں حسن سے ہو ناز سے ہو ۔ یہ کسی تخت کو تاراج بھی کر سکتی ہے یہ شہنشاہوں کو بے تاج بھی کر سکتی ہے ۔ یہ پہاڑوں سے جوئے شِیر رواں کرتی ہے یہ تو پتھر سے بھی دھڑکن کو عیاں کرتی ہے ۔ یہ تو صحرا سے سرابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو خوابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ کسی لالچی انسان کی جاگیر نہیں یہ محبت کسی کم ظرف کی تقدیر نہیں ۔ یہ شہنشاہوں کو نادار بھی کر سکتی ہے اور ناداروں کو سردار بھی کر سکتی ہے ۔ یہ کسی سیٹھ کی بخشی ہوئی خیرات نہیں یہ محبت ہے کسی کی بھی کوئی ذات نہیں ۔ یہ خرد مندوں کو دیوانوں سے ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو ویرانوں سے ہو سکتی ہے ۔ ایک محبوب کے صدقے میں جہاں پیدا ہوا اور دنیا میں محبت کا نشاں پیدا ہوا ۔ اس سے ہی معرفتِ حق کا حصول ہوتا ہے اس کے باعث ہی تیرا سجدہ قبول ہوتا ہے ۔ عشق کو دل میں لئے کوئی کہاں جائے گا ؟ لوٹ کے آخر وہ درِ یار پہ پھر آئے گا ۔ یہ تو محشر سے قیامت سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے عبادت سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو اپنوں سے پرایوں سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو مظلوم کی آہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو بیواؤں یتیموں سے بھی ہو سکتی ہے یہ فقیروں سے بھی شاہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو خاموش نگاہوں سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو لب بستہ صداؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو زلفوں سے اداؤں سے بھی ہو سکتی ہے یہ محبت ہے جفاؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ گنہگار کو زاہد سے بھی ہو سکتی ہے ایک بدکار کو عابد سے بھی ہو سکتی ہے ۔ منکرِ حق کو یہ سجدے سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو منزل نہیں رستے سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو مخلوق کو خالق سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو معشوق سے عاشق کو بھی ہو سکتی ہے ۔ قیس سے وامِق و عذرا سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو لیلیٰ سے بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ اگست 1985ء میں کہی گئی نظم ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔

    .نظم ۔۔۔۔  محبت نامہ  ۔۔۔    
           غلام محمد وامِق 

کوئی منطق نہ وضاحت نہ کوئی اس کا اصول ۔ 
عزت و جاہ کی طلب ہے نہ اسے زر کا حصول ۔ 
اِس کی راہوں میں برابر ہیں سبھی شاہ و گدا
اس کی منزل پہ پہنچ جائیں تو ملتا ہے خدا ۔ 
یہ ضروری نہیں تاروں سے سجی سیج ملے 
یہ بھی لازم نہیں گلشن میں ہر اِک پھول کھلے ۔ 

یہ خزاں سے کبھی تاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ محبّت ہے ستاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

اس کو دنیا کے سہاروں کی ضرورت ہی نہیں
اس چمن کو تو بہاروں کی ضرورت ہی نہیں ۔ 
یہ وہ دانہ ہے جو مٹی سے ابھرتا ہے سدا
اس کے باعث ہی معطر ہے جہاں کی یہ فضا ۔ 
یہ کسی تیر سے تلوار سے ڈر سکتی نہیں
یہ محبت ہے کبھی موت سے مر سکتی نہیں ۔ 

یہ تو خنجر سے بھی قاتل سے بھی ہو سکتی ہے ۔
یہ محبت ہے جو سنگدل سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ ضروری تو نہیں عشوہ و انداز سے ہو 
یہ بھی لازم نہیں حسن سے ہو ناز سے ہو ۔ 
یہ کسی تخت کو تاراج بھی کر سکتی ہے
یہ شہنشاہوں کو بے تاج بھی کر سکتی ہے ۔ 
یہ پہاڑوں سے جوئے شِیر رواں کرتی ہے
یہ تو پتھر سے بھی دھڑکن کو عیاں کرتی ہے ۔ 

یہ تو صحرا سے سرابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ محبت ہے جو خوابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ کسی لالچی انسان کی جاگیر نہیں
یہ محبت کسی کم ظرف کی تقدیر نہیں ۔ 
یہ شہنشاہوں کو نادار بھی کر سکتی ہے
اور ناداروں کو سردار بھی کر سکتی ہے ۔ 
یہ کسی سیٹھ کی بخشی ہوئی خیرات نہیں 
یہ محبت ہے کسی کی بھی کوئی ذات نہیں ۔ 

یہ خرد مندوں کو دیوانوں سے ہو سکتی ہے ۔ 
یہ محبت ہے جو ویرانوں سے ہو سکتی ہے ۔ 

ایک محبوب کے صدقے میں جہاں پیدا ہوا 
اور دنیا میں محبت کا نشاں پیدا ہوا ۔ 
اس سے ہی معرفتِ حق کا حصول ہوتا ہے
اس کے باعث ہی تیرا سجدہ قبول ہوتا ہے ۔ 
عشق کو دل میں لئے کوئی کہاں جائے گا ؟ 
لوٹ کے آخر وہ درِ یار پہ پھر آئے گا ۔ 

یہ تو محشر سے قیامت سے بھی ہو سکتی ہے ۔
یہ محبت ہے عبادت سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ تو اپنوں سے پرایوں سے بھی ہو سکتی ہے
یہ تو مظلوم کی آہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ تو بیواؤں یتیموں سے بھی ہو سکتی ہے
یہ فقیروں سے بھی شاہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ تو خاموش نگاہوں سے بھی ہو سکتی ہے
یہ تو لب بستہ صداؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ تو زلفوں سے اداؤں سے بھی ہو سکتی ہے
یہ محبت ہے جفاؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ گنہگار کو زاہد سے بھی ہو سکتی ہے
ایک بدکار کو عابد سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
منکرِ حق کو یہ سجدے سے بھی ہو سکتی ہے
یہ تو منزل نہیں رستے سے بھی ہو سکتی ہے
یہ تو مخلوق کو خالق سے بھی ہو سکتی ہے 
یہ تو معشوق سے عاشق کو بھی ہو سکتی ہے ۔ 

