ایم کیو ایم، کو جیسا میں نے دیکھا === تحریر ـ غلام محمد وامِق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سال 1977 کا زمانہ تھا۔مجھے تحریری امتحان پاس کرنے کے بعد پاکستان اسٹیل ملز میں ملازمت مل گٸی تھی۔اس لۓ مجھے کراچی شفٹ ہونا پڑا۔۔اس زمانے میں اسٹیل ملز میں لسانی تعصب کے باعث مجھ سمیت بیشمار اردو بولنے والوں کو میڈیکل چیک اپ میں ان فٹ کے بہانے 6 ۔ماہ ملازمت کے بعد بغیر کسی تنخواہ کے نکال دیا گیا۔ خیر مجھے اللہ تعالٰی نے کراچی پورٹ پر ملازمت عطا کردی۔ اس دور میں بسوں وغیرہ میں مجھے چھوٹے چھوٹے اشتہار یا اسٹکر لگے ہوۓ نظر آتے تھے ، جن پر مہاجروں کے حقوق کے حصول کی بات لکھی ہوتی تھی۔اس دور میں سیاسی شعور بہت کم ہوتا تھا۔لہذا مجھے حیرت ہوتی تھی۔ اکثر اشتہارات پر الطاف حسین کا نام لکھا ہوتا تھا۔ میں اسے ”اردو ڈاٸجسٹ“ والا الطاف حسین سمجھتا تھا۔ حالانکہ اے پی ایم ایس او۔ کی بنیاد ریکارڈ کے مطابق جون۔ 1978 میں رکھی گٸی ۔۔ اسی طرح رفتہ رفتہ ہم ایم کیو ایم کا نام بھی سننے لگے۔۔ ان خبروں پر مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی۔ قبل ازیں محراب پور میں ہی میں نے ایک دیوار پر لکھا دیکھا۔” مہاجر قومی موومنٹ “ مجھے ادبی ترکیب کے لحاظ سے یہ نام غلط محسوس ہوا ۔۔۔یعنی آدھا تیتر آدھا بٹیر۔۔آدھا اردو آدھا انگلش ۔۔۔اس وقت میں نے لوگوں سے کہا تھا کہ، اس کو مہاجر قومی تحریک لکھا جاۓ۔ یا پھر مہاجر نیشنل موومنٹ کردیا جاۓ۔۔۔بہرحال غالباً 1982 کا دور تھا، کہ ہم نے اڑتی ہوٸی خبر سنی کہ مہاجر قومی موومنٹ کا نام تبدیل کرکے اسے مسلم قومی موومنٹ یا متحدہ قومی موومنٹ بنایا جاۓ گا۔۔۔آپ اندازہ فرماٸیں کہ یہ کس دور کی بات ہے۔جبکہ ایم کیو ایم کی تاسیس ریکارڈ پر مارچ 1984 ہے۔۔۔بہرحال والد صاحب کی بیماری اور چند دیگر وجوہات کے باعث مجھے جنوری 1983 میں ملازمت چھوڑ کر واپس گھر آنا پڑا ۔ اس وقت تک کراچی میں فسادات شروع ہو چکے تھے ۔ اور ایم کیو ایم کی جانب سے پاکستان کے خلاف بیان بازی شروع ہو چکی تھی۔ پاکستانی پرچم بھی نذر آتش کیا جاتا تھا۔ اسی دوران ہم نے ملک کے واحد نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلیویژن پر اس وقت کے شریف النفس وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا قوم سے خطاب سنا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ایم کیو ایم کے قاٸد الطاف حسین کا بڑے احترام کے ساتھ نام لیا۔۔تو ہم حیران رہ گۓ تھے کہ ایک ملک دشمن آدمی کا نام وزیر اعظم احترام کے ساتھ لے رہا ہے۔۔ رفتہ رفتہ منظر واضح ہوتا گیا اور اس وقت کے صدر و آرمی چیف جنرل ضیاالحق صاحب کو بھی الطاف حسین سے اور جیٸے سندھ تنظیم کے بانی جناب جی ایم سید صاحب سے ملاقاتیں کرتے دیکھا۔۔۔۔اسی دوران محراب پور میں ایم کیو ایم کے سب سے پہلے ورکر ” ماسٹر بشیر مغل اور فیض محمد مغل مرحومین، میرے پاس مجھے ایم کیو ایم میں شامل کرنے کے لۓ کٸی بار آۓ۔ کیونکہ ان دنوں محراب پور میں کوٸی گریجوایٹ لڑکا میرے علاوہ اردو بولنے والا نہیں تھا۔ لیکن میں ان کی بات سے مطمٸن نہیں ہوا ۔