ماضی ‏کے ‏جھروکوں ‏سے ‏ـ ‏ایک ‏یادگار ‏واقعہ ‏... سابق ‏نگراں ‏وزیرِاعظم ‏پاکستان ‏ــ ‏ازـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏...‏

ماضی کے جھروکوں سے ـ ـ ـ  
یادوں کے دریچوں سے  ـ ـ ـ  
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ  ایک واقعہ،  " یادگار " 
از ـ غلام محمد وامِق،  ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سابق نگراں وزیرِاعظم پاکستان، اور سابق وزیرِاعلیٰ سندھ،  جناب " غلام مصطفٰے جتوئی " صاحب (مرحوم) نے ـ ـ ـ  "پاکستان پیلپلز پارٹی "  کو چھوڑ کر اپنی نئی پارٹی          " نیشنل پیپلز پارٹی "  (NPP)  بنائی، تو پارٹی کا دفتر کھولنے کے لئے محراب پور تشریف لائے، ... اس سے قبل اس وقت کے چیئرمین ٹاؤن کمیٹی محراب پور محترم " شوکت علی خان لودھی " صاحب  مرحوم، ( موجودہ چیئرمین فاروق خان لودھی کے والِد)  نے مجھے پیغام بھجوایا کہ، آپ نے جتوئی صاحب کے جلسہ میں کوئی نظم سنانی ہے، لہٰذا تیاری کرلیں،  یاد رہے کہ شوکت خان لودھی صاحب، ہماری ادبی تنظیم " بزمِ ادب محراب پور " کے اعزازی سرپرستِ اعلیٰ بھی تھے ـ ـ ـ
قصہ مختصر،  مورخہ 5 دسمبر 1986، بروز جمعة المبارک،  شوکت خان صاحب کے بنگلے پر مذکورہ پروگرام رکھا گیا ـ  شام کے وقت ایڈووکیٹ " شیردین بھٹی صاحب " مجھے اپنی موٹرسائیکل پر جلسہ گاہ لے گئے،  اسٹیج پر وقت کے بڑے بڑے رئیس، جاگیردار عمائدین، جتوئی صاحب کے ساتھ براجمان تھے ـ چند لوگ جو مجھے یاد ہیں، ہمارے موجودہ ایم این اے سید ابرار علی شاہ کے بڑے بھائی،  ھالانی کے " سید منظور علی شاہ صاحب " جوکہ ہمیشہ ایم پی اے یا ایم این اے منتخب ہوتے رہتے تھے ـ اور پیر آف رانی پور ( نام یاد نہیں) اور دیگر منسٹر وغیرہ شامل تھے ـ  ان سب لوگوں نے نئی پارٹی " این پی پی " کی تشکیل کی ضرورت اور اہمیت پر تقاریر کیں ـ آخر میں پارٹی کے بانی " غلام مصطفٰی جتوئی " صاحب کی تقریر سے پہلے مجھے بھی دعوتِ کلام دی گئی،  میں نے اسٹیج پر جاکر اپنی لکھی ہوئی نظم سنانی شروع کی تو میں نے محسوس کیا کہ سامنے والے حاضرینِ جلسہ تو واہ واہ کر ہی رہے تھے، لیکن اپنے پیچھے اسٹیج پر سے بھی مجھے داد دی جارہی تھی ـ  
نظم پڑھ کر جب میں واپسی کے لئے مُڑا تو میرے عین پیچھے بیٹھے ہوئے، " غلام مصطفٰے جتوئی " صاحب اٹھ کھڑے ہوئے، اور مجھ سے بغلگیر ہوکر اپنی خوشی کا اظہار کیا ـ پھر کیا تھا، اسٹیج پر موجود تمام ہی لوگ کھڑے ہوگئے، اور مجھ سے باری باری گلے ملنا شروع کردیا ـ  میں حیران و ششدر کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ـ؟  ــــ  بقولِ شاعر ـ " کِتھے مہرعلی، کتھے تیری ثنا " ـــ کہ جو لوگ مجھ جیسے لوگوں سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے، وہ مجھ سے ہنس ہنس کر بغلگیر ہورہے تھے ـ ـ ـ
بہرحال جتوئی صاحب کی تقریر کے بعد اجلاس کے اختتام کا اعلان کیا گیا اور  تمام حاضرین کو کھانے کے لئے اندر بلایا گیا، ..... تب میں نے دیکھا کہ انتظامیہ کی طرف سے دو قطاریں بنائی گئی ہیں، ایک قطار عمائدینِ خاص کے لئے، جبکہ دوسری قطار عام حاضرین کے لئے ـ  مجھے یہ دیکھ کر  کچھ عجیب سا لگا ــ  چنانچہ عام حاضرین کی قطار میں شامل ہونا میں نے مناسب نہیں سمجھا،  اور خاص عمائدین کی طرف مجھے بلایا نہیں گیا،  حالانکہ  کچھ عام لوگ بھی بغیر کہے خاص قطار میں شامل ہورہے تھے لیکن مجھے بات سمجھ نہیں آئی، لہٰذا چپ چاپ وہاں سے واپس گھر کی راہ لی ـــــــــــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب ہور سندھ ـ
فون ـ 03153533437 .....  dt: 23.11.2019

SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.