مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے === آپﷺ. نے فرمایا، میں بھی آدمی ہوں، اور میں جو سنتا ہوں، اسی پر فیصلہ کرتا ہوں، پھر اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق، غلطی سے دلادوں تو وہ، اس کو ہرگز نہ لے، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں ــ. حدیث نمبر، ۹۴۱ ـ کتاب الحیل، نمبر ۱۳، ۱۴ ــ صحیح بخاری ـ
بد سے بدتر زمانہ ہوتا رہے گا === حضرت انس رضہ، نے کہا، صبر کرو، اس زمانہ ( حجاج بن یوسف) کے بعد جو زمانہ آئے گا وہ اس سے بھی بدتر ہوگا، اسی طرح ہمیشہ ہوتا رہے گا، میں نے یہ نبیﷺ سے سنا پے ـ حدیث نمبر ۱۴ ـ کتاب الفتن، صحیح بخاری.
یزید کی بیعت === عبداﷲ بن عمر رضہ، نے کہا، ہم تو اس شخص یزید سے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق بیعت کرچکے ہیں ـ اور دیکھو تم میں سے جو کوئی یزید کی بیعت توڑ کر دوسرے کسی سے بیعت کرے تو اُس میں اور مجھ میں کوئی تعلق نہیں رہا ـ. حدیث نمبر، ۴۶ ـ کتاب الفتن ـ صحیح بخاری ــ
قرآن جس طرح آسان سمجھو پڑھو === حضرت عمر رضہ نے ایک صحابی، ہشام بن حکیم، کو سورۃ. فرقان، کو اس طرح پڑھتے سنا، جس طرح انہوں نے، رسولﷺ کو پڑھتے نہیں سنا تھا، حضرت عمر رضہ. ان گردن سے پکڑ کر آپﷺ کے پاس لائے، آپﷺ. نے فرمایا، دیکھو یہ قرآن سات طرح پر اترا ہے، جس طرح آسان معلوم ہو پڑھو ــ حدیث نمبر ۱۹، کتاب استتابہ المرتدین، صحیح بخاری ـ
رسولﷺ کا ساتھی بھی شہید نہیں === ایک جنگ کے دوران نبیﷺ کا ایک غلام، آپﷺ کے اونٹ کا کجاوہ اتار رہا تھا، اتنے میں ایک تیر آکر لگا، جس سے وہ غلام ( مدعم) مرگیا، لوگوں نے کہا اسے بہشت مبارک ہو، آپﷺ نے فرمایا ہرگزنہیں، اس نے جو خیبر کے دن مال میں سے ایک کملی چرائی تھی، وہ آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہے ـ یہ سن کر ایک شخص جوتی کا ایک یا دو تسمے لیکر آیا جو اس نے مال سے لے لئے تھے، آپﷺ نے فرمایا، یہ تسمے آگ بن کر، اس کو جلاتے ــ حدیث نمبر ۷۲، کتاب الایمان و النزور ــ صحیح بخاری ــ
شرابی کی اللہ اور رسولﷺ سے محبت. === نبیﷺ کے زمانہ میں ایک شخص " عبداﷲ حمار " آپﷺ کو ہنسایا کرتا تھا، ایک بار غزوۂ خیبر میں اس نے شراب پی ـ آپﷺ نے اس کو کوڑے لگوائے ـ حضرت عمر رضہ نے کہا، یا اللہ اس پر لعنت کر، کمبخت بار بار شراب پیتا ہے، باز نہیں آتا ـ نبیﷺ نے فرمایا ( ہائیں) اس پر لعنت نہ کرو، خدا کی قسم، میں تو یہ ہی جانتا ہوں کہ، اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت رکھتا ہے ـــ حدیث نمبر ۷، کتاب الحدود، صحیح بخاری ـ
بیباکی معاف ــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ کسی بھی شےء کی حقیقت جانچنے کے لئے، یہ دیکھا جاتا ہے کہ، درحقیقت وہ شےء ہے، یا پھر نہیں ہے، جیسا کہ ـــ " ایمان ہے، یا پھر نہیں ہے " ــ درمیان میں کچھ نہیں ہوتا ـ اسی طرح مزید مسئلہ سمجھنے کے لئے، ہم یہ کہیں گے کہ ۱. " اللہ ہے ـ یا پھر ـ الله نہیں ہے ( نعوذبااللہ) ــ۲. اگر اللہ نہیں ہے، جیسا کہ دہریّہ لوگ سمجھتے ہیں تو پھر جو چاہے کرتے پھرو ـــ ۳. لیکن اگر اللہ ہے، تو پھر ظاہر ہے کہ، اللہ دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی بھی ، کسی بھی قسم کا رشتے دار نہیں ہے ـ وہ ہر چیز پر قادر ہے، انسانوں اور حیوانوں، چرند اور پرند کے دلوں میں اٹھنے والے احساسات و خیالات کو بھی جانتا ہے ـ اور دن یا رات کے کسی بھی لمحے میں اپنی مخلوق کے کسی بھی فعل سے وہ غافل نہیں ہے ـ ہر قسم کی بیماری دینے اور ہر بیماری، پریشانی یا تکلیف سے شفا دینے پر بھی وہ قادر ہے، وہ ہر دعا مانگنے والے کی دعا سنتا ہے، مزید یہ کہ وہ ہر دعا مانگنے والے کو پسند بھی کرتا ہے ــ ( یہ ایمان ہر اس شخص کا ہے، جو اللہ کی ذات کے ہونے پر یقین رکھتا ہے) ـــــــــــ تو پھر ............ ہمارا کوئی بھی حکمران ( جوکہ بظاہر ہر چیز اللہ کے حکم سے ہونے پر یقین رکھتا ہے) یہ کیوں نہیں کہتا کہ، سب لوگ مل کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، یعنی زیادہ سے زیادہ استغفار کریں ـ اور اللہ کے سامنے سربسجود ہوکر، اس بیماری " کورونا " ( اگر واقعی یہ کوئی خدائی آفت ہے) ـــ سے محفوظ رہنے کے لئے، اور اس سے بچنے کے لئے، سچے دل سے زیادہ سے زیادہ دعا کریں، کیونکہ علاج تو اس کا فی الحال ہے ہی نہیں، اگر علاج ہوتا بھی، تب بھی ضروری ہے کہ پوری قوم، بلکہ پوری دنیا، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے استغفار اور دعا کریے ، دعا میں بہت بڑی طاقت رکھی ہے اللہ تعالیٰ نے ــ ( میں ذاتی تجربات کی بنا پر دعوے کے ساتھ یہ بات کر رہا ہوں) ــ اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے ـ ( اگر واقعی ہمارا ایمان ہے تو) آپ خلوصِ نیت سے دعا کریں، اللہ تعالیٰ خود ہی، کورونا کے خاتمے کے اسباب مہیا کردے گا، (ان شاءالله) ـــ جب کہ اس کے برعکس ہماری دنیا کے سارے حکمران اس خدائی آفت کا مقابلہ کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں ـــ یہ دوغلی پالیسی خدا کے سامنے کبھی نہیں چلے گی ــ خدارا سمجھئے ـ دو میں سے ایک بات کا انتخاب کیجئے ـــ یا تو اللہ پر سچا ایمان ــ یا پھر اللہ کو نہ ماننے کا اعلان ـــ ایسا مت سوچیں کہ، " رِند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی " ـــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ، فون ـ 0315 3533437 ــ تاریخ، 21 جون، 2020، اتوار ـ
واسکو ڈیگاما ـــ ایک وحشی، ظالم، قاتل، لٹیرا ــ (انتہائی اختصار کے ساتھ) === تحریر ـ غلام محمد وامِق ـــ عام طور پر لوگ واسکو ڈے گاما کو ایک سیاح اور ہندوستان کو دریافت کرنے والا پہلا یورپین شخص کے طور پر جانتے ہیں، لیکن اس کی اصلیت کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ـ آج ہم اس ظالم کردار کے چہرے سے پردہ ہٹاکر اس کی اصلیت کو منظرِ عام پر لا رہے ہیں ــ واسکو ڈیگاما 1469ء کو پرتگال میں پیدا ہوا، یہ شخص پرتگالی حکومت کا سرکاری بحری قزاق تھا، جوکہ سمندر کے راستے تجارت کرنے والے اور عام مسافر جہازوں کو لوٹتا تھا ـ اس کے بیڑے میں چار پانچ جہاز شامل ہوتے تھے، جن پر توپیں نصب ہوتی تھیں ـ اُس زمانے میں پرتگال، برطانیہ سے بھی بڑا سامراج ملک ہوتا تھا، اس دور میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، حالاں کہ اس زمانے سے تین چار صدیاں قبل ہندوستان کو بار بار بیرونی حملہ آوروں کی طرف سے شدید مالی نقصان پہنچایا گیا تھا ـ اس کے باوجود بھی تمام یورپ کی للچائی ہوئی نظریں ہندوستان پر لگی ہوئی تھیں، انہیں تلاش تھی کسی آسان ترین بحری راستے کی جس کے دریعے وہ بھی اس سونے کی چڑیا کو مکمل طور پر لوٹ سکیں اور اپنا نوآبادیاتی نظام قائم کرسکیں