میرا دل اور تیری چاہت کیا سمجھے ۔   دنیا ہے حیرت ہی حیرت، کیا سمجھے.   ہو گئی ہم کو تم سے محبت آخر کار ۔  ختم کرو اب تُم بھی کدورت، کیا سمجھے.!  پتھر کو جب آنکھ سے چوما تو دیکھو ۔۔۔  آنکھ سے نکلے اشکِ ندامت، کیا سمجھے ۔   بات کرے گا سچّی،  گر  تُو دنیا میں ... کون کرے گا تیری حمایت؟ کیا سمجھے.!   تیری سیدھی بات سنے گا کون یہاں ؟  اتنی نہیں دنیا میں مُروّت، کیا سمجھے.!  عزّت جس کو راس نہ آئے، وامِق تُو ...  مت کر اُس کی کبھی بھی عزّت کیا سمجھے ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فع ۔  فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فع ۔  بحر ہندی/ متقارب مسدس مضاعف ۔  مورخہ 23 جنوری 2007 ء کو کہی گئی غزل ـ

میرا دل اور تیری چاہت کیا سمجھے ۔ دنیا ہے حیرت ہی حیرت، کیا سمجھے. ہو گئی ہم کو تم سے محبت آخر کار ۔ ختم کرو اب تُم بھی کدورت، کیا سمجھے.! پتھر کو جب آنکھ سے چوما تو دیکھو ۔۔۔ آنکھ سے نکلے اشکِ ندامت، کیا سمجھے ۔ بات کرے گا سچّی، گر تُو دنیا میں ... کون کرے گا تیری حمایت؟ کیا سمجھے.! تیری سیدھی بات سنے گا کون یہاں ؟ اتنی نہیں دنیا میں مُروّت، کیا سمجھے.! عزّت جس کو راس نہ آئے، وامِق تُو ... مت کر اُس کی کبھی بھی عزّت کیا سمجھے ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فع ۔ فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فع ۔ بحر ہندی/ متقارب مسدس مضاعف ۔ مورخہ 23 جنوری 2007 ء کو کہی گئی غزل ـ

غــــــــزل 
                  غلام محمد وامق  
میرا دل اور تیری چاہت کیا سمجھے ۔  
دنیا ہے حیرت ہی حیرت، کیا سمجھے. 

ہو گئی ہم کو تم سے محبت آخر کار ۔ 
ختم کرو اب تُم بھی کدورت، کیا سمجھے.!

پتھر کو جب آنکھ سے چوما تو دیکھو ۔۔۔ 
آنکھ سے نکلے اشکِ ندامت، کیا سمجھے ۔ 

بات کرے گا سچّی،  گر  تُو دنیا میں ...
کون کرے گا تیری حمایت؟ کیا سمجھے.! 

تیری سیدھی بات سنے گا کون یہاں ؟ 
اتنی نہیں دنیا میں مُروّت، کیا سمجھے.!

عزّت جس کو راس نہ آئے، وامِق تُو ... 
مت کر اُس کی کبھی بھی عزّت کیا سمجھے ۔ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فع ۔ 
فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فع ۔ 
بحر ہندی/ متقارب مسدس مضاعف ۔ 
مورخہ 23 جنوری 2007 ء کو کہی گئی غزل ـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

غزل کے عام مروّج اور قدیم معانی، جس پر آج کے اہلِ علم و ماہرِ لسانیات نظرِ ثانی کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اس مسئلے پر مجھ ناچیز نے آج سے سینتیس سال قبل ایک گزارش پیش کی تھی، ملاحظہ فرمائیں روزنامہ " نوائے وقت کراچی " مورخہ 31 اگست 1985ء بروز ہفتہ .....                             غزل کے معنی =  اہلِ قلم، ادباء، شعراء و دانشورانِ پاکستان کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں، جیساکہ آج کے دور میں متعلقہ ہر شخص جانتا ہے کہ اب غزل کے معنی وہ نہیں رہے جو غالب اور غالب سے پیشتر شعراء کے وقت میں سمجھے جاتے تھے، اب غزل کا میدان بہت وسیع ہوگیا ہے جس میں صرف حسن و عشق ہی نہیں بلکہ فلسفہ،  معاشیات، مذہب اور اخلاقیات کے پہلو بھی شامل ہیں، غرض یہ کہ آج کی غزل زندگی کے تقریباﹰ ہر شعبے پر محیط ہے، مگر افسوس کہ اب بھی لغت اور معلوماتی کتب میں غزل کے معنی صرف    " عورتوں سے گفتگو کرنا یا عورتوں کی گفتگو کرنا " ہی لکھا جاتا ہے ـ حالاں کہ موجودہ دور میں یہ بات بڑی مضحکہ خیز نظر آرہی ہے کہ اگر مذکورہ معنی درست مان لئے جائیں تو آج کے دور میں جو خواتین شاعرات غزل گوئی کر رہی ہیں ان کے نزدیک غزل کے معنی کیا ہوں گے؟چنانچہ اس فقیرِ کم علم کی صرف اتنی سی گزارش ہے کہ براہِ کرم جدید غزل کے معانی عام مکتبہء فکر پر محیط ہونے چاہئیے، یا کم از کم " عورتوں " کے لفظ کے بجائے لفظ  " محبوب " لکھا جائے تاکہ اس سے خواتین و مرد ہر دو شعراء کی غزلوں کا بھرم رہ سکے ـ ( غلام محمد وامِق، جنرل سیکریٹری بزمِ ادب محراب پور جنکشن سندھ) ـ

غزل کے عام مروّج اور قدیم معانی، جس پر آج کے اہلِ علم و ماہرِ لسانیات نظرِ ثانی کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اس مسئلے پر مجھ ناچیز نے آج سے سینتیس سال قبل ایک گزارش پیش کی تھی، ملاحظہ فرمائیں روزنامہ " نوائے وقت کراچی " مورخہ 31 اگست 1985ء بروز ہفتہ ..... غزل کے معنی = اہلِ قلم، ادباء، شعراء و دانشورانِ پاکستان کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں، جیساکہ آج کے دور میں متعلقہ ہر شخص جانتا ہے کہ اب غزل کے معنی وہ نہیں رہے جو غالب اور غالب سے پیشتر شعراء کے وقت میں سمجھے جاتے تھے، اب غزل کا میدان بہت وسیع ہوگیا ہے جس میں صرف حسن و عشق ہی نہیں بلکہ فلسفہ، معاشیات، مذہب اور اخلاقیات کے پہلو بھی شامل ہیں، غرض یہ کہ آج کی غزل زندگی کے تقریباﹰ ہر شعبے پر محیط ہے، مگر افسوس کہ اب بھی لغت اور معلوماتی کتب میں غزل کے معنی صرف " عورتوں سے گفتگو کرنا یا عورتوں کی گفتگو کرنا " ہی لکھا جاتا ہے ـ حالاں کہ موجودہ دور میں یہ بات بڑی مضحکہ خیز نظر آرہی ہے کہ اگر مذکورہ معنی درست مان لئے جائیں تو آج کے دور میں جو خواتین شاعرات غزل گوئی کر رہی ہیں ان کے نزدیک غزل کے معنی کیا ہوں گے؟چنانچہ اس فقیرِ کم علم کی صرف اتنی سی گزارش ہے کہ براہِ کرم جدید غزل کے معانی عام مکتبہء فکر پر محیط ہونے چاہئیے، یا کم از کم " عورتوں " کے لفظ کے بجائے لفظ " محبوب " لکھا جائے تاکہ اس سے خواتین و مرد ہر دو شعراء کی غزلوں کا بھرم رہ سکے ـ ( غلام محمد وامِق، جنرل سیکریٹری بزمِ ادب محراب پور جنکشن سندھ) ـ

غزل کے عام مروّج اور قدیم معانی، جس پر آج کے اہلِ علم و ماہرِ لسانیات نظرِ ثانی کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اس مسئلے پر مجھ ناچیز نے آج سے سینتیس سال قبل ایک گزارش پیش کی تھی، ملاحظہ فرمائیں روزنامہ " نوائے وقت کراچی " مورخہ 31 اگست 1985ء بروز ہفتہ ..... 
                            غزل کے معنی
اہلِ قلم، ادباء، شعراء و دانشورانِ پاکستان کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں، جیساکہ آج کے دور میں متعلقہ ہر شخص جانتا ہے کہ اب غزل کے معنی وہ نہیں رہے جو غالب اور غالب سے پیشتر شعراء کے وقت میں سمجھے جاتے تھے، اب غزل کا میدان بہت وسیع ہوگیا ہے جس میں صرف حسن و عشق ہی نہیں بلکہ فلسفہ،  معاشیات، مذہب اور اخلاقیات کے پہلو بھی شامل ہیں، غرض یہ کہ آج کی غزل زندگی کے تقریباﹰ ہر شعبے پر محیط ہے، مگر افسوس کہ اب بھی لغت اور معلوماتی کتب میں غزل کے معنی صرف    " عورتوں سے گفتگو کرنا یا عورتوں کی گفتگو کرنا " ہی لکھا جاتا ہے ـ حالاں کہ موجودہ دور میں یہ بات بڑی مضحکہ خیز نظر آرہی ہے کہ اگر مذکورہ معنی درست مان لئے جائیں تو آج کے دور میں جو خواتین شاعرات غزل گوئی کر رہی ہیں ان کے نزدیک غزل کے معنی کیا ہوں گے؟
چنانچہ اس فقیرِ کم علم کی صرف اتنی سی گزارش ہے کہ براہِ کرم جدید غزل کے معانی عام مکتبہء فکر پر محیط ہونے چاہئیے، یا کم از کم " عورتوں " کے لفظ کے بجائے لفظ  " محبوب " لکھا جائے تاکہ اس سے خواتین و مرد ہر دو شعراء کی غزلوں کا بھرم رہ سکے ـ 
( غلام محمد وامِق، جنرل سیکریٹری بزمِ ادب محراب پور جنکشن سندھ) ـ 
سندھی اشعار               چو سٽو             (غلام محمد وامِق) =  تون مجبور سمجھي جفائون ڀلي ڪر ... مان ديوانو آھيان  وفائون  ڪريان  ٿو ... صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ... سڄڻ مان تہ توکي دعائون ڪريان ٿو  ـ  نومبر 1987 ء م چیل ـ  اردو بولنے والے دوستوں کے لئے اردو ترجمہ                               قطعہ          ( غلام محمد وامِق) مجھ کو مجبور سمجھ کر تو چاہے جفا کر ... میں تو دیوانہ ہوں، میں وفا ہی کروں گا ... صبح شام تو مجھ کو پتھر سے مار ... مگر میں تو پھر بھی دعا ہی کروں گا ـ نوٹ: - یہ فقط اردو ترجمہ ہے، اسے وزن اور بحر کے مطابق نہ تولا جائے ـ شکریہ ... تاریخ ـ 14 دسمبر 2022ء بدھ ...

سندھی اشعار چو سٽو (غلام محمد وامِق) = تون مجبور سمجھي جفائون ڀلي ڪر ... مان ديوانو آھيان وفائون ڪريان ٿو ... صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ... سڄڻ مان تہ توکي دعائون ڪريان ٿو ـ نومبر 1987 ء م چیل ـ اردو بولنے والے دوستوں کے لئے اردو ترجمہ قطعہ ( غلام محمد وامِق) مجھ کو مجبور سمجھ کر تو چاہے جفا کر ... میں تو دیوانہ ہوں، میں وفا ہی کروں گا ... صبح شام تو مجھ کو پتھر سے مار ... مگر میں تو پھر بھی دعا ہی کروں گا ـ نوٹ: - یہ فقط اردو ترجمہ ہے، اسے وزن اور بحر کے مطابق نہ تولا جائے ـ شکریہ ... تاریخ ـ 14 دسمبر 2022ء بدھ ...

سندھی اشعار

               چو سٽو             (غلام محمد وامِق) 

تون مجبور سمجھي جفائون ڀلي ڪر ... 
مان ديوانو آھيان  وفائون  ڪريان  ٿو ... 

صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ... 
سڄڻ مان تہ توکي دعائون ڪريان ٿو ـ

نومبر 1987 ء م چیل ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
اردو بولنے والے دوستوں کے لئے اردو ترجمہ    

                           قطعہ          ( غلام محمد وامِق) 

مجھ کو مجبور سمجھ کر تو چاہے جفا کر ... 
میں تو دیوانہ ہوں، میں وفا ہی کروں گا ... 
صبح شام تو مجھ کو پتھر سے مار ... 
مگر میں تو پھر بھی دعا ہی کروں گا ـ

نوٹ: - یہ فقط اردو ترجمہ ہے، اسے وزن اور بحر کے مطابق نہ تولا جائے ـ شکریہ ... تاریخ ـ 14 دسمبر 2022ء بدھ ... 
نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے ـ یہ دنیا حقیقت میں موہوم ہے ـ ستمبر 1998ء میں کہا گیا میرا ایک شعر ـ غلام محمد وامِق

نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے ـ یہ دنیا حقیقت میں موہوم ہے ـ ستمبر 1998ء میں کہا گیا میرا ایک شعر ـ غلام محمد وامِق

نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے ـ
یہ دنیا حقیقت میں موہوم ہے ـ

ستمبر 1998ء میں کہا گیا میرا ایک شعر ـ غلام محمد وامِق 
میرے دل سے قریب ترین لوگ، جو بہت جلد دنیا چھوڑ گئے،دو کلاس فیلوز، دو دوست ... لیاقت میڈیکل کالج ( لیاقت میڈیکل یونیورسٹی) جامشورو میں دورانِ تعلیم یادگار تصویر ... ۱. ڈاکٹر غلام محمد اعوان، میرا پیارا دوست ـ  ( تاریخِ وفات 24 فروری سال 1988ء بروز بدھ) مطابق ۵ رجب ۱۴۰۷ ہجری  ...۲. ڈاکٹر محمد شفیع طور، میرا پیارا بھائی ـ (تاریخِ وفات 21 نومبر سال 2022ء بروز پیر) ...مطابق ‏۲۵ ‏ربیع ‏الثانی ‏۱۴۴۴ ‏ہجری ‏ـ ‏

میرے دل سے قریب ترین لوگ، جو بہت جلد دنیا چھوڑ گئے،دو کلاس فیلوز، دو دوست ... لیاقت میڈیکل کالج ( لیاقت میڈیکل یونیورسٹی) جامشورو میں دورانِ تعلیم یادگار تصویر ... ۱. ڈاکٹر غلام محمد اعوان، میرا پیارا دوست ـ ( تاریخِ وفات 24 فروری سال 1988ء بروز بدھ) مطابق ۵ رجب ۱۴۰۷ ہجری ...۲. ڈاکٹر محمد شفیع طور، میرا پیارا بھائی ـ (تاریخِ وفات 21 نومبر سال 2022ء بروز پیر) ...مطابق ‏۲۵ ‏ربیع ‏الثانی ‏۱۴۴۴ ‏ہجری ‏ـ ‏

میرے دل سے قریب ترین لوگ، جو بہت جلد دنیا چھوڑ گئے،
دو کلاس فیلوز، دو دوست ... 
لیاقت میڈیکل کالج ( لیاقت میڈیکل یونیورسٹی) جامشورو میں دورانِ تعلیم یادگار تصویر ... 
۱. ڈاکٹر غلام محمد اعوان، میرا پیارا دوست ـ 
 ( تاریخِ وفات 24 فروری سال 1988ء بروز بدھ)  ... 
مطابق 5 رجب 1407 ہجری ـ 

۲. ڈاکٹر محمد شفیع طور، میرا پیارا بھائی ـ
 (تاریخِ وفات 21 نومبر سال 2022ء بروز پیر) ...
مطابق 25 ربیع الثانی 1444 ہجری ـ 
  آنے والے ۔.. جا سکتے ہیں ...  دل کو توڑ کے جا سکتے ہیں ...   خواب حقیقت کب ہوتے ہیں؟ ...  لیکن دیکھے  جا سکتے  ہیں ...   دیوانے کا خواب ہے دنیا ...  خواب سجائے جا سکتے ہیں ...   دنیا کے ہیں رنگ  نرالے ...  پھر بھی سمجھے جا سکتے ہیں ...   اُن کے لب کی مسکاہٹ پر ...  پھول لُٹائے جا سکتے ہیں ...   تجھ کو پانا  ناممکن  ہے ...  خواب تو دیکھے جا سکتے ہیں ...   افکار نئے ناپید ہوئے ہیں ...  لیکن سوچے جا سکتے ہیں ...   اب ہم آخری وقت میں وامِق ...  کتنا  آگے  جا سکتے  ہیں؟ ...                                                     ................................. فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعل فعولن فعلن فعلن بحر ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف

آنے والے ۔.. جا سکتے ہیں ... دل کو توڑ کے جا سکتے ہیں ... خواب حقیقت کب ہوتے ہیں؟ ... لیکن دیکھے جا سکتے ہیں ... دیوانے کا خواب ہے دنیا ... خواب سجائے جا سکتے ہیں ... دنیا کے ہیں رنگ نرالے ... پھر بھی سمجھے جا سکتے ہیں ... اُن کے لب کی مسکاہٹ پر ... پھول لُٹائے جا سکتے ہیں ... تجھ کو پانا ناممکن ہے ... خواب تو دیکھے جا سکتے ہیں ... افکار نئے ناپید ہوئے ہیں ... لیکن سوچے جا سکتے ہیں ... اب ہم آخری وقت میں وامِق ... کتنا آگے جا سکتے ہیں؟ ... ................................. فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعل فعولن فعلن فعلن بحر ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف

اٹلی کے اردو رسالے میں چھپنے والی میری غزل ... 

                  غـــــزل

آنے والے  ...... جا سکتے ہیں ... 
دل کو توڑ کے جا سکتے ہیں ... 

خواب حقیقت کب ہوتے ہیں؟ ... 
لیکن دیکھے  جا سکتے  ہیں ... 

دیوانے کا خواب ہے دنیا ... 
خواب سجائے جا سکتے ہیں ... 

دنیا کے ہیں رنگ  نرالے ... 
پھر بھی سمجھے جا سکتے ہیں ... 

اُن کے لب کی مسکاہٹ پر ... 
پھول لُٹائے جا سکتے ہیں ... 

تجھ کو پانا  ناممکن  ہے ... 
خواب تو دیکھے جا سکتے ہیں ... 

افکار نئے ناپید ہوئے ہیں ... 
لیکن سوچے جا سکتے ہیں ... 

