علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی مختار بیگم اور سردار بیگم (آخری حصہ)
دوسری شادی کے سلسلے میں جو 1910 ء میں ہوئی، مرزا جلال الدین کا بیان ہے کہ اقبال کے دوست شیخ گلاب دین وکیل نے موچی دروازے کے ایک کشمیری خاندان کی صاحبزادی کے متعلق تحریک کی جو اس وقت وکٹوریہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھی۔ جب بات پکی ہوگئی تو اقبال کے بڑے بھائی سیالکوٹ سے آئے اور مرزا جلال الدین ، میاں شاہنواز، مولوی احمد دین اور شیخ گلاب دین کو ساتھ لے کر اقبال کے سسرال پہنچے اور وہاں ان کا نکاح سردار بیگم سے پڑھا گیا۔ اس موقع پر صرف نکاح ہوا، رخصتی عمل میں نہ آئی۔
اس سلسلے میں علی بخش کا بیان ہے کہ وہ اور والدہ اقبال، اقبال کے رشتے کی خاطر کسی کے گھر گئے۔ جب واپس آرہے تھے تو ایک نائن جو سیالکوٹ کی رہنے والی تھی والدہ اقبال سے ملی۔ والدہ اقبال نے اسے بتایا کہ وہ اپنے چھوٹے لڑکے کے لیےکسی موزوں رشتے کی تلاش میں ہیں۔ اس پر وہ نائن والدہ اقبال کو سردار بیگم کے گھر لے گئی، اور والدہ اقبال نے سردار بیگم کو دیکھتے ہی فیصلہ کرلیا کہ یہ رشتہ بہت مناسب ہے۔
سردار بیگم سے اقبال کے عقد کے متعلق منشی طاہرالدین کا بیان، جو ان کے فرزند شیخ بشیر احمد کی وساطت سے راقم تک پہنچا، قدرے مختلف ہے۔ اس بیان کے مطابق اقبال اپنی بیوی کا انتخاب اولاً خود کرنا چاہتے تھے۔ سردار بیگم کے برادر خواجہ عبدالغنی، منشی طاہرالدین کے احباب میں سے تھے۔ دونوں بہن بھائی موچی دروازے کے ایک غریب کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بچپن ہی سے یتیم ہوگئے تھے۔ دونوں کی پرورش ان کی پھوپھی نے کی۔ پھوپھا ضلع کچہری میں عرضی نویس تھے۔ سردار بیگم کسی اسکول نہ جاتی تھیں بلکہ انہوں نے قرآن مجید اور معمولی اردو پڑھنے لکھنے کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی تھی۔ خواجہ عبدالغنی قالین بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ جب سردار بیگم سے رشتے کے متعلق منشی طاہر الدین نے تحریک کی تو اقبال نے صاحبزادی کی تصویر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ منشی طاہرالدین نے تصویر خواجہ عبدالغنی سے یہ کہہ کر حاصل کی کہ والدہ اقبال کو دکھانے کے لیے سیالکوٹ بھیجنا ہے۔ اقبال نے سردار بیگم کی تصویر دیکھ کر انہیں پسند فرمایا۔ بعد میں والدہ اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئیں اور سردار بیگم کے گھر جا کر رشتے کی بات کی۔ پھر اقبال اپنے بڑے بھائی، والدہ اور چند احباب سمیت سسرال پہنچے، جہاں ان کا نکاح سردار بیگم سے پڑھا گیا۔
ان مختلف روایتوں میں سے خواہ کوئی بھی درست تسلیم کرلی جائے، حقیقت یہ ہے کہ سردار بیگم کسی سکول میں نہ پڑھتی تھیں۔ ان کا اقبال سے عقد 1910ء میں ہوا اور اس موقع پر صرف نکاح ہی پڑھا گیا، رخصتی عمل میں نہ آئی۔
راقم کے اندازے کے مطابق اس وقت سردار بیگم کی عمر انیس برس کے لگ بھگ تھی۔
رخصتی کا معاملہ اس لیے التوا میں پڑ گیا کہ نکاح کے فوراً بعد اقبال کو دو گمنام خط موصول ہوئے، جن میں سرداربیگم کے چال چلن پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اقبال شدید تذبذب میں پڑ گئے۔ یہ زمانہ ان کی ذہنی پریشانی کا تھا۔ ایک بیوی سے علیحدگی ہوچکی تھی۔ دوسری کے متعلق یہ صورت پیدا ہوگئی۔ احباب سے ذکر کیا۔ انہوں نے معاملے کی تہ تک پہنچنے کی ہامی بھرلی۔ بہر حال اقبال نے ارادہ کرلیا کہ سردار بیگم کو طلاق دے کر کہیں اور شادی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی تذبذب میں تین سال مزید گزر گئے۔
بالآخر اقبال کے ایک پرانے دوست سید بشیر حیدر جو اس زمانے میں ایکسائز انسپکٹر لدھیانہ تھے۔ لدھیانے کے ایک متمول کشمیری خاندان کی صاحبزادی مختار بیگم کے رشتے کا پیغام لے کر آئے۔ مختار بیگم کا خاندان لدھیانے میں "نو لکھیوں" کا خاندان کہلاتا تھا۔ چنانچہ جب رشتہ طے ہوگیا تو اقبال کی برات لاہور سے لدھیانہ گئی۔ مرزا جلال الدین نےاپنے بیان میں اس شادی کی تاریخ کا ذکر نہیں کیا، اسی طرح عبدالجید سالک نے بھی اقبال کی اس شادی کی تفصیل بیان کرتے وقت سن کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن غالب امکان ہے کہ یہ شادی 1913ء کے ابتدائی حصے میں ہوئی۔ اقبال، مختار بیگم کو ساتھ لے کر لاہور پہنچے جہاں انہوں نے انارکلی والے مکان میں قیام کیا۔
