مفکر پاکستان علامہ اقبال کی ایک نایاب نظم، یہ نظم خلافت تحریک کے دوران انگریز حکمرانوں کی حمایت میں لکھی گئی تھی ـ جوکہ ہفتے وار رسالے;امرتسر میں 11 مئی 1918 , کو شایع ہوئی بعد ازاں علامہ صاحب نے اس نظم کو متروک قرار دیا، اور اپنی کسی بھی کتاب میں اسے شایع نہیں کیا، ہم نے اسے ایک نادر تاریخی دستاویز خیال کرتے ہوئے، ایک سندھی کتاب سے اخذ کیا ہے، ـــ ملاحظہ فرمائیں ـــ انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 18, اپریل 2019 ـــ فون، ــ 03153533437 ــــ اے تاجدارِ خطہء جنت نشانِ ہند ـــ روشن تجلیوں سے تیری کاروانِ ہند ـ محکم ترے قلم سے، نظامِ جہانِ ہند ــ تیغِ جگر شگاف، تیری پاسبانِ ہند ــ ہنگامہ و غا میں سراسر قبول ہو ـ ـ اھلِ وفا کی نذرِ محقر قبول ہو ــ تلوار تیری دہر میں، نقادِ خیر و شر ــ بروزِ جنگ توز سوز، سینہ و جگر ــ رایت تیری سپاہ کا سرمایہء ظفر ــ آزاد بر کشادہ، پری زادہ یم سپر ـــ سطوت سے تیری پختہ، جہاں کا نظام ہے ـ ذرے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے ـــ آزادیء زبان و قلم ہے اگر یہاں ـــ سامانِ صُلح دیر و حرم ہے اگر یہاں ــ تہذیب کاروبارِ امم ہے اگر یہاں ـــ خنجر میں تاب، تیغ میں دم ہے اگر یہاں ــ جو کچھ بھی ہے، عطائے شہہء محترم سے ہے ــ آباد یہ دیار، تیرے دم قدم سے ہے ــــ وقت آگیا کہ گرم ہو میدانِ کار زار ـــ پنجاب ہے مخاطبِ پیغام شر پسار ــ اہلِ وفا کے جوہرِ پنہاں ہوں آشکار ـــ معمور ہو، سپاہ سے پنہائے روزگار ـــ تاجر کا زر ہو، اور سپاہی کا زور ہو ـــ غالب جہاں میں سطوتِ شاہی کا زور ہو ـــ دیکھے ہیں میں نے سنکڑوں ہنگامہء نبرد ـــ صدیوں رہا ہوں، میں اسی وادی کا رہ نورد ـــ طفلِ صغیر بھی میرے، ہنگامہ میں ہے مرد ـــ ہوتے ہیں ان کے سامنے، شیروں کے رنگ زرد ـــ میں نخل ہوں وفا کا، محبت ہے پھل میرا ــ اس قول پر ہے شاہد، عادل عمل میرا ـــ ہندوستاں کی تیغ ہے، فتاحِ بہشت باب ـــ خونخوار لائے بار ، جگردار، برق تاب ــــ بیباک، تابناک، گہر پاک، بے حجاب ــــ دلبند، ارجمند، سحر خند، سیم تاب ــ یہ تیغِ دل نواز، اگر بے نیام ہو ـــ دشمن کا سر ہو، اور نہ سودائے خام ہو ـــ اہلِ وفا کا کام ہے، دنیا میں سوز و ساز ـــ بے نور ہے وہ شمع جو ہوتی نہیں گداز ـــ پردے میں موت کے ہے نہاں زندگی کا راز ـــ سِر یہ حقیقتِ کبریٰ ہے، ہے یہ مجاز ــــ سمجھو تو موت ایک مقامِ حیات ہے ــ قوموں کے واسطے یہ پیامِ حیات ہے ـــ اخلاص بے غرض ہے، صداقت بھی بیغرض ـــ خدمت بھی بیغرض ہے، اطاعت بھی بے غرض ـــ عہدِ وفا، و مہر و محبت بھی بے غرض ـــ تختِ شہہ شہی سے، عقیدت بھی بیغرض ـــ لیکن خیالِ فطرت ِ انساں ضرور ہے ـــ ہندوستاں پہ لطفِ نمایاں ضرور ہے ـــ جب تک چمن کی جلوہء گُل پر اساس ہے ـــ جب تک فروغِ لالہ احمر لباس ہے ـــ جب تک نسیمِ صبح، عنادل کو راس ہے ـ جب تک کلی کو قطرہء شبنم کی پیاس ہے ـــ قائم رہے حکومتِ آئین، اسی طرح ـــ دبتا رہے چکور سے، شاہین اسی طرح ـــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ نوٹ: --- جیسا کہ یہ نظم ایک سندھی قدیم کتاب سے نقل کی گئی ہے، مزکورہ کتاب میں کچھ کتابت کی غلطیاں بھی ہیں، اور الفاظ سمجھنے میں بھی بہت مشکل پیش آرہی تھی ـ اس لئے علامہ کی مندرجہ بالا نظم میں چند ایک مقام پر الفاظ اندازے سے لکھے گئے، اہلِ ذوق حضرات اگر کہیں پر سقم محسوس کریں تو، برائے کرم مجھے ضرور مطلع فرمائیں ــ شکریہ ـ طالبِ دعا، غلام محمد وامق ــ محراب ‏پور ‏سندھ ‏


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.