اب ہم آخری وقت میں وامِق ... 
کتنا  آگے  جا سکتے  ہیں؟ ... 
                                                   .................................
فعلن فعلن فعلن فعلن
فعلن فعل فعولن فعلن
فعل فعولن فعلن فعلن
بحر ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
 ‎بھیڈا ( بھیڑیا ) ★★★    ــــــــ مکمل داستان ـــ قسط نمبر ـ 1ـ  2 ـ 3 ـ 4 ـ  ( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) ــ  ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ==  جیند کی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی، وہ کال کوٹھری میں پڑا ہوا بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا، گزرے لمحات فلم سکرین کی طرح اس کے سامنے سے گزر رہے تھے، اس کی عمر ستر سال سے تجاوز کرچکی تھی ـ جسم پر ہلکا ہلکا رعشہ طاری ہوچکا تھا ـ وہ سوچ رہا تھا ابھی کل کی ہی تو بات ہے، گاؤں ( کالوا) بھر میں اس کا دبدبہ تھا، کس کی مجال جو اس سے نظریں ملا سکے ـ اس کی آنکھوں میں ہلکے سرخ ڈورے تو اب بھی دیکھے جا سکتے تھے، وہ سوچ رہا کہ زندگی کے دن ویسے بھی پورے ہوچکے تھے اب اگر پھانسی بھی ہوگئی تو کیا ہے ـ اس نے اپنی زندگی بھرپور انداز سے گزاری تھی ـ اس کا قد سات فوٹ کے قریب تھا وہ کالوے اور اردگرد کے گاؤں کا مشہور بہادر اور نڈر نوجوان ہوتا تھا ـ اس کے دونوں کانوں میں چاندی کے بالے پڑے ہوتے تھے، سرخ و سفید چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں جنہوں نے اس کے بالائی لب کو ڈھانپ لیا تھا، اس کے مہم جُو ہونے کی غمازی کر رہی تھیں ـ کالوا اور قرب و جوار کے علاقے میں اس کی بہادری کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی ـ کوئی بھی شخص اس کے گھر کے سامنے سے گھوڑے پر سوار ہوکر نہیں گزرتا تھا، یا نہیں گزر سکتا تھا ( شاید اس کے احترام کے باعث) ـ وہ ہر مظلوم کے درد کا درماں تھا، گاؤں کا ہر شخص اپنے تنازعات اسی سے حل کروانے کی کوشش کرتا تھا، جب کہ بدمعاش لوگ اس سے کنی کترا کے گذرتے تھے ـ اس کی گلی میں اس کے گھر کے سامنے والے گھروں کی قطار کے آخری کونے پر بنی حویلی کے سامنے والے حصے پر اس کی پورٹریٹ پتھر پر نقش کر کے آویزاں کی گئی تھی، حالاں کہ وہ حویلی ایک ہندو بنئے کی تھی، لیکن یہ پورٹریٹ اس سے عقیدت و محبت کا مظہر تھی ـ اس کا نام تو  " غلام حسین " تھا، لیکن لوگ اسے " بھیڈا  " کے نام سے پکارتے تھے ـ یہ نام گویا اس کی بہادری کے ایک واقعہ کی یادگار تھا ـ اس کے سامنے بیتے زمانے کا وہ منظر آگیا جب گاؤں کے چوپایوں کے باڑے سے ہر رات ایک جانور غائب ہونے لگا، لوگ پریشان تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ـ کون ہے جو باڑے سے جانور اٹھا کر لے جاتا ہے؟ ـ اس زمانے میں جانوروں کے باڑے ایک میدان میں کانٹوں کی باڑ لگا کر بنائے جاتے تھے، جس میں بھیڑ بکریاں رکھی جاتی تھیں ـ باڑے کا دروازہ برائے نام ہوتا تھا جسے گھاس پھوس یا ٹوٹے پھوٹے پھٹوں سے ڈھک دیا جاتا تھا ـ جب وارداتوں میں اضافہ ہوا تو سب کی نظریں غلام حسین پر پڑیں،  اسی سے کہا گیا کہ اس مسئلے کا حل نکالیں ـ تب اس نے چور کو پکڑنے کے لئے خود اکیلے رات بھر پہرہ دینے کا لائحہ عمل ترتیب دیا، سردیوں کا موسم تھا،  وہ رات کو باڑے کے ایک کونے میں خود کو رضائی میں لپیٹ کر بیٹھ گیا کہ دیکھیں کون سا چور ہے جو ہر رات جانور نکال کر لے جاتا ہے ـ رات گذرتی گئی مگر کوئی نہ آیا، وہ انتظار کرکے مایوس ہوچلا تھا کہ رات کے آخری پہر اسے کھٹکا محسوس ہوا، وہ تیار ہوکر بیٹھ گیا، مگر یہ دیکھ کر اسے مایوسی ہوئی کہ کسی چور کے بجائے اندھیرے میں گیدڑ نما کوئی جانور باڑے میں داخل ہورہا ہے، اس نے اندر آتے ہی اچانک ایک بکری کو دبوچا ہی تھا کہ اس نے اپنی لاٹھی اٹھا کر اس پر وار کیا لیکن حیرت انگیز طور پر جانور نے غلام حسین پر چھلانگ لگادی، غلام حسین اس سے لپٹ گیا مگر اسے محسوس ہوا کہ یہ کوئی عام گیدڑ یا کتا وغیره نہیں ہے، اس درندے جانور میں اس قدر طاقت تھی کہ غلام حسین کو اپنے جسم کی ہڈیاں چٹختی محسوس ہوئیں، تب اس درندے نے اپنا مُنہ کھولا اور اپنے جبڑوں میں اسے چبانا چاہا کہ اچانک غلام حسین نے اپنا ایک ہاتھ رضائی میں لپیٹ کر اس کے جبڑوں میں گھسیڑ دیا، جس سے اس کے دانت رضائی میں پھنس گئے اور اس کا مُنہ قابو میں آگیا ـ اس کے بعد بہت دیر تک ان دونوں میں کُشتی ہوتی رہی ـ غلام حسین جیسا طاقتور شخص حیران تھا کہ آخر یہ کیا بلا ہے؟ جو نہ تو قابو ہی آرہی ہے اور نہ ہی چھوڑ کر بھاگ رہی ہے ـ یہاں تک کہ صبح فجر کی آذان ہوگئی ـ باڑے کے قریب ہی مسجد تھی، نمازی نماز کے لئے آنے لگے تو انہوں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا، لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہوگئی تو غلام حسین نے چیخ کر کہا کہ دیکھ کیا رہے ہو؟ اس کتے کو لٹھوں سے مارو، تب لوگوں نے بتایا کہ غلام حسین یہ کتّا نہیں بھیڑیا ہے ـ بالآخر گاؤں کے لوگوں نے لٹھوں، اور ڈنڈوں وغیرہ سے اس بھیڑئے کو مارنا شروع کردیا، جب وہ ادھ مرا ہوگیا تو اس کی گرفت ڈھیلی پڑی، اس طرح اس بھیڑئیے کو ہلاک کردیا گیا ـ اس واقعے کے بعد سے غلام حسین کی شناخت بھیڑئیے کے نام سے ہونے لگی، بھیڑئیے کو ہریانوی زبان میں " بھیڈا " کہا جاتا ہے ـ اس طرح رفتہ رفتہ تمام لوگ اسے غلام حسین کے بجائے " بھیڈا " کے نام سے پکارنے اور جاننے لگے ـ بقایا ..... قسط نمبر دو 2 میں ملاحظہ فرمائیں      ‏ـــ ===  بھیڈا ( بھیڑیا)  === قسط ـ 2 ...  گذشتہ سے پیوستہ ( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ وہ یوں تو ہر فن مولا تھا، لیکن اپنی معاشی ضروریات کے لئے اس کے پاس تھوڑی سی زرعی زمین بھی تھی، لیکن اس کے اصل کام دو تھے جن سے اسے دلچسپی تھی، ایک تو وہ خود جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انہیں تراش کر ان سے ضروریاتِ زندگی کی اشیاء تیار کر کے انہیں فروخت کرتا، جیسا کہ گھریلو استعمال کی تمام اشیاء و فرنیچر وغیرہ ـ دوسرا کام جس سے اسے عشق کی حد تک دلچسپی تھی، وہ تھا ہر قسم کے سانپ ( ناگ ) پکڑنا، اور ان کے زہر سے اور ان کی جلد سے مختلف قسم کی ادویات تیار کرنا، جس میں خاص طور پر سانپ کے کاٹنے کا علاج اور سانپ کے ڈسے جانے کے بعد مریض کے جسم سے سانپ کا زہر اپنے مُنہ سے چوس کر نکالنا تھا ـ دور و نزدیک کے بہت سے لوگ سانپ کے ڈسے ہوئے لوگوں کو اس کے پاس لاتے جسے وہ اپنی تیار کردہ دوائیاں کھلا کر یا سانپ کا زہر نکال کر مریض کو تندرست کردیتا تھا ـ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ حکمت اس نے کہاں سے حاصل کی تھی، کیوں کہ خاندانی طور پر وہ سپیرا نہیں تھا، اس کے بڑوں نے بھی کبھی سانپ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، لیکن اسے سانپوں سے انتہائی دلچسپی تھی، اسے اگر معلوم ہوجاتا کہ فلاں علاقے میں کوئی نئی نسل کا سانپ ہے تو وہ اسے پکڑنے کے لئے وہاں پہنچ جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اس کے پاس ایک " بِین "  بھی تھی ـ اس کے گھر میں مختلف قسم کے سینکڑوں سانپ ہر وقت موجود ہوتے تھے، جنہیں مٹی کی ہانڈیوں میں یا مٹکوں میں ڈال کر رکھا جاتا تھا، اس کے پاس اکیلے سانپ کے لئے پٹاریاں بھی تھیں ـ اس نے اژدھے بھی پال رکھے تھے جن کے لئے الگ سے انتظام کیا گیا تھا، جس جگہ اژدھے رکھے جاتے تھے اس میں ریت بچھائی جاتی تھی اور موسمِ گرما میں اس ریت کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے پانی کا چھڑکاﺅ کیا جاتا تھا، جوکہ گھر میں موجود بچے بھی کردیتے تھے، لیکن تمام بچوں کو سانپوں سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی تھی، حالاں کہ اکثر سانپوں کا زہر نکالا ہوا ہوتا تھا ـ وہ سانپوں کے زہر سے یا دیگر اجزاء سے ایک خاص قسم کا سرمہ بھی بناتا تھا جسے وہ خود ہی استعمال کرتا تھا، جس سے اس کی آنکھوں میں خاص قسم کی چمک پیدا ہوگئی تھی اور اس کے استعمال سے کبھی نظر کمزور نہیں ہوتی تھی ، کہا جاتا ہے کہ اس سرمے کی تاثیر یہ تھی کہ جو بھی غیرمحرم جوان عورت اس کی آنکھوں میں دیکھ لیتی تو اس پر فریفتہ ہوجاتی، اس روایت سے منسوب بہت سی کہانیاں زبانِ زدِعام تھیں ـ اس کے باوجود اس نے صرف تین خواتین سے نکاح کیا اور انہیں اپنے ساتھ گھر میں رکھا، جن میں سے ایک خاتون آرائیں قوم سے تعلق رکھتی تھی، جسے بعدازاں چند ناگزیر وجوہات کے باعث چھوڑنا پڑا ـ ان بیویوں سے اس کو بہت سی اولادیں تھیں، جن میں بیٹیاں زیادہ تھیں، جب کہ بیٹے فقط چار ہی تھے، بڑا بیٹا علی شیر لڑکپن میں انتقال کرگیا تھا، اس سے چھوٹا نواز علی جوکہ اپنے والد سے مشابہ تھا اور اسی کی طرح دلیر بھی تھا اور شادی شدہ تھا ، وہ گاؤں کے  ایک میلے میں منعقدہ  وزن اٹھانے کے انعامی مقابلے کی ایک  تقریب میں بھاری وزن اٹھانے کا مظاہرہ  کرتے ہوئے جسم میں کوئی تکلیف پیدا ہونے کے باعث بیمار ہوا اور چند دنوں کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا ـ اس کے بعد  محمد شریف اور اس سے تقریباً دس سال چھوٹا بیٹا شیر محمد تھا ـ جب وہ اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر نکلتا تو لوگ اسے احترام سے دیکھتے اور سرگوشی میں ایک دوسرے کو بتاتے کہ یہ  " بھیڈا " ہے ـ ایک رات وہ اپنی گھوڑی پر سوار عازمِ سفر تھا تو راستے میں ایک گاؤں میں اس نے دیکھا کہ ہندؤوں کے ایک گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آرہی ہیں، اس نے گھوڑی کو روکا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک نوجوان سانپ کے ڈسنے سے مرگیا ہے، اور اب اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے اسے شمشان گھاٹ لے جانے کی تیاری ہو رہی ہے ـ وہ ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس کے وارثین نے کہا کہ مرنے کے بعد کون زندہ ہوتا ہے؟ پھر بھی آپ جو کرنا چاہیں کرلیں، اب اس کو مزید تو کوئی نقصان پہنچنے سے رہا ـ بھیڈے نے اپنی جیب سے کسی دوا کی شیشی نکالی اس میں سے چند قطرے مرنے والے کا مُنہ کھول کر اس میں ٹپکائے اور شاید اس کا زہر بھی چوس کر نکالا، بہرحال روایت کے مطابق کچھ دیر بعد مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں، یہ دیکھ کر ماتم زدہ گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے ـ اس کا  کہناتھا کہ سانپ  کے ڈسنے کے بعد چوبیس گھنٹے تک مریض زندہ ہوتا ہے اور اسے بچایا جاسکتا ہے،  افسوس کہ اس قدر قیمتی حکمت اور انمول نسخہ جات  "بھیڈے " کی اگلی نسل کو منتقل نہیں ہوسکے ـ بقایا ....   قسط نمبر تین 3، میں ملاحظہ فرمائیں ـ        ان شاءالله العزیز ...   ‏ === بھیڈا ( بھیڑیا ) === قسط ـ 3 ...    گذشتہ سے پیوستہ ... ( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ جیل کی کال کوٹھری میں اپنی موت کا منتظر وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا والد  " غوث بخش "  دھنانہ گاؤں میں رہتا تھا، جہاں پر اس کی بہترین زرعی زمین پر اس کے چار بھائیوں نے قبضہ کرکے اسے زمین سے بے دخل کردیا تھا، چناں چہ اس کا والد حالات سے مجبور ہوکر اپنے گاؤں دھنانہ سے ہجرت کرکے اپنی سسرال کے پاس  " کالوا  " میں آکر آباد ہوگیا تھا، جہاں پر وہ پیدا ہوا تھا ـ وہ سوچ رہا تھا اپنے سگے بھائی بھی حصولِ دنیا کے لئے برادرانِ یوسف کیوں بن جاتے ہیں؟ ـ  اور حرصِ دنیا میں اپنے خون کے رشتوں کو بھی ان کے گھربار اور شہر سے نکال دیتے ہیں ـ اسی طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آرہے تھے کہ پھر اسے اپنا ایک پیارا دوست یاد آیا، وہ ہندو ( سناتھن ) دھرم سے تعلق رکھتا تھا، اس کا نام "  ہری چند  " ( یہ فرضی نام ہے  اصل نام یاد نہیں آرہا)  تھا جس نے اس کے کہنے پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا، یہ بھی بڑا عجیب قصہ تھا ـ   ہری چند اکثر غلام حسین سے ملنے اس کے گھر اس کی بیٹھک میں آتا ، اس کے ساتھ باتیں کرتا اور اکٹھے بیٹھ کر ساتھ کھانا کھاتے تھے، ایک روز ہری چند نے بھی غلام حسین کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دی جسے قبول کرلیا گیا، مگر جب وہ دعوت پر ہری چند کے گھر پہنچا تو اس نے ان کی بیٹھک میں سُوَّر ( سُووَر ) بندھے دیکھے، یہ دیکھ کر اس کا جی خراب ہوگیا اور ہری چند سے کہا کہ بھائی میں اس وقت تک تمہارے گھر نہیں جاسکتا جب تک تمہارے گھر میں سوّر موجود ہیں، چنانچہ وہ اس کی دعوت پر اس کے گھر نہیں گیا ـ    وقت گزرتا گیا ایک روز ہری چند نے کہا کہ بھائی غلام حسین میں تمہارے مذہب اسلام کو سوفیصد سچا سمجھتا ہوں، اس لئے تم مجھے مسلمان بنالو ـ  یہ سن کر غلام حسین خوشی سے جھوم اٹھا اور اسے مشورہ دیا کہ اسلام کی صحیح تعلیم کے لئے تم دہلی چلے جاؤ، وہاں پر فلاں مدرسہ ہے وہاں پر فلاں نام کے ایک عالم ہیں انہیں میرا سلام کہنا وہ تمہیں مدرسے میں داخل کرلیں گے، چنانچہ ہری چند نے ایسا ہی کیا، لیکن اس سلسلے میں ان کے گھر والوں کا کیا ردّعمل تھا یہ معلوم نہ ہوسکا ـ  مسلمان ہونے کے بعد ہری چند کا نام  " عبدالقادر " رکھا گیا، چند سالوں بعد عالم بن کر عبدالقادر ( یہ نام بھی فرضی ہے، اصل رکھا گیا نام بھی یاد نہیں) جب واپس اپنے گاؤں آیا تو غلام حسین نے اس کا پُرجوش استقبال کیا، اور اپنے گھر دعوت پر بلایا، لیکن عبدالقادر نے کہا کہ بھائی غلام حسین تمہارے کہنے پر اور اللہ کے فضل سے میں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا، اب تم ایک میری بات بھی مان لو اور وہ یہ ہے کہ تمہارے کانوں میں جو یہ بالے ہیں یہ ہندو دھرم کی علامت ہیں انہیں نکال دو، اور تمہاری یہ جو بڑی بڑی مونچھیں تمہارے لبوں پر آرہی ہیں انہیں ترشوا لو، کیوں کہ جب تم کھانا کھاتے ہو یا پانی پیتے ہو تو وہ مونچھوں کو لگ کر مُنہ میں جاتا ہے، جوکہ غیر شرعی ہے اور لقمہ حرام ہوجاتا ہے، یہ عمل سنّتِ رسولﷺ کے خلاف ہے ـ یہ سن کر غلام حسین مسکرایا اور اسی وقت اپنے کانوں سے بالے اتار دئے اور حد سے بڑھی مونچھیں ترشوا لیں، اس خیال کے آتے ہی بھیڈے کے چہرے پر اطمینان ظاہر ہوا اور لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ـ خیالات کا سلسلہ دوسری جانب مڑا تو اس کے سامنے وہ منظر آگیا جب وہ ایک رات اپنی گھوڑی پر سوار کہیں سے واپس گھر کی طرف آرہا تھا ... راستے میں وہ ایک قبرستان سے گزرا تو اچانک یہ دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا کہ ایک قبر پر کوئی مادرزاد برہنہ عورت بال بکھرائے کھڑی ہوئی کسی برتن میں موجود پانی سے نہا رہی ہے، یہ دیکھ کر وہ رک گیا، گھوڑی سے اترا اور اس عورت کے پاس گیا، وہ خوفزدہ نہیں ہوا اور نہ ہی اسے چڑیل وغیرہ سمجھا ـ اس عورت نے اسے ڈرانے کے لئے چیخ کر کہا کہ بھاگ جاؤ، اپنی جان بچاؤ، میں چڑیل ہوں تمہارا خون پی جاؤں گی، لیکن بھیڈے نے تو ڈرنا سیکھا ہی نہیں تھا، اس نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا ـ  اپنی پگڑی اتار کر اس کی طرف پھینکی کہ اس سے اپنا جسم ڈھانپ لو، لڑکی نے ایسا ہی کیا، تب بھیڈے نے دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا کہ بتاؤ ... تم کون ہو ...؟ ورنہ تمہیں یہیں پر مار ڈالوں گا ـ  وہ عورت اب بہت زیادہ خوفزدہ ہوگئی تھی ... وہ رونے لگی اور بتایا کہ وہ فلاں گاؤں کی رہنے والی ہے اور فلاں شخص کی بیوی ہے، شادی کو کئی سال ہوگئے ہیں مگر وہ اب تک اولاد سے محروم ہے، ہمارے پیر صاحب نے بتایا تھا کہ فلاں تاریخ کو،  رات کو فلاں وقت پر قبرستان میں کسی پرانی قبر پر جاکر نہالو تو اولاد ہوجائے گی ـ یہ سن کر " غلام حسین بھیڈے " نے اسے سمجھایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، تمہیں فریب دیا گیا ہے، اولاد دینے والا تو صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے، فقط اسی سے ہر شے طلب کرو، وہی دعائیں قبول کرتا ہے، آئندہ ایسی غلطی ہرگز نہ کرنا، اب چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں ... لڑکی نے منتیں کرنی شروع کردیں کہ آپ یہ سب میرے گھر والوں کو مت بتانا، ورنہ وہ مجھے طلاق دے دیں گے، یا مجھے مار یں گے، اس نے وعدہ کرلیا، اور لڑکی کو گھوڑی پر اپنے پیچھے بٹھا کر خاموشی سے اس کے گھر پر اتار دیا ـ  وہ لڑکی جس طرح چوری چھپے گھر سے نکلی تھی، اسی طرح چھپ کر گھر میں داخل ہوگئی، اور بات پردے کی پردے میں رہ گئی ـ باقی ... قسط ـ 4 ( آخری قسط ) میں ملاحظہ فرمائیں ـ .....=== بھیڈا ( بھیڑیا ) === قسط ـ 4 ـ آخری ـ       گذشتہ سے پیوستہ ( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے) ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان =  جیل  کی کال کوٹھری میں اپنی موت کو قریب ترین محسوس کرتے ہوئے گزری زندگی کے تمام ورق خودبخود الٹتے جا رہے تھے، یہ سوچ کر اسے بے حد دکھ ہوا کہ ابھی چند ہی سال قبل اس کا شاگرد  " منوہر لال " ( یہ نام بھی فرضی ہے، اصل نام یاد نہیں) جوکہ جاٹ قوم سے تھا، اس کے پاس آیا اور کہا کہ استاد جی مجھے کچھ دن کے لئے اپنی بندوق دے دو، مجھے اپنے چند دوستوں کے ساتھ شکار پر جانا یے، یہ سن کر اس نے بندوق دینے کے معاملے پر کچھ تردّد کیا، لیکن منوہر لال نے اس کی ہر طرح سے تشفّی کردی اور اطمینان دلایا کہ تمہاری بندوق کو غلط کام کے لئے استعمال ہرگزنہیں کیا جائے گا ـ بھیڈے نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی بندوق اس کو دے دی ـ اس کی بندوق کے بٹ پر کچھ مخصوص نقش و نگار اس نے خود اپنے ہاتھ سے کندہ کئے ہوئے تھے جوکہ اس کی بندوق کی شان اور پہچان تھے ـ بہرحال منوہر لال بندوق لے گیا ـ پھر کئی روز تک وہ واپس نہیں آیا، البتہ اس کے متعلق یہ خبر ضرور آگئی کہ منوہر لال روپوش ہوگیا ہے ـ بعدازاں یہ خبر آئی کہ منوہر لال نے اپنے بدمعاش جرائم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی قریبی گاؤں میں ایک ہندو سیٹھ کے گھر پر حملہ کیا تھا، پورے گھر کو لوٹ کر آگ لگادی، اور کچھ اہلِ خانہ کو قتل بھی کردیا گیا ہے ـ اس واردات میں استعمال ہونے والی " بھیڈے " کی بندوق بازیاب ہو گئی تھی ـ پولیس مجرمان کی تلاش میں چھاپے مار رہی تھی، یہ اطلاع ملتے ہی کچھ لوگوں کے کہنے پر غلام حسین بھیڈا بھی روپوش ہوگیا ـ وہ دراصل دھنانہ گاؤں میں جاکر اپنے عزیزوں کے ہاں چھپ گیا تھا ـ بہت عرصہ وہ روپوش رہا، لیکن اس کی غیرموجودگی میں اس کے گھر میں بچوں کو فاقہ کشی اور بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اوپر سے پولیس بار بار ان کو تنگ کر رہی تھی ـ گھر میں بچوں کے دگرگوں حالات سن سن کر بالآخر غلام حسین نے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ـ اور جیند شہر آکر خود کو پولیس کے حوالے کردیا ـ غلام حسین کے بیان کے بعد منوہر لال اور اس کے دیگر مجرم ساتھیوں کو پکڑ لیا گیا، لیکن ٹھوس ثبوت غلام حسین کے خلاف اس کی بندوق تھی، جوکہ موقعہء واردات سے بازیاب ہوئی تھی اور اب عدالت میں جج صاحب کے سامنے موجود تھی، آلہء قتل کی موجودگی میں مقدمہ چلا، منوہر لال اور دیگر مجرمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ وہ بندوق غلام حسین سے شکار کے لئے مانگ کر لے گئے تھے، ان کے بیان کے مطابق یہ کارروائی غلام حسین بھیڈے نے کی ہے ـ جج نے غلام حسین کو پھانسی کی سزا سنادی، اور دیگر مشکوک مجرموں کو بھی کچھ سال قید کی سزا سنائی گئی ـ غلام حسین کی ایک ذہین بیٹی " شریفن "  تھی، جس کی عمر  بارہ، پندرہ سال کے درمیان ہوگی ـ وہ عدالت کے ایک سرکاری وکیل سے ملی، یہ وکیل ان کے گاؤں " کالوا " کا رہائشی تھا ـ اس کو ساری حقیقت بتائی گئی، وہ خود بھی ان حقائق سے آگاہ تھا اور غلام حسین کی عزت کرتا تھا، جب شریفن نے اس کے پاس آکر اپنے باپ کی رہائی کے لئے منتیں کرنی اور رونا شروع کیا تو اس کو اس پر بہت ترس آیا، اور اس نے ان کی مدد کرنے کا ارادہ کرلیا ـ  اس نے شریفن کو کچھ اہم باتیں سمجھائیں اور کہا کہ جج صاحب ( جو کہ انگریز تھا )  بہت رحم دل،  خدا ترس اور ایماندار آدمی ہے، میں تمہیں اس کے گھر کے باہر لے چلتا ہوں، وہ صبح جیسے ہی عدالت آنے کے لئے گھر سے نکلے تو تم اس کے سامنے جاکر اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوجانا، اس کے سامنے آہ و زاری کرنا، تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا ـ شریفن نے ایسا ہی کیا، وہ جج کے پاؤں میں گر پڑی،  اس نے جج کو روتے ہوئے بتایا کہ اس کا والد بالکل بے قصور ہے، وہ اب بوڑھا ہوچکا ہے، وہ تو اب رات کو کبھی گھر سے بھی باہر نہیں نکلتا، اور نہ ہی اس میں اب اتنی طاقت ہے کہ وہ ڈاکہ ڈال سکے ـ اور یہ کہ یہ واردات میرے باپ کے شاگرد منوہر لال نے کی ہے، جو کہ اس کی بندوق شکار کرنے کے بہانے سے لے گیا تھا ـ جج صاحب کو اس پر بہت ترس آیا، اس نے بڑی توجہ سے بچی کی باتیں سنیں اور اس کی مدد کا وعدہ کر لیا، اس نے وکیل سے کہ کر کیس کی دوبارہ سماعت کے لئے اپیل کروائی ـ چنانچہ کچھ ضروری کارروائی کے بعد کیس کی دوبارہ سے سماعت شروع کی گئی ـ دورانِ سماعت کچھ مزید شواہد کا مشاہدہ کرنے کے بعد کیس بہت کمزور ہوگیا اور آخری سماعت پر جج نے غلام حسین کی بندوق کو اچانک اٹھا کر اسے تھماتے ہوئے کہا کہ غلام حسین اس بندوق سے تم کیسے نشانہ لگاتے ہو ذرا اسے تھام کر تو دکھاؤ ـ غلام حسین نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے بندوق کو نشانہ لگانے والے انداز سے تھام کر دکھایا ـ پھر جج صاحب نے وہی بندوق منوہر لال  کی طرف بڑھائی اور کہا کہ تم بھی بتاؤ کہ بندوق سے کیسے نشانہ لیا جاتا ہے؟ ـ منوہر لال نے فوراً بندوق کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر سیدھا کر کے دکھایا ـ یہ دیکھ کر جج صاحب نے بھری عدالت کے سامنے کہا کہ آپ سب نے دیکھ لیا کہ غلام حسین کے ہاتھوں میں اب اتنی سکت بھی نہیں ہے کہ وہ بندوق کو سیدھا کر کے تھام سکے، ایسی حالت میں کوئی ڈاکہ کیسے ڈال سکتا ہے اور کسی کو قتل کیسے کرسکتا ہے؟ ـ جب کہ آپ نے دیکھ لیا کہ منوہر لال نے کس چابکدستی اور مہارت کے ساتھ بندوق کو پکڑا اور نشانہ باندھا ـ لہٰذا صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قتل و ڈکیتی کی اس واردات میں غلام حسین ہرگز ملوّث نہیں ہے، اس لئے غلام حسین کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور اصل مجرم منوہر لال کو سزائے موت  اور اس کے ساتھیوں کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ـ غلام حسین اس کے بعد تقریباﹰ دس گیارہ  سال مزید زندہ رہا، اس دوران اس نے اپنی بیٹی  " شریفن "  کی شادی کردی، شریفن شادی کے بعد اپنے شوہر کے پاس " شملہ " چلی گئی، جہاں پر اس کا شوہر  ریلوے میں ملازم تھا ـ پاکستان آنے کے بعد شوہر انتقال کرگیا، پھر دوسرا نکاح ٹنڈوآدم میں " فتح محمد " سے ہوا تھا،  دیگر بچیوں کی بھی شادیاں کردی گئیں ـ  بڑے بیٹے "نوازعلی" ( جوکہ وزن اٹھانے کے ایک مظاہرے کے دوران تکلیف ہونے کے باعث انتقال کرگیا تھا)  کی بیوہ کا نکاح  اپنے  بیٹے  "محمد شریف " سے کروا دیا، جس کی عمر تقرباً  اٹھارہ سال تھی ـ غلام حسین ( بھیڈا)  نے کم و بیش اسی ( 80 ) سال کی عمر میں  انتقال کیا ـ اس کے انتقال کے دو تین  سال بعد ملک تقسیم ہوا تو یہ تمام خاندان ہجرت کرکے براستہ " اٹاری ریلوے اسٹیشن " پاکستان کے شہر لاہور  " والٹن کیمپ " پہنچے، جن تکالیف اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے یہ خاندان پاکستان پہنچا یہ الگ سے ایک دردناک داستان ہے ـ  ہجرت کے  وقت بڑے  بیٹے " محمد شریف " کی عمر اکیس بائیس سال کے قریب تھی ، جبکہ چھوٹا بیٹا " شیر محمد "  تیرہ چودہ  سال کا تھا،  شیر محمد دنیاداری سے دور ،  فقیرمنش، درویش صفت انسان تھا ـ  والٹن کیمپ سے حکومت نے انہیں سندھ بھجوادیا، جہاں پر انہوں نے محراب پور میں سکونت اختیار کی ـ  پانچ چھ سال بعد شیر محمد  اور محمد شریف نے پنوعاقل سندھ میں ایک ہی گھر میں دو بہنوں سے شادیاں کیں ، یہ محمد شریف کی دوسری شادی تھی ـ محمد شریف کو پاکستان آنے کے بعد پہلی بیوی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، دوسری سے کوئی اولاد نہیں ہوئی،  جب کہ شیرمحمد کو تین بیٹیاں اور چار بیٹے پیدا ہوئے، جن میں سے دو بیٹے بچپن میں ہی انتقال کر گئے، اور دو بیٹے جن میں سے بڑا بیٹا غلام محمد وامِق ( راقم الحروف ) اور چھوٹا بیٹا ڈاکٹر محمد شفیع طور، ماشاءاللہ حیات ہیں ( الحمدللہ ربّ العالمین) ـ شیرمحمد طور کا انتقال مورخہ 27 مئی 1986ء،  مطابق 17 رمضان المبارک 1406ھجری، بروز منگل تقریباﹰ 52 سال کی عمر میں ہوا،  ـ اور اس کے بڑے بھائی محمد شریف طور کا انتقال مورخہ 15 مارچ 2005ء، مطابق 4 صفر 1426ھجری بروز منگل، تقریباﹰ 80 ـ 79 سال کی عمر میں ہوا ــــــــــــــــــــــ وضاحت =  یہ داستان " غلام حسین عرف بھیڈا " کے بڑے فرزند محمد شریف طور نے بارہا اہلِ خانہ کے سامنے سنائی، اور برادرِ خورد  ڈاکٹر محمد شفیع طور نے اس کی تصدیق کی، جب کہ راقم الحروف غلام محمد وامِق نے اسے داستان کی شکل میں ترتیب دیا اور قلمبند کیا ـ یہ تحریر، آج سات ( 7 ) نومبر سال 2022 ء بروز سوموار کو پایۂ تکمیل کو پہنچی ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ  ‏ ‏