ــ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں ہندوستان میں زر و جواہر اور سونے چاندی کی منڈیاں ایسے لگتی تھیں، جیسے آج کل ہمارے ہاں گُڑ، کی منڈیاں لگتی ہیں، ممکن ہے اس بات میں کچھ مبالغہ آرائی بھی ہو لیکن اس مثال سے اس دور کے ہندوستان کی خوشحالی کی تصویر ضرور ہمارے سامنے آجاتی ہے ـ قبل از اسلام، سے ہی عربستان اور دیگر مشرقی ممالک کے تجارتی تعلقات ہندوستان کے ساتھ استوار تھے ـ یہ ممالک ریشم، کپڑا، اور تمام مصالحہ جات و دیگر اہم اشیاء ہندوستان سے خرید کر یورپ سمیت دنیا بھر میں فروخت کرتے تھے ، لیکن یورپ کے لئے ہندوستان کا بحری راستہ ایک خواب کی حیثیت رکھتا تھا، چناں چہ سب سے پہلے پرتگال نے " واسکو ڈیگاما " کو اس مہم کے لئے روانہ کیا، جوکہ جنوبی افریقہ سے ہوتا ہوا آگے بڑھا، تو اسے ـــــ " ممباسہ " (موجوده کینیا) کے قریب کئی تجارتی جہاز نظر آئے جنہیں اس نے بیدردی سے لُوٹا ـ اور ان ہی لوگوں سے اس نے ہندوستان تک پہنچنے کا راستہ معلوم کیا، چناں چہ ـــ واسکوڈےگاما، بارہ ہزار میل کا سفر کرکے، 20. مئی 1498ء کو ہندوستان، " کالی کٹ " کے ساحل پر اترا ـ جب کہ اس سے چار پانچ سال قبل اسپین کے ــــــــــــــ " کرسٹوفرکولمبس" نے ہندوستان کو تلاش کرتے کرتے ـــ " امریکہ " کو دریافت کرلیا تھا ـ ( ابتداء میں کولمبس نے امریکہ کو ہی ہندوستان سمجھا تھا) ــــــــــ بہرحال کالی کٹ کے راجہ " ساموتھری " نے واسکو ڈیگاما کا شاندار استقبال کیا، لیکن جب راجہ نے، واسکو ڈیگاما کے ناجائز مطالبات ماننے سے انکار کردیا تو اس نے راجہ کے بہت سے سپاہیوں کو قتل کردیا، اور واپسی کے وقت واسکوڈیگاما، چند ہندوستانی سپاہی اور 16 ملاحوں کو اغوا کرکے زبردستی اپنے ساتھ لے گیا ـ جو سامان وہ پہلی بار ہندوستان سے لیکر گیا، اس پر یورپ میں اسے ، سفر کے اخراجات شامل کرکے بھی ساٹھ گُنا منافع زیادہ ملا ـبعدازاں واسکوڈیگاما نے دوسری بار پھر ہندوستان کا سفر اختیار کیا، اس سفر کے دوران بھی اس نے ہندوستان سے فریضۂ حج ادا کرنے کے لئے " مکہ مکرمہ " جانے والے مسلمانوں کے ایک جہاز کو لُوٹا، جس میں چار سو 400، حجاج سوار تھے، جن میں پچاس خواتین بھی شامل تھیں ـ اس نے تمام مسافروں کو قیدی (غلام) بناکر ان کے جہاز کو آگ لگادی ـ کالی کٹ پہنچا تو اس نے راجہ کو پرتگالی تاجروں کا ٹیکس معاف کرنے اور تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کو کہا، لیکن راجہ نے یہ مطالبہ مسترد کردیا جس پر واسکو ڈیگاما. نے اپنے جہازوں میں نصب توپوں سے بمباری کرکے راجہ کا شاہی محل اور بیشمار عمارتیں تباہ کردیں، ہندوستانیوں کے لئے توپوں کی لڑائی بلکل نئی اور عجیب چیز تھی لہٰذا راجہ نے اندرونِ ملک فرار ہوکر اپنی جان بچائی ـ اس سے قبل وہاں کے راجہ نے اس سے بات چیت کے لئے بڑے پجاری کو بھیجا، تو اس نے پجاری کے ہونٹ اور کان کاٹ دئے، اور کانوں کی جگہ کُتے کے کان سی کر اسے راجہ کے پاس واپس بھجوادیا، اس دوسرے سفر میں واسکوڈیگاما، نے کالی کٹ کے نزدیک بیس، 20. ہندوستانی تجارتی جہازوں کو لُوٹا، جب کہ تمام عملے کو ذبح کردیا، اور (آٹھ سو) 800، سے زیادہ قیدیوں کے ہاتھ، ناک، اور کان کاٹ کر ایک کشتی کے ذریعے کالی کٹ کے راجہ کو بھجوادئے، ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ ان کا سالن پکا کر کھالو ــ واسکوڈیگاما نے یورپ کے لئے ہندوستان کا راستہ کھول