‏ " ‏دعا ‏اور ‏تقدیر ‏" ـــ ‏تحریر ‏ـ ‏بانو ‏محبوب ‏جوکھیو ‏ـ ‏ہفتیوار ‏سندھی اخبار ‏ساھتی ‏آواز ‏ـ‏


===  " دعا اور تقدیر "  مصنف ـ غلام محمد وامِق.  === 
تحریر ــ بانو محبوب جوکھیو ــ
اردو ترجمہ ـ غلام محمد وامِق ـ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
محراب پور شہر کی معروف ادبی شخصیت، محترم غلام محمد وامِق کی تیسری کتاب " دعا اور تقدیر " کے عنوان سے شایع ہوکر مارکیٹ میں آچکی ہے ـ اس کتاب میں وامِق صاحب نے قدیم زمانے سے الجھے ہوئے مسئلے دعا اور تقدیر کو ایک نئے اسلوب سے سلجھانے کی کوشش کی ہے، جس کو پڑھنے والا نہ صرف یہ کہ بور نہیں ہوتا بلکہ اندازِ تحریر سے لطف اندوز بھی ہوتا رہتا ہے ـ اس کتاب میں دعا اور تقدیر جیسے خشک موضوع کو جدید سائنس اور ہلکے پھلکے تاریخی حوالوں سے انتہائی دلچسپ بناکر پیش کیا گیا ہے ـ وامِق صاحب کی اس سے پیشتر دو مزید کتابیں شایع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں ـ جن میں سے ایک اردو شاعری پر مشتمل مجموعہ کلام " نقشِ وفا " کے نام سے سال 2000ء میں شایع ہوا تھا، جس میں چند غزلیں سندھی زبان میں بھی شامل کی گئی ہیں ـ اس کتاب کی تقریبِ رونمائی سندھی روزنامہ " کاوش " اور کے ٹی این،  کے اشتراک سے محرابپور میں منعقدہ ایک رنگارنگ پروگرام میں کی گئی تھی، پروگرام کے منتظم سندھ کے معروف صحافی شہید عزیز میمن تھے ـ
وامِق صاحب کی دوسری کتاب  " جنات کی حقیقت "  کے نام سے اکتوبر 2016ء میں شایع ہوئی، جوکہ حیرت انگیز تحقیق پر مشتمل ہے، اس کتاب کی رونمائی نومبر 2016ء میں کراچی پریس کلب میں کی گئی ـ
غلام محمد وامِق صاحب 28 نومبر 1957ء میں پیدا ہوئے،  آپ کے والدین قیامِ پاکستان کے وقت ہندوستان کے صوبے    " ھریانہ " سے ہجرت کرکے محرابپور آکر آباد ہوئے ـ آپ نے ابتدائی تعلیم سندھی میڈیم میں حاصل کی، سال 1968ء میں  " مین گورنمنٹ سندھی پرائمری اسکول محرابپور " سے پرائمری پاس کرکے، سال 1973ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول محرابپور سے سندھی میڈیم میں میٹرک پاس کی ـ بعدازاں سپیریئر سائنس کالج خیرپور میں داخلہ لیا لیکن بعض مجبوریوں کے باعث انٹر تک تعلیم آرٹس سندھی میں ہی پاس کی ـ سال 1978ء میں پاکستان اسٹیل مل کراچی میں ملازمت حاصل کی، بعدازاں چند ناگزیر وجوہات کے باعث کراچی پورٹ کے ایک ادارے میں بطور سپروائزر اپنی خدمات انجام دیں ـ اسی دوران اپنے ادبی ذوق کے باعث کراچی کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا،  اور یوں مختلف ادبی تنظیموں سے تعلقات استوار ہوئے، چنانچہ  مختلف سیاسی و سماجی نظریات کو سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ـ 
اسی دوران آپ نے 1982ء میں وفاقی گورنمنٹ اردو آرٹس کالیج کراچی سے بی اے پاس کرکے، ایم اے میں داخلہ لیا، جبکہ اسی دوران انہیں ریڈیو پاکستان کراچی کے ایک ادبی پروگرام میں مستقل حصہ ملا ـ لیکن والد صاحب کی بیماری کے باعث اپنی تعلیم اور تمام شوق کو خیرباد کہکر مجبوراً واپس محرابپور آنا پڑا ـ کراچی سے واپسی پر آپ نے گزراوقات کے لئے ایک بک شاپ " المہران بک ڈپو " کے نام سے قائم کیا، جوکہ بفضلِ تعالیٰ آج بھی قائم و دائم ہے، جہاں پر اکثر اردو اور سندھی ادبی کتب دستیاب ہیں