قیس سے وامِق و عذرا سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ محبت ہے جو لیلیٰ سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔ 
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ 
بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ 
اگست 1985ء میں کہی گئی نظم ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


 محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیق آدم ہے ۔   محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالم ہے ۔   محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ۔   محبت درحقیقت جوہر ارواحِ آدم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔   بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔  اگست 1985ء میں کہا گیا قطعہ ۔

محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیق آدم ہے ۔ محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالم ہے ۔ محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ۔ محبت درحقیقت جوہر ارواحِ آدم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔ بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ اگست 1985ء میں کہا گیا قطعہ ۔

              ===  محبت   ===      
غلام محمد وامق۔            ۔           
محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیق آدم ہے ۔ 

محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالم ہے ۔ 

محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ۔ 

محبت درحقیقت جوہر ارواحِ آدم ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔ 
 بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ 
اگست 1985ء میں کہا گیا قطعہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
‏ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔ (نظم )

‏ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔ (نظم )

   ===   ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا  ===
             نظم ۔ غلام محمد وامِق ۔  

اے ارضِ وطن کے سپوتو جوانو ۔ 
شرافت و غیرت کے زندہ نشانو ۔ 
وہ جس کے لۓ تم نے ہر شے لٹادی 
کہ عزت و عصمت کی بازی لگادی 
کہاں ہے وہ مقصد وہ منزل کہاں ہے 
وہ ایمان افروز محفل کہاں ہے  ؟؟؟
              سنو تم کو دھوکا دیا جا رہا ہے ۔
              ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا  ہے ۔ 

وفاٶں کے بدلے جفا تم کو دی ہے ۔
دعاٶں کے بدلے دغا تم کو دی ہے ۔
فریبِ محبت تمہیں دے کے یارو ۔
تعصب کی گندی فضا تم کو دی ہے۔
کہ مانگی تھی آزادٸ فکر لیکن  ۔
غلامی کی ذہنی وبا تم کو دی ہے ۔
                 تمہیں ذہنی قیدی کیا جا رہا ہے 
                 ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا  ہے ۔ 

مسلط  نظامِ فرنگی  ہے اب  تک 
مسلماں کی غیرت بھی ننگی ہےاب تک
تمسخر  سرِ عام  اسلام  کا  ہے 
مسلمان ہے تو فقط  نام کا ہے ۔
کہیں مولوی پیر و مرشِد کے جھگڑے
کہیں خانقاہوں کے مسجد کے جھگڑے
                   یہ  زہرِ ہلاہل  دیا  جا رہا  ہے 
                  ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔ 

ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے  عاری 
کہ اب ہے یہود و نصاری' سے یاری
یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی 
کہ دنیا ہے کافر کی  مسجد  ہماری ۔ 
تصور  عبادت  کا  بدلا  ہوا   ہے ۔ 
صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ۔ 
                   مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ۔ 
                   ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔ 

یہ مغرب زدہ لوگ  مکروہ صورت ۔ 
نہیں جانتے کیا ہے تقدیسِ عورت 
یہ عورت کی عزت کے در پے ہوۓ ہیں ۔ 
کہ در در جو عورت کو لے جا رہے ہیں ۔
یہ عورت کو چکر دیا جا رہا ہے ۔
جو مردوں کے ہمسر کیا جا رہا ہے ۔ 
                     یہ شیطانی چکر چلا جا رہا ہے ۔
                    ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا  ہے ۔ 

تمہیں  ہر  قدم  پر  بتاتا  ہے قرآں ۔
مسلماں کا ساتھی فقط ہے مسلماں ۔ 
کوٸی غیر مسلم تمہارا نہیں ہے ۔
سواۓ خدا کے سہارا نہں  ہے  ۔
یہ پھندے فرنگی نے پھیلاۓ سارے  
انہیں توڑ ڈالو خدا کے سہارے ۔ 
                    تمہیں اپنے رنگ میں رنگا جا رہا ہے 
                    ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا  ہے ۔ 

یہاں انقلاب ایک آۓ گا اِک  دن ۔
جو حقدار کو حق دلاۓ گا اک دن ۔
پریشاں نہیں ہوگا مزدور کوٸی ۔
کہ حاکِم نہیں ہوگا مغرور کوٸی ۔
مِٹے گا یہ دستورِ  سرمایہ داری ۔
لگاٸیں گے وامِق جو ہم ضربِ کاری ۔ 
                       یہ کیوں ظلم اب تک سہا جا رہا ہے؟
                      ضیا  ظلمتوں کو کہا جا رہا  ہے   ۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن 
بحر۔ متقارب مثمن سالم ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
یکم مئی سال 1986ء کو کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔۔۔ 
 مسلماں ‏ہم ‏ہیں ‏مگر ‏خود ‏کو ‏کبھی ‏دیکھا ‏نہیں ‏ـ   ‏

مسلماں ‏ہم ‏ہیں ‏مگر ‏خود ‏کو ‏کبھی ‏دیکھا ‏نہیں ‏ـ ‏

                شانِ مسلم   (نظم) 
                  غلام محمد وامق۔    

مسلماں ہم ہیں مگر خود کو کبھی دیکھا نہیں ۔ 
مسلماں کیا چیز ہے یہ آج تک سوچا نہیں ۔ 
ہم جہاں میں ذلّت و خواری کے عنواں بن گئے ۔ 
اپنی عظمت بھول کر انساں سے شیطاں بن گئے ۔ 