‎بھیڈا ( بھیڑیا ) ★★★ ــــــــ مکمل داستان ـــ قسط نمبر ـ 1ـ 2 ـ 3 ـ 4 ـ ( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) ــ ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان == جیند کی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی، وہ کال کوٹھری میں پڑا ہوا بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا، گزرے لمحات فلم سکرین کی طرح اس کے سامنے سے گزر رہے تھے، اس کی عمر ستر سال سے تجاوز کرچکی تھی ـ جسم پر ہلکا ہلکا رعشہ طاری ہوچکا تھا ـ وہ سوچ رہا تھا ابھی کل کی ہی تو بات ہے، گاؤں ( کالوا) بھر میں اس کا دبدبہ تھا، کس کی مجال جو اس سے نظریں ملا سکے ـ اس کی آنکھوں میں ہلکے سرخ ڈورے تو اب بھی دیکھے جا سکتے تھے، وہ سوچ رہا کہ زندگی کے دن ویسے بھی پورے ہوچکے تھے اب اگر پھانسی بھی ہوگئی تو کیا ہے ـ اس نے اپنی زندگی بھرپور انداز سے گزاری تھی ـ اس کا قد سات فوٹ کے قریب تھا وہ کالوے اور اردگرد کے گاؤں کا مشہور بہادر اور نڈر نوجوان ہوتا تھا ـ اس کے دونوں کانوں میں چاندی کے بالے پڑے ہوتے تھے، سرخ و سفید چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں جنہوں نے اس کے بالائی لب کو ڈھانپ لیا تھا، اس کے مہم جُو ہونے کی غمازی کر رہی تھیں ـ کالوا اور قرب و جوار کے علاقے میں اس کی بہادری کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی ـ کوئی بھی شخص اس کے گھر کے سامنے سے گھوڑے پر سوار ہوکر نہیں گزرتا تھا، یا نہیں گزر سکتا تھا ( شاید اس کے احترام کے باعث) ـ وہ ہر مظلوم کے درد کا درماں تھا، گاؤں کا ہر شخص اپنے تنازعات اسی سے حل کروانے کی کوشش کرتا تھا، جب کہ بدمعاش لوگ اس سے کنی کترا کے گذرتے تھے ـ اس کی گلی میں اس کے گھر کے سامنے والے گھروں کی قطار کے آخری کونے پر بنی حویلی کے سامنے والے حصے پر اس کی پورٹریٹ پتھر پر نقش کر کے آویزاں کی گئی تھی، حالاں کہ وہ حویلی ایک ہندو بنئے کی تھی، لیکن یہ پورٹریٹ اس سے عقیدت و محبت کا مظہر تھی ـ اس کا نام تو " غلام حسین " تھا، لیکن لوگ اسے " بھیڈا " کے نام سے پکارتے تھے ـ یہ نام گویا اس کی بہادری کے ایک واقعہ کی یادگار تھا ـ اس کے سامنے بیتے زمانے کا وہ منظر آگیا جب گاؤں کے چوپایوں کے باڑے سے ہر رات ایک جانور غائب ہونے لگا، لوگ پریشان تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ـ کون ہے جو باڑے سے جانور اٹھا کر لے جاتا ہے؟ ـ اس زمانے میں جانوروں کے باڑے ایک میدان میں کانٹوں کی باڑ لگا کر بنائے جاتے تھے، جس میں بھیڑ بکریاں رکھی جاتی تھیں ـ باڑے کا دروازہ برائے نام ہوتا تھا جسے گھاس پھوس یا ٹوٹے پھوٹے پھٹوں سے ڈھک دیا جاتا تھا ـ جب وارداتوں میں اضافہ ہوا تو سب کی نظریں غلام حسین پر پڑیں، اسی سے کہا گیا کہ اس مسئلے کا حل نکالیں ـ تب اس نے چور کو پکڑنے کے لئے خود اکیلے رات بھر پہرہ دینے کا لائحہ عمل ترتیب دیا، سردیوں کا موسم تھا، وہ رات کو باڑے کے ایک کونے میں خود کو رضائی میں لپیٹ کر بیٹھ گیا کہ دیکھیں کون سا چور ہے جو ہر رات جانور نکال کر لے جاتا ہے ـ رات گذرتی گئی مگر کوئی نہ آیا، وہ انتظار کرکے مایوس ہوچلا تھا کہ رات کے آخری پہر اسے کھٹکا محسوس ہوا، وہ تیار ہوکر بیٹھ گیا، مگر یہ دیکھ کر اسے مایوسی ہوئی کہ کسی چور کے بجائے اندھیرے میں گیدڑ نما کوئی جانور باڑے میں داخل ہورہا ہے، اس نے اندر آتے ہی اچانک ایک بکری کو دبوچا ہی تھا کہ اس نے اپنی لاٹھی اٹھا کر اس پر وار کیا لیکن حیرت انگیز طور پر جانور نے غلام حسین پر چھلانگ لگادی، غلام حسین اس سے لپٹ گیا مگر اسے محسوس ہوا کہ یہ کوئی عام گیدڑ یا کتا وغیره نہیں ہے، اس درندے جانور میں اس قدر طاقت تھی کہ غلام حسین کو اپنے جسم کی ہڈیاں چٹختی محسوس ہوئیں، تب اس درندے نے اپنا مُنہ کھولا اور اپنے جبڑوں میں اسے چبانا چاہا کہ اچانک غلام حسین نے اپنا ایک ہاتھ رضائی میں لپیٹ کر اس کے جبڑوں میں گھسیڑ دیا، جس سے اس کے دانت رضائی میں پھنس گئے اور اس کا مُنہ قابو میں آگیا ـ اس کے بعد بہت دیر تک ان دونوں میں کُشتی ہوتی رہی ـ غلام حسین جیسا طاقتور شخص حیران تھا کہ آخر یہ کیا بلا ہے؟ جو نہ تو قابو ہی آرہی ہے اور نہ ہی چھوڑ کر بھاگ رہی ہے ـ یہاں تک کہ صبح فجر کی آذان ہوگئی ـ باڑے کے قریب ہی مسجد تھی، نمازی نماز کے لئے آنے لگے تو انہوں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا، لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہوگئی تو غلام حسین نے چیخ کر کہا کہ دیکھ کیا رہے ہو؟ اس کتے کو لٹھوں سے مارو، تب لوگوں نے بتایا کہ غلام حسین یہ کتّا نہیں بھیڑیا ہے ـ بالآخر گاؤں کے لوگوں نے لٹھوں، اور ڈنڈوں وغیرہ سے اس بھیڑئے کو مارنا شروع کردیا، جب وہ ادھ مرا ہوگیا تو اس کی گرفت ڈھیلی پڑی، اس طرح اس بھیڑئیے کو ہلاک کردیا گیا ـ اس واقعے کے بعد سے غلام حسین کی شناخت بھیڑئیے کے نام سے ہونے لگی، بھیڑئیے کو ہریانوی زبان میں " بھیڈا " کہا جاتا ہے ـ اس طرح رفتہ رفتہ تمام لوگ اسے غلام حسین کے بجائے " بھیڈا " کے نام سے پکارنے اور جاننے لگے ـ بقایا ..... قسط نمبر دو 2 میں ملاحظہ فرمائیں ‏ـــ === بھیڈا ( بھیڑیا) === قسط ـ 2 ... گذشتہ سے پیوستہ ( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ وہ یوں تو ہر فن مولا تھا، لیکن اپنی معاشی ضروریات کے لئے اس کے پاس تھوڑی سی زرعی زمین بھی تھی، لیکن اس کے اصل کام دو تھے جن سے اسے دلچسپی تھی، ایک تو وہ خود جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انہیں تراش کر ان سے ضروریاتِ زندگی کی اشیاء تیار کر کے انہیں فروخت کرتا، جیسا کہ گھریلو استعمال کی تمام اشیاء و فرنیچر وغیرہ ـ دوسرا کام جس سے اسے عشق کی حد تک دلچسپی تھی، وہ تھا ہر قسم کے سانپ ( ناگ ) پکڑنا، اور ان کے زہر سے اور ان کی جلد سے مختلف قسم کی ادویات تیار کرنا، جس میں خاص طور پر سانپ کے کاٹنے کا علاج اور سانپ کے ڈسے جانے کے بعد مریض کے جسم سے سانپ کا زہر اپنے مُنہ سے چوس کر نکالنا تھا ـ دور و نزدیک کے بہت سے لوگ سانپ کے ڈسے ہوئے لوگوں کو اس کے پاس لاتے جسے وہ اپنی تیار کردہ دوائیاں کھلا کر یا سانپ کا زہر نکال کر مریض کو تندرست کردیتا تھا ـ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ حکمت اس نے کہاں سے حاصل کی تھی، کیوں کہ خاندانی طور پر وہ سپیرا نہیں تھا، اس کے بڑوں نے بھی کبھی سانپ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، لیکن اسے سانپوں سے انتہائی دلچسپی تھی، اسے اگر معلوم ہوجاتا کہ فلاں علاقے میں کوئی نئی نسل کا سانپ ہے تو وہ اسے پکڑنے کے لئے وہاں پہنچ جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اس کے پاس ایک " بِین " بھی تھی ـ اس کے گھر میں مختلف قسم کے سینکڑوں سانپ ہر وقت موجود ہوتے تھے، جنہیں مٹی کی ہانڈیوں میں یا مٹکوں میں ڈال کر رکھا جاتا تھا، اس کے پاس اکیلے سانپ کے لئے پٹاریاں بھی تھیں ـ اس نے اژدھے بھی پال رکھے تھے جن کے لئے الگ سے انتظام کیا گیا تھا، جس جگہ اژدھے رکھے جاتے تھے اس میں ریت بچھائی جاتی تھی اور موسمِ گرما میں اس ریت کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے پانی کا چھڑکاﺅ کیا جاتا تھا، جوکہ گھر میں موجود بچے بھی کردیتے تھے، لیکن تمام بچوں کو سانپوں سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی تھی، حالاں کہ اکثر سانپوں کا زہر نکالا ہوا ہوتا تھا ـ وہ سانپوں کے زہر سے یا دیگر اجزاء سے ایک خاص قسم کا سرمہ بھی بناتا تھا جسے وہ خود ہی استعمال کرتا تھا، جس سے اس کی آنکھوں میں خاص قسم کی چمک پیدا ہوگئی تھی اور اس کے استعمال سے کبھی نظر کمزور نہیں ہوتی تھی ، کہا جاتا ہے کہ اس سرمے کی تاثیر یہ تھی کہ جو بھی غیرمحرم جوان عورت اس کی آنکھوں میں دیکھ لیتی تو اس پر فریفتہ ہوجاتی، اس روایت سے منسوب بہت سی کہانیاں زبانِ زدِعام تھیں ـ اس کے باوجود اس نے صرف تین خواتین سے نکاح کیا اور انہیں اپنے ساتھ گھر میں رکھا، جن میں سے ایک خاتون آرائیں قوم سے تعلق رکھتی تھی، جسے بعدازاں چند ناگزیر وجوہات کے باعث چھوڑنا پڑا ـ ان بیویوں سے اس کو بہت سی اولادیں تھیں، جن میں بیٹیاں زیادہ تھیں، جب کہ بیٹے فقط چار ہی تھے، بڑا بیٹا علی شیر لڑکپن میں انتقال کرگیا تھا، اس سے چھوٹا نواز علی جوکہ اپنے والد سے مشابہ تھا اور اسی کی طرح دلیر بھی تھا اور شادی شدہ تھا ، وہ گاؤں کے ایک میلے میں منعقدہ وزن اٹھانے کے انعامی مقابلے کی ایک تقریب میں بھاری وزن اٹھانے کا مظاہرہ کرتے ہوئے جسم میں کوئی تکلیف پیدا ہونے کے باعث بیمار ہوا اور چند دنوں کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا ـ اس کے بعد محمد شریف اور اس سے تقریباً دس سال چھوٹا بیٹا شیر محمد تھا ـ جب وہ اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر نکلتا تو لوگ اسے احترام سے دیکھتے اور سرگوشی میں ایک دوسرے کو بتاتے کہ یہ " بھیڈا " ہے ـ ایک رات وہ اپنی گھوڑی پر سوار عازمِ سفر تھا تو راستے میں ایک گاؤں میں اس نے دیکھا کہ ہندؤوں کے ایک گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آرہی ہیں، اس نے گھوڑی کو روکا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک نوجوان سانپ کے ڈسنے سے مرگیا ہے، اور اب اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے اسے شمشان گھاٹ لے جانے کی تیاری ہو رہی ہے ـ وہ ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس کے وارثین نے کہا کہ مرنے کے بعد کون زندہ ہوتا ہے؟ پھر بھی آپ جو کرنا چاہیں کرلیں، اب اس کو مزید تو کوئی نقصان پہنچنے سے رہا ـ بھیڈے نے اپنی جیب سے کسی دوا کی شیشی نکالی اس میں سے چند قطرے مرنے والے کا مُنہ کھول کر اس میں ٹپکائے اور شاید اس کا زہر بھی چوس کر نکالا، بہرحال روایت کے مطابق کچھ دیر بعد مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں، یہ دیکھ کر ماتم زدہ گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے ـ اس کا کہناتھا کہ سانپ کے ڈسنے کے بعد چوبیس گھنٹے تک مریض زندہ ہوتا ہے اور اسے بچایا جاسکتا ہے، افسوس کہ اس قدر قیمتی حکمت اور انمول نسخہ جات "بھیڈے " کی اگلی نسل کو منتقل نہیں ہوسکے ـ بقایا .... قسط نمبر تین 3، میں ملاحظہ فرمائیں ـ ان شاءالله العزیز ... ‏ === بھیڈا ( بھیڑیا ) === قسط ـ 3 ... گذشتہ سے پیوستہ ... ( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ جیل کی کال کوٹھری میں اپنی موت کا منتظر وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا والد " غوث بخش " دھنانہ گاؤں میں رہتا تھا، جہاں پر اس کی بہترین زرعی زمین پر اس کے چار بھائیوں نے قبضہ کرکے اسے زمین سے بے دخل کردیا تھا، چناں چہ اس کا والد حالات سے مجبور ہوکر اپنے گاؤں دھنانہ سے ہجرت کرکے اپنی سسرال کے پاس " کالوا " میں آکر آباد ہوگیا تھا، جہاں پر وہ پیدا ہوا تھا ـ وہ سوچ رہا تھا اپنے سگے بھائی بھی حصولِ دنیا کے لئے برادرانِ یوسف کیوں بن جاتے ہیں؟ ـ اور حرصِ دنیا میں اپنے خون کے رشتوں کو بھی ان کے گھربار اور شہر سے نکال دیتے ہیں ـ اسی طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آرہے تھے کہ پھر اسے اپنا ایک پیارا دوست یاد آیا، وہ ہندو ( سناتھن ) دھرم سے تعلق رکھتا تھا، اس کا نام " ہری چند " ( یہ فرضی نام ہے اصل نام یاد نہیں آرہا) تھا جس نے اس کے کہنے پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا، یہ بھی بڑا عجیب قصہ تھا ـ ہری چند اکثر غلام حسین سے ملنے اس کے گھر اس کی بیٹھک میں آتا ، اس کے ساتھ باتیں کرتا اور اکٹھے بیٹھ کر ساتھ کھانا کھاتے تھے، ایک روز ہری چند نے بھی غلام حسین کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دی جسے قبول کرلیا گیا، مگر جب وہ دعوت پر ہری چند کے گھر پہنچا تو اس نے ان کی بیٹھک میں سُوَّر ( سُووَر ) بندھے دیکھے، یہ دیکھ کر اس کا جی خراب ہوگیا اور ہری چند سے کہا کہ بھائی میں اس وقت تک تمہارے گھر نہیں جاسکتا جب تک تمہارے گھر میں سوّر موجود ہیں، چنانچہ وہ اس کی دعوت پر اس کے گھر نہیں گیا ـ وقت گزرتا گیا ایک روز ہری چند نے کہا کہ بھائی غلام حسین میں تمہارے مذہب اسلام کو سوفیصد سچا سمجھتا ہوں، اس لئے تم مجھے مسلمان بنالو ـ یہ سن کر غلام حسین خوشی سے جھوم اٹھا اور اسے مشورہ دیا کہ اسلام کی صحیح تعلیم کے لئے تم دہلی چلے جاؤ، وہاں پر فلاں مدرسہ ہے وہاں پر فلاں نام کے ایک عالم ہیں انہیں میرا سلام کہنا وہ تمہیں مدرسے میں داخل کرلیں گے، چنانچہ ہری چند نے ایسا ہی کیا، لیکن اس سلسلے میں ان کے گھر والوں کا کیا ردّعمل تھا یہ معلوم نہ ہوسکا ـ مسلمان ہونے کے بعد ہری چند کا نام " عبدالقادر " رکھا گیا، چند سالوں بعد عالم بن کر عبدالقادر ( یہ نام بھی فرضی ہے، اصل رکھا گیا نام بھی یاد نہیں) جب واپس اپنے گاؤں آیا تو غلام حسین نے اس کا پُرجوش استقبال کیا، اور اپنے گھر دعوت پر بلایا، لیکن عبدالقادر نے کہا کہ بھائی غلام حسین تمہارے کہنے پر اور اللہ کے فضل سے میں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا، اب تم ایک میری بات بھی مان لو اور وہ یہ ہے کہ تمہارے کانوں میں جو یہ بالے ہیں یہ ہندو دھرم کی علامت ہیں انہیں نکال دو، اور تمہاری یہ جو بڑی بڑی مونچھیں تمہارے لبوں پر آرہی ہیں انہیں ترشوا لو، کیوں کہ جب تم کھانا کھاتے ہو یا پانی پیتے ہو تو وہ مونچھوں کو لگ کر مُنہ میں جاتا ہے، جوکہ غیر شرعی ہے اور لقمہ حرام ہوجاتا ہے، یہ عمل سنّتِ رسولﷺ کے خلاف ہے ـ یہ سن کر غلام حسین مسکرایا اور اسی وقت اپنے کانوں سے بالے اتار دئے اور حد سے بڑھی مونچھیں ترشوا لیں، اس خیال کے آتے ہی بھیڈے کے چہرے پر اطمینان ظاہر ہوا اور لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ـ خیالات کا سلسلہ دوسری جانب مڑا تو اس کے سامنے وہ منظر آگیا جب وہ ایک رات اپنی گھوڑی پر سوار کہیں سے واپس گھر کی طرف آرہا تھا ... راستے میں وہ ایک قبرستان سے گزرا تو اچانک یہ دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا کہ ایک قبر پر کوئی مادرزاد برہنہ عورت بال بکھرائے کھڑی ہوئی کسی برتن میں موجود پانی سے نہا رہی ہے، یہ دیکھ کر وہ رک گیا، گھوڑی سے اترا اور اس عورت کے پاس گیا، وہ خوفزدہ نہیں ہوا اور نہ ہی اسے چڑیل وغیرہ سمجھا ـ اس عورت نے اسے ڈرانے کے لئے چیخ کر کہا کہ بھاگ جاؤ، اپنی جان بچاؤ، میں چڑیل ہوں تمہارا خون پی جاؤں گی، لیکن بھیڈے نے تو ڈرنا سیکھا ہی نہیں تھا، اس نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا ـ اپنی پگڑی اتار کر اس کی طرف پھینکی کہ اس سے اپنا جسم ڈھانپ لو، لڑکی نے ایسا ہی کیا، تب بھیڈے نے دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا کہ بتاؤ ... تم کون ہو ...؟ ورنہ تمہیں یہیں پر مار ڈالوں گا ـ وہ عورت اب بہت زیادہ خوفزدہ ہوگئی تھی ... وہ رونے لگی اور بتایا کہ وہ فلاں گاؤں کی رہنے والی ہے اور فلاں شخص کی بیوی ہے، شادی کو کئی سال ہوگئے ہیں مگر وہ اب تک اولاد سے محروم ہے، ہمارے پیر صاحب نے بتایا تھا کہ فلاں تاریخ کو، رات کو فلاں وقت پر قبرستان میں کسی پرانی قبر پر جاکر نہالو تو اولاد ہوجائے گی ـ یہ سن کر " غلام حسین بھیڈے " نے اسے سمجھایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، تمہیں فریب دیا گیا ہے، اولاد دینے والا تو صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے، فقط اسی سے ہر شے طلب کرو، وہی دعائیں قبول کرتا ہے، آئندہ ایسی غلطی ہرگز نہ کرنا، اب چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں ... لڑکی نے منتیں کرنی شروع کردیں کہ آپ یہ سب میرے گھر والوں کو مت بتانا، ورنہ وہ مجھے طلاق دے دیں گے، یا مجھے مار یں گے، اس نے وعدہ کرلیا، اور لڑکی کو گھوڑی پر اپنے پیچھے بٹھا کر خاموشی سے اس کے گھر پر اتار دیا ـ وہ لڑکی جس طرح چوری چھپے گھر سے نکلی تھی، اسی طرح چھپ کر گھر میں داخل ہوگئی، اور بات پردے کی پردے میں رہ گئی ـ باقی ... قسط ـ 4 ( آخری قسط ) میں ملاحظہ فرمائیں ـ .....=== بھیڈا ( بھیڑیا ) === قسط ـ 4 ـ آخری ـ گذشتہ سے پیوستہ ( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے) ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان = جیل کی کال کوٹھری میں اپنی موت کو قریب ترین محسوس کرتے ہوئے گزری زندگی کے تمام ورق خودبخود الٹتے جا رہے تھے، یہ سوچ کر اسے بے حد دکھ ہوا کہ ابھی چند ہی سال قبل اس کا شاگرد " منوہر لال " ( یہ نام بھی فرضی ہے، اصل نام یاد نہیں) جوکہ جاٹ قوم سے تھا، اس کے پاس آیا اور کہا کہ استاد جی مجھے کچھ دن کے لئے اپنی بندوق دے دو، مجھے اپنے چند دوستوں کے ساتھ شکار پر جانا یے، یہ سن کر اس نے بندوق دینے کے معاملے پر کچھ تردّد کیا، لیکن منوہر لال نے اس کی ہر طرح سے تشفّی کردی اور اطمینان دلایا کہ تمہاری بندوق کو غلط کام کے لئے استعمال ہرگزنہیں کیا جائے گا ـ بھیڈے نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی بندوق اس کو دے دی ـ اس کی بندوق کے بٹ پر کچھ مخصوص نقش و نگار اس نے خود اپنے ہاتھ سے کندہ کئے ہوئے تھے جوکہ اس کی بندوق کی شان اور پہچان تھے ـ بہرحال منوہر لال بندوق لے گیا ـ پھر کئی روز تک وہ واپس نہیں آیا، البتہ اس کے متعلق یہ خبر ضرور آگئی کہ منوہر لال روپوش ہوگیا ہے ـ بعدازاں یہ خبر آئی کہ منوہر لال نے اپنے بدمعاش جرائم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی قریبی گاؤں میں ایک ہندو سیٹھ کے گھر پر حملہ کیا تھا، پورے گھر کو لوٹ کر آگ لگادی، اور کچھ اہلِ خانہ کو قتل بھی کردیا گیا ہے ـ اس واردات میں استعمال ہونے والی " بھیڈے " کی بندوق بازیاب ہو گئی تھی ـ پولیس مجرمان کی تلاش میں چھاپے مار رہی تھی، یہ اطلاع ملتے ہی کچھ لوگوں کے کہنے پر غلام حسین بھیڈا بھی روپوش ہوگیا ـ وہ دراصل دھنانہ گاؤں میں جاکر اپنے عزیزوں کے ہاں چھپ گیا تھا ـ بہت عرصہ وہ روپوش رہا، لیکن اس کی غیرموجودگی میں اس کے گھر میں بچوں کو فاقہ کشی اور بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اوپر سے پولیس بار بار ان کو تنگ کر رہی تھی ـ گھر میں بچوں کے دگرگوں حالات سن سن کر بالآخر غلام حسین نے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ـ اور جیند شہر آکر خود کو پولیس کے حوالے کردیا ـ غلام حسین کے بیان کے بعد منوہر لال اور اس کے دیگر مجرم ساتھیوں کو پکڑ لیا گیا، لیکن ٹھوس ثبوت غلام حسین کے خلاف اس کی بندوق تھی، جوکہ موقعہء واردات سے بازیاب ہوئی تھی اور اب عدالت میں جج صاحب کے سامنے موجود تھی، آلہء قتل کی موجودگی میں مقدمہ چلا، منوہر لال اور دیگر مجرمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ وہ بندوق غلام حسین سے شکار کے لئے مانگ کر لے گئے تھے، ان کے بیان کے مطابق یہ کارروائی غلام حسین بھیڈے نے کی ہے ـ جج نے غلام حسین کو پھانسی کی سزا سنادی، اور دیگر مشکوک مجرموں کو بھی کچھ سال قید کی سزا سنائی گئی ـ غلام حسین کی ایک ذہین بیٹی " شریفن " تھی، جس کی عمر بارہ، پندرہ سال کے درمیان ہوگی ـ وہ عدالت کے ایک سرکاری وکیل سے ملی، یہ وکیل ان کے گاؤں " کالوا " کا رہائشی تھا ـ اس کو ساری حقیقت بتائی گئی، وہ خود بھی ان حقائق سے آگاہ تھا اور غلام حسین کی عزت کرتا تھا، جب شریفن نے اس کے پاس آکر اپنے باپ کی رہائی کے لئے منتیں کرنی اور رونا شروع کیا تو اس کو اس پر بہت ترس آیا، اور اس نے ان کی مدد کرنے کا ارادہ کرلیا ـ اس نے شریفن کو کچھ اہم باتیں سمجھائیں اور کہا کہ جج صاحب ( جو کہ انگریز تھا ) بہت رحم دل، خدا ترس اور ایماندار آدمی ہے، میں تمہیں اس کے گھر کے باہر لے چلتا ہوں، وہ صبح جیسے ہی عدالت آنے کے لئے گھر سے نکلے تو تم اس کے سامنے جاکر اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوجانا، اس کے سامنے آہ و زاری کرنا، تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا ـ شریفن نے ایسا ہی کیا، وہ جج کے پاؤں میں گر پڑی، اس نے جج کو روتے ہوئے بتایا کہ اس کا والد بالکل بے قصور ہے، وہ اب بوڑھا ہوچکا ہے، وہ تو اب رات کو کبھی گھر سے بھی باہر نہیں نکلتا، اور نہ ہی اس میں اب اتنی طاقت ہے کہ وہ ڈاکہ ڈال سکے ـ اور یہ کہ یہ واردات میرے باپ کے شاگرد منوہر لال نے کی ہے، جو کہ اس کی بندوق شکار کرنے کے بہانے سے لے گیا تھا ـ جج صاحب کو اس پر بہت ترس آیا، اس نے بڑی توجہ سے بچی کی باتیں سنیں اور اس کی مدد کا وعدہ کر لیا، اس نے وکیل سے کہ کر کیس کی دوبارہ سماعت کے لئے اپیل کروائی ـ چنانچہ کچھ ضروری کارروائی کے بعد کیس کی دوبارہ سے سماعت شروع کی گئی ـ دورانِ سماعت کچھ مزید شواہد کا مشاہدہ کرنے کے بعد کیس بہت کمزور ہوگیا اور آخری سماعت پر جج نے غلام حسین کی بندوق کو اچانک اٹھا کر اسے تھماتے ہوئے کہا کہ غلام حسین اس بندوق سے تم کیسے نشانہ لگاتے ہو ذرا اسے تھام کر تو دکھاؤ ـ غلام حسین نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے بندوق کو نشانہ لگانے والے انداز سے تھام کر دکھایا ـ پھر جج صاحب نے وہی بندوق منوہر لال کی طرف بڑھائی اور کہا کہ تم بھی بتاؤ کہ بندوق سے کیسے نشانہ لیا جاتا ہے؟ ـ منوہر لال نے فوراً بندوق کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر سیدھا کر کے دکھایا ـ یہ دیکھ کر جج صاحب نے بھری عدالت کے سامنے کہا کہ آپ سب نے دیکھ لیا کہ غلام حسین کے ہاتھوں میں اب اتنی سکت بھی نہیں ہے کہ وہ بندوق کو سیدھا کر کے تھام سکے، ایسی حالت میں کوئی ڈاکہ کیسے ڈال سکتا ہے اور کسی کو قتل کیسے کرسکتا ہے؟ ـ جب کہ آپ نے دیکھ لیا کہ منوہر لال نے کس چابکدستی اور مہارت کے ساتھ بندوق کو پکڑا اور نشانہ باندھا ـ لہٰذا صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قتل و ڈکیتی کی اس واردات میں غلام حسین ہرگز ملوّث نہیں ہے، اس لئے غلام حسین کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور اصل مجرم منوہر لال کو سزائے موت اور اس کے ساتھیوں کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ـ غلام حسین اس کے بعد تقریباﹰ دس گیارہ سال مزید زندہ رہا، اس دوران اس نے اپنی بیٹی " شریفن " کی شادی کردی، شریفن شادی کے بعد اپنے شوہر کے پاس " شملہ " چلی گئی، جہاں پر اس کا شوہر ریلوے میں ملازم تھا ـ پاکستان آنے کے بعد شوہر انتقال کرگیا، پھر دوسرا نکاح ٹنڈوآدم میں " فتح محمد " سے ہوا تھا، دیگر بچیوں کی بھی شادیاں کردی گئیں ـ بڑے بیٹے "نوازعلی" ( جوکہ وزن اٹھانے کے ایک مظاہرے کے دوران تکلیف ہونے کے باعث انتقال کرگیا تھا) کی بیوہ کا نکاح اپنے بیٹے "محمد شریف " سے کروا دیا، جس کی عمر تقرباً اٹھارہ سال تھی ـ غلام حسین ( بھیڈا) نے کم و بیش اسی ( 80 ) سال کی عمر میں انتقال کیا ـ اس کے انتقال کے دو تین سال بعد ملک تقسیم ہوا تو یہ تمام خاندان ہجرت کرکے براستہ " اٹاری ریلوے اسٹیشن " پاکستان کے شہر لاہور " والٹن کیمپ " پہنچے، جن تکالیف اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے یہ خاندان پاکستان پہنچا یہ الگ سے ایک دردناک داستان ہے ـ ہجرت کے وقت بڑے بیٹے " محمد شریف " کی عمر اکیس بائیس سال کے قریب تھی ، جبکہ چھوٹا بیٹا " شیر محمد " تیرہ چودہ سال کا تھا، شیر محمد دنیاداری سے دور ، فقیرمنش، درویش صفت انسان تھا ـ والٹن کیمپ سے حکومت نے انہیں سندھ بھجوادیا، جہاں پر انہوں نے محراب پور میں سکونت اختیار کی ـ پانچ چھ سال بعد شیر محمد اور محمد شریف نے پنوعاقل سندھ میں ایک ہی گھر میں دو بہنوں سے شادیاں کیں ، یہ محمد شریف کی دوسری شادی تھی ـ محمد شریف کو پاکستان آنے کے بعد پہلی بیوی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، دوسری سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، جب کہ شیرمحمد کو تین بیٹیاں اور چار بیٹے پیدا ہوئے، جن میں سے دو بیٹے بچپن میں ہی انتقال کر گئے، اور دو بیٹے جن میں سے بڑا بیٹا غلام محمد وامِق ( راقم الحروف ) اور چھوٹا بیٹا ڈاکٹر محمد شفیع طور، ماشاءاللہ حیات ہیں ( الحمدللہ ربّ العالمین) ـ شیرمحمد طور کا انتقال مورخہ 27 مئی 1986ء، مطابق 17 رمضان المبارک 1406ھجری، بروز منگل تقریباﹰ 52 سال کی عمر میں ہوا، ـ اور اس کے بڑے بھائی محمد شریف طور کا انتقال مورخہ 15 مارچ 2005ء، مطابق 4 صفر 1426ھجری بروز منگل، تقریباﹰ 80 ـ 79 سال کی عمر میں ہوا ــــــــــــــــــــــ وضاحت = یہ داستان " غلام حسین عرف بھیڈا " کے بڑے فرزند محمد شریف طور نے بارہا اہلِ خانہ کے سامنے سنائی، اور برادرِ خورد ڈاکٹر محمد شفیع طور نے اس کی تصدیق کی، جب کہ راقم الحروف غلام محمد وامِق نے اسے داستان کی شکل میں ترتیب دیا اور قلمبند کیا ـ یہ تحریر، آج سات ( 7 ) نومبر سال 2022 ء بروز سوموار کو پایۂ تکمیل کو پہنچی ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ ‏ ‏

