انڈیا کے معروف ادیب محترم Amber Shamim عنبر شمیم صاحب نے میری یومِ پیدائش کے موقع پر اپنے فیس بُک پر اور اپنے پیج " انسان " پر میرا تعارف پیش کیا ہے، اس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پورا نام:ـ غلام محمد طور قلمی نام:ـ غلام محمد وامِق تخلص:وامق تاریخِ ولادت:28 نومبر 1957ء بروز جمعرات والد کا نام: شیر محمد طور بچوں کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ (1)محمد جاوید اقبال طور ۔ (2)فاطمہ بانو طور ۔ (3)محمد عابد طور ۔ (4)محمد راشد طور ۔ (5)نمرہ بانو طور آبائی وطن:کالوا، ریاست جیند صوبہ ہریانہ (بھارت) جائے ولادت: محراب پور، صوبہ سندھ (پاکستان) تعلیم: گریجویٹ ـ بی اے (آرٹ ـ) پیشہ:ملازمت، کراچی میں اور اب دکانداری محراب پور میں المہران بک ڈپو ـ زبان: ـ اردو ( ہریانوی) تلمیذ:ـ شاعری میں ” واقف جے پوری“ کراچی ـ تصنیفات: ۔۔۔۔۔۔ ۔ (1) نقشِ وفا (شاعری) ۔ (2)جنّات کی حقیقت (تحقیق) ۔ (3)دعا اور تقدیر (تحقیق) آغازِ تحریر:ـ آٹھویں جماعت سے سال ۱۹۷۰ ء سے ـ پتا: ـ مکان ـ جی ایم ہاؤس نزد سرکاری گودام ریلوےاسٹیشن وارڈ نمبر ۱۵ ـ محراب پور ضلع نوشہروفیروز ـ سندھ فون:09203153533437 ای میل:gmwamiq@gmail.com پذیرائی:ـ مقامی سطح پر ـ ایوارڈ ۔۔۔۔۔ ۔ (1)ٹی وی چینل 92 نیوز کی ۔ سالانہ تقریب میں ۔ بہترین کارکردگی ایوارڈ ـ ۔ (2)بزمِ شعر و ادب محراب پور ۔ کی طرف سے ایوارڈ ـ روایات شکنی کی راہ کا مسافر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد وامِق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی شاعری سے پسماندہ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے، روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـ۔ جاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـ غلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـ نقلی چہرے، جھوٹے رشتے، ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ وامِق کہتے ہیں ... میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام ” بزمِ طلباء“ کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ” نقشِ وفا“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ـ وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ۔ شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ آزادیِ اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا ”ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے “ وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے ”میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے“ـ وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ پاکستان کا معروف رسالہ ” روحانی ڈائجسٹ“ : اگست 2001ء غــــــزل ۔۔۔۔۔ رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے تیری ہر ایک بات پر جو سر جھکا سکے ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟ دِل میں کسی کے کوئی کیوں ہوتا ہے جلوہ گر اے کاش، اِس پہ بھی کوئی پہرہ بٹھا سکے چاہا بہت تھا لوٹ جائیں اپنے گھر کو پھر لیکن تیری گلی سے ہم، واپس نہ جا سکے اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے، اِس خیال سے بلبل کو میرے سامنے، نیچا دکھا سکے تیری تباہ کار جوانی کے سامنے دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے ہم بھی کھڑے تھے منتظر، دِل ہاتھ میں لیے لیکن اُس نازنیں کا، اشارہ نہ پا سکے یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے تم نے ہم کو بلایا اور نہ خود ملنے آ سکے؟ لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر دِل سے تمھاری یاد نہ ہرگز مٹا سکے وامِق، تمھارے پیار میں ہر رنج و غم سہا لیکن شبِ فراق کا غم نہ اٹھا سکے ـــــــــــــــــــــــــــ غزل ۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔ دل کو میرے تڑپا گیا بھیگا ہوا موسم پھر یاد آگیا ہے مجھے وصل کا موسم مانا بہت حسین ہے، رنگیں ادا موسم لیکن کہاں سے آئے میرے شوق کا موسم یہ شام ہے رنگین، مُعطّر بھی ہے فضا اور تیرے ساتھ نے کیا دو آتشہ موسم یوں تو فضا رنگین و معطر بھی تھی بہت لیکن تیرے بغیر، ادھورا رہا موسم دنیا کی بے حسی پہ ہے، چشمِ فلک پُر آب اور لوگ کہتے ہیں اسے، برسات کا موسم جلتا رہا ہے دنیا کے ظلم و ستم سے دل اپنے لیے بے کار ہے، بھیگا ہوا موسم کلیوں کا خون ہوگیا گلشن میں الامان اب کے الٰہی کیسا ہے، پھولوں بھرا موسم؟ لازم ہے احتیاط، کہ آتے نہیں جا کر وہ اعتمادِ دوست ہو، یا گزرا ہوا موسم موسم کی دل فریبی نے، دل کو جلا دیا وامِق، نہ جانے کیسا ہے یہ آج کا موسم ــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارچ 1987ء میں کہی گئی غزل ـ ( بحر مُتَدارِک) غزل ۔۔۔۔۔ ہر سُو لگا ہوا ہے یہاں حرص کا بازار ایسے میں جی رہے ہیں مگر زندگی بےکار ویرانیاں ہیں دور تک اب دل میں جاگزیں اپنی بلا سے، موسمِ ساون ہو یا بہار شہرِ خلوص میں ہوا ہے، دل لہو لہو انسانیت کی راہ ہے، یا وادیِ پُر خار؟ مدّت ہوئی دیارِ وفا کو تباہ ہُوئے تم کو ملیں گے اب وہاں کھنڈرات بیشمار راہِ وفا کے معنی بتاتے ہو تم مجھے! اِس رہ گزر سے پہنچا ہوں منزل پہ سوئے دار تم اِس نظامِ ظلم میں رہتے ہو خوش، مگر ہم کو نظامِ ظلم کا ہر لمحہ ناگوار طبقات کی دیواریں ہیں جب کہ دلوں کے بیچ انسانیت کی راہ ہو، پھر کیسے استوار؟ دار و رسن سے آگے ہے منزل ہماری وامِق! راہِ وفا میں ہم ہیں شہادت کے طلب گار غزل ۔۔۔۔۔ تم سے بچھڑ کے دیکھو یہ حال ہوگیا ہے جیسے شجر سے پتا کوئی جدا ہوا ہے رنگت اڑی اڑی سی ، چہرہ بجھا بجھا سا لگتا ہے شہرِ دل میں کوئی حادثہ ہوا ہے میں تیری رہ گزر میں بیٹھا ہوں اس طرح سے جیسے کوئی بھکاری رستے میں بیٹھتا ہے سر کو نہیں جھکایا باطل کے آگے جس نے وہ مسکرا کے دیکھو سولی پہ چڑھ گیا ہے۔ اسلام کی زبانی خدمت یوں کی ہے ہم نے دل سے نکل کے اب وہ زباں پر ہی رہ گیا ہے یہ بھوکے ننگے انساں تجھ سے یہ پوچھتے ہیں واعظ ! تیری طرح کیا بے حس تیرا خدا ہے وامق ! محبتوں کے فسانے کہاں سے لکھوں؟ خامہ بھی خوں چکاں ہے۔ دل بھی لہو ہوا ہے