یہ غلامی، یہ تعیّش، کاہلی، بے راہ روی ۔ 
یہ نہیں ہے شانِ مسلم، شانِ مسلم اور ہے ۔ 

ایک مسلم رات بھر غافل کبھی سوتا نہیں ۔ 
عیش و عشرت سے وہ قصرِ شاہی میں رہتا نہیں ۔
گھوڑے کی ننگی کمر اس کے لئے آرام گاہ ۔ 
دو جہاں کو چیرتی ہے، اُس کی عقابی نگاہ ۔ 

آج ہم مفلوج ہیں، ناکام ہیں، ہر اِک گھڑی ۔ 
یہ نہیں ہے شانِ مسلم، شانِ مسلم اور ہے ۔

مسلماں ظالم و جابر سے کبھی ڈرتا نہیں ۔ 
سر تو کٹ سکتا ہے لیکن جھک کبھی سکتا نہیں ۔ 
ظلم سے جو صلح کر لے وہ مسلماں کیا ہوا ؟ 
جو اندھیروں کو نہ چیرے وہ چراغاں کیا ہوا ؟ 

سَر جھکا کر جینے کو کہتا ہے اب تُو بندگی ۔ 
یہ نہیں ہے شانِ مسلم،  شانِ مسلم اور ہے ۔ 

رات دن سجدے میں رہنے سے خدا ملتا نہیں ۔ 
اِس جہاں کو چھوڑ دینے سے خدا ملتا نہیں ۔ 
جستجو تجھ کو خُدا کی ہے تو حُجرے سے نکل ۔
ہاتھ میں تلوار لے اور ظالموں کا سَر کُچل ۔ 

بھیک کی روٹی پہ کیوں تونے گزاری زندگی ۔ 
یہ نہیں ہے شانِ مسلم ، شانِ مسلم اور ہے ۔ 

عظمتِ مسلم کے شاہد ، جنگل و صحرا بھی ہیں ۔ 
ہیبتِ مسلم سے لرزاں کوہ بھی دریا بھی ہیں ۔ 
دیکھ تو نظریں گھما کر اپنے ماضی کے مزار ۔ 
اپنی غیرت کی لحد پر کیوں نہیں تُو شرمسار ؟ 

بندگی تیری ہے اب ، تیرے لئے شرمندگی ۔ 
یہ نہیں ہے شانِ مسلم، شانِ مسلم اور ہے ۔ 

اپنی ذلّت اپنی پستی کے ہیں کیا اسباب دیکھ ۔ 
تاریخِ اسلام کے تُو گمشدہ ابواب دیکھ ۔ 
دیکھ سکتا ہے تو،  تُو اپنا ذرا کردار دیکھ ۔ 
جھانک کر اپنے گریباں میں ذرا اے یار دیکھ ۔ 

تیرا مقصد ہے فقط حرص و ہوس کی زندگی ۔ 
یہ نہیں ہے شانِ مسلم ، شانِ مسلم اور ہے ۔ 

آؤ مل کر تاریخِ اسلاف کو زندہ کریں ۔ 
شانِ مسلم کو جہاں میں پھر سے تابندہ کریں ۔ 
ہم نظامِ عدل اور انصاف کے داعی بنیں ۔ 
انقلابی راہ کے ، بے باک ہم راہی بنیں ۔ 

ورنہ وامِق رائیگاں جائے گی ساری بندگی ۔ 
یہ نہیں ہے شانِ مسلم ، شانِ مسلم اور ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔ 
بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
اپریل سال 1990ء میں کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مذہبی ‏اجارہ ‏داروں ‏سے ‏خطاب ‏ــ  ‏نظم ‏ـ ‏جی ‏چاہا ‏جیسے ‏کہہ ‏دیا ‏،جی ‏چاہا ‏جیسے ‏کرلیا ‏ــ  ‏شاعر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

مذہبی ‏اجارہ ‏داروں ‏سے ‏خطاب ‏ــ ‏نظم ‏ـ ‏جی ‏چاہا ‏جیسے ‏کہہ ‏دیا ‏،جی ‏چاہا ‏جیسے ‏کرلیا ‏ــ ‏شاعر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

    ===  مذہبی اجارہ داروں سے خطاب  === 
                         غلام محمد وامِق 

جی چاہا جیسے کہہ دیا، جی چاہا جیسے کر لیا ... 
خود ساختہ اصول کو دل چاہا جیسے گھڑ لیا ... 
تم کو نسیمِ علم و عقل، چھُو کر کبھی نہیں گئی ... 
فکر و شعور سے پرے،  یہ ساری زندگی رہی ... 

کولہو کے بیل کی طرح محوِ سفر رہے ہو تُم ... 
کیا کیا نہ کہہ رہے ہو تم، کیا کیا نہ کر رہے ہو تُم ... 

قرآن ہی کی آڑ میں فتنہ پھیلا رہے ہو تُم ... 
لفظِ جہاد * بول کر  انساں لڑا رہے ہو تُم ... 
اللہ قرار خود کو دے، اعضائے جسمِ مؤمنین ... 
سمجھے نہیں رموزِ عشق، مشرک بتا رہے ہو تُم ... 

فرقے بنا کے، لوگوں پہ کیوں ظلم کر رہے ہو تُم ...
کیا کیا نہ کہہ رہے ہو تم، کیا کیا نہ کر رہے ہو تُم ... 

اسلام نے تو دنیا سے،   نفرت کا خاتمہ کیا ...  
مذہب کا فرق رکھ کے بھی انساں کو ایک کردیا ... 
قرآن کا یہ حکم ہے،  دنیا میں امن سے رہو ... 
کافر ہے گر پڑوس میں، اس سے بھی خُلق سے ملو ... 

سب کے دلوں میں بغض اور نفرت کو بھر رہے ہو تُم ..
کیا کیا نہ کہہ رہے ہو تم، کیا کیا نہ کر رہے ہو تُم ... 

