=== غزل ===
غلام محمد وامِق
تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔
غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔
لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔
یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔
تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟
مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔
لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔
اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔
لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔
تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔
اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔
عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔
رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔
اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔
زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔
اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔
ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔
اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔
میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔
دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔
متدارک مثمن سالم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
=== غزل ===
غلام محمد وامِق
تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔
غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔
لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔
یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔
تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟
مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔
لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔
اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔
لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔
تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔
اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔
عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔
رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔
اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔
زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔
اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔
ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔
اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔
میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔ #
دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔
# چند روز قبل کراچی میں ایک مالدار عورت نے نشے میں دھت ہو کر گاڑی چلاتے ہوئے اپنی گاڑی کے نیچے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کو کچل دیا تھا ، عدالت نے اسے پاگل قرار دے کر چھوڑ دیا تھا ۔