اُن سنہری دنوں کی یادگار غزل جب خطوط لکھے جاتے تھے ، پڑھے جاتے تھے اور خطوط کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا ۔
غزل غلام محمد وامِق
آج بھی ہوں منتظر اے کاش اُن کا آئے خط ۔
کچھ تو لکھیں وہ مجھے نفرت بھرا ہو چاہے خط ۔
اُن کی جانب سے کبھی ملتا نہیں خط کا جواب ۔
دل تو پاگل ہے مرا یہ بارہا لکھوائے خط ۔
انتظارِ حشر ہے یا تیرے خط کا انتظار ۔
روز راہیں دیکھتا ہوں کاش تیرا آئے خط ۔
کِس لیے ہوں منتظر اب کون لکھے گا مجھے ۔
جب مرا کوئی نہیں تو پھر کہاں سے آئے خط ۔
لِکھ رہا ہوں اِس تصوّر سے میں اُس کو بار بار ۔
کِس ادا سے پھاڑ ڈالے گا وہ ظالم ہائے خط ۔
چاک کرنا میرے خط کو اُس کی عادت ہے تو کیا ۔
لَمس میرے ہاتھ کا اُس ہاتھ تک پہنچائے خط ۔
کب سے ہم خط کے لیے خط آنے کے تھے منتظر ۔
ہے عجب یہ کھیل خط کا خط جو آیا آئے خط ۔
لکھ رہے ہو تم خطوں میں محفلوں کی داستاں ۔
اِس جگہ تنہائیوں میں دل مرا تڑپائے خط ۔
کیا ہوا جو فاصلے ہیں تیرے میرے درمیاں ۔
نِصف وصلِ یار کی لذت ہمیں پہنچائے خط ۔
تیرے خط سے ہوتی ہے تسکین میرے شوق کو ۔
اِضطرابِ ہجر میں یہ دل مرا بہلائے خط ۔
یہ ستم بھی ہے عجب ہم کو مِلا ایسا رقیب ۔
جب بھی خط لکھوائے اُن کو ہم سے ہی لکھوائے خط ۔
ہے اندھیری رات میں روشن لکیرِ کہکشاں ۔
کالی زلفوں میں عجب سی روشنی پھیلائے خط ۔
کِس قیامت کی گھڑی لکھا تھا وامِق تونے خط ۔
اُس کے کوچے میں ہے اب تک حشر برپا ہائے خط ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
بحر - رمل مثمن محذوف ۔
شاعر - غلام محمد وامِق
فروری 1984ء میں کہی گئی غزل ۔۔۔