فتوے ہی فتوے جاری ہیں، اور کوئی کام ہی نہیں ... 
انسانی اتّحاد سے ،  .........  تُم کو کلام ہی نہیں ... 
عقلِ سلیم ہے اگر،  باطل نظاموں سے لڑو ... 
مشرک بنا رہے ہیں جو،  ایسے اداروں سے لڑو ... 

فتوے عجیب نت نئے، ہر روز گھڑ رہے ہو تُم ... 
کیا کیا نہ کہہ رہے ہو تم، کیا کیا نہ کر رہے ہو تُم ... 

* خدانخواستہ میں جہاد کا منکر نہیں ہوں، لیکن ہر فساد کو جہاد نہیں سمجھتا ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــ
 یہ نظم مارچ 1999ء میں کہی گئی ـ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ... 
مورخہ 23 جولائی 2021ء ـ بروز، جمعۃ المبارک ... 

حضرت ‏علی ‏رضہ ‏، نے ‏بی ‏بی ‏فاطمہ ‏کی ‏موجودگی ‏میں دشمنِ ‏اسلام ‏ابوجہل ‏کی ‏بیٹی ‏سے ‏نکاح ‏کرنے ‏کی ‏کوشش ‏کی ‏ـ ‏جسے ‏سن ‏کر ‏رسولﷺ ‏کو ‏بہت ‏غصہ ‏آیا ‏.حدیث .نمبر .1999  ‏ـ ‏سُنن ‏ابنِ ‏ماجہ ‏... ‏

حضرت ‏علی ‏رضہ ‏، نے ‏بی ‏بی ‏فاطمہ ‏کی ‏موجودگی ‏میں دشمنِ ‏اسلام ‏ابوجہل ‏کی ‏بیٹی ‏سے ‏نکاح ‏کرنے ‏کی ‏کوشش ‏کی ‏ـ ‏جسے ‏سن ‏کر ‏رسولﷺ ‏کو ‏بہت ‏غصہ ‏آیا ‏.حدیث .نمبر .1999 ‏ـ ‏سُنن ‏ابنِ ‏ماجہ ‏... ‏

نمازِ ‏جنازہ ‏پر ‏آپﷺ ‏یہ ‏مشہور ‏دعا ‏پڑھتے ‏تھے ‏ـ ‏" ‏اے ‏اللہ ‏ہمارے ‏زندوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏مُردوں ‏کو ‏،ہمارے ‏حاضر ‏لوگوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏غائب ‏لوگوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏چھوٹوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏بڑوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏مردوں ‏کو ‏، ‏اور ‏ہماری ‏عورتوں ‏کو ‏بخش ‏دے ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏1498 ‏، ‏سُنن ‏ابنِ ‏ماجہ ‏... ‏

نمازِ ‏جنازہ ‏پر ‏آپﷺ ‏یہ ‏مشہور ‏دعا ‏پڑھتے ‏تھے ‏ـ ‏" ‏اے ‏اللہ ‏ہمارے ‏زندوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏مُردوں ‏کو ‏،ہمارے ‏حاضر ‏لوگوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏غائب ‏لوگوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏چھوٹوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏بڑوں ‏کو ‏، ‏ہمارے ‏مردوں ‏کو ‏، ‏اور ‏ہماری ‏عورتوں ‏کو ‏بخش ‏دے ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏1498 ‏، ‏سُنن ‏ابنِ ‏ماجہ ‏... ‏

عورت ‏، ‏عورت ‏کا ‏نکاح ‏نہ ‏کرائے ‏ـ  ‏اور ‏نہ ‏ہی ‏کوئی ‏عورت ‏خود ‏اپنا ‏نکاح ‏کرے ‏ـ ‏یہ ‏بدکار ‏عورتوں ‏کا ‏کام   ہے، ‏حدیث ‏نمبر ‏ ‏1882 ‏سنن ‏ابنِ ‏ماجہ ‏ـ ‏

عورت ‏، ‏عورت ‏کا ‏نکاح ‏نہ ‏کرائے ‏ـ ‏اور ‏نہ ‏ہی ‏کوئی ‏عورت ‏خود ‏اپنا ‏نکاح ‏کرے ‏ـ ‏یہ ‏بدکار ‏عورتوں ‏کا ‏کام ہے، ‏حدیث ‏نمبر ‏ ‏1882 ‏سنن ‏ابنِ ‏ماجہ ‏ـ ‏

 اے بھولنے والے،   ہو تجھے عید مبارک ...  اے کاش مجھے تُو بھی کہے عیدمبارک ...   ہر عید پہ ہوتا ہے ستم، تیرے بنا یوں ...  ہر شخص کہے مل کے مجھے عیدمبارک ...   اپنی تو یوں ہی عید گزر جائے گی لیکن ...  تُو جس سے ملے عید،  اُسے عید مبارک ...    یہ عید بھی کیا ہے کہ، رہ و رسم کی خاطر ...  ہر شخص کہے مِل کے گلے،  عید مبارک ...   ہر عید پہ ملنے کو بلایا اسے،  لیکن ... ہر بار وہ خط میں ہی لکھے عید مبارک ...   میں نے جو کہا عید ہے، دیکھو تو اِدھر بھی ...  تو اُس نے کہا ہنس کے،  ارے!  عید مبارک ...   اِک خواہشِ دیرینہ کی تکمیل ہوئی تھی ...  جب اس نے کہا مل کے گلے،  عید مبارک ...   غیروں سے تو ہنس ہنس کے ملے خوب وہ لیکن ...  مُنہہ پھیر کے  وامِق سے کہے،  عید مبارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔  بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف   شاعر ـ غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ، مئی 1985ء میں کہی گئی غزل ـ

