=== غزل ===
غلام محمد وامِق
کتنے فلاح کے ہیں ادارے امیروں کے ۔
پھر بھی نصیب میں ہیں اندھیرے غریبوں کے ۔
مِلنے کو اب ادیبوں سے کرتا نہیں یہ دل ۔
دیکھے ہیں ہم نے ایسے رویّے ادیبوں کے ۔
محفل ادب کی ہو کہ ہو تقریب کوئی بھی ۔
مہمان خاص بنتے ہیں بچّے امیروں کے ۔
ہم کو فقیر جان کے الجھے ہو ہم سے تم ۔
دیکھے نہیں ہیں وَلوَلے تم نے فقیروں کے ۔
زلفوں کے ہم اسیر ہیں ہم کو بھی دیکھئے ۔
آخر حقوق ہوتے ہیں کچھ تو اسیروں کے ۔
غیروں سے کیا گلہ ہو کہ اپنے بھی کم نہیں ۔
وامِق رہا عِتاب میں اکثر رفیقوں کے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 05 نومبر 2024ء کو کہی گئی غزل ۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔
بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