علامہ اقبال پر ایک نظر
( تنقیدی جائزہ اختصار کے ساتھ )
تحریر و تحقیق ۔ غلام محمد وامِق
افسوس کا مقام ہے کہ مفکّرِ پاکستان علامہ محمد اقبال کی تاریخ پیدائش پر ہی ہم لوگ متفق نہیں ہیں ۔ یعنی بعض عام روایات میں تاریخِ پیدائش 9 نومبر سال 1877ء لکھی جاتی ہے ۔ جب کہ چند با وثوق ذرائع 22 فروری سال 1876عیسوی بھی بیان کرتے ہیں ۔ ( بحوالہ اقبال کا خصوصی مطالعہ ۔ پروفیسر ایم اے خالد ، علمی کتاب خانہ لاہور)
آپ سیالکوٹ میں شیخ نُور محمد کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا تعلق کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تھا ۔ آپ کی والدہ " امام بی بی" ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک دانشور اور ہر دلعزیز نیک خاتون تھیں ۔
جب کہ آپ کے والد درزی کا کام کرتے تھے، علامہ اقبال کے ایک بڑے بھائی " شیخ عطا محمد" بھی تھے ۔ عطا محمد نے معمولی تعلیم پائی ، لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آپ اوور سیئر ہو گئے ، اور انہوں نے کافی روپیہ کمایا،
اقبال کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور یورپ بھیجا ۔
حضرت علامہ نے جہاں اپنے والد کے فیضِ تربیت کا اعتراف کیا ہے ، وہیں اس نے اپنے بڑے بھائی عطا محمد کو بھی بڑے اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے ، وہ اپنے بھائی کے بڑے مدّاح اور ان سے محبت کرنے والے تھے ۔
اگر چہ بعد میں شیخ عطا محمد، احمدی یعنی قادیانی عقائد کے حامل ہو گئے تھے ۔ لیکن علامہ اقبال ان کی محبت اور احسانات کی وجہ سے ہمیشہ اُن کا احترام کرتے رہے ۔
علامہ اقبال اپنے اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے ایک استاد " سید میر حسن " سے بہت متاثر تھے ، علامہ اقبال نے عربی اور فارسی دونوں زبانیں اپنے اسی استاد " سیّد میر حسن" صاحب سے سیکھیں اور ان میں کمال حاصل کیا ۔
اپنے استاد سے احترام کا یہ عالم تھا کہ جب انگریز حکومت نے انہیں " سر " کا خطاب دینا چاہا تو انہوں نے شرط رکھی کہ پہلے ان کے استاد کو بھی کسی خطاب سے نوازا جائے ۔
چناں چہ حکومت نے ان کی یہ شرط منظور کر لی اور ان کے استاد کو " شمس العلماء" کا خطاب دیا گیا ۔
شاعری کی ابتدائی اصلاح انہوں نے اُس دور کے مشہور شاعر " داغ دہلوی" سے بذریعہ خط و کتابت حاصل کی ۔
اس اصلاح لینے پر اقبال کو اور اصلاح دینے پر " داغ " کو بھی فخر تھا ۔
ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ فلسفہ اور سیاست کے مضامین پر لیکچر دینے لگے ۔
اس زمانے میں اقبال نے معاشیات پر ایک اردو کتاب " علم الاقتصادیات " لکھی ۔
اس کے بعد اقبال مزید تعلیم کے لئے سن 1905ء میں انگلستان چلے گئے اور وہاں پر " کیمرج یونیورسٹی " میں داخلہ لیا وہاں پر انہوں نے تین سال گزارے ، وہاں سے بیرسٹری یعنی وکالت کا امتحان پاس کیا ۔
بعد ازاں " میونخ یونیورسٹی جرمنی " سے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی ۔ واپس وطن پہنچ کر انہوں نے لاہور میں وکالت شروع کی اور ساتھ ساتھ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں ڈیڑھ سال تک فلسفہ بھی پڑھایا اور پھر خود ہی اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔
یورپ جانے سے پہلے آپ قومی اور وطنی نظمیں لکھتے تھے اور زیادہ تر شاعری اردو میں ہوتی تھی ۔
یورپ سے واپسی کے بعد ان میں تبدیلی آئی، چناں چہ زیادہ تر شاعری اب وہ فارسی میں کرنے لگے ۔
ان کی اردو شاعری کی شہرت 1901ء سے پہلے ہو چکی تھی ۔ اور اب فارسی میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوا لیا ۔
لاہور کی " انجمن حمایت اسلام" کے سالانہ جلسوں میں کئی سال متواتر انہوں نے اپنی نظمیں سنائیں اور دادِ تحسین حاصل کی ۔
حضرت علامہ 1906ء میں میدانِ سیاست میں آئے ، اور اپنی محنت و قابلیت سے دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کے
اجلاسِ الہ آباد کے صدر منتخب ہوئے اور یہاں پر ہی انہوں نے اپنے خطبہء صدارت میں مسلمانانِ ہند کے لئے ایک آزاد اسلامی ریاست کے لئے اپنی قابلِ قدر تجاویز پیش کیں ، جنہیں عام طور پر نظریہء پاکستان کہا جاتا ہے ۔ جب کہ بعض ناقدین کی تحقیقات کے مطابق علامہ اقبال نے بعد ازاں اپنے خطوط میں اس نظریے کی تردید کر دی تھی۔
1. لندن کے اخبار ٹائمز کے مدیر Dr E Thompson کے نام خط میں ۔۔۔
2. علامہ راغب احسن کے نام خط ۔۔۔۔ میں واضح تردید موجود ہے ۔۔۔
بعد ازاں 23 -22 مارچ 1940ء کو لاہور مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں آزاد اسلامی وطن کے مطالبے کی ٹھوس تجویز پیش کی گئی ۔
اور اس کے سات سال بعد اس خیال کو حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ۔