★★★ بھیڈا ( بھیڑیا ) ★★★
    ـــــــ مکمل داستان .....  قسط نمبر ـ 1 ـ 2 ـ 3 ـ 4، 
( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) ــ 
 ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ

جیند کی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی، وہ کال کوٹھری میں پڑا ہوا بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا، گزرے لمحات فلم سکرین کی طرح اس کے سامنے سے گزر رہے تھے، اس کی عمر ستر سال سے تجاوز کرچکی تھی ـ جسم پر ہلکا ہلکا رعشہ طاری ہوچکا تھا ـ وہ سوچ رہا تھا ابھی کل کی ہی تو بات ہے، گاؤں ( کالوا) بھر میں اس کا دبدبہ تھا، کس کی مجال جو اس سے نظریں ملا سکے ـ اس کی آنکھوں میں ہلکے سرخ ڈورے تو اب بھی دیکھے جا سکتے تھے، وہ سوچ رہا کہ زندگی کے دن ویسے بھی پورے ہوچکے تھے اب اگر پھانسی بھی ہوگئی تو کیا ہے ـ اس نے اپنی زندگی بھرپور انداز سے گزاری تھی ـ اس کا قد سات فوٹ کے قریب تھا وہ کالوے اور اردگرد کے گاؤں کا مشہور بہادر اور نڈر نوجوان ہوتا تھا ـ اس کے دونوں کانوں میں چاندی کے بالے پڑے ہوتے تھے، سرخ و سفید چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں جنہوں نے اس کے بالائی لب کو ڈھانپ لیا تھا، اس کے مہم جُو ہونے کی غمازی کر رہی تھیں ـ 
کالوا اور قرب و جوار کے علاقے میں اس کی بہادری کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی ـ کوئی بھی شخص اس کے گھر کے سامنے سے گھوڑے پر سوار ہوکر نہیں گزرتا تھا، یا نہیں گزر سکتا تھا ( شاید اس کے احترام کے باعث) ـ وہ ہر مظلوم کے درد کا درماں تھا، گاؤں کا ہر شخص اپنے تنازعات اسی سے حل کروانے کی کوشش کرتا تھا، جب کہ بدمعاش لوگ اس سے کنی کترا کے گذرتے تھے ـ اس کی گلی میں اس کے گھر کے سامنے والے گھروں کی قطار کے آخری کونے پر بنی حویلی کے سامنے والے حصے پر اس کی پورٹریٹ پتھر پر نقش کر کے آویزاں کی گئی تھی، حالاں کہ وہ حویلی ایک ہندو بنئے کی تھی، لیکن یہ پورٹریٹ اس سے عقیدت و محبت کا مظہر تھی ـ 
اس کا نام تو  " غلام حسین " تھا، لیکن لوگ اسے " بھیڈا  " کے نام سے پکارتے تھے ـ یہ نام گویا اس کی بہادری کے ایک واقعہ کی یادگار تھا ـ اس کے سامنے بیتے زمانے کا وہ منظر آگیا جب گاؤں کے چوپایوں کے باڑے سے ہر رات ایک جانور غائب ہونے لگا، لوگ پریشان تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ـ کون ہے جو باڑے سے جانور اٹھا کر لے جاتا ہے؟ ـ اس زمانے میں جانوروں کے باڑے ایک میدان میں کانٹوں کی باڑ لگا کر بنائے جاتے تھے، جس میں بھیڑ بکریاں رکھی جاتی تھیں ـ باڑے کا دروازہ برائے نام ہوتا تھا جسے گھاس پھوس یا ٹوٹے پھوٹے پھٹوں سے ڈھک دیا جاتا تھا ـ جب وارداتوں میں اضافہ ہوا تو سب کی نظریں غلام حسین پر پڑیں،  اسی سے کہا گیا کہ اس مسئلے کا حل نکالیں ـ تب اس نے چور کو پکڑنے کے لئے خود اکیلے رات بھر پہرہ دینے کا لائحہ عمل ترتیب دیا، سردیوں کا موسم تھا،  وہ رات کو باڑے کے ایک کونے میں خود کو رضائی میں لپیٹ کر بیٹھ گیا کہ دیکھیں کون سا چور ہے جو ہر رات جانور نکال کر لے جاتا ہے ـ رات گذرتی گئی مگر کوئی نہ آیا، وہ انتظار کرکے مایوس ہوچلا تھا کہ رات کے آخری پہر اسے کھٹکا محسوس ہوا، وہ تیار ہوکر بیٹھ گیا، مگر یہ دیکھ کر اسے مایوسی ہوئی کہ کسی چور کے بجائے اندھیرے میں گیدڑ نما کوئی جانور باڑے میں داخل ہورہا ہے، اس نے اندر آتے ہی اچانک ایک بکری کو دبوچا ہی تھا کہ اس نے اپنی لاٹھی اٹھا کر اس پر وار کیا لیکن حیرت انگیز طور پر جانور نے غلام حسین پر چھلانگ لگادی، غلام حسین اس سے لپٹ گیا مگر اسے محسوس ہوا کہ یہ کوئی عام گیدڑ یا کتا وغیره نہیں ہے، اس درندے جانور میں اس قدر طاقت تھی کہ غلام حسین کو اپنے جسم کی ہڈیاں چٹختی محسوس ہوئیں، تب اس درندے نے اپنا مُنہ کھولا اور اپنے جبڑوں میں اسے چبانا چاہا کہ اچانک غلام حسین نے اپنا ایک ہاتھ رضائی میں لپیٹ کر اس کے جبڑوں میں گھسیڑ دیا، جس سے اس کے دانت رضائی میں پھنس گئے اور اس کا مُنہ قابو میں آگیا ـ اس کے بعد بہت دیر تک ان دونوں میں کُشتی ہوتی رہی ـ غلام حسین جیسا طاقتور شخص حیران تھا کہ آخر یہ کیا بلا ہے؟ جو نہ تو قابو ہی آرہی ہے اور نہ ہی چھوڑ کر بھاگ رہی ہے ـ یہاں تک کہ صبح فجر کی آذان ہوگئی ـ باڑے کے قریب ہی مسجد تھی، نمازی نماز کے لئے آنے لگے تو انہوں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا، لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہوگئی تو غلام حسین نے چیخ کر کہا کہ دیکھ کیا رہے ہو؟ اس کتے کو لٹھوں سے مارو، تب لوگوں نے بتایا کہ غلام حسین یہ کتّا نہیں بھیڑیا ہے ـ بالآخر گاؤں کے لوگوں نے لٹھوں، اور ڈنڈوں وغیرہ سے اس بھیڑئے کو مارنا شروع کردیا، جب وہ ادھ مرا ہوگیا تو اس کی گرفت ڈھیلی پڑی، اس طرح اس بھیڑئیے کو ہلاک کردیا گیا ـ
اس واقعے کے بعد سے غلام حسین کی شناخت بھیڑئیے کے نام سے ہونے لگی، بھیڑئیے کو ہریانوی زبان میں " بھیڈا " کہا جاتا ہے ـ اس طرح رفتہ رفتہ تمام لوگ اسے غلام حسین کے بجائے " بھیڈا " کے نام سے پکارنے اور جاننے لگے ـ 
 
===  بھیڈا ( بھیڑیا)  === قسط ـ 2 ... 
 گذشتہ سے پیوستہ 
( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) 
ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ 

