یادش بخیر = میری پہلی کتاب " نقشِ وفا " ( شاعری) دسمبر 2000ء میں شایع ہوئی تھی، یہ کتاب میں نے اس وقت کے ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات، نامور مصنف، شاعر اور تنقید نگار، جناب ڈاکٹر عبدالحق خاں حسرت کاسگنجوی ( مرحوم) کو بھی بھجوائی تھی، جسے پڑھ کر انہوں نے ذرہ نوازی فرمائی اور مجھے یہ جوابی خط تحریر فرمایا ـ از ـ غلام محمد وامِق ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ ـ ۱۸ جون ۲۰۰۱ ء ....
جناب غلام محمد وامِق صاحب،
السلام علیکم ـ
آپ کی کتاب پڑھ رہا ہوں، لطف لے رہا ہوں، جس سادگی سے آپ نے دل کی کیفیت کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ پر خود بڑی چیز ہے ـ میری نظر میں بڑی شاعری وہ ہے جو دلوں کی کیفیت بدلنے کی قوت رکھتی ہو، اور اس کے لئے کسی فلسفیانہ اور نفسیاتی تحریکوں کے اظہار کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کردینا ایک نصابی شاعری کا وجود تو عمل میں لاسکتی ہے لیکن روح سنے اور روح سنائے والی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی، آپ کی شاعری یقیناّ اس اسٹیج پر نہیں ہے، لیکن جس خلوص کے ساتھ آپ آگے بڑھے اور انسانیت کے جس جذبے اور ولولے کو آپ نے عام کرنے کی سعی کی ہے وہ بڑی شاعری کے دائرے میں آنے والی چیز ہے ـ فنی طور پر کہیں کہیں انگلی رکھی جاسکتی ہے لیکن اس بات کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ یہ شاعری کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنی ہے ـ
فقط والسلام ....
مخلص ـ دستخط ....