غزل= جانے والے کو کہاں بھول سکا ہے کوئی ۔ مَن کے آنگن میں ابھی گھوم رہا ہے کوئی ۔ خواب و بے خوابی برابر یوں ہوئی ہے مجھ پر ۔ آنکھیں مُون٘دوں تو مجھے پھر بھی دِکھا ہے کوئی ۔ ہم سمجھتے تھے کہ بِکنے کا نہیں ہر گز وہ ۔ دام اچھے تھے تو رغبت سے بِکا ہے کوئی ۔ قَت٘ل کی دیتا نہیں کوئی گواہی دیکھو ۔ سامنے سب کے عدالت میں مرا ہے کوئی ۔ سجدہ سمجھوں میں اِسے یا کہ عقیدت سمجھوں ۔ عاملِ شہر کے قدموں پہ جُھکا ہے کوئی ۔ اپنے مطلب کے لیے سودا بھی غیرت کا کیا ۔ تُھوک کر چاٹ لیا ایسا گِرا ہے کوئی ۔ دیکھ وامِق یہ زمانہ ہے فقط مطلب کا ۔ کب بھلا حِرص کے چکّر سے بچا ہے کوئی ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن بحر - رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔ یہ غزل 20 نومبر 2025ء بروز جمعرات مکمل ہوئی ۔

 غزل 

غلام محمد وامِق 


جانے والے کو کہاں بھول سکا ہے کوئی ۔

 مَن کے آنگن میں ابھی گھوم رہا ہے کوئی ۔ 


خواب و بے خوابی برابر یوں ہوئی ہے مجھ پر ۔ 

آنکھیں مُون٘دوں تو مجھے پھر بھی دِکھا ہے کوئی ۔ 


ہم سمجھتے تھے کہ بِکنے کا نہیں ہر گز وہ ۔ 

دام اچھے تھے تو رغبت سے بِکا ہے کوئی ۔ 


قَت٘ل کی دیتا نہیں کوئی گواہی دیکھو ۔ 

سامنے سب کے عدالت میں مرا ہے کوئی ۔ 


سجدہ سمجھوں میں اِسے یا کہ عقیدت سمجھوں ۔ 

عاملِ شہر کے قدموں پہ جُھکا ہے کوئی ۔ 


اپنے مطلب کے لیے سودا بھی غیرت کا کیا ۔ 

تُھوک کر چاٹ لیا ایسا گِرا ہے کوئی ۔ 


دیکھ وامِق یہ زمانہ ہے فقط مطلب کا ۔ 

کب بھلا حِرص کے چکّر سے بچا ہے کوئی ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن 

بحر - رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔ 

یہ غزل 20 نومبر 2025ء بروز جمعرات مکمل ہوئی ۔



SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.