نظم - بیادِ فیض غلام محمد وامِق آزادی کا ہے دیکھیے پیغام فیض کا ۔ انسانیت کے واسطے ہر کام فیض کا ۔ جذبات ہوں وہ پیار کے یا انقلاب کے ۔ زندان میں بھی جاری رہا کام فیض کا ۔ ہر شاعری میں آج بھی شامل ہے دیکھ فیض ۔ روشن رہے گا تا اَبَد اب نام فیض کا ۔ دنیائے شاعری میں ہے صدیوں پہ یہ محیط ۔ سُننے میں گو کہ چھوٹا ہے یہ نام فیض کا ۔ محشر میں اے خدا تو اُسے بخش دیجیو ۔ دُنیا میں کیا ہی خوب ہے انجام فیض کا ۔ وامِق ہو تم بھی فیض کے ممنون گر تو کیا ۔ فیضِ ادب ہُوا ہے سَرِ عام فیض کا ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ دسمبر 1984ء میں کہی گئی نظم ۔

 نظم - بیادِ فیض 

غلام محمد وامِق 


آزادی کا ہے دیکھیے پیغام فیض کا ۔ 

انسانیت کے واسطے ہر کام فیض کا ۔ 


جذبات ہوں وہ پیار کے یا انقلاب کے ۔ 

زندان میں بھی جاری رہا کام فیض کا ۔ 


ہر شاعری میں آج بھی شامل ہے دیکھ فیض ۔ 

روشن رہے گا تا اَبَد اب نام فیض کا ۔ 


دنیائے شاعری میں ہے صدیوں پہ یہ محیط ۔ 

سُننے میں گو کہ چھوٹا ہے یہ نام فیض کا ۔ 


محشر میں اے خدا تو اُسے بخش دیجیو ۔ 

دُنیا میں کیا ہی خوب ہے انجام فیض کا ۔ 


وامِق ہو تم بھی فیض کے ممنون گر تو کیا ۔ 

فیضِ ادب ہُوا ہے سَرِ عام فیض کا ۔ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن 

بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 

دسمبر 1984ء میں کہی گئی نظم ۔



SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.