ہم نے جون 1992،میں ایران کا سفر کیا تھا، اس سفرکا ایک دلچسپ واقعہ پیشِ خدمت ہے ، ایران کا سرحدی شہر سرپل ذہاب جوکہ سرحد کے ساتھ واقع ہے، وہاں کے سرکاری ہسپتال میں ہمارے ایک اسکول کلاس فیلو، ڈاکٹر نعمت اللہ میمن، تعینات تھے، ہم ان سے ملنے کے لئے سرپل ذہاب، چلے گئے، سرحدی علاقہ ہونے کے باعث یہ شہر بہت حساس تھا، میرے ساتھ، میرا ایک ہمسفر دوست، ڈاکٹر منیر میمن، بھی تھا۔ ہم نے ڈاکٹر نعمت اللہ کے گھر میں ایک رات گزاری، اور دوسری صبح واپس آتے ہوئے ایک چیک پوسٹ پر، فوجیوں نے ہماری گاڑی کو روکا، اور ہم دونوں کو مشکوک غیر ملکی سمجھتے ہوئے گاڑی سے اتار لیا، یہ دیکھ کر گاڑی والے نے ہم سے دو سیٹوں کا پورا کرایہ ۔۔۔ 85، تمان، لیا اور ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، فوجی ہمیں وہاں سے قریب ہی ایک کیمپ میں اپنے آفیسر کے پاس لے گئے، آفیسر نے ہمارے پاسپورٹ وغیرہ چیک کئے، اور اشاروں میں ہم سے پوچھ گچھ کی، چونکہ ان دنوں عراق، ایران، جنگ کا تنازعہ چل رہا تھا، لہٰزا وہ لوگ ہمیں عراقی جاسوس سمجھ رہے تھے، تھوڑی تفتیش کے بعد اس نے ہمیں فوجیوں کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا، تب ہم نے کہا کہ، گاڑی والے نے ہم سے کرایہ وصول کر لیا، اور وہ چلا گیا ہے، یہ سن کر آفیسر نے اپنے پاس سے، 50، تمان، ہمیں دئے، ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ بلا وجہ کی مصیبت سے بھی بچ گئے اور کچھ پیسے بھی واپس مل گئے، بہرحال ہمیں فوجی، گاڑی میں بٹھا کر بس اڈے کی طرف چل پڑے، لیکن اس وقت ہماری خوشی، پریشانی اور خوف میں بدل گئی جب، بس اڈے کو کراس کرتی ہوئی، گاڑی تیزی سے اس کے سامنے سے گزر گئی، ساتھ والے فوجیوں سے پوچھا تو انہوں نے خاموشی سے بیٹھنے کا اشارہ کیا، ہم نے عالمِ تخیل میں اپنے آپ کو فوجی ٹارچر سیل، میں محبوس دیکھا۔ خوف کے مارے ہم پر کپکپی طاری ہو چکی تھی، ۔۔۔۔ گاڑی تیزی کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے میں داخل ہوئی ۔ وہاں پر بنی فوجی چھاؤنی کے ایک بڑے سے کمرے میں ہمیں لے جایا گیا، جس میں ایک بڑی سی ٹیبل کے پیچھے کوئی بڑا سا فوجی آفیسر بیٹھا تھا، ٹیبل پر ایرانی فلیگ لگا تھا، اور دیوار پر امام خمینی کی تصویر آویزاں تھی ۔۔۔ ہمیں ایک طرف کرسیوں پر بٹھا دیا گیا، (ایک بات جو ہم نے خاص طور پر ایران میں محسوس کی، وہ یہ تھی کہ وہاں پر کسی بھی فوجی یا پولیس والے سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہم نے کوئی بھی عمر رسیدہ اہلکار وہاں پر نہیں دیکھا، وہ سب دیکھنے میں نوعمر، کسی کالج یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس لگتے تھے،) ۔۔۔۔ بہرحال وہاں پر ہمارے کاغذات چیک کئے گئے، اور ہسپتال میں فون کر کے، ڈاکٹر نعمت اللہ، سے ہمارے متعلق تصدیق کی گئی ۔۔۔۔۔۔ بعد ازاں آفیسر نے بڑے خوشگوار انداز میں، ہمارے نام، اور عقائد وغیرہ معلوم کئے، ہم نے بلا خوف بتا دیا کہ ہم "سُنی" عقیدہ رکھتے ہیں، وہ ہم سے دوستوں کی طرح بات کر رہا تھا، اس دوران ہم نے پینے کے لئے پانی طلب کیا، تو ایک اردلی عام سے گلاسوں میں پانی لیکر آیا، یہ دیکھ کر آفیسر نے اسے ڈانٹا، اور کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، پانی اچھے سے گلاس میں لاؤ،،،، تب اعلیٰ قسم کے گلاسوں میں ہمیں پانی پیش کیا گیا ۔۔۔۔ بعد ازاں ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ ہمیں بااحترام بس ترمینل تک چھوڑ کر آئے، ۔۔۔رخصتی کے وقت ہاتھ ملاتے ہوئے، ڈاکٹر منیر پر شاید پاکستانیت طاری ہوگئی، چنانچہ اس نے آفیسر سے کہا کہ، سر! ویگن والا ہم سے 85 تمان لے گیا تھا ۔۔۔۔اور اب دوبارہ پھر ہمیں وہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا ۔۔۔۔یہ سن کر آفیسر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اور ایک سو، 100 تمان کا نوٹ نکال کر، منیر کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔۔۔اور یوں کُفر ٹوٹا خُدا خُدا کر کے ۔۔۔۔(میں سوچتا ہوں اگر اسی طرح کے حالات کسی کو پاکستان میں پیش آجاتے تو؟؟؟)..... تحریر۔۔۔جی ایم وامِق. ۔۔۔۔


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.