ـ ہم اپنے بچپن میں یہاں سے بچوں کی کہانیاں اور سندھی ماہوار رسالہ " گُل پھُل " خرید کر پڑھتے تھے ـ اس کے علاوہ مزید جس کتاب کی ضرورت ہوتی تھی منگوا بھی لیا کرتے تھے ـ غلام محمد وامِق کی مادری زبان جیسا کہ اردو نہیں،   ہریانوی ہے، لیکن آپ نے تعلیم سندھی زبان میں حاصل کی ہے، یہ ہی نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو سندھی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ـ آپ نے شاعری اردو کے ساتھ ساتھ سندھی میں بھی کی ہے ـ آپ کی مذکورہ تین کتابوں کے علاوہ مزید دو کتب چھپنے کے لئے تیار ہیں،  جن میں سے ایک کتاب شاعری کی اور دوسری مختلف موضوعات کے کالموں پر مشتمل ہے ـ ان کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سے مضامین اور مقالے تحریر کئے ہیں ــــ
کتاب کے بارے میں: -- 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب " دعا اور تقدیر " اردو زبان میں لکھی گئی ہے،  جس میں مصنف نے ایک اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے،  انسانی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو بہت سے لوگ معجزوں پر یقین رکھتے ہیں، اور معجزوں کے لئے وہ یا تو دعا پر یقین رکھتے ہیں یا پھر تقدیر پر ـ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان ان دو خیالوں کے درمیان بھٹکتا رہتا ہے، کبھی وہ تقدیر پر یقین رکھتا ہے تو کبھی دعا پر ـ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ " عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی "  کچھ لوگ دعاؤں پر تو کچھ لوگ تقدیر پر یقین رکھتے ہیں، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے دعا مانگ لی ہے تو جلد ہی اب کوئی معجزہ ہونے والا ہے،  یا پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایسے بیٹھ جاتے ہیں کہ بابا تقدیر میں جو کچھ لکھا ہوا ہے، وہ تو مل کر ہی رہے گا،  تو پھر خواہ مخواہ تکلیف میں کیوں پڑیں؟ ـ وامِق صاحب نے بھی اس کتاب میں بہت سے واقعات، حقائق، اور مشاہدات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس مسئلے جو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ صرف دعائیں کرکے مت بیٹھ جاؤ بلکہ عملی جدوجہد کرنا  بھی لازمی ہے ـ بچپن میں ہم ایک اردو شعر پڑھتے ہوتے تھے کہ،  " اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے ـ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؟، یعنی فقط دعائیں کرکے مت بیٹھ جاؤ، کچھ ہاتھ پیر بھی چلاؤ ـ بچپن میں وتایو فقیر کا قصہ سنتے تھے،  کہ ایک بار وتایو نے کسی مسجد کے مولوی کو کہتے سنا کہ ـ روزی دینے والا اللہ ہے، جس نے زندگی دی ہے وہی کھانے کو بھی دیتا ہے ـ وتایو فقیر اس بات کو آزمانے کے لئے جنگل میں جاکر ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا،  اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں اللہ کیسے روزی پہنچاتا ہے،  صبح سے شام ہوگئی، بھوک کے مارے حالت خراب ہوگئی تو دیکھا کہ کچھ مسافر آئے اور اس درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھانے لگے،  وتایو نے بہت انتظار کیا کہ ابھی یہ لوگ مجھے بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کریں گے لیکن وہ اس کی موجودگی سے بے خبر کھانے میں مصروف رہے، تب مجبوراً وتایو فقیر نے کھانسنا اور کھنکارنا شروع کیا، تب مسافروں کو اس کی موجودگی کا احساس ہوا، اور اسے نیچے بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا ـ دوسرے روز وتایو نے مولوی صاحب کو بتایا کہ " اللہ روزی تو دیتا ہے لیکن اس کے لئے بندے کو کچھ کھنکارنا پڑتا ہے " ــ چنانچہ فقط دعا بھی کام نہیں آتی جب تک اس کے لئے عملی جدوجہد اور محنت نہ کی جائے ـ ویسے بھی تو خدا سب کا ہے، وہ دعا بھی سب کی سنتا ہے ـ سندھی میں کہاوت ہے کہ " اللہ تو چوروں کا بھی ہے اور سادھوں کا بھی "  اگر وہ صرف سادھوں کی سنتا ہوتا تو چور بھوک مرتے، اور اگر چوروں کی سنتا تو سادھووں کی خیر نہیں تھی ـ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ تقدیر کا بھی زندگیوں میں عمل دخل ضرور ہوتا یے ـ چنانچہ دعا اور تقدیر کی آنکھ مچولی لوگوں کے لئے گویا کہ کوئی گورکھ دھندا بنا ہوا ہے ـ لیکن غلام محمد وامِق کی یہ کتاب پڑھنے سے جس میں بہت سے حقائق، مثالیں اور واقعات  اسلامی اور غیراسلامی شامل کئے گئے ہیں، ان سے یہ بات سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ـ 
مذکورہ کتاب سے چند حوالے پیشِ خدمت ہیں، جن سے دعا اور تقدیر کی مزید وضاحت ہوجاتی یے ـ " دعا دراصل عبادت کا دوسرا نام ہے، " بلکہ ایک حدیث کے مطابق دعا عبادت کی روح ہے ـ دعا یوں تو بظاہر تین حروف پر مبنی ایک لفظ ہے، لیکن دراصل دعا زمین و آسمانوں پر محیط ہے،  یہ دعا ہی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو تحفۃً عطا کی تھی ـ دعا مانگنے کی توفیق ہی دراصل دعا کی قبولیت کا اشارہ ہوتا ہے ـ دعا درحقیقت اپنے خالق سے براہِ راست تعلق ہے، جوکہ انسان کو دلی طاقت اور امید دلاتی ہے ـ لیکن یہاں پر تقدیر کا معاملہ پھر انسان کو الجھا دیتا ہے ـ ایسے ہی معاملات کو وامِق صاحب نے  تحقیقی طور پر، انسانی نفسیات، تاریخی،  مذہبی اور سائنسی طریقے سے شعور اور علم کی روشنی میں سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے ـ ایک مقام پر آپ سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ، اسٹیفن ہاکنگ نے تقدیر کے متعلق ایک عجیب بات کہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو یہ ضد کرتے ہیں کہ سب کچھ تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے، اور تقدیر کے لکھے کو ہرگز تبدیل نہیں کیا جاسکتا، وہ لوگ بھی روڈ پار کرتے ہوئے پہلے دائیں بائیں دیکھ کر ہی پھر روڈ کراس کرتے ہیں ـ وامِق صاحب ایک جگہ پر لکھتے ہیں کہ " مجھے بہت دکھ ہوتا ہے لوگوں کی سوچ پر، کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ سائنس خدا کا انکار کرتی ہے ـ ایسا ہرگز نہیں ہے، سائنس تو خود خدا کی قدرت کا اظہار کرتی ہے ـ
اس کتاب میں وامِق صاحب کے اپنے ذوق، شوق، علمی سوچ، اور وسیع مطالعہ کی عکاسی ہورہی ہے ـ دعا ہے کہ ان کا یہ ادبی سفر جاری و ساری رہے ـ اور آپ جس قدر لکھنا چاہتے ہیں وہ سب لکھ سکیں، خدا انہیں مزید لکھنے کی قوت عطا فرمائے ( آمین)  ــ
مورخہ 25 نومبر 2020ء ـ بروز بدھ ـ محرابپور سندھ ـ
فون نمبر ـ غلام محمد وامِق ـ 03153533437 ـــ

SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.