دیا ـ چناں چہ پرتگالیوں نے بحرِ ہند پر قبضہ جمالیا، ہندوستانی راجاؤں پر توپوں کی بمباری کی گئی تو وہ پسپا ہوگئے، اور ہندوستان کے کئی ساحلوں پر پرتگال کا قبضہ ہوگیا ـ بعدازاں یہ ہی طریقۂ واردات یورپ کے دیگر ملکوں نے بھی اختیار کیا اور بالآخر " برطانیہ " نے سب کو ہندوستان سے بھگا کر خود ہندوستان سمیت پورے برِصغیر پر قبضہ کرلیا ـ واسکو ڈیگاما نے ہندوستان ( کوچی) میں ہی 1524، میں وفات پائی جسے پرتگال، کے سینٹ فرانسس چرچ، میں دفن کیا گیا ــــــ (کچھ بھی کرلو، کتنا ہی جی لو، بلآخر موت یقینی ہے)نوٹ: -- اس مضمون کے لئے گوگل سے مدد لی گئی ہے ـــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ، مورخہ 18جون 2020ء ـ فون ـ 03153533437
اردو زبان کا المیہ === تحریر ـــ غلام محمد وامِق ــ پاکستان بنایا، بن گیا ـ ملک کے بانی نے کہا، ملک کی قومی زبان " اردو " ہوگی، سپریم کورٹ نے کہا پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی ـ حکمرانوں نے کہا ملک کی قومی زبان اردو ہوگی ـ صوبوں نے کہا صوبوں کی زبان صوبائی ہوگی ـ سب نے ان باتوں کو تسلیم کیا ـــ لیکن ....... جب سے پاکستان بنا، کسی بھی حکمران نے قومی وفاقی بجٹ اردو میں پیش نہیں کیا ـ کسی بھی صوبائی حکمرانوں نے صوبائی بجٹ کسی بھی صوبائی زبان میں پیش نہیں کیا ـ کسی بھی وفاقی سرکاری ادارے میں خط و کتابت اردو میں نہیں کی گئی ـــــ کسی بھی صوبائی سرکاری آفس میں خط و کتابت صوبائی زبان میں نہیں کی جاتی ـــــ کسی بھی کورٹ ( سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، سیشن کورٹ) میں دفتری کاروائی اردو میں یا صوبائی زبانوں میں نہیں کی جاتی ــــ تمام عوامی مفادات کے احکامات انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، جنہیں عوام سمجھنے سے بھی قاصر ہوتی ہے. ـ تو پھر یہ " قوم " کسے کہا جاتا ہے، جس کے لئے ملک بنایا گیا، جس کے لئے اردو کو قومی زبان کہا گیا ـ؟شاید قوم ـ عوام کو کہا جاتا ہے، اور عوام ظاہر ہے کہ گلی محلوں میں، تنگ و تاریک علاقوں میں رہتی ہے، اور عوام ہی، اپنی اپنی زبان بولتی ہے، اردو بولتی ہے، سندھی بولتی ہے، پنجابی بولتی ہے، پشتون بولتی ہے، بلوچی زبان بھی بولتی ہے، سرائکی بھی بولتی ہے، ہریانوی بھی بولتی ہے، اور ہزاروی، اور بلتستانی وغیرہ بھی بولتی ہے ، ـــ لیکن ........ عوام انگریزی نہیں بولتی ــــتو پھر انگریزی کون بولتا ہے؟ ـــ اور یہ پاکستان میں کن لوگوں کی زبان ہے ـــ؟ جب اس مسئلے پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انگریزی زبان، اشرافیہ بولتے ہیں، اور اشرافیہ ہی پاکستان کے حکمران بنتے ہیں، عوام کبھی اس ملک کے حکمران نہیں بنتے ـــ کیوں کہ عوام تو قوم ہوتی ہے، اور قوم کی زبان اردو ہوتی ہے، یا پھر صوبائی ہوتی ہے، اور پاکستان کی قوم صرف نعرے مارنے اور اشرافیہ کو اپنا حکمران بنانے کے کام آتی ہے ـــ بیشک بانیء پاکستان نے سچ کہا تھا کہ ــــ " پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی " ....... یہ بتانا شاید وہ بھول گئے کہ حکمرانوں ( اشرافیہ) کی زبان صرف اور صرف، انگلش ہوگی ــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ فون ـ 0315 3533437 ـــ تاریخ ـ 18 جون، 2020 ــــ
