کوئی منطق نہ وضاحت نہ کوئی اس کا اصول ۔ عزت و جاہ کی طلب ہے نہ اسے زر کا حصول ۔ اِس کی راہوں میں برابر ہیں سبھی شاہ و گدا اس کی منزل پہ پہنچ جائیں تو ملتا ہے خدا ۔ یہ ضروری نہیں تاروں سے سجی سیج ملے یہ بھی لازم نہیں گلشن میں ہر اِک پھول کھلے ۔ یہ خزاں سے کبھی تاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبّت ہے ستاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ اس کو دنیا کے سہاروں کی ضرورت ہی نہیں اس چمن کو تو بہاروں کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ وہ دانہ ہے جو مٹی سے ابھرتا ہے سدا اس کے باعث ہی معطر ہے جہاں کی یہ فضا ۔ یہ کسی تیر سے تلوار سے ڈر سکتی نہیں یہ محبت ہے کبھی موت سے مر سکتی نہیں ۔ یہ تو خنجر سے بھی قاتل سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو سنگدل سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ ضروری تو نہیں عشوہ و انداز سے ہو یہ بھی لازم نہیں حسن سے ہو ناز سے ہو ۔ یہ کسی تخت کو تاراج بھی کر سکتی ہے یہ شہنشاہوں کو بے تاج بھی کر سکتی ہے ۔ یہ پہاڑوں سے جوئے شِیر رواں کرتی ہے یہ تو پتھر سے بھی دھڑکن کو عیاں کرتی ہے ۔ یہ تو صحرا سے سرابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو خوابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ کسی لالچی انسان کی جاگیر نہیں یہ محبت کسی کم ظرف کی تقدیر نہیں ۔ یہ شہنشاہوں کو نادار بھی کر سکتی ہے اور ناداروں کو سردار بھی کر سکتی ہے ۔ یہ کسی سیٹھ کی بخشی ہوئی خیرات نہیں یہ محبت ہے کسی کی بھی کوئی ذات نہیں ۔ یہ خرد مندوں کو دیوانوں سے ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو ویرانوں سے ہو سکتی ہے ۔ ایک محبوب کے صدقے میں جہاں پیدا ہوا اور دنیا میں محبت کا نشاں پیدا ہوا ۔ اس سے ہی معرفتِ حق کا حصول ہوتا ہے اس کے باعث ہی تیرا سجدہ قبول ہوتا ہے ۔ عشق کو دل میں لئے کوئی کہاں جائے گا ؟ لوٹ کے آخر وہ درِ یار پہ پھر آئے گا ۔ یہ تو محشر سے قیامت سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے عبادت سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو اپنوں سے پرایوں سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو مظلوم کی آہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو بیواؤں یتیموں سے بھی ہو سکتی ہے یہ فقیروں سے بھی شاہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو خاموش نگاہوں سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو لب بستہ صداؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ تو زلفوں سے اداؤں سے بھی ہو سکتی ہے یہ محبت ہے جفاؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ گنہگار کو زاہد سے بھی ہو سکتی ہے ایک بدکار کو عابد سے بھی ہو سکتی ہے ۔ منکرِ حق کو یہ سجدے سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو منزل نہیں رستے سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو مخلوق کو خالق سے بھی ہو سکتی ہے یہ تو معشوق سے عاشق کو بھی ہو سکتی ہے ۔ قیس سے وامِق و عذرا سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ محبت ہے جو لیلیٰ سے بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ اگست 1985ء میں کہی گئی نظم ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔

    .نظم ۔۔۔۔  محبت نامہ  ۔۔۔    
           غلام محمد وامِق 

کوئی منطق نہ وضاحت نہ کوئی اس کا اصول ۔ 
عزت و جاہ کی طلب ہے نہ اسے زر کا حصول ۔ 
اِس کی راہوں میں برابر ہیں سبھی شاہ و گدا
اس کی منزل پہ پہنچ جائیں تو ملتا ہے خدا ۔ 
یہ ضروری نہیں تاروں سے سجی سیج ملے 
یہ بھی لازم نہیں گلشن میں ہر اِک پھول کھلے ۔ 

