ہم مسلمانوں نے خود اپنے ہی اہلِ علم و دانش اور محققین ( سائنسدانوں )  ‏کا کیا حشر کیا پڑھئے اور سر دھنئے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  انتخاب و پیشکش ۔ غلام محمد وامِق ۔    مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان میں سے چھ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔   یعقوب الکندی فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔  ابن رشد یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔  ابن سینا جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔  ذکریا الرازی عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔  جابر ابن حیان جسے مغربی دنیا انہیں جدید کیمیاء کا فادر کہتے ہیں جس نے کیماء ، طب ، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکینیاء اور کتاب السابعین صرف مظرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے ۔ جابر بن حیان  سے انتقامی سلوک : حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت کھٹکنے لگی۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔   جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی ۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔۔ ـــــــــــــــ  انتخاب و پیشکش۔۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔

ہم مسلمانوں نے خود اپنے ہی اہلِ علم و دانش اور محققین ( سائنسدانوں ) ‏کا کیا حشر کیا پڑھئے اور سر دھنئے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انتخاب و پیشکش ۔ غلام محمد وامِق ۔ مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان میں سے چھ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔ یعقوب الکندی فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔ ابن رشد یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔ ابن سینا جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔ ذکریا الرازی عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔ جابر ابن حیان جسے مغربی دنیا انہیں جدید کیمیاء کا فادر کہتے ہیں جس نے کیماء ، طب ، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکینیاء اور کتاب السابعین صرف مظرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے ۔ جابر بن حیان سے انتقامی سلوک : حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت کھٹکنے لگی۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔ جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی ۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔۔ ـــــــــــــــ انتخاب و پیشکش۔۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔


 ہم مسلمانوں نے خود اپنے ہی اہلِ علم و دانش اور محققین ( سائنسدانوں )  ‏کا کیا حشر کیا پڑھئے اور سر دھنئے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 انتخاب و پیشکش ۔ غلام محمد وامِق ۔ 


 مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان میں سے چھ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔ 


یعقوب الکندی

فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔


ابن رشد

یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کراس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔


ابن سینا

جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔


ذکریا الرازی

عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔


جابر ابن حیان

جسے مغربی دنیا انہیں جدید کیمیاء کا فادر کہتے ہیں جس نے کیماء ، طب ، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکینیاء اور کتاب السابعین صرف مظرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے ۔ جابر بن حیان  سے انتقامی سلوک : حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت کھٹکنے لگی۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔ 


جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی ۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔۔ ـــــــــــــــ 

انتخاب و پیشکش۔۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔

انڈیا کے معروف ادیب محترم  Amber Shamim  عنبر شمیم صاحب نے میری یومِ پیدائش کے موقع پر اپنے فیس بُک پر اور اپنے پیج " انسان " پر میرا تعارف پیش کیا ہے، اس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  پورا نام:ـ غلام محمد طور قلمی نام:ـ غلام محمد وامِق تخلص:وامق تاریخِ ولادت:28 نومبر 1957ء                بروز جمعرات والد کا نام: شیر محمد طور  بچوں کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔   (1)محمد جاوید اقبال طور ۔   (2)فاطمہ بانو طور ۔   (3)محمد عابد طور ۔   (4)محمد راشد طور ۔   (5)نمرہ بانو طور  آبائی وطن:کالوا، ریاست جیند             صوبہ ہریانہ (بھارت) جائے ولادت: محراب پور، صوبہ سندھ (پاکستان) تعلیم: گریجویٹ ـ بی اے (آرٹ ـ) پیشہ:ملازمت، کراچی میں        اور اب دکانداری محراب پور میں        المہران بک ڈپو ـ زبان: ـ اردو ( ہریانوی) تلمیذ:ـ شاعری میں ” واقف جے پوری“ کراچی ـ تصنیفات: ۔۔۔۔۔۔ ۔   (1) نقشِ وفا (شاعری) ۔   (2)جنّات کی حقیقت (تحقیق) ۔   (3)دعا اور تقدیر (تحقیق) آغازِ تحریر:ـ آٹھویں جماعت سے             سال ۱۹۷۰ ء سے ـ پتا: ـ مکان ـ جی ایم ہاؤس      نزد سرکاری گودام ریلوےاسٹیشن      وارڈ نمبر ۱۵ ـ محراب پور      ضلع نوشہروفیروز ـ سندھ فون:09203153533437 ای میل:gmwamiq@gmail.com پذیرائی:ـ مقامی سطح پر ـ ایوارڈ ۔۔۔۔۔ ۔   (1)ٹی وی چینل 92 نیوز کی ۔       سالانہ تقریب میں ۔       بہترین کارکردگی ایوارڈ ـ ۔   (2)بزمِ شعر و ادب محراب پور ۔       کی طرف سے ایوارڈ ـ  روایات شکنی کی راہ کا مسافر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد وامِق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی شاعری سے پسماندہ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات  میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے،  روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـ۔ جاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـ  غلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی  اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ  میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـ نقلی چہرے،  جھوٹے رشتے،  ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ  غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ  وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ  وامِق کہتے ہیں ...  میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ  کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ  کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام ” بزمِ طلباء“ کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ” نقشِ وفا“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ـ  وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ۔  شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ  اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ  آزادیِ اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا ”ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات  سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے “  وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ  شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے ”میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے“ـ  وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ پاکستان کا معروف رسالہ ” روحانی ڈائجسٹ“ : اگست 2001ء  غــــــزل ۔۔۔۔۔ رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے  دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے تیری ہر ایک بات پر جو سر جھکا سکے ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟ دِل میں کسی کے کوئی کیوں ہوتا ہے جلوہ گر اے کاش،  اِس پہ بھی کوئی پہرہ بٹھا سکے چاہا بہت تھا لوٹ جائیں اپنے گھر کو پھر لیکن تیری گلی سے ہم، واپس نہ جا سکے اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے، اِس خیال سے بلبل کو میرے سامنے، نیچا  دکھا سکے تیری تباہ کار جوانی کے سامنے دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے ہم بھی کھڑے تھے منتظر، دِل ہاتھ میں لیے لیکن اُس نازنیں کا،  اشارہ  نہ پا سکے یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے تم نے ہم کو بلایا اور نہ خود ملنے آ سکے؟ لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر دِل سے تمھاری یاد نہ ہرگز مٹا سکے وامِق، تمھارے پیار میں ہر رنج و غم سہا لیکن شبِ فراق کا غم نہ اٹھا سکے ـــــــــــــــــــــــــــ غزل ۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔ دل کو میرے تڑپا گیا بھیگا ہوا موسم پھر یاد آگیا ہے مجھے وصل کا موسم مانا بہت حسین ہے، رنگیں ادا موسم لیکن کہاں سے آئے میرے شوق کا موسم یہ شام ہے رنگین، مُعطّر بھی ہے فضا اور تیرے ساتھ نے کیا دو آتشہ موسم یوں تو فضا رنگین و معطر بھی تھی بہت لیکن تیرے بغیر،  ادھورا  رہا موسم دنیا کی بے حسی پہ ہے، چشمِ فلک پُر آب اور لوگ کہتے ہیں اسے، برسات کا موسم جلتا رہا ہے دنیا کے ظلم و ستم سے دل اپنے لیے بے کار ہے، بھیگا ہوا موسم کلیوں کا خون ہوگیا گلشن میں الامان اب کے الٰہی کیسا ہے، پھولوں بھرا موسم؟ لازم ہے احتیاط، کہ آتے نہیں جا کر وہ اعتمادِ دوست ہو، یا گزرا ہوا موسم موسم کی دل فریبی نے، دل کو جلا دیا وامِق، نہ جانے کیسا ہے یہ آج کا موسم ــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارچ 1987ء میں کہی گئی غزل ـ ( بحر مُتَدارِک)  غزل ۔۔۔۔۔ ہر سُو لگا ہوا ہے یہاں حرص کا بازار ایسے میں جی رہے ہیں مگر زندگی بےکار ویرانیاں ہیں دور تک اب دل میں جاگزیں اپنی بلا سے، موسمِ ساون ہو یا بہار شہرِ خلوص میں ہوا ہے، دل لہو لہو انسانیت کی راہ ہے، یا وادیِ پُر خار؟ مدّت ہوئی دیارِ وفا کو تباہ ہُوئے تم کو ملیں گے اب وہاں کھنڈرات بیشمار راہِ وفا کے معنی بتاتے ہو تم مجھے! اِس رہ گزر سے پہنچا ہوں منزل پہ سوئے دار تم اِس نظامِ ظلم میں رہتے ہو خوش، مگر ہم کو نظامِ ظلم کا ہر لمحہ ناگوار طبقات کی دیواریں ہیں جب کہ دلوں کے بیچ انسانیت کی راہ ہو، پھر کیسے استوار؟ دار و رسن سے آگے ہے منزل ہماری وامِق! راہِ وفا میں ہم ہیں شہادت کے طلب گار  غزل ۔۔۔۔۔ تم سے بچھڑ کے دیکھو یہ حال ہوگیا ہے جیسے شجر سے پتا کوئی جدا ہوا ہے رنگت اڑی اڑی سی ، چہرہ  بجھا بجھا سا لگتا ہے شہرِ دل میں کوئی حادثہ ہوا ہے میں تیری رہ گزر میں بیٹھا ہوں اس طرح سے جیسے کوئی بھکاری رستے میں بیٹھتا ہے سر کو نہیں جھکایا باطل کے آگے جس نے وہ مسکرا کے دیکھو سولی پہ چڑھ گیا ہے۔ اسلام کی زبانی خدمت یوں کی ہے ہم نے دل سے نکل کے اب وہ زباں پر ہی رہ گیا ہے یہ بھوکے ننگے انساں تجھ سے یہ پوچھتے ہیں واعظ ! تیری طرح کیا بے حس تیرا خدا ہے وامق ! محبتوں کے فسانے کہاں سے لکھوں؟ خامہ بھی خوں چکاں ہے۔ دل بھی لہو ہوا ہے

انڈیا کے معروف ادیب محترم Amber Shamim عنبر شمیم صاحب نے میری یومِ پیدائش کے موقع پر اپنے فیس بُک پر اور اپنے پیج " انسان " پر میرا تعارف پیش کیا ہے، اس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پورا نام:ـ غلام محمد طور قلمی نام:ـ غلام محمد وامِق تخلص:وامق تاریخِ ولادت:28 نومبر 1957ء بروز جمعرات والد کا نام: شیر محمد طور بچوں کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ (1)محمد جاوید اقبال طور ۔ (2)فاطمہ بانو طور ۔ (3)محمد عابد طور ۔ (4)محمد راشد طور ۔ (5)نمرہ بانو طور آبائی وطن:کالوا، ریاست جیند صوبہ ہریانہ (بھارت) جائے ولادت: محراب پور، صوبہ سندھ (پاکستان) تعلیم: گریجویٹ ـ بی اے (آرٹ ـ) پیشہ:ملازمت، کراچی میں اور اب دکانداری محراب پور میں المہران بک ڈپو ـ زبان: ـ اردو ( ہریانوی) تلمیذ:ـ شاعری میں ” واقف جے پوری“ کراچی ـ تصنیفات: ۔۔۔۔۔۔ ۔ (1) نقشِ وفا (شاعری) ۔ (2)جنّات کی حقیقت (تحقیق) ۔ (3)دعا اور تقدیر (تحقیق) آغازِ تحریر:ـ آٹھویں جماعت سے سال ۱۹۷۰ ء سے ـ پتا: ـ مکان ـ جی ایم ہاؤس نزد سرکاری گودام ریلوےاسٹیشن وارڈ نمبر ۱۵ ـ محراب پور ضلع نوشہروفیروز ـ سندھ فون:09203153533437 ای میل:gmwamiq@gmail.com پذیرائی:ـ مقامی سطح پر ـ ایوارڈ ۔۔۔۔۔ ۔ (1)ٹی وی چینل 92 نیوز کی ۔ سالانہ تقریب میں ۔ بہترین کارکردگی ایوارڈ ـ ۔ (2)بزمِ شعر و ادب محراب پور ۔ کی طرف سے ایوارڈ ـ روایات شکنی کی راہ کا مسافر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد وامِق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی شاعری سے پسماندہ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے، روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـ۔ جاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـ غلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـ نقلی چہرے، جھوٹے رشتے، ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ وامِق کہتے ہیں ... میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام ” بزمِ طلباء“ کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ” نقشِ وفا“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ـ وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ۔ شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ آزادیِ اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا ”ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے “ وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے ”میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے“ـ وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ پاکستان کا معروف رسالہ ” روحانی ڈائجسٹ“ : اگست 2001ء غــــــزل ۔۔۔۔۔ رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے تیری ہر ایک بات پر جو سر جھکا سکے ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟ دِل میں کسی کے کوئی کیوں ہوتا ہے جلوہ گر اے کاش، اِس پہ بھی کوئی پہرہ بٹھا سکے چاہا بہت تھا لوٹ جائیں اپنے گھر کو پھر لیکن تیری گلی سے ہم، واپس نہ جا سکے اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے، اِس خیال سے بلبل کو میرے سامنے، نیچا دکھا سکے تیری تباہ کار جوانی کے سامنے دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے ہم بھی کھڑے تھے منتظر، دِل ہاتھ میں لیے لیکن اُس نازنیں کا، اشارہ نہ پا سکے یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے تم نے ہم کو بلایا اور نہ خود ملنے آ سکے؟ لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر دِل سے تمھاری یاد نہ ہرگز مٹا سکے وامِق، تمھارے پیار میں ہر رنج و غم سہا لیکن شبِ فراق کا غم نہ اٹھا سکے ـــــــــــــــــــــــــــ غزل ۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔ دل کو میرے تڑپا گیا بھیگا ہوا موسم پھر یاد آگیا ہے مجھے وصل کا موسم مانا بہت حسین ہے، رنگیں ادا موسم لیکن کہاں سے آئے میرے شوق کا موسم یہ شام ہے رنگین، مُعطّر بھی ہے فضا اور تیرے ساتھ نے کیا دو آتشہ موسم یوں تو فضا رنگین و معطر بھی تھی بہت لیکن تیرے بغیر، ادھورا رہا موسم دنیا کی بے حسی پہ ہے، چشمِ فلک پُر آب اور لوگ کہتے ہیں اسے، برسات کا موسم جلتا رہا ہے دنیا کے ظلم و ستم سے دل اپنے لیے بے کار ہے، بھیگا ہوا موسم کلیوں کا خون ہوگیا گلشن میں الامان اب کے الٰہی کیسا ہے، پھولوں بھرا موسم؟ لازم ہے احتیاط، کہ آتے نہیں جا کر وہ اعتمادِ دوست ہو، یا گزرا ہوا موسم موسم کی دل فریبی نے، دل کو جلا دیا وامِق، نہ جانے کیسا ہے یہ آج کا موسم ــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارچ 1987ء میں کہی گئی غزل ـ ( بحر مُتَدارِک) غزل ۔۔۔۔۔ ہر سُو لگا ہوا ہے یہاں حرص کا بازار ایسے میں جی رہے ہیں مگر زندگی بےکار ویرانیاں ہیں دور تک اب دل میں جاگزیں اپنی بلا سے، موسمِ ساون ہو یا بہار شہرِ خلوص میں ہوا ہے، دل لہو لہو انسانیت کی راہ ہے، یا وادیِ پُر خار؟ مدّت ہوئی دیارِ وفا کو تباہ ہُوئے تم کو ملیں گے اب وہاں کھنڈرات بیشمار راہِ وفا کے معنی بتاتے ہو تم مجھے! اِس رہ گزر سے پہنچا ہوں منزل پہ سوئے دار تم اِس نظامِ ظلم میں رہتے ہو خوش، مگر ہم کو نظامِ ظلم کا ہر لمحہ ناگوار طبقات کی دیواریں ہیں جب کہ دلوں کے بیچ انسانیت کی راہ ہو، پھر کیسے استوار؟ دار و رسن سے آگے ہے منزل ہماری وامِق! راہِ وفا میں ہم ہیں شہادت کے طلب گار غزل ۔۔۔۔۔ تم سے بچھڑ کے دیکھو یہ حال ہوگیا ہے جیسے شجر سے پتا کوئی جدا ہوا ہے رنگت اڑی اڑی سی ، چہرہ بجھا بجھا سا لگتا ہے شہرِ دل میں کوئی حادثہ ہوا ہے میں تیری رہ گزر میں بیٹھا ہوں اس طرح سے جیسے کوئی بھکاری رستے میں بیٹھتا ہے سر کو نہیں جھکایا باطل کے آگے جس نے وہ مسکرا کے دیکھو سولی پہ چڑھ گیا ہے۔ اسلام کی زبانی خدمت یوں کی ہے ہم نے دل سے نکل کے اب وہ زباں پر ہی رہ گیا ہے یہ بھوکے ننگے انساں تجھ سے یہ پوچھتے ہیں واعظ ! تیری طرح کیا بے حس تیرا خدا ہے وامق ! محبتوں کے فسانے کہاں سے لکھوں؟ خامہ بھی خوں چکاں ہے۔ دل بھی لہو ہوا ہے


 انڈیا کے معروف ادیب محترم  Amber Shamim  عنبر شمیم صاحب نے میری یومِ پیدائش کے موقع پر اپنے فیس بُک پر اور اپنے پیج " انسان " پر میرا تعارف پیش کیا ہے، اس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پورا نام:ـ غلام محمد طور

قلمی نام:ـ غلام محمد وامِق

تخلص:وامق

تاریخِ ولادت:28 نومبر 1957ء

               بروز جمعرات

والد کا نام: شیر محمد طور


بچوں کے نام

۔۔۔۔۔۔۔۔

۔   (1)محمد جاوید اقبال طور

۔   (2)فاطمہ بانو طور

۔   (3)محمد عابد طور

۔   (4)محمد راشد طور

۔   (5)نمرہ بانو طور


آبائی وطن:کالوا، ریاست جیند

            صوبہ ہریانہ (بھارت)

جائے ولادت: محراب پور، صوبہ سندھ (پاکستان)

تعلیم: گریجویٹ ـ بی اے (آرٹ ـ)

پیشہ:ملازمت، کراچی میں

       اور اب دکانداری محراب پور میں

       المہران بک ڈپو ـ

زبان: ـ اردو ( ہریانوی)

تلمیذ:ـ شاعری میں ” واقف جے پوری“ کراچی ـ

تصنیفات:

۔۔۔۔۔۔

۔   (1) نقشِ وفا (شاعری)

۔   (2)جنّات کی حقیقت (تحقیق)

۔   (3)دعا اور تقدیر (تحقیق)

آغازِ تحریر:ـ آٹھویں جماعت سے

            سال ۱۹۷۰ ء سے ـ

پتا: ـ مکان ـ جی ایم ہاؤس

     نزد سرکاری گودام ریلوےاسٹیشن

     وارڈ نمبر ۱۵ ـ محراب پور

     ضلع نوشہروفیروز ـ سندھ

فون:09203153533437

ای میل:gmwamiq@gmail.com

پذیرائی:ـ مقامی سطح پر ـ

ایوارڈ

۔۔۔۔۔

۔   (1)ٹی وی چینل 92 نیوز کی

۔       سالانہ تقریب میں

۔       بہترین کارکردگی ایوارڈ ـ

۔   (2)بزمِ شعر و ادب محراب پور

۔       کی طرف سے ایوارڈ ـ


روایات شکنی کی راہ کا مسافر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلام محمد وامِق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی شاعری سے پسماندہ اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات  میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے،  روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـ۔ جاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـ

 غلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی  اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ

 میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ

غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ...

اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـ

نقلی چہرے،  جھوٹے رشتے،  ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ

 غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ

 وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ

 وامِق کہتے ہیں ...

 میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ  کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ

 کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام ” بزمِ طلباء“ کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ

وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ” نقشِ وفا“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ـ

 وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ۔

 شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ

 اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ

 آزادیِ اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا ”ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات  سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے “

 وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ

 شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے ”میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے“ـ

 وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ پاکستان کا معروف رسالہ ” روحانی ڈائجسٹ“ : اگست 2001ء


غــــــزل

۔۔۔۔۔

رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے 

دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے

تیری ہر ایک بات پر جو سر جھکا سکے

ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟

دِل میں کسی کے کوئی کیوں ہوتا ہے جلوہ گر

اے کاش،  اِس پہ بھی کوئی پہرہ بٹھا سکے

چاہا بہت تھا لوٹ جائیں اپنے گھر کو پھر

لیکن تیری گلی سے ہم، واپس نہ جا سکے

اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے، اِس خیال سے

بلبل کو میرے سامنے، نیچا  دکھا سکے

تیری تباہ کار جوانی کے سامنے

دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے

ہم بھی کھڑے تھے منتظر، دِل ہاتھ میں لیے

لیکن اُس نازنیں کا،  اشارہ  نہ پا سکے

یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے تم نے

ہم کو بلایا اور نہ خود ملنے آ سکے؟

لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر

دِل سے تمھاری یاد نہ ہرگز مٹا سکے

وامِق، تمھارے پیار میں ہر رنج و غم سہا

لیکن شبِ فراق کا غم نہ اٹھا سکے

ـــــــــــــــــــــــــــ

غزل

۔۔۔۔۔

غزل

۔۔۔۔۔

دل کو میرے تڑپا گیا بھیگا ہوا موسم

پھر یاد آگیا ہے مجھے وصل کا موسم

مانا بہت حسین ہے، رنگیں ادا موسم

لیکن کہاں سے آئے میرے شوق کا موسم

یہ شام ہے رنگین، مُعطّر بھی ہے فضا

اور تیرے ساتھ نے کیا دو آتشہ موسم

یوں تو فضا رنگین و معطر بھی تھی بہت

لیکن تیرے بغیر،  ادھورا  رہا موسم

دنیا کی بے حسی پہ ہے، چشمِ فلک پُر آب

اور لوگ کہتے ہیں اسے، برسات کا موسم

جلتا رہا ہے دنیا کے ظلم و ستم سے دل

اپنے لیے بے کار ہے، بھیگا ہوا موسم

کلیوں کا خون ہوگیا گلشن میں الامان

اب کے الٰہی کیسا ہے، پھولوں بھرا موسم؟

لازم ہے احتیاط، کہ آتے نہیں جا کر

وہ اعتمادِ دوست ہو، یا گزرا ہوا موسم

موسم کی دل فریبی نے، دل کو جلا دیا

وامِق، نہ جانے کیسا ہے یہ آج کا موسم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارچ 1987ء میں کہی گئی غزل ـ ( بحر مُتَدارِک)


غزل

۔۔۔۔۔

ہر سُو لگا ہوا ہے یہاں حرص کا بازار

ایسے میں جی رہے ہیں مگر زندگی بےکار

ویرانیاں ہیں دور تک اب دل میں جاگزیں

اپنی بلا سے، موسمِ ساون ہو یا بہار

شہرِ خلوص میں ہوا ہے، دل لہو لہو

انسانیت کی راہ ہے، یا وادیِ پُر خار؟

مدّت ہوئی دیارِ وفا کو تباہ ہُوئے

تم کو ملیں گے اب وہاں کھنڈرات بیشمار

راہِ وفا کے معنی بتاتے ہو تم مجھے!

اِس رہ گزر سے پہنچا ہوں منزل پہ سوئے دار

تم اِس نظامِ ظلم میں رہتے ہو خوش، مگر

ہم کو نظامِ ظلم کا ہر لمحہ ناگوار

طبقات کی دیواریں ہیں جب کہ دلوں کے بیچ

انسانیت کی راہ ہو، پھر کیسے استوار؟

دار و رسن سے آگے ہے منزل ہماری وامِق!

