بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ــ عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی .. ( علامہ اقبال) ایک علمی و منطقی تجزیہ === از ـ غلام محمد وامِق ـ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مخصوص سوچ کے اکثر لوگ علامہ کے مذکورہ شعر کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کو " حق " تک پہنچنے لے لئے عقل و دانائی کی نہیں بلکہ جذباتِ عشق کی ضرورت ہوتی ہے ـ لیکن میرے خیال اور منطق کے مطابق ایسا ہرگز نہیں ہے ـ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شاعری ہے اور شاعری کوئی دلیل نہیں ہوتی ـ شاعری کسی کی بھی ہو ہمیشہ مبالغہ آمیزی پر مبنی ہوتی ہے، اور شاعر ایک ہی غزل میں کئی متضاد باتیں بیان کرتا ہے ــ خود اقبال نے اکثر ایسا کیا ہے، اہلِ علم اس بات کو جانتے ہیں، حوالے دینے کی ضرورت نہیں ـ بہت سے اشعار اقبال کے عقل و دانش، تدبر و حکمت کے موضوع پر بھی ہیں ـ اور ایک طویل جذباتی قصیدہ علامہ صاحب نے اس وقت کی ملکہ برطانیہ " وکٹوریہ " کی شان میں بھی کہا تھا، جس میں ملکہ کی حددرجہ مدح سرائی کی گئی تھی، جسے بعدازاں انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر، یعنی عقل کو مدنظر رکھتے ہوئے، اور حکمتِ عملی کی بنا پر، اسے اپنی کسی بھی کتاب میں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا، اگر علامہ اقبال کی تمام شاعری کو مبالغہ آمیزی کی بجائے حقیقت مان لیا جائے تو پھر اس مشہور شعر کی وضاحت کیسے ہوگی؟ ـ اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے ـ گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا ـ مذکورہ شعر کے مطابق تو اقبال کے کردار و گفتار میں فرق تھا، یعنی جو وہ کہتے تھے، وہ کرتے نہیں تھے؟ ــ مزید یہ کہ علامہ اقبال کی پہلی تصنیف شاعری یا عشق پر نہیں تھی، بلکہ عقل و دانش سے بھرپور نثر تھی، اور اس کا موضوع تھا "علم الاقتصاد " علامہ اقبال نے اپنے دیگر نثری مضامین و خطوط میں بھی اکثر باتیں عقل اور حکمت پر مبنی کی ہیں، اسی لئے انہیں " حکیم الامت " کہا جاتا ہے، عاشق الامت نہیں کہا جاتا ـ میرا مقصد علامہ صاحب پر تنقید کرنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ خالی جذبات کسی بھی مسئلے کے حل کرنے میں معاون نہیں ہوتے بلکہ مضر ہوتے ہیں، اور کسی بھی الجھے مسئلے کو سلجھانے کے لئے عقل اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ کسی بھی قسم کے جذبات کی ـ البتہ جزبات کسی بھی عمل پر فوری ردّعمل دیتے ہیں ـ جنہیں اگر بر وقت کنٹرول نہ کیا جائے تو بڑے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ـ یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں بھی بار بار عقل و حکمت، غور و فکر اور تدبر اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے، قرآن نے کئی مقامات پر " یا اولوالالباب " کہ کر خطاب کیا ہے، اور جذباتی تصورات، اور اپنے ذہنی خیالات و خواہشات کو ترک کردینے کا حکم دیا ہے، اور یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں کہیں پر بھی لفظ " عشق " استعمال نہیں کیا گیا، اور نہ ہی احادیث میں لفظ عشق استعمال ہوا ہے، اس کے بجائے قرآن و احادیث میں لفظ " محبت " الفت چاہت اور پیار استعمال کیا گیا ہے، البتہ لفظ عشق کو ہمارے شعراء اور صوفیاء نے بہت زیادہ استعمال کیا ہے ـ اور مذکورہ شعر میں بھی مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہے، کہ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ـ درحقیقت آتشِ نمرود میں حضرت ابراہیم نے خود اپنے شوق اور جذبے سے چھلانگ نہیں لگائی تھی، یا وہ اپنی مرضی سے آگ میں نہیں کُودا تھا بلکہ اسے تو بادشاہ نمرود کے اہلکاروں نے زبردستی اٹھا کر منجنیق نما مشینوں کے ذریعے دور سے بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا تھا ـ حضرت ابراہیم نے کسی جذباتی فیصلے کے تحت خود آگ میں چھلانگ نہیں لگائی، آپ نے تو اپنی ذہنی عقل و فراست سے کام لے کر ستاروں، چاند اور سورج کو دیکھ کر اور اللہ کی مزید نشانیاں ملاحظہ فرماکر توحیدِ الٰہی کو سمجھا تھا اور یہ سبق اپنے والد اور قوم کو بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی، مزید اپنی دانش و عقل کو کام میں لاکر قرآنِ کریم کے مطابق مشرکین کو سمجھانے کے لئے ایک خاص موقع پر بت خانے کے تمام بت توڑ دئے اور بڑا بت چھوڑ دیا اور اپنا کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا، اور قوم کو کہا کہ اس بڑے بت سے پوچھو کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ شاید خود اسی نے یہ کام کیا ہے، کیوں کہ کلہاڑا تو اسی کے کندھے پر ہے ـ جسے سن کر اس کے باپ آزر اور قوم نے کہا کہ یہ بت ایسا کام کیسے کرسکتا ہے، یہ تو خود سے حرکت بھی نہیں کرسکتا، یہ تو پتھر ہے اسے کیا معلوم؟ ـ اور یوں حضرت ابراہیم نے انہیں حقیقی خدا کی تعلیم سمجھائی ـ مگر وہ اپنے بتوں سے اندھی عقیدت رکھتے تھے "یعنی انہیں بتوں سے عشق تھا " جس کے باعث انہوں نے کچھ بھی عقل کی بات ماننے سے انکار کردیا، اور اس کے باپ " آزر " نے بتوں کے عشق میں اندھا ہوکر اپنے ہی بیٹے کو گھر سے نکال دیا اور قطع تعلق کرلیا، جس کے بعد حضرت ابراہیم نے انہیں عقلی دلیل سے بات سمجھانے کے لئے مذکورہ بالا عقلی کاروائی کی ، جس کے نتیجے میں انہیں زبردستی آگ میں پھینک دیا گیا، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا، جس کے بعد وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر وادیء بے آب و گِیاہ، یعنی مکہ کی طرف ہجرت کرگئے ـ بہرحال یہ طویل قصہ ہے اور اس میں کہیں پر بھی جذباتی باتوں سے کام نہیں لیا گیا ـ مزید علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا اصل نام " تارح " تھا، اسے آزر اس لئے کہا جاتا تھا کہ جس بت سے اسے اندھا عشق تھا اور جس کی وہ پوجا کیا کرتا تھا اس بت کا نام " آزر " تھا، اور بت سے اسی عشقیہ نسبت کی بنا پر اسے بھی آزر کے نام سے پکارا جانے لگا ـ ( والله اعلم باالصواب) ـ مزید یہ واضح ہونا چاہئے کہ جدید ماہرینِ نفسیات کے مطابق عشق ایک نفسیاتی مرض ہے، جس کا نفسیاتی معالج (سائیکاٹرسٹ ڈاکٹرز) باقائدہ علاج کرتے ہیں، یعنی آج کے زمانے میں عشق کا دواؤں کے ذریعے علاج ممکن ہے، مرزا غالب نے آج سے تقریباﹰ ڈیڑھ سوسال قبل ہی اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا اور یہ کہہ دیا تھا کہ ـ کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا ـ مزید یہ کہ عشق جذباتی کیفیت کا نام ہے، اور جذبات میں آدمی ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے ـ عشق عجلت پسند ہوتا ہے، اس میں صبر و تحمل نہیں ہوتا ـ عشق میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، جب کہ عقل میں دلیل ہوتی ہے ـ کوئی بھی شخص اپنی ماں، بہن، بیٹی سے اظہارِ عشق نہیں کرتا، ان مقدس رشتوں سے اظہارِ محبت اور اظہارِ چاہت کیا جاتا ہے ـ اور عشقِ حقیقی و عشقِ مجازی کی اصطلاحات بھی میں اب غلط سمجھتا ہوں، جسے میں عالمِ شباب میں درست سمجھتا تھا ـ اور یہ جو ہم اپنے اردگرد نوجوانوں کو خودکشیاں کرتے دیکھتے ہیں ان میں سے اکثر عشق میں ناکامی کے باعث ہی خود کشی کرتے ہیں، یعنی اصل عاشق تو وہ ہیں جو عشقِ میں خودکشی کرلیتے ہیں، جوکہ شریعت میں حرام ہے ـ وماعلینا الی البلاغ ـتحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـمورخہ 21، اپریل 2022ء مطابق 19، رمضان المبارک 1443 ھجری ـ بروز جمعرات ـ

بے خطر کود پڑا آتش ِ نمرود میں عشق ـ
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی ..   ( علامہ اقبال) 