اسی اثناء میں سردار بیگم سے متعلق گمنام خطوط کے سلسلے میں جب مرزا جلال الدین اور اقبال کے دیگر احباب نے تحقیق کرائی تو راز کھلا کہ گمنام خطوط تحریر کرنے والا کوئی وکیل تھا، جو سردار بیگم کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ سردار بیگم نے جو اقبال سے عقد کے سبب تین سال تک طرح طرح کے مصائب برداشت کرتی رہیں، خود بھی جرات کرکے ایک خط اقبال کو بھجوایا، جس میں لکھا کہ انہیں اس بہتان پر یقین نہ کرنا چاہیے تھا، اور یہ کہ میرا نکاح تو اب آپ سے ہوچکا ہے، اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔اسی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی اور روزِ قیامت آپ کی دامن گیر ہوں گی۔
اقبال یہ خط پڑھ کر اپنی غلطی پر سخت پشیمان ہوئے۔ مختار بیگم کو صورتِ حال سے با خبر کیا۔ وہ نہایت نرم دل اور حلیم طبیعت کی تھیں، کسی کا دکھ ان سے برداشت نہ ہوتا تھا، سردار بیگم کی بابت سن کر رونے لگیں۔ بالآخر اقبال، سردار بیگم کو گھر لانے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن چونکہ ایک مرحلے پر دل میں انہیں طلاق دینے کا ارادہ کرچکے تھے اس لیے سردار بیگم سے اگست یا ستمبر 1913ء میں دوبارہ نکاح پڑھوایا گیا۔ ان ایّام میں مختار بیگم اپنے میکے لدھیانے روانہ ہوگئیں اور اقبال سردار بیگم کو ساتھ لے کر سیالکوٹ جا پہنچے۔ چند ہفتوں کے بعد انارکلی والے مکان میں دونوں بیویاں اکٹھی ہوگئیں۔ مختار بیگم اور سردار بیگم قریب قریب ایک ہی عمر کی تھیں اور دونوں میں ایسی محبت پیدا ہوگئی جو بہنوں میں بھی نہیں ہوتی۔
سردار بیگم سے شادی کے متعلق اقبال اپنے ایک خط محررہ 26 اکتوبر 1913ء بنام مہاراجہ کشن پرشاد میں تحریر کرتے ہیں :
تیسری بیوی آپ کے تشریف لے جانے کے کچھ عرصے بعد کی۔ ضرورت نہ تھی، مگر یہ عشق و محبت کی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ اقبال نے گوارا نہ کیا کہ جس عورت نے حیرت انگیز ثابت قدمی کے ساتھ تین سال تک اس کے لیے طرح طرح کے مصائب اٹھائے ہوں، اسے اپنی بیوی نہ بنائے۔ کاش دوسری بیوی کرنے سے پیشتر یہ حال معلوم ہوتا۔
اقبال نے اپنی ازدواجی زندگی کے مسئلے کو سلجھانے کی خاطر پہلی بیوی سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ وہ کریم بی کی جگہ ایک رفیقہ حیات کے خواہاں تھے، مگر حالات نے ایسی صورت اختیار کی کہ انہیں ایک کی بجائے دو بیویوں کا شوہر بننا پڑگیا۔
انارکلی والا مکان، جس میں اقبال صرف علی بخش(ملازم) کے ساتھ رہا کرتے تھے، 1913ء میں سیالکوٹ والے گھر کی طرح خاصا آباد ہوگیا۔ مختار بیگم اور سردار بیگم کے علاوہ اقبال کی ایک غیر آباد بہن کریم بی بھی یہیں رہنے لگیں۔ نیز شیخ عطا محمد(علامہ کے بڑے بھائی) کی دو چھوٹی بیٹیوں عنایت بیگم اور وسیمہ بیگم کو سردار بیگم سیالکوٹ سے اپنے ساتھ لے آئیں۔ گھر میں چہل پہل ہوگئی۔ سب کے سب خوشی و مسرت سے دن گزارنے لگے۔ اقبال شام کو کاموں سے فراغت کے بعد اپنی بہن اور بیویوں کے ساتھ عموماً تاش یا لوڈو کھیلتے، اپنی بھتیجیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کی باتیں کرتے یا کوٹھے پر چڑھ کر کبوتر اڑاتے۔
بیویوں اور بہن کے اصرار پر اقبال نے اپنی پہلی بیوی کو بھی بلوالیا۔ سو کریم بی ایک آدھ بار انار کلی والے مکان میں آکر ان سب کے ساتھ رہیں، مگر صرف چند دنوں کے لیے۔ مردانے میں پہلے کی طرح اقبال کے احباب کی محفلیں لگتیں۔ گرامی آجاتے تو کئی کئی دن قیام کرتے۔ گرمیوں کی تعطیلات میں سب سیالکوٹ چلے جاتے اور وہاں رونق لگتی۔
(اگلی پوسٹ ایما ویگے ناست کے حوالے سے ہو گی اقبال انہی سے جرمن زبان اور جرمن شاعری ادب سے متعارف ہوئے۔ علامہ نے جو خطوط انہیں لکھے وہ مرحلہ وار پوسٹ ہوں گے۔)
حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 203..204..205
طالب دعا کاشف ترک ـ
ـــــــــــــــــــ کاشف ترک کی وال سے کاپی پیسٹ و انتخاب ــ از. غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
فون ـ 03153533437 ـــــــ dt. 09.12.2020