راہِ وفا میں ہم ہیں شہادت کے طلب گار


غزل

۔۔۔۔۔

تم سے بچھڑ کے دیکھو یہ حال ہوگیا ہے

جیسے شجر سے پتا کوئی جدا ہوا ہے

رنگت اڑی اڑی سی ، چہرہ  بجھا بجھا سا

لگتا ہے شہرِ دل میں کوئی حادثہ ہوا ہے

میں تیری رہ گزر میں بیٹھا ہوں اس طرح سے

جیسے کوئی بھکاری رستے میں بیٹھتا ہے

سر کو نہیں جھکایا باطل کے آگے جس نے

وہ مسکرا کے دیکھو سولی پہ چڑھ گیا ہے۔

اسلام کی زبانی خدمت یوں کی ہے ہم نے

دل سے نکل کے اب وہ زباں پر ہی رہ گیا ہے

یہ بھوکے ننگے انساں تجھ سے یہ پوچھتے ہیں

واعظ ! تیری طرح کیا بے حس تیرا خدا ہے

وامق ! محبتوں کے فسانے کہاں سے لکھوں؟

خامہ بھی خوں چکاں ہے۔ دل بھی لہو ہوا ہے


چند متبرک الفاظ جو اردو میں مطعون اور عربی میں مسنون سمجھے جاتے ہیں ـ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱. اگر ہم کسی کو ٹخنہ یا جوتے کی ایڑی کہہ کر پکاریں تو موصوف ہم سے ناراض ہوجائے گا ـ لیکن اگر یہ ہی لفظ عربی میں " کعب " کہیں تو پھر یہ مشہور صحابی کا اسمِ گرامی بن جاتا ہے، اور مسلمان اس نام کو رکھنا فخر سمجھتے ہیں ...  ۲. اگر ہم کسی کو اے کسان یا اے کاشتکار کہہ کر بلائیں تو بلایا جانے والا شخص ناراض ہوجائے گا ـ   لیکن اسی لفظ کو عربی میں " حارث " کہ کر بخوشی اپنے بچوں کا نام رکھتے ہیں ...  ۳. ہم اپنی کسی بھی قسم کی کمپنی، کاروبار یا دکان یا اولاد کا نام " کڑا " ـ " حلقہ " یا " دستہ یعنی ہینڈل " نہیں رکھتے ـ  جب کہ ہم نے عروہ ٹریڈرز کے نام سے کاروبار ہوتے دیکھا ہے اور بعض لوگوں کا نام بھی " عروہ " رکھا جاتا ہے، اور عروہ کا مطلب بھی کڑا ـ حلقہ یا ہینڈل ہی ہوتا ہے ...  ۴. اگر کسی کو مسخرہ، یا مزاحیہ کہہ کر بلایا جائے تو یقیناً اسے برا محسوس ہوگا ـ لیکن بیشمار لوگ اپنے بچوں کا  یہ ہی نام عربی میں،         " ظریف " رکھنا فخر سمجھتے ہیں ...  ۵. اگر کسی شخص کو بلی کا بچہ یا چھوٹی سی بلی کہا جائے تو وہ شخص لازمی غصہ کرے گا ـ لیکن لوگ عقیدت کی وجہ سے عربی میں " ہریرہ "  نام رکھنا متبرک سمجھتے ہیں ...  ۶. کسی کو بھی اگر آپ " کتا " کہدیں تو لازمی آپ سے وہ شخص جھگڑا کرے گا ـ لیکن بہت سے لوگوں کا نام " کلب علی " ہوتا ہے، جسے لوگ کلب کے نام سے پکارتے ہیں لیکن کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی، کیوں کہ یہ لفظ عربی میں کہا جاتا ہے ...  ۷. کوئی بھی شخص اپنے آپ کو " پرنالہ " کہلوانا ہرگز پسند نہیں کرے گا ـ البتہ عربی میں لوگ " میزاب " نام رکھ کر خوش ہوتے ہیں ...  ۸. ہم کبھی بھی اپنے بچوں کا نام اردو میں " دور پرے " یا.  " سب سے زیادہ دور " نہیں رکھتے ـ البتہ عربی میں اسی نام کو بڑے فخر کے ساتھ " اقصیٰ " کرکے رکھ لیتے ہیں ...  ۹.  کوئی بھی شخص اپنے آپ کو یا اپنی کسی عمات کو      " چیونٹی " یا " مکڑی "  کہلوانا پسند نہیں کرتا ـ البتہ چیونٹی کو عربی میں تبدیل کرکے بعض مقامات یا اشخاص کا نام " نمل " رکھ لیتے ہیں،  جیسا کہ "  نمل یونیورسٹی " وغیرہ ...  ۱۰. کوئی بھی شخص خود کو اردو میں " ترازو " کہلوانا پسند  نہیں کرتا ـ  البتہ عربی میں خوشی خوشی " میزان " کہلوا لے گا ...  ۱۱. کوئی بھی شخص کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے " بدل جانے والا یا تبدیل ہونے والا " کہہ کر پکارا جائے ـ البتہ عربی کی محبت میں بخوشی. خود کو " مغیرہ " کہلوالے گا ...  ۱۲. اگر کسی کو " جوان اونٹ " یا " جوان اونٹ والا کہا جائے تو یقیناً وہ شخص آپ کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا ـ البتہ یہ ہی لفظ عربی میں آکر متبرک اور مسنون بن جاتا یے، اور اکثر مسلمان خود کو فخریہ طور پر " بکر " اور         " ابوبکر "  کہلوانا پسند کرتے ہیں ...  ۱۳. اگر کسی کو " مٹی میں ملا ہوا "  یا  " خاک والا " کہا جائے تو پھر آپ کی خیر نہیں ـ لیکن یہ ہی لفظ عربی میں آکر بڑا متبرک اور باعثِ شان بن جاتا ہے ( ابو تراب ) اور اسے حضرت علی رضہ کے لئے مخصوص کرلیا جاتا ہے ...  اسی طرح کے اور بھی بہت سے نام اور الفاظ ڈھونڈنے سے مل سکتے ہیں ...  واہ مولا تیری شان ....  تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ  مورخہ ـ 24، جون 2021ء ... بروز جمعرات ـ

چند متبرک الفاظ جو اردو میں مطعون اور عربی میں مسنون سمجھے جاتے ہیں ـ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱. اگر ہم کسی کو ٹخنہ یا جوتے کی ایڑی کہہ کر پکاریں تو موصوف ہم سے ناراض ہوجائے گا ـ لیکن اگر یہ ہی لفظ عربی میں " کعب " کہیں تو پھر یہ مشہور صحابی کا اسمِ گرامی بن جاتا ہے، اور مسلمان اس نام کو رکھنا فخر سمجھتے ہیں ... ۲. اگر ہم کسی کو اے کسان یا اے کاشتکار کہہ کر بلائیں تو بلایا جانے والا شخص ناراض ہوجائے گا ـ لیکن اسی لفظ کو عربی میں " حارث " کہ کر بخوشی اپنے بچوں کا نام رکھتے ہیں ... ۳. ہم اپنی کسی بھی قسم کی کمپنی، کاروبار یا دکان یا اولاد کا نام " کڑا " ـ " حلقہ " یا " دستہ یعنی ہینڈل " نہیں رکھتے ـ جب کہ ہم نے عروہ ٹریڈرز کے نام سے کاروبار ہوتے دیکھا ہے اور بعض لوگوں کا نام بھی " عروہ " رکھا جاتا ہے، اور عروہ کا مطلب بھی کڑا ـ حلقہ یا ہینڈل ہی ہوتا ہے ... ۴. اگر کسی کو مسخرہ، یا مزاحیہ کہہ کر بلایا جائے تو یقیناً اسے برا محسوس ہوگا ـ لیکن بیشمار لوگ اپنے بچوں کا یہ ہی نام عربی میں، " ظریف " رکھنا فخر سمجھتے ہیں ... ۵. اگر کسی شخص کو بلی کا بچہ یا چھوٹی سی بلی کہا جائے تو وہ شخص لازمی غصہ کرے گا ـ لیکن لوگ عقیدت کی وجہ سے عربی میں " ہریرہ " نام رکھنا متبرک سمجھتے ہیں ... ۶. کسی کو بھی اگر آپ " کتا " کہدیں تو لازمی آپ سے وہ شخص جھگڑا کرے گا ـ لیکن بہت سے لوگوں کا نام " کلب علی " ہوتا ہے، جسے لوگ کلب کے نام سے پکارتے ہیں لیکن کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی، کیوں کہ یہ لفظ عربی میں کہا جاتا ہے ... ۷. کوئی بھی شخص اپنے آپ کو " پرنالہ " کہلوانا ہرگز پسند نہیں کرے گا ـ البتہ عربی میں لوگ " میزاب " نام رکھ کر خوش ہوتے ہیں ... ۸. ہم کبھی بھی اپنے بچوں کا نام اردو میں " دور پرے " یا. " سب سے زیادہ دور " نہیں رکھتے ـ البتہ عربی میں اسی نام کو بڑے فخر کے ساتھ " اقصیٰ " کرکے رکھ لیتے ہیں ... ۹. کوئی بھی شخص اپنے آپ کو یا اپنی کسی عمات کو " چیونٹی " یا " مکڑی " کہلوانا پسند نہیں کرتا ـ البتہ چیونٹی کو عربی میں تبدیل کرکے بعض مقامات یا اشخاص کا نام " نمل " رکھ لیتے ہیں، جیسا کہ " نمل یونیورسٹی " وغیرہ ... ۱۰. کوئی بھی شخص خود کو اردو میں " ترازو " کہلوانا پسند نہیں کرتا ـ البتہ عربی میں خوشی خوشی " میزان " کہلوا لے گا ... ۱۱. کوئی بھی شخص کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے " بدل جانے والا یا تبدیل ہونے والا " کہہ کر پکارا جائے ـ البتہ عربی کی محبت میں بخوشی. خود کو " مغیرہ " کہلوالے گا ... ۱۲. اگر کسی کو " جوان اونٹ " یا " جوان اونٹ والا کہا جائے تو یقیناً وہ شخص آپ کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا ـ البتہ یہ ہی لفظ عربی میں آکر متبرک اور مسنون بن جاتا یے، اور اکثر مسلمان خود کو فخریہ طور پر " بکر " اور " ابوبکر " کہلوانا پسند کرتے ہیں ... ۱۳. اگر کسی کو " مٹی میں ملا ہوا " یا " خاک والا " کہا جائے تو پھر آپ کی خیر نہیں ـ لیکن یہ ہی لفظ عربی میں آکر بڑا متبرک اور باعثِ شان بن جاتا ہے ( ابو تراب ) اور اسے حضرت علی رضہ کے لئے مخصوص کرلیا جاتا ہے ... اسی طرح کے اور بھی بہت سے نام اور الفاظ ڈھونڈنے سے مل سکتے ہیں ... واہ مولا تیری شان .... تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ ـ 24، جون 2021ء ... بروز جمعرات ـ


 چند متبرک الفاظ جو اردو میں مطعون اور عربی میں مسنون سمجھے جاتے ہیں ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱. اگر ہم کسی کو ٹخنہ یا جوتے کی ایڑی کہہ کر پکاریں تو موصوف ہم سے ناراض ہوجائے گا ـ
لیکن اگر یہ ہی لفظ عربی میں " کعب " کہیں تو پھر یہ مشہور صحابی کا اسمِ گرامی بن جاتا ہے، اور مسلمان اس نام کو رکھنا فخر سمجھتے ہیں ... 
۲. اگر ہم کسی کو اے کسان یا اے کاشتکار کہہ کر بلائیں تو بلایا جانے والا شخص ناراض ہوجائے گا ـ  
لیکن اسی لفظ کو عربی میں " حارث " کہ کر بخوشی اپنے بچوں کا نام رکھتے ہیں ... 
۳. ہم اپنی کسی بھی قسم کی کمپنی، کاروبار یا دکان یا اولاد کا نام " کڑا " ـ " حلقہ " یا " دستہ یعنی ہینڈل " نہیں رکھتے ـ 
جب کہ ہم نے عروہ ٹریڈرز کے نام سے کاروبار ہوتے دیکھا ہے اور بعض لوگوں کا نام بھی " عروہ " رکھا جاتا ہے، اور عروہ کا مطلب بھی کڑا ـ حلقہ یا ہینڈل ہی ہوتا ہے ... 
۴. اگر کسی کو مسخرہ، یا مزاحیہ کہہ کر بلایا جائے تو یقیناً اسے برا محسوس ہوگا ـ
لیکن بیشمار لوگ اپنے بچوں کا  یہ ہی نام عربی میں،         " ظریف " رکھنا فخر سمجھتے ہیں ... 
۵. اگر کسی شخص کو بلی کا بچہ یا چھوٹی سی بلی کہا جائے تو وہ شخص لازمی غصہ کرے گا ـ
لیکن لوگ عقیدت کی وجہ سے عربی میں " ہریرہ "  نام رکھنا متبرک سمجھتے ہیں ... 
۶. کسی کو بھی اگر آپ " کتا " کہدیں تو لازمی آپ سے وہ شخص جھگڑا کرے گا ـ
لیکن بہت سے لوگوں کا نام " کلب علی " ہوتا ہے، جسے لوگ کلب کے نام سے پکارتے ہیں لیکن کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی، کیوں کہ یہ لفظ عربی میں کہا جاتا ہے ... 
۷. کوئی بھی شخص اپنے آپ کو " پرنالہ " کہلوانا ہرگز پسند نہیں کرے گا ـ
البتہ عربی میں لوگ " میزاب " نام رکھ کر خوش ہوتے ہیں ... 
۸. ہم کبھی بھی اپنے بچوں کا نام اردو میں " دور پرے " یا.  " سب سے زیادہ دور " نہیں رکھتے ـ
البتہ عربی میں اسی نام کو بڑے فخر کے ساتھ " اقصیٰ " کرکے رکھ لیتے ہیں ... 
۹.  کوئی بھی شخص اپنے آپ کو یا اپنی کسی عمات کو      " چیونٹی " یا " مکڑی "  کہلوانا پسند نہیں کرتا ـ
البتہ چیونٹی کو عربی میں تبدیل کرکے بعض مقامات یا اشخاص کا نام " نمل " رکھ لیتے ہیں،  جیسا کہ "  نمل یونیورسٹی " وغیرہ ... 
۱۰. کوئی بھی شخص خود کو اردو میں " ترازو " کہلوانا پسند  نہیں کرتا ـ 
البتہ عربی میں خوشی خوشی " میزان " کہلوا لے گا ... 
۱۱. کوئی بھی شخص کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے " بدل جانے والا یا تبدیل ہونے والا " کہہ کر پکارا جائے ـ
البتہ عربی کی محبت میں بخوشی. خود کو " مغیرہ " کہلوالے گا ... 
۱۲. اگر کسی کو " جوان اونٹ " یا " جوان اونٹ والا کہا جائے تو یقیناً وہ شخص آپ کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا ـ
البتہ یہ ہی لفظ عربی میں آکر متبرک اور مسنون بن جاتا یے، اور اکثر مسلمان خود کو فخریہ طور پر " بکر " اور         " ابوبکر "  کہلوانا پسند کرتے ہیں ... 
۱۳. اگر کسی کو " مٹی میں ملا ہوا "  یا  " خاک والا " کہا جائے تو پھر آپ کی خیر نہیں ـ
لیکن یہ ہی لفظ عربی میں آکر بڑا متبرک اور باعثِ شان بن جاتا ہے ( ابو تراب ) اور اسے حضرت علی رضہ کے لئے مخصوص کرلیا جاتا ہے ... 
اسی طرح کے اور بھی بہت سے نام اور الفاظ ڈھونڈنے سے مل سکتے ہیں ... 
واہ مولا تیری شان .... 
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ 
مورخہ ـ 24، جون 2021ء ... بروز جمعرات ـ

بھائی ڈاکٹر محمد شفیع طور کی یاد میں، پہلی برسی پر ۔                                 نظم  تعمیر کیا اُس نے ہے گھر دور بہت دور آباد کیا اس نے نگر دور بہت دور ۔۔۔   اِس دنیا میں ہوتا تو اُسے ڈھونڈ ہی لیتے ۔  دنیا سے مگر اُس کا ہے گھر دور بہت دور ۔   ممکن ہی نہیں پہنچے وہاں فکر و نظر بھی ۔  یاروں نے بسائے ہیں نگر دور بہت دور ۔   جس آہٹِ مانوس کے عادی تھے میرے گوش ۔  آہٹ سی وہ اب بھی ہے مگر دور بہت دور ۔   بے چین ہیں پھر راہوں میں بچھنے کو نگاہیں ۔  کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے نظر دور بہت دور ۔   ہم عمر تھا، ہم راز تھا، ڈاکٹر شفیع بھائی ۔  وہ دل میں ہے نظروں سے مگر دور بہت دور ۔    اب کِس کے لئے بھٹکیں گی ہر سُو یہ نگاہیں ۔  وامِق وہ گیا ہم سے مگر دور بہت دور ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔  تاریخ ۔ 21 نومبر سال 2023 ء ۔۔۔

بھائی ڈاکٹر محمد شفیع طور کی یاد میں، پہلی برسی پر ۔ نظم تعمیر کیا اُس نے ہے گھر دور بہت دور آباد کیا اس نے نگر دور بہت دور ۔۔۔ اِس دنیا میں ہوتا تو اُسے ڈھونڈ ہی لیتے ۔ دنیا سے مگر اُس کا ہے گھر دور بہت دور ۔ ممکن ہی نہیں پہنچے وہاں فکر و نظر بھی ۔ یاروں نے بسائے ہیں نگر دور بہت دور ۔ جس آہٹِ مانوس کے عادی تھے میرے گوش ۔ آہٹ سی وہ اب بھی ہے مگر دور بہت دور ۔ بے چین ہیں پھر راہوں میں بچھنے کو نگاہیں ۔ کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے نظر دور بہت دور ۔ ہم عمر تھا، ہم راز تھا، ڈاکٹر شفیع بھائی ۔ وہ دل میں ہے نظروں سے مگر دور بہت دور ۔ اب کِس کے لئے بھٹکیں گی ہر سُو یہ نگاہیں ۔ وامِق وہ گیا ہم سے مگر دور بہت دور ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 21 نومبر سال 2023 ء ۔۔۔


 

بھائی ڈاکٹر محمد شفیع طور کی یاد میں، پہلی برسی پر ۔ 

                               نظم


تعمیر کیا اُس نے ہے گھر دور بہت دور

آباد کیا اس نے نگر دور بہت دور ۔۔۔ 


اِس دنیا میں ہوتا تو اُسے ڈھونڈ ہی لیتے ۔ 

دنیا سے مگر اُس کا ہے گھر دور بہت دور ۔ 


ممکن ہی نہیں پہنچے وہاں فکر و نظر بھی ۔ 

یاروں نے بسائے ہیں نگر دور بہت دور ۔ 


جس آہٹِ مانوس کے عادی تھے میرے گوش ۔ 

آہٹ سی وہ اب بھی ہے مگر دور بہت دور ۔ 


بے چین ہیں پھر راہوں میں بچھنے کو نگاہیں ۔ 

کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے نظر دور بہت دور ۔ 


ہم عمر تھا، ہم راز تھا، میرا  شفی بھائی ۔ 

( ہم عمر تھا ہم راز تھا ہم نام تھا اعوان ) 

وہ دل میں ہے نظروں سے مگر دور بہت دور ۔  


اب کِس کے لئے بھٹکیں گی ہر سُو یہ نگاہیں ۔ 

وامِق وہ گیا ہم سے مگر دور بہت دور ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل ۔ 

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ 

بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ 

یکم مارچ سال 1988ء کو، ہمارے دوست ڈاکٹر غلام محمد اعوان کے انتقال پر کہی گئی نظم ۔ 

وضاحت ۔ دوسری بار مرحوم بھائی ڈاکٹر محمد شفیع طور کی پہلی برسی پر ذرا ترمیم کر کے پیش کی گئی ۔ 

دونوں مصرعوں کے ساتھ یہاں پر پیش کی گئی ہے ۔


غالب کی زمین میں غزل ۔  غلام محمد وامق   سب حسابِ دوستاں و دشمناں ہو جائے گا ۔  روزِمحشر جب جمع سارا جہاں ہو جائے گا ۔   تیرا ہر مخفی عمل اِک دن عیاں ہو جائے گا ۔  جو کئے افعال ان کا امتحاں ہو جائے گا ۔   پھر تمہارا زعمِ ہستی اور نشاں پوچھیں گے ہم ۔  اِس جہاں کا ہر نشاں جب بے نشاں ہو جائے گا ۔   نغمے گاؤ بلبلو دو دن کی ہوتی ہے بہار ۔  جلد ہی پھولوں سے خالی گلستاں ہو جائے گا ۔   باتوں ہی باتوں میں اُن کا ہاتھ دل پر رکھ لیا ۔  کیا خبر تھی رازِ دل یوں بھی عیاں ہو جائے گا ۔   ناز کرنا ہے ادائے دلبری،  مانا مگر ۔۔۔۔  کیا کرو گے جب میرا دل بدگماں ہو جائے گا ۔   آنکھ کی تصویر ہم نے خط میں بھیجی اس لئے ۔  انتظارِ دید شاید کچھ عیاں ہو جائے گا ۔۔۔   دیکھ دھوکا کھائے گا تُو رازِ سربستہ نہ کھول ۔  تیرا دشمن خود تیرا ہی راز داں ہو جائے گا ۔   دُور سے لگتا ہے وامِق آسماں جھکتا ہوا ۔  پاس جا کر دیکھ لے دور آسماں ہو جائے گا ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔  فروری سال 1984ء میں کہی گئی ۔۔۔

غالب کی زمین میں غزل ۔ غلام محمد وامق سب حسابِ دوستاں و دشمناں ہو جائے گا ۔ روزِمحشر جب جمع سارا جہاں ہو جائے گا ۔ تیرا ہر مخفی عمل اِک دن عیاں ہو جائے گا ۔ جو کئے افعال ان کا امتحاں ہو جائے گا ۔ پھر تمہارا زعمِ ہستی اور نشاں پوچھیں گے ہم ۔ اِس جہاں کا ہر نشاں جب بے نشاں ہو جائے گا ۔ نغمے گاؤ بلبلو دو دن کی ہوتی ہے بہار ۔ جلد ہی پھولوں سے خالی گلستاں ہو جائے گا ۔ باتوں ہی باتوں میں اُن کا ہاتھ دل پر رکھ لیا ۔ کیا خبر تھی رازِ دل یوں بھی عیاں ہو جائے گا ۔ ناز کرنا ہے ادائے دلبری، مانا مگر ۔۔۔۔ کیا کرو گے جب میرا دل بدگماں ہو جائے گا ۔ آنکھ کی تصویر ہم نے خط میں بھیجی اس لئے ۔ انتظارِ دید شاید کچھ عیاں ہو جائے گا ۔۔۔ دیکھ دھوکا کھائے گا تُو رازِ سربستہ نہ کھول ۔ تیرا دشمن خود تیرا ہی راز داں ہو جائے گا ۔ دُور سے لگتا ہے وامِق آسماں جھکتا ہوا ۔ پاس جا کر دیکھ لے دور آسماں ہو جائے گا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ فروری سال 1984ء میں کہی گئی ۔۔۔


 

غالب کی زمین میں غزل ۔ 

===   غزل   === 

                 غلام محمد وامق 


تیرا ہر مخفی عمل اِک دن عیاں ہو جائے گا ۔ 

جو کئے افعال ان کا امتحاں ہو جائے گا ۔ 


پھر تمہارا زعمِ ہستی اور نشاں پوچھیں گے ہم ۔ 

اِس جہاں کا ہر نشاں جب بے نشاں ہو جائے گا ۔ 


نغمے گاؤ بلبلو دو دن کی ہوتی ہے بہار ۔ 

جلد ہی پھولوں سے خالی گلستاں ہو جائے گا ۔ 


باتوں ہی باتوں میں اُن کا ہاتھ دل پر رکھ لیا ۔ 

کیا خبر تھی رازِ دل یوں بھی عیاں ہو جائے گا ۔ 


ناز کرنا ہے ادائے دلبری،  مانا مگر ۔۔۔۔ 

کیا کرو گے جب میرا دل بدگماں ہو جائے گا ۔ 


آنکھ کی تصویر ہم نے خط میں بھیجی اس لئے ۔ 

انتظارِ دید شاید کچھ عیاں ہو جائے گا ۔۔۔ 


دیکھ دھوکا کھائے گا تُو رازِ سربستہ نہ کھول ۔ 

تیرا دشمن خود تیرا ہی راز داں ہو جائے گا ۔ 


دُور سے لگتا ہے وامِق آسماں جھکتا ہوا ۔ 

پاس جا کر دیکھ لے دور آسماں ہو جائے گا ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

بحر ۔ رمل مثمن محذوف 

شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ 

فروری سال 1984ء میں کہی گئی ۔۔۔



انتہائی قابلِ غور تحریر               ♡ تاریخ ♡ فرانس کا ایک بہت بڑا مفکر  " والٹیئر "  ( اصل نام ۔ فرانکو ماری اروے ) نسل انسانی کی مکمل تاریخ لکھ رہا تھا ۔ اس نے کوئی بیس سال اپنی زندگی کے اس عظیم کام میں صرف کئے تھے ۔ اور اس کی کتاب قریب قریب پوری ہونے کو آرہی تھی،  بس آخری باب لکھ رہا تھا  کہ ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا کہ اس نے اپنی بیس سال کی محنت کو آگ لگا دی ۔  بات ایسی ہوئی کہ اس کے گھر کے پچھواڑے میں ہی ایک قتل ہو گیا۔ دو آدمیوں میں جھگڑا ہوا اور ایک آدمی کو مار ڈالا گیا - اس کو گولی مار دی گئی۔ یہ گولی کوئی رات کی تاریکی میں نہیں ماری گئی تھی۔ بھری دوپہر میں، بھیڑ کھڑی تھی، سارا محلہ جمع تھا،  سینکڑوں لوگ موجود تھے جب یہ جھگڑا ہوا ۔   جب ایڈمنڈ برک  کو گولی کی آواز سنائی دی  وہ بھاگتا ہوا پہنچا۔  وہاں بھیڑ اکٹھی تھی، آدمی مرنے کے قریب تھا - لہولہان تھا - جس نے مارا تھا وہ بھی موجود تھا ۔   اس نے ایک ایک سے پوچھا، کیا ہوا؟ ۔۔۔ کیا ہوا ؟  اور وہاں جتنے منہ اتنی باتیں۔ گھر کے پچھواڑے میں قتل ہوا،  اب تک بندہ مرا بھی نہیں ہے، مر رہا ہے ۔  ابھی مارنے والا بھی نہیں گیا ہے ، موجود ہے ۔ عینی گواہ موجود ہیں - ایک نہیں کئی  ۔۔۔   سب نے دیکھا ہے لیکن سب کی تشریح مختلف ہے ۔۔۔   کوئی مارنے والے کے جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ جو مرنے والے کے جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ کوئی غیر جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔  ایڈمنڈ برک نے بہت کوشش کی جاننے کی کہ حقیقت کیا ہے۔؟ لیکن نہیں جان پایا ۔۔۔   لوٹ کر اس نے اپنے بیس سال کا جو معلومات کا تاریخی ذخیرہ تھا اس میں آگ لگا دی ۔۔۔   اس نے کہا، جب میں اپنے گھر کے پچھواڑے  میں ابھی ابھی ہوئے تازہ واقعہ کو طے نہیں کر پاتا کہ حقیقت کیا ہے، اور میں نسل انسانی کی تاریخ لکھنے چلا ہوں  کہ پانچ ہزار سال پہلے کیا ہوا؟ ۔۔۔   میں نے یہ بیس سال بیکار ہی گنوائے ہیں ،  میں پانی پر لکیریں کھینچتا رہا ۔۔۔   تاریخ کون لکھتا ہے ؟  کون لكھواتا ہے؟   اور پھر صدیوں تک ، جو بات لکھی گئی اسے ہم دہراتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔  - اوشو اردو (میرا سنہری بھارت، گفتگو 4)  انتخاب و پسند ۔۔۔۔۔ غلام محمد وامق محراب پور سندھ ۔۔۔  14 نومبر سال 2023ء بروز منگل ۔۔۔

انتہائی قابلِ غور تحریر ♡ تاریخ ♡ فرانس کا ایک بہت بڑا مفکر " والٹیئر " ( اصل نام ۔ فرانکو ماری اروے ) نسل انسانی کی مکمل تاریخ لکھ رہا تھا ۔ اس نے کوئی بیس سال اپنی زندگی کے اس عظیم کام میں صرف کئے تھے ۔ اور اس کی کتاب قریب قریب پوری ہونے کو آرہی تھی، بس آخری باب لکھ رہا تھا کہ ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا کہ اس نے اپنی بیس سال کی محنت کو آگ لگا دی ۔ بات ایسی ہوئی کہ اس کے گھر کے پچھواڑے میں ہی ایک قتل ہو گیا۔ دو آدمیوں میں جھگڑا ہوا اور ایک آدمی کو مار ڈالا گیا - اس کو گولی مار دی گئی۔ یہ گولی کوئی رات کی تاریکی میں نہیں ماری گئی تھی۔ بھری دوپہر میں، بھیڑ کھڑی تھی، سارا محلہ جمع تھا، سینکڑوں لوگ موجود تھے جب یہ جھگڑا ہوا ۔ جب ایڈمنڈ برک کو گولی کی آواز سنائی دی وہ بھاگتا ہوا پہنچا۔ وہاں بھیڑ اکٹھی تھی، آدمی مرنے کے قریب تھا - لہولہان تھا - جس نے مارا تھا وہ بھی موجود تھا ۔ اس نے ایک ایک سے پوچھا، کیا ہوا؟ ۔۔۔ کیا ہوا ؟ اور وہاں جتنے منہ اتنی باتیں۔ گھر کے پچھواڑے میں قتل ہوا، اب تک بندہ مرا بھی نہیں ہے، مر رہا ہے ۔ ابھی مارنے والا بھی نہیں گیا ہے ، موجود ہے ۔ عینی گواہ موجود ہیں - ایک نہیں کئی ۔۔۔ سب نے دیکھا ہے لیکن سب کی تشریح مختلف ہے ۔۔۔ کوئی مارنے والے کے جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ جو مرنے والے کے جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ کوئی غیر جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ ایڈمنڈ برک نے بہت کوشش کی جاننے کی کہ حقیقت کیا ہے۔؟ لیکن نہیں جان پایا ۔۔۔ لوٹ کر اس نے اپنے بیس سال کا جو معلومات کا تاریخی ذخیرہ تھا اس میں آگ لگا دی ۔۔۔ اس نے کہا، جب میں اپنے گھر کے پچھواڑے میں ابھی ابھی ہوئے تازہ واقعہ کو طے نہیں کر پاتا کہ حقیقت کیا ہے، اور میں نسل انسانی کی تاریخ لکھنے چلا ہوں کہ پانچ ہزار سال پہلے کیا ہوا؟ ۔۔۔ میں نے یہ بیس سال بیکار ہی گنوائے ہیں ، میں پانی پر لکیریں کھینچتا رہا ۔۔۔ تاریخ کون لکھتا ہے ؟ کون لكھواتا ہے؟ اور پھر صدیوں تک ، جو بات لکھی گئی اسے ہم دہراتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ - اوشو اردو (میرا سنہری بھارت، گفتگو 4) انتخاب و پسند ۔۔۔۔۔ غلام محمد وامق محراب پور سندھ ۔۔۔ 14 نومبر سال 2023ء بروز منگل ۔۔۔