ایک علمی و منطقی تجزیہ === از ـ غلام محمد وامِق ـ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
 مخصوص سوچ کے اکثر لوگ علامہ کے مذکورہ شعر کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کو " حق  "  تک پہنچنے لے لئے عقل و دانائی کی نہیں بلکہ جذباتِ عشق کی ضرورت ہوتی ہے ـ لیکن میرے خیال اور منطق کے مطابق ایسا ہرگز نہیں ہے ـ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شاعری ہے اور شاعری کوئی دلیل نہیں ہوتی ـ شاعری کسی کی بھی ہو ہمیشہ مبالغہ آمیزی پر مبنی ہوتی ہے، اور شاعر ایک ہی غزل میں کئی متضاد باتیں بیان کرتا ہے ــ خود اقبال نے اکثر ایسا کیا ہے، اہلِ علم اس بات کو جانتے ہیں، حوالے دینے کی ضرورت نہیں ـ بہت سے اشعار اقبال کے عقل و دانش، تدبر و حکمت کے موضوع پر بھی ہیں ـ  اور ایک طویل جذباتی  قصیدہ علامہ صاحب نے اس وقت کی ملکہ برطانیہ  " وکٹوریہ " کی شان میں بھی کہا تھا، جس میں ملکہ کی حددرجہ مدح سرائی کی گئی تھی،  جسے بعدازاں انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر، یعنی عقل کو مدنظر رکھتے ہوئے، اور حکمتِ عملی کی بنا پر، اسے اپنی کسی بھی کتاب میں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا، اگر علامہ اقبال کی تمام شاعری کو مبالغہ آمیزی کی بجائے حقیقت مان لیا جائے تو پھر اس مشہور شعر کی وضاحت کیسے ہوگی؟ ـ
اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے ـ
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا ـ
مذکورہ شعر کے مطابق تو اقبال کے کردار و گفتار میں فرق تھا، یعنی جو وہ کہتے تھے، وہ کرتے نہیں تھے؟ 
مزید یہ کہ علامہ اقبال کی پہلی تصنیف شاعری یا عشق پر نہیں تھی، بلکہ عقل و دانش سے بھرپور نثر تھی، اور اس کا موضوع تھا " علم الاقتصاد "  اور علامہ اقبال نے اپنی دیگر نثری مضامین و خطوط میں بھی اکثر باتیں عقل و حکمت پر مبنی کی ہیں، اسی لئے انہیں " حکیم الامت " کہا جاتا ہے، عاشق الامت نہیں کہا جاتا ـ 
میرا مقصد علامہ صاحب پر تنقید کرنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ خالی جذبات کسی بھی مسئلے کے حل کرنے میں معاون نہیں ہوتے بلکہ مضر ہوتے ہیں، اور کسی بھی الجھے مسئلے کو سلجھانے کے لئے عقل اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ کسی بھی قسم کے جذبات کی ـ البتہ جزبات کسی بھی عمل پر فوری ردّعمل دیتے ہیں ـ  جنہیں اگر بر وقت کنٹرول نہ کیا جائے تو بڑے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ـ  یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں بھی بار بار عقل و حکمت، غور و فکر اور تدبر اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے، قرآن نے کئی مقامات پر " یا اولوالالباب " کہ کر خطاب کیا ہے، اور جذباتی تصورات، اور اپنے ذہنی خیالات و خواہشات کو ترک کردینے کا حکم دیا ہے،  اور یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں کہیں پر بھی لفظ " عشق " استعمال نہیں کیا گیا،  اور نہ ہی احادیث میں لفظ عشق استعمال ہوا ہے،  اس کے بجائے قرآن و احادیث میں لفظ " محبت " الفت چاہت اور پیار استعمال کیا گیا ہے، البتہ لفظ عشق کو ہمارے شعراء اور صوفیاء نے بہت زیادہ استعمال کیا ہے ـ اور مذکورہ شعر میں بھی مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہے، کہ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ـ  درحقیقت آتشِ نمرود میں حضرت ابراہیم نے خود اپنے شوق اور جذبے سے چھلانگ نہیں لگائی تھی،  یا وہ اپنی مرضی سے آگ میں نہیں کُودا تھا بلکہ اسے تو بادشاہ نمرود کے اہلکاروں نے زبردستی اٹھا کر منجنیق نما مشینوں کے ذریعے دور سے بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا تھا ـ حضرت ابراہیم نے کسی جذباتی فیصلے کے تحت خود آگ میں چھلانگ نہیں لگائی، آپ نے