پاکستان کے معروف رسالے " روحانی ڈائجسٹ " کے شمارے اگست 2001 ء میں، ادارے نے مجھ ناچیز پر ایک مضمون شایع کیا تھا، اس کا عکس پرانی یاد کے طور پر یہاں فیس بک پر شایع کیا جارہا ہے ـ ( ذرا سی ترمیم کے ساتھ)
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ مضمون نگار ـ احتشام الحق ـ
روایات شکنی کی راہ کا مسافر " غلام محمد وامِق "
ان کی شاعری سے پسماندہ اور مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ...
وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے، روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـ
جاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـ
غلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ
میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ
غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ...
اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـ
نقلی چہرے، جھوٹے رشتے، ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ
غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ
وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ
وامِق کہتے ہیں ...
میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ
کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام " بزمِ طلباء " کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ
وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ " نقشِ وفا " کے نام سے شایع ہوچکا ہے ـ
وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ـ
شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ
اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ
آزادیء اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا " ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے ـ
وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ
شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے " میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے ـ
وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ـ
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
غلام محمد وامِق کا منتخب کلام ...
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہر دوست یہاں واعظ، ہر دوست یہاں ناصح ـ
کیا خوب ہے اپنوں کا، یہ اندازِ کرم بھی ـ
سجدے تو کئے وامِق، لیکن یہ کئے کس کو؟
اے دوست تیرے دل میں خدا بھی ہے صنم بھی ـ
مجھ سے غمِ حیات کی نہ داستان پوچھ ـ
بے پردہ ہوں گے پردہ نشینوں کے نام کچھ ـ
تیرا شباب دیکھ کے پیتا شراب کون ـ؟
ٹوٹے پڑے ہیں ساقی تیرے در پہ جام کچھ ـ
ایسے ہوئے ہیں بدگماں انسانیت سے لوگ ـ
اب مسلکِ انسان کو وہ مانتے نہیں ـ
وامِق، لہو سے ہم نے جو سینچا تھا گلستاں ـ
ہم کو وہاں اب خار بھی پہچانتے نہیں ـ
انسان اگر چاہے تو اسے دنیا میں خدا مل جاتا ہے ـ
افسوس مگر انسان یہاں انسانوں کو ٹھکراتا ہے ـ
ایثار و وفا، اخلاص و حیا اور پیار جو یکجا ہوتے ہیں ـ
تب عشق کی منزل کا رستہ دھندلا سا نظر میں آتا ہے ـ
تو مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر ـ
مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو ـ
صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ـ
سڄڻ مان ته توکي دعاؤن ڪريان ٿو ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