 

انتہائی قابلِ غور تحریر      

 

      ♡ تاریخ ♡

فرانس کا ایک بہت بڑا مفکر  " والٹیئر "  ( اصل نام ۔ فرانکو ماری اروے ) نسل انسانی کی مکمل تاریخ لکھ رہا تھا ۔ اس نے کوئی بیس سال اپنی زندگی کے اس عظیم کام میں صرف کئے تھے ۔ اور اس کی کتاب قریب قریب پوری ہونے کو آرہی تھی،  بس آخری باب لکھ رہا تھا  کہ ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا کہ اس نے اپنی بیس سال کی محنت کو آگ لگا دی ۔ 

بات ایسی ہوئی کہ اس کے گھر کے پچھواڑے میں ہی ایک قتل ہو گیا۔ دو آدمیوں میں جھگڑا ہوا اور ایک آدمی کو مار ڈالا گیا - اس کو گولی مار دی گئی۔ یہ گولی کوئی رات کی تاریکی میں نہیں ماری گئی تھی۔ بھری دوپہر میں، بھیڑ کھڑی تھی، سارا محلہ جمع تھا،  سینکڑوں لوگ موجود تھے جب یہ جھگڑا ہوا ۔  

جب ایڈمنڈ برک  کو گولی کی آواز سنائی دی  وہ بھاگتا ہوا پہنچا۔  وہاں بھیڑ اکٹھی تھی، آدمی مرنے کے قریب تھا - لہولہان تھا - جس نے مارا تھا وہ بھی موجود تھا ۔ 

 اس نے ایک ایک سے پوچھا، کیا ہوا؟ ۔۔۔ کیا ہوا ؟ 

اور وہاں جتنے منہ اتنی باتیں۔ گھر کے پچھواڑے میں قتل ہوا،  اب تک بندہ مرا بھی نہیں ہے، مر رہا ہے ۔  ابھی مارنے والا بھی نہیں گیا ہے ، موجود ہے ۔ عینی گواہ موجود ہیں - ایک نہیں کئی  ۔۔۔ 

 سب نے دیکھا ہے لیکن سب کی تشریح مختلف ہے ۔۔۔  

کوئی مارنے والے کے جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ جو مرنے والے کے جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ کوئی غیر جانبدار ہیں، وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ 

ایڈمنڈ برک نے بہت کوشش کی جاننے کی کہ حقیقت کیا ہے۔؟ لیکن نہیں جان پایا ۔۔۔ 

 لوٹ کر اس نے اپنے بیس سال کا جو معلومات کا تاریخی ذخیرہ تھا اس میں آگ لگا دی ۔۔۔ 

 اس نے کہا، جب میں اپنے گھر کے پچھواڑے  میں ابھی ابھی ہوئے تازہ واقعہ کو طے نہیں کر پاتا کہ حقیقت کیا ہے، اور میں نسل انسانی کی تاریخ لکھنے چلا ہوں  کہ پانچ ہزار سال پہلے کیا ہوا؟ ۔۔۔ 

 میں نے یہ بیس سال بیکار ہی گنوائے ہیں ،  میں پانی پر لکیریں کھینچتا رہا ۔۔۔ 

 تاریخ کون لکھتا ہے ؟  کون لكھواتا ہے؟ 

 اور پھر صدیوں تک ، جو بات لکھی گئی اسے ہم دہراتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔ 

-

اوشو اردو

(میرا سنہری بھارت، گفتگو 4) 

انتخاب و پسند ۔۔۔۔۔ غلام محمد وامق محراب پور سندھ ۔۔۔ 

14 نومبر سال 2023ء بروز منگل ۔۔۔


۔۔۔۔۔۔ اشارہ کافی است  ہمارے زمانہء طالب علمی میں اسکول میں ایک کھیل کھیلا جاتا تھا ،  دس بارہ طلباء کو ایک قطار میں کھڑا کر دیا جاتا تھا ، پھر ایک کاغذ کی پرچی پر ایک جملہ لکھ کر قطار کے سرے پر کھڑے ہوئے لڑکے کو دکھا کر پڑھایا جاتا تھا اور اسے کہا جاتا کہ تم نے جو جملہ پڑھا ہے وہ اپنے برابر کھڑے لڑکے کو کان میں بتاؤ ، اور یوں ہر لڑکا وہ جملہ سن کر اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کے کان میں بتا دیتا ، اس طرح وہ جملہ سفر کرتے کرتے قطار کے آخری سرے پر کھڑے ہوئے لڑکے تک پہنچ جاتا ۔۔۔  اور پھر آخر میں اس لڑکے سے کہا جاتا کہ وہ جملہ جو اس نے سنا ہے وہ باآوازِ بلند بول کر بتائے ۔۔۔۔  اور جب قطار کا آخری لڑکا وہ جملہ جو اس نے سنا تھا بول بتاتا تو سننے والے حیران رہ جاتے کیوں کہ وہ جملہ ہرگز وہ نہیں ہوتا تھا جو پہلے والے لڑکے نے پرچی پر پڑھ کر اپنے ساتھ والے لڑکے کے کان میں بتایا تھا ۔۔۔۔   اللّٰہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔۔۔۔۔   تحریر ۔۔۔۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔  تاریخ 16 نومبر سال 2023ء بروز جمعرات ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ اشارہ کافی است ہمارے زمانہء طالب علمی میں اسکول میں ایک کھیل کھیلا جاتا تھا ، دس بارہ طلباء کو ایک قطار میں کھڑا کر دیا جاتا تھا ، پھر ایک کاغذ کی پرچی پر ایک جملہ لکھ کر قطار کے سرے پر کھڑے ہوئے لڑکے کو دکھا کر پڑھایا جاتا تھا اور اسے کہا جاتا کہ تم نے جو جملہ پڑھا ہے وہ اپنے برابر کھڑے لڑکے کو کان میں بتاؤ ، اور یوں ہر لڑکا وہ جملہ سن کر اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کے کان میں بتا دیتا ، اس طرح وہ جملہ سفر کرتے کرتے قطار کے آخری سرے پر کھڑے ہوئے لڑکے تک پہنچ جاتا ۔۔۔ اور پھر آخر میں اس لڑکے سے کہا جاتا کہ وہ جملہ جو اس نے سنا ہے وہ باآوازِ بلند بول کر بتائے ۔۔۔۔ اور جب قطار کا آخری لڑکا وہ جملہ جو اس نے سنا تھا بول بتاتا تو سننے والے حیران رہ جاتے کیوں کہ وہ جملہ ہرگز وہ نہیں ہوتا تھا جو پہلے والے لڑکے نے پرچی پر پڑھ کر اپنے ساتھ والے لڑکے کے کان میں بتایا تھا ۔۔۔۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔۔۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ تاریخ 16 نومبر سال 2023ء بروز جمعرات ۔۔۔


 

۔۔۔۔۔۔ اشارہ کافی است


ہمارے زمانہء طالب علمی میں اسکول میں ایک کھیل کھیلا جاتا تھا ، 

دس بارہ طلباء کو ایک قطار میں کھڑا کر دیا جاتا تھا ، پھر ایک کاغذ کی پرچی پر ایک جملہ لکھ کر قطار کے سرے پر کھڑے ہوئے لڑکے کو دکھا کر پڑھایا جاتا تھا اور اسے کہا جاتا کہ تم نے جو جملہ پڑھا ہے وہ اپنے برابر کھڑے لڑکے کو کان میں بتاؤ ، اور یوں ہر لڑکا وہ جملہ سن کر اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کے کان میں بتا دیتا ، اس طرح وہ جملہ سفر کرتے کرتے قطار کے آخری سرے پر کھڑے ہوئے لڑکے تک پہنچ جاتا ۔۔۔ 

اور پھر آخر میں اس لڑکے سے کہا جاتا کہ وہ جملہ جو اس نے سنا ہے وہ باآوازِ بلند بول کر بتائے ۔۔۔۔ 

اور جب قطار کا آخری لڑکا وہ جملہ جو اس نے سنا تھا بول بتاتا تو سننے والے حیران رہ جاتے کیوں کہ وہ جملہ ہرگز وہ نہیں ہوتا تھا جو پہلے والے لڑکے نے پرچی پر پڑھ کر اپنے ساتھ والے لڑکے کے کان میں بتایا تھا ۔۔۔۔ 


اللّٰہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔۔۔۔۔ 


تحریر ۔۔۔۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ 

تاریخ 16 نومبر سال 2023ء بروز جمعرات ۔۔۔


کسی بھی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائے گا اور اس پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہو گی ۔

کسی بھی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائے گا اور اس پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہو گی ۔


 اور جو کوئی کسی مؤمن ( مسلمان) کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی سزا ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے جہنم ہے اور اس پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔۔۔ 
میرے کہے گئے چند قطعات ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد وامق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔             ۔۔۔۔۔۔۔ پھول ۔۔۔۔۔۔۔   جُوڑے میں اُس نے پھول سجایا ہے اِس طرح ۔  تاریکیوں میں شمع جلائی ہو جس طرح ۔  زلفوں میں چہرہ رات می روشن ہے ماہتاب ۔  جلتی ہے دیکھو چاندنی میں شمع کس طرح ۔  فروری سال 1982ء  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔              ۔۔۔۔۔۔۔ منظر ۔۔۔۔۔۔۔   ہاں وہ ایک منظر نظر میں سما گیا ۔  محسوس یوں ہوا کہ اندھیرا ہے چھا گیا ۔  سیاہ رات نے کہ جیسے سورج نگل لیا ۔  جب اُس کا رخِ روشن زلفوں میں چھپ گیا ۔  جولائی سال 1979ء  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔          ۔۔۔۔۔۔۔  آس ۔۔۔۔۔۔۔  کِس کی تلاش میں ہے نظر کیوں دل اداس ہے ؟  شاید کسی کے ملنے کی ان کو بھی آس ہے ۔  ہر شئے کے ذرّے ذرّے میں پنہاں ہے تیرا رنگ ۔ لگتا ہے مجھ کو یوں کہ تُو ہی آس پاس ہے ۔ ستمبر سال 1994ء  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔             ۔۔۔۔۔۔۔  سیاست دان  ۔۔۔۔۔۔۔  کوئی انگریز جیسے کتّا اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔  یہاں مفلس کو مالدار ایسے ساتھ رکھتا ہے ۔  سپاہی پہلے جیسے جنگ میں اِک ڈھال رکھتے تھے ۔  سیاستدان اب لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔۔۔  دسمبر سال 1985ء  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔               ۔۔۔۔۔۔۔۔    محبت   ۔۔۔۔۔۔۔  محبّت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ۔  محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالم ہے ۔  محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ۔  محبت درحقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ۔۔۔  اگست سال 1985ء  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                  ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیروڈی ۔۔۔۔۔۔۔۔  ناوَک انداز جدھر دیدہء جاناں ہوں گے ۔  قتل و غارت کے وہیں دیکھئے ساماں ہوں گے ۔  رونق افروز جہاں ہوں گے یہ نازک اندام ۔  کرفیو لگنے کے آثار نمایاں ہوں گے ۔۔۔  فروری سال 1995ء  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جالب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ۔  مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ۔  حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ۔  پی کر جو ہوا امر وہ سقراط ہے جالب ۔  اپریل سال 1993ء  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محراب پور ۔۔۔۔۔۔۔۔  بغض و حسد سے شہر جو بھرپور ہو گیا ۔  مہر و وفا کے نام سے یہ دور ہو گیا ۔  علم و ادب کی روشنی اس میں نہیں رہی ۔  محراب پور کس قدر بے نور ہو گیا ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  دو متفرق اشعار  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ہے اِس دل میں قائم تیری یاد اب بھی ۔  کوئی ٹوٹے گھر میں ہے آباد اب بھی ۔  اکتوبر سال 1985ء ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے ۔  یہ دنیا حقیقت میں موہوم ہے ۔  ستمبر سال 1998ء  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سندھی قطعہ ۔۔۔۔  چو سٽو  ........  تون مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر...  مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو...  صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ....  سڄڻ مان ته توکي دعائون ڪريان ٿو...  نومبر سال 1987ء ....  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے کہے گئے چند قطعات ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد وامق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ پھول ۔۔۔۔۔۔۔ جُوڑے میں اُس نے پھول سجایا ہے اِس طرح ۔ تاریکیوں میں شمع جلائی ہو جس طرح ۔ زلفوں میں چہرہ رات می روشن ہے ماہتاب ۔ جلتی ہے دیکھو چاندنی میں شمع کس طرح ۔ فروری سال 1982ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ منظر ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ ایک منظر نظر میں سما گیا ۔ محسوس یوں ہوا کہ اندھیرا ہے چھا گیا ۔ سیاہ رات نے کہ جیسے سورج نگل لیا ۔ جب اُس کا رخِ روشن زلفوں میں چھپ گیا ۔ جولائی سال 1979ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ آس ۔۔۔۔۔۔۔ کِس کی تلاش میں ہے نظر کیوں دل اداس ہے ؟ شاید کسی کے ملنے کی ان کو بھی آس ہے ۔ ہر شئے کے ذرّے ذرّے میں پنہاں ہے تیرا رنگ ۔ لگتا ہے مجھ کو یوں کہ تُو ہی آس پاس ہے ۔ ستمبر سال 1994ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ سیاست دان ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی انگریز جیسے کتّا اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔ یہاں مفلس کو مالدار ایسے ساتھ رکھتا ہے ۔ سپاہی پہلے جیسے جنگ میں اِک ڈھال رکھتے تھے ۔ سیاستدان اب لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔۔۔ دسمبر سال 1985ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت ۔۔۔۔۔۔۔ محبّت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ۔ محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالم ہے ۔ محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ۔ محبت درحقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ۔۔۔ اگست سال 1985ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیروڈی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ناوَک انداز جدھر دیدہء جاناں ہوں گے ۔ قتل و غارت کے وہیں دیکھئے ساماں ہوں گے ۔ رونق افروز جہاں ہوں گے یہ نازک اندام ۔ کرفیو لگنے کے آثار نمایاں ہوں گے ۔۔۔ فروری سال 1995ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جالب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ۔ مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ۔ حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ۔ پی کر جو ہوا امر وہ سقراط ہے جالب ۔ اپریل سال 1993ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محراب پور ۔۔۔۔۔۔۔۔ بغض و حسد سے شہر جو بھرپور ہو گیا ۔ مہر و وفا کے نام سے یہ دور ہو گیا ۔ علم و ادب کی روشنی اس میں نہیں رہی ۔ محراب پور کس قدر بے نور ہو گیا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو متفرق اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے اِس دل میں قائم تیری یاد اب بھی ۔ کوئی ٹوٹے گھر میں ہے آباد اب بھی ۔ اکتوبر سال 1985ء ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے ۔ یہ دنیا حقیقت میں موہوم ہے ۔ ستمبر سال 1998ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سندھی قطعہ ۔۔۔۔ چو سٽو ........ تون مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر... مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو... صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ.... سڄڻ مان ته توکي دعائون ڪريان ٿو... نومبر سال 1987ء .... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 میرے کہے گئے چند قطعات ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد وامق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔ پھول ۔۔۔۔۔۔۔  
جُوڑے میں اُس نے پھول سجایا ہے اِس طرح ۔ 

تاریکیوں میں شمع جلائی ہو جس طرح ۔ 

زلفوں میں چہرہ رات می روشن ہے ماہتاب ۔ 

جلتی ہے دیکھو چاندنی میں شمع کس طرح ۔ 
فروری سال 1982ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

           ۔۔۔۔۔۔۔ منظر ۔۔۔۔۔۔۔ 
 ہاں وہ ایک منظر نظر میں سما گیا ۔ 

محسوس یوں ہوا کہ اندھیرا ہے چھا گیا ۔ 

سیاہ رات نے کہ جیسے سورج نگل لیا ۔ 

جب اُس کا رخِ روشن زلفوں میں چھپ گیا ۔ 
جولائی سال 1979ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

       ۔۔۔۔۔۔۔  قطعہ ۔ آس  ۔۔۔۔۔۔۔ 
کِس کی تلاش میں ہے نظر، دل اداس ہے ؟

شاید کسی کے ملنے کی ان کو بھی آس ہے ۔ 

دیکھوں جدھر بھی تیرا ہی جلوہ ہے ہر طرف ۔ 

لگتا ہے مجھ کو یوں کہ تُو ہی آس پاس ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن 
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
ستمبر سال 1994ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

          ۔۔۔۔۔۔۔  سیاست دان  ۔۔۔۔۔۔۔ 
کہ جیسے گورا کوئی کتّا اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔ 

غریبوں کو یہاں پر سیٹھ ایسے ساتھ رکھتا ہے ۔ 

سپاہی پہلے جیسے جنگ میں اِک ڈھال رکھتا تھا ۔ 

سیاستدان یوں لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن 
بحر ۔ ہزج مثمن سالم 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق 
دسمبر سال 1985ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
             ۔۔۔۔۔۔۔۔    محبت   ۔۔۔۔۔۔۔ 
محبّت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ۔ 

محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالم ہے ۔ 

محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ۔ 

محبت درحقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن 
بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔
اگست سال 1985ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
             
   ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیروڈی ۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن خان مومن سے معذرت کے ساتھ 

ناوَک انداز جدھر دیدہء جاناں ہوں گے "۔ "

قتل و غارت کے وہیں دیکھئے ساماں ہوں گے ۔

جلوہ افروز جہاں ہوں گے یہ نازک اندام ۔

کرفیو لگنے کے آثار نمایاں ہوں گے ۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن 
بحر۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع 
فروری سال 1995ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جالب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ۔ 

مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ۔ 

حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ۔ 

پی کر جو ہوا امر وہ سقراط ہے جالب ۔ 
اپریل سال 1993ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
        
 === محراب پور === 

بغض و حسد سے شہر جو بھرپور ہو گیا ۔ 

مہر و وفا کے نام سے یہ دور ہو گیا ۔ 

علم و ادب کی روشنی اس میں نہیں رہی 


محراب پور دیکھئے بے نور ہو گیا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن 
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف 
شاعر ۔ غلام محمد وامق 
جنوری سال 1984ء میں کہا گیا قطعہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  دو متفرق اشعار  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہے اِس دل میں قائم تیری یاد اب بھی ۔ 
کوئی ٹوٹے گھر میں ہے آباد اب بھی ۔ 
اکتوبر سال 1985ء ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے ۔ 
یہ دنیا حقیقت میں موہوم ہے ۔ 
ستمبر سال 1998ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھی قطعہ ۔۔۔۔  چو سٽو  ........ 
تون مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر... 
مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو... 
صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ.... 
سڄڻ مان ته توکي دعائون ڪريان ٿو... 
نومبر سال 1987ء .... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقوقِ مرداں ـ (طنز و مزاح)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
 حقوقِ نسواں کے دعویداروں سے پوچھتا ہے یہ مردِ ناداں ۔ 

حقوقِ مرداں بھی ہیں کہیں، یا ہمیں تہی دست کردیا ہے؟

یہ تم نے مظلوم کی ہے عورت، مگر ہماری تو نوے فیصد ـ

لگا کے بیٹھی ہیں مارشلا، گھروں کو دہشت سے بھر دیا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن ۔ 
بحر ۔ جمیل مثمن سالم ۔                             شاعر ـ غلام محمد وامِق ۔ 
مورخہ 21 اکتوبر، 2006 کو کہا گیا قطعہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

★★★   روزہ  ★★★ 

یوں تو ہم سب ہی روزہ رکھتے ہیں ۔ 

کتنے ہیں اصل روزہ دار یہاں؟

کتنے بچتے ہیں جھوٹ سے اور کون؟

سود کھاتے ہیں سود کار یہاں ؟ ۔۔۔ 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ  
فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ 
فاعلاتن مفاعلن فَعِلاتن ۔ 
بحر ۔ خفیف مسدس مخبون محذوف ۔
غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ 
مورخہ 30 اگست سال 2007ء میں کہا گیا قطعہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


۔۔۔  قطعہ ۔۔۔ 
اہلِ نظر دلیل سے کرتے ہیں گفتگو ۔ 

ناداں جو ہیں وہ بات کبھی تولتے نہیں ۔ 

اہلِ ہَوَس نے شور مچایا ہو جس جگہ ۔ 

ایسی جگہ پہ ہم کبھی کچھ بولتے نہیں ۔ 

(شاعر ۔ غلام محمد وامق)
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

===  نیا سال  === 

نیا سال سب کو مبارک ہو لیکن ... 

نئے سال میں سب مسائل پرانے ... 

غریبوں کے گھر میں وہی تنگ دستی ... 

بدلنے کو یوں تو ہیں بدلے زمانے ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فعولن فعولن فعولن فعولن
بحر ۔ متقارب مثمن سالم 
 شاعر ۔غلام محمد وامِق ـ 
یکم جنوری سال 2023 ء بروز اتوار کو کہی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عام پاکستانی کی دعا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اس ملک کے نظام سے اکتا گیا ہوں میں ۔ 

اب ملک پاک میں ہوا جینا میرا حرام ۔ 

اب کافروں کے دیس کا ویزا ہی کر عطا ۔ 

اب میں رہوں گا یورپ ناپاک میں مُدام ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات ۔ 
 بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ 
تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء بروز ہفتہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

===  ریاکاری کی عبادت  === 
       غلام محمد وامِق  

رکھنے کو روزے بھی رکھے اور حج بھی ہر اِک سال کیا ۔ 

لیکن نہ حسد  کی آگ بجھی اور نا ہی اَنا کا خون ہُوا ـ

پڑھ پڑھ کے نمازیں مسجد میں اوراد و وضائف خوب کئے ۔

لیکن نہ ادب کوئی سیکھا اور نا ہی طمع کا روگ گیا ـ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فَعِلن ۔ 
فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن ۔ 
بحر زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ 
مورخہ 25 ، اپریل 2022ء کو کہا گیا قطعہ ـ
مطابق ـ 22 رمضان المبارک 1443 ھجری ـ بروز پیر ـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

***  نشاں مِٹ جائے گا  *** 
     ــــــــــــــــــــــــــــــــ
         غلام محمد وامِق 

یہ جہاں فانی ہے، اِک دن یہ جہاں مِٹ جائے گا ... 

یہ زمیں کیا چیز ہے،  یہ آسماں مِٹ جائے گا ... 

گر یوں ہی چلتا رہا،  بے سمت  جو  یہ قافلہ ... 

منزلیں تو منزلیں،  اپنا نشاں  مِٹ جائے گا ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن 
بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق ۔ 
 26 جولائی 2021ء کو کہا گیا ـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور سے ہمارے واٹس ایپ اور فیس بُک فرینڈ جناب پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد خان Irfan Ahmad Khan مشہور و معروف ادیب، محقق، مترجم اور نقاد ہیں، 23 کتابوں کے مصنف ہیں ، ان سے فون پر گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔ آج صبح انہوں نے مجھے فون کیا دورانِ گفتگو انہوں نے مجھے کہا کہ ایک مشہور شعر ہے " اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے" یہ سن کر میں چونکا اور انہیں بتایا کہ یہ شعر تو میرا ہے، اب چونکنے کی باری اُن کی تھی، انہوں نے دوسرا مصرع پوچھا جو میں نے بتا دیا، میں نے انہیں بتایا کہ یہ غزل میرے شعری مجموعے " نقشِ وفا" میں شامل ہے ۔ تو انہوں نے اس غزل کی فرمائش کی ، ان کی فرمائش پر اپنی مذکورہ غزل پیشِ نظر ہے ۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                       غلام محمد وامق  اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے ۔  جلوے بڑھے جو حد سے تو بے نور ہو گئے ۔   پہلے تکلّفات سے عاری تھے اپنے دل ۔  اور اب تکلّفات سے معمور ہو گئے ۔   پتھر کو پھول، کانچ کو ہیرا سمجھ لیا ۔  افسوس ہم بھی کس قدر معذور ہو گئے ۔   کچھ اِس طرح سے ٹھیس لگی اعتماد کو ۔  جذبات کے گھروندے جو تھے چُور ہو گئے ۔   وامِق جو اُن کو سرزنش،کرنی بھی چاہی تو ۔  الفاظ ان کے سامنے مجبور ہو گئے ۔۔۔    شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔  نومبر سال 1993ء میں کہی گئی ۔۔۔۔

لاہور سے ہمارے واٹس ایپ اور فیس بُک فرینڈ جناب پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد خان Irfan Ahmad Khan مشہور و معروف ادیب، محقق، مترجم اور نقاد ہیں، 23 کتابوں کے مصنف ہیں ، ان سے فون پر گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔ آج صبح انہوں نے مجھے فون کیا دورانِ گفتگو انہوں نے مجھے کہا کہ ایک مشہور شعر ہے " اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے" یہ سن کر میں چونکا اور انہیں بتایا کہ یہ شعر تو میرا ہے، اب چونکنے کی باری اُن کی تھی، انہوں نے دوسرا مصرع پوچھا جو میں نے بتا دیا، میں نے انہیں بتایا کہ یہ غزل میرے شعری مجموعے " نقشِ وفا" میں شامل ہے ۔ تو انہوں نے اس غزل کی فرمائش کی ، ان کی فرمائش پر اپنی مذکورہ غزل پیشِ نظر ہے ۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد وامق اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے ۔ جلوے بڑھے جو حد سے تو بے نور ہو گئے ۔ پہلے تکلّفات سے عاری تھے اپنے دل ۔ اور اب تکلّفات سے معمور ہو گئے ۔ پتھر کو پھول، کانچ کو ہیرا سمجھ لیا ۔ افسوس ہم بھی کس قدر معذور ہو گئے ۔ کچھ اِس طرح سے ٹھیس لگی اعتماد کو ۔ جذبات کے گھروندے جو تھے چُور ہو گئے ۔ وامِق جو اُن کو سرزنش،کرنی بھی چاہی تو ۔ الفاظ ان کے سامنے مجبور ہو گئے ۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ نومبر سال 1993ء میں کہی گئی ۔۔۔۔


 لاہور سے ہمارے واٹس ایپ اور فیس بُک فرینڈ جناب پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد خان Irfan Ahmad Khan مشہور و معروف ادیب، محقق، مترجم اور نقاد ہیں، 23 کتابوں کے مصنف ہیں ، ان سے فون پر گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔ آج صبح انہوں نے مجھے فون کیا دورانِ گفتگو انہوں نے مجھے کہا کہ ایک مشہور شعر ہے " اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے" یہ سن کر میں چونکا اور انہیں بتایا کہ یہ شعر تو میرا ہے، اب چونکنے کی باری اُن کی تھی، انہوں نے دوسرا مصرع پوچھا جو میں نے بتا دیا، میں نے انہیں بتایا کہ یہ غزل میرے شعری مجموعے " نقشِ وفا" میں شامل ہے ۔ تو انہوں نے اس غزل کی فرمائش کی ، ان کی فرمائش پر اپنی مذکورہ غزل پیشِ نظر ہے ۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ 