 انڈیا کے معروف ادیب محترم  Amber Shamim  عنبر شمیم صاحب نے میری یومِ پیدائش کے موقع پر اپنے فیس بُک پر اور اپنے پیج " انسان " پر میرا تعارف پیش کیا ہے، اس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پورا نام:ـ غلام محمد طور

قلمی نام:ـ غلام محمد وامِق

تخلص:وامق

تاریخِ ولادت:28 نومبر 1957ء

               بروز جمعرات

والد کا نام: شیر محمد طور


بچوں کے نام

۔۔۔۔۔۔۔۔

۔   (1)محمد جاوید اقبال طور

۔   (2)فاطمہ بانو طور

۔   (3)محمد عابد طور

۔   (4)محمد راشد طور

۔   (5)نمرہ بانو طور


آبائی وطن:کالوا، ریاست جیند

            صوبہ ہریانہ (بھارت)

جائے ولادت: محراب پور، صوبہ سندھ (پاکستان)

تعلیم: گریجویٹ ـ بی اے (آرٹ ـ)

پیشہ:ملازمت، کراچی میں

       اور اب دکانداری محراب پور میں

       المہران بک ڈپو ـ

زبان: ـ اردو ( ہریانوی)

تلمیذ:ـ شاعری میں ” واقف جے پوری“ کراچی ـ

تصنیفات:

۔۔۔۔۔۔

۔   (1) نقشِ وفا (شاعری)

۔   (2)جنّات کی حقیقت (تحقیق)

۔   (3)دعا اور تقدیر (تحقیق)

آغازِ تحریر:ـ آٹھویں جماعت سے

            سال ۱۹۷۰ ء سے ـ

پتا: ـ مکان ـ جی ایم ہاؤس

     نزد سرکاری گودام ریلوےاسٹیشن

     وارڈ نمبر ۱۵ ـ محراب پور

     ضلع نوشہروفیروز ـ سندھ

فون:09203153533437

ای میل:gmwamiq@gmail.com

پذیرائی:ـ مقامی سطح پر ـ

ایوارڈ

۔۔۔۔۔

۔   (1)ٹی وی چینل 92 نیوز کی

۔       سالانہ تقریب میں

۔       بہترین کارکردگی ایوارڈ ـ

۔   (2)بزمِ شعر و ادب محراب پور

۔       کی طرف سے ایوارڈ ـ


روایات شکنی کی راہ کا مسافر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلام محمد وامِق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی شاعری سے پسماندہ اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات  میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے،  روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـ۔ جاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـ

 غلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی  اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ

 میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ

غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ...

اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـ

نقلی چہرے،  جھوٹے رشتے،  ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ

 غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ

 وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ

 وامِق کہتے ہیں ...

 میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ  کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ

 کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام ” بزمِ طلباء“ کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ

وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ” نقشِ وفا“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ـ

 وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ۔

 شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ

 اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ

 آزادیِ اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا ”ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات  سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے “

 وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ

 شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے ”میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے“ـ

 وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ پاکستان کا معروف رسالہ ” روحانی ڈائجسٹ“ : اگست 2001ء


غــــــزل

۔۔۔۔۔

رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے 

دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے

تیری ہر ایک بات پر جو سر جھکا سکے

ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟

دِل میں کسی کے کوئی کیوں ہوتا ہے جلوہ گر

اے کاش،  اِس پہ بھی کوئی پہرہ بٹھا سکے

چاہا بہت تھا لوٹ جائیں اپنے گھر کو پھر

لیکن تیری گلی سے ہم، واپس نہ جا سکے

اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے، اِس خیال سے

بلبل کو میرے سامنے، نیچا  دکھا سکے

تیری تباہ کار جوانی کے سامنے

دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے

ہم بھی کھڑے تھے منتظر، دِل ہاتھ میں لیے

لیکن اُس نازنیں کا،  اشارہ  نہ پا سکے

یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے تم نے

ہم کو بلایا اور نہ خود ملنے آ سکے؟

لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر

دِل سے تمھاری یاد نہ ہرگز مٹا سکے

وامِق، تمھارے پیار میں ہر رنج و غم سہا

لیکن شبِ فراق کا غم نہ اٹھا سکے

ـــــــــــــــــــــــــــ

غزل

۔۔۔۔۔

غزل

۔۔۔۔۔

دل کو میرے تڑپا گیا بھیگا ہوا موسم

پھر یاد آگیا ہے مجھے وصل کا موسم

مانا بہت حسین ہے، رنگیں ادا موسم

لیکن کہاں سے آئے میرے شوق کا موسم

یہ شام ہے رنگین، مُعطّر بھی ہے فضا

اور تیرے ساتھ نے کیا دو آتشہ موسم

یوں تو فضا رنگین و معطر بھی تھی بہت

لیکن تیرے بغیر،  ادھورا  رہا موسم

دنیا کی بے حسی پہ ہے، چشمِ فلک پُر آب

اور لوگ کہتے ہیں اسے، برسات کا موسم

جلتا رہا ہے دنیا کے ظلم و ستم سے دل

اپنے لیے بے کار ہے، بھیگا ہوا موسم

کلیوں کا خون ہوگیا گلشن میں الامان

اب کے الٰہی کیسا ہے، پھولوں بھرا موسم؟

لازم ہے احتیاط، کہ آتے نہیں جا کر

وہ اعتمادِ دوست ہو، یا گزرا ہوا موسم

موسم کی دل فریبی نے، دل کو جلا دیا

وامِق، نہ جانے کیسا ہے یہ آج کا موسم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارچ 1987ء میں کہی گئی غزل ـ ( بحر مُتَدارِک)


غزل

۔۔۔۔۔

ہر سُو لگا ہوا ہے یہاں حرص کا بازار

ایسے میں جی رہے ہیں مگر زندگی بےکار

ویرانیاں ہیں دور تک اب دل میں جاگزیں

اپنی بلا سے، موسمِ ساون ہو یا بہار

شہرِ خلوص میں ہوا ہے، دل لہو لہو

انسانیت کی راہ ہے، یا وادیِ پُر خار؟

مدّت ہوئی دیارِ وفا کو تباہ ہُوئے

تم کو ملیں گے اب وہاں کھنڈرات بیشمار

راہِ وفا کے معنی بتاتے ہو تم مجھے!

اِس رہ گزر سے پہنچا ہوں منزل پہ سوئے دار

تم اِس نظامِ ظلم میں رہتے ہو خوش، مگر

ہم کو نظامِ ظلم کا ہر لمحہ ناگوار

طبقات کی دیواریں ہیں جب کہ دلوں کے بیچ

انسانیت کی راہ ہو، پھر کیسے استوار؟

دار و رسن سے آگے ہے منزل ہماری وامِق!

راہِ وفا میں ہم ہیں شہادت کے طلب گار


غزل

۔۔۔۔۔

تم سے بچھڑ کے دیکھو یہ حال ہوگیا ہے

جیسے شجر سے پتا کوئی جدا ہوا ہے

رنگت اڑی اڑی سی ، چہرہ  بجھا بجھا سا

لگتا ہے شہرِ دل میں کوئی حادثہ ہوا ہے

میں تیری رہ گزر میں بیٹھا ہوں اس طرح سے

جیسے کوئی بھکاری رستے میں بیٹھتا ہے

سر کو نہیں جھکایا باطل کے آگے جس نے

وہ مسکرا کے دیکھو سولی پہ چڑھ گیا ہے۔

اسلام کی زبانی خدمت یوں کی ہے ہم نے

دل سے نکل کے اب وہ زباں پر ہی رہ گیا ہے

یہ بھوکے ننگے انساں تجھ سے یہ پوچھتے ہیں

واعظ ! تیری طرح کیا بے حس تیرا خدا ہے

وامق ! محبتوں کے فسانے کہاں سے لکھوں؟

خامہ بھی خوں چکاں ہے۔ دل بھی لہو ہوا ہے



SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.