چند آنکھوں دیکھی مہلک وبائیں ــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ۱. ہمارے بچپن. غالباّ 1960- 65 میں سب سے پہلی وبا جو ہم نے دیکھی، وہ تھی " چیچک " جسے عام طور پر " ماتا " بھی کہا جاتا تھا ـ یہ انتہائی خوفناک اور کریہہ المنظر بیماری ہوتی تھی، ہر شہر کے ہر محلے میں دوتین مریض اس بیماری کے نظر آتے تھے، یہ بیماری اکثر غریب عوام میں پائی جاتی تھی، چیچک کے مریض کو پورے جسم پر دانے نمودار ہوتے، جوکہ بعد میں گل سڑ جاتے تھے، خاص طور پر چہرہ اس بیماری سے متاثر ہوتا تھا، گھر والے مریض کو گھر میں ایک طرف ڈال دیتے تھے، لوگ مریض کی جانب دیکھنے سے بھی کتراتے تھے ـ مریض کے جسم پر راکھ ڈال دی جاتی تھی، تاکہ مکھیاں وغیرہ تنگ نہ کریں، عام طور پر یہ مرض بچوں کو لاحق ہوتا تھا، اور تقریباّ نصف مریض جاں بحق ہوجاتے تھے، جو زندہ بچتے تھے، ان کے چہرے پر تاحیات چیچک کے بدنما داغ نظر آتے تھے ـ ہمارے پھوپھی زاد بھائی بھی اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں، عالمی سطح پر اس بیماری کے خلاف جہاد کیاگیا، مدافعتی ٹیکے لگائے گئے، اور 1980ء میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کردیا کہ، " چیچک " کو دنیا بھر سے ختم کردیا گیا یے ـ۲. ٹی بی ( تپ دق) ـ یہ ایک قدیم مرض ہے، اس بیماری کو بھی غریبوں کو لگنے والی بیماری کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مرض غذائی قلت اور گندگی میں رہنے کے باعث زیادہ ہوتا ہے، پاکستان بننے کے بعد اس بیماری کا علاج دریافت کیا گیا، لوگ اس بیماری سے انتہائی خوفزدہ رہتے تھے، حکومت کوئی " ایس او پی " بھی نافذ نہیں کرتی تھی، پھر بھی لوگ مریض کے قریب جانے سے ڈرتے تھے ـ ٹی بی کے مریض کی موت یقینی سمجھی جاتی تھی، لیکن اب الحمدلله اس مرض کا مکمل علاج کیا جاتا ہے، اس کے باوجود بھی عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہرسال چار لاکھ بیس ہزار افراد " ٹی بی " کے شکار ہوتے ہیں، دنیا کی 6 ارب آبادی میں دو ارب لوگ ٹی بی سے متاثر ہیں ـ۳. جذام ( کوڑھ) ـ یہ مرض چیچک سے بھی زیادہ خوفناک ہے، اس مرض کے نام سے ہی لوگ کانپتے تھے، اس مرض میں مبتلا مریض کا جسم گل سڑ جاتا تھا، جسم کا گوشت گل کر ہڈیوں سے الگ ہوکر گرنا شروع ہوجاتا تھا، اسی لئے مریض کو بڑی بڑی کپڑے کی پٹیوں میں لپیٹا جاتا تھا، تاکہ گوشت گرنے سے بچ سکے ـ کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریض کی موت یقینی ہوتی تھی، مریض کے اہلِ خانہ اسے گھر سے باہر کسی مقام پر لے جاکر رکھتے تھے ـ اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مریض کی موت ہوتی تھی ـ پاکستان میں سال 1950 - 60، کا عرصہ ان تمام مہلک امراض کے عروج کا وقت تھا، خاص طور پر غریب عوام ان بیماریوں سے انتہائی خوفزدہ رہتی تھیں ـ ان موضوعات پر دنیا بھر میں فلمیں بھی بنائی گئیں ـ کوڑھ جیسے خوفناک ماحول میں، جرمنی کی ڈاکٹر سرجن " روتھ فاؤ " نے پاکستان آکر کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کیا، جن مریضوں کو اس کے رشتے دار ہاتھ نہیں لگاتے تھے. ان مریضوں کو ڈاکٹر روتھ فاؤ، اپنے ہاتھوں سے مرہم پٹی کرتی تھی ـ بالآخر اپنی انتہائی مخلصانہ جدوجہد کے نتیجے میں " ڈاکٹر روتھ فاؤ " نے سال 1962 سے 1996، کے عرصے کے دوران اس مرض پر مکمل قابو پالیا، اور اب پاکستان میں خال خال ہی کوئی کوڑھ کا مریض پایا جاتا ہے ـ اور یہ محسنِ پاکستان فرشتہ صفت ڈاکٹر " روتھ فاؤ " ـ 10 اگست 2017 ء، کے دن کراچی میں انتقال کر گئیں ـــ۴. اب یہ نئی عجیب بیماری " کورونا " پاکستان سمیت دنیا بھر میں بتائی جارہی ہے، جوکہ عوام کو تو کہیں نظر نہیں آتی، البتہ حکومتوں کو نظر آرہی ہے ـ عوام کو تو یہ کم لگتی ہے، امیروں، وزیروں اور حکمرانوں کو زیادہ لگتی ہے، شہروں میں کسی کو نظر نہیں آتی، میڈیا پر اس کی بھرمار ہے ـ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی علاج بھی دریافت نہیں کیا گیا، پھر بھی اس کے مریض خود بخود صحتمند ہوجاتے ہیں، دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے مریض صحتیاب ہورہے ہیں، جبکہ ہزاروں کے مرنے کا اعلان بھی کیا جاتا ہے ـ لوگوں کو اس وبا سے خوف زدہ کیا جارہا ہے، لیکن عوام کو کچھ نظر آئے گا تو وہ خوفزدہ ہوں گے ناـ نوٹ: -- اس تحریر کے لئے گوگل سے مدد لی گئی ہے ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـــــــــــــ dt. 16.06.2020 .... فون ـ 0315 3533437
اردو زبان اور نثر کی مختصر کہانی ـــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ کسی بھی معاشرے میں زندگی گزارنے کے لئے سب سے اہم اور ضروری شے ابلاغِ عامہ ہوتا ہے، یعنی اپنی بات دوسروں تک پہنچانا، یا کسی دوسرے کی بات کو سمجھنا اور باہم گفتگو کرنا ـ چنانچہ اس مقصد کے لئے تمام انسان کوئی نہ کوئی زبان استعمال کرتے ہیں ـ کچھ زبانیں اپنی تکمیل میں بہت زیادہ وقت لیتی ہیں اور کچھ جلد ہی پایہء تکمیل تک پہنچ جاتی ہیں ـ دنیا کی جدیدترین اور کم وقت میں عروج پانے والی زبانوں میں ہماری " اردو " زبان سب سے مقدم سمجھی جاتی ہے ـ یہ زبان آج سے تقریباّ پانچ، چھ، سو سال قبل پیدا ہوئی، یا ابتدائی طور پر بولی جانے لگی ـ مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں، دلی میں بنائے جانے والے شاہی قلعہ معلی، کے حوالے سے اسے اردوئے معلیٰ بھی کہا گیا، جبکہ اس سے پیشتر اسے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا ـ یعنی ہندی، ہندوی، دکنی، اور ریختہ، وغیرہ ــ اس کی جائے پیدائش کے متعلق محققین میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر، محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے حملوں کے بعد اس کی بنیاد پنجاب میں پڑی ـ جبکہ بعض دیگر محققین اس نظرئیے کی نفی کرتے ہیں، اور اسے، دلی یا دکن کی زبان قرار دیتے ہیں ـ تاریخ میں اس نظرئیے کی تائید میں اس دور کے قدیم شعراء کے اشعار کی بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں، جن میں مشہور صوفی شاعر اور موسیقار، امیر خسرو بھی شامل ہیں، جنہوں نے کئی معروف گیت، اور اشعار اس زمانے کی اردو، اور فارسی کے ملاپ کے ساتھ کہے ہیں ـ مزید کئی محققین کا یہ استدلال بھی ہے کہ، دراصل اردو اس دور کے مشرقی پنجاب کے علاقے، " ہریانہ " کی گود میں پلی بڑھی ہے، بعدازاں وہ دلی، دکن، وغیرہ میں جاکر جوان ہوئی، اور مزید بڑھی ـ لیکن اس وقت تک اسے اردو کے نام سے نہیں جانا جاتا تھا ـ بعدازاں سال 1857، کی تحریک آزادی میں ہندوستانی عوام کی ناکامی کے بعد جب برطانیہ نے ہندوستان پر مکمل غلبہ حاصل کرلیا تو اُس وقت کی برسرِاقتدار زبان فارسی کا اثر کم ہونے لگا، رفتہ رفتہ نوآورد لوگوں کی زبانیں بھی فارسی اور ہندی میں گڈمڈ ہونے لگیں، تو اس زبان کو جلد پنپنے کا موقع میسر آگیا، چناں چہ مختلف