غـــزل                
    غلام محمد وامق

اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہو گئے ۔ 
جلوے بڑھے جو حد سے تو بے نور ہو گئے ۔ 

پہلے تکلّفات سے عاری تھے اپنے دل ۔ 
اور اب تکلّفات سے معمور ہو گئے ۔ 

پتھر کو پھول، کانچ کو ہیرا سمجھ لیا ۔ 
افسوس ہم بھی عقل سے معذور ہو گئے ۔ 

کچھ اِس طرح سے ٹھیس لگی اعتماد کو ۔ 
جذبات کے گھروندے جو تھے چُور ہو گئے ۔ 

وامِق جو ہم نے ان کو نصیحت بھی کی کبھی ۔ 
الفاظ ان کے سامنے مجبور ہو گئے ۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔
 بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
        شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ 
نومبر سال 1993ء میں کہی گئی ۔۔۔۔

علامہ اقبال پر ایک نظر  ( تنقیدی جائزہ اختصار کے ساتھ ) تحریر و تحقیق ۔ غلام محمد وامِق  افسوس کا مقام ہے کہ مفکّرِ پاکستان علامہ محمد اقبال کی تاریخ پیدائش پر ہی ہم لوگ متفق نہیں ہیں ۔ یعنی بعض عام روایات میں تاریخِ پیدائش 9 نومبر سال 1877ء لکھی جاتی ہے ۔ جب کہ چند با وثوق ذرائع 22 فروری سال 1876عیسوی بھی بیان کرتے ہیں ۔ ( بحوالہ اقبال کا خصوصی مطالعہ ۔ پروفیسر ایم اے خالد ، علمی کتاب خانہ لاہور)  آپ سیالکوٹ میں شیخ نُور محمد کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تھا ۔ آپ کی والدہ " امام بی بی" ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک دانشور اور ہر دلعزیز نیک خاتون تھیں ۔  جب کہ آپ کے والد درزی کا کام کرتے تھے، علامہ اقبال کے ایک بڑے بھائی " شیخ عطا محمد" بھی تھے ۔ عطا محمد نے معمولی تعلیم پائی ، لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آپ اوور سیئر ہو گئے ، اور انہوں نے کافی روپیہ کمایا،   اقبال کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور یورپ بھیجا ۔  حضرت علامہ نے جہاں اپنے والد کے فیضِ تربیت کا اعتراف کیا ہے ، وہیں اس نے اپنے بڑے بھائی عطا محمد کو بھی بڑے اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے ، وہ اپنے بھائی کے بڑے مدّاح اور ان سے محبت کرنے والے تھے ۔  اگر چہ بعد میں شیخ عطا محمد، احمدی یعنی قادیانی عقائد کے حامل ہو گئے تھے ۔ لیکن علامہ اقبال ان کی محبت اور احسانات کی وجہ سے ہمیشہ اُن کا احترام کرتے رہے ۔  علامہ اقبال اپنے اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے ایک استاد  " سید میر حسن " سے بہت متاثر تھے ، علامہ اقبال نے عربی اور فارسی دونوں زبانیں اپنے اسی استاد " سیّد میر حسن" صاحب سے سیکھیں اور ان میں کمال حاصل کیا ۔  اپنے استاد سے احترام کا یہ عالم تھا کہ جب انگریز حکومت نے انہیں " سر " کا خطاب دینا چاہا تو انہوں نے شرط رکھی کہ پہلے ان کے استاد کو بھی کسی خطاب سے نوازا جائے ۔  چناں چہ حکومت نے ان کی یہ شرط منظور کر لی اور ان کے استاد کو " شمس العلماء" کا خطاب دیا گیا ۔  شاعری کی ابتدائی اصلاح انہوں نے اُس دور کے مشہور شاعر " داغ دہلوی" سے بذریعہ خط و کتابت حاصل کی ۔  اس اصلاح لینے پر اقبال کو اور اصلاح دینے پر " داغ " کو بھی فخر تھا ۔  ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ فلسفہ اور سیاست کے مضامین پر لیکچر دینے لگے ۔  اس زمانے میں اقبال نے معاشیات پر ایک اردو کتاب " علم الاقتصادیات " لکھی ۔  اس کے بعد اقبال مزید تعلیم کے لئے سن 1905ء میں انگلستان چلے گئے اور وہاں پر " کیمرج یونیورسٹی " میں داخلہ لیا وہاں پر انہوں نے تین سال گزارے ، وہاں سے بیرسٹری یعنی وکالت کا امتحان پاس کیا ۔  بعد ازاں " میونخ یونیورسٹی جرمنی  " سے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی ۔ واپس وطن پہنچ کر انہوں نے لاہور میں وکالت شروع کی اور ساتھ ساتھ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں ڈیڑھ سال تک فلسفہ بھی پڑھایا اور پھر خود ہی اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔  یورپ جانے سے پہلے آپ قومی اور وطنی نظمیں لکھتے تھے اور زیادہ تر شاعری اردو میں ہوتی تھی ۔  یورپ سے واپسی کے بعد ان میں تبدیلی آئی، چناں چہ زیادہ تر شاعری اب وہ فارسی میں کرنے لگے ۔  ان کی اردو شاعری کی شہرت 1901ء سے پہلے ہو چکی تھی ۔ اور اب فارسی میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوا لیا ۔  لاہور کی " انجمن حمایت اسلام" کے سالانہ جلسوں میں کئی سال متواتر انہوں نے اپنی نظمیں سنائیں اور دادِ تحسین حاصل کی ۔  حضرت علامہ 1906ء میں میدانِ سیاست میں آئے ، اور اپنی محنت و قابلیت سے دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاسِ الہ آباد کے صدر منتخب ہوئے اور یہاں پر ہی انہوں نے اپنے خطبہء صدارت میں مسلمانانِ ہند کے لئے ایک آزاد اسلامی ریاست کے لئے اپنی قابلِ قدر تجاویز پیش کیں ، جنہیں عام طور پر نظریہء پاکستان کہا جاتا ہے ۔  جب کہ بعض ناقدین کی تحقیقات کے مطابق علامہ اقبال نے بعد ازاں اپنے خطوط میں اس نظریے کی تردید کر دی تھی۔   1. لندن کے اخبار ٹائمز کے مدیر Dr E Thompson کے نام خط میں ۔۔۔  2. علامہ راغب احسن کے نام خط ۔۔۔۔ میں واضح تردید موجود ہے ۔۔۔   بعد ازاں 23 -22 مارچ 1940ء کو لاہور مسلم لیگ کے اجلاس میں  قائد اعظم محمد علی جناح  کی صدارت میں آزاد اسلامی وطن کے مطالبے کی ٹھوس تجویز پیش کی گئی ۔  اور اس کے سات سال بعد اس خیال کو حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ۔  علامہ اقبال کی زندگی میں ہی کچھ وجوہات کی بنا پر چند علماء نے علامہ اقبال پر کفر کے فتوے بھی صادر کئے ۔  لیکن اقبال ہمیشہ اپنے ذہن کا سچ لکھتا رہا اور کسی بھی طرح کے فتووں سے نہیں گھبرایا، وہ اپنے ایک شعر میں کہتا ہے کہ ۔۔۔۔  اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش ۔  میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ۔۔۔   اسی طرح وہ ایک اور جگہ کہتے ہیں ۔۔۔۔   زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا ۔  اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں ۔   علامہ کی شاعری کے ابتدائی دور کا ایک مشہور شعر ہے کہ ۔۔۔  موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لئے ۔۔۔  قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے ۔۔۔  اور یہ شعر روزِ اول کی طرح آج بھی تر و تازہ ہے ۔   علامہ اقبال کے ہاں بنسبت عقل کے جنون یا عشق کی اہمیت زیادہ ہے ۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں ۔۔۔۔  بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ۔۔۔  عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی ۔۔۔   اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔۔۔   خِرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں ۔۔۔  میرے مولا مجھے صاحبِ جنوں کر ۔۔۔   یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ اقبال شاعری ضرور کرتے تھے ، لیکن انہوں نے شعر گوئی کو کبھی پسند نہیں کیا ، اقبال بطورِ شاعر مشہور ہونا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔  انہوں نے سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھا ۔۔۔  " میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا ، اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں ، اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصوّر کرتا ہوں ۔ فنِ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی ، ہاں بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں جن کے لئے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ۔۔۔ وہ ایک جگہ کہتے ہیں ۔۔۔۔  میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ ۔۔۔  کہ میں ہوں محرمِ راز درونِ مے خانہ ۔۔۔۔  اقبال کو مسلمانوں کی زبوں حالی کا حد درجہ احساس تھا ، اور وہ مسلمانوں کی حالت سیاسی طور پر اور دینی طور پر  مضبوط بنانا چاہتے تھے ، وہ اسی لئے اپنی شاعری میں انقلاب کی باتیں بھی کرتے تھے ۔ عالمِ وجد میں وہ خدا سے بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ۔۔۔  رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر ۔۔۔  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ۔۔۔   یہ شکایت نہیں ، ہیں اُن کے خزانے معمور ۔۔۔  نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور ۔۔۔  قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور ۔۔۔  اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہء حور ۔۔۔   اقبال کو اپنی قوم کی بے حسی کا شدید احساس تھا ، انہیں معلوم تھا کہ امت کا کارواں تو لُٹ چکا ہے ، لیکن سب سے افسوناک صورت یہ ہے کہ قوم کے دل سے احساسِ زیاں بھی  جاتا رہا ہے ۔  اقبال کا فلسفہ، تقدیر پر اندھا اعتماد کرنا نہیں تھا ، چناں چہ وہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔  تقدیر کے پابند نباتات و جمادات ۔۔۔  مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند ۔۔۔  اقبال مزید کہتے ہیں کہ  یقیں محکم عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم ۔ جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ۔۔۔   غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں ۔۔۔  جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔۔۔  کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا ۔۔۔  نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ۔۔۔   علامہ اقبال آخری سانس تک اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے کوششیں کرتے رہے ، اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لئے پلاننگ بناتے رہے ۔۔۔  اور آخر کار یہ مردِ مومن 21، اپریل سن 1938ء کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔۔ آپ کا مزار بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے بائیں جانب حکومتِ افغانستان کی مدد سے بنایا گیا تھا ۔۔۔  جو کہ اب بھی ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے ۔ آخر میں علامہ اقبال کا ایک اور زندہ و جاوید شعر ملاحظہ فرمائیں ۔  ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ۔۔۔  نیل کے ساحل سے لے کر، تا بہ خاکِ کاشغر ۔۔۔   تحقیق و تحریر ۔۔۔۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ تاریخ 11 نومبر سال 2023ء ۔۔۔ بروز ہفتہ ۔۔۔

علامہ اقبال پر ایک نظر ( تنقیدی جائزہ اختصار کے ساتھ ) تحریر و تحقیق ۔ غلام محمد وامِق افسوس کا مقام ہے کہ مفکّرِ پاکستان علامہ محمد اقبال کی تاریخ پیدائش پر ہی ہم لوگ متفق نہیں ہیں ۔ یعنی بعض عام روایات میں تاریخِ پیدائش 9 نومبر سال 1877ء لکھی جاتی ہے ۔ جب کہ چند با وثوق ذرائع 22 فروری سال 1876عیسوی بھی بیان کرتے ہیں ۔ ( بحوالہ اقبال کا خصوصی مطالعہ ۔ پروفیسر ایم اے خالد ، علمی کتاب خانہ لاہور) آپ سیالکوٹ میں شیخ نُور محمد کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تھا ۔ آپ کی والدہ " امام بی بی" ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک دانشور اور ہر دلعزیز نیک خاتون تھیں ۔ جب کہ آپ کے والد درزی کا کام کرتے تھے، علامہ اقبال کے ایک بڑے بھائی " شیخ عطا محمد" بھی تھے ۔ عطا محمد نے معمولی تعلیم پائی ، لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آپ اوور سیئر ہو گئے ، اور انہوں نے کافی روپیہ کمایا، اقبال کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور یورپ بھیجا ۔ حضرت علامہ نے جہاں اپنے والد کے فیضِ تربیت کا اعتراف کیا ہے ، وہیں اس نے اپنے بڑے بھائی عطا محمد کو بھی بڑے اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے ، وہ اپنے بھائی کے بڑے مدّاح اور ان سے محبت کرنے والے تھے ۔ اگر چہ بعد میں شیخ عطا محمد، احمدی یعنی قادیانی عقائد کے حامل ہو گئے تھے ۔ لیکن علامہ اقبال ان کی محبت اور احسانات کی وجہ سے ہمیشہ اُن کا احترام کرتے رہے ۔ علامہ اقبال اپنے اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے ایک استاد " سید میر حسن " سے بہت متاثر تھے ، علامہ اقبال نے عربی اور فارسی دونوں زبانیں اپنے اسی استاد " سیّد میر حسن" صاحب سے سیکھیں اور ان میں کمال حاصل کیا ۔ اپنے استاد سے احترام کا یہ عالم تھا کہ جب انگریز حکومت نے انہیں " سر " کا خطاب دینا چاہا تو انہوں نے شرط رکھی کہ پہلے ان کے استاد کو بھی کسی خطاب سے نوازا جائے ۔ چناں چہ حکومت نے ان کی یہ شرط منظور کر لی اور ان کے استاد کو " شمس العلماء" کا خطاب دیا گیا ۔ شاعری کی ابتدائی اصلاح انہوں نے اُس دور کے مشہور شاعر " داغ دہلوی" سے بذریعہ خط و کتابت حاصل کی ۔ اس اصلاح لینے پر اقبال کو اور اصلاح دینے پر " داغ " کو بھی فخر تھا ۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ فلسفہ اور سیاست کے مضامین پر لیکچر دینے لگے ۔ اس زمانے میں اقبال نے معاشیات پر ایک اردو کتاب " علم الاقتصادیات " لکھی ۔ اس کے بعد اقبال مزید تعلیم کے لئے سن 1905ء میں انگلستان چلے گئے اور وہاں پر " کیمرج یونیورسٹی " میں داخلہ لیا وہاں پر انہوں نے تین سال گزارے ، وہاں سے بیرسٹری یعنی وکالت کا امتحان پاس کیا ۔ بعد ازاں " میونخ یونیورسٹی جرمنی " سے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی ۔ واپس وطن پہنچ کر انہوں نے لاہور میں وکالت شروع کی اور ساتھ ساتھ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں ڈیڑھ سال تک فلسفہ بھی پڑھایا اور پھر خود ہی اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔ یورپ جانے سے پہلے آپ قومی اور وطنی نظمیں لکھتے تھے اور زیادہ تر شاعری اردو میں ہوتی تھی ۔ یورپ سے واپسی کے بعد ان میں تبدیلی آئی، چناں چہ زیادہ تر شاعری اب وہ فارسی میں کرنے لگے ۔ ان کی اردو شاعری کی شہرت 1901ء سے پہلے ہو چکی تھی ۔ اور اب فارسی میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوا لیا ۔ لاہور کی " انجمن حمایت اسلام" کے سالانہ جلسوں میں کئی سال متواتر انہوں نے اپنی نظمیں سنائیں اور دادِ تحسین حاصل کی ۔ حضرت علامہ 1906ء میں میدانِ سیاست میں آئے ، اور اپنی محنت و قابلیت سے دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاسِ الہ آباد کے صدر منتخب ہوئے اور یہاں پر ہی انہوں نے اپنے خطبہء صدارت میں مسلمانانِ ہند کے لئے ایک آزاد اسلامی ریاست کے لئے اپنی قابلِ قدر تجاویز پیش کیں ، جنہیں عام طور پر نظریہء پاکستان کہا جاتا ہے ۔ جب کہ بعض ناقدین کی تحقیقات کے مطابق علامہ اقبال نے بعد ازاں اپنے خطوط میں اس نظریے کی تردید کر دی تھی۔ 1. لندن کے اخبار ٹائمز کے مدیر Dr E Thompson کے نام خط میں ۔۔۔ 2. علامہ راغب احسن کے نام خط ۔۔۔۔ میں واضح تردید موجود ہے ۔۔۔ بعد ازاں 23 -22 مارچ 1940ء کو لاہور مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں آزاد اسلامی وطن کے مطالبے کی ٹھوس تجویز پیش کی گئی ۔ اور اس کے سات سال بعد اس خیال کو حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ۔ علامہ اقبال کی زندگی میں ہی کچھ وجوہات کی بنا پر چند علماء نے علامہ اقبال پر کفر کے فتوے بھی صادر کئے ۔ لیکن اقبال ہمیشہ اپنے ذہن کا سچ لکھتا رہا اور کسی بھی طرح کے فتووں سے نہیں گھبرایا، وہ اپنے ایک شعر میں کہتا ہے کہ ۔۔۔۔ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش ۔ میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ۔۔۔ اسی طرح وہ ایک اور جگہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا ۔ اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں ۔ علامہ کی شاعری کے ابتدائی دور کا ایک مشہور شعر ہے کہ ۔۔۔ موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لئے ۔۔۔ قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے ۔۔۔ اور یہ شعر روزِ اول کی طرح آج بھی تر و تازہ ہے ۔ علامہ اقبال کے ہاں بنسبت عقل کے جنون یا عشق کی اہمیت زیادہ ہے ۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ۔۔۔ عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی ۔۔۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔۔۔ خِرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں ۔۔۔ میرے مولا مجھے صاحبِ جنوں کر ۔۔۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ اقبال شاعری ضرور کرتے تھے ، لیکن انہوں نے شعر گوئی کو کبھی پسند نہیں کیا ، اقبال بطورِ شاعر مشہور ہونا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔ انہوں نے سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھا ۔۔۔ " میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا ، اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں ، اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصوّر کرتا ہوں ۔ فنِ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی ، ہاں بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں جن کے لئے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ۔۔۔ وہ ایک جگہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ ۔۔۔ کہ میں ہوں محرمِ راز درونِ مے خانہ ۔۔۔۔ اقبال کو مسلمانوں کی زبوں حالی کا حد درجہ احساس تھا ، اور وہ مسلمانوں کی حالت سیاسی طور پر اور دینی طور پر مضبوط بنانا چاہتے تھے ، وہ اسی لئے اپنی شاعری میں انقلاب کی باتیں بھی کرتے تھے ۔ عالمِ وجد میں وہ خدا سے بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ۔۔۔ رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر ۔۔۔ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ۔۔۔ یہ شکایت نہیں ، ہیں اُن کے خزانے معمور ۔۔۔ نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور ۔۔۔ قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور ۔۔۔ اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہء حور ۔۔۔ اقبال کو اپنی قوم کی بے حسی کا شدید احساس تھا ، انہیں معلوم تھا کہ امت کا کارواں تو لُٹ چکا ہے ، لیکن سب سے افسوناک صورت یہ ہے کہ قوم کے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا ہے ۔ اقبال کا فلسفہ، تقدیر پر اندھا اعتماد کرنا نہیں تھا ، چناں چہ وہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ تقدیر کے پابند نباتات و جمادات ۔۔۔ مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند ۔۔۔ اقبال مزید کہتے ہیں کہ یقیں محکم عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم ۔ جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ۔۔۔ غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں ۔۔۔ جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔۔۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا ۔۔۔ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ۔۔۔ علامہ اقبال آخری سانس تک اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے کوششیں کرتے رہے ، اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لئے پلاننگ بناتے رہے ۔۔۔ اور آخر کار یہ مردِ مومن 21، اپریل سن 1938ء کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔۔ آپ کا مزار بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے بائیں جانب حکومتِ افغانستان کی مدد سے بنایا گیا تھا ۔۔۔ جو کہ اب بھی ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے ۔ آخر میں علامہ اقبال کا ایک اور زندہ و جاوید شعر ملاحظہ فرمائیں ۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ۔۔۔ نیل کے ساحل سے لے کر، تا بہ خاکِ کاشغر ۔۔۔ تحقیق و تحریر ۔۔۔۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ تاریخ 11 نومبر سال 2023ء ۔۔۔ بروز ہفتہ ۔۔۔


 علامہ اقبال پر ایک نظر 

( تنقیدی جائزہ اختصار کے ساتھ )

تحریر و تحقیق ۔ غلام محمد وامِق


افسوس کا مقام ہے کہ مفکّرِ پاکستان علامہ محمد اقبال کی تاریخ پیدائش پر ہی ہم لوگ متفق نہیں ہیں ۔ یعنی بعض عام روایات میں تاریخِ پیدائش 9 نومبر سال 1877ء لکھی جاتی ہے ۔ جب کہ چند با وثوق ذرائع 22 فروری سال 1876عیسوی بھی بیان کرتے ہیں ۔ ( بحوالہ اقبال کا خصوصی مطالعہ ۔ پروفیسر ایم اے خالد ، علمی کتاب خانہ لاہور) 

آپ سیالکوٹ میں شیخ نُور محمد کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تھا ۔ آپ کی والدہ " امام بی بی" ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک دانشور اور ہر دلعزیز نیک خاتون تھیں ۔ 

جب کہ آپ کے والد درزی کا کام کرتے تھے، علامہ اقبال کے ایک بڑے بھائی " شیخ عطا محمد" بھی تھے ۔ عطا محمد نے معمولی تعلیم پائی ، لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آپ اوور سیئر ہو گئے ، اور انہوں نے کافی روپیہ کمایا،  

اقبال کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور یورپ بھیجا ۔ 

حضرت علامہ نے جہاں اپنے والد کے فیضِ تربیت کا اعتراف کیا ہے ، وہیں اس نے اپنے بڑے بھائی عطا محمد کو بھی بڑے اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے ، وہ اپنے بھائی کے بڑے مدّاح اور ان سے محبت کرنے والے تھے ۔ 

اگر چہ بعد میں شیخ عطا محمد، احمدی یعنی قادیانی عقائد کے حامل ہو گئے تھے ۔ لیکن علامہ اقبال ان کی محبت اور احسانات کی وجہ سے ہمیشہ اُن کا احترام کرتے رہے ۔ 

علامہ اقبال اپنے اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے ایک استاد  " سید میر حسن " سے بہت متاثر تھے ، علامہ اقبال نے عربی اور فارسی دونوں زبانیں اپنے اسی استاد " سیّد میر حسن" صاحب سے سیکھیں اور ان میں کمال حاصل کیا ۔ 

اپنے استاد سے احترام کا یہ عالم تھا کہ جب انگریز حکومت نے انہیں " سر " کا خطاب دینا چاہا تو انہوں نے شرط رکھی کہ پہلے ان کے استاد کو بھی کسی خطاب سے نوازا جائے ۔ 

چناں چہ حکومت نے ان کی یہ شرط منظور کر لی اور ان کے استاد کو " شمس العلماء" کا خطاب دیا گیا ۔ 

شاعری کی ابتدائی اصلاح انہوں نے اُس دور کے مشہور شاعر " داغ دہلوی" سے بذریعہ خط و کتابت حاصل کی ۔ 

اس اصلاح لینے پر اقبال کو اور اصلاح دینے پر " داغ " کو بھی فخر تھا ۔ 

ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ فلسفہ اور سیاست کے مضامین پر لیکچر دینے لگے ۔ 

اس زمانے میں اقبال نے معاشیات پر ایک اردو کتاب " علم الاقتصادیات " لکھی ۔ 

اس کے بعد اقبال مزید تعلیم کے لئے سن 1905ء میں انگلستان چلے گئے اور وہاں پر " کیمرج یونیورسٹی " میں داخلہ لیا وہاں پر انہوں نے تین سال گزارے ، وہاں سے بیرسٹری یعنی وکالت کا امتحان پاس کیا ۔ 

بعد ازاں " میونخ یونیورسٹی جرمنی  " سے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی ۔ واپس وطن پہنچ کر انہوں نے لاہور میں وکالت شروع کی اور ساتھ ساتھ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں ڈیڑھ سال تک فلسفہ بھی پڑھایا اور پھر خود ہی اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔ 

یورپ جانے سے پہلے آپ قومی اور وطنی نظمیں لکھتے تھے اور زیادہ تر شاعری اردو میں ہوتی تھی ۔ 

یورپ سے واپسی کے بعد ان میں تبدیلی آئی، چناں چہ زیادہ تر شاعری اب وہ فارسی میں کرنے لگے ۔ 

ان کی اردو شاعری کی شہرت 1901ء سے پہلے ہو چکی تھی ۔ اور اب فارسی میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوا لیا ۔ 

لاہور کی " انجمن حمایت اسلام" کے سالانہ جلسوں میں کئی سال متواتر انہوں نے اپنی نظمیں سنائیں اور دادِ تحسین حاصل کی ۔ 

حضرت علامہ 1906ء میں میدانِ سیاست میں آئے ، اور اپنی محنت و قابلیت سے دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کے

اجلاسِ الہ آباد کے صدر منتخب ہوئے اور یہاں پر ہی انہوں نے اپنے خطبہء صدارت میں مسلمانانِ ہند کے لئے ایک آزاد اسلامی ریاست کے لئے اپنی قابلِ قدر تجاویز پیش کیں ، جنہیں عام طور پر نظریہء پاکستان کہا جاتا ہے ۔  جب کہ بعض ناقدین کی تحقیقات کے مطابق علامہ اقبال نے بعد ازاں اپنے خطوط میں اس نظریے کی تردید کر دی تھی۔ 

 1. لندن کے اخبار ٹائمز کے مدیر Dr E Thompson کے نام خط میں ۔۔۔ 

2. علامہ راغب احسن کے نام خط ۔۔۔۔ میں واضح تردید موجود ہے ۔۔۔ 


بعد ازاں 23 -22 مارچ 1940ء کو لاہور مسلم لیگ کے اجلاس میں  قائد اعظم محمد علی جناح  کی صدارت میں آزاد اسلامی وطن کے مطالبے کی ٹھوس تجویز پیش کی گئی ۔ 

اور اس کے سات سال بعد اس خیال کو حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ۔ 

علامہ اقبال کی زندگی میں ہی کچھ وجوہات کی بنا پر چند علماء نے علامہ اقبال پر کفر کے فتوے بھی صادر کئے ۔ 

لیکن اقبال ہمیشہ اپنے ذہن کا سچ لکھتا رہا اور کسی بھی طرح کے فتووں سے نہیں گھبرایا، وہ اپنے ایک شعر میں کہتا ہے کہ ۔۔۔۔ 

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش ۔ 

میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ۔۔۔ 


اسی طرح وہ ایک اور جگہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ 


زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا ۔ 

اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں ۔ 


علامہ کی شاعری کے ابتدائی دور کا ایک مشہور شعر ہے کہ ۔۔۔ 

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لئے ۔۔۔ 

قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے ۔۔۔ 

اور یہ شعر روزِ اول کی طرح آج بھی تر و تازہ ہے ۔ 


علامہ اقبال کے ہاں بنسبت عقل کے جنون یا عشق کی اہمیت زیادہ ہے ۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ 

