رسولِ کریم ﷺ نے متعدد نکاح کیوں کئے ـ؟
( ایک چشم کشا مطالعہ ) .......
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے بیشتر مسلمان دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے تو انتہائی عروج پر ہوتے ہیں، پی ایچ ڈی وغیرہ بھی کرلیتے ہیں ـ لیکن اسلام کی بنیادی تعلیم کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہوتی ـ اور ایسے حضرات سے جب کوئی غیر مسلم رسولﷺ. کی شادیوں کے متعلق استفسار کرتا ہے تو، یہ جواب نہیں دے پاتے، اور تب یہ اپنے مذہب پر بڑی شرمندگی محسوس کرتے ہیں ـ
ایسے لوگوں کی اور دیگر مسلمانوں کی معلومات کے لئے یہ تحریر انتہائی مفید ہے ـ یہ تحریر کسی ڈاکٹر (نام معلوم نہیں) کی ہے ـ میں نے اس طویل تحریر کو انتہائی مختصر کیا ہے اور کچھ الفاظ کا اضافہ بھی کیا ہے ــــ
حضرت خدیجۃ رضہ، سے شادی ہونے سے بھی قبل آپﷺ. کو سردارانِ مکہ کی جانب سے جہاں بیشمار مال و دولت اور سرداری کی پیشکش کی گئی تھی، اس کے ساتھ ہی آپﷺ کو اپنی مرضی سے اپنی پسند کی کسی بھی لڑکی یا عورتوں سے شادی کروانے کی پیشکش بھی کی گئی تھی، جسے آپﷺ نے یہ کہکر رد کردیا تھا کہ اگر آپ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں، تب بھی میں اپنی دعوتِ اسلام سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ـ
تو ایسے شخص کے متعلق مستشرقین کا یہ کہنا کہ آپﷺ نے جنسی تسکین کے لئے شادیاں کیں، انتہائی متعصبانہ بات ہے ـ حضرت خدیجہ کو بھی آپﷺ نے خود شادی کا پیغام نہیں بھیجا، بلکہ آپ کی نیک نیتی، امانت داری، دیانت داری اور سچ کو دیکھتے ہوئے حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے ہی آپﷺ. کو پیغامِ نکاح بھجوایا تھا ...
رسول کریمﷺ پر غیرمسلموں کا اعتراض یا توہینِ رسالت عام طور پر کثرتِ ازدواج کی بنا پر ہی کیا جاتا ہے، جس کا صحیح اور درست جواب نہ ملنے کے باعث، مسلمانوں کو شرمنده یا متشدد ہونا پڑتا ہے ـ اس لئے یہ تحریر پڑھنا مسلمانوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوگی ـــ
طالبِ دعا ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ .....
◀️ (1) پیارے رسولِ کریم ﷺ نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔
50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کیا ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ ﷺنے نکا ح کئے ۔
پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال پوچھا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں ...... آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا....؟
سب خاموش رھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ ﷺنے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔
پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔
اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لوگوں کو ترغیب دینے کے لئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔
◀️ (2) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
◀️ (3) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور
◀️ (4)حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کئے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے -
◀️ (5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔ دوسرے شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ ﷺ کے پیش نظر تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔
ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور ﷺکے شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئیں ، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی، اطلاع ملنے پر حضور ﷺ نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا، بعدازاں انہیں مدینہ بلوالیا گیا ....
◀️ (6) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد، قبیلہ بنی مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور ﷺ نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہوکر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور ﷺ سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔
◀️ (7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم ﷺ سے کرا دیا ۔
◀️ (8) اسی طر ح میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور ﷺکے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مشاہدہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔
◀️ (9) حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔
◀️ (10) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنہ حضور ﷺ کے متبنی(منہ بولے بیٹے) کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے انہیں طلاق دے دی تو حضور ﷺنے نکاح کر لیا اور ثابت کردیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.
◀️ (11) اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس ﷺ کی سیرت پاک ہے۔
آپ ﷺکی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتوں میں اس کام کے لئیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔
ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا ۔ اس کام کی تکمیل کے لئیے آپ ﷺ نے کئی نکاح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور ﷺ نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔
حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا ۔
اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔
ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لئیے تھیں اور سار ی دنیا کے لیے تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ سنتے ہیں ۔ باقی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــ کاپی پیسٹ، و ترمیم ـ غلام محمد وامِق ــ
مورخہ 25، اپریل 2021ء ـــــــ 12، رمضان المبارک 1442ھجری .... بروز اتوار ـــ