تو اپنی ذہنی عقل و فراست سے کام لے کر ستاروں، چاند اور سورج کو دیکھ کر اور اللہ کی مزید نشانیاں ملاحظہ فرماکر توحیدِ الٰہی کو سمجھا تھا اور یہ سبق اپنے والد اور قوم کو بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی، مزید اپنی دانش و عقل کو کام میں لاکر قرآنِ کریم کے مطابق مشرکین کو سمجھانے کے لئے ایک خاص موقع پر بت خانے کے تمام بت توڑ دئے اور بڑا بت چھوڑ دیا اور اپنا کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا، اور قوم کو کہا کہ اس بڑے بت سے پوچھو کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ شاید خود اسی نے یہ کام کیا ہے، کیوں کہ کلہاڑا تو اسی کے کندھے پر ہے ـ جسے سن کر اس کے باپ آزر اور قوم نے کہا کہ یہ بت ایسا کام کیسے کرسکتا ہے، یہ تو خود سے حرکت بھی نہیں کرسکتا، یہ تو پتھر ہے اسے کیا معلوم؟ ـ اور یوں حضرت ابراہیم نے انہیں حقیقی خدا کی تعلیم سمجھائی ـ مگر وہ اپنے بتوں سے اندھی عقیدت رکھتے تھے "یعنی انہیں بتوں سے عشق تھا " جس کے باعث انہوں نے کچھ بھی عقل کی بات ماننے سے انکار کردیا، اور اس کے باپ " آزر " نے بتوں کے عشق میں اندھا ہوکر اپنے ہی بیٹے کو گھر سے نکال دیا اور قطع تعلق کرلیا، جس کے بعد حضرت ابراہیم نے انہیں عقلی دلیل سے بات سمجھانے کے لئے مذکورہ بالا عقلی کاروائی کی ، جس کے نتیجے میں انہیں زبردستی آگ میں پھینک دیا گیا، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا، جس کے بعد وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر وادیء بے آب و گِیاہ،  یعنی مکہ کی طرف ہجرت کرگئے ـ بہرحال یہ طویل قصہ ہے اور اس میں کہیں پر بھی جذباتی باتوں سے کام نہیں لیا گیا ـ مزید علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا اصل نام  " تارح "  تھا، اسے آزر اس لئے کہا جاتا تھا کہ جس بت سے اسے اندھا عشق تھا اور جس کی وہ پوجا کیا کرتا تھا اس بت کا نام  " آزر "  تھا، اور بت سے اسی عشقیہ نسبت کی بنا پر اسے بھی آزر کے نام سے پکارا جانے لگا ـ ( والله اعلم باالصواب)  ـ  مزید یہ واضح ہونا چاہئے کہ جدید ماہرینِ نفسیات کے مطابق عشق ایک نفسیاتی مرض ہے، جس کا نفسیاتی معالج (سائیکاٹرسٹ ڈاکٹرز)  باقائدہ علاج کرتے ہیں، یعنی آج کے زمانے میں عشق کا دواؤں کے ذریعے علاج ممکن ہے، 
مرزا غالب نے آج سے تقریباﹰ ڈیڑھ سوسال قبل ہی اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا اور یہ کہ دیا تھا کہ ـ 
کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا ـ
مزید یہ کہ عشق جذباتی کیفیت کا نام ہے، اور جذبات میں آدمی ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے، عشق عجلت پسند ہوتا ہے، اس میں صبر و تحمل نہیں ہوتا ـ عشق میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، جب کہ عقل میں دلیل ہوتی ہے ـ کوئی بھی  شخص اپنی ماں، بہن، بیٹی سے اظہارِ عشق نہیں کرتا، ان مقدس رشتوں سے اظہارِ محبت اور اظہارِ چاہت کیا جاتا ہے ـ  اور عشقِ حقیقی و عشقِ مجازی کی اصطلاحات بھی میں اب غلط سمجھتا ہوں، جسے میں عالمِ شباب میں درست سمجھتا تھا ـ 
اور یہ جو ہم اپنے اردگرد نوجوانوں کو خودکشیاں کرتے دیکھتے ہیں ان میں سے اکثر عشق میں ناکامی کے باعث ہی خود کشی کرتے ہیں، یعنی اصل عاشق تو وہ ہیں جو عشقِ میں خودکشی کرلیتے ہیں، جوکہ شریعت میں حرام ہے ـ وماعلینا الی البلاغ ـ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 21، اپریل 2022ء مطابق 19، رمضان المبارک 1443 ھجری ـ بروز جمعرات ـ 

SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Anonymous
May 29, 2022 at 1:01 AM

آپ نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کیا ہے۔۔۔عشق کی نفی کی گٸی اور عقل کو کل متاع سمجھا اور سمجھایا جارہا۔۔۔

Reply
avatar
Powered by Blogger.