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ۔۔۔ 

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی ۔۔۔ 


اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔۔۔ 


خِرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں ۔۔۔ 

میرے مولا مجھے صاحبِ جنوں کر ۔۔۔ 


یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ اقبال شاعری ضرور کرتے تھے ، لیکن انہوں نے شعر گوئی کو کبھی پسند نہیں کیا ، اقبال بطورِ شاعر مشہور ہونا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔ 

انہوں نے سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھا ۔۔۔ 

" میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا ، اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں ، اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصوّر کرتا ہوں ۔ فنِ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی ، ہاں بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں جن کے لئے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ۔۔۔ وہ ایک جگہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ 

میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ ۔۔۔ 

کہ میں ہوں محرمِ راز درونِ مے خانہ ۔۔۔۔ 

اقبال کو مسلمانوں کی زبوں حالی کا حد درجہ احساس تھا ، اور وہ مسلمانوں کی حالت سیاسی طور پر اور دینی طور پر  مضبوط بنانا چاہتے تھے ، وہ اسی لئے اپنی شاعری میں انقلاب کی باتیں بھی کرتے تھے ۔ عالمِ وجد میں وہ خدا سے بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ۔۔۔ 

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر ۔۔۔ 

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ۔۔۔ 


یہ شکایت نہیں ، ہیں اُن کے خزانے معمور ۔۔۔ 

نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور ۔۔۔ 

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور ۔۔۔ 

اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہء حور ۔۔۔ 


اقبال کو اپنی قوم کی بے حسی کا شدید احساس تھا ، انہیں معلوم تھا کہ امت کا کارواں تو لُٹ چکا ہے ، لیکن سب سے افسوناک صورت یہ ہے کہ قوم کے دل سے احساسِ زیاں بھی  جاتا رہا ہے ۔ 

اقبال کا فلسفہ، تقدیر پر اندھا اعتماد کرنا نہیں تھا ، چناں چہ وہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ 

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات ۔۔۔ 

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند ۔۔۔ 

اقبال مزید کہتے ہیں کہ 

یقیں محکم عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم ۔

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ۔۔۔ 


غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں ۔۔۔ 

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔۔۔ 

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا ۔۔۔ 

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ۔۔۔ 


علامہ اقبال آخری سانس تک اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے کوششیں کرتے رہے ، اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لئے پلاننگ بناتے رہے ۔۔۔ 

اور آخر کار یہ مردِ مومن 21، اپریل سن 1938ء کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔۔ آپ کا مزار بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے بائیں جانب حکومتِ افغانستان کی مدد سے بنایا گیا تھا ۔۔۔ 

جو کہ اب بھی ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے ۔ آخر میں علامہ اقبال کا ایک اور زندہ و جاوید شعر ملاحظہ فرمائیں ۔ 

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ۔۔۔ 

نیل کے ساحل سے لے کر، تا بہ خاکِ کاشغر ۔۔۔ 


تحقیق و تحریر ۔۔۔۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ

تاریخ 11 نومبر سال 2023ء ۔۔۔ بروز ہفتہ ۔۔۔


  علم و حکمت ....  علم بغیر عمل کے بیکار ہے ، عمل بغیر عقل کے فضول ہے، اور عقل بغیر حکمت کے کچھ نہیں ۔   (غلام محمد وامق)

علم و حکمت .... علم بغیر عمل کے بیکار ہے ، عمل بغیر عقل کے فضول ہے، اور عقل بغیر حکمت کے کچھ نہیں ۔ (غلام محمد وامق)

 علم و حکمت

علم بغیر عمل کے بیکار ہے 

عمل بغیر عقل کے فضول ہے


 اور عقل بغیر حکمت کے کچھ نہیں ۔ 


(غلام محمد وامق)


سندھی غزل ۔۔۔ ہمارے شہر محراب پور سندھ کے ابھرتے ہوئے نوجوان سندھی شاعر عاطف جانی Atif Jaani کی فرمائش پر اپنا ایک قطعہ اور اپنی ایک سندھی غزل پیشِ خدمت ہے ۔   ........... چو سٽو  ..........  تون مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر  مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو   صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ  سڄڻ مان ته توکي دعائون ڪريان ٿو                                      ................................................  ...............   غزل  ............            غلام محمد وامِق   سڀئي سور سنھنجا ڪري ٿي محبت  ھي ٽانڊن کي گلڙا ڪري ٿي محبت.   عجب معجزا ھي محبت جا ڏس تون  پراون کي پنھنجا ڪري ٿي محبت.   ھي دنيا محبت سان گلزار آھي  زماني تي ٿورا ڪري ٿي محبت.   محبت جا جلوا تڏھن مار ڪن ٿا  جڏھن ناز نخرا ڪري ٿي محبت.   محبت جي جادوء کي سمجھڻ آ مشڪل جو ڪوجھن کي سھڻا ڪري ٿي محبت.   مڃيو سين ته پاڻيء جو قطرو آ دنيا  پر قطري کي دريا ڪري ٿي محبت.   غرور ۽ وڏائيء جي بت کي سدائين ڀڃي ڀورا ڀورا ڪري ٿي محبت.   سبق ھي شجاعت جو سڀ کي ڏئي ٿي ضعيفن کي سوڍا ڪري ٿي محبت.   خدا جو پيارو آ سمجھو اھو ئي وڃي جنھن تي قبضا ڪري ٿي محبت.   ٻئي ڪنھن طريقي سان ٿي نه سگھن جي  ھو ڪم منھنجا پيارا ڪري ٿي محبت.   محبت ئي وامِق کي وامِق ٿي ٺاھي  ۽ عذرا کي عذرا ڪري ٿي محبت.                                         ............................................. نومبر سال 1987ء ۾ چيل ڪلام.  شاعر - غلام محمد وامِق، محراب پور سنڌ.

سندھی غزل ۔۔۔ ہمارے شہر محراب پور سندھ کے ابھرتے ہوئے نوجوان سندھی شاعر عاطف جانی Atif Jaani کی فرمائش پر اپنا ایک قطعہ اور اپنی ایک سندھی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ ........... چو سٽو .......... تون مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ سڄڻ مان ته توکي دعائون ڪريان ٿو ................................................ ............... غزل ............ غلام محمد وامِق سڀئي سور سنھنجا ڪري ٿي محبت ھي ٽانڊن کي گلڙا ڪري ٿي محبت. عجب معجزا ھي محبت جا ڏس تون پراون کي پنھنجا ڪري ٿي محبت. ھي دنيا محبت سان گلزار آھي زماني تي ٿورا ڪري ٿي محبت. محبت جا جلوا تڏھن مار ڪن ٿا جڏھن ناز نخرا ڪري ٿي محبت. محبت جي جادوء کي سمجھڻ آ مشڪل جو ڪوجھن کي سھڻا ڪري ٿي محبت. مڃيو سين ته پاڻيء جو قطرو آ دنيا پر قطري کي دريا ڪري ٿي محبت. غرور ۽ وڏائيء جي بت کي سدائين ڀڃي ڀورا ڀورا ڪري ٿي محبت. سبق ھي شجاعت جو سڀ کي ڏئي ٿي ضعيفن کي سوڍا ڪري ٿي محبت. خدا جو پيارو آ سمجھو اھو ئي وڃي جنھن تي قبضا ڪري ٿي محبت. ٻئي ڪنھن طريقي سان ٿي نه سگھن جي ھو ڪم منھنجا پيارا ڪري ٿي محبت. محبت ئي وامِق کي وامِق ٿي ٺاھي ۽ عذرا کي عذرا ڪري ٿي محبت. ............................................. نومبر سال 1987ء ۾ چيل ڪلام. شاعر - غلام محمد وامِق، محراب پور سنڌ.

 ہمارے شہر محراب پور سندھ کے ابھرتے ہوئے نوجوان سندھی شاعر عاطف جانی Atif Jaani کی فرمائش پر اپنا ایک قطعہ اور اپنی ایک سندھی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ 


........... چو سٽو  .......... 

تون مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر 

مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو 


صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ 

سڄڻ مان ته توکي دعائون ڪريان ٿو 

                                    ................................................


...............   غزل  ............ 

          غلام محمد وامِق 


سڀئي سور سنھنجا ڪري ٿي محبت 

ھي ٽانڊن کي گلڙا ڪري ٿي محبت. 


عجب معجزا ھي محبت جا ڏس تون 

پراون کي پنھنجا ڪري ٿي محبت. 


ھي دنيا محبت سان گلزار آھي 

زماني تي ٿورا ڪري ٿي محبت. 


محبت جا جلوا تڏھن مار ڪن ٿا 

جڏھن ناز نخرا ڪري ٿي محبت. 


محبت جي جادوء کي سمجھڻ آ مشڪل

جو ڪوجھن کي سھڻا ڪري ٿي محبت. 


مڃيو سين ته پاڻيء جو قطرو آ دنيا 

پر قطري کي دريا ڪري ٿي محبت. 


غرور ۽ وڏائيء جي بت کي سدائين

ڀڃي ڀورا ڀورا ڪري ٿي محبت. 


سبق ھي شجاعت جو سڀ کي ڏئي ٿي

ضعيفن کي سوڍا ڪري ٿي محبت. 


خدا جو پيارو آ سمجھو اھو ئي

وڃي جنھن تي قبضا ڪري ٿي محبت. 


ٻئي ڪنھن طريقي سان ٿي نه سگھن جي 

ھو ڪم منھنجا پيارا ڪري ٿي محبت. 


محبت ئي وامِق کي وامِق ٿي ٺاھي 

۽ عذرا کي عذرا ڪري ٿي محبت. 

                                       .............................................

نومبر سال 1987ء ۾ چيل ڪلام. 

شاعر - غلام محمد وامِق، محراب پور سنڌ.


فقط ایک ہی دن کیوں ؟  (کیا یہ ذہنی غلامی نہیں)  غور فرمائیے کہ گزشتہ چند برسوں سے دنیا بھر میں کسی بھی شخصیت ، رشتے، تعلق یا جذباتی اظہار کے لئے کوئی بھی مخصوص دن منانے کی نئی ریت چل پڑی ہے ۔  مثال کے طور پر ، بلیک ڈے ، کشمیر ڈے ، مدر ڈے ، فادر ڈے ، برادر ڈے ، سسٹر ڈے ، ٹیچر ڈے ، فرینڈشپ ڈے ، وومین ڈے ، اور ویلنٹائن ڈے ، وغیرہ وغیرہ ۔  ممکن ہے کہ جلد ہی " گاڈ ڈے "  اور " ورشپ ڈے " بھی منایا جانے لگے ۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ایام یورپ کی طرف سے منانے کا اعلان کیا جاتا ہے اور تمام عالمِ اسلام بھی اس پر آمنا صدقنا کہتے ہوئے انہیں منانا باعثِ فخر سمجھتے ہیں ۔  کیا ماں باپ ، میاں بیوی ، اساتذہ وغیرہ یہ تمام تعلقات سال بھر میں فقط ایک ہی دن کے لئے ہوتے ہیں ؟  حالاں کہ یہ ہمارے تمام خونی اور جذباتی رشتے زندگی بھر کے لئے ہوتے ہیں فقط ایک دن کے لئے نہیں ۔ اور دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کا سبق نہیں دیتا ۔  سوچئے گا ضرور ۔۔۔۔۔۔ شکریہ ۔  تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔

فقط ایک ہی دن کیوں ؟ (کیا یہ ذہنی غلامی نہیں) غور فرمائیے کہ گزشتہ چند برسوں سے دنیا بھر میں کسی بھی شخصیت ، رشتے، تعلق یا جذباتی اظہار کے لئے کوئی بھی مخصوص دن منانے کی نئی ریت چل پڑی ہے ۔ مثال کے طور پر ، بلیک ڈے ، کشمیر ڈے ، مدر ڈے ، فادر ڈے ، برادر ڈے ، سسٹر ڈے ، ٹیچر ڈے ، فرینڈشپ ڈے ، وومین ڈے ، اور ویلنٹائن ڈے ، وغیرہ وغیرہ ۔ ممکن ہے کہ جلد ہی " گاڈ ڈے " اور " ورشپ ڈے " بھی منایا جانے لگے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ایام یورپ کی طرف سے منانے کا اعلان کیا جاتا ہے اور تمام عالمِ اسلام بھی اس پر آمنا صدقنا کہتے ہوئے انہیں منانا باعثِ فخر سمجھتے ہیں ۔ کیا ماں باپ ، میاں بیوی ، اساتذہ وغیرہ یہ تمام تعلقات سال بھر میں فقط ایک ہی دن کے لئے ہوتے ہیں ؟ حالاں کہ یہ ہمارے تمام خونی اور جذباتی رشتے زندگی بھر کے لئے ہوتے ہیں فقط ایک دن کے لئے نہیں ۔ اور دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کا سبق نہیں دیتا ۔ سوچئے گا ضرور ۔۔۔۔۔۔ شکریہ ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔

 فقط ایک ہی دن کیوں ؟ (کیا یہ ذہنی غلامی نہیں)
غور فرمائیے کہ گزشتہ چند برسوں سے دنیا بھر میں کسی بھی شخصیت ، رشتے، تعلق یا جذباتی اظہار کے لئے کوئی بھی مخصوص دن منانے کی نئی ریت چل پڑی ہے ۔ مثال کے طور پر ، بلیک ڈے ، کشمیر ڈے ، مدر ڈے ، فادر ڈے ، برادر ڈے ، سسٹر ڈے ، ٹیچر ڈے ، فرینڈشپ ڈے ، وومین ڈے ، اور ویلنٹائن ڈے ، وغیرہ وغیرہ ۔ ممکن ہے کہ جلد ہی " گاڈ ڈے "  اور " ورشپ ڈے " بھی منایا جانے لگے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ایام یورپ کی طرف سے منانے کا اعلان کیا جاتا ہے اور تمام عالمِ اسلام بھی اس پر آمنا صدقنا کہتے ہوئے انہیں منانا باعثِ فخر سمجھتے ہیں ۔ کیا ماں باپ ، میاں بیوی ، اساتذہ وغیرہ یہ تمام تعلقات سال بھر میں فقط ایک ہی دن کے لئے ہوتے ہیں ؟ حالاں کہ یہ ہمارے تمام خونی اور جذباتی رشتے زندگی بھر کے لئے ہوتے ہیں فقط ایک دن کے لئے نہیں ۔ اور دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کا سبق نہیں دیتا ۔ سوچئے گا ضرور ۔۔۔۔۔۔ شکریہ ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔

  ہر لفظ میں،  باتوں میں، اداؤں میں حسد  ہے ...  سب خوش نُما رشتوں کی فضاؤں میں حسد ہے ...   اخلاص سے مِلتا ہے اگر کوئی، تو  اُس کو ...  لہجوں سے یہ ڈستے ہیں، بیانوں میں حسد ہے ...   غربت بھی یہاں ڈستی ہے انسان کو، لیکن ... اِن زہر سے بھرپور فضاؤں میں حسد ہے ...   مرتے ہیں یہاں لوگ، جفاؤں کے ستم سے ...  خودغرض زمانے کی، نگاہوں میں حسد ہے ...   دنیا میں نہیں کوئی بھی خود، خودکشی کرتا ...  اِن زہر بھرے رشتوں میں،  ناطوں میں حسد ہے ...   اب کوئی تعلق  نہیں رکھنا، مجھے وامِق ... سب مطلبی یاروں کی وفاؤں میں حسد  ہے ...  ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ اکتوبر 2021ء میں کہی گئی غزل ـ

ہر لفظ میں، باتوں میں، اداؤں میں حسد ہے ... سب خوش نُما رشتوں کی فضاؤں میں حسد ہے ... اخلاص سے مِلتا ہے اگر کوئی، تو اُس کو ... لہجوں سے یہ ڈستے ہیں، بیانوں میں حسد ہے ... غربت بھی یہاں ڈستی ہے انسان کو، لیکن ... اِن زہر سے بھرپور فضاؤں میں حسد ہے ... مرتے ہیں یہاں لوگ، جفاؤں کے ستم سے ... خودغرض زمانے کی، نگاہوں میں حسد ہے ... دنیا میں نہیں کوئی بھی خود، خودکشی کرتا ... اِن زہر بھرے رشتوں میں، ناطوں میں حسد ہے ... اب کوئی تعلق نہیں رکھنا، مجھے وامِق ... سب مطلبی یاروں کی وفاؤں میں حسد ہے ... ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ اکتوبر 2021ء میں کہی گئی غزل ـ


*****   غـــزل   *****   
                 
                 غلام محمد وامِق 

ہر لفظ میں،  باتوں میں، اداؤں میں حسد  ہے ... 
سب خوش نُما رشتوں کی فضاؤں میں حسد ہے ... 

اخلاص سے مِلتا ہے اگر کوئی، تو  اُس کو ... 
لہجوں سے یہ ڈستے ہیں، بیانوں میں حسد ہے ... 

غربت بھی یہاں ڈستی ہے انسان کو، لیکن ...
اِن زہر سے بھرپور فضاؤں میں حسد ہے ... 

مرتے ہیں یہاں لوگ، جفاؤں کے ستم سے ... 
خودغرض زمانے کی، نگاہوں میں حسد ہے ... 

دنیا میں نہیں کوئی بھی خود، خودکشی کرتا ... 
اِن زہر بھرے رشتوں میں،  ناطوں میں حسد ہے ... 

اب کوئی تعلق  نہیں رکھنا، مجھے وامِق ...
سب مطلبی یاروں کی وفاؤں میں حسد  ہے ... 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
اکتوبر 2021ء میں کہی گئی غزل ـ
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ 
 بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
 کس قدر ہے ظلم اب تحقیق اندھی ہو گئی ۔  کیا ستم ہے دیکھئے تاریخ گونگی ہو گئی ۔   جہل کی ہیں قید میں، سب علم و دانش اور خرَد ـ اس جہاں میں ظلم کی تاریخ لمبی ہوگئی ـ  ہر طرف ہے بے حیائی اور فحاشی کا چلن ۔  شرم کی تشریح سے تعلیم عاری ہو گئی ۔   اہلِ ثروت بن گئے ہیں، عقل کے بھی سرپرست ـ عقل کی دیوی جو تھی، وہ اندھی بہری ہوگئی ـ  کفر کے فتوے ہیں اب، تحقیق کی ہر بات پر ـ اس جہاں میں دیکھئے، تقلید سچی ہوگئی ـ  اب تو ہے ، ہر آدمی کا اپنا اپنا نظریہ ۔  غلبہء اسلام سے تعلیم عاری ہو گئی ۔   چار سُو دنیا میں پھیلی، جبر کی تاریکیاں ـ فہم کے ادراک سے، وامِق یہ خالی ہوگئی ـــ    شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ  آج 05 اکتوبر ، سال 2023ء بروز جمعرات غزل مکمل ہوئی ۔

کس قدر ہے ظلم اب تحقیق اندھی ہو گئی ۔ کیا ستم ہے دیکھئے تاریخ گونگی ہو گئی ۔ جہل کی ہیں قید میں، سب علم و دانش اور خرَد ـ اس جہاں میں ظلم کی تاریخ لمبی ہوگئی ـ ہر طرف ہے بے حیائی اور فحاشی کا چلن ۔ شرم کی تشریح سے تعلیم عاری ہو گئی ۔ اہلِ ثروت بن گئے ہیں، عقل کے بھی سرپرست ـ عقل کی دیوی جو تھی، وہ اندھی بہری ہوگئی ـ کفر کے فتوے ہیں اب، تحقیق کی ہر بات پر ـ اس جہاں میں دیکھئے، تقلید سچی ہوگئی ـ اب تو ہے ، ہر آدمی کا اپنا اپنا نظریہ ۔ غلبہء اسلام سے تعلیم عاری ہو گئی ۔ چار سُو دنیا میں پھیلی، جبر کی تاریکیاں ـ فہم کے ادراک سے، وامِق یہ خالی ہوگئی ـــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ آج 05 اکتوبر ، سال 2023ء بروز جمعرات غزل مکمل ہوئی ۔

 اس ملک کے نظام سے اکتا گیا ہوں میں ۔   اب ملک پاک میں ہوا جینا میرا حرام ۔   اب کافروں کے دیس کا ویزا ہی کر عطا ۔   اب میں رہوں گا یورپ ناپاک میں مدام ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔  تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء بروز ہفتہ ۔

اس ملک کے نظام سے اکتا گیا ہوں میں ۔ اب ملک پاک میں ہوا جینا میرا حرام ۔ اب کافروں کے دیس کا ویزا ہی کر عطا ۔ اب میں رہوں گا یورپ ناپاک میں مدام ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء بروز ہفتہ ۔



 عام پاکستانی کی دعا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اس ملک کے نظام سے اکتا گیا ہوں میں ۔ 

اب ملک پاک میں ہوا جینا میرا حرام ۔ 

اب کافروں کے دیس کا ویزا ہی کر عطا ۔ 

اب میں رہوں گا یورپ ناپاک میں مُدام ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات ۔ 
 بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ 
تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء بروز ہفتہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ہے انساں کی سوچوں پہ تلوار اب بھی ۔  یہ رسموں رواجوں کی دیوار اب بھی ۔   بظاہر جو لگتے ہیں ہر شئے سے غافل ۔  ہیں مطلب پہ اپنے وہ ہشیار اب بھی ۔   پرانا کہاں قصہ چنگیز خاں کا ۔  کہ بنتے ہیں لاشوں کے مینار اب بھی ۔  غریبوں کو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن ۔  ہیں مالک یہ غلوں کے، زردار اب بھی ۔   سنو ! دعویداران  تقدیسِ انساں ۔  یہ انسانیت ہے ، سر دار اب بھی ۔   ہیں آزاد ہم یوں تو ظاہر میں لیکن ۔  مقید ، ہمارے ہیں افکار اب بھی ۔   کہیں پھر نہ فرہاد تیشہ اٹھالے ۔  کہ ڈر سے لرزتے ہیں کہسار اب بھی ۔   کبھی جرم الفت ہوا تھا، مگر دل ۔  صبح و شام ہوتا ہے سنگسار اب بھی ۔   شہیدِ محبت کے چہرے سے دیکھو ۔  ہویدا ہیں عظمت کے آثار اب بھی ۔   کبھی گل کے پہلو میں دیکھے تھے ہم نے ۔  کھٹکتے ہیں آنکھوں میں وہ خار اب بھی ۔   امنگیں جوانی کی مٹتی گئیں سب ۔  مگر جوں کا توں ہے تیرا پیار اب بھی ۔   ہے دل میں یقیں اس کو میری وفا پر ۔  مگر ضد کے باعث ہے انکار اب بھی ۔   جو لینے گئے جنس الفت تو دیکھا ۔  بھرے ہیں عداوت سے بازار اب بھی ۔   زباں تم نے کاٹی تو کیا غم ہے وامق ۔  یہ دل تو ہے حق کا پرستار اب بھی ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔  اکتوبر 1985ء میں کہی گئی غزل ۔

ہے انساں کی سوچوں پہ تلوار اب بھی ۔ یہ رسموں رواجوں کی دیوار اب بھی ۔ بظاہر جو لگتے ہیں ہر شئے سے غافل ۔ ہیں مطلب پہ اپنے وہ ہشیار اب بھی ۔ پرانا کہاں قصہ چنگیز خاں کا ۔ کہ بنتے ہیں لاشوں کے مینار اب بھی ۔ غریبوں کو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن ۔ ہیں مالک یہ غلوں کے، زردار اب بھی ۔ سنو ! دعویداران تقدیسِ انساں ۔ یہ انسانیت ہے ، سر دار اب بھی ۔ ہیں آزاد ہم یوں تو ظاہر میں لیکن ۔ مقید ، ہمارے ہیں افکار اب بھی ۔ کہیں پھر نہ فرہاد تیشہ اٹھالے ۔ کہ ڈر سے لرزتے ہیں کہسار اب بھی ۔ کبھی جرم الفت ہوا تھا، مگر دل ۔ صبح و شام ہوتا ہے سنگسار اب بھی ۔ شہیدِ محبت کے چہرے سے دیکھو ۔ ہویدا ہیں عظمت کے آثار اب بھی ۔ کبھی گل کے پہلو میں دیکھے تھے ہم نے ۔ کھٹکتے ہیں آنکھوں میں وہ خار اب بھی ۔ امنگیں جوانی کی مٹتی گئیں سب ۔ مگر جوں کا توں ہے تیرا پیار اب بھی ۔ ہے دل میں یقیں اس کو میری وفا پر ۔ مگر ضد کے باعث ہے انکار اب بھی ۔ جو لینے گئے جنس الفت تو دیکھا ۔ بھرے ہیں عداوت سے بازار اب بھی ۔ زباں تم نے کاٹی تو کیا غم ہے وامق ۔ یہ دل تو ہے حق کا پرستار اب بھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ اکتوبر 1985ء میں کہی گئی غزل ۔


 غ ۔ ز ۔ ل 
      غلام محمد وامق 

ہے انساں کی سوچوں پہ تلوار اب بھی ۔ 
یہ رسموں رواجوں کی دیوار اب بھی ۔ 

بظاہر جو لگتے ہیں ہر شئے سے غافل ۔ 
ہیں مطلب پہ اپنے وہ ہشیار اب بھی ۔ 

پرانا کہاں قصہ چنگیز خاں کا ۔ 
کہ بنتے ہیں لاشوں کے مینار اب بھی ۔ 

غریبوں کو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن ۔ 
ہیں مالک یہ غلوں کے، زردار اب بھی ۔ 

