حبیب جالب کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ستمبر 1996ء میں شایع ہونے والی کتاب " حبیب جالب فن اور شخصیت " میں میری ایک نظم اور ایک قطعہ شایع کیا گیا تھا، پرانی یاد کے طور پر پیشِ خدمت ہے ـ
( کتاب میں کتابت کی ایک دو غلطیاں رہ گئی ہیں )
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
=== جالب کے نام ===
اِک شخص کہ تھا درویش منش، نہ جھکتا تھا نہ بِکتا تھا ..
وہ ٹوٹ کے تو گِر سکتا تھا پر، ظالم سے نہ ڈرتا تھا ...
کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ...
ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ...
محنت کش اور مزدوروں کا بوجھ اٹھایا اُس سر نے ...
سردار وڈیروں کے آگے وہ سر جو کبھی نہ جھکتا تھا ...
اِک پل نہ گوارا اُس نے کیا، عیاش حکومت میں رہنا ...
وہ روز سسکتے لوگوں کے سنگ جیتا تھا اور مرتا تھا ...
غُربا کے لئے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ـ
ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ، شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا ـ
وہ حق کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ...
بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ...
وہ جالِب تو تھا سب ہی کا، لوگوں کا مگر وہ حبیب بھی تھا ...
کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ...
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=== جالب کی یاد میں ===
سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ...
مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ...
حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ...
پی کر جو ہوا، امر وہ سقراط ہے جالب ...
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