وہ یوں تو ہر فن مولا تھا، لیکن اپنی معاشی ضروریات کے لئے اس کے پاس تھوڑی سی زرعی زمین بھی تھی، لیکن اس کے اصل کام دو تھے جن سے اسے دلچسپی تھی، ایک تو وہ خود جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انہیں تراش کر ان سے ضروریاتِ زندگی کی اشیاء تیار کر کے انہیں فروخت کرتا، جیسا کہ گھریلو استعمال کی تمام اشیاء و فرنیچر وغیرہ ـ دوسرا کام جس سے اسے عشق کی حد تک دلچسپی تھی، وہ تھا ہر قسم کے سانپ ( ناگ ) پکڑنا، اور ان کے زہر سے اور ان کی جلد سے مختلف قسم کی ادویات تیار کرنا، جس میں خاص طور پر سانپ کے کاٹنے کا علاج اور سانپ کے ڈسے جانے کے بعد مریض کے جسم سے سانپ کا زہر اپنے مُنہ سے چوس کر نکالنا تھا ـ دور و نزدیک کے بہت سے لوگ سانپ کے ڈسے ہوئے لوگوں کو اس کے پاس لاتے جسے وہ اپنی تیار کردہ دوائیاں کھلا کر یا سانپ کا زہر نکال کر مریض کو تندرست کردیتا تھا ـ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ حکمت اس نے کہاں سے حاصل کی تھی، کیوں کہ خاندانی طور پر وہ سپیرا نہیں تھا، اس کے بڑوں نے بھی کبھی سانپ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، لیکن اسے سانپوں سے انتہائی دلچسپی تھی، اسے اگر معلوم ہوجاتا کہ فلاں علاقے میں کوئی نئی نسل کا سانپ ہے تو وہ اسے پکڑنے کے لئے وہاں پہنچ جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اس کے پاس ایک " بِین "  بھی تھی ـ اس کے گھر میں مختلف قسم کے سینکڑوں سانپ ہر وقت موجود ہوتے تھے، جنہیں مٹی کی ہانڈیوں میں یا مٹکوں میں ڈال کر رکھا جاتا تھا، اس کے پاس اکیلے سانپ کے لئے پٹاریاں بھی تھیں ـ اس نے اژدھے بھی پال رکھے تھے جن کے لئے الگ سے انتظام کیا گیا تھا، جس جگہ اژدھے رکھے جاتے تھے اس میں ریت بچھائی جاتی تھی اور موسمِ گرما میں اس ریت کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے پانی کا چھڑکاﺅ کیا جاتا تھا، جوکہ گھر میں موجود بچے بھی کردیتے تھے، لیکن تمام بچوں کو سانپوں سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی تھی، حالاں کہ اکثر سانپوں کا زہر نکالا ہوا ہوتا تھا ـ 
وہ سانپوں کے زہر سے یا دیگر اجزاء سے ایک خاص قسم کا سرمہ بھی بناتا تھا جسے وہ خود ہی استعمال کرتا تھا، جس سے اس کی آنکھوں میں خاص قسم کی چمک پیدا ہوگئی تھی اور اس کے استعمال سے کبھی نظر کمزور نہیں ہوتی تھی ، کہا جاتا ہے کہ اس سرمے کی تاثیر یہ تھی کہ جو بھی غیرمحرم جوان عورت اس کی آنکھوں میں دیکھ لیتی تو اس پر فریفتہ ہوجاتی، اس روایت سے منسوب بہت سی کہانیاں زبانِ زدِعام تھیں ـ اس کے باوجود اس نے صرف تین خواتین سے نکاح کیا اور انہیں اپنے ساتھ گھر میں رکھا، جن میں سے ایک خاتون آرائیں قوم سے تعلق رکھتی تھی، جسے بعدازاں چند ناگزیر وجوہات کے باعث چھوڑنا پڑا ـ
ان بیویوں سے اس کو بہت سی اولادیں تھیں، جن میں بیٹیاں زیادہ تھیں، جب کہ بیٹے فقط چار ہی تھے، بڑا بیٹا علی شیر لڑکپن میں انتقال کرگیا تھا، اس سے چھوٹا نواز علی جوکہ اپنے والد سے مشابہ تھا اور اسی کی طرح دلیر بھی تھا اور شادی شدہ تھا ، وہ گاؤں کے  میلے میں منعقدہ انعامی مقابلے کی ایک تقریب میں بھاری وزن اٹھانے کا مظاہرہ کرتے ہوئے  جسم میں کوئی تکلیف پیدا ہونے کے باعث بیمار ہوا اور چند دنوں کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا ـ اس کے بعد  محمد شریف اور اس سے تقریباً دس سال چھوٹا بیٹا شیر محمد تھا ـ
جب وہ اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر نکلتا تو لوگ اسے احترام سے دیکھتے اور سرگوشی میں ایک دوسرے کو بتاتے کہ یہ  " بھیڈا " ہے ـ
ایک رات وہ اپنی گھوڑی پر سوار عازمِ سفر تھا تو راستے میں ایک گاؤں میں اس نے دیکھا کہ ہندؤوں کے ایک گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آرہی ہیں، اس نے گھوڑی کو روکا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک نوجوان سانپ کے ڈسنے سے مرگیا ہے، اور اب اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے اسے شمشان گھاٹ لے جانے کی تیاری ہو رہی ہے ـ وہ ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس کے وارثین نے کہا کہ مرنے کے بعد کون زندہ ہوتا ہے؟ پھر بھی آپ جو کرنا چاہیں کرلیں، اب اس کو مزید تو کوئی نقصان پہنچنے سے رہا ـ
بھیڈے نے اپنی جیب سے کسی دوا کی شیشی نکالی اس میں سے چند قطرے مرنے والے کا مُنہ کھول کر اس میں ٹپکائے اور شاید اس کا زہر بھی چوس کر نکالا، بہرحال روایت کے مطابق کچھ دیر بعد مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں، یہ دیکھ کر ماتم زدہ گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے ـ. اس کا کہنا تھا کہ سانپ کے ڈسنے کے بعد چوبیس گھنٹے تک مریض زندہ ہوتا ہے ـ افسوس کہ اس قدر قیمتی حکمت اور انمول نسخہ جات  "بھیڈے " کی اگلی نسل کو منتقل نہیں ہوسکے ـ 
بقایا .... قسط نمبر تین 3، میں ملاحظہ فرمائیں ـ        ان شاءالله العزیز ... 
=== بھیڈا ( بھیڑیا ) === قسط ـ 3 ...    
گذشتہ سے پیوستہ ... 
( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے ) 
ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان ـ 

جیل کی کال کوٹھری میں اپنی موت کا منتظر وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا والد  " غوث بخش "  دھنانہ گاؤں میں رہتا تھا، جہاں پر اس کی بہترین زرعی زمین پر اس کے چار بھائیوں نے قبضہ کرکے اسے زمین سے بے دخل کردیا تھا، چناں چہ اس کا والد حالات سے مجبور ہوکر اپنے گاؤں دھنانہ سے ہجرت کرکے اپنی سسرال کے پاس  " کالوا  " میں آکر آباد ہوگیا تھا، جہاں پر وہ پیدا ہوا تھا ـ 
وہ سوچ رہا تھا اپنے سگے بھائی بھی حصولِ دنیا کے لئے برادرانِ یوسف کیوں بن جاتے ہیں؟ ـ  اور حرصِ دنیا میں اپنے خون کے رشتوں کو بھی ان کے گھربار اور شہر سے نکال دیتے ہیں ـ 
اسی طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آرہے تھے کہ پھر اسے اپنا ایک پیارا دوست یاد آیا، وہ ہندو ( سناتھن ) دھرم سے تعلق رکھتا تھا، اس کا نام "  ہری چند  " ( یہ فرضی نام ہے  اصل نام یاد نہیں آرہا)  تھا جس نے اس کے کہنے پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا، یہ بھی بڑا عجیب قصہ تھا ـ   ہری چند اکثر غلام حسین سے ملنے اس کے گھر اس کی بیٹھک میں آتا ، اس کے ساتھ باتیں کرتا اور اکٹھے بیٹھ کر ساتھ کھانا کھاتے تھے، ایک روز ہری چند نے بھی غلام حسین کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دی جسے قبول کرلیا گیا، مگر جب وہ دعوت پر ہری چند کے گھر پہنچا تو اس نے ان کی بیٹھک میں سُوَّر ( سُووَر ) بندھے دیکھے، یہ دیکھ کر اس کا جی خراب ہوگیا اور ہری چند سے کہا کہ بھائی میں اس وقت تک تمہارے گھر نہیں جاسکتا جب تک تمہارے گھر میں سوّر موجود ہیں، چنانچہ وہ اس کی دعوت پر اس کے گھر نہیں گیا ـ    
وقت گزرتا گیا ایک روز ہری چند نے کہا کہ بھائی غلام حسین میں تمہارے مذہب اسلام کو سوفیصد سچا سمجھتا ہوں، اس لئے تم مجھے مسلمان بنالو ـ  یہ سن کر غلام حسین خوشی سے جھوم اٹھا اور اسے مشورہ دیا کہ اسلام کی صحیح تعلیم کے لئے تم دہلی چلے جاؤ، وہاں پر فلاں مدرسہ ہے وہاں پر فلاں نام کے ایک عالم ہیں انہیں میرا سلام کہنا وہ تمہیں مدرسے میں داخل کرلیں گے، چنانچہ ہری چند نے ایسا ہی کیا، لیکن اس سلسلے میں ان کے گھر والوں کا کیا ردّعمل تھا یہ معلوم نہ ہوسکا ـ  مسلمان ہونے کے بعد ہری چند کا نام  " عبدالقادر " رکھا گیا، چند سالوں بعد عالم بن کر عبدالقادر ( یہ نام بھی فرضی ہے، اصل رکھا گیا نام بھی یاد نہیں) جب واپس اپنے گاؤں آیا تو غلام حسین نے اس کا پُرجوش استقبال کیا، اور اپنے گھر دعوت پر بلایا، لیکن عبدالقادر نے کہا کہ بھائی غلام حسین تمہارے کہنے پر اور اللہ کے فضل سے میں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا، اب تم ایک میری بات بھی مان لو اور وہ یہ ہے کہ تمہارے کانوں میں جو یہ بالے ہیں یہ ہندو دھرم کی علامت ہیں انہیں نکال دو، اور تمہاری یہ جو بڑی بڑی مونچھیں تمہارے لبوں پر آرہی ہیں انہیں ترشوا لو، کیوں کہ جب تم کھانا کھاتے ہو یا پانی پیتے ہو تو وہ مونچھوں کو لگ کر مُنہ میں جاتا ہے، جوکہ غیر شرعی ہے اور لقمہ حرام ہوجاتا ہے، یہ عمل سنّتِ رسولﷺ کے خلاف ہے ـ 
یہ سن کر غلام حسین مسکرایا اور اسی وقت اپنے کانوں سے بالے اتار دئے اور حد سے بڑھی مونچھیں ترشوا لیں، اس خیال کے آتے ہی بھیڈے کے چہرے پر اطمینان ظاہر ہوا اور لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ـ 
خیالات کا سلسلہ دوسری جانب مڑا تو اس کے سامنے وہ منظر آگیا جب وہ ایک رات اپنی گھوڑی پر سوار کہیں سے واپس گھر کی طرف آرہا تھا ... راستے میں وہ ایک قبرستان سے گزرا تو اچانک یہ دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا کہ ایک قبر پر کوئی مادرزاد برہنہ عورت بال بکھرائے کھڑی ہوئی کسی برتن میں موجود پانی سے نہا رہی ہے، یہ دیکھ کر وہ رک گیا، گھوڑی سے اترا اور اس عورت کے پاس گیا، وہ خوفزدہ نہیں ہوا اور نہ ہی اسے چڑیل وغیرہ سمجھا ـ اس عورت نے اسے ڈرانے کے لئے چیخ کر کہا کہ بھاگ جاؤ، اپنی جان بچاؤ، میں چڑیل ہوں تمہارا خون پی جاؤں گی، لیکن بھیڈے نے تو ڈرنا سیکھا ہی نہیں تھا، اس نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا ـ  اپنی پگڑی اتار کر اس کی طرف پھینکی کہ اس سے اپنا جسم ڈھانپ لو، لڑکی نے ایسا ہی کیا، تب بھیڈے نے دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا کہ بتاؤ ... تم کون ہو ...؟ ورنہ تمہیں یہیں پر مار ڈالوں گا ـ  وہ عورت اب بہت زیادہ خوفزدہ ہوگئی تھی ... وہ رونے لگی اور بتایا کہ وہ فلاں گاؤں کی رہنے والی ہے اور فلاں شخص کی بیوی ہے، شادی کو کئی سال ہوگئے ہیں مگر وہ اب تک اولاد سے محروم ہے، ہمارے پیر صاحب نے بتایا تھا کہ فلاں تاریخ کو،  رات کو فلاں وقت پر قبرستان میں کسی پرانی قبر پر جاکر نہالو تو اولاد ہوجائے گی ـ یہ سن کر " غلام حسین بھیڈے " نے اسے سمجھایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، تمہیں فریب دیا گیا ہے، اولاد دینے والا تو صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے، فقط اسی سے ہر شے طلب کرو، وہی دعائیں قبول کرتا ہے، آئندہ ایسی غلطی ہرگز نہ کرنا، اب چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں ... لڑکی نے منتیں کرنی شروع کردیں کہ آپ یہ سب میرے گھر والوں کو مت بتانا، ورنہ وہ مجھے طلاق دے دیں گے، یا مجھے مار یں گے، اس نے وعدہ کرلیا، اور لڑکی کو گھوڑی پر اپنے پیچھے بٹھا کر خاموشی سے اس کے گھر پر اتار دیا ـ  وہ لڑکی جس طرح چوری چھپے گھر سے نکلی تھی، اسی طرح چھپ کر گھر میں داخل ہوگئی، اور بات پردے کی پردے میں رہ گئی ـ
باقی ... قسط ـ 4 ( آخری قسط ) میں ملاحظہ فرمائیں ـ 
=== بھیڈا ( بھیڑیا ) === قسط ـ 4 ـ آخری ـ
       گذشتہ سے پیوستہ 
( یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے) 
ہریانہ کے ایک بہادر سپوت کی حیرت انگیز داستان

جیل کی کال کوٹھری میں اپنی موت کو قریب ترین محسوس کرتے ہوئے گزری زندگی کے تمام ورق خودبخود الٹتے جا رہے تھے، یہ سوچ کر اسے بے حد دکھ ہوا کہ ابھی چند ہی سال قبل اس کا شاگرد  " منوہر لال " ( یہ نام بھی فرضی ہے، اصل نام یاد نہیں) جوکہ جاٹ قوم سے تھا، اس کے پاس آیا اور کہا کہ استاد جی مجھے کچھ دن کے لئے اپنی بندوق دے دو، مجھے اپنے چند دوستوں کے ساتھ شکار پر جانا یے، یہ سن کر اس نے بندوق دینے کے معاملے پر کچھ تردّد کیا، لیکن منوہر لال نے اس کی ہر طرح سے تشفّی کردی اور اطمینان دلایا کہ تمہاری بندوق کو غلط کام کے لئے استعمال ہرگزنہیں کیا جائے گا ـ بھیڈے نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی بندوق اس کو دے دی ـ اس کی بندوق کے بٹ پر کچھ مخصوص نقش و نگار اس نے خود اپنے ہاتھ سے کندہ کئے ہوئے تھے جوکہ اس کی بندوق کی شان اور پہچان تھے ـ بہرحال منوہر لال بندوق لے گیا ـ پھر کئی روز تک وہ واپس نہیں آیا، البتہ اس کے متعلق یہ خبر ضرور آگئی کہ منوہر لال روپوش ہوگیا ہے ـ بعدازاں یہ خبر آئی کہ منوہر لال نے اپنے بدمعاش جرائم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی قریبی گاؤں میں ایک ہندو سیٹھ کے گھر پر حملہ کیا تھا، پورے گھر کو لوٹ کر آگ لگادی، اور کچھ اہلِ خانہ کو قتل بھی کردیا گیا ہے ـ اس واردات میں استعمال ہونے والی " بھیڈے " کی بندوق بازیاب ہو گئی تھی ـ پولیس مجرمان کی تلاش میں چھاپے مار رہی تھی، یہ اطلاع ملتے ہی کچھ لوگوں کے کہنے پر غلام حسین بھیڈا بھی روپوش ہوگیا ـ وہ دراصل دھنانہ گاؤں میں جاکر اپنے عزیزوں کے ہاں چھپ گیا تھا ـ بہت عرصہ وہ روپوش رہا، لیکن اس کی غیرموجودگی میں اس کے گھر میں بچوں کو فاقہ کشی اور بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اوپر سے پولیس بار بار ان کو تنگ کر رہی تھی ـ
گھر میں بچوں کے دگرگوں حالات سن سن کر بالآخر غلام حسین نے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ـ 
اور جیند شہر آکر خود کو پولیس کے حوالے کردیا ـ
غلام حسین کے بیان کے بعد منوہر لال اور اس کے دیگر مجرم ساتھیوں کو پکڑ لیا گیا، لیکن ٹھوس ثبوت غلام حسین کے خلاف اس کی بندوق تھی، جوکہ موقعہء واردات سے بازیاب ہوئی تھی اور اب عدالت میں جج صاحب کے سامنے موجود تھی، آلہء قتل کی موجودگی میں مقدمہ چلا، منوہر لال اور دیگر مجرمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ وہ بندوق غلام حسین سے شکار کے لئے مانگ کر لے گئے تھے، ان کے بیان کے مطابق یہ کارروائی غلام حسین بھیڈے نے کی ہے ـ جج نے غلام حسین کو پھانسی کی سزا سنادی، اور دیگر مشکوک مجرموں کو بھی کچھ سال قید کی سزا سنائی گئی ـ
غلام حسین کی ایک ذہین بیٹی " شریفن "  تھی، جس کی عمر  بارہ، پندرہ سال کے درمیان ہوگی ـ وہ عدالت کے ایک سرکاری وکیل سے ملی، یہ وکیل ان کے گاؤں " کالوا " کا رہائشی تھا ـ اس کو ساری حقیقت بتائی گئی، وہ خود بھی ان حقائق سے آگاہ تھا اور غلام حسین کی عزت کرتا تھا، جب شریفن نے اس کے پاس آکر اپنے باپ کی رہائی کے لئے منتیں کرنی اور رونا شروع کیا تو اس کو اس پر بہت ترس آیا، اور اس نے ان کی مدد کرنے کا ارادہ کرلیا ـ  اس نے شریفن کو کچھ اہم باتیں سمجھائیں اور کہا کہ جج صاحب ( جو کہ انگریز تھا )  بہت رحم دل،  خدا ترس اور ایماندار آدمی ہے، میں تمہیں اس کے گھر کے باہر لے چلتا ہوں، وہ صبح جیسے ہی عدالت آنے کے لئے گھر سے نکلے تو تم اس کے سامنے جاکر اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوجانا، اس کے سامنے آہ و زاری کرنا، تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا ـ
شریفن نے ایسا ہی کیا، وہ جج کے پاؤں میں گر پڑی،  اس نے جج کو روتے ہوئے بتایا کہ اس کا والد بالکل بے قصور ہے، وہ اب بوڑھا ہوچکا ہے، وہ تو اب رات کو کبھی گھر سے بھی باہر نہیں نکلتا، اور نہ ہی اس میں اب اتنی طاقت ہے کہ وہ ڈاکہ ڈال سکے ـ اور یہ کہ یہ واردات میرے باپ کے شاگرد منوہر لال نے کی ہے، جو کہ اس کی بندوق شکار کرنے کے بہانے سے لے گیا تھا ـ
جج صاحب کو اس پر بہت ترس آیا، اس نے بڑی توجہ سے بچی کی باتیں سنیں اور اس کی مدد کا وعدہ کر لیا، اس نے وکیل سے کہ کر کیس کی دوبارہ سماعت کے لئے اپیل کروائی ـ چنانچہ کچھ ضروری کارروائی کے بعد کیس کی دوبارہ سے سماعت شروع کی گئی ـ
دورانِ سماعت کچھ مزید شواہد کا مشاہدہ کرنے کے بعد کیس بہت کمزور ہوگیا اور آخری سماعت پر جج نے غلام حسین کی بندوق کو اچانک اٹھا کر اسے تھماتے ہوئے کہا کہ غلام حسین اس بندوق سے تم کیسے نشانہ لگاتے ہو ذرا اسے تھام کر تو دکھاؤ ـ غلام حسین نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے بندوق کو نشانہ لگانے والے انداز سے تھام کر دکھایا ـ پھر جج صاحب نے وہی بندوق منوہر لال  کی طرف بڑھائی اور کہا کہ تم بھی بتاؤ کہ بندوق سے کیسے نشانہ لیا جاتا ہے؟ ـ منوہر لال نے فوراً بندوق کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر سیدھا کر کے دکھایا ـ یہ دیکھ کر جج صاحب نے بھری عدالت کے سامنے کہا کہ آپ سب نے دیکھ لیا کہ غلام حسین کے ہاتھوں میں اب اتنی سکت بھی نہیں ہے کہ وہ بندوق کو سیدھا کر کے تھام سکے، ایسی حالت میں کوئی ڈاکہ کیسے ڈال سکتا ہے اور کسی کو قتل کیسے کرسکتا ہے؟ ـ جب کہ آپ نے دیکھ لیا کہ منوہر لال نے کس چابکدستی اور مہارت کے ساتھ بندوق کو پکڑا اور نشانہ باندھا ـ لہٰذا صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قتل و ڈکیتی کی اس واردات میں غلام حسین ہرگز ملوّث نہیں ہے، اس لئے غلام حسین کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور اصل مجرم منوہر لال کو سزائے موت  اور اس کے ساتھیوں کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ـ 
غلام حسین اس کے بعد تقریباﹰ دس گیارہ  سال مزید زندہ رہا، اس دوران اس نے اپنی بیٹی  " شریفن "  کی شادی کردی، شریفن شادی کے بعد اپنے شوہر کے پاس " شملہ " چلی گئی، جہاں پر اس کا شوہر  ریلوے میں ملازم تھا ـ پاکستان آنے کے بعد شوہر انتقال کرگیا، پھر دوسرا نکاح ٹنڈوآدم میں " فتح محمد " سے ہوا تھا،  دیگر بچیوں کی بھی شادیاں کردی گئیں ـ 
 بڑے بیٹے "نوازعلی" ( جوکہ وزن اٹھانے کے ایک مظاہرے کے دوران تکلیف ہونے کے باعث انتقال کرگیا تھا)  کی بیوہ کا نکاح  اپنے  بیٹے  "محمد شریف " سے کروا دیا، جس کی عمر تقرباً  اٹھارہ سال تھی ـ 
غلام حسین ( بھیڈا)  نے کم و بیش اسی ( 80 ) سال کی عمر میں  انتقال کیا ـ اس کے انتقال کے دو تین  سال بعد ملک تقسیم ہوا تو یہ تمام خاندان ہجرت کرکے براستہ " اٹاری ریلوے اسٹیشن " پاکستان کے شہر لاہور  " والٹن کیمپ " پہنچے، جن تکالیف اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے یہ خاندان پاکستان پہنچا یہ الگ سے ایک دردناک داستان ہے ـ  ہجرت کے  وقت بڑے  بیٹے " محمد شریف " کی عمر اکیس بائیس سال کے قریب تھی ، جبکہ چھوٹا بیٹا " شیر محمد "  تیرہ چودہ  سال کا تھا،  شیر محمد دنیاداری سے دور ،  فقیرمنش، درویش صفت انسان تھا ـ  والٹن کیمپ سے حکومت نے انہیں سندھ بھجوادیا، جہاں پر انہوں نے محراب پور میں سکونت اختیار کی ـ  پانچ چھ سال بعد شیر محمد  اور محمد شریف نے پنوعاقل سندھ میں ایک ہی گھر میں دو بہنوں سے شادیاں کیں ، یہ محمد شریف کی دوسری شادی تھی ـ
 محمد شریف کو پاکستان آنے کے بعد پہلی بیوی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، دوسری سے کوئی اولاد نہیں ہوئی،  جب کہ شیرمحمد کو تین بیٹیاں اور چار بیٹے پیدا ہوئے، جن میں سے دو بیٹے بچپن میں ہی انتقال کر گئے، اور دو بیٹے جن میں سے بڑا بیٹا غلام محمد وامِق ( راقم الحروف ) اور چھوٹا بیٹا ڈاکٹر محمد شفیع طور، ماشاءاللہ حیات ہیں ( الحمدللہ ربّ العالمین) ـ 
شیرمحمد طور کا انتقال مورخہ 27 مئی 1986ء،  مطابق 17 رمضان المبارک 1406ھجری، بروز منگل تقریباﹰ 52 سال کی عمر میں ہوا،  ـ اور اس کے بڑے بھائی محمد شریف طور کا انتقال مورخہ 15 مارچ 2005ء، مطابق 4 صفر 1426ھجری بروز منگل، تقریباﹰ 80 ـ 79 سال کی عمر میں ہوا ـ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وضاحت = یہ داستان " غلام حسین عرف بھیڈا " کے بڑے فرزند محمد شریف طور نے بارہا اہلِ خانہ کے سامنے سنائی، اور برادرِ خورد  ڈاکٹر محمد شفیع طور نے اس کی تصدیق کی، جب کہ راقم الحروف غلام محمد وامِق نے اسے داستان کی شکل میں ترتیب دیا اور قلمبند کیا ـ 
یہ تحریر، آج سات ( 7 ) نومبر سال 2022 ء بروز سوموار کو پایۂ تکمیل کو پہنچی ـ
غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ 
مدحتِ حسین علیہ السّلام پر مشتمل مجموعۂ کلام ـ             " ہمارے ہیں حسین "  جنوری، سال 1986ء میں مکتبہء طوسی حیدرآباد کی طرف سے  شایع کیا گیا تھا،  اس کتاب میں قدیم و جدید شعرا کا منتخب کلام پیش کیا گیا ہے ـ جس میں مجھ ناچیز سمیت، میر انیس،  مرزا غالب، علامہ اقبال، محمد حسین قمر جلالوی، جوش ملیح آبادی، رئیس امروہوی،  سید ہاشم رضا، قتیل شفائی، شہزاد احمد، شورش کاشمیری، احسان دانش، راغب مرادآبادی، حفیظ تائب، پروفیسر منظور حسین شور، ماہر لکھنوی، عزّت لکھنوی، برگ یوسفی، ضیا علیگ، اسلم اشعر، احمد ضیا، فہیم شناس کاظمی ریحان اعظمی، شعلہ بدایونی، پنڈت رگھوناتھ سہائے امید، اور ہمارے سینئر و جونیئر ہم عصر شعرا سمیت بہت سے دیگر مستند  شعرا کا کلام بھی شامل کیا گیا ہے ـ پرانی یاد کے طور پر نذرِ قارئین ہے ـ ( غلام محمد وامِق) ... ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ===  منقبتِ حسین علیہ السّلام  === .........  شاعر ـ  غلام محمد وامِق   ...... ہمیں اپنی جاں سے ہے پیارا حسین ... ہے پیارے نبی کا  نواسہ  حسین ... رہِ حق میں اُس دم اَمَر ہو گئے ... کہ جس دم خدا نے پکارا حسین ... لٹادی ہے راہِ خدا میں حیات ... رہے گا سدا نام  زندہ حسین ... یُوں حق کا عَلَم کر دکھایا بلند ... کہ تُونے ستم کو مٹایا حسین ... فرشتے ہوئے آپ کے معتقد ... یوں سجدے میں سر کو کٹایا حسین ... جو دریا پہ پہرے بٹھائے تو کیا ... ہُوا حوضِ کوثر تمہارا حسین ... تیرے خوں کی سرخی ہے، اب تک وہاں ... یوں کربل کو خوں سے سجایا حسین ... جو فتنہ ہوا  پیدا  اسلام  میں ... وہ تونے مٹا کر دکھایا حسین ... مقدس وہاں کی ہوئی خاک بھی ... جہاں خوں میں وامِق ہے تڑپا حسین ... ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مدحتِ حسین علیہ السّلام پر مشتمل مجموعۂ کلام ـ " ہمارے ہیں حسین " جنوری، سال 1986ء میں مکتبہء طوسی حیدرآباد کی طرف سے شایع کیا گیا تھا، اس کتاب میں قدیم و جدید شعرا کا منتخب کلام پیش کیا گیا ہے ـ جس میں مجھ ناچیز سمیت، میر انیس، مرزا غالب، علامہ اقبال، محمد حسین قمر جلالوی، جوش ملیح آبادی، رئیس امروہوی، سید ہاشم رضا، قتیل شفائی، شہزاد احمد، شورش کاشمیری، احسان دانش، راغب مرادآبادی، حفیظ تائب، پروفیسر منظور حسین شور، ماہر لکھنوی، عزّت لکھنوی، برگ یوسفی، ضیا علیگ، اسلم اشعر، احمد ضیا، فہیم شناس کاظمی ریحان اعظمی، شعلہ بدایونی، پنڈت رگھوناتھ سہائے امید، اور ہمارے سینئر و جونیئر ہم عصر شعرا سمیت بہت سے دیگر مستند شعرا کا کلام بھی شامل کیا گیا ہے ـ پرانی یاد کے طور پر نذرِ قارئین ہے ـ ( غلام محمد وامِق) ... ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ=== منقبتِ حسین علیہ السّلام === ......... شاعر ـ غلام محمد وامِق ...... ہمیں اپنی جاں سے ہے پیارا حسین ... ہے پیارے نبی کا نواسہ حسین ... رہِ حق میں اُس دم اَمَر ہو گئے ... کہ جس دم خدا نے پکارا حسین ... لٹادی ہے راہِ خدا میں حیات ... رہے گا سدا نام زندہ حسین ... یُوں حق کا عَلَم کر دکھایا بلند ... کہ تُونے ستم کو مٹایا حسین ... فرشتے ہوئے آپ کے معتقد ... یوں سجدے میں سر کو کٹایا حسین ... جو دریا پہ پہرے بٹھائے تو کیا ... ہُوا حوضِ کوثر تمہارا حسین ... تیرے خوں کی سرخی ہے، اب تک وہاں ... یوں کربل کو خوں سے سجایا حسین ... جو فتنہ ہوا پیدا اسلام میں ... وہ تونے مٹا کر دکھایا حسین ... مقدس وہاں کی ہوئی خاک بھی ... جہاں خوں میں وامِق ہے تڑپا حسین ... ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مدحتِ حسین علیہ السّلام پر مشتمل مجموعۂ کلام ـ             " ہمارے ہیں حسین "  جنوری، سال 1986ء میں مکتبہء طوسی حیدرآباد کی طرف سے  شایع کیا گیا تھا،  اس کتاب میں قدیم و جدید شعرا کا منتخب کلام پیش کیا گیا ہے ـ جس میں مجھ ناچیز سمیت، میر انیس،  مرزا غالب، علامہ اقبال، محمد حسین قمر جلالوی، جوش ملیح آبادی، رئیس امروہوی،  سید ہاشم رضا، قتیل شفائی، شہزاد احمد، شورش کاشمیری، احسان دانش، راغب مرادآبادی، حفیظ تائب، پروفیسر منظور حسین شور، ماہر لکھنوی، عزّت لکھنوی، برگ یوسفی، ضیا علیگ، اسلم اشعر، احمد ضیا، فہیم شناس کاظمی ریحان اعظمی، شعلہ بدایونی، پنڈت رگھوناتھ سہائے امید، اور ہمارے سینئر و جونیئر ہم عصر شعرا سمیت بہت سے دیگر مستند  شعرا کا کلام بھی شامل کیا گیا ہے ـ پرانی یاد کے طور پر نذرِ قارئین ہے ـ 
( غلام محمد وامِق) ... 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