سنو ! دعویداران  تقدیسِ انساں ۔ 
یہ انسانیت ہے ، سر دار اب بھی ۔ 

ہیں آزاد ہم یوں تو ظاہر میں لیکن ۔ 
مقیّد ، ہمارے ہیں افکار اب بھی ۔ 

کہیں پھر نہ فرہاد تیشہ اٹھالے ۔ 
کہ ڈر سے لرزتے ہیں کہسار اب بھی ۔ 

شہیدِ محبت کے چہرے سے دیکھو ۔ 
ہُویدا ہیں عظمت کے آثار اب بھی ۔ 

کبھی گل کے پہلو میں دیکھے تھے ہم نے ۔ 
کھٹکتے ہیں آنکھوں میں وہ خار اب بھی ۔ 

امنگیں جوانی کی مٹتی گئیں سب ۔ 
مگر جوں کا توں ہے تیرا پیار اب بھی ۔ 

ہے دل میں یقیں اس کو میری وفا پر ۔ 
مگر ضد کے باعث ہے انکار اب بھی ۔ 

جو لینے گئے جنسِ الفت تو دیکھا ۔ 
بھرے ہیں عداوت سے بازار اب بھی ۔ 

زباں تم نے کاٹی تو کیا غم ہے وامق ۔ 
یہ دل تو ہے حق کا پرستار اب بھی ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فعولن فعولن فعولن فعولن ۔ 
بحر ۔ متقارب مثمن سالم 
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ 
اکتوبر 1985ء میں کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محراب پور کی ادبی ڈائری ( کچھ باتیں کچھ یادیں)            مرحوم نور الحسن شیخ کے حوالے سے ۔   تحریر ۔ غلام محمد وامق ۔   کراچی میں چھ سال قیام کے بعد سال 1983ء کے اوائل میں جب ہم اپنے شہر محراب پور سندھ واپس آئے تو شہر کی فضا میں کافی اجنبیت محسوس ہوئی ، نئے جوان ہونے والے بچوں کے لئے ہم اجنبی تھے اور ہمارے لئے وہ اجنبی تھے ۔ یہاں آکر سب سے پہلے ہمیں اپنے ہم خیال ادب دوست افراد ڈھونڈنے کی فکر ہوئی ، پرانے کلاس فیلو اور دوست منتشر ہو چکے تھے ، اور ادبی حوالے سے وہ ہمارے کسی کام کے بھی نہیں تھے ۔ صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے آپ جانتے ہیں ۔ عبدالمجید راہی ہمارے کلاس فیلو تھے اور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے مجھے شہر کی ایک معتبر شخصیت " نور الحسن شیخ  " صاحب سے ملوایا ۔   نور الحسن شیخ انتہائی خوش اخلاق ، ملنسار ، باادب ، مطالعہ کے شوقین اور مخلص انسان ثابت ہوئے ۔ وہ دوستوں کے بہت اچھے دوست تھے ، موصوف کو میں پہلے بھی جانتا تھا لیکن تفصیلی ملاقات نہیں تھی ، وہ بہت ہی خوبصورت اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے ، اب ان سے مل کر دل کو حقیقی خوشی اور اطمینان محسوس ہوا ۔  شہر کے مشہور چوک میں مکی مسجد سے ملحق ان کا مشہور و معروف میڈیکل اسٹور ، " نور میڈیکل اسٹور" کے نام سے تھا ، جہاں پر شہر کی کریم یعنی تعلیم یافتہ باشعور لوگ اکثر مل بیٹھتے تھے  اور ہر طرح کے مسائل زیرِ بحث آتے تھے ، ہم نے فوراً ہی مطلب کی بات کی اور ان کے مشورے سے ایک ادبی تنظیم " بزم ادب محراب پور" کے نام سے قائم کی گئی ۔  تنظیم کے صدر ۔ مغل عبدالغفور ساجد صاحب کو مقرر کیا گیا ، موصوف شہر کے چیئرمین تھے ، جو کہ انتہائی باذوق ، باادب اور فقیر منش انسان تھے ۔ ان کا ایک شعری مجموعہ " نوائے ساجد"  کے نام سے محراب پور کے ہی ایک پریس مدینہ پرنٹنگ پریس نے شایع کیا تھا، اور یہ پریس نور میڈیکل اسٹور کے ساتھ ہی واقع تھا ، سوئے اتفاق کہ وہ پریس بند ہوگیا ۔ اس موقع پر شہر کی ایک اور باذوق علمی شخصیت جناب " سید گوہر شاہ " صاحب مرحوم ، نے فی البدیہ ایک شعر ارشاد فرمایا تھا جو کہ مجھے یاد ہے ۔۔۔۔  ===  کتاب کیا چھپی ہے جنابِ غفور کی ۔  ===  ویران ہو گئی ہے گلی شیخ نور کی ۔  اب ایسی باذوق شخصیات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں ۔   بزم ادب کے نائب صدر ۔  " سید اسد عباس شاہ " کو مقرر کیا گیا ، جو کہ ہمارے کلاس فیلو ڈاکٹر قمر عباس شاہ کے بڑے بھائی تھے ۔  جنرل سیکریٹری ۔ اس بندہء ناچیز " غلام محمد وامق" کو منتخب کیا گیا ، اور میرے ساتھ جوائنٹ سیکریٹری جناب  " نور الحسن شیخ صاحب " کو بنایا گیا ۔  پریس سیکرٹری ۔ عبدالمجید راہی ( نامہ نگار روزنامہ جنگ کراچی) کو مقرر کیا گیا ۔  خازن ۔ ایڈووکیٹ ملک شیر دین بھٹی صاحب بنے ۔  جب کہ بزم کے سرپرست اعلیٰ " شوکت علی خان لودھی " کو مقرر کیا گیا ، جوکہ قبل ازیں بھی اور بعد ازاں بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے تھے ، اور ان کے بعد ان کے فرزند " فاروق احمد خان لودھی" بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے ۔  شہر کے دیگر بہت سے معززین نے بھی بزم کی رکنیت اختیار کی ، جن میں سے چند نام جو مجھے یاد ہیں درج ذیل ہیں ۔  سماجی رہنما خادم شہر " عمردین کمبوہ " جوکہ شہر کے نائب ناظم بھی رہے ۔ سندھی قوم پرست رہنما کامریڈ " قمر میمن " ۔ ان کے چھوٹے بھائی ایڈووکیٹ نور محمد میمن ( جو کہ ایک مدت سے اب تک لاپتہ ہیں) ۔ کاروباری شخصیت غلام مصطفیٰ سیٹھی ۔ زاہد شاہ ۔ ہمایوں شاہ ۔ شرافت ناز ۔ الیاس ہاشمی ( نامہ نگار روزنامہ امن ) ۔ کمبوہ اسلم آبشار مرحوم ۔ غلام رسول انمول مغل ( اب ایکسائیز انسپیکٹر نواب شاہ) ۔ ڈاکٹر سلیم الحق صدیقی ( سرکاری میڈیکل آفیسر) ۔ عبداللطیف مدنی ۔ یونس سیماب ۔ خلیق الرحمان زیب آرائیں ( اب کراچی میں ڈاکٹر ہیں ) ۔ سلیم آکاش مغل آرٹسٹ ۔ ظہیر شاہ جعفری مرحوم ۔ انصر محمود چیمہ ۔ محمد رمضان نایاب اعوان ۔ عبدالجبار مینجر حبیب بینک ۔ عبدالرحیم آرائیں مینجر ایم سی بی ۔ عطا حسین سہتو ۔ اور بہت سے جن کے نام یاد نہیں ۔  بزم کی ہر ہفتے ادبی نشستیں ہوتی تھیں ۔  بہرحال نور الحسن شیخ صاحب کا میڈیکل اسٹور باشعور ادبی شخصیات کی آماجگاہ بنا ہوتا تھا ۔  اور یہ نور الحسن شیخ صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا ہی اثر تھا کہ شہر کے معززین جوق در جوق ہماری بزم میں شامل ہوتے رہے ۔  مورخہ 25 اپریل 1985ء کو ٹاؤن کمیٹی محراب پور میں بزم ادب کی جانب سے "کل سندھ مشاعرہ "  منعقد کروایا گیا ۔  مورخہ 19 مئی 1985ء کو ہمارے کراچی کے ادباء و شعراء دوست " بزم علم و دانش کراچی" کے ارکان ہمارے پاس محراب پور تشریف لائے ، اور ان کے قیام و طعام میں بھی ہمارے ساتھ " نور الحسن شیخ صاحب" نے بھرپور تعاون کیا ۔   یعنی ہر قدم پر نور الحسن شیخ صاحب ہمارے ساتھ قدم بہ قدم چلے ، اس دوران ان کی رفیقہ حیات کا بھی انتقال ہوگیا ۔  وہ انتہائی کم گو ، خوش اخلاق ، اور سوچ سوچ کر دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والے مخلص دوست تھے ۔  کم و بیش بیس سال تک ہمارا اور نور الحسن شیخ صاحب کا ساتھ رہا ۔ وہ عمر میں ہم سے تقریباً تین چار سال بڑے تھے ۔ بالآخر رفتہ رفتہ وہ مختلف امراض کا شکار ہوتے چلے گئے ، اس کے باوجود وہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔  ان کی بیماری کے دنوں میں کئی بار عیادت کے لئے میں ان کے پاس ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوتا رہا ۔  بالآخر مؤرخہ 31 جولائی سال 2023ء بروز سوموار ، مطابق 12 محرم الحرام 1445 ھجری کو شام چار بجے وہ اپنے خالق حقیقی کو پیارے ہوگئے ۔ اور اگلے روز صبح آٹھ بجے نماز جنازہ ادا کرنےکے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ انہوں نے اپنے پیچھے چار بیٹیاں اور دو جوان اور باادب بیٹے،  مسرور الحسن شیخ اور کامران الحسن شیخ سوگوار چھوڑے ۔ جو اپنے والد کا نام روشن کر رہے ہیں ، اور ماشاءاللہ سب بیٹے بیٹیاں شادی شدہ اور اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔  بقول شاعر ۔         موت سے کس کو رستگاری ہے ۔         آج وہ ، کل ہماری  باری  ہے ۔    ( مرزا شوق لکھنوی)  تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔  تاریخ ۔ 22 اگست 2023ء ۔ بروز منگل ۔

محراب پور کی ادبی ڈائری ( کچھ باتیں کچھ یادیں) مرحوم نور الحسن شیخ کے حوالے سے ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق ۔ کراچی میں چھ سال قیام کے بعد سال 1983ء کے اوائل میں جب ہم اپنے شہر محراب پور سندھ واپس آئے تو شہر کی فضا میں کافی اجنبیت محسوس ہوئی ، نئے جوان ہونے والے بچوں کے لئے ہم اجنبی تھے اور ہمارے لئے وہ اجنبی تھے ۔ یہاں آکر سب سے پہلے ہمیں اپنے ہم خیال ادب دوست افراد ڈھونڈنے کی فکر ہوئی ، پرانے کلاس فیلو اور دوست منتشر ہو چکے تھے ، اور ادبی حوالے سے وہ ہمارے کسی کام کے بھی نہیں تھے ۔ صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے آپ جانتے ہیں ۔ عبدالمجید راہی ہمارے کلاس فیلو تھے اور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے مجھے شہر کی ایک معتبر شخصیت " نور الحسن شیخ " صاحب سے ملوایا ۔ نور الحسن شیخ انتہائی خوش اخلاق ، ملنسار ، باادب ، مطالعہ کے شوقین اور مخلص انسان ثابت ہوئے ۔ وہ دوستوں کے بہت اچھے دوست تھے ، موصوف کو میں پہلے بھی جانتا تھا لیکن تفصیلی ملاقات نہیں تھی ، وہ بہت ہی خوبصورت اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے ، اب ان سے مل کر دل کو حقیقی خوشی اور اطمینان محسوس ہوا ۔ شہر کے مشہور چوک میں مکی مسجد سے ملحق ان کا مشہور و معروف میڈیکل اسٹور ، " نور میڈیکل اسٹور" کے نام سے تھا ، جہاں پر شہر کی کریم یعنی تعلیم یافتہ باشعور لوگ اکثر مل بیٹھتے تھے اور ہر طرح کے مسائل زیرِ بحث آتے تھے ، ہم نے فوراً ہی مطلب کی بات کی اور ان کے مشورے سے ایک ادبی تنظیم " بزم ادب محراب پور" کے نام سے قائم کی گئی ۔ تنظیم کے صدر ۔ مغل عبدالغفور ساجد صاحب کو مقرر کیا گیا ، موصوف شہر کے چیئرمین تھے ، جو کہ انتہائی باذوق ، باادب اور فقیر منش انسان تھے ۔ ان کا ایک شعری مجموعہ " نوائے ساجد" کے نام سے محراب پور کے ہی ایک پریس مدینہ پرنٹنگ پریس نے شایع کیا تھا، اور یہ پریس نور میڈیکل اسٹور کے ساتھ ہی واقع تھا ، سوئے اتفاق کہ وہ پریس بند ہوگیا ۔ اس موقع پر شہر کی ایک اور باذوق علمی شخصیت جناب " سید گوہر شاہ " صاحب مرحوم ، نے فی البدیہ ایک شعر ارشاد فرمایا تھا جو کہ مجھے یاد ہے ۔۔۔۔ === کتاب کیا چھپی ہے جنابِ غفور کی ۔ === ویران ہو گئی ہے گلی شیخ نور کی ۔ اب ایسی باذوق شخصیات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں ۔ بزم ادب کے نائب صدر ۔ " سید اسد عباس شاہ " کو مقرر کیا گیا ، جو کہ ہمارے کلاس فیلو ڈاکٹر قمر عباس شاہ کے بڑے بھائی تھے ۔ جنرل سیکریٹری ۔ اس بندہء ناچیز " غلام محمد وامق" کو منتخب کیا گیا ، اور میرے ساتھ جوائنٹ سیکریٹری جناب " نور الحسن شیخ صاحب " کو بنایا گیا ۔ پریس سیکرٹری ۔ عبدالمجید راہی ( نامہ نگار روزنامہ جنگ کراچی) کو مقرر کیا گیا ۔ خازن ۔ ایڈووکیٹ ملک شیر دین بھٹی صاحب بنے ۔ جب کہ بزم کے سرپرست اعلیٰ " شوکت علی خان لودھی " کو مقرر کیا گیا ، جوکہ قبل ازیں بھی اور بعد ازاں بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے تھے ، اور ان کے بعد ان کے فرزند " فاروق احمد خان لودھی" بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے ۔ شہر کے دیگر بہت سے معززین نے بھی بزم کی رکنیت اختیار کی ، جن میں سے چند نام جو مجھے یاد ہیں درج ذیل ہیں ۔ سماجی رہنما خادم شہر " عمردین کمبوہ " جوکہ شہر کے نائب ناظم بھی رہے ۔ سندھی قوم پرست رہنما کامریڈ " قمر میمن " ۔ ان کے چھوٹے بھائی ایڈووکیٹ نور محمد میمن ( جو کہ ایک مدت سے اب تک لاپتہ ہیں) ۔ کاروباری شخصیت غلام مصطفیٰ سیٹھی ۔ زاہد شاہ ۔ ہمایوں شاہ ۔ شرافت ناز ۔ الیاس ہاشمی ( نامہ نگار روزنامہ امن ) ۔ کمبوہ اسلم آبشار مرحوم ۔ غلام رسول انمول مغل ( اب ایکسائیز انسپیکٹر نواب شاہ) ۔ ڈاکٹر سلیم الحق صدیقی ( سرکاری میڈیکل آفیسر) ۔ عبداللطیف مدنی ۔ یونس سیماب ۔ خلیق الرحمان زیب آرائیں ( اب کراچی میں ڈاکٹر ہیں ) ۔ سلیم آکاش مغل آرٹسٹ ۔ ظہیر شاہ جعفری مرحوم ۔ انصر محمود چیمہ ۔ محمد رمضان نایاب اعوان ۔ عبدالجبار مینجر حبیب بینک ۔ عبدالرحیم آرائیں مینجر ایم سی بی ۔ عطا حسین سہتو ۔ اور بہت سے جن کے نام یاد نہیں ۔ بزم کی ہر ہفتے ادبی نشستیں ہوتی تھیں ۔ بہرحال نور الحسن شیخ صاحب کا میڈیکل اسٹور باشعور ادبی شخصیات کی آماجگاہ بنا ہوتا تھا ۔ اور یہ نور الحسن شیخ صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا ہی اثر تھا کہ شہر کے معززین جوق در جوق ہماری بزم میں شامل ہوتے رہے ۔ مورخہ 25 اپریل 1985ء کو ٹاؤن کمیٹی محراب پور میں بزم ادب کی جانب سے "کل سندھ مشاعرہ " منعقد کروایا گیا ۔ مورخہ 19 مئی 1985ء کو ہمارے کراچی کے ادباء و شعراء دوست " بزم علم و دانش کراچی" کے ارکان ہمارے پاس محراب پور تشریف لائے ، اور ان کے قیام و طعام میں بھی ہمارے ساتھ " نور الحسن شیخ صاحب" نے بھرپور تعاون کیا ۔ یعنی ہر قدم پر نور الحسن شیخ صاحب ہمارے ساتھ قدم بہ قدم چلے ، اس دوران ان کی رفیقہ حیات کا بھی انتقال ہوگیا ۔ وہ انتہائی کم گو ، خوش اخلاق ، اور سوچ سوچ کر دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والے مخلص دوست تھے ۔ کم و بیش بیس سال تک ہمارا اور نور الحسن شیخ صاحب کا ساتھ رہا ۔ وہ عمر میں ہم سے تقریباً تین چار سال بڑے تھے ۔ بالآخر رفتہ رفتہ وہ مختلف امراض کا شکار ہوتے چلے گئے ، اس کے باوجود وہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔ ان کی بیماری کے دنوں میں کئی بار عیادت کے لئے میں ان کے پاس ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوتا رہا ۔ بالآخر مؤرخہ 31 جولائی سال 2023ء بروز سوموار ، مطابق 12 محرم الحرام 1445 ھجری کو شام چار بجے وہ اپنے خالق حقیقی کو پیارے ہوگئے ۔ اور اگلے روز صبح آٹھ بجے نماز جنازہ ادا کرنےکے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ انہوں نے اپنے پیچھے چار بیٹیاں اور دو جوان اور باادب بیٹے، مسرور الحسن شیخ اور کامران الحسن شیخ سوگوار چھوڑے ۔ جو اپنے والد کا نام روشن کر رہے ہیں ، اور ماشاءاللہ سب بیٹے بیٹیاں شادی شدہ اور اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔ بقول شاعر ۔ موت سے کس کو رستگاری ہے ۔ آج وہ ، کل ہماری باری ہے ۔ ( مرزا شوق لکھنوی) تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 22 اگست 2023ء ۔ بروز منگل ۔


 

کیا کربلا میں اہل بیت پر پانی بند کیا گیا تھا شیعہ کتب سے ؟؟؟  اگر واقعہ کربلا کے بارے میں چند ایک ہی کتب کا مطالعہ کر لیا جائے تو مختلف مصنفین کے بیان کردہ واقعات میں اس قدر تضاد اور تغائر نظر آتا ہے کہ قاری انگشت بدنداں ہوجاتا ہے دورِ حاضر کے مصنفین کی کتُب و رسائل سے قطع نظر تاریخ کی معتبر سمجھی جانے والی کُتب بھی اس واقعہ کے بارے مین اس قدر مختلف البیان ہیں کہ ایک کتاب کے بیان کا دوسری کتاب سے اختلاف تو رہا ایک طرف ان کتابوں کی اپنی روایتیں بھی اس واقعہ کے بارے میں اول تا آخر کسی بات پر متفق نظر نہیں آتیں ایک راوی میدان کربلا کو بے آب وگیارہ ریگستان ثابت کرتا نظر آتا ہے تو دوسرا اس کو بانس اور نرکل کا گھنا جنگل قرار دیتا ہے کبھی قاتلانِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو شہداء کی لاشوں کا مثلہ اور انتہائی درجہ کی توہین ، حتی کہ شہداء کی لاشوں پر گھوڑے دوڑاے ہوئے پیش کیا جاتا ہے اور کبھی انہی قاتلوں کو اپنے جرم پر نادم و شرمندہ اور مصرف نوحہ و گریاں دکھایا جاتا ہے ان من گھڑت داستانوں کے ایک منظر میں تو خاندانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچوں کو کربلا کی جھلسائی ہوئی گرمی میں شدت پیاس سے تڑپتے نظر آتے ہیں کہ بندش آپ کی وجہ سے ان کو پینے کےلیے پانی کا ایک گھونٹ نہ ملتا تھا جبکہ دوسری طرف افراد اس پانی سے نہ صرف یہ کہ غسل کرتے ہیں بلکہ مشک کی خوشبو سے بدن کو معطر کرتے ہین آج حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی پیاس کا واسطہ دے دے کر منتیں اور مرادیں مانگنے والی اس قوم نے یہ بھی احساس نہ کیا کہ اس طرح حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کی حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ تو پیاس سے تڑپتے رہے اور دوسری جانب پانی کا ایسا بے دریغ استعمال کہ نہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی افراد نے پانی سے غسل کیا ؟؟؟  ملاحظہ کیجیے !  تاریخ ابن کثیر میں ایک روایت کچھ یوں ہے کہ ” فعدل الحسین الٰی خمیۃ قد نصیت فاغتسل فیھا وتطیب بمسک کثیر ودخل بعدہ بعض الامراء فعلوا کما فعل “  پس امام حسین رضی اللہ عنہ خیمے کی طرف آئے جو نصب کیا گیا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور بہت سی مشک کی خوشبو لگائی اور ان کے بعد بہت سے امراء داخل ہوئے جنہوں نے آپ کی طرح کیا (یعنی غسل کیا اور خوشبو لگائی)  (البداية والنهاية ج٨ ص١٨۵)   اس روایت کو مقررین ہاتھ بھی نہیں لگاتے کیونکہ اگر اسے بیان کر دیا گیا تو پھر لوگوں کو رلانے کا کاروبار بند ہو جائے گا ، پھر کس منہ سے کہا جائے گا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔۔۔   شارح بخاری حضرت علامہ شریف الحق امجدی سے سوال کیا گیا کہ کیا امام حسین نے عاشورہ کی صبح کو غسل فرمایا تھا ؟؟؟ کیا یہ روایت صحیح ہے ؟؟؟  اگر صحیح ہے تو پھر خود علمائے اہل سنت جو بیان کرتے ہیں کہ تین دن تک حضرت امام حسین اور ان کے رفقا پر پانی بند کیا گیا ، یہاں تک کہ بچے پیاس سے بلکتے رہے  آپ جواباً لکھتے ہیں کہ  یہ روایت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے ، مثلاً بدایہ نہایہ میں ہے : ” فعدل الحسین الی خیمة قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بانورۃ ... الخ “ "اس کے بعد امام حسین خیمے میں گئے اور اس میں جا کر غسل فرمایا اور ہڑتال استعمال فرمائی اور بہت زیادہ مشک جسم پر ملی ان کے بعد بعض رفقا بھی اس خیمے میں گئے اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔۔۔ (البداية والنهاية ج٨ ص١٧٨)   اور اسی میں ایک صفحہ پہلے یہ بھی ہے :  ” وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا وصب علی وجھھا الماء “ حضرت زینب بے ہوش ہو کر گر پڑیں ، حضرت امام حسین ان کے قریب گئے اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا  (ایضاً ص١٧٧)   اور یہ بھی واضح ہے کہ ٧ محرم سے ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا دیا گیا تھا کہ امام حسین کے لشکر کے لوگ پانی نہ لے پائیں مگر یہ بھی روایت ہے کہ  اس پہرے کے باوجود حضرت عباس کچھ لوگوں کو لے کر کسی نہ کسی طرح سے پانی لایا کرتے تھے لیکن شہادت کے ذاکرین ہمارے مقررین آب بندی یعنی پانی بند ہونے کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں اگر نہ بیان کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمے گا۔۔۔  اس روایت میں اور وقت شہادت حضرت علی اکبر و حضرت علی اصغر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات (تضاد) نہیں ہو سکتا ہے کہ صبح کو پانی اس مقدار میں رہا ہو کہ سب نے غسل کر لیا پھر پانی ختم ہو گیا اور جنگ شروع ہو جانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادہ سختی کر دی ہو اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کہ حضرت عباس فرات سے مَشک بھر کر پانی لا رہے تھے کہ شہید ہوئے ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے مگر میں قطعی حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے ، حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں۔۔۔ (فتاوی شارح بخاری ج٢ ص٦٨/٦٧)  ملا باقر مجلسی شیعہ نے مجمع البحار میں اور اعثم الکوفی نے الفتوح ، لیلة العشوراء فی الحدیث الادب ، امالی للصدوق ، اور مدینة المعاجز میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے :  ” ثم قال لا صحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلیٰ بھم الفجر “   پھر امام رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو ، پانی پیو ، شاید تمھارے لیے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو ، نہاؤ اور اپنے لباس کو دھو لو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں ، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی۔۔۔ (بحارالانوار ج۴۴ ص٢١٧)  ” قال : ثم قال لأضحابه : قوموا فاشربوا من الماء ليكون آخر زادكم، و توضئوا و إغتسلوا، و إغسلوا “ (اثبات الھداة)  ” إن الحسين عليه السلام قال لأصحابه : قوموا فاشربوا من الماء يكون آخر زادکم، و توضئوا و اغتسلوا و اغسلوا ثيابكم لتكون أكفانكم ثم صلى بهم الفجر “ (امالی للصدوق ص٢٢١)(لیلة العشوراء فی الحدیث الادب ص٨٠) (مدینة المعاجز ص۴٧٣)  قارئین اگر واقعہ کربلا کے بارے میں گھڑے گئے دیگر افسانوں کو مدنظر رکھا جائے تو ان دونوں روایات میں سے کسی ایک کے بھی سچے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس دوسری روایت کی موجودگی میں پانی کی بندش اور قافلہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس کے افسانے کم از کم مشکوک ضرور ہو جاتے ہیں یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ سانحہ کربلا کے ضمن میں کتب تاریخ میں اس قسم کی متضاد روایات عام پائی جاتی ہیں  اور یہ بھی مشہور ہے کہ کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا ، یہ غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نھر کا کنارہ تھا طبری کی روایت میں ہے کہ  اصحاب امام حسین رضی اللہ عنہ کو تجربہ ہوا تھا کہ ذرا سا کھودنے پر پانی نکل آیا یہ بے پر کی اڑائی گئی کہ کربلا ریتلا علاقہ ہے  ” فقد بلغنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الٓا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فامنعھم من حفرالٓا بار مااستطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوامن ماء الفرات قطرۃ واحدة “ ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد و اصحاب رضی اللہ عنہم نے پانی پینے کے لئے کنویں کھود رکھے ہیں اور میدان میں مختلف جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبردار جب تمھیں میرا یہ خط مل جائے تو انہیں مزید کھدائی سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیاجائے کہ وہ فرات کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں۔۔۔ (الفتوح ج۵ ص٩١)  قارئین پانی بند ہونے والی صرف ایک طرف کی روایت کو بیان کرنا اور یہ کہنا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند پانی نہیں تھا، اس سے واضح ہے کہ مقصد صرف لوگوں کو رلانا اور محفل میں رنگ جمانا ہے اپنے مطلب کی روایات میں نمک مرچ لگا کر بیان کرنا اور دوسری روایات کو ہڑپ جانا  یہ کہاں کا انصاف ہے ؟؟؟