علامہ اقبال کی زندگی میں ہی کچھ وجوہات کی بنا پر چند علماء نے علامہ اقبال پر کفر کے فتوے بھی صادر کئے ۔
لیکن اقبال ہمیشہ اپنے ذہن کا سچ لکھتا رہا اور کسی بھی طرح کے فتووں سے نہیں گھبرایا، وہ اپنے ایک شعر میں کہتا ہے کہ ۔۔۔۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش ۔
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ۔۔۔
اسی طرح وہ ایک اور جگہ کہتے ہیں ۔۔۔۔
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا ۔
اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں ۔
علامہ کی شاعری کے ابتدائی دور کا ایک مشہور شعر ہے کہ ۔۔۔
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لئے ۔۔۔
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے ۔۔۔
اور یہ شعر روزِ اول کی طرح آج بھی تر و تازہ ہے ۔
علامہ اقبال کے ہاں بنسبت عقل کے جنون یا عشق کی اہمیت زیادہ ہے ۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں ۔۔۔۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ۔۔۔
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی ۔۔۔
اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔۔۔
خِرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں ۔۔۔
میرے مولا مجھے صاحبِ جنوں کر ۔۔۔
یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ اقبال شاعری ضرور کرتے تھے ، لیکن انہوں نے شعر گوئی کو کبھی پسند نہیں کیا ، اقبال بطورِ شاعر مشہور ہونا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔
انہوں نے سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھا ۔۔۔
" میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا ، اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں ، اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصوّر کرتا ہوں ۔ فنِ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی ، ہاں بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں جن کے لئے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ۔۔۔ وہ ایک جگہ کہتے ہیں ۔۔۔۔
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ ۔۔۔
کہ میں ہوں محرمِ راز درونِ مے خانہ ۔۔۔۔
اقبال کو مسلمانوں کی زبوں حالی کا حد درجہ احساس تھا ، اور وہ مسلمانوں کی حالت سیاسی طور پر اور دینی طور پر مضبوط بنانا چاہتے تھے ، وہ اسی لئے اپنی شاعری میں انقلاب کی باتیں بھی کرتے تھے ۔ عالمِ وجد میں وہ خدا سے بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ۔۔۔
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر ۔۔۔
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ۔۔۔
یہ شکایت نہیں ، ہیں اُن کے خزانے معمور ۔۔۔
نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور ۔۔۔
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور ۔۔۔
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہء حور ۔۔۔
اقبال کو اپنی قوم کی بے حسی کا شدید احساس تھا ، انہیں معلوم تھا کہ امت کا کارواں تو لُٹ چکا ہے ، لیکن سب سے افسوناک صورت یہ ہے کہ قوم کے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا ہے ۔
اقبال کا فلسفہ، تقدیر پر اندھا اعتماد کرنا نہیں تھا ، چناں چہ وہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات ۔۔۔
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند ۔۔۔
اقبال مزید کہتے ہیں کہ
یقیں محکم عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم ۔
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ۔۔۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں ۔۔۔
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔۔۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا ۔۔۔
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ۔۔۔
علامہ اقبال آخری سانس تک اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے کوششیں کرتے رہے ، اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لئے پلاننگ بناتے رہے ۔۔۔
اور آخر کار یہ مردِ مومن 21، اپریل سن 1938ء کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔۔ آپ کا مزار بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے بائیں جانب حکومتِ افغانستان کی مدد سے بنایا گیا تھا ۔۔۔
جو کہ اب بھی ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے ۔ آخر میں علامہ اقبال کا ایک اور زندہ و جاوید شعر ملاحظہ فرمائیں ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ۔۔۔
نیل کے ساحل سے لے کر، تا بہ خاکِ کاشغر ۔۔۔
تحقیق و تحریر ۔۔۔۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ
تاریخ 11 نومبر سال 2023ء ۔۔۔ بروز ہفتہ ۔۔۔