===  منقبتِ حسین علیہ السّلام  === 
.........  شاعر ـ  غلام محمد وامِق   ...... 

ہمیں اپنی جاں سے ہے پیارا حسین ... 
ہے پیارے نبی کا  نواسہ  حسین ... 

رہِ حق میں اُس دم اَمَر ہو گئے ... 
کہ جس دم خدا نے پکارا حسین ... 

لٹادی ہے راہِ خدا میں حیات ... 
رہے گا سدا نام  زندہ حسین ... 

یُوں حق کا عَلَم کر دکھایا بلند ... 
کہ تُونے ستم کو مٹایا حسین ... 

فرشتے ہوئے آپ کے معتقد ... 
یوں سجدے میں سر کو کٹایا حسین ... 

جو دریا پہ پہرے بٹھائے تو کیا ... 
ہُوا حوضِ کوثر تمہارا حسین ... 

تیرے خوں کی سرخی ہے، اب تک وہاں ... 
یوں کربل کو خوں سے سجایا حسین ... 

جو فتنہ ہوا  پیدا  اسلام  میں ... 
وہ تونے مٹا کر دکھایا حسین ... 

مقدس وہاں کی ہوئی خاک بھی ... 
جہاں خوں میں وامِق ہے تڑپا حسین ... 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
حبیب جالب کو منظوم خراجِ عقیدت  پیش کرنے کے لئے ستمبر 1996ء  میں شایع ہونے والی کتاب  " حبیب جالب فن اور شخصیت " میں میری ایک نظم اور ایک  قطعہ شایع کیا گیا تھا، پرانی یاد کے طور پر پیشِ خدمت ہے ـ ( کتاب میں کتابت کی ایک دو غلطیاں رہ گئی ہیں ) ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ===  جالب کے نام  === اِک شخص کہ تھا درویش منش، نہ جھکتا تھا نہ بِکتا تھا .. وہ ٹوٹ کے تو گِر سکتا تھا پر، ظالم سے نہ ڈرتا تھا ... کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ... ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ... محنت کش اور مزدوروں کا بوجھ اٹھایا اُس سر نے ... سردار وڈیروں کے آگے وہ سر جو کبھی نہ جھکتا تھا ... اِک پل نہ گوارا اُس نے کیا، عیاش حکومت میں رہنا ... وہ روز سسکتے لوگوں کے سنگ جیتا تھا اور مرتا تھا ... غُربا کے لئے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ـ ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ، شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا ـ وہ حق کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ... بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ... وہ جالِب تو تھا سب ہی کا، لوگوں کا مگر وہ حبیب بھی تھا ... کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ                   === جالب کی یاد میں ===  سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ... مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ... حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ... پی کر جو ہوا، امر وہ سقراط ہے جالب ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حبیب جالب کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ستمبر 1996ء میں شایع ہونے والی کتاب " حبیب جالب فن اور شخصیت " میں میری ایک نظم اور ایک قطعہ شایع کیا گیا تھا، پرانی یاد کے طور پر پیشِ خدمت ہے ـ ( کتاب میں کتابت کی ایک دو غلطیاں رہ گئی ہیں ) ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ === جالب کے نام === اِک شخص کہ تھا درویش منش، نہ جھکتا تھا نہ بِکتا تھا .. وہ ٹوٹ کے تو گِر سکتا تھا پر، ظالم سے نہ ڈرتا تھا ... کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ... ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ... محنت کش اور مزدوروں کا بوجھ اٹھایا اُس سر نے ... سردار وڈیروں کے آگے وہ سر جو کبھی نہ جھکتا تھا ... اِک پل نہ گوارا اُس نے کیا، عیاش حکومت میں رہنا ... وہ روز سسکتے لوگوں کے سنگ جیتا تھا اور مرتا تھا ... غُربا کے لئے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ـ ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ، شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا ـ وہ حق کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ... بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ... وہ جالِب تو تھا سب ہی کا، لوگوں کا مگر وہ حبیب بھی تھا ... کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ === جالب کی یاد میں === سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ... مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ... حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ... پی کر جو ہوا، امر وہ سقراط ہے جالب ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حبیب جالب کو منظوم خراجِ عقیدت  پیش کرنے کے لئے ستمبر 1996ء  میں شایع ہونے والی کتاب  " حبیب جالب فن اور شخصیت " میں میری ایک نظم اور ایک  قطعہ شایع کیا گیا تھا، پرانی یاد کے طور پر پیشِ خدمت ہے ـ 
( کتاب میں کتابت کی ایک دو غلطیاں رہ گئی ہیں ) 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

===  جالب کے نام  === 

اِک شخص کہ تھا درویش منش، نہ جھکتا تھا نہ بِکتا تھا .. 
وہ ٹوٹ کے تو گِر سکتا تھا پر، ظالم سے نہ ڈرتا تھا ... 

کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ... 
ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ... 

محنت کش اور مزدوروں کا بوجھ اٹھایا اُس سر نے ... 
سردار وڈیروں کے آگے وہ سر جو کبھی نہ جھکتا تھا ... 

اِک پل نہ گوارا اُس نے کیا، عیاش حکومت میں رہنا ... 
وہ روز سسکتے لوگوں کے سنگ جیتا تھا اور مرتا تھا ... 

غُربا کے لئے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ـ
ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ، شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا ـ

وہ حق کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ... 
بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ... 

وہ جالِب تو تھا سب ہی کا، لوگوں کا مگر وہ حبیب بھی تھا ... 
کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ   
                
=== جالب کی یاد میں ===  

سرمائے کا خوگر تھا نہ شہرت کا وہ طالب ... 

مفلس تھا مگر بادشاہوں پہ تھا وہ غالب ... 

حق کے لئے ہر دور میں زہر کا پیالہ ... 

پی کر جو ہوا، امر وہ سقراط ہے جالب ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج آف ایجوکیشن سکھر کے میگزین ( المُعلِّم)  سال 2016 - 17، میں میری یہ غزل میرے شعری مجموعے  " نقشِ وفا "  سے لے کر شایع کی گئی تھی، اور اس کی اطلاع مجھے میگزین کی اعزازی کاپی بھیج کر دی گئی تھی ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ                 غــــزل =  ایک ایک کرکے چھوڑ مجھے ہم سفر گئے ... شاید وہ راہِ شوق کی سختی سے ڈر گئے ... بکھرے تھے راہِ شوق میں کانٹے تو کیا ہوا ... ہم آبلہ پا کانٹوں پہ چل کر مگر گئے ... میں احترامِ حسن میں خاموش جو رہا ... تہمت تمام میرے ہی وہ نام دھر گئے ... رہتا ہمیشہ کون ہے،  دنیا سرائے ہے ...  کچھ لوگ باقی ہیں ابھی، کچھ اپنے گھر گئے ... پوچھے گا کون،  حاکمِ دورِ جدید  سے ؟ ... کیوں بھوک سے اِس دور میں کچھ لوگ مر گئے؟ ... وامِق، نہ پھول کھِل سکا کوئی، بقولِ میر ... " اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے " ...  عوامی شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج آف ایجوکیشن سکھر کے میگزین ( المُعلِّم) سال 2016 - 17، میں میری یہ غزل میرے شعری مجموعے " نقشِ وفا " سے لے کر شایع کی گئی تھی، اور اس کی اطلاع مجھے میگزین کی اعزازی کاپی بھیج کر دی گئی تھی ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ غــــزل = ایک ایک کرکے چھوڑ مجھے ہم سفر گئے ... شاید وہ راہِ شوق کی سختی سے ڈر گئے ... بکھرے تھے راہِ شوق میں کانٹے تو کیا ہوا ... ہم آبلہ پا کانٹوں پہ چل کر مگر گئے ... میں احترامِ حسن میں خاموش جو رہا ... تہمت تمام میرے ہی وہ نام دھر گئے ... رہتا ہمیشہ کون ہے، دنیا سرائے ہے ... کچھ لوگ باقی ہیں ابھی، کچھ اپنے گھر گئے ... پوچھے گا کون، حاکمِ دورِ جدید سے ؟ ... کیوں بھوک سے اِس دور میں کچھ لوگ مر گئے؟ ... وامِق، نہ پھول کھِل سکا کوئی، بقولِ میر ... " اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے " ... عوامی شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج آف ایجوکیشن سکھر کے میگزین ( المُعلِّم)  سال 2016 - 17، میں میری یہ غزل میرے شعری مجموعے  " نقشِ وفا "  سے لے کر شایع کی گئی تھی، اور اس کی اطلاع مجھے میگزین کی اعزازی کاپی بھیج کر دی گئی تھی ـ 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 
                   غــــزل

ایک ایک کرکے چھوڑ مجھے ہم سفر گئے ... 
شاید وہ راہِ شوق کی سختی سے ڈر گئے ... 

بکھرے تھے راہِ شوق میں کانٹے تو کیا ہوا ... 
ہم آبلہ پا کانٹوں پہ چل کر مگر گئے ... 

میں احترامِ حسن میں خاموش جو رہا ... 
تہمت تمام میرے ہی وہ نام دھر گئے ... 

رہتا ہمیشہ کون ہے،  دنیا سرائے ہے ...  
کچھ لوگ باقی ہیں ابھی، کچھ اپنے گھر گئے ... 

پوچھے گا کون،  حاکمِ دورِ جدید  سے ؟ ... 
کیوں بھوک سے اِس دور میں کچھ لوگ مر گئے؟ ... 

وامِق، نہ پھول کھِل سکا کوئی، بقولِ میر ... 
" اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے " ...  

عوامی شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
میری شاعری کی کتاب " نقشِ وفا " کا تعارف، اور اس پر تبصرہ ماہنامہ " روحانی ڈائجسٹ " کے مئی 2001ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا ـ اب یادِ ماضی کے طور پر اسے اپنی فیس بک کی نذر کر رہا ہوں ـ ملاحظہ فرمائیں ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ نقشِ وفا ـ مصنف ـ غلام محمد وامِق ـ ناشر ـ المہران بک ڈیپو، محراب پور جنکشن سندھ ـ صفحات 160قیمت 80 روپئے ــ ساغر و مینا اور بادہ و جام اردو شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن دورِ جدید میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت سی قدروں کو یکسر بدل دیا ہے وہیں شاعری پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے ـ اب نئے نئے استعارے سامنے آرہے ہیں ـ غلام محمد وامِق  کی زیرِ تبصرہ کتاب " نقشِ وفا " میں شایع کی گئی مختلف غزلوں اور نظموں میں بھی ہمیں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید طرزوں کا مشاہدہ ہوتا ہے،  یہ غلام محمد وامِق کی آگے بڑھتی ہوئی اس سوچ کا مظہر ہے جو ماضی سے رشتہ توڑے بغیر حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو دیکھتی ہے ـ وامِق نے اپنی غزلوں میں محض زلفِ درازِ یار کی مدح خوانی میں اپنی ذہنی توانائی کو خرچ نہیں کیا بلکہ معاشرے اور معاشرتی اقدار پر ایک چبھتی ہوئی نگاہ ڈالی ہے، اور اس نگاہ سے فرسودہ روایات اور منافقانہ قدروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں افرادِ معاشرہ کے شعوری ارتقاء میں حائل اہم رکاوٹ قرار دیا ہے ـ وامِق کے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجئے ـ جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو ـ جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو،  اور اوپر نیچے حدت ہو ـ جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعین مدت ہو ـ کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے؟ ـ  ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری ـ کہ اب ہے یہود و نصاریٰ سے یاری ـ یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی ـ کہ دنیا ہے کافر کی، مسجد ہماری ـ تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ـ صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ـ مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ـ ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ــ  محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ـ محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالَم ہے ـ محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ـ محبت در حقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ـ کتاب میں وامِق کی سندھی شاعری سے بھی کچھ اقتباس موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے کم وسائل میں شایع ہونے کے باوجود یہ کتاب یقیناً منفرد مقام حاصل کر لے گی کہ اس میں افکار کی آبیاری کے لئے خاصا مواد موجود ہے ـ ہم توقع کرتے ہیں کہ وامِق نے افکار کے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ  " منزل نہ کر قبول "  کے مصداق سے ہمیشہ آگے  بڑھتا رہے گا ـ( تبصرہ نگار ـ   ‏یوسفی)  ‏

میری شاعری کی کتاب " نقشِ وفا " کا تعارف، اور اس پر تبصرہ ماہنامہ " روحانی ڈائجسٹ " کے مئی 2001ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا ـ اب یادِ ماضی کے طور پر اسے اپنی فیس بک کی نذر کر رہا ہوں ـ ملاحظہ فرمائیں ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ نقشِ وفا ـ مصنف ـ غلام محمد وامِق ـ ناشر ـ المہران بک ڈیپو، محراب پور جنکشن سندھ ـ صفحات 160قیمت 80 روپئے ــ ساغر و مینا اور بادہ و جام اردو شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن دورِ جدید میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت سی قدروں کو یکسر بدل دیا ہے وہیں شاعری پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے ـ اب نئے نئے استعارے سامنے آرہے ہیں ـ غلام محمد وامِق کی زیرِ تبصرہ کتاب " نقشِ وفا " میں شایع کی گئی مختلف غزلوں اور نظموں میں بھی ہمیں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید طرزوں کا مشاہدہ ہوتا ہے، یہ غلام محمد وامِق کی آگے بڑھتی ہوئی اس سوچ کا مظہر ہے جو ماضی سے رشتہ توڑے بغیر حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو دیکھتی ہے ـ وامِق نے اپنی غزلوں میں محض زلفِ درازِ یار کی مدح خوانی میں اپنی ذہنی توانائی کو خرچ نہیں کیا بلکہ معاشرے اور معاشرتی اقدار پر ایک چبھتی ہوئی نگاہ ڈالی ہے، اور اس نگاہ سے فرسودہ روایات اور منافقانہ قدروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں افرادِ معاشرہ کے شعوری ارتقاء میں حائل اہم رکاوٹ قرار دیا ہے ـ وامِق کے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجئے ـ جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو ـ جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو، اور اوپر نیچے حدت ہو ـ جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعین مدت ہو ـ کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے؟ ـ ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری ـ کہ اب ہے یہود و نصاریٰ سے یاری ـ یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی ـ کہ دنیا ہے کافر کی، مسجد ہماری ـ تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ـ صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ـ مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ـ ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ــ محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ـ محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالَم ہے ـ محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ـ محبت در حقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ـ کتاب میں وامِق کی سندھی شاعری سے بھی کچھ اقتباس موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے کم وسائل میں شایع ہونے کے باوجود یہ کتاب یقیناً منفرد مقام حاصل کر لے گی کہ اس میں افکار کی آبیاری کے لئے خاصا مواد موجود ہے ـ ہم توقع کرتے ہیں کہ وامِق نے افکار کے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ " منزل نہ کر قبول " کے مصداق سے ہمیشہ آگے بڑھتا رہے گا ـ( تبصرہ نگار ـ ‏یوسفی) ‏

میری شاعری کی کتاب " نقشِ وفا " کا تعارف، اور اس پر تبصرہ ماہنامہ " روحانی ڈائجسٹ " کے مئی 2001ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا ـ اب یادِ ماضی کے طور پر اسے اپنی فیس بک کی نذر کر رہا ہوں ـ ملاحظہ فرمائیں ـ
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 

نقشِ وفا
مصنف ـ غلام محمد وامِق ـ 
ناشر ـ المہران بک ڈیپو، 
محراب پور جنکشن سندھ ـ 
صفحات 160
قیمت 80 روپئے ـ 

ساغر و مینا اور بادہ و جام اردو شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن دورِ جدید میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت سی قدروں کو یکسر بدل دیا ہے وہیں شاعری پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے ـ اب نئے نئے استعارے سامنے آرہے ہیں ـ غلام محمد وامِق  کی زیرِ تبصرہ کتاب " نقشِ وفا " میں شایع کی گئی مختلف غزلوں اور نظموں میں بھی ہمیں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید طرزوں کا مشاہدہ ہوتا ہے،  یہ غلام محمد وامِق کی آگے بڑھتی ہوئی اس سوچ کا مظہر ہے جو ماضی سے رشتہ توڑے بغیر حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو دیکھتی ہے ـ
وامِق نے اپنی غزلوں میں محض زلفِ درازِ یار کی مدح خوانی میں اپنی ذہنی توانائی کو خرچ نہیں کیا بلکہ معاشرے اور معاشرتی اقدار پر ایک چبھتی ہوئی نگاہ ڈالی ہے، اور اس نگاہ سے فرسودہ روایات اور منافقانہ قدروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں افرادِ معاشرہ کے شعوری ارتقاء میں حائل اہم رکاوٹ قرار دیا ہے ـ 
وامِق کے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجئے ـ 

جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو ـ 
جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو،  اور اوپر نیچے حدت ہو ـ 
جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعین مدت ہو ـ
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے؟ 

ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری ـ 
کہ اب ہے یہود و نصاریٰ سے یاری ـ 
یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی ـ 
کہ دنیا ہے کافر کی، مسجد ہماری ـ 
تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ـ
صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ـ 
مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ـ 
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ـ 

محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ـ 
محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالَم ہے ـ 
محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ـ
محبت در حقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ـ 

کتاب میں وامِق کی سندھی شاعری سے بھی کچھ اقتباس موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے کم وسائل میں شایع ہونے کے باوجود یہ کتاب یقیناً منفرد مقام حاصل کر لے گی کہ اس میں افکار کی آبیاری کے لئے خاصا مواد موجود ہے ـ 
ہم توقع کرتے ہیں کہ وامِق نے افکار کے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ  " منزل نہ کر قبول "  کے مصداق سے ہمیشہ آگے  بڑھتا رہے گا ـ 
( تبصرہ نگار ـ یوسفی ) 
پاکستان کے معروف رسالے  " روحانی ڈائجسٹ "  کے شمارے اگست 2001 ء میں، ادارے نے مجھ ناچیز پر ایک مضمون شایع کیا تھا، اس کا عکس پرانی یاد کے طور پر یہاں فیس بک پر شایع کیا جارہا ہے ـ ( ذرا سی ترمیم کے ساتھ) ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ مضمون نگار ـ احتشام الحق     ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ    روایات شکنی کی راہ کا مسافر  " غلام محمد وامِق " ان کی شاعری سے پسماندہ اور مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ... وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات  میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے،  روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـجاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـغلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی  اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـنقلی چہرے،  جھوٹے رشتے،  ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ وامِق کہتے ہیں ... میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ  کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام " بزمِ طلباء " کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ " نقشِ وفا " کے نام سے شایع ہوچکا ہے ـ وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ـ شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ آزادیء اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا  " ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات  سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے ـ وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے  " میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے ـ وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ غلام محمد وامِق کا منتخب کلام ... ـــــــــــــــــــــــــــ   ہر دوست یہاں واعظ، ہر دوست یہاں ناصح ـ کیا خوب ہے اپنوں کا،  یہ اندازِ کرم بھی ـ سجدے تو کئے وامِق، لیکن یہ کئے کس کو؟ اے دوست تیرے دل میں خدا بھی ہے صنم بھی ـ مجھ سے غمِ حیات کی نہ داستان پوچھ ـبے پردہ ہوں گے پردہ نشینوں کے نام کچھ ـ تیرا شباب دیکھ کے  پیتا شراب کون ـ؟ ٹوٹے پڑے ہیں ساقی تیرے در پہ جام کچھ ـ ایسے ہوئے ہیں بدگماں انسانیت سے لوگ ـ اب مسلکِ انسان کو وہ مانتے نہیں ـ وامِق، لہو سے ہم نے جو سینچا تھا گلستاں ـ ہم کو وہاں اب خار بھی پہچانتے نہیں ـانسان اگر چاہے تو اسے دنیا میں خدا مل جاتا ہے ـ افسوس مگر انسان یہاں انسانوں کو ٹھکراتا ہے ـ ایثار و وفا، اخلاص و حیا اور پیار جو یکجا ہوتے ہیں ـ تب عشق کی منزل کا رستہ دھندلا سا نظر میں آتا ہے ـ تو مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر ـ مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو ـ صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ـ سڄڻ مان ته توکي دعاؤن ڪريان ٿو  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

پاکستان کے معروف رسالے " روحانی ڈائجسٹ " کے شمارے اگست 2001 ء میں، ادارے نے مجھ ناچیز پر ایک مضمون شایع کیا تھا، اس کا عکس پرانی یاد کے طور پر یہاں فیس بک پر شایع کیا جارہا ہے ـ ( ذرا سی ترمیم کے ساتھ) ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ مضمون نگار ـ احتشام الحق ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ روایات شکنی کی راہ کا مسافر " غلام محمد وامِق " ان کی شاعری سے پسماندہ اور مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ... وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے، روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـجاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـغلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـنقلی چہرے، جھوٹے رشتے، ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ وامِق کہتے ہیں ... میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام " بزمِ طلباء " کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ " نقشِ وفا " کے نام سے شایع ہوچکا ہے ـ وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ـ شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ آزادیء اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا " ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے ـ وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے " میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے ـ وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ غلام محمد وامِق کا منتخب کلام ... ـــــــــــــــــــــــــــ ہر دوست یہاں واعظ، ہر دوست یہاں ناصح ـ کیا خوب ہے اپنوں کا، یہ اندازِ کرم بھی ـ سجدے تو کئے وامِق، لیکن یہ کئے کس کو؟ اے دوست تیرے دل میں خدا بھی ہے صنم بھی ـ مجھ سے غمِ حیات کی نہ داستان پوچھ ـبے پردہ ہوں گے پردہ نشینوں کے نام کچھ ـ تیرا شباب دیکھ کے پیتا شراب کون ـ؟ ٹوٹے پڑے ہیں ساقی تیرے در پہ جام کچھ ـ ایسے ہوئے ہیں بدگماں انسانیت سے لوگ ـ اب مسلکِ انسان کو وہ مانتے نہیں ـ وامِق، لہو سے ہم نے جو سینچا تھا گلستاں ـ ہم کو وہاں اب خار بھی پہچانتے نہیں ـانسان اگر چاہے تو اسے دنیا میں خدا مل جاتا ہے ـ افسوس مگر انسان یہاں انسانوں کو ٹھکراتا ہے ـ ایثار و وفا، اخلاص و حیا اور پیار جو یکجا ہوتے ہیں ـ تب عشق کی منزل کا رستہ دھندلا سا نظر میں آتا ہے ـ تو مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر ـ مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو ـ صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ـ سڄڻ مان ته توکي دعاؤن ڪريان ٿو ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

پاکستان کے معروف رسالے  " روحانی ڈائجسٹ "  کے شمارے اگست 2001 ء میں، ادارے نے مجھ ناچیز پر ایک مضمون شایع کیا تھا، اس کا عکس پرانی یاد کے طور پر یہاں فیس بک پر شایع کیا جارہا ہے ـ ( ذرا سی ترمیم کے ساتھ) 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ  مضمون نگار ـ احتشام الحق ـ 

روایات شکنی کی راہ کا مسافر  " غلام محمد وامِق " 
ان کی شاعری سے پسماندہ اور مظلوم طبقے کی نشاندہی ہوتی ہے ... 

وامِق کی پیدائش سندھ کے شہر محراب پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھی پرائمری اسکول محراب پور سے حاصل کی ـ وامِق نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ سخت اور منجمد مذہبی روایات  میں جکڑا ہوا تھا، ایسے ماحول میں افراد کی زندگی بے سوچ یکطرفہ ڈگر پر جاری رہتی ہے،  روایات سے ہٹ کر سوچنے کا بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جاتا ـ
جاگیرداری سسٹم میں دولت کا ارتکاز بھی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے، اور لوگوں کا شعور خوف زدہ اور سہمے ہوئے کبوتر کی طرح روایات پرست مذہبی اور معاشی اجارہ داروں کے سامنے آنکھیں بند کر لیتا ہے ـ
غلام محمد وامِق نے اپنے اردگرد کے ماحول میں جذب ہونے کے بجائے باہر نکلنے کے لئے شعوری جدوجہد کا آغاز بچپن ہی سے کردیا تھا ـ قدرت نے موقع فراہم کیا اور وہ تعلیمی  اور معاشی حصول کے لئے کراچی آگئے، اپنے ابتدائی دور کے حوالے سے غلام محمد وامِق کے اپنے الفاظ یہ ہیں ـ 
میں نے جس ماحول میں نشونما پائی ہے وہ کوئی ادبی یا علمی ماحول نہیں تھا، بل کہ دور دور تک علم و ادب کا سایہ تک نہیں تھا، اور خاص طور پر شاعری تو شجرِ ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، اور اس کی وجہ میرے خیال میں غیر تعلیم یافتہ ماحول، معاشی بدحالی اور رجعت پسند منجمد مذہبی سوچ تھی ـ اور شاید اپنے گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے ردِعمل کے طور پر ہی میرا ذہن شعر و ادب کی طرف مائل ہوا ـ 
غلام محمد وامِق نے نویں جماعت سے ہی شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا، اُن کا پہلا شعر یہ ہے ... 
اے دل چھوڑ اب اس دنیا کو، یہاں سب ہی تو بے گانے ہیں ـ
نقلی چہرے،  جھوٹے رشتے،  ہم آج انہیں پہچانے ہیں ـ 

غالب، فیض اور احمد فراز سے بہت متاثر ہیں ـ 
وامِق کی شاعری میں اصلاح اور ارتقائی عمل کا سفر کراچی میں مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت سے طے ہوا ـ ـ ـ 
وامِق کہتے ہیں ... 
میری شاعری کی ابتدائی نوک پلک سنوارنے میں کراچی میں تقریباً چھ سالہ قیام جوکہ معاشی اور تعلیمی سلسلے میں تھا خاص اہمیت کا حامل ہے ـ چوں کہ اس دوران کراچی میں ملک کے نامور شعراء کرام اور اساتذہ کے ساتھ مجالس میں شرکت کے مواقع میسر آتے رہے ـ اور بہت سی ادبی و تنقیدی نشستوں میں بھی حاضر ہوتا رہا، بہت سے مشاعرے بھی پڑھے، خاص طور پر حیدرآباد میں دو مرتبہ  کُل پاک و ہند مشاعروں میں بھی اپنا کلام پیش کرنے کا موقع ملا ـ چنانچہ اساتذہ کرام کی صحبت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ـ 
کراچی میں قیام کے دوران وامِق ریڈیو کے بھی کئی پروگراموں میں حصہ لیتے رہے، زمانہء طالب علمی کے دوران ریڈیو کے معروف پروگرام " بزمِ طلباء " کی جانب سے انہیں اوّل انعام بھی دیا گیا ـ 
وامِق کی نظمیں اور غزلیں ملک کے معروف جریدوں اور اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں ـ وامِق کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ " نقشِ وفا " کے نام سے شایع ہوچکا ہے ـ 
وامِق شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور سفر نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر چکے ہیں ـ 
شعرگوئی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وامِق نے کہا، شاعر سماج کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو انسانی مسائل کے نازک اور لطیف جذبات کو محسوس کر لیتا ہے ـ
اور پھر اپنے مشاہدے کو الفاظ کے لباس میں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو جھنجھوڑتا ہے ـ 
آزادیء اظہار کے حوالے سے وامِق نے کہا  " ہر شخص کا کسی بھی دوسرے شخص کے خیالات  سے متفق ہونا لازم نہیں، انسان کو اپنی رائے میں آزاد ہونا چاہئے، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ـ دنیا میں جتنی ترقی ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب مثبت اختلافِ رائے کی بدولت ہے ـ 
وامِق تصوف میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے بعض اشعار میں تصوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی ہے ـ ابھی تک کسی روحانی استاد کے دستِ حق پرست پر بیعت نہیں کی ہے ـ عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات سے بے حد متاثر ہیں، اور اُن کی تحریر کردہ کتابیں اور ماہانہ روحانی ڈائجسٹ وامِق کے مطالعے میں شامل ہیں ـ 
شعری سفر کے حوالے سے جب ہم نے پوچھا تو عاجزی کے ساتھ کہنے لگے  " میں جس قدر سیکھتا جارہا ہوں اسی قدر تشنگی بڑھتی جارہی پے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی بڑھتا جارہا ہے ـ 
وامِق کے لئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ روایات شکنی کے اس کٹھن سفر میں وہ ہر آزمائش پر پورے اتریں ـ اور نئی منزلوں کی دریافت میں کامیاب ہوں ـ 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 
غلام محمد وامِق کا منتخب کلام ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ہر دوست یہاں واعظ، ہر دوست یہاں ناصح ـ
کیا خوب ہے اپنوں کا،  یہ اندازِ کرم بھی ـ 
سجدے تو کئے وامِق، لیکن یہ کئے کس کو؟
اے دوست تیرے دل میں خدا بھی ہے صنم بھی ـ

مجھ سے غمِ حیات کی نہ داستان پوچھ ـ
بے پردہ ہوں گے پردہ نشینوں کے نام کچھ ـ
تیرا شباب دیکھ کے  پیتا شراب کون ـ؟ 
ٹوٹے پڑے ہیں ساقی تیرے در پہ جام کچھ ـ 

ایسے ہوئے ہیں بدگماں انسانیت سے لوگ ـ 
اب مسلکِ انسان کو وہ مانتے نہیں ـ
وامِق، لہو سے ہم نے جو سینچا تھا گلستاں ـ
ہم کو وہاں اب خار بھی پہچانتے نہیں ـ

انسان اگر چاہے تو اسے دنیا میں خدا مل جاتا ہے ـ
افسوس مگر انسان یہاں انسانوں کو ٹھکراتا ہے ـ
ایثار و وفا، اخلاص و حیا اور پیار جو یکجا ہوتے ہیں ـ
تب عشق کی منزل کا رستہ دھندلا سا نظر میں آتا ہے ـ 

تو مجبور سمجھي جفاؤن ڀلي ڪر ـ
مان ديوانو آھيان وفاؤن ڪريان ٿو ـ
صبح شام مون کي تون پٿر ڀلي ھڻ ـ
سڄڻ مان ته توکي دعاؤن ڪريان ٿو ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
غم تو یہ ہے کہ وہ عہدِ وفا ٹوٹ گیا ... بے وفا تم نہ سہی، بے وفا ہم ہی سہی ... شاعر ـ نامعلوم ــ ( کمپوزنگ ـ غلام محمد وامِق )

غم تو یہ ہے کہ وہ عہدِ وفا ٹوٹ گیا ... بے وفا تم نہ سہی، بے وفا ہم ہی سہی ... شاعر ـ نامعلوم ــ ( کمپوزنگ ـ غلام محمد وامِق )

غم تو یہ ہے کہ وہ عہدِ وفا ٹوٹ گیا ... 
بے وفا تم نہ سہی، بے وفا ہم ہی سہی ... 

شاعر ـ نامعلوم 

( کمپوزنگ ـ غلام محمد وامِق ) ...

ممکن ہے ایسا وقت ہو ترتیبِ وقت میں ـ دستک کو تیرا ہاتھ بڑھے، میرا در نہ ہو ــ  شاعر ـ نامعلوم ـ  ( کمپوزنگ غلام محمد وامِق)

ممکن ہے ایسا وقت ہو ترتیبِ وقت میں ـ دستک کو تیرا ہاتھ بڑھے، میرا در نہ ہو ــ شاعر ـ نامعلوم ـ ( کمپوزنگ غلام محمد وامِق)

ممکن ہے ایسا وقت ہو ترتیبِ وقت میں ـ
دستک کو تیرا ہاتھ بڑھے، میرا در نہ ہو ـ

شاعر ـ نامعلوم ـ
( کمپوزنگ غلام محمد وامِق) 
بارہ ( ۱۲ ) ربیع الاوّل ....؟؟؟  ہمیں اچھی طرح یاد ہے، تقریباً پچاس سال قبل ہمارے لڑکپن میں، اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ سے، بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کہا جاتا تھا، اور ماہِ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا مہینہ بولتے تھے ـ یعنی وہ مہینہ جس میں رسول اکرمﷺ نے وفات پائی ـنہ کوئی جلوس نکلتا تھا اور نہ کوئی نعرے بازی ہوتی تھی، اور نہ ہی کوئی عاشقِ رسولﷺ یا عاشقِ مصطفٰے ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، بس خود کو مسلمان کہلوانا ہی باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا، بس اور کچھ نہیں ـ آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ  غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 09 اکتوبر 2022ء ـ مطابق 12 ربیع الاوّل، سال 1444ہجری ـ بروز اتوار ـ

بارہ ( ۱۲ ) ربیع الاوّل ....؟؟؟ ہمیں اچھی طرح یاد ہے، تقریباً پچاس سال قبل ہمارے لڑکپن میں، اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ سے، بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کہا جاتا تھا، اور ماہِ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا مہینہ بولتے تھے ـ یعنی وہ مہینہ جس میں رسول اکرمﷺ نے وفات پائی ـنہ کوئی جلوس نکلتا تھا اور نہ کوئی نعرے بازی ہوتی تھی، اور نہ ہی کوئی عاشقِ رسولﷺ یا عاشقِ مصطفٰے ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، بس خود کو مسلمان کہلوانا ہی باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا، بس اور کچھ نہیں ـ آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 09 اکتوبر 2022ء ـ مطابق 12 ربیع الاوّل، سال 1444ہجری ـ بروز اتوار ـ

بارہ ( ۱۲ ) ربیع الاوّل ....؟؟؟  

ہمیں اچھی طرح یاد ہے، تقریباً پچاس سال قبل ہمارے لڑکپن میں، اور اس سے پہلے بھی ہمیشہ سے، بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کہا جاتا تھا، اور ماہِ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا مہینہ بولتے تھے ـ یعنی وہ مہینہ جس میں رسول اکرمﷺ نے وفات پائی ـ

نہ کوئی جلوس نکلتا تھا اور نہ کوئی نعرے بازی ہوتی تھی، اور نہ ہی کوئی عاشقِ رسولﷺ یا عاشقِ مصطفٰے ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، بس خود کو مسلمان کہلوانا ہی باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا، بس اور کچھ نہیں ـ 

آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ 
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 09 اکتوبر 2022ء ـ مطابق 12 ربیع الاوّل، سال 1444ہجری ـ بروز اتوار ـ 
اگر ‏تم ‏عورتوں ‏کو ‏طلاق (یہاں ‏پر پہلی دوسری یا تیسری طلاق نہیں کہا گیا)  دو ‏تو ‏انہیں ‏ان ‏کی ‏عدت ‏ختم ‏ہونے ‏سے ‏قبل، اگر ‏تم ‏چاہو ‏تو انہیں ‏واپس ‏رکھ ‏سکتے ‏ہو ‏ـ سورۃ ‏البقرۃ ‏، ‏آیت ‏نمبر ‏ـ ‏231 ‏... ‏

اگر ‏تم ‏عورتوں ‏کو ‏طلاق (یہاں ‏پر پہلی دوسری یا تیسری طلاق نہیں کہا گیا) دو ‏تو ‏انہیں ‏ان ‏کی ‏عدت ‏ختم ‏ہونے ‏سے ‏قبل، اگر ‏تم ‏چاہو ‏تو انہیں ‏واپس ‏رکھ ‏سکتے ‏ہو ‏ـ سورۃ ‏البقرۃ ‏، ‏آیت ‏نمبر ‏ـ ‏231 ‏... ‏

ایسی ‏حدیث ‏جس ‏میں ‏پردہ ‏والیوں ‏اور ‏بغیر ‏پردہ ‏دوشیزاؤں ‏کا ‏الگ ‏سے ‏بیان ‏کیا ‏گیا ‏ہے ‏، ‏یعنی ‏پردہ ‏اہم ‏نہیں ‏تھا ‏ـ حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏981 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

ایسی ‏حدیث ‏جس ‏میں ‏پردہ ‏والیوں ‏اور ‏بغیر ‏پردہ ‏دوشیزاؤں ‏کا ‏الگ ‏سے ‏بیان ‏کیا ‏گیا ‏ہے ‏، ‏یعنی ‏پردہ ‏اہم ‏نہیں ‏تھا ‏ـ حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏981 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

اور لوگوں کی بہ نسبت میں عیسٰی بن مریم سے زیادہ قریب ‏ہوں ‏،( ‏یعنی ‏ان ‏کے ‏حالات زندگی اور میرے حالات ملتے جُلتے ہیں)  ‏ـ ‏دنیا ‏کی ‏زندگی ‏میں ‏بھی ‏اور ‏آخرت ‏میں ‏بھی ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 3443 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

اور لوگوں کی بہ نسبت میں عیسٰی بن مریم سے زیادہ قریب ‏ہوں ‏،( ‏یعنی ‏ان ‏کے ‏حالات زندگی اور میرے حالات ملتے جُلتے ہیں) ‏ـ ‏دنیا ‏کی ‏زندگی ‏میں ‏بھی ‏اور ‏آخرت ‏میں ‏بھی ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 3443 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

آپﷺ ‏کو ‏کسی ‏مجلس ‏میں ‏ایک ‏پیالہ ‏مشروب ‏پینے ‏کو ‏دیا ‏گیا ‏، ‏آپﷺ ‏نے ‏خود ‏پیا ‏پھر ‏اپنے ‏داہنے ‏بیٹھے ‏لڑکے ‏سے ‏پوچھا ‏کہ ‏اگر ‏تم ‏اجازت ‏دو ‏تو ‏بائیں ‏طرف ‏بیٹھے ‏بوڑھوں ‏کو ‏دے ‏دوں ‏،لیکن ‏لڑکے ‏نے ‏انکار ‏کردیا ‏اور ‏رسول ‏اکرمﷺ ‏کا ‏جھوٹا ‏خود ‏پی ‏لیا ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 2366 ‏،  ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

آپﷺ ‏کو ‏کسی ‏مجلس ‏میں ‏ایک ‏پیالہ ‏مشروب ‏پینے ‏کو ‏دیا ‏گیا ‏، ‏آپﷺ ‏نے ‏خود ‏پیا ‏پھر ‏اپنے ‏داہنے ‏بیٹھے ‏لڑکے ‏سے ‏پوچھا ‏کہ ‏اگر ‏تم ‏اجازت ‏دو ‏تو ‏بائیں ‏طرف ‏بیٹھے ‏بوڑھوں ‏کو ‏دے ‏دوں ‏،لیکن ‏لڑکے ‏نے ‏انکار ‏کردیا ‏اور ‏رسول ‏اکرمﷺ ‏کا ‏جھوٹا ‏خود ‏پی ‏لیا ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 2366 ‏، ‏صحیح ‏بخاری ‏ـ ‏

قیامت ‏کی ‏آمد ‏کے ‏متعلق ‏ایک ‏عجیب ‏حدیث ‏، ‏کہ ‏یہ ‏لڑکا ‏جب ‏بوڑھا ‏ہوگا ‏تو ‏اس ‏سے ‏پہلے ‏ہی ‏قیامت ‏آجائے ‏گی ‏ـ  ‏حدیث ‏نمبر ‏7409 ‏، ‏صحیح ‏مسلم ‏ـ ‏

قیامت ‏کی ‏آمد ‏کے ‏متعلق ‏ایک ‏عجیب ‏حدیث ‏، ‏کہ ‏یہ ‏لڑکا ‏جب ‏بوڑھا ‏ہوگا ‏تو ‏اس ‏سے ‏پہلے ‏ہی ‏قیامت ‏آجائے ‏گی ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏7409 ‏، ‏صحیح ‏مسلم ‏ـ ‏

