علامہ ‏اقبال ‏کی ‏محبوبہ ‏" ایماویگے " اور ‏اقبال ‏کے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏، ‏حصہ ‏اول ‏ـ ‏

علامہ اقبال اور ایما ویگے ناست  
               
جرمنی میں اقبال کا قیام اگرچہ مختصر تھا، لیکن اس کے باوجود اس سرزمین، جرمن شعر و ادب اور فلسفے سے انہیں گہری جذباتی اور روحانی وابستگی پیدا ہوگئی تھی۔ اس وابستگی کے پیدا کرنے میں ایما ویگے ناست کا بڑا ہاتھ تھا، کیونکہ جرمن زبان اور ادب و فلسفے سے ایما ویگے ناست ہی نے اقبال کو روشناس کرایا تھا۔ 

ایما ویگے ناست اقبال سے عمر میں دو سال چھوٹی تھیں۔ وہ 26 اگست 1879ء کو صوبہ بادن کے شہر ہائیل برون میں پیدا ہوئیں جو ہائیڈل برگ سے تقریباً اسّی کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے نیکر کے کنارے آباد ہے۔ ان کے اور بہن بھائی بھی تھے، لیکن اقبال کی ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ 

ایما ویگے ناست ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جرمن زبان کے ایک اسکول (پینسیون شیرر) سے منسلک ہوگئیں اور یہیں جولائی 1907ء میں اقبال کی ان سے ملاقات ہوئی۔ تب ایما ویگے ناست کی عمر اٹھائیس برس تھی۔ اقبال نے انہی سے جرمن زبان سیکھی اور جرمن شاعری اور ادب سے متعارف ہوئے۔ دونوں روزانہ ملتے اور گوئٹے کی تخلیقات اور جرمن فلسفے پر تبادلہ خیالات کرتے۔ 
ایما ویگے ناست ایک ذہین اور حسین خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے دل و دماغ کے فاصلے بتدریج کم ہوتے چلے گئے۔ 

یہاں تک کہ اقبال جب اوائل اکتوبر 1907ء میں ہائیڈل برگ میونخ گئے تو وہاں کے تقریباً ایک ماہ کے قیام کے دوران انہیں یکے بعد دیگرے تین خط لکھے۔ 

پہلا خط 16 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا : 

افسوس کہ جرمن زبان سے میری محدود واقفیت ہمارے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران میں نے جرمن لکھنے کی مشق نہ کی، یہ پہلی تحریر ہے جو میں اس زبان میں لکھ رہا ہوں، خزاں کی دھیمی اور نم آلود ہوا بڑی خوشگوار ہے۔ موسم بڑا خوبصورت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہر حسین شے کی طرح یہ بھی دوام ہے: 

دوسرا خط 23 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا : 

یہ آپ کا بڑا کرم تھا کہ آپ نے خط لکھا لیکن نہایت مختصر میں اس وقت تک آپ کو بالکل نہیں لکھوں گا جب تک آپ مجھے وہ خط نہیں بھیجتیں جو آپ نے لکھ کر پھاڑ ڈالا۔یہ بڑی بے رحمی ہے۔ آپ ہائیڈل برگ میں تو ایسی نہ تھیں۔شاید ہائیل برون کی آب و ہوا نے آپ کو بے مہر بنادیا ہے۔ میں زیادہ لکھنا چاہتا ہوں، مگر وہ خط: آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میرا خط پھاڑ ڈالیں۔ 

اور تیسرا خط 27 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا۔ لکھتے ہیں : 

آج میں باہر نہیں نکل سکا۔موسم خوشگوار نہیں ہے۔ براہ کرم میری بھدی جرمن زبان کا برا مت منائیے اور نہ اس کا جو میں نے اپنے پچھلے خط میں لکھا تھا۔ 
اقبال کی لندن روانگی سے قبل ایما ویگے ناست اپنے آبائی شہر ہائیل برون چلی گئیں اور کچھ مدت تک نا مساعد حالات کا شکار رہیں۔اقبال لندن سے واپس تو آگئے لیکن دل ابھی تک ہائیڈل برگ ہی میں تھا۔لندن میں تقریباً نو ماہ قیام کے دوران انہوں نے ایما ویگے ناست کو کئی خط لکھے۔ 

مثلاً 2 دسمبر 1907ء کو تحریر کرتے ہیں : 

میرا خیال تھا کہ ہائیل برون کے رستے سفر کروں گا لیکن یہ ممکن نہ ہوا میرے لیے یہ قطعی لازم تھا کہ 5 نومبر کو لندن میں ہوں۔پروفیسر آرنلڈ مصر گئے ہیں اور میں عربی کا پروفیسر مقرر ہوا ہوں۔میرے ذمے ہفتے میں دو لیکچر ہیں۔ میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، لیکن آپ تصور کرسکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش یہ ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کرسکوں اور آپ کو دیکھ سکوں،لیکن میں نہیں جانتا کہ کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کرچکا ہو، اس کے لیے ممکن نہیں کہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہ کرم میں نے جو لکھا ہے، اس کے لیے مجھے معاف کردیجیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس قسم کے اظہار جذبات کو پسند نہیں رتیں۔ براہ کرم جلد لکھیے اور سب کچھ یہ اچھا نہیں کہ کسی شخص کا کچھ بگاڑا جائے، جو آپ کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ 

30 جنوری 1908ء کو تحریر کیا : 

میں آپ کی تصاویر کے لیے ہزار گونہ شکریہ ادا کرتا ہوں جو کل شام مجھے موصول ہوئیں۔۔۔۔دونوں تصویریں بہت خوبصورت ہیں اور وہ ہمیشہ میرے مطالعے کے کمرے میں میری میز پر رہیں گی۔ لیکن مت باور کیجیے کہ وہ صرف کاغذ ہی پر نقش ہیں بلکہ وہ میرے دل میں بھی جا پذیر ہیں اور تا دوام وہیں رہیں گی۔ شاید میرے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ میں دوبارہ آپ کو دیکھ سکوں۔۔۔۔مگر میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میری زندگی میں ایک حقیقی قوت بن چکی ہیں۔ میں آپ کو کبھی فراموش نہ کروں گا اور ہمیشہ آپ کے لطف و کرم کو یاد رکھوں گا۔ 

(اگلی پوسٹ بھی انھی بقایا خطوط کے حوالے سے ہوگی) 

حوالہ کتاب : "زندہ رُود" ( Zinda Rood) 
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال" 
ص : 150..151
طالب دعا کاشف ترک ــ
ـــــــــ کاشف ترک کی وال سے ـ کاپی پیسٹ و انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
فون نمبر ـ 03153533437 .....dt.10.12.2020 ,

SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.