اے بھولنے والے، ہو تجھے عید مبارک ... اے کاش مجھے تُو بھی کہے عیدمبارک ... ہر عید پہ ہوتا ہے ستم، تیرے بنا یوں ... ہر شخص کہے مل کے مجھے عیدمبارک ... اپنی تو یوں ہی عید گزر جائے گی لیکن ... تُو جس سے ملے عید، اُسے عید مبارک ... یہ عید بھی کیا ہے کہ، رہ و رسم کی خاطر ... ہر شخص کہے مِل کے گلے، عید مبارک ... ہر عید پہ ملنے کو بلایا اسے، لیکن ... ہر بار وہ خط میں ہی لکھے عید مبارک ... میں نے جو کہا عید ہے، دیکھو تو اِدھر بھی ... تو اُس نے کہا ہنس کے، ارے! عید مبارک ... اِک خواہشِ دیرینہ کی تکمیل ہوئی تھی ... جب اس نے کہا مل کے گلے، عید مبارک ... غیروں سے تو ہنس ہنس کے ملے خوب وہ لیکن ... مُنہہ پھیر کے وامِق سے کہے، عید مبارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ، مئی 1985ء میں کہی گئی غزل ـ

          ****   عید مبارک   **** 
                  غلام محمد وامِق    

اے بھولنے والے،   ہو تجھے عید مبارک ... 
اے کاش مجھے تُو بھی کہے عیدمبارک ... 

ہر عید پہ ہوتا ہے ستم، تیرے بنا یوں ... 
ہر شخص کہے مل کے مجھے عیدمبارک ... 

اپنی تو یوں ہی عید گزر جائے گی لیکن ... 
تُو جس سے ملے عید،  اُسے عید مبارک ...  

یہ عید بھی کیا ہے کہ، رہ و رسم کی خاطر ... 
ہر شخص کہے مِل کے گلے،  عید مبارک ... 

ہر عید پہ ملنے کو بلایا اسے،  لیکن ...
ہر بار وہ خط میں ہی لکھے عید مبارک ... 

میں نے جو کہا عید ہے، دیکھو تو اِدھر بھی ... 
تو اُس نے کہا ہنس کے،  ارے!  عید مبارک ... 

اِک خواہشِ دیرینہ کی تکمیل ہوئی تھی ... 
جب اس نے کہا مل کے گلے،  عید مبارک ... 

غیروں سے تو ہنس ہنس کے ملے خوب وہ لیکن ... 
مُنہہ پھیر کے  وامِق سے کہے،  عید مبارک ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ 
بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف 
 شاعر ـ غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ،
مئی 1985ء میں کہی گئی غزل ـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
دل میں اچانک جانے کیوں اک کانٹا سا چبھ جاتا ہے ۔  اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔   فاقہ کش کمزور جوانی زرد سے لاغر چہرے ہیں ۔  لب بستہ فریادیں ان کی کون سنے سب بہرے ہیں ۔  ان کو لوٹا ہے شرفا نے بن گئیں زندہ لاشیں یہ ۔  پتھر دل ہیں دنیا والے کون سنے گا باتیں یہ ۔  جھوٹے ہیں سب پیر و پنڈت کوئی نہ سچا عالم ہے ۔  ظاہر میں ہیں عابد زاہد باطن سب کا ظالم ہے ۔   ایسے لوگوں کے باعث دنیا میں عزاب آجاتا ہے ۔  اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔   ایک طرح کے انساں ہیں سب، لیکن اونچ اور نیچ ہے کیوں ؟  کوئی خدا بن بیٹھا ہے اور کوئی اتنا ہیچ ہے کیوں ؟  مال و دولت کا جو پجاری دولت اس پر برسے ہے ۔  ایک خدا کو ماننے والا روٹی کو بھی ترسے ہے ۔  کیسا یہ اندھیر ہے لوگو کیسا ہے جنجال یہاں ۔  نام خدا بدنام کیا اور مزہب کو پامال یہاں ۔   کیسی بھیانک رسمیں ہیں یہ جن سے اب خوف آتا ہے ۔  اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔   دولت مند سرمایہ دار، کوٹھی بنگلے اور ہے کار ۔  مزدوروں کے خون پہ قائم ان کا سارا دارومدار ۔  ملک کو بیچ کے کھا گئے دیکھو اپنے ہی سب سیاستدان ۔  ووٹ عوام سے لے کر جائیں ، عیش کریں وہ انگلستان ۔  امریکہ کے شیطانوں کے آگے سجدہ ریز ہیں یہ ۔  اپنی قوم کو لوٹنے میں تو سب سے بڑھ کر تیز ہیں یہ ۔   ایسے لیڈروں کے ہاتھوں ہی ملک تباہ ہو جاتا ہے ۔  اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔   کوئی یہاں پر انگلش پڑھ کر عُجب سے پھولا جاتا ہے ۔  کوئی یہاں پر افسر ہو کر انساں کو ٹھکراتا ہے ۔  کوئی یہاں پر پِیر بنا ہے ، لوگوں کی تحقیر کرے ۔  کوئی عقیدے کی منطق پر اوروں کی تکفیر کرے ۔ انساں کی عظمت کا دیکھو کوئی یہاں دستور نہیں ۔  اپنے عیبوں کو بھی دیکھے کسی کو یہ منظور نہیں ۔   کتنے جھوٹے ہیں یہ انساں جن سے دل گھبراتا ہے ۔  اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔   علماء اپنے علم کو بیچیں، علمی تجارت کرتے ہیں ۔  چھوٹے موٹے لوگوں سے وہ ملنا پسند کب کرتے ہیں ۔  ان کا کھانا پینا اعلیٰ ، ان کی شان نرالی ہے ۔  درسِ سیرت دیتے ہیں اور حالت شیطاں والی ہے ۔  کِس شعبے کو دیکھیں وامِق، کس شعبے کی بات کریں ۔  اِس سسٹم کے حصے ہیں سب کیسے ان کو مات کریں ۔   بڑھتا ہے جب ظلم و ستم تو آخر وہ مٹ جاتا ہے ۔  اِس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع ۔  فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فع ۔  بحر ہندی/ متقارب مثمن مضاعف ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ جنوری سال 1998ء میں کہی گئی نظم ۔

