ـ === " ہم دیکھیں گے " ===
فیض احمد فیض سے معذرت کے ساتھ ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غلام محمد وامِق
ہم دیکھیں گے ـ ہم دیکھیں گے ـ
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ـ
صدیوں سے یہ ہی کچھ ہوتا رہا ـ
اور اب بھی یہ ہی کچھ ہوتا ہے ـ
نادار یہاں دُکھ سہتا ہے ـ
ہم دیکھیں گے ........
وہ خوشیاں کہ جن کا وعدہ ہے
اور جو دستور میں لکھی ہیں ـ
رُوئی کی طرح اڑ جائیں گی ـ
ہم دیکھیں گے .......
یہ ظلم و ستم کے کوہِ گراں ـ
جو روز ہی بڑھتے جاتے ہیں ـ
اور روز ہی بڑھتے جائیں گے ـ
ہم دیکھیں گے .......
جب ہر حاکم کے پاؤں تلے ـ
ہم محکوموں کی ہر خواہش ـ
پھر پاؤں سے روندی جائے گی ـ
ہم دیکھیں گے .......
ہم اہلِ قفس کے ہر گھر پر ـ
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی ـ
اور دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی ـ
ہم دیکھیں گے ......
جب ارضِ خدا کے کعبے سے ـ
حُجّاج کو روکا جائے گا ـ
جب مسجد، بند ہوجائے گی ـ #
ہم دیکھیں گے .......
اور ہم جیسے مردودِ حَرَم ـ
نظروں سے گرائے جائیں گے ـ
زنجیروں میں جکڑے جائیں گے ـ
ہم دیکھیں گے .......
اور جو بھی بات کرے گا حق ۔
سولی پہ چڑھایا جائے گا ـ
مصلوب بنایا جائے گا ۔
ہم دیکھیں گے .......
بس نام رہے گا، اللہ کا ـ
اور ماننے والا کوئی نہیں ـ
اسے پوجنے والا کوئی نہیں ـ
ہم دیکھیں گے .......
اور مٹتی رہے گی، خلقِ خدا ـ
جو میں بھی ہوں، اور تم بھی ہو ـ
ہاں، میں بھی ہوں، اور تم بھی ہو ـ
ہم دیکھیں گے .......
صدیوں سے یہ ہی کچھ ہوتا رہا ـ
اور اب بھی یہ ہی کچھ ہوتا ہے ـ
تُو کس لئے وامِق! روتا ہے ؟ ـ
ہم دیکھیں گے ........
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ــ ہم دیکھیں گے ......
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فِعلن فَعِلن فِعلن فَعِلن ۔
فِعلن فَعِلن فِعلن فِعلن ۔
بحر زمزمہ/ متدارک مربع مضاعف ۔
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
مورخہ، 17، اپریل 2020 ـ کو کہی گئی ـ
# کورونا وائرس کے زمانے میں دنیا یہ تماشا بھی دیکھ چکی ہے ۔