علاقوں کے لوگ جو انگریز لشکر میں تھے، اس زبان کو باآسانی سمجھنے اور بولنے لگے ـ اور ایک نئی تجرباتی قسم کی زبان معرضِ وجود میں آنے لگی ، اور اس زبان میں اس وقت کے معتبر لوگوں نے خط و کتابت شروع کردی ـ یوں یہ نومولود زبان معجزانہ طور پر تیزی کے ساتھ پروان چڑھنے لگی، اور یہ لشکری یا ملی جلی زبان کے طور پر متعارف ہونے لگی ـ اس کے دلبرانہ تیور دیکھکر ہر شخص نے اس کی پذیرائی شروع کردی ـ خاص طور پر اس وقت کے فوجی لشکروں میں یہ زبان زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتی چلی گئی، چوں کہ انگریزی لشکر میں ہر علاقے کے لوگ شامل ہوتے تھے، اس لئے اس زبان میں ہر علاقے کے الفاظ شامل ہوتے گئے، اور اس کا یہ ہی انداز سب کو بھاگیا، چنانچہ سب نے اسے اپنی زبان سمجھ کر اپنالیا ـ یہ ہی وجہ تھی کہ اسے اردو یعنی لشکری زبان کا نام دیا گیا ـ ( تاہم کچھ مکتبہء فکر کے لوگ اس کے نام اردو کی وجہ تسمیہ کچھ اور بھی بیان کرتے ہیں) ــبہرحال بعدازاں اس زبان میں مکتوب، نثر، شاعری، اور مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی جانے لگیں، یوں یہ زبان دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان پر چھاگئی ـ اردو زبان میں ڈرامے اسٹیج کئے جانے لگے، فلمیں بننے لگیں، اور تقسیمِ ہند کے بعد اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا گیا ــ اب یہ زبان دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کرتی جارہی ہے ـ اور دنیا کے ہر ملک میں یہ اردو زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے ــــ علامہ اقبال نے بھی اس کے لئے کہا تھا کہ ـ گیسوئے اردو ابھی منّت پزیرِ شانہ ہے ــــ یعنی، گو کہ اردو زبان روزبروز ترقی کرتی جارہی ہے، لیکن ابھی اس کے آگے بڑھنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے ــــ اردو زبان کی ترقی میں جن لوگوں نے بھرپور حصہ لیا، ان کا مختصر ترین جائزہ ہم اس طرح لے سکتے ہیں ــــ سب سے پہلے سن 1308ء میں اشرف جہانگیر سمنانی، نے کچھ اخلاقی مضامین ابتدائی اردو ( ریختہ) میں ایک رسالے کی شکل میں شایع کئے ـــ پھر " شیخ عین الدین گنج العلم " نے دکنی اردو میں شرعی مسائل پر مبنی چند رسائل لکھے. ـ 1398ء میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز، نے تصوف کے موضوع پر ایک کتاب، " معراج العاشقین " لکھی ــ پندرھویں صدی عیسوی میں، حضرت خواجہ شمس العشاق، شاہ میراں جی نے، " جلترنگ " ــ " شرح مرغوب القلوب " ــ. " گل باس " ـــ اور " سب رس " اردو زبان میں تصنیف کیں ـ1582 ء میں شاہ برہان الدین جانم نے ایک کتاب، " کلمۃ الحق " لکھی ـــ 1635 ء، میں مُلّا وجہی، نے ایک کتاب " سب رس " کے نام سے کھی، جوکہ اردو نثر میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے 1731 ء میں فضلی نے " وہ مجلس " ( کربل کتھا) کے نام سے ایک مذہبی کتاب کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا ـــ 1799ء، کلکتہ میں قائم ہونے والے. " فورٹ ولیم کالج " سے اردو زبان میں قصے، کہانیوں کی کتابیں لکھی گئیں، جن میں میرامن کا قصہ " باغ و بہار " ــ حیدر بخش حیدری کی. " توتا کہانی " ــ شیرعلی افسوس کی " آرائش محل " اور غلام حیدر کا، " قصہء حسن و عشق " بہت مشہور ہوئیں ـــ بعدازاں ڈپٹی نذیر احمد نے، " مراء ۃ العروس " ـــ " توبه النصوح " ــ اور " ابن الوقت " جیسے مشہور اصلاحی ناول لکھے ـــ اس کے بعد ناول نگاری کے میدان میں، " عبدالحلیم شرر " ــ " سرشار " ــ " منشی پریم چند " ــ " مرزا ہادی رسوا " ، بھی شامل ہوگئے ـــــ ہمارے ماضی قریب کے زمانے میں، " عصمت چغتائی " ــــــــــ " قرۃ العین حیدر " ـــ " فضل احمد کریم فضلی " ـــــــــ " شوکت صدیقی " ـــ " ممتاز مفتی " ـــ " خدیجہ مستور " ــ " جمیلہ ہاشمی " ــ " عبداﷲ حسین " وغیرہ نے ناول کی روایت کو مزید ترقی دی ــــ اردو نثر میں مختصر افسانہ لکھنے والوں میں، " سجاد حیدر یلدرم " ــ اور " منشی پریم چند " کے نام نمایاں ہیں ـ سال 1936ء میں ترقی پسند افسانے لکھے جانے لگے، لکھنے والوں میں، سرِفہرست، کرشن چندر ـ راجندرسنگھ بیدی ــ اخترحسین رائے پوری ــ عصمت چغتائی ــ سعادت حسن منٹو ــ ممتاز شیریں ــ آغابابر ــ ابراہیم جلیس ــ ہاجرہ مسرور ــ انتظار حسین ــ غلام عباس ــ احمد ندیم قاسمی ــ شوکت صدیقی ــ قدرت اللہ شہاب ــ ابوالفضل صدیقی، وغیرہ شامل ہیں ـــ اردو نثر و نظم کے بعد اردو ڈرامہ بھی لکھا اور سٹیج کیا جانے لگا ـــ ڈرامہ لفظ دراصل یونانی ہے، جس کے معنی ہیں، کچھ کرنا، یا کچھ کرکے دکھانا ــ ابتدائی ڈرامے لکھنے والوں میں، ــ مداری لال ـ خادم حسین افسوس ــ بھیروں سنگھ عظمت ــ امام بخش ــ میاں حسین ظریف، مشہور ہیں ــبعدازاں آغا حشر کاشمیری ــ پنڈت بیتاب ــ احسن لکھنوی ــ اور ظریف نے بڑے مقبول ڈرامے لکھے ـ ــماضی قریب میں ادبی اور تاریخی ڈرامہ نویسوں میں، ــــ امتیازعلی تاج ــ احمد شجاع ــ منشی پریم چند ــ عنایت اللہ دہلوی ــ سید ابن الحسن ــ جگت موہن لال ــ سجاد حیدر یلدرم ــ غلام باری ( علیگ) ــ شوکت تھانوی ــ مرزا ادیب ــ اوپندر ناتھ اشک، شامل ہیں ــپاکستان میں اردو تھیٹر کو زندہ رکھنے کا سہرا، خواجہ معین الدین، کے سر بندھتا ہے، جن کے کھیل " لال قلعے سے لالو کھیت " ــ " تعلیمِ بالغان " ــــ " مرزا غالب بندر روڈ پر " بڑے مایہ ناز ڈرامے ہیں ــ ان کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی پر پیش کئے جانے والے ڈرامہ لکھنے والوں کے نام، آغا ناصر ــ بختیار احمد ــ اشفاق احمد ــ بانو قدسیہ ــ حسینہ معین ــ فاطمہ ثریا بجیا ــ امجد اسلام امجد ــ منوبھائی ــ تاجدار حیدر ــ یونس جاوید ــ ڈاکٹر ڈینس آئزک ــ مستنصر حسین تارڑ ـــ ہیں، ان میں سے اکثر ڈرامے کتابی شکل میں بھی موجود ہیں، جبکہ مذکورہ مصنفین میں سے بھی کچھ لوگوں کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا یے، جبکہ کچھ لوگ ماشاءاللہ ابھی حیات ہیں ــــ اس کے علاوہ ماضی قریب اور ہمارے دور کے جاسوسی ادب لکھنے والوں میں " ابنِ صفی " کو اس صنف کا بانی سمجھا جاتا ہے ــ جبکہ جناب رئیس امروہوی صاحب نے، شاعری، نفسیات و مابعد نفسیات، اور روحانی و ماورائی علوم پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں ـ چنانچہ اردو آج بھی الحمدلله. ہر میدان میں روز افزوں ترقی پزیر ہے ـــ نوٹ: --- اس مضمون کی تیاری کے لئے ـ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، کی گیارہویں جماعت کی کتاب " گلزار اردو " سے مدد لی گئی ہے ـــــــــتحریر ــــ غلام محمد وامِق، محراب ہور سندھ ـــــــ مورخہ، 07، جون، 2020 ء ـــ فون، 03153533437.ـــ
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.