کیا کربلا میں اہل بیت پر پانی بند کیا گیا تھا شیعہ کتب سے ؟؟؟ اگر واقعہ کربلا کے بارے میں چند ایک ہی کتب کا مطالعہ کر لیا جائے تو مختلف مصنفین کے بیان کردہ واقعات میں اس قدر تضاد اور تغائر نظر آتا ہے کہ قاری انگشت بدنداں ہوجاتا ہے دورِ حاضر کے مصنفین کی کتُب و رسائل سے قطع نظر تاریخ کی معتبر سمجھی جانے والی کُتب بھی اس واقعہ کے بارے مین اس قدر مختلف البیان ہیں کہ ایک کتاب کے بیان کا دوسری کتاب سے اختلاف تو رہا ایک طرف ان کتابوں کی اپنی روایتیں بھی اس واقعہ کے بارے میں اول تا آخر کسی بات پر متفق نظر نہیں آتیں ایک راوی میدان کربلا کو بے آب وگیارہ ریگستان ثابت کرتا نظر آتا ہے تو دوسرا اس کو بانس اور نرکل کا گھنا جنگل قرار دیتا ہے کبھی قاتلانِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو شہداء کی لاشوں کا مثلہ اور انتہائی درجہ کی توہین ، حتی کہ شہداء کی لاشوں پر گھوڑے دوڑاے ہوئے پیش کیا جاتا ہے اور کبھی انہی قاتلوں کو اپنے جرم پر نادم و شرمندہ اور مصرف نوحہ و گریاں دکھایا جاتا ہے ان من گھڑت داستانوں کے ایک منظر میں تو خاندانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچوں کو کربلا کی جھلسائی ہوئی گرمی میں شدت پیاس سے تڑپتے نظر آتے ہیں کہ بندش آپ کی وجہ سے ان کو پینے کےلیے پانی کا ایک گھونٹ نہ ملتا تھا جبکہ دوسری طرف افراد اس پانی سے نہ صرف یہ کہ غسل کرتے ہیں بلکہ مشک کی خوشبو سے بدن کو معطر کرتے ہین آج حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی پیاس کا واسطہ دے دے کر منتیں اور مرادیں مانگنے والی اس قوم نے یہ بھی احساس نہ کیا کہ اس طرح حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کی حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ تو پیاس سے تڑپتے رہے اور دوسری جانب پانی کا ایسا بے دریغ استعمال کہ نہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی افراد نے پانی سے غسل کیا ؟؟؟ ملاحظہ کیجیے ! تاریخ ابن کثیر میں ایک روایت کچھ یوں ہے کہ ” فعدل الحسین الٰی خمیۃ قد نصیت فاغتسل فیھا وتطیب بمسک کثیر ودخل بعدہ بعض الامراء فعلوا کما فعل “ پس امام حسین رضی اللہ عنہ خیمے کی طرف آئے جو نصب کیا گیا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور بہت سی مشک کی خوشبو لگائی اور ان کے بعد بہت سے امراء داخل ہوئے جنہوں نے آپ کی طرح کیا (یعنی غسل کیا اور خوشبو لگائی) (البداية والنهاية ج٨ ص١٨۵) اس روایت کو مقررین ہاتھ بھی نہیں لگاتے کیونکہ اگر اسے بیان کر دیا گیا تو پھر لوگوں کو رلانے کا کاروبار بند ہو جائے گا ، پھر کس منہ سے کہا جائے گا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔۔۔ شارح بخاری حضرت علامہ شریف الحق امجدی سے سوال کیا گیا کہ کیا امام حسین نے عاشورہ کی صبح کو غسل فرمایا تھا ؟؟؟ کیا یہ روایت صحیح ہے ؟؟؟ اگر صحیح ہے تو پھر خود علمائے اہل سنت جو بیان کرتے ہیں کہ تین دن تک حضرت امام حسین اور ان کے رفقا پر پانی بند کیا گیا ، یہاں تک کہ بچے پیاس سے بلکتے رہے آپ جواباً لکھتے ہیں کہ یہ روایت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے ، مثلاً بدایہ نہایہ میں ہے : ” فعدل الحسین الی خیمة قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بانورۃ ... الخ “ "اس کے بعد امام حسین خیمے میں گئے اور اس میں جا کر غسل فرمایا اور ہڑتال استعمال فرمائی اور بہت زیادہ مشک جسم پر ملی ان کے بعد بعض رفقا بھی اس خیمے میں گئے اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔۔۔ (البداية والنهاية ج٨ ص١٧٨) اور اسی میں ایک صفحہ پہلے یہ بھی ہے : ” وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا وصب علی وجھھا الماء “ حضرت زینب بے ہوش ہو کر گر پڑیں ، حضرت امام حسین ان کے قریب گئے اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا (ایضاً ص١٧٧) اور یہ بھی واضح ہے کہ ٧ محرم سے ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا دیا گیا تھا کہ امام حسین کے لشکر کے لوگ پانی نہ لے پائیں مگر یہ بھی روایت ہے کہ اس پہرے کے باوجود حضرت عباس کچھ لوگوں کو لے کر کسی نہ کسی طرح سے پانی لایا کرتے تھے لیکن شہادت کے ذاکرین ہمارے مقررین آب بندی یعنی پانی بند ہونے کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں اگر نہ بیان کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمے گا۔۔۔ اس روایت میں اور وقت شہادت حضرت علی اکبر و حضرت علی اصغر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات (تضاد) نہیں ہو سکتا ہے کہ صبح کو پانی اس مقدار میں رہا ہو کہ سب نے غسل کر لیا پھر پانی ختم ہو گیا اور جنگ شروع ہو جانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادہ سختی کر دی ہو اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کہ حضرت عباس فرات سے مَشک بھر کر پانی لا رہے تھے کہ شہید ہوئے ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے مگر میں قطعی حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے ، حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں۔۔۔ (فتاوی شارح بخاری ج٢ ص٦٨/٦٧) ملا باقر مجلسی شیعہ نے مجمع البحار میں اور اعثم الکوفی نے الفتوح ، لیلة العشوراء فی الحدیث الادب ، امالی للصدوق ، اور مدینة المعاجز میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے : ” ثم قال لا صحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلیٰ بھم الفجر “ پھر امام رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو ، پانی پیو ، شاید تمھارے لیے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو ، نہاؤ اور اپنے لباس کو دھو لو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں ، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی۔۔۔ (بحارالانوار ج۴۴ ص٢١٧) ” قال : ثم قال لأضحابه : قوموا فاشربوا من الماء ليكون آخر زادكم، و توضئوا و إغتسلوا، و إغسلوا “ (اثبات الھداة) ” إن الحسين عليه السلام قال لأصحابه : قوموا فاشربوا من الماء يكون آخر زادکم، و توضئوا و اغتسلوا و اغسلوا ثيابكم لتكون أكفانكم ثم صلى بهم الفجر “ (امالی للصدوق ص٢٢١)(لیلة العشوراء فی الحدیث الادب ص٨٠) (مدینة المعاجز ص۴٧٣) قارئین اگر واقعہ کربلا کے بارے میں گھڑے گئے دیگر افسانوں کو مدنظر رکھا جائے تو ان دونوں روایات میں سے کسی ایک کے بھی سچے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس دوسری روایت کی موجودگی میں پانی کی بندش اور قافلہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس کے افسانے کم از کم مشکوک ضرور ہو جاتے ہیں یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ سانحہ کربلا کے ضمن میں کتب تاریخ میں اس قسم کی متضاد روایات عام پائی جاتی ہیں اور یہ بھی مشہور ہے کہ کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا ، یہ غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نھر کا کنارہ تھا طبری کی روایت میں ہے کہ اصحاب امام حسین رضی اللہ عنہ کو تجربہ ہوا تھا کہ ذرا سا کھودنے پر پانی نکل آیا یہ بے پر کی اڑائی گئی کہ کربلا ریتلا علاقہ ہے ” فقد بلغنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الٓا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فامنعھم من حفرالٓا بار مااستطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوامن ماء الفرات قطرۃ واحدة “ ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد و اصحاب رضی اللہ عنہم نے پانی پینے کے لئے کنویں کھود رکھے ہیں اور میدان میں مختلف جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبردار جب تمھیں میرا یہ خط مل جائے تو انہیں مزید کھدائی سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیاجائے کہ وہ فرات کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں۔۔۔ (الفتوح ج۵ ص٩١) قارئین پانی بند ہونے والی صرف ایک طرف کی روایت کو بیان کرنا اور یہ کہنا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند پانی نہیں تھا، اس سے واضح ہے کہ مقصد صرف لوگوں کو رلانا اور محفل میں رنگ جمانا ہے اپنے مطلب کی روایات میں نمک مرچ لگا کر بیان کرنا اور دوسری روایات کو ہڑپ جانا یہ کہاں کا انصاف ہے ؟؟؟

*پنج تن کی اصل حقیقت*  محترم قارئین ایک اصطلاح جو ہمارے برصغیر پاک و ہند میں دیگر بدعات و خرافات کی طرح بہت مقبول ہے وہ ہے پنج تن پاک. اس کے بارے میں عوامی ذہن یہ ہے کی اس اصطلاح کی بنیاد ایک حدیث مبارکہ ہے جسے حدیث کساء کے نام سے جانا جاتا ہے۔  مکمل تحریر پڑھ کر آپ سمجھ جائیں گے کہ اس اصطلاح و عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ھے بلکہ یہ منگھڑت اور خود ساختہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ اس اصطلاح و عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ لفظ یعنی (پنج تن)  عربی کا لفظ ہرگز نہیں ہے یہ فارسی لفظ ہے جس میں پنج کے معنی پانچ اور تن کے معنی جسم کے ہیں.  پانچ بُت (Five Idols) پنجتن (Five Worriors) پنچا دیوتا  اگر یہ لفظ پنجتن عربی کا ھوتا تو اس کے متبادل عربی کا کوئی تو لفظ ہونا چاہیئے تھا لیکن اس کے متبادل عربی کا بھی کوئی لفظ کسی ایک روایات تک میں بھی موجود نہیں ھے ! جس سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ یہ فارسی اختراع ہے روایات تک میں مزکور نہیں !  درحقیقت یہ ایرانی روافض کی ہی ایک چال اور ڈھونگ ہے جو بلکل جڑا ہوا ہے ان کے حب اہل بیت کے جھوٹے دعوے اور آیت تطہیر کی غلط اور خودساختہ تشریح سے جیسے آیت تطہیر میں شیعہ تحریف کرتے ہوئے حقیقی اہلبیت کو محروم کرتے ہیں ویسا ہی ڈھونگ حدیثیں گھڑ کے اور انکی خودساختہ تشریح کرتے ہوئے کرتے ہیں صرف اس اصطلاح و عقیدے کو تخلیق کرنے کے لیئے.  آیئے اب زرا ان کے دجل و فریب سے پردہ ٹھاتے ہیں. پنجتن میں شیعہ حسنین کریمینؓ کو تو شامل کرتے ہیں لیکن انہی حسنینؓ کی حقیقی ہمشیرہ ام کلثومؓ بنت علیؓ و فاطمہؓ کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں.  کبھی سوچا ہے ایسا کیوں؟  ایسا اس لیۓ کہ ملوکیت کے قیام و بقا۶ کیلۓ جو مذاہب اسلام کے نام پر گھڑے گۓ ان میں بھی قدیم پانچ بتوں کا نظریہ پنجتن بنانے کیلۓ یہودونصاریٰ کو اس پنجتن بت گروپ کیلۓ صرف ایک عورت کا کردار درکار تھا اس لیۓ حضرت علی کی بیٹی ام کلثومؓ کو پنجتن گروپ میں جگہ نا ملی   حقیقتا یہ شیعہ جن پانچ مقدس ہستیوں کو پنج تن کا مصداق بتاتے ہیں یہ بھی دجل و فریب ھے یہ اپنے اسلاف یہود و ہنود کے قدیم بتوں Five Idols کی پوجا ان ناموں کی آڑ لے کر کرتے ہیں اس حقیقت کو سمجھانے کے لیئے کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں غور فرمائیں  سورۃ نوح آیت نمبر ۲۳ مزکورہ آیت میں ود. سوا. یغوث. یعوق اور نصر کا زکر ہے یہ وہ پانچ بت تھے جن کی پوجا حضرت نوح علیہ سلام کی قوم نے کی.  ان میں سوا عورت تھی اور باقی چار مرد.  تاریخی طور پر یہ پہلے پنج تن تھے. ان کو یاد رکھنے کے لیئے ان کے بت بنائے گئے اور پھر آہستہ آہستہ ان کی پرستش شروع ہوگئی.  اور اس طرح یہ قوم نوحؑ کے گمراہوں کے مقدس پنج تن قرار پائے.  مثال ۲ سمورائیوں کے پنج تن  انلیاک. ان کی. نانا. اتو. ماما ان یں ماما دیوی تھی اور باقی دیوتا جبکہ بعد میں نانا کو بھی دیوی انا جانے لگا.  مثال ۳ اکاویوں کے پنج تن  ننگے. مولکے. ہیا. اروکی. ادو ان میں ننگے دیوی تھی اور باقی دیوتا  مثال۴ اہل بابل کے پجن تن  شمس. ثانی. نیبو. امراتوک. انی ان میں سے شمس دیوی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج تک عربی لغت میں شمس مؤنث ہے. باقی دیوتا تھے.  مثال۵ قدیم مصر کے پج تن  اسیرس. ہورس. اسلیث. را. ایتوم ان میں اسلیث دیوی تھی اور باقی دیوتا.  مثال۶ چینی پنج تن  یونگ. سن. سکائے. مون. ایئر ان میں یونگ دھرتی ماں یعنی دیوی اور باقی دیوتا تھے.  مثال ۷ ہندو پنج تن پنچادیوتا پاروتی. ہری ہرا. براہما. وشنو. مہیش دیشو ان میں پاروتی دیوی ہے اور باقی دیوتا.  مثال ۸ ایرانی پنج تن آمورآماہزدا. انگرینو. آتش. شمس. زمین ان میں زمین دیوی ہے اور باقی دیوتا.  مثال ۹ یونانی پنج تن ذیوس. پوزیدان. اپراش. اپولو. دیمتار  مثال۱۰ رومی پنج تن مرکری. اپولو. سیروفا. بیجی کش. سیرنونو ان میں سیروفا دیوی اور اقی دیوتا تھے.  مثال ۱۱ توتانی پنج تن. |کیرمان ایران| تھور. ویریون. مزج. بلدور. فریر ان میں فریر دیوی اور باقی دیوتا ہیں  مثال ۱۲ سالوی پنج تن |ہندوستان| پیرکوماس. ادکوست. سوان. دولوس. دیمی ودال ان میں سوان دیوی اور باقی دیوتا ہیں.  مثال ۱۳ رام بھگتی پنج تن رام. لکشمن. لد. کیشو. سیتا ان میں سیتا دیوی ہے اور لد اور کیشو اس کے بچے . رام سیتا کا شوہر ہے اور لکشمن رام کا وفادار بھائی.  محترم قارعین جومثالیں آپ کو پیش کیں ان کو پڑھیں اور غور کریں کہ ان میں کس قدر مماثلت ہے شیعہ کے پنج تن سے کہ سب میں ۱ عورت اور باقی چار مرد ہیں. ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کے پنجتن کی بھی بنیاد ویسی ہی ہے جیسے ان کے پیش رو کفار کی تھی.  بیشک الکفر ملت واحدہ  ان شیعوں کی دیکھا دیکھی سنی سنائی پر عمل کرنے والے قرآن سے دور مشرک و اہل بدعت موجود فرقوں نے بھی اس پنج تن کی پرستش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس قدیم مشرکانہ عقیدے کا طوق اپنی گردن میں پھنسا لیا ھے اگرچہ ان پنج تن کے علاوہ بھی ان دونوں گروہوں نے اپنے دیگر بیشمار بُت تراش رکھے ہیں جن کے بارے میں غلو سے کام لے کر انہیں خدائی صفات کا حامل قرار دیتے ہیں اور شرک کے مرتکب ہوتے ہیں "مولوی اور پیر مسلمانوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کرتے ھیں" (مفہوم القرآن) سوچنا جرم نہیں ہے

*پنج تن کی اصل حقیقت* محترم قارئین ایک اصطلاح جو ہمارے برصغیر پاک و ہند میں دیگر بدعات و خرافات کی طرح بہت مقبول ہے وہ ہے پنج تن پاک. اس کے بارے میں عوامی ذہن یہ ہے کی اس اصطلاح کی بنیاد ایک حدیث مبارکہ ہے جسے حدیث کساء کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مکمل تحریر پڑھ کر آپ سمجھ جائیں گے کہ اس اصطلاح و عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ھے بلکہ یہ منگھڑت اور خود ساختہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ اس اصطلاح و عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ لفظ یعنی (پنج تن) عربی کا لفظ ہرگز نہیں ہے یہ فارسی لفظ ہے جس میں پنج کے معنی پانچ اور تن کے معنی جسم کے ہیں. پانچ بُت (Five Idols) پنجتن (Five Worriors) پنچا دیوتا اگر یہ لفظ پنجتن عربی کا ھوتا تو اس کے متبادل عربی کا کوئی تو لفظ ہونا چاہیئے تھا لیکن اس کے متبادل عربی کا بھی کوئی لفظ کسی ایک روایات تک میں بھی موجود نہیں ھے ! جس سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ یہ فارسی اختراع ہے روایات تک میں مزکور نہیں ! درحقیقت یہ ایرانی روافض کی ہی ایک چال اور ڈھونگ ہے جو بلکل جڑا ہوا ہے ان کے حب اہل بیت کے جھوٹے دعوے اور آیت تطہیر کی غلط اور خودساختہ تشریح سے جیسے آیت تطہیر میں شیعہ تحریف کرتے ہوئے حقیقی اہلبیت کو محروم کرتے ہیں ویسا ہی ڈھونگ حدیثیں گھڑ کے اور انکی خودساختہ تشریح کرتے ہوئے کرتے ہیں صرف اس اصطلاح و عقیدے کو تخلیق کرنے کے لیئے. آیئے اب زرا ان کے دجل و فریب سے پردہ ٹھاتے ہیں. پنجتن میں شیعہ حسنین کریمینؓ کو تو شامل کرتے ہیں لیکن انہی حسنینؓ کی حقیقی ہمشیرہ ام کلثومؓ بنت علیؓ و فاطمہؓ کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں. کبھی سوچا ہے ایسا کیوں؟ ایسا اس لیۓ کہ ملوکیت کے قیام و بقا۶ کیلۓ جو مذاہب اسلام کے نام پر گھڑے گۓ ان میں بھی قدیم پانچ بتوں کا نظریہ پنجتن بنانے کیلۓ یہودونصاریٰ کو اس پنجتن بت گروپ کیلۓ صرف ایک عورت کا کردار درکار تھا اس لیۓ حضرت علی کی بیٹی ام کلثومؓ کو پنجتن گروپ میں جگہ نا ملی حقیقتا یہ شیعہ جن پانچ مقدس ہستیوں کو پنج تن کا مصداق بتاتے ہیں یہ بھی دجل و فریب ھے یہ اپنے اسلاف یہود و ہنود کے قدیم بتوں Five Idols کی پوجا ان ناموں کی آڑ لے کر کرتے ہیں اس حقیقت کو سمجھانے کے لیئے کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں غور فرمائیں سورۃ نوح آیت نمبر ۲۳ مزکورہ آیت میں ود. سوا. یغوث. یعوق اور نصر کا زکر ہے یہ وہ پانچ بت تھے جن کی پوجا حضرت نوح علیہ سلام کی قوم نے کی. ان میں سوا عورت تھی اور باقی چار مرد. تاریخی طور پر یہ پہلے پنج تن تھے. ان کو یاد رکھنے کے لیئے ان کے بت بنائے گئے اور پھر آہستہ آہستہ ان کی پرستش شروع ہوگئی. اور اس طرح یہ قوم نوحؑ کے گمراہوں کے مقدس پنج تن قرار پائے. مثال ۲ سمورائیوں کے پنج تن انلیاک. ان کی. نانا. اتو. ماما ان یں ماما دیوی تھی اور باقی دیوتا جبکہ بعد میں نانا کو بھی دیوی انا جانے لگا. مثال ۳ اکاویوں کے پنج تن ننگے. مولکے. ہیا. اروکی. ادو ان میں ننگے دیوی تھی اور باقی دیوتا مثال۴ اہل بابل کے پجن تن شمس. ثانی. نیبو. امراتوک. انی ان میں سے شمس دیوی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج تک عربی لغت میں شمس مؤنث ہے. باقی دیوتا تھے. مثال۵ قدیم مصر کے پج تن اسیرس. ہورس. اسلیث. را. ایتوم ان میں اسلیث دیوی تھی اور باقی دیوتا. مثال۶ چینی پنج تن یونگ. سن. سکائے. مون. ایئر ان میں یونگ دھرتی ماں یعنی دیوی اور باقی دیوتا تھے. مثال ۷ ہندو پنج تن پنچادیوتا پاروتی. ہری ہرا. براہما. وشنو. مہیش دیشو ان میں پاروتی دیوی ہے اور باقی دیوتا. مثال ۸ ایرانی پنج تن آمورآماہزدا. انگرینو. آتش. شمس. زمین ان میں زمین دیوی ہے اور باقی دیوتا. مثال ۹ یونانی پنج تن ذیوس. پوزیدان. اپراش. اپولو. دیمتار مثال۱۰ رومی پنج تن مرکری. اپولو. سیروفا. بیجی کش. سیرنونو ان میں سیروفا دیوی اور اقی دیوتا تھے. مثال ۱۱ توتانی پنج تن. |کیرمان ایران| تھور. ویریون. مزج. بلدور. فریر ان میں فریر دیوی اور باقی دیوتا ہیں مثال ۱۲ سالوی پنج تن |ہندوستان| پیرکوماس. ادکوست. سوان. دولوس. دیمی ودال ان میں سوان دیوی اور باقی دیوتا ہیں. مثال ۱۳ رام بھگتی پنج تن رام. لکشمن. لد. کیشو. سیتا ان میں سیتا دیوی ہے اور لد اور کیشو اس کے بچے . رام سیتا کا شوہر ہے اور لکشمن رام کا وفادار بھائی. محترم قارعین جومثالیں آپ کو پیش کیں ان کو پڑھیں اور غور کریں کہ ان میں کس قدر مماثلت ہے شیعہ کے پنج تن سے کہ سب میں ۱ عورت اور باقی چار مرد ہیں. ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کے پنجتن کی بھی بنیاد ویسی ہی ہے جیسے ان کے پیش رو کفار کی تھی. بیشک الکفر ملت واحدہ ان شیعوں کی دیکھا دیکھی سنی سنائی پر عمل کرنے والے قرآن سے دور مشرک و اہل بدعت موجود فرقوں نے بھی اس پنج تن کی پرستش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس قدیم مشرکانہ عقیدے کا طوق اپنی گردن میں پھنسا لیا ھے اگرچہ ان پنج تن کے علاوہ بھی ان دونوں گروہوں نے اپنے دیگر بیشمار بُت تراش رکھے ہیں جن کے بارے میں غلو سے کام لے کر انہیں خدائی صفات کا حامل قرار دیتے ہیں اور شرک کے مرتکب ہوتے ہیں "مولوی اور پیر مسلمانوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کرتے ھیں" (مفہوم القرآن) سوچنا جرم نہیں ہے

ہریانوی زبان م " الگت " جو کہ مجاہد ننکانوی صاحب نے لکھی ہے ۔  اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے ، معروف صحافی ادیب و قلمکار ، محترم سہیل احمد صدیقی صاحب کی فرمائش پر ۔ ذیل میں اصل نظم بھی درج ہے ۔ از۔ غلام محمد وامق ۔         نظم ۔۔۔۔  فرصت ۔ فراغت ۔        ترجمہ ۔ غلام محمد وامق ۔   بس یوں ہی دل لگی کی خاطر بات کہی تھی میں نے تو ۔  اے میری دادی یہ تو بتا کہ انڈیا کیوں تقسیم ہوا ؟  اور کیسے پاکستان بنا ؟   اتنی سی بس بات پہ دادی کی آنکھوں سے ۔ جیسے دریا رواں ہوئے ہوں ۔  حوصلہ کر کے بھیگی آنکھوں اور کانپتے ہونٹوں سے ۔  دادی بولی ۔۔۔۔  میرے بیٹے مت پوچھ وہ لمحے ،  کیسے پاکستان بنا تھا ،  یوں ہی تو یہ نہیں بنا تھا ۔  تلواروں نے لہو بہایا ،  دنیا بھر میں خون بہا تھا ۔   ماؤں کے تو لال کٹے تھے ،  بیٹیوں کے ارمان لٹے تھے ،  پانی کے جتنے کنویں تھے ،  لاشوں سے وہ سارے اٹے تھے ۔   ہم "  ھابڑی" گاؤں سے نکلے تھے ،  راہ میں ہم نے ، دشمن کے کئی وار سہے تھے ،  اور رستے میں سکھوں نے بھی ،  انسانوں کا لہو پیا تھا ۔   چھپ چھپا کر نکلے تھے ہم ،  لٹتے کٹتے اک دن آخر ، واہگہ پہنچے ،  ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا ،  شکرانے کا سجدہ کیا تھا ۔   کلمہ پڑھتے ، نعرے لگاتے ،  ہم پاکستان آئے تھے ،  بچھڑے ہوئے اپنوں کا دکھ تھا ۔  آنکھوں میں سب کے ،  آنسو بھرے تھے ۔  پھر بھی زباں سے ہم کہتے تھے ،  جیوے ہمارا پاکستان ۔  جیوے ہمارا پاکستان ۔   شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔  تاریخ ۔ 07 اپریل 2023 ء بروز جمعرات ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔       *اُلگت۔۔۔۔۔۔ مجاہد ننکانوی*      ہریانوی(رانگڑی) زبان   نیوئیں چسکالین کے مارے بات کری تھی منےتو دادی ری ایک بات بھتائیے انڈیا کیوکر بنڈ گیاتھا؟؟؟ کیوکر پاکستان بنیا تھا؟؟   اتنی بات ءِ پوچھی تھی دادی کی آنکھاں تھے جیوکر دریا چال پڑھے ہوں حوصلہ کرکے بھیجی انکھاں  کانپ دے ہونٹھاں گیلاں  دادی بولی پوت کے پوچھے  ان گھڑیاں کا   کیوکر پاکستان بنیا تھا نیوئیں تو نھی بن گیا تھا تلواراں چالیں  لہو  بہیا  جگ خونم خون ھویا تھا  ماواں کے لال کٹے تھے  دھیاں کے پلو کھسے تھے پانی آلے سارے کنوے لھاشاں کے گیل اٹے تھے  ہابڑی گام تھےچالے تھے رستے میں ھم نیں دشمن کے کئی وار سہے تھے راہ مینھ تھے سکھاں کے ڈیرے جو پانی سمجھ کے لہو پیویں تھے لھکدے چھپدے لکڑے تھے ہم بچدے کٹدے ایک دن واہگہ آ لاگے ہم نیں سکھ کا سانس لیا تھا شکرانے کا سجدہ دیا تھا کلمہ پڈھدے نعرے لاندے پاکستان میں آئے تھے  بچھڑنیاں کا دکھ کھاوے تھا آنکھاں میں آنجھو بھر رھے تھے پھیر بھی منہہ تھے یوہ لکرے تھا جیوے مھارا پاکستان جیوے مھارا پاکستان  #مجاہد ننکانوی