دل میں اچانک جانے کیوں اک کانٹا سا چبھ جاتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ فاقہ کش کمزور جوانی زرد سے لاغر چہرے ہیں ۔ لب بستہ فریادیں ان کی کون سنے سب بہرے ہیں ۔ ان کو لوٹا ہے شرفا نے بن گئیں زندہ لاشیں یہ ۔ پتھر دل ہیں دنیا والے کون سنے گا باتیں یہ ۔ جھوٹے ہیں سب پیر و پنڈت کوئی نہ سچا عالم ہے ۔ ظاہر میں ہیں عابد زاہد باطن سب کا ظالم ہے ۔ ایسے لوگوں کے باعث دنیا میں عزاب آجاتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ ایک طرح کے انساں ہیں سب، لیکن اونچ اور نیچ ہے کیوں ؟ کوئی خدا بن بیٹھا ہے اور کوئی اتنا ہیچ ہے کیوں ؟ مال و دولت کا جو پجاری دولت اس پر برسے ہے ۔ ایک خدا کو ماننے والا روٹی کو بھی ترسے ہے ۔ کیسا یہ اندھیر ہے لوگو کیسا ہے جنجال یہاں ۔ نام خدا بدنام کیا اور مزہب کو پامال یہاں ۔ کیسی بھیانک رسمیں ہیں یہ جن سے اب خوف آتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ دولت مند سرمایہ دار، کوٹھی بنگلے اور ہے کار ۔ مزدوروں کے خون پہ قائم ان کا سارا دارومدار ۔ ملک کو بیچ کے کھا گئے دیکھو اپنے ہی سب سیاستدان ۔ ووٹ عوام سے لے کر جائیں ، عیش کریں وہ انگلستان ۔ امریکہ کے شیطانوں کے آگے سجدہ ریز ہیں یہ ۔ اپنی قوم کو لوٹنے میں تو سب سے بڑھ کر تیز ہیں یہ ۔ ایسے لیڈروں کے ہاتھوں ہی ملک تباہ ہو جاتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ کوئی یہاں پر انگلش پڑھ کر عُجب سے پھولا جاتا ہے ۔ کوئی یہاں پر افسر ہو کر انساں کو ٹھکراتا ہے ۔ کوئی یہاں پر پِیر بنا ہے ، لوگوں کی تحقیر کرے ۔ کوئی عقیدے کی منطق پر اوروں کی تکفیر کرے ۔ انساں کی عظمت کا دیکھو کوئی یہاں دستور نہیں ۔ اپنے عیبوں کو بھی دیکھے کسی کو یہ منظور نہیں ۔ کتنے جھوٹے ہیں یہ انساں جن سے دل گھبراتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ علماء اپنے علم کو بیچیں، علمی تجارت کرتے ہیں ۔ چھوٹے موٹے لوگوں سے وہ ملنا پسند کب کرتے ہیں ۔ ان کا کھانا پینا اعلیٰ ، ان کی شان نرالی ہے ۔ درسِ سیرت دیتے ہیں اور حالت شیطاں والی ہے ۔ کِس شعبے کو دیکھیں وامِق، کس شعبے کی بات کریں ۔ اِس سسٹم کے حصے ہیں سب کیسے ان کو مات کریں ۔ بڑھتا ہے جب ظلم و ستم تو آخر وہ مٹ جاتا ہے ۔ اِس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع ۔ فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فع ۔ بحر ہندی/ متقارب مثمن مضاعف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ جنوری سال 1998ء میں کہی گئی نظم ۔

                  نظم ۔۔۔۔ اندازِ نظر ۔۔۔۔
( یہ میرا اندازِ نظر ہے، آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
                    شاعر ۔ غلام محمد وامق

دل میں اچانک جانے کیوں اک کانٹا سا چبھ جاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

فاقہ کش کمزور جوانی زرد سے لاغر چہرے ہیں ۔ 
لب بستہ فریادیں ان کی کون سنے سب بہرے ہیں ۔ 
ان کو لوٹا ہے شرفا نے بن گئیں زندہ لاشیں یہ ۔ 
پتھر دل ہیں دنیا والے کون سنے گا باتیں یہ ۔ 
جھوٹے ہیں سب پیر و پنڈت کوئی نہ سچا عالم ہے ۔ 
ظاہر میں ہیں عابد زاہد باطن سب کا ظالم ہے ۔ 

ایسے لوگوں کے باعث دنیا میں عزاب آجاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

ایک طرح کے انساں ہیں سب، لیکن اونچ اور نیچ ہے کیوں ؟ 
کوئی خدا بن بیٹھا ہے اور کوئی اتنا ہیچ ہے کیوں ؟ 
مال و دولت کا جو پجاری دولت اس پر برسے ہے ۔ 
ایک خدا کو ماننے والا روٹی کو بھی ترسے ہے ۔ 
کیسا یہ اندھیر ہے لوگو کیسا ہے جنجال یہاں ۔ 
نام خدا بدنام کیا اور مزہب کو پامال یہاں ۔ 

کیسی بھیانک رسمیں ہیں یہ جن سے اب خوف آتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

دولت مند سرمایہ دار، کوٹھی بنگلے اور ہے کار ۔ 
مزدوروں کے خون پہ قائم ان کا سارا دارومدار ۔ 
ملک کو بیچ کے کھا گئے دیکھو اپنے ہی سب سیاستدان ۔ 
ووٹ عوام سے لے کر جائیں ، عیش کریں وہ انگلستان ۔ 
امریکہ کے شیطانوں کے آگے سجدہ ریز ہیں یہ ۔ 
اپنی قوم کو لوٹنے میں تو سب سے بڑھ کر تیز ہیں یہ ۔ 

