Uncategories
۔۔۔۔۔۔۔ کراچی سندھ کا ٹائٹینک ۔۔۔۔۔۔۔ جو کسی کو بھی یاد نہیں ۔ ( تاریخ کے اوراق سے) برطانیہ کا بحری جہاز Titanic جو اپنے پہلے سفر پر برطانیہ کے شہر ساؤتھمپٹن سے امریکہ کے شہر نیویارک جارہا تھا ، یہ جہاز جسے ناقابلِ شکست کہا جا رہا تھا ، اور اس کے بنانے والوں کا دعویٰ تھا کہ " خدا بھی اسے ڈبو نہیں سکتا ( نعوذ بااللہ) " 14 اور 15، اپریل 1912ء کی درمیانی شب تقریباً اڈھائی بجے بحر اوقیانوس میں ایک برفانی تودے ( آئس برگ) سے ٹکرا کر دو ٹکڑے ہو کر ڈوب گیا تھا ، اس حادثے میں 1500 کے قریب مسافر ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس حادثے کو آج کا ہر شخص جانتا ہے، اور اس سے جڑی معمولی سی چیز یا واقعہ کا ذکر بھی بڑے پر جوش انداز میں کیا جاتا ہے ۔ لیکن اس واقعہ سے تقریباً 26 سال قبل سال 1886ء میں برطانیہ کا ہی تیار کردہ ایک تجارتی بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پہنچا، اس جہاز کو " واٹرنا " کا نام دیا گیا تھا، اس سے تین سال قبل تک سندھ ، بمبئی ، کچھ ، اور کاٹھیاواڑ میں ہیضہ ، طاعون ، اور قحط کی بیماریاں پھیلنے کی وجہ سے لوگ سفر نہیں کر سکے تھے ۔ اور اب جب کہ ان بیماریوں سے جان چھوٹ چکی تھی تو یہاں کے آسودہ حال لوگوں نے اپنی ملتوی شدہ تقاریب کو دوبارہ سے بحال کر لیا، چنانچہ سندھ کے اکثر لوگ اپنی شادیوں اور دیگر تقریبات کے انعقاد کے لئے کراچی سے بمبئی، کچھ ، اور کاٹھیاواڑ جانا چاہ رہے تھے ۔ اس لئے جہاز میں سوار ہونے والوں میں 18 راجکمار ( مہاراجوں کے بیٹے) بھی تھے جو کہ بغرض شادی کچھ ، کاٹھیاواڑ ، اور بمبئی جا رہے تھے ، ان کے ساتھ ایک ہزار کے قریب باراتی تھے، اور بہت سے طالب علم بھی تھے ۔ یہ بدقسمت جہاز جمعرات 5 نومبر 1886ء کو، 1400 سے زائد ہنستے مسکراتے لوگوں کو لے کر اپنے پہلے اور آخری سفر پر کراچی کی بندرگاہ سے روانہ ہوا ۔ آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جہاز گجرات کی بندرگاہ پر پہنچا تو سمندر نے طوفانی کیفیت اختیار کر لی، وہاں پر موجود جہازراں کمپنی کے ایجنٹ نے کپتان کو طوفان کے تھمنے تک وہاں رکنے کا مشورہ دیا، لیکن جہاز کے ضدی کپتان نے ایجنٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھا اور مانگرول کی طرف روانہ ہوگیا ۔ ( شاید اسے نیا جہاز چلانے کا شوق تھا یا پھر حد سے زیادہ خوداعتمادی تھی ) ۔ بہرحال آگے جاکر یہ جہاز سمندر کی تیز و تند لہروں میں کسی کھلونے کی طرح ہچکولے کھانے لگا ۔ اور پھر یہ جہاز نہ تو مانگرول پہنچا اور نا ہی اس کی کوئی خبر ملی ۔ یہ معمہ آج تک حل نہ ہوسکا ۔ بحوالہ کتاب ۔ کراچی کی کہانی، تاریخ کی زبانی, از ۔ کھتری عبدالغفور بشکریہ ۔ عثمان جامعی صاحب کراچی ( معروف صحافی، ادیب و شاعر) Usman Jamaie جنہوں نے مجھے کتاب پڑھنے کو دی ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 15 جولائی 2023 ء ۔ بروز ہفتہ ۔۔۔
Author: Gm Wamiq Toor
Related Posts
Some simillar article from this label, you might also like
- Blog Comments
- Facebook Comments
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Powered by Blogger.