""""""" تقسیم در تقسیم عوام """"""" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ دو قومی نظریہ کے تحت ہندوستان تقسیم ہوا، اور پاکستانیوں کی طرف سے ہندو مذہب ( سناتن دھرم) سے نفرت کا اظہار کیا گیا ـ ہندوؤں سے جان چھڑا کر متحدہ پاکستان بنایا گیا اور بظاہر مسلمان قوم متحد ہوکر سامنے آئی ـ لیکن ہم نے دیکھا کہ صرف چوبیس 24 , سال کے قلیل عرصہ میں ہی بنگالی اور غیر بنگالی تعصب کی بنا پر، متحدہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا، چنانچہ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا ـاب بقایا پاکستان میں اصولی طور پر عوام میں باہم کوئی نفرت نہیں ہونی چاہئے تھی ـ لیکن پھر نجانے کیسے " شیعہ کافر " کا عجیب نعرہ سننے میں آیا، بعدازاں شیعہ سنی کا بھرپور تصادم ہوا، عوام دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے ـ پھر شیعوں میں بھی نظریاتی طور پر مزید گروہ بن گئے ـ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سنیوں میں بھی بیشمار فرقے ظاہر ہونا شروع ہوگئے، جس پر دوطرفہ تماشہ یہ کہ، سب گروہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگے ـ اسی تقسیم اور گروہ بندی کے دوران ہی آئینی طور پر قادیانیوں کو " غیرمسلم اقلیت " قرار دے دیا گیا ـ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، نجانے کیا جادو ہوا کہ یکایک زبان کی بنیاد پر نفرتیں پیدا ہونا شروع ہوگئیں، پھر کیا تھا "قوم پرستی " کی مختلف تحریکیں زور پکڑنے لگیں ـلطف یہ ہوا کہ اب جو لوگ عقیدے کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں قومیت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کردیا گیا، اور جو قومیت کے لحاظ سے متحد تھے، ان میں عقیدے کی جنگ چھڑ گئی ــ اور چند ایک لوگ جو ان تفرقہ بازیوں سے اب تک دور تھے، ان کو سیاست کا چسکہ ڈال دیا گیا، چنانچہ وہ جمہوریت، جمہوریت پکارتے ہوئے مختلف سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر، ایک دوسرے پر ملک دشمنی کا یا غداری کا الزام لگانے لگے، اور مزید تقسیم ہوگئے،تقسیم کا عمل یہاں پر بھی ختم نہیں ہوا، بلکہ عوام کو معاشی طور پر تنگدست بناکر خاندانوں اور گھروں میں بھی دشمنی کا بیج بودیا گیا، چنانچہ اب صورتحال کچھ یوں نظر آرہی ہے کہ ملکی سطح پر سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی دشمن ـ صوبائی سطح پر ہر صوبہ دوسرے صوبہ کے خلاف ـ شہری سطح پر، ہر قوم دوسری قوم کے خلاف، ہر زبان بولنے والا اپنی زبان کو دوسروں کی زبان سے برتر تسلیم کروانے پر بضد ـ ایک عقیدے کا حامل شخص دوسرے عقیدے والے کو کافر سمجھنے لگا، مزید یہ کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے، اپنے اپنے خیالات اور سوچ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، بھائی، بھائی کا دشمن، بیٹا باپ اور ماں کا دشمن، ایک ہی خاندان اور برادری کے لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف سرگرم سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ تقسیم کہاں پر جاکر ختم ہوگی ـ؟ بقولِ غالب ــ یوں ہی روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں ــــــــــــــــــ دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں ــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ ـ 3 , دسمبر، 2019 ــ


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.