محراب پور کی ادبی ڈائری ( کچھ باتیں کچھ یادیں) مرحوم نور الحسن شیخ کے حوالے سے ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق ۔ کراچی میں چھ سال قیام کے بعد سال 1983ء کے اوائل میں جب ہم اپنے شہر محراب پور سندھ واپس آئے تو شہر کی فضا میں کافی اجنبیت محسوس ہوئی ، نئے جوان ہونے والے بچوں کے لئے ہم اجنبی تھے اور ہمارے لئے وہ اجنبی تھے ۔ یہاں آکر سب سے پہلے ہمیں اپنے ہم خیال ادب دوست افراد ڈھونڈنے کی فکر ہوئی ، پرانے کلاس فیلو اور دوست منتشر ہو چکے تھے ، اور ادبی حوالے سے وہ ہمارے کسی کام کے بھی نہیں تھے ۔ صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے آپ جانتے ہیں ۔ عبدالمجید راہی ہمارے کلاس فیلو تھے اور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے مجھے شہر کی ایک معتبر شخصیت " نور الحسن شیخ " صاحب سے ملوایا ۔ نور الحسن شیخ انتہائی خوش اخلاق ، ملنسار ، باادب ، مطالعہ کے شوقین اور مخلص انسان ثابت ہوئے ۔ وہ دوستوں کے بہت اچھے دوست تھے ، موصوف کو میں پہلے بھی جانتا تھا لیکن تفصیلی ملاقات نہیں تھی ، وہ بہت ہی خوبصورت اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے ، اب ان سے مل کر دل کو حقیقی خوشی اور اطمینان محسوس ہوا ۔ شہر کے مشہور چوک میں مکی مسجد سے ملحق ان کا مشہور و معروف میڈیکل اسٹور ، " نور میڈیکل اسٹور" کے نام سے تھا ، جہاں پر شہر کی کریم یعنی تعلیم یافتہ باشعور لوگ اکثر مل بیٹھتے تھے اور ہر طرح کے مسائل زیرِ بحث آتے تھے ، ہم نے فوراً ہی مطلب کی بات کی اور ان کے مشورے سے ایک ادبی تنظیم " بزم ادب محراب پور" کے نام سے قائم کی گئی ۔ تنظیم کے صدر ۔ مغل عبدالغفور ساجد صاحب کو مقرر کیا گیا ، موصوف شہر کے چیئرمین تھے ، جو کہ انتہائی باذوق ، باادب اور فقیر منش انسان تھے ۔ ان کا ایک شعری مجموعہ " نوائے ساجد" کے نام سے محراب پور کے ہی ایک پریس مدینہ پرنٹنگ پریس نے شایع کیا تھا، اور یہ پریس نور میڈیکل اسٹور کے ساتھ ہی واقع تھا ، سوئے اتفاق کہ وہ پریس بند ہوگیا ۔ اس موقع پر شہر کی ایک اور باذوق علمی شخصیت جناب " سید گوہر شاہ " صاحب مرحوم ، نے فی البدیہ ایک شعر ارشاد فرمایا تھا جو کہ مجھے یاد ہے ۔۔۔۔ === کتاب کیا چھپی ہے جنابِ غفور کی ۔ === ویران ہو گئی ہے گلی شیخ نور کی ۔ اب ایسی باذوق شخصیات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں ۔ بزم ادب کے نائب صدر ۔ " سید اسد عباس شاہ " کو مقرر کیا گیا ، جو کہ ہمارے کلاس فیلو ڈاکٹر قمر عباس شاہ کے بڑے بھائی تھے ۔ جنرل سیکریٹری ۔ اس بندہء ناچیز " غلام محمد وامق" کو منتخب کیا گیا ، اور میرے ساتھ جوائنٹ سیکریٹری جناب " نور الحسن شیخ صاحب " کو بنایا گیا ۔ پریس سیکرٹری ۔ عبدالمجید راہی ( نامہ نگار روزنامہ جنگ کراچی) کو مقرر کیا گیا ۔ خازن ۔ ایڈووکیٹ ملک شیر دین بھٹی صاحب بنے ۔ جب کہ بزم کے سرپرست اعلیٰ " شوکت علی خان لودھی " کو مقرر کیا گیا ، جوکہ قبل ازیں بھی اور بعد ازاں بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے تھے ، اور ان کے بعد ان کے فرزند " فاروق احمد خان لودھی" بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے ۔ شہر کے دیگر بہت سے معززین نے بھی بزم کی رکنیت اختیار کی ، جن میں سے چند نام جو مجھے یاد ہیں درج ذیل ہیں ۔ سماجی رہنما خادم شہر " عمردین کمبوہ " جوکہ شہر کے نائب ناظم بھی رہے ۔ سندھی قوم پرست رہنما کامریڈ " قمر میمن " ۔ ان کے چھوٹے بھائی ایڈووکیٹ نور محمد میمن ( جو کہ ایک مدت سے اب تک لاپتہ ہیں) ۔ کاروباری شخصیت غلام مصطفیٰ سیٹھی ۔ زاہد شاہ ۔ ہمایوں شاہ ۔ شرافت ناز ۔ الیاس ہاشمی ( نامہ نگار روزنامہ امن ) ۔ کمبوہ اسلم آبشار مرحوم ۔ غلام رسول انمول مغل ( اب ایکسائیز انسپیکٹر نواب شاہ) ۔ ڈاکٹر سلیم الحق صدیقی ( سرکاری میڈیکل آفیسر) ۔ عبداللطیف مدنی ۔ یونس سیماب ۔ خلیق الرحمان زیب آرائیں ( اب کراچی میں ڈاکٹر ہیں ) ۔ سلیم آکاش مغل آرٹسٹ ۔ ظہیر شاہ جعفری مرحوم ۔ انصر محمود چیمہ ۔ محمد رمضان نایاب اعوان ۔ عبدالجبار مینجر حبیب بینک ۔ عبدالرحیم آرائیں مینجر ایم سی بی ۔ عطا حسین سہتو ۔ اور بہت سے جن کے نام یاد نہیں ۔ بزم کی ہر ہفتے ادبی نشستیں ہوتی تھیں ۔ بہرحال نور الحسن شیخ صاحب کا میڈیکل اسٹور باشعور ادبی شخصیات کی آماجگاہ بنا ہوتا تھا ۔ اور یہ نور الحسن شیخ صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا ہی اثر تھا کہ شہر کے معززین جوق در جوق ہماری بزم میں شامل ہوتے رہے ۔ مورخہ 25 اپریل 1985ء کو ٹاؤن کمیٹی محراب پور میں بزم ادب کی جانب سے "کل سندھ مشاعرہ " منعقد کروایا گیا ۔ مورخہ 19 مئی 1985ء کو ہمارے کراچی کے ادباء و شعراء دوست " بزم علم و دانش کراچی" کے ارکان ہمارے پاس محراب پور تشریف لائے ، اور ان کے قیام و طعام میں بھی ہمارے ساتھ " نور الحسن شیخ صاحب" نے بھرپور تعاون کیا ۔ یعنی ہر قدم پر نور الحسن شیخ صاحب ہمارے ساتھ قدم بہ قدم چلے ، اس دوران ان کی رفیقہ حیات کا بھی انتقال ہوگیا ۔ وہ انتہائی کم گو ، خوش اخلاق ، اور سوچ سوچ کر دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والے مخلص دوست تھے ۔ کم و بیش بیس سال تک ہمارا اور نور الحسن شیخ صاحب کا ساتھ رہا ۔ وہ عمر میں ہم سے تقریباً تین چار سال بڑے تھے ۔ بالآخر رفتہ رفتہ وہ مختلف امراض کا شکار ہوتے چلے گئے ، اس کے باوجود وہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔ ان کی بیماری کے دنوں میں کئی بار عیادت کے لئے میں ان کے پاس ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوتا رہا ۔ بالآخر مؤرخہ 31 جولائی سال 2023ء بروز سوموار ، مطابق 12 محرم الحرام 1445 ھجری کو شام چار بجے وہ اپنے خالق حقیقی کو پیارے ہوگئے ۔ اور اگلے روز صبح آٹھ بجے نماز جنازہ ادا کرنےکے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ انہوں نے اپنے پیچھے چار بیٹیاں اور دو جوان اور باادب بیٹے، مسرور الحسن شیخ اور کامران الحسن شیخ سوگوار چھوڑے ۔ جو اپنے والد کا نام روشن کر رہے ہیں ، اور ماشاءاللہ سب بیٹے بیٹیاں شادی شدہ اور اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔ بقول شاعر ۔ موت سے کس کو رستگاری ہے ۔ آج وہ ، کل ہماری باری ہے ۔ ( مرزا شوق لکھنوی) تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 22 اگست 2023ء ۔ بروز منگل ۔


 


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.