ہریانوی زبان م " الگت " جو کہ مجاہد ننکانوی صاحب نے لکھی ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے ، معروف صحافی ادیب و قلمکار ، محترم سہیل احمد صدیقی صاحب کی فرمائش پر ۔ ذیل میں اصل نظم بھی درج ہے ۔ از۔ غلام محمد وامق ۔ نظم ۔۔۔۔ فرصت ۔ فراغت ۔ ترجمہ ۔ غلام محمد وامق ۔ بس یوں ہی دل لگی کی خاطر بات کہی تھی میں نے تو ۔ اے میری دادی یہ تو بتا کہ انڈیا کیوں تقسیم ہوا ؟ اور کیسے پاکستان بنا ؟ اتنی سی بس بات پہ دادی کی آنکھوں سے ۔ جیسے دریا رواں ہوئے ہوں ۔ حوصلہ کر کے بھیگی آنکھوں اور کانپتے ہونٹوں سے ۔ دادی بولی ۔۔۔۔ میرے بیٹے مت پوچھ وہ لمحے ، کیسے پاکستان بنا تھا ، یوں ہی تو یہ نہیں بنا تھا ۔ تلواروں نے لہو بہایا ، دنیا بھر میں خون بہا تھا ۔ ماؤں کے تو لال کٹے تھے ، بیٹیوں کے ارمان لٹے تھے ، پانی کے جتنے کنویں تھے ، لاشوں سے وہ سارے اٹے تھے ۔ ہم " ھابڑی" گاؤں سے نکلے تھے ، راہ میں ہم نے ، دشمن کے کئی وار سہے تھے ، اور رستے میں سکھوں نے بھی ، انسانوں کا لہو پیا تھا ۔ چھپ چھپا کر نکلے تھے ہم ، لٹتے کٹتے اک دن آخر ، واہگہ پہنچے ، ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا ، شکرانے کا سجدہ کیا تھا ۔ کلمہ پڑھتے ، نعرے لگاتے ، ہم پاکستان آئے تھے ، بچھڑے ہوئے اپنوں کا دکھ تھا ۔ آنکھوں میں سب کے ، آنسو بھرے تھے ۔ پھر بھی زباں سے ہم کہتے تھے ، جیوے ہمارا پاکستان ۔ جیوے ہمارا پاکستان ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ تاریخ ۔ 07 اپریل 2023 ء بروز جمعرات ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *اُلگت۔۔۔۔۔۔ مجاہد ننکانوی* ہریانوی(رانگڑی) زبان نیوئیں چسکالین کے مارے بات کری تھی منےتو دادی ری ایک بات بھتائیے انڈیا کیوکر بنڈ گیاتھا؟؟؟ کیوکر پاکستان بنیا تھا؟؟ اتنی بات ءِ پوچھی تھی دادی کی آنکھاں تھے جیوکر دریا چال پڑھے ہوں حوصلہ کرکے بھیجی انکھاں کانپ دے ہونٹھاں گیلاں دادی بولی پوت کے پوچھے ان گھڑیاں کا کیوکر پاکستان بنیا تھا نیوئیں تو نھی بن گیا تھا تلواراں چالیں لہو بہیا جگ خونم خون ھویا تھا ماواں کے لال کٹے تھے دھیاں کے پلو کھسے تھے پانی آلے سارے کنوے لھاشاں کے گیل اٹے تھے ہابڑی گام تھےچالے تھے رستے میں ھم نیں دشمن کے کئی وار سہے تھے راہ مینھ تھے سکھاں کے ڈیرے جو پانی سمجھ کے لہو پیویں تھے لھکدے چھپدے لکڑے تھے ہم بچدے کٹدے ایک دن واہگہ آ لاگے ہم نیں سکھ کا سانس لیا تھا شکرانے کا سجدہ دیا تھا کلمہ پڈھدے نعرے لاندے پاکستان میں آئے تھے بچھڑنیاں کا دکھ کھاوے تھا آنکھاں میں آنجھو بھر رھے تھے پھیر بھی منہہ تھے یوہ لکرے تھا جیوے مھارا پاکستان جیوے مھارا پاکستان #مجاہد ننکانوی

 ہریانوی زبان میں ایک نظم ہے " الگت " جو کہ مجاہد ننکانوی صاحب نے لکھی ہے ۔ 

اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے ، معروف صحافی ادیب و قلمکار ، محترم سہیل احمد صدیقی صاحب کی فرمائش پر ۔ ذیل میں اصل نظم بھی درج ہے ۔ از۔ غلام محمد وامق ۔ 


      نظم ۔۔۔۔  فرصت ۔ فراغت ۔ 

      ترجمہ ۔ غلام محمد وامق ۔ 


بس یوں ہی دل لگی کی خاطر بات کہی تھی میں نے تو ۔ 

اے میری دادی یہ تو بتا کہ انڈیا کیوں تقسیم ہوا ؟ 

اور کیسے پاکستان بنا ؟ 


اتنی سی بس بات پہ دادی کی آنکھوں سے ۔

جیسے دریا رواں ہوئے ہوں ۔ 

حوصلہ کر کے بھیگی آنکھوں اور کانپتے ہونٹوں سے ۔ 

دادی بولی ۔۔۔۔ 

میرے بیٹے مت پوچھ وہ لمحے ، 

کیسے پاکستان بنا تھا ، 

یوں ہی تو یہ نہیں بنا تھا ۔ 

تلواروں نے لہو بہایا ، 

دنیا بھر میں خون بہا تھا ۔ 


ماؤں کے تو لال کٹے تھے ، 

بیٹیوں کے ارمان لٹے تھے ، 

پانی کے جتنے کنویں تھے ، 

لاشوں سے وہ سارے اٹے تھے ۔ 


ہم "  ھابڑی" گاؤں سے نکلے تھے ، 

راہ میں ہم نے ، دشمن کے کئی وار سہے تھے ، 

اور رستے میں سکھوں نے بھی ، 

انسانوں کا لہو پیا تھا ۔ 


چھپ چھپا کر نکلے تھے ہم ، 

لٹتے کٹتے اک دن آخر ، واہگہ پہنچے ، 

ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا ، 

شکرانے کا سجدہ کیا تھا ۔ 


کلمہ پڑھتے ، نعرے لگاتے ، 

ہم پاکستان آئے تھے ، 

بچھڑے ہوئے اپنوں کا دکھ تھا ۔ 

آنکھوں میں سب کے ، 

آنسو بھرے تھے ۔ 

پھر بھی زباں سے ہم کہتے تھے ، 

جیوے ہمارا پاکستان ۔ 

جیوے ہمارا پاکستان ۔ 


شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ 

تاریخ ۔ 07 اپریل 2023 ء بروز جمعرات ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


    *اُلگت۔۔۔۔۔۔ مجاہد ننکانوی*

     ہریانوی(رانگڑی) زبان 


نیوئیں چسکالین کے مارے

بات کری تھی منےتو

دادی ری ایک بات بھتائیے

انڈیا کیوکر بنڈ گیاتھا؟؟؟

کیوکر پاکستان بنیا تھا؟؟ 


اتنی بات ءِ پوچھی تھی

دادی کی آنکھاں تھے

جیوکر دریا چال پڑھے ہوں

حوصلہ کرکے

بھیجی انکھاں 

کانپ دے ہونٹھاں گیلاں 

دادی بولی

پوت کے پوچھے 

ان گھڑیاں کا 


کیوکر پاکستان بنیا تھا

نیوئیں تو نھی بن گیا تھا

تلواراں چالیں  لہو  بہیا 

جگ خونم خون ھویا تھا


ماواں کے لال کٹے تھے 

دھیاں کے پلو کھسے تھے

پانی آلے سارے کنوے

لھاشاں کے گیل اٹے تھے


ہابڑی گام تھےچالے تھے

رستے میں ھم نیں

دشمن کے کئی وار سہے تھے

راہ مینھ تھے سکھاں کے ڈیرے

جو پانی سمجھ کے

لہو پیویں تھے

لھکدے چھپدے لکڑے تھے ہم

بچدے کٹدے

ایک دن واہگہ آ لاگے

ہم نیں سکھ کا سانس لیا تھا

شکرانے کا سجدہ دیا تھا

کلمہ پڈھدے نعرے لاندے

پاکستان میں آئے تھے


بچھڑنیاں کا دکھ کھاوے تھا

آنکھاں میں آنجھو بھر رھے تھے

پھیر بھی منہہ تھے

یوہ لکرے تھا

جیوے مھارا پاکستان

جیوے مھارا پاکستان


#مجاہد ننکانوی

۔۔۔۔۔۔۔ کراچی سندھ کا ٹائٹینک ۔۔۔۔۔۔۔  جو کسی کو بھی یاد نہیں ۔ ( تاریخ کے اوراق سے)   برطانیہ کا بحری جہاز Titanic جو اپنے پہلے سفر پر برطانیہ کے شہر ساؤتھمپٹن سے امریکہ کے شہر نیویارک جارہا تھا ، یہ جہاز جسے ناقابلِ شکست کہا جا رہا تھا ، اور اس کے بنانے والوں کا دعویٰ تھا کہ " خدا بھی اسے ڈبو نہیں سکتا ( نعوذ بااللہ) "  14 اور 15، اپریل 1912ء کی درمیانی شب تقریباً اڈھائی بجے بحر اوقیانوس میں ایک برفانی تودے ( آئس برگ) سے ٹکرا کر دو ٹکڑے ہو کر ڈوب گیا تھا ، اس حادثے میں 1500 کے قریب مسافر ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس حادثے کو آج کا ہر شخص جانتا ہے، اور اس سے جڑی معمولی سی چیز یا واقعہ کا ذکر بھی بڑے پر جوش انداز میں کیا جاتا ہے ۔  لیکن اس واقعہ سے تقریباً 26 سال قبل سال 1886ء میں برطانیہ کا ہی تیار کردہ ایک تجارتی بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پہنچا، اس جہاز کو " واٹرنا " کا نام دیا گیا تھا، اس سے تین سال قبل تک سندھ ، بمبئی ، کچھ ، اور کاٹھیاواڑ میں ہیضہ ، طاعون ، اور قحط کی بیماریاں پھیلنے کی وجہ سے لوگ سفر نہیں کر سکے تھے ۔  اور اب جب کہ ان بیماریوں سے جان چھوٹ چکی تھی تو یہاں کے آسودہ حال لوگوں نے اپنی ملتوی شدہ تقاریب کو دوبارہ سے بحال کر لیا، چنانچہ سندھ کے اکثر لوگ اپنی شادیوں اور دیگر تقریبات کے انعقاد کے لئے کراچی سے بمبئی، کچھ ، اور کاٹھیاواڑ جانا چاہ رہے تھے ۔  اس لئے جہاز میں سوار ہونے والوں میں 18 راجکمار ( مہاراجوں کے بیٹے) بھی تھے جو کہ بغرض شادی کچھ ، کاٹھیاواڑ ، اور بمبئی جا رہے تھے ، ان کے ساتھ ایک ہزار کے قریب باراتی تھے، اور بہت سے طالب علم بھی تھے ۔  یہ بدقسمت جہاز جمعرات 5 نومبر 1886ء کو، 1400 سے زائد ہنستے مسکراتے لوگوں کو لے کر اپنے پہلے اور آخری سفر پر کراچی کی بندرگاہ سے روانہ ہوا ۔  آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جہاز گجرات کی بندرگاہ پر پہنچا تو سمندر نے طوفانی کیفیت اختیار کر لی، وہاں پر موجود جہازراں کمپنی کے ایجنٹ نے کپتان کو طوفان کے تھمنے تک وہاں رکنے کا مشورہ دیا، لیکن جہاز کے ضدی کپتان نے ایجنٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھا اور مانگرول کی طرف روانہ ہوگیا ۔ ( شاید اسے نیا جہاز چلانے کا شوق تھا یا پھر حد سے زیادہ خوداعتمادی تھی ) ۔  بہرحال آگے جاکر یہ جہاز سمندر کی تیز و تند لہروں میں کسی کھلونے کی طرح ہچکولے کھانے لگا ۔ اور پھر یہ جہاز نہ تو مانگرول پہنچا اور نا ہی اس کی کوئی خبر ملی ۔  یہ معمہ آج تک حل نہ ہوسکا ۔   بحوالہ کتاب ۔ کراچی کی کہانی، تاریخ کی زبانی, از ۔  کھتری عبدالغفور  بشکریہ ۔ عثمان جامعی صاحب کراچی ( معروف صحافی، ادیب و شاعر)  Usman Jamaie جنہوں نے مجھے کتاب پڑھنے کو دی ۔  تحریر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔  تاریخ ۔ 15 جولائی 2023 ء ۔ بروز ہفتہ ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔ کراچی سندھ کا ٹائٹینک ۔۔۔۔۔۔۔ جو کسی کو بھی یاد نہیں ۔ ( تاریخ کے اوراق سے) برطانیہ کا بحری جہاز Titanic جو اپنے پہلے سفر پر برطانیہ کے شہر ساؤتھمپٹن سے امریکہ کے شہر نیویارک جارہا تھا ، یہ جہاز جسے ناقابلِ شکست کہا جا رہا تھا ، اور اس کے بنانے والوں کا دعویٰ تھا کہ " خدا بھی اسے ڈبو نہیں سکتا ( نعوذ بااللہ) " 14 اور 15، اپریل 1912ء کی درمیانی شب تقریباً اڈھائی بجے بحر اوقیانوس میں ایک برفانی تودے ( آئس برگ) سے ٹکرا کر دو ٹکڑے ہو کر ڈوب گیا تھا ، اس حادثے میں 1500 کے قریب مسافر ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس حادثے کو آج کا ہر شخص جانتا ہے، اور اس سے جڑی معمولی سی چیز یا واقعہ کا ذکر بھی بڑے پر جوش انداز میں کیا جاتا ہے ۔ لیکن اس واقعہ سے تقریباً 26 سال قبل سال 1886ء میں برطانیہ کا ہی تیار کردہ ایک تجارتی بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پہنچا، اس جہاز کو " واٹرنا " کا نام دیا گیا تھا، اس سے تین سال قبل تک سندھ ، بمبئی ، کچھ ، اور کاٹھیاواڑ میں ہیضہ ، طاعون ، اور قحط کی بیماریاں پھیلنے کی وجہ سے لوگ سفر نہیں کر سکے تھے ۔ اور اب جب کہ ان بیماریوں سے جان چھوٹ چکی تھی تو یہاں کے آسودہ حال لوگوں نے اپنی ملتوی شدہ تقاریب کو دوبارہ سے بحال کر لیا، چنانچہ سندھ کے اکثر لوگ اپنی شادیوں اور دیگر تقریبات کے انعقاد کے لئے کراچی سے بمبئی، کچھ ، اور کاٹھیاواڑ جانا چاہ رہے تھے ۔ اس لئے جہاز میں سوار ہونے والوں میں 18 راجکمار ( مہاراجوں کے بیٹے) بھی تھے جو کہ بغرض شادی کچھ ، کاٹھیاواڑ ، اور بمبئی جا رہے تھے ، ان کے ساتھ ایک ہزار کے قریب باراتی تھے، اور بہت سے طالب علم بھی تھے ۔ یہ بدقسمت جہاز جمعرات 5 نومبر 1886ء کو، 1400 سے زائد ہنستے مسکراتے لوگوں کو لے کر اپنے پہلے اور آخری سفر پر کراچی کی بندرگاہ سے روانہ ہوا ۔ آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جہاز گجرات کی بندرگاہ پر پہنچا تو سمندر نے طوفانی کیفیت اختیار کر لی، وہاں پر موجود جہازراں کمپنی کے ایجنٹ نے کپتان کو طوفان کے تھمنے تک وہاں رکنے کا مشورہ دیا، لیکن جہاز کے ضدی کپتان نے ایجنٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھا اور مانگرول کی طرف روانہ ہوگیا ۔ ( شاید اسے نیا جہاز چلانے کا شوق تھا یا پھر حد سے زیادہ خوداعتمادی تھی ) ۔ بہرحال آگے جاکر یہ جہاز سمندر کی تیز و تند لہروں میں کسی کھلونے کی طرح ہچکولے کھانے لگا ۔ اور پھر یہ جہاز نہ تو مانگرول پہنچا اور نا ہی اس کی کوئی خبر ملی ۔ یہ معمہ آج تک حل نہ ہوسکا ۔ بحوالہ کتاب ۔ کراچی کی کہانی، تاریخ کی زبانی, از ۔ کھتری عبدالغفور بشکریہ ۔ عثمان جامعی صاحب کراچی ( معروف صحافی، ادیب و شاعر) Usman Jamaie جنہوں نے مجھے کتاب پڑھنے کو دی ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 15 جولائی 2023 ء ۔ بروز ہفتہ ۔۔۔

 


حضرت ‏علی ‏رضہ ‏کی ‏بہن ‏اُمِ ‏ہانی ‏نے  ‏رسولﷺ سے شکایت کی کہ ‏علی ‏میرے ‏سسرالیوں ‏کو ‏قتل ‏کرنا ‏چاہتا ‏ہے ‏، ‏اور ‏حضرت ‏فاطمہ ‏بھی ‏بہت ‏سختی ‏کرتی ‏ہیں ‏ـ ‏

حضرت ‏علی ‏رضہ ‏کی ‏بہن ‏اُمِ ‏ہانی ‏نے ‏رسولﷺ سے شکایت کی کہ ‏علی ‏میرے ‏سسرالیوں ‏کو ‏قتل ‏کرنا ‏چاہتا ‏ہے ‏، ‏اور ‏حضرت ‏فاطمہ ‏بھی ‏بہت ‏سختی ‏کرتی ‏ہیں ‏ـ ‏

حضرت علی رضہ کی بہن اُمِ ہانی نے رسولﷺ سے شکایت کی کہ علی میرے سسرالیوں کو قتل کرنا چاہتا ہے، اور فاطمہ بھی بہت سختی کرتی ہیں ـ متواتر احادیث مُسند احمد نمبر ۵۱۳۶ ـ ۱۰۸۸۳ ـ ۱۲۰۰۲ ـ
دراصل ہمیں اصلیت راس نہیں آتی ـ۱. پاکستان کی خالق سیاسی جماعت " پاکستان مسلم لیگ " تھی یہ اصل مسلم لیگ تھی، لیکن جیسا کہ اصلیت ہمیں راس نہیں آتی چناں چہ اس کے بانی اور بنیادی رہمناؤں کو شہید کروادیا گیا ـ ( کچھ خفیہ اور کچھ ظاہری)پھر نقلی مسلم لیگوں کا ملک میں انبار لگ گیا، جو کہ اب تک باری باری اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں  ـ۲. شیخ مجیب الرحمان کی " عوامی لیگ " اصل سیاسی جماعت تھی، جس کا ووٹ بنک ہمیں ہضم نہیں ہوا، لہٰذا ہم نے قے کردی، اس قے سے بنگلہ دیش وجود میں آگیا ـ۳. ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کی " پاکستان پیپلز پارٹی " اصل سیاسی پارٹی تھی لہٰذا اس کی قیادت اور نظریات ہمیں ایک آنکھ نہیں بھائے، چنانچہ اس کی قیادت کو دار پر لٹکا دیا گیا، پھر حسبِ روایت بہت سی نام نہاد پیپلز پارٹیاں وجود میں آئیں اور ان میں سے ایک  اب بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے ـ ۴. ملک کی نئی تجرباتی طور پر بنائی گئی اصل سیاسی پارٹی " پاکستان تحریکِ انصاف " نے عمران خان کی قیادت میں اپنے جدید نظریات ملک میں نافذ کرنا چاہے، لیکن ہمارا معدہ اصل اور نئی خوراک ہضم کرنے کے قابل نہیں ہے، چنانچہ اسے بھی ہم نے اپنی بدہضمی کے باعث باہر اگل دیا، اور اب اسی نام  سے ملتی جلتی نئی سیاسی پارٹی کی ڈش کھانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ـ ۵. سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اصل قوم پرست یا نیم قوم پرست سیاسی پارٹیاں بھی تجرباتی طور پر بننے میں ہم نے تعاون کیا، لیکن جب وہ بھی ہمارے دائرہء اختیار سے باہر نکلنے لگیں تو پھر ان کو ختم کر کے ان کی جگہوں پر بھی ہم نے ان کے ناموں سے ملتی جلتی کٹھ پتلی ( ‏Puppet) پارٹیاں تشکیل دے کر اپنی بدہضمی دور کرلی اور ڈکار مار کر مطمئن ہوگئے ـ کیوں کہ اصل مال ہمیں ہضم نہیں ہوتا ـ اللہ تعالیٰ ہمارے وطنِ عزیز پر رحم فرمائے اور اسے ہمیشہ قائم دائم آباد رکھے ـ نیک دعاؤں کا طالب = غلام محمد وامِق ـ تاریخ ـ تیس مئی سال دوہزار تیئیس ـ بروز منگل ـ

دراصل ہمیں اصلیت راس نہیں آتی ـ۱. پاکستان کی خالق سیاسی جماعت " پاکستان مسلم لیگ " تھی یہ اصل مسلم لیگ تھی، لیکن جیسا کہ اصلیت ہمیں راس نہیں آتی چناں چہ اس کے بانی اور بنیادی رہمناؤں کو شہید کروادیا گیا ـ ( کچھ خفیہ اور کچھ ظاہری)پھر نقلی مسلم لیگوں کا ملک میں انبار لگ گیا، جو کہ اب تک باری باری اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں ـ۲. شیخ مجیب الرحمان کی " عوامی لیگ " اصل سیاسی جماعت تھی، جس کا ووٹ بنک ہمیں ہضم نہیں ہوا، لہٰذا ہم نے قے کردی، اس قے سے بنگلہ دیش وجود میں آگیا ـ۳. ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کی " پاکستان پیپلز پارٹی " اصل سیاسی پارٹی تھی لہٰذا اس کی قیادت اور نظریات ہمیں ایک آنکھ نہیں بھائے، چنانچہ اس کی قیادت کو دار پر لٹکا دیا گیا، پھر حسبِ روایت بہت سی نام نہاد پیپلز پارٹیاں وجود میں آئیں اور ان میں سے ایک اب بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے ـ ۴. ملک کی نئی تجرباتی طور پر بنائی گئی اصل سیاسی پارٹی " پاکستان تحریکِ انصاف " نے عمران خان کی قیادت میں اپنے جدید نظریات ملک میں نافذ کرنا چاہے، لیکن ہمارا معدہ اصل اور نئی خوراک ہضم کرنے کے قابل نہیں ہے، چنانچہ اسے بھی ہم نے اپنی بدہضمی کے باعث باہر اگل دیا، اور اب اسی نام سے ملتی جلتی نئی سیاسی پارٹی کی ڈش کھانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ـ ۵. سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اصل قوم پرست یا نیم قوم پرست سیاسی پارٹیاں بھی تجرباتی طور پر بننے میں ہم نے تعاون کیا، لیکن جب وہ بھی ہمارے دائرہء اختیار سے باہر نکلنے لگیں تو پھر ان کو ختم کر کے ان کی جگہوں پر بھی ہم نے ان کے ناموں سے ملتی جلتی کٹھ پتلی ( ‏Puppet) پارٹیاں تشکیل دے کر اپنی بدہضمی دور کرلی اور ڈکار مار کر مطمئن ہوگئے ـ کیوں کہ اصل مال ہمیں ہضم نہیں ہوتا ـ اللہ تعالیٰ ہمارے وطنِ عزیز پر رحم فرمائے اور اسے ہمیشہ قائم دائم آباد رکھے ـ نیک دعاؤں کا طالب = غلام محمد وامِق ـ تاریخ ـ تیس مئی سال دوہزار تیئیس ـ بروز منگل ـ

دراصل ہمیں اصلیت راس نہیں آتی ـ

۱. پاکستان کی خالق سیاسی جماعت " پاکستان مسلم لیگ " تھی یہ اصل مسلم لیگ تھی، لیکن جیسا کہ اصلیت ہمیں راس نہیں آتی چناں چہ اس کے بانی اور بنیادی رہمناؤں کو شہید کروادیا گیا ـ ( کچھ خفیہ اور کچھ ظاہری)
پھر نقلی مسلم لیگوں کا ملک میں انبار لگ گیا، جو کہ اب تک باری باری اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں  ـ
۲. شیخ مجیب الرحمان کی " عوامی لیگ " اصل سیاسی جماعت تھی، جس کا ووٹ بنک ہمیں ہضم نہیں ہوا، لہٰذا ہم نے قے کردی، اس قے سے بنگلہ دیش وجود میں آگیا ـ
۳. ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کی " پاکستان پیپلز پارٹی " اصل سیاسی پارٹی تھی لہٰذا اس کی قیادت اور نظریات ہمیں ایک آنکھ نہیں بھائے، چنانچہ اس کی قیادت کو دار پر لٹکا دیا گیا، پھر حسبِ روایت بہت سی نام نہاد پیپلز پارٹیاں وجود میں آئیں اور ان میں سے ایک  اب بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے ـ 
۴. ملک کی نئی تجرباتی طور پر بنائی گئی اصل سیاسی پارٹی " پاکستان تحریکِ انصاف " نے عمران خان کی قیادت میں اپنے جدید نظریات ملک میں نافذ کرنا چاہے، لیکن ہمارا معدہ اصل اور نئی خوراک ہضم کرنے کے قابل نہیں ہے، چنانچہ اسے بھی ہم نے اپنی بدہضمی کے باعث باہر اگل دیا، اور اب اسی نام  سے ملتی جلتی نئی سیاسی پارٹی کی ڈش کھانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ـ 
۵. سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اصل قوم پرست یا نیم قوم پرست سیاسی پارٹیاں بھی تجرباتی طور پر بننے میں ہم نے تعاون کیا، لیکن جب وہ بھی ہمارے دائرہء اختیار سے باہر نکلنے لگیں تو پھر ان کو ختم کر کے ان کی جگہوں پر بھی ہم نے ان کے ناموں سے ملتی جلتی کٹھ پتلی ( Puppet) پارٹیاں تشکیل دے کر اپنی بدہضمی دور کرلی اور ڈکار مار کر مطمئن ہوگئے ـ
کیوں کہ اصل مال ہمیں ہضم نہیں ہوتا ـ
اللہ تعالیٰ ہمارے وطنِ عزیز پر رحم فرمائے اور اسے ہمیشہ قائم دائم آباد رکھے ـ
نیک دعاؤں کا طالب = غلام محمد وامِق ـ 
تاریخ ـ تیس مئی سال دوہزار تیئیس ـ بروز منگل ـ 
قرآنِ کریم کے مطابق " شرک "  کے بعد سب سے بڑا گناہ ...        " والدین کی نافرمانی "  ہے ـ اور احادیث مبارکہ میں تو بیشمار احکامات والدین کی فرمانبرداری کے لئے بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے چار احادیث باپ کی اہمیت کے سلسلے میں ملاحظہ فرمائیں ـ انتخاب و پیشکش ـ غلام محمد وامِق ... ۱. کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتا ـ ۲. بیٹا اور بیٹے کا مال اس کے والد کا ہے ـ۳. مسلمان والدین کی مرضی کے بغیر جہاد کرنا بھی منع ہے،۴.  باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے ـ

قرآنِ کریم کے مطابق " شرک " کے بعد سب سے بڑا گناہ ... " والدین کی نافرمانی " ہے ـ اور احادیث مبارکہ میں تو بیشمار احکامات والدین کی فرمانبرداری کے لئے بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے چار احادیث باپ کی اہمیت کے سلسلے میں ملاحظہ فرمائیں ـ انتخاب و پیشکش ـ غلام محمد وامِق ... ۱. کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتا ـ ۲. بیٹا اور بیٹے کا مال اس کے والد کا ہے ـ۳. مسلمان والدین کی مرضی کے بغیر جہاد کرنا بھی منع ہے،۴. باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے ـ

قرآنِ کریم کے مطابق " شرک "  کے بعد سب سے بڑا گناہ ...        " والدین کی نافرمانی "  ہے ـ اور احادیث مبارکہ میں تو بیشمار احکامات والدین کی فرمانبرداری کے لئے بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے چار احادیث باپ کی اہمیت کے سلسلے میں ملاحظہ فرمائیں ـ
انتخاب و پیشکش ـ غلام محمد وامِق ... 

۱. کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتا ـ 

۲. بیٹا اور بیٹے کا مال اس کے والد کا ہے ـ

۳. مسلمان والدین کی مرضی کے بغیر جہاد کرنا بھی منع ہے،

۴.  باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے ـ 
Powered by Blogger.