ایسے لیڈروں کے ہاتھوں ہی ملک تباہ ہو جاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

کوئی یہاں پر انگلش پڑھ کر عُجب سے پھولا جاتا ہے ۔ 
کوئی یہاں پر افسر ہو کر انساں کو ٹھکراتا ہے ۔ 
کوئی یہاں پر پِیر بنا ہے ، لوگوں کی تحقیر کرے ۔ 
کوئی عقیدے کی منطق پر اوروں کی تکفیر کرے ۔
انساں کی عظمت کا دیکھو کوئی یہاں دستور نہیں ۔ 
اپنے عیبوں کو بھی دیکھے کسی کو یہ منظور نہیں ۔ 

کتنے جھوٹے ہیں یہ انساں جن سے دل گھبراتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

علماء اپنے علم کو بیچیں، علمی تجارت کرتے ہیں ۔ 
چھوٹے موٹے لوگوں سے وہ ملنا پسند کب کرتے ہیں ۔ 
ان کا کھانا پینا اعلیٰ ، ان کی شان نرالی ہے ۔ 
درسِ سیرت دیتے ہیں اور حالت شیطاں والی ہے ۔ 
کِس شعبے کو دیکھیں وامِق، کس شعبے کی بات کریں ۔ 
اِس سسٹم کے حصے ہیں سب کیسے ان کو مات کریں ۔ 

بڑھتا ہے جب ظلم و ستم تو آخر وہ مٹ جاتا ہے ۔ 
اِس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع ۔ 
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فع ۔ 
بحر ہندی/ متقارب مثمن مضاعف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔
جنوری سال 1998ء میں کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
آج کا جہاد یا آج کے مجاہدین  .....؟؟؟رسول اللہﷺ نے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں سال 622 عیسوی، اگست کے مہینے میں یثرب ( مدینہ منورہ)  ہجرت فرمائی ـ مدینہ آمد کے فقط آٹھ سالوں کے دوران آپﷺ  نے اپنے صحابہ کے ساتھ مل کر جہاد کیا، اور جہاد کے نتیجہ میں پہلے مدینہ کے قرب و جوار کے تمام یہودی اور عیسائی علاقے فتح ہوئے، پھر مکہ فتح ہوا ـ بعدازاں مکہ کے اردگرد کے تمام علاقے مثلاﹰ حنین، طائف، تبوک تک فتح کئے گئے ـ ملک شام کا علاقہ " موتہ " آٹھ ہجری اگست 629 عیسوی میں رسولﷺ کے حکم پر مجاہدین نے فتح کیا ... خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضہ نے اپنے دو سالہ دور خلافت میں جھوٹے مدعیء نبوت مسلیمہ کذاب کے لشکر کے خلاف جہاد کیا،  جوکہ ہزاروں کی تعداد میں تھا اور اسے شکست دے کر اس فتنے کو ختم کیا اور مسلیمہ کذاب کو جہنم واصل کیا ... خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضہ نے صرف دس سال کے قلیل عرصے میں دنیا کی دو سپر پاورز فارس ( ایران)  اور روم کو شکست دی ـ اس کے علاوہ شمالی افریقہ، مصر، اور بیت المقدس کو بھی عیسائیوں سے فتح کیا ... بعد ازاں اموی اور عباسی دورِ حکومت میں بھی مجاہدین،  عیسائی ظالم حکومتوں کو شکست دیتے رہے ...سلطان نورالدین زنگی نے صلیبی جنگوں میں عیسائیوں سے جہاد کیا اور ان کو شکست دے کر ان کے علاقوں پر قبضہ کیا ... سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے بیس سالہ دورِ حکومت میں صرف 54 سال کی عمر پائی، اس قلیل عرصے میں آپ نے مصر، شام، موصل، حلب، کی بغاوتیں ختم کیں اور انہیں فتح کیا ـ اور سال 1187 عیسوی میں بیت المقدس ( جس پر دوبارہ عیسائیوں نے قبضہ کرلیا تھا) عیسائیوں سے آزاد کروایا ـ بعدازاں تمام عیسائی ملکوں یعنی پورے یورپ کی متحدہ افواج کو تیسری صلیبی جنگ میں عبرتناک شکست دی، جس میں چھ لاکھ سے زائد عیسائی افواج ماری گئی ... پھر سلجوقی حکمرانوں نے بھی صلیبی عیسائی ریاستوں اور منگولوں کے ساتھ جہاد کیا اور ان کے علاقے فتح کرکے اپنی قلمرو میں شامل کئے ... اور ہمارے ماضی قریب میں سلطنتِ عثمانیہ کے ہر سلطان نے اپنے عہد میں عیسائی ریاستوں سے جہاد کرکے اسلامی سلطنت کو وسعت دی ـ چنانچہ بالآخر سلطنتِ عثمانیہ کے  " سلطان محمد فاتح " نے،  29 مئی ـ سال 1453 ء میں رسول اکرمﷺ کی بشارت  کے مطابق  " قسطنطنیہ " کو بھی جہاد کر کے فتح کر لیا .... لیکن ہمارے آج کے مجاہدین تقریباﹰ بہتّر 72 سالوں سے کشمیر کی آزادی کے لئے جہاد کر رہے ہیں، کشمیر کو فتح کرنا تو دور کی بات ہے، کشمیر سے ظلم تک ختم نہیں کرواسکے ـ نتیجہ صفر، بلکہ مائنس ... تقریباﹰ ستر سالوں سے فلسطین اور بیت لمقدس کی آزادی کے لئے جہاد جاری ہے، فتح تو کیا کرنا تھا، فلسطینیوں کو جائز حقوق بھی نہیں دلوائے جاسکے، نتیجہ صفر ـ بلکہ مائنس ...افغانستان میں چالیس سالوں سے باقائدہ جہاد جاری یے، لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں لیکن اس طویل عرصے میں  غیرملکوں کو فتح کرنا یا یورپ کے کسی ملک پر قبضہ کرنا تو دور کی بات ہے اپنا ملک بھی غیروں سے مکمل طور ہر آزاد نہیں کروایا جاسکا ہے ـ نتیجہ صفر، بلکہ مائنس ... لیکن دعویٰ کر رہے ہیں رسول اللہ والا جہاد کرنے کا، اور اپنی چھوٹی موٹی مزاحمتی کامیابیوں کو تشبیه دی جاتی  ہیں، فتح مبین، فتح مکہ اور غزوہء بدر سے .... ہائے ہماری خوش فہمیاں ...... ـــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ... مورخہ ـ 08 جولائی 2021ء بروز جمعرات ‏ـ ‏