یہ خزاں سے کبھی تاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ محبّت ہے ستاروں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

اس کو دنیا کے سہاروں کی ضرورت ہی نہیں
اس چمن کو تو بہاروں کی ضرورت ہی نہیں ۔ 
یہ وہ دانہ ہے جو مٹی سے ابھرتا ہے سدا
اس کے باعث ہی معطر ہے جہاں کی یہ فضا ۔ 
یہ کسی تیر سے تلوار سے ڈر سکتی نہیں
یہ محبت ہے کبھی موت سے مر سکتی نہیں ۔ 

یہ تو خنجر سے بھی قاتل سے بھی ہو سکتی ہے ۔
یہ محبت ہے جو سنگدل سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ ضروری تو نہیں عشوہ و انداز سے ہو 
یہ بھی لازم نہیں حسن سے ہو ناز سے ہو ۔ 
یہ کسی تخت کو تاراج بھی کر سکتی ہے
یہ شہنشاہوں کو بے تاج بھی کر سکتی ہے ۔ 
یہ پہاڑوں سے جوئے شِیر رواں کرتی ہے
یہ تو پتھر سے بھی دھڑکن کو عیاں کرتی ہے ۔ 

یہ تو صحرا سے سرابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ محبت ہے جو خوابوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ کسی لالچی انسان کی جاگیر نہیں
یہ محبت کسی کم ظرف کی تقدیر نہیں ۔ 
یہ شہنشاہوں کو نادار بھی کر سکتی ہے
اور ناداروں کو سردار بھی کر سکتی ہے ۔ 
یہ کسی سیٹھ کی بخشی ہوئی خیرات نہیں 
یہ محبت ہے کسی کی بھی کوئی ذات نہیں ۔ 

یہ خرد مندوں کو دیوانوں سے ہو سکتی ہے ۔ 
یہ محبت ہے جو ویرانوں سے ہو سکتی ہے ۔ 

ایک محبوب کے صدقے میں جہاں پیدا ہوا 
اور دنیا میں محبت کا نشاں پیدا ہوا ۔ 
اس سے ہی معرفتِ حق کا حصول ہوتا ہے
اس کے باعث ہی تیرا سجدہ قبول ہوتا ہے ۔ 
عشق کو دل میں لئے کوئی کہاں جائے گا ؟ 
لوٹ کے آخر وہ درِ یار پہ پھر آئے گا ۔ 

یہ تو محشر سے قیامت سے بھی ہو سکتی ہے ۔
یہ محبت ہے عبادت سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ تو اپنوں سے پرایوں سے بھی ہو سکتی ہے
یہ تو مظلوم کی آہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ تو بیواؤں یتیموں سے بھی ہو سکتی ہے
یہ فقیروں سے بھی شاہوں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ تو خاموش نگاہوں سے بھی ہو سکتی ہے
یہ تو لب بستہ صداؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ تو زلفوں سے اداؤں سے بھی ہو سکتی ہے
یہ محبت ہے جفاؤں سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 

یہ گنہگار کو زاہد سے بھی ہو سکتی ہے
ایک بدکار کو عابد سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
منکرِ حق کو یہ سجدے سے بھی ہو سکتی ہے
یہ تو منزل نہیں رستے سے بھی ہو سکتی ہے
یہ تو مخلوق کو خالق سے بھی ہو سکتی ہے 
یہ تو معشوق سے عاشق کو بھی ہو سکتی ہے ۔ 

قیس سے وامِق و عذرا سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
یہ محبت ہے جو لیلیٰ سے بھی ہو سکتی ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔ 
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ 
بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ 
اگست 1985ء میں کہی گئی نظم ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 



SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.