چند آنکھوں دیکھی مہلک وبائیں ــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ۱. ہمارے بچپن. غالباّ 1960- 65 میں سب سے پہلی وبا جو ہم نے دیکھی، وہ تھی " چیچک " جسے عام طور پر " ماتا " بھی کہا جاتا تھا ـ یہ انتہائی خوفناک اور کریہہ المنظر بیماری ہوتی تھی، ہر شہر کے ہر محلے میں دوتین مریض اس بیماری کے نظر آتے تھے، یہ بیماری اکثر غریب عوام میں پائی جاتی تھی، چیچک کے مریض کو پورے جسم پر دانے نمودار ہوتے، جوکہ بعد میں گل سڑ جاتے تھے، خاص طور پر چہرہ اس بیماری سے متاثر ہوتا تھا، گھر والے مریض کو گھر میں ایک طرف ڈال دیتے تھے، لوگ مریض کی جانب دیکھنے سے بھی کتراتے تھے ـ مریض کے جسم پر راکھ ڈال دی جاتی تھی، تاکہ مکھیاں وغیرہ تنگ نہ کریں، عام طور پر یہ مرض بچوں کو لاحق ہوتا تھا، اور تقریباّ نصف مریض جاں بحق ہوجاتے تھے، جو زندہ بچتے تھے، ان کے چہرے پر تاحیات چیچک کے بدنما داغ نظر آتے تھے ـ ہمارے پھوپھی زاد بھائی بھی اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں، عالمی سطح پر اس بیماری کے خلاف جہاد کیاگیا، مدافعتی ٹیکے لگائے گئے، اور 1980ء میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کردیا کہ، " چیچک " کو دنیا بھر سے ختم کردیا گیا یے ـ۲. ٹی بی ( تپ دق) ـ یہ ایک قدیم مرض ہے، اس بیماری کو بھی غریبوں کو لگنے والی بیماری کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مرض غذائی قلت اور گندگی میں رہنے کے باعث زیادہ ہوتا ہے، پاکستان بننے کے بعد اس بیماری کا علاج دریافت کیا گیا، لوگ اس بیماری سے انتہائی خوفزدہ رہتے تھے، حکومت کوئی " ایس او پی " بھی نافذ نہیں کرتی تھی، پھر بھی لوگ مریض کے قریب جانے سے ڈرتے تھے ـ ٹی بی کے مریض کی موت یقینی سمجھی جاتی تھی، لیکن اب الحمدلله اس مرض کا مکمل علاج کیا جاتا ہے، اس کے باوجود بھی عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہرسال چار لاکھ بیس ہزار افراد " ٹی بی " کے شکار ہوتے ہیں، دنیا کی 6 ارب آبادی میں دو ارب لوگ ٹی بی سے متاثر ہیں ـ۳. جذام ( کوڑھ) ـ یہ مرض چیچک سے بھی زیادہ خوفناک ہے، اس مرض کے نام سے ہی لوگ کانپتے تھے، اس مرض میں مبتلا مریض کا جسم گل سڑ جاتا تھا، جسم کا گوشت گل کر ہڈیوں سے الگ ہوکر گرنا شروع ہوجاتا تھا، اسی لئے مریض کو بڑی بڑی کپڑے کی پٹیوں میں لپیٹا جاتا تھا، تاکہ گوشت گرنے سے بچ سکے ـ کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریض کی موت یقینی ہوتی تھی، مریض کے اہلِ خانہ اسے گھر سے باہر کسی مقام پر لے جاکر رکھتے تھے ـ اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مریض کی موت ہوتی تھی ـ پاکستان میں سال 1950 - 60، کا عرصہ ان تمام مہلک امراض کے عروج کا وقت تھا، خاص طور پر غریب عوام ان بیماریوں سے انتہائی خوفزدہ رہتی تھیں ـ ان موضوعات پر دنیا بھر میں فلمیں بھی بنائی گئیں ـ کوڑھ جیسے خوفناک ماحول میں، جرمنی کی ڈاکٹر سرجن " روتھ فاؤ " نے پاکستان آکر کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کیا، جن مریضوں کو اس کے رشتے دار ہاتھ نہیں لگاتے تھے. ان مریضوں کو ڈاکٹر روتھ فاؤ، اپنے ہاتھوں سے مرہم پٹی کرتی تھی ـ بالآخر اپنی انتہائی مخلصانہ جدوجہد کے نتیجے میں " ڈاکٹر روتھ فاؤ " نے سال 1962 سے 1996، کے عرصے کے دوران اس مرض پر مکمل قابو پالیا، اور اب پاکستان میں خال خال ہی کوئی کوڑھ کا مریض پایا جاتا ہے ـ اور یہ محسنِ پاکستان فرشتہ صفت ڈاکٹر " روتھ فاؤ " ـ 10 اگست 2017 ء، کے دن کراچی میں انتقال کر گئیں ـــ۴. اب یہ نئی عجیب بیماری " کورونا " پاکستان سمیت دنیا بھر میں بتائی جارہی ہے، جوکہ عوام کو تو کہیں نظر نہیں آتی، البتہ حکومتوں کو نظر آرہی ہے ـ عوام کو تو یہ کم لگتی ہے، امیروں، وزیروں اور حکمرانوں کو زیادہ لگتی ہے، شہروں میں کسی کو نظر نہیں آتی، میڈیا پر اس کی بھرمار ہے ـ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی علاج بھی دریافت نہیں کیا گیا، پھر بھی اس کے مریض خود بخود صحتمند ہوجاتے ہیں، دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے مریض صحتیاب ہورہے ہیں، جبکہ ہزاروں کے مرنے کا اعلان بھی کیا جاتا ہے ـ لوگوں کو اس وبا سے خوف زدہ کیا جارہا ہے، لیکن عوام کو کچھ نظر آئے گا تو وہ خوفزدہ ہوں گے ناـ نوٹ: -- اس تحریر کے لئے گوگل سے مدد لی گئی ہے ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـــــــــــــ ‏dt. 16.06.2020 .... فون ـ 0315 3533437


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.