آج کا جہاد یا آج کے مجاہدین .....؟؟؟رسول اللہﷺ نے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں سال 622 عیسوی، اگست کے مہینے میں یثرب ( مدینہ منورہ) ہجرت فرمائی ـ مدینہ آمد کے فقط آٹھ سالوں کے دوران آپﷺ نے اپنے صحابہ کے ساتھ مل کر جہاد کیا، اور جہاد کے نتیجہ میں پہلے مدینہ کے قرب و جوار کے تمام یہودی اور عیسائی علاقے فتح ہوئے، پھر مکہ فتح ہوا ـ بعدازاں مکہ کے اردگرد کے تمام علاقے مثلاﹰ حنین، طائف، تبوک تک فتح کئے گئے ـ ملک شام کا علاقہ " موتہ " آٹھ ہجری اگست 629 عیسوی میں رسولﷺ کے حکم پر مجاہدین نے فتح کیا ... خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضہ نے اپنے دو سالہ دور خلافت میں جھوٹے مدعیء نبوت مسلیمہ کذاب کے لشکر کے خلاف جہاد کیا، جوکہ ہزاروں کی تعداد میں تھا اور اسے شکست دے کر اس فتنے کو ختم کیا اور مسلیمہ کذاب کو جہنم واصل کیا ... خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضہ نے صرف دس سال کے قلیل عرصے میں دنیا کی دو سپر پاورز فارس ( ایران) اور روم کو شکست دی ـ اس کے علاوہ شمالی افریقہ، مصر، اور بیت المقدس کو بھی عیسائیوں سے فتح کیا ... بعد ازاں اموی اور عباسی دورِ حکومت میں بھی مجاہدین، عیسائی ظالم حکومتوں کو شکست دیتے رہے ...سلطان نورالدین زنگی نے صلیبی جنگوں میں عیسائیوں سے جہاد کیا اور ان کو شکست دے کر ان کے علاقوں پر قبضہ کیا ... سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے بیس سالہ دورِ حکومت میں صرف 54 سال کی عمر پائی، اس قلیل عرصے میں آپ نے مصر، شام، موصل، حلب، کی بغاوتیں ختم کیں اور انہیں فتح کیا ـ اور سال 1187 عیسوی میں بیت المقدس ( جس پر دوبارہ عیسائیوں نے قبضہ کرلیا تھا) عیسائیوں سے آزاد کروایا ـ بعدازاں تمام عیسائی ملکوں یعنی پورے یورپ کی متحدہ افواج کو تیسری صلیبی جنگ میں عبرتناک شکست دی، جس میں چھ لاکھ سے زائد عیسائی افواج ماری گئی ... پھر سلجوقی حکمرانوں نے بھی صلیبی عیسائی ریاستوں اور منگولوں کے ساتھ جہاد کیا اور ان کے علاقے فتح کرکے اپنی قلمرو میں شامل کئے ... اور ہمارے ماضی قریب میں سلطنتِ عثمانیہ کے ہر سلطان نے اپنے عہد میں عیسائی ریاستوں سے جہاد کرکے اسلامی سلطنت کو وسعت دی ـ چنانچہ بالآخر سلطنتِ عثمانیہ کے " سلطان محمد فاتح " نے، 29 مئی ـ سال 1453 ء میں رسول اکرمﷺ کی بشارت کے مطابق " قسطنطنیہ " کو بھی جہاد کر کے فتح کر لیا .... لیکن ہمارے آج کے مجاہدین تقریباﹰ بہتّر 72 سالوں سے کشمیر کی آزادی کے لئے جہاد کر رہے ہیں، کشمیر کو فتح کرنا تو دور کی بات ہے، کشمیر سے ظلم تک ختم نہیں کرواسکے ـ نتیجہ صفر، بلکہ مائنس ... تقریباﹰ ستر سالوں سے فلسطین اور بیت لمقدس کی آزادی کے لئے جہاد جاری ہے، فتح تو کیا کرنا تھا، فلسطینیوں کو جائز حقوق بھی نہیں دلوائے جاسکے، نتیجہ صفر ـ بلکہ مائنس ...افغانستان میں چالیس سالوں سے باقائدہ جہاد جاری یے، لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں لیکن اس طویل عرصے میں غیرملکوں کو فتح کرنا یا یورپ کے کسی ملک پر قبضہ کرنا تو دور کی بات ہے اپنا ملک بھی غیروں سے مکمل طور ہر آزاد نہیں کروایا جاسکا ہے ـ نتیجہ صفر، بلکہ مائنس ... لیکن دعویٰ کر رہے ہیں رسول اللہ والا جہاد کرنے کا، اور اپنی چھوٹی موٹی مزاحمتی کامیابیوں کو تشبیه دی جاتی ہیں، فتح مبین، فتح مکہ اور غزوہء بدر سے .... ہائے ہماری خوش فہمیاں ...... ـــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ... مورخہ ـ 08 جولائی 2021ء بروز جمعرات ‏ـ ‏

Powered by Blogger.