انہوں نے اپنا منشور دکھایا، میں نے اس میں کٸی طرح کے نقاٸص بتاۓ مثلاً مشرقی پنجاب سے آۓ ہوۓ لوگوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ چنانچہ میرے اعتراضات کی بنیاد پر مرکز میں مذکورہ منشور میں کٸی بار رد و بدل کیا گیا۔۔۔اس کے باوجود میں اس تنظیم سے مطمٸن نہ ہو سکا۔۔۔اسی دوران پاکستان کے عظیم دانشور ۔ادیب۔ فلاسفر۔۔کالم نگار صحافی اور ماورائی علوم کے ماہر جناب رٸیس امروہوی صاحب سے بھی اس مسٸلے پر میری تا دیر خط و کتابت ہوتی رہی ۔یاد رہے کہ رٸیس امروہی صاحب۔ قاٸد تحریک الطاف حسین کے رشتے میں بڑے بزرگ ہوتے تھے۔۔شاید رشتے میں ان کے نانا تھے۔۔انہوں نے مجھے محراب پور میں ” سندھی مہاجر اتحاد “ تحریک کے نام سے دفتر کھولنے کے لۓ کہا۔۔۔لیکن میں اس وقت کے معروضی حالات کے باعث اس کام کے لۓ آمادہ نہ ہوسکا۔۔۔۔ان ہی دنوں جامشورو میں ایک بہت بڑی اور مشہور کانفرنس منعقد کی گٸی۔ جس میں اردو اور سندھی کے تمام معتبر اور بڑے بڑے ادیبوں اور لیڈروں نے شرکت کی۔جیسا کہ۔رٸیس امروہوی۔۔انعام درانی۔ الطاف حسین۔۔و دیگر جن کے نام یاد نہٕیں۔۔سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید ۔۔شمشیر الحیدری۔۔۔و دیگر جن کے نام اب ذہن میں نہیں۔۔ بعد ازاں سندھی مہاجر اتحاد تحریک زور پکڑتی گٸی۔۔ چنانچہ مجھ پر رٸیس امروہوی سمیت کراچی کے دیگر ادیبوں کا دباٶ بڑھتا گیا۔اس دوران رٸیس امروہوی صاحب نے میری دعوت پر محراب پور وزٹ کرنے کا پروگرام طے کر لیا۔ لیکن پھر چند وجوہات کی بنا پر میں نے خود ان کا دورہ منسوخ کروا دیا ۔۔بعد ازاں میں نے کراچی جا کر ان کے دفتر میں ان سے ملاقات کی ۔جہاں پر سندھ کے مشہور ترین ادیب جناب شمشیرالحیدری صاحب بھی تھے۔۔میں نے وہاں پر ان کو درپیش کچھ زمینی حقاٸق سے آگاہ کیا۔۔اور چند ثبوت بھی پیش کۓ۔جنہیں دیکھنے کے بعد وہ بہت حیران ہوۓ تھے۔۔ بعد ازاں رٸیس صاحب نے میرے دلاٸل کو تسلیم کیا ۔۔۔ اور پھر اپنے خطوط میں اس کا ذکر کرتے ہوۓ کہا کہ۔۔ آپ کی بات سے ہم متفق ہیں۔لیکن اب ہم اس مسٸلے میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اب واپسی ہمارے لۓ ناممکن ہے۔۔۔ چنانچہ روزنامہ جنگ کراچی مورخہ 5 ستمبر 1986 بروز جمعہ۔۔۔کا اپنا کالم میرے نام سے تحریر کیا۔۔۔۔جس کا عنوان تھا ” ہم فرزند زمین ہیں “ ۔۔۔اس کالم کی بازگشت سیاسی حلقوں میں بہت دنوں تک سناٸی دیتی رہی تھی۔۔ رٸیس صاحب کو 1988 میں۔ ان کے خاندان کے ہی کسی شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا ۔۔۔۔ بہرحال ماضی قریب میں بھی مجھے ایم کیو ایم کی ادبی کمیٹی میں شمولیت کی دعوت ملی تھی۔ لیکن ایم کیو ایم کی بار بار بدلتی ہوٸی پالیسی اور پارٹی میں چند پراسرار واقعات کے باعث۔۔۔ میں ابھی تک ان سے مطمٸن نہیں ہو سکا ۔۔۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ، اگر ابتدائی دور میں ہی ، میں نے ایم کیو ایم جواٸن کرلی ہوتی تو آج دنیا سے اٹھ چکا ہوتا، یا پھر ایم این اے وغیرہ بن چکا ہوتا ۔۔۔۔۔لیکن شکر ہے خدا کا کہ اس نے مجھے ہر قسم کے دنیاوی مفاد اور لالچ سے دور رکھا ہے۔۔۔ تحریر ۔۔۔جی ایم وامق۔۔۔ محراب پور سندھ ۔۔۔فون نمبر۔03153533437.........تاریخ۔۔24.10.2018


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.