شانِ مسلم (نظم)
غلام محمد وامق۔
مسلماں ہم ہیں مگر خود کو کبھی دیکھا نہیں ۔
مسلماں کیا چیز ہے یہ آج تک سوچا نہیں ۔
ہم جہاں میں ذلّت و خواری کے عنواں بن گئے ۔
اپنی عظمت بھول کر انساں سے شیطاں بن گئے ۔
یہ غلامی، یہ تعیّش، کاہلی، بے راہ روی ۔
یہ نہیں ہے شانِ مسلم، شانِ مسلم اور ہے ۔
ایک مسلم رات بھر غافل کبھی سوتا نہیں ۔
عیش و عشرت سے وہ قصرِ شاہی میں رہتا نہیں ۔
گھوڑے کی ننگی کمر اس کے لئے آرام گاہ ۔
دو جہاں کو چیرتی ہے، اُس کی عقابی نگاہ ۔
آج ہم مفلوج ہیں، ناکام ہیں، ہر اِک گھڑی ۔
یہ نہیں ہے شانِ مسلم، شانِ مسلم اور ہے ۔
مسلماں ظالم و جابر سے کبھی ڈرتا نہیں ۔
سر تو کٹ سکتا ہے لیکن جھک کبھی سکتا نہیں ۔
ظلم سے جو صلح کر لے وہ مسلماں کیا ہوا ؟
جو اندھیروں کو نہ چیرے وہ چراغاں کیا ہوا ؟
سَر جھکا کر جینے کو کہتا ہے اب تُو بندگی ۔
یہ نہیں ہے شانِ مسلم، شانِ مسلم اور ہے ۔
رات دن سجدے میں رہنے سے خدا ملتا نہیں ۔
اِس جہاں کو چھوڑ دینے سے خدا ملتا نہیں ۔
جستجو تجھ کو خُدا کی ہے تو حُجرے سے نکل ۔
ہاتھ میں تلوار لے اور ظالموں کا سَر کُچل ۔
بھیک کی روٹی پہ کیوں تونے گزاری زندگی ۔
یہ نہیں ہے شانِ مسلم ، شانِ مسلم اور ہے ۔
عظمتِ مسلم کے شاہد ، جنگل و صحرا بھی ہیں ۔
ہیبتِ مسلم سے لرزاں کوہ بھی دریا بھی ہیں ۔
دیکھ تو نظریں گھما کر اپنے ماضی کے مزار ۔
اپنی غیرت کی لحد پر کیوں نہیں تُو شرمسار ؟
بندگی تیری ہے اب ، تیرے لئے شرمندگی ۔
یہ نہیں ہے شانِ مسلم، شانِ مسلم اور ہے ۔
اپنی ذلّت اپنی پستی کے ہیں کیا اسباب دیکھ ۔
تاریخِ اسلام کے تُو گمشدہ ابواب دیکھ ۔
دیکھ سکتا ہے تو، تُو اپنا ذرا کردار دیکھ ۔
جھانک کر اپنے گریباں میں ذرا اے یار دیکھ ۔
تیرا مقصد ہے فقط حرص و ہوس کی زندگی ۔
یہ نہیں ہے شانِ مسلم ، شانِ مسلم اور ہے ۔
آؤ مل کر تاریخِ اسلاف کو زندہ کریں ۔
شانِ مسلم کو جہاں میں پھر سے تابندہ کریں ۔
ہم نظامِ عدل اور انصاف کے داعی بنیں ۔
انقلابی راہ کے ، بے باک ہم راہی بنیں ۔
ورنہ وامِق رائیگاں جائے گی ساری بندگی ۔
یہ نہیں ہے شانِ مسلم ، شانِ مسلم اور ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔
بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
اپریل سال 1990ء میں کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