****** غـــــزل ******
غلام محمد وامِق
نا جانے انہیں ہم سے یہ کیسی محبت تھی؟ ۔
اُغیار سے بھی ملتے، ہم سے بھی رفاقت تھی ۔
جو زخم لگائے تھے ، اپنوں نے لگائے تھے ۔
غیروں کو تو مجھ سے کچھ شکوہ نہ شکایت تھی ـ
دیکھو تو نجانے کیوں رنجش تھی انہیں ہم سے ۔
جِن کے لئے اِس دِل میں اخلاص و عقیدت تھی ـ
اعمال تو اُس کے سب کافر سے بھی بدتر تھے ـ
مارا تھا جو کافر کو، وہ ذاتی عداوت تھی ـ
افسوس وہ دیتے ہیں طعنہ ہمیں غربت کا ـ
وہ بھول گئے ہم نے کی اُن کی کفالت تھی ـ
ہم اپنے عقیدے کی ہر بات کو حق سمجھیں ـ
تحقیق نہیں کرتے، یہ کیسی روایت تھی ـ
ہم جس کو بیاں کر کے پہنچے ہیں سرِ مقتل ـ
معلوم ہوا آخر وہ جھوٹی حکایت تھی ـ
تحقیق ضروری ہے ہر بات پرکھنے کو ۔
ہم علم جسے سمجھے وامِق وہ جہالت تھی ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
بحر ۔ ہَزج مثمن اخرب سالم ۔
شاعر ـ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ...
مورخہ 3 جنوری 2022 ء کو کہی گئی غزل ۔