کسی ‏سفر ‏کے ‏دوران ‏ام ‏المؤمنین ‏حضرت ‏صفیہ ‏رضیہ ‏کا ‏اونٹ ‏بیمار ‏ہوگیا ‏، ‏تو ‏رسول ‏اللہﷺ ‏کے ‏کہنے ‏کے ‏باوجود ‏ام ‏المؤمنین ‏حضرت ‏زینب ‏رضیہ ‏نے ‏اپنا ‏اونٹ اپنی سوتن بی ‏بی ‏صفیہ ‏کو ‏دینے ‏سے ‏انکار ‏کردیا ‏کہ ‏" ‏اس ‏یہودن ‏کو ‏اپنا ‏اونٹ ‏کیوں ‏دوں ‏؟ـ ‏جس ‏پر ‏آپﷺ ‏زینب ‏سے ‏تقریباﹰ تین ماہ ‏تک ‏ناراض ‏رہے ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 5049 ‏ ‏، ‏مشکوٰۃ ‏المصابیح ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ  ‏4602 ‏ ‏، ‏سُنن ‏ابو ‏داؤد ‏ـ

کسی ‏سفر ‏کے ‏دوران ‏ام ‏المؤمنین ‏حضرت ‏صفیہ ‏رضیہ ‏کا ‏اونٹ ‏بیمار ‏ہوگیا ‏، ‏تو ‏رسول ‏اللہﷺ ‏کے ‏کہنے ‏کے ‏باوجود ‏ام ‏المؤمنین ‏حضرت ‏زینب ‏رضیہ ‏نے ‏اپنا ‏اونٹ اپنی سوتن بی ‏بی ‏صفیہ ‏کو ‏دینے ‏سے ‏انکار ‏کردیا ‏کہ ‏" ‏اس ‏یہودن ‏کو ‏اپنا ‏اونٹ ‏کیوں ‏دوں ‏؟ـ ‏جس ‏پر ‏آپﷺ ‏زینب ‏سے ‏تقریباﹰ تین ماہ ‏تک ‏ناراض ‏رہے ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ 5049 ‏ ‏، ‏مشکوٰۃ ‏المصابیح ‏ـ ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏4602 ‏ ‏، ‏سُنن ‏ابو ‏داؤد ‏ـ

پالتو ‏گدھا ‏کھانے ‏سے ‏منع ‏کردیا ‏گیا ‏، ‏فتح ‏خیبر ‏کے ‏دن ‏رسول ‏اللہﷺ ‏نے ‏پالتو ‏گدھے ‏کا ‏گوشت ‏کھانا ‏حرام ‏قرار ‏دے ‏دیا ‏، ‏شاید ‏اس ‏وجہ ‏سے ‏کہ ‏کہیں  ‏وزن اٹھانے  والا یہ ‏جانور ‏گھروں ‏سے ‏ختم ‏نہ ‏ہوجائے ‏ـ ‏صحیح ‏مسلم ، ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ  ‏5017 ‏... ‏

پالتو ‏گدھا ‏کھانے ‏سے ‏منع ‏کردیا ‏گیا ‏، ‏فتح ‏خیبر ‏کے ‏دن ‏رسول ‏اللہﷺ ‏نے ‏پالتو ‏گدھے ‏کا ‏گوشت ‏کھانا ‏حرام ‏قرار ‏دے ‏دیا ‏، ‏شاید ‏اس ‏وجہ ‏سے ‏کہ ‏کہیں ‏وزن اٹھانے والا یہ ‏جانور ‏گھروں ‏سے ‏ختم ‏نہ ‏ہوجائے ‏ـ ‏صحیح ‏مسلم ، ‏حدیث ‏نمبر ‏ـ ‏5017 ‏... ‏

ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس کام کے لئے ہے؟ ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ کم و بیش چالیس سال قبل ٹاؤن کمیٹی محراب پور کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی تھے، اس زمانے میں ٹاؤن کی ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی، جس میں ہم بھی موجود  تھے، اس میں بتایا گیا تھا کہ پورے سندھ میں محراب پور واحد ٹاؤن کمیٹی ہے جو مقروض نہیں ہے  اور سب سے زیادہ خوشحال ہے ـ اس زمانے میں مغل عبدالغفور ساجد بھی شہر کے چیئرمین رہے، الحمدللہ ان دونوں شخصیات سے ہمارے قریبی روابط رہے ہیں ـہمارے بچپن میں جب شہر میں بجلی نہیں آئی تھی، تب ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے شہر کے مختلف چوراہوں پر لالٹینیں نصب کی گئی تھیں، ان میں روزانہ شام کے وقت مٹی کا تیل ڈال کر انہیں روشن کیا جاتا تھا ـدن میں تین بار صبح دوپہر شام سڑکوں اور بازاروں میں ٹاؤن کی طرف سے  ماشکی پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے ـ روزانہ گلیوں اور سڑکوں کی باقائدہ صفائی کی جاتی تھی، پانی کی نکاسی کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا، اور ان امور کی نگرانی خود چیئرمین کرتے تھے، وہ ہر دوسرے تیسرے روز شہر کا دورہ کرتے تھے، مغل عبدالغفور ساجد تو درویش صفت چیئرمین تھا، وہ روزانہ نالیوں کی صفائی کے وقت خاکروبوں کے ساتھ کھڑے ہوکر صفائی کرواتا تھا، اسی نے شہر میں پہلی بار ڈرینج سسٹم بنوایا، جوکہ اب ناکارہ ہوکر ختم ہو چکا ہے ـاُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی سڑکیں بنواتی، گلیاں پکی کرواتی، شہر سے کچرا اٹھایا جاتا اور لوگوں کے پینے کے لئے صاف پانی کا انتظام کیا جاتا، نئے نلکے لگوائے جاتے، اور شہر بھر میں بڑے بڑے کنووں کا انتظام بھی کیا گیا تھا ـاُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کو صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی تھی بلکہ آمدنی کا دارومدار ناکوں پر ہوتا تھا، یہ ناکے شہر میں داخلے کے تمام راستوں پر بنائے گئے تھے، لہٰذا شہر میں جو بھی مال یا سامان لایا جاتا تو اس پر ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور یہ ہی شہر کی اصل آمدنی کا ذریعہ ہوتا تھا ـ ٹاؤن کمیٹی کا مختصر سا عملہ ہوتا تھا، جنہیں شہر کا ہر فرد جانتا تھا، شہر کا سارا ستھرائی صفائی کا کام. اسی مختصر سے عملے کے ذریعے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا جاتا تھا ـاس زمانے میں خاکروب بڑی تندہی اور جانفشانی سے اپنا کام کرتے تھے، یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے لئے  ایک محاورہ   استمال کیا جاتا تھا کہ " یہ ہی لوگ حلال خور ہیں، یعنی اصل حلال کمائی یہ خاکروب ہی کماتے ہیں " ـ لیکن اب ہر چیز الٹ ہوگئی ہے، حلال خور بھی حرام خور بن گئے ہیں ـاب ٹاؤن کمیٹی کے ناکے ختم کردئے گئے لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے ٹاؤن کو کروڑوں روپئے کے فنڈ ( امداد) ملتے ہیں، اس کے باوجود شہر ویران کردیا گیا ہے، شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے ـاگر کہیں پر کچرا پڑا ہے تو اسے عوام خود اپنے خرچے پر اٹھواتے ہیں ـ  نالیوں کی اور گلیوں کی صفائی بھی محلے والے یا بازار والے اپنا خرچہ کرکے کرواتے ہیں ـاب حلال خور ( خاکروب)  بھی کسی منسٹر کی طرح بات کرتے ہیں اور اپنا کام تنخواہ پر نہیں بلکہ اضافی معاوضے پر انجام دیتے ہیں ـ اب  ٹاؤن کے بیشمار ملازمین ہیں لیکن سڑکوں پر کام کرتے ہوئے کوئی نظر نہیں آتا ـحالیہ تباہ کن بارشوں کے دوران اور بعد میں بھی ٹاؤن کمیٹی کے کسی ملازم نے کوئی کام نہیں کیا ـ سڑکوں کی گلیوں کی اور بازاروں کی صفائی کا کام اور گندے پانی کی نکاسی کا سارا کام شہر کے لوگوں نے خود کیا ہے، یا پھر شہر کی چند فلاحی تنظیموں اور سماجی ورکروں نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر سے پانی کو نکالا ہے، اور کچرا خود اٹھوایا ہے، یہاں تک کہ بازار والوں نے بازار کی سڑکیں بھی دوبارہ سے خود اپنا خرچہ کر کے بنوائی ہیں، اور بنوا رہے ہیں ـتو ایسے میں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ " ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس مقصد کے لئے ہے؟ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـمورخہ 29، ستمبر 2022ء بروز جمعرات ـ

ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس کام کے لئے ہے؟ ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ کم و بیش چالیس سال قبل ٹاؤن کمیٹی محراب پور کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی تھے، اس زمانے میں ٹاؤن کی ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی، جس میں ہم بھی موجود تھے، اس میں بتایا گیا تھا کہ پورے سندھ میں محراب پور واحد ٹاؤن کمیٹی ہے جو مقروض نہیں ہے اور سب سے زیادہ خوشحال ہے ـ اس زمانے میں مغل عبدالغفور ساجد بھی شہر کے چیئرمین رہے، الحمدللہ ان دونوں شخصیات سے ہمارے قریبی روابط رہے ہیں ـہمارے بچپن میں جب شہر میں بجلی نہیں آئی تھی، تب ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے شہر کے مختلف چوراہوں پر لالٹینیں نصب کی گئی تھیں، ان میں روزانہ شام کے وقت مٹی کا تیل ڈال کر انہیں روشن کیا جاتا تھا ـدن میں تین بار صبح دوپہر شام سڑکوں اور بازاروں میں ٹاؤن کی طرف سے ماشکی پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے ـ روزانہ گلیوں اور سڑکوں کی باقائدہ صفائی کی جاتی تھی، پانی کی نکاسی کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا، اور ان امور کی نگرانی خود چیئرمین کرتے تھے، وہ ہر دوسرے تیسرے روز شہر کا دورہ کرتے تھے، مغل عبدالغفور ساجد تو درویش صفت چیئرمین تھا، وہ روزانہ نالیوں کی صفائی کے وقت خاکروبوں کے ساتھ کھڑے ہوکر صفائی کرواتا تھا، اسی نے شہر میں پہلی بار ڈرینج سسٹم بنوایا، جوکہ اب ناکارہ ہوکر ختم ہو چکا ہے ـاُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی سڑکیں بنواتی، گلیاں پکی کرواتی، شہر سے کچرا اٹھایا جاتا اور لوگوں کے پینے کے لئے صاف پانی کا انتظام کیا جاتا، نئے نلکے لگوائے جاتے، اور شہر بھر میں بڑے بڑے کنووں کا انتظام بھی کیا گیا تھا ـاُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کو صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی تھی بلکہ آمدنی کا دارومدار ناکوں پر ہوتا تھا، یہ ناکے شہر میں داخلے کے تمام راستوں پر بنائے گئے تھے، لہٰذا شہر میں جو بھی مال یا سامان لایا جاتا تو اس پر ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور یہ ہی شہر کی اصل آمدنی کا ذریعہ ہوتا تھا ـ ٹاؤن کمیٹی کا مختصر سا عملہ ہوتا تھا، جنہیں شہر کا ہر فرد جانتا تھا، شہر کا سارا ستھرائی صفائی کا کام. اسی مختصر سے عملے کے ذریعے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا جاتا تھا ـاس زمانے میں خاکروب بڑی تندہی اور جانفشانی سے اپنا کام کرتے تھے، یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے لئے ایک محاورہ استمال کیا جاتا تھا کہ " یہ ہی لوگ حلال خور ہیں، یعنی اصل حلال کمائی یہ خاکروب ہی کماتے ہیں " ـ لیکن اب ہر چیز الٹ ہوگئی ہے، حلال خور بھی حرام خور بن گئے ہیں ـاب ٹاؤن کمیٹی کے ناکے ختم کردئے گئے لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے ٹاؤن کو کروڑوں روپئے کے فنڈ ( امداد) ملتے ہیں، اس کے باوجود شہر ویران کردیا گیا ہے، شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے ـاگر کہیں پر کچرا پڑا ہے تو اسے عوام خود اپنے خرچے پر اٹھواتے ہیں ـ نالیوں کی اور گلیوں کی صفائی بھی محلے والے یا بازار والے اپنا خرچہ کرکے کرواتے ہیں ـاب حلال خور ( خاکروب) بھی کسی منسٹر کی طرح بات کرتے ہیں اور اپنا کام تنخواہ پر نہیں بلکہ اضافی معاوضے پر انجام دیتے ہیں ـ اب ٹاؤن کے بیشمار ملازمین ہیں لیکن سڑکوں پر کام کرتے ہوئے کوئی نظر نہیں آتا ـحالیہ تباہ کن بارشوں کے دوران اور بعد میں بھی ٹاؤن کمیٹی کے کسی ملازم نے کوئی کام نہیں کیا ـ سڑکوں کی گلیوں کی اور بازاروں کی صفائی کا کام اور گندے پانی کی نکاسی کا سارا کام شہر کے لوگوں نے خود کیا ہے، یا پھر شہر کی چند فلاحی تنظیموں اور سماجی ورکروں نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر سے پانی کو نکالا ہے، اور کچرا خود اٹھوایا ہے، یہاں تک کہ بازار والوں نے بازار کی سڑکیں بھی دوبارہ سے خود اپنا خرچہ کر کے بنوائی ہیں، اور بنوا رہے ہیں ـتو ایسے میں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ " ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس مقصد کے لئے ہے؟ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـمورخہ 29، ستمبر 2022ء بروز جمعرات ـ

ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس کام کے لئے ہے؟ ـ
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 

کم و بیش چالیس سال قبل ٹاؤن کمیٹی محراب پور کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی تھے، اس زمانے میں ٹاؤن کی ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی، جس میں ہم بھی موجود  تھے، اس میں بتایا گیا تھا کہ پورے سندھ میں محراب پور واحد ٹاؤن کمیٹی ہے جو مقروض نہیں ہے  اور سب سے زیادہ خوشحال ہے ـ 
اس زمانے میں مغل عبدالغفور ساجد بھی شہر کے چیئرمین رہے، الحمدللہ ان دونوں شخصیات سے ہمارے قریبی روابط رہے ہیں ـ
ہمارے بچپن میں جب شہر میں بجلی نہیں آئی تھی، تب ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے شہر کے مختلف چوراہوں پر لالٹینیں نصب کی گئی تھیں، ان میں روزانہ شام کے وقت مٹی کا تیل ڈال کر انہیں روشن کیا جاتا تھا ـ
دن میں تین بار صبح دوپہر شام سڑکوں اور بازاروں میں ٹاؤن کی طرف سے  ماشکی پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے ـ روزانہ گلیوں اور سڑکوں کی باقائدہ صفائی کی جاتی تھی، پانی کی نکاسی کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا، اور ان امور کی نگرانی خود چیئرمین کرتے تھے، وہ ہر دوسرے تیسرے روز شہر کا دورہ کرتے تھے، مغل عبدالغفور ساجد تو درویش صفت چیئرمین تھا، وہ روزانہ نالیوں کی صفائی کے وقت خاکروبوں کے ساتھ کھڑے ہوکر صفائی کرواتا تھا، اسی نے شہر میں پہلی بار ڈرینج سسٹم بنوایا، جوکہ اب ناکارہ ہوکر ختم ہو چکا ہے ـ
اُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی سڑکیں بنواتی، گلیاں پکی کرواتی، شہر سے کچرا اٹھایا جاتا اور لوگوں کے پینے کے لئے صاف پانی کا انتظام کیا جاتا، نئے نلکے لگوائے جاتے، اور شہر بھر میں بڑے بڑے کنووں کا انتظام بھی کیا گیا تھا ـ
اُس زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کو صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی تھی بلکہ آمدنی کا دارومدار ناکوں پر ہوتا تھا، یہ ناکے شہر میں داخلے کے تمام راستوں پر بنائے گئے تھے، لہٰذا شہر میں جو بھی مال یا سامان لایا جاتا تو اس پر ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور یہ ہی شہر کی اصل آمدنی کا ذریعہ ہوتا تھا ـ ٹاؤن کمیٹی کا مختصر سا عملہ ہوتا تھا، جنہیں شہر کا ہر فرد جانتا تھا، شہر کا سارا ستھرائی صفائی کا کام. اسی مختصر سے عملے کے ذریعے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا جاتا تھا ـ
اس زمانے میں خاکروب بڑی تندہی اور جانفشانی سے اپنا کام کرتے تھے، یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے لئے  ایک محاورہ   استمال کیا جاتا تھا کہ " یہ ہی لوگ حلال خور ہیں، یعنی اصل حلال کمائی یہ خاکروب ہی کماتے ہیں " ـ لیکن اب ہر چیز الٹ ہوگئی ہے، حلال خور بھی حرام خور بن گئے ہیں ـ
اب ٹاؤن کمیٹی کے ناکے ختم کردئے گئے لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے ٹاؤن کو کروڑوں روپئے کے فنڈ ( امداد) ملتے ہیں، اس کے باوجود شہر ویران کردیا گیا ہے، شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے ـ
اگر کہیں پر کچرا پڑا ہے تو اسے عوام خود اپنے خرچے پر اٹھواتے ہیں ـ  نالیوں کی اور گلیوں کی صفائی بھی محلے والے یا بازار والے اپنا خرچہ کرکے کرواتے ہیں ـ
اب حلال خور ( خاکروب)  بھی کسی منسٹر کی طرح بات کرتے ہیں اور اپنا کام تنخواہ پر نہیں بلکہ اضافی معاوضے پر انجام دیتے ہیں ـ
 اب  ٹاؤن کے بیشمار ملازمین ہیں لیکن سڑکوں پر کام کرتے ہوئے کوئی نظر نہیں آتا ـ
حالیہ تباہ کن بارشوں کے دوران اور بعد میں بھی ٹاؤن کمیٹی کے کسی ملازم نے کوئی کام نہیں کیا ـ سڑکوں کی گلیوں کی اور بازاروں کی صفائی کا کام اور گندے پانی کی نکاسی کا سارا کام شہر کے لوگوں نے خود کیا ہے، یا پھر شہر کی چند فلاحی تنظیموں اور سماجی ورکروں نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر سے پانی کو نکالا ہے، اور کچرا خود اٹھوایا ہے، یہاں تک کہ بازار والوں نے بازار کی سڑکیں بھی دوبارہ سے خود اپنا خرچہ کر کے بنوائی ہیں، اور بنوا رہے ہیں ـ
تو ایسے میں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ " ٹاؤن کمیٹی محراب پور آخر کس مقصد کے لئے ہے؟ ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 29، ستمبر 2022ء بروز جمعرات ـ 
قرآنِ کریم میں بیان کردہ لفظ " جن " کے میرے تحقیق شدہ  اصل معانی اور مفہوم کی،  مستند احادیث کی روشنی میں تصدیق = -- ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ. ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ.ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ میری کتاب " جنّات کی حقیقت " کی تقریبِ رونمائی 12 نومبر، سال 2016ء بروز ہفتہ " کراچی پریس کلب " کراچی میں منعقد کی گئی تھی، جدید تحقیق کے اس موضوع پر یہ دنیا بھر میں پہلی کتاب ہے ـ اس کتاب میں قرآنِ کریم میں ذکر کئے گئے لفظ  " جن " کے عام مروّج روایتی معنی،  آسیب، بھوت، پریت، دیو، جن، چڑیل، وغیرہ کے بجائے اس کے حقیقی معنی ہم نے دلائل کے ساتھ  بیان کئے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ـ لفظ " جن " کے لغوی معنی ہیں عام طور پر نظر نہ آنے والی مخلوق ـ یعنی شیطان اور شیطان کے پیروکار افراد، اسلام دشمن جاسوس، انتہائی طاقتور سرکش لوگ، خفیہ تخریب کار، ناقابلِ یقین امور انجام دینے والے لوگ مثلاﹰ سائنسدان، اور انجنیئر وغیرہ جو تخریب کاری کے لئے اپنے امور انجام دیں ـ اور دلوں میں وسوسے پیدا کرنے والی خفیہ تنظیمیں اور ادارے، اور پُراسرار علوم کے ماہر لوگ، ان کے علاوہ جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، ریڈیائی لہریں، وغیرہ ـلفظ " جن " کے  یہ مفاہیم قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اور مختلف واقعات کے ضمن میں بیان کئے  گئے ہیں ـ ایک غلط فہمی کا ازالہ = جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 130 میں فرمایا گیا ہے کہ " اے جماعتِ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے؟  ـ میری کتاب میں اس آیت کی تشریح کچھ لوگوں پر واضح نہیں ہوسکی تھی، یا شاید کچھ مبہم رہ گئی تھی، اس لئے یہاں اس کی مزید وضاحت کی جا رہی ہے ـ" عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیه السّلام،  جنوں ( جنّات)  کے بادشاہ تھے، میرے نظرئیے کے مطابق بھی یہ بات درست ہے، دراصل حضرت سلیمان کی اکثر رعایا سرکش اور تخریب کار افراد پر اور انجنیئرز و سائنسدانوں پر اور  پُراسرار علوم کے ماہر افراد  پر مشتمل تھی، وہ لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے رہتے تھے اسی لئے انہیں " جن " کہا گیا ہے ـ اور ظاہر ہے کہ جنوں کا جو حکمران ہوگا وہ بھی " جن " ہی ہوگا،  جس طرح جانوروں کا بادشاہ جانور، شہد کی مکھیوں کی ملکہ مکھی، اور چیونٹیوں کی حکمران چیونٹی ہی ہوتی ہے ـ اسی طرح جنوں کا بادشاہ بھی " جن " ہی کہلائے گا، اور یہ ہی مذکورہ آیت کی تشریح بنتی ہے ـ میں نے اپنی کتاب میں ان باتوں کو واضح کرنے کے لئے عقلی، سائنسی، اور روزمرّہ کے مشاہدات و تجربات پر مبنی دلائل دئے تھے، اور قرآنِ کریم سے بھی دلائل پیش کئے تھے ـ جب کہ صحیح بخاری سے بھی چند ایک دلائل بیان کئے تھے ـ لیکن اُس وقت مجھے اس سلسلے میں واضح آحادیث نہیں مل سکی تھیں، اب حسنِ اتفاق سے الحمدللہ، مجھے چند ایسی مستند احادیث مل گئی ہیں جن سے میرے نظرئیے کی تصدیق احادیث مبارکہ کے مطابق بھی ہو رہی ہے ـ ان میں سے چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں، ملاحظہ فرمائیں ـ1. حدیث نمبر 3913، سُنن ابوداؤد = حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،  " کوئی جن بھوت نہیں " ـ  2. حدیث نمبر  7757، مُسند احمد = سیدنا جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا  " کوئی بیماری متعدی نہیں ہے، نہ کوئی صفر ہے اور نہ غُول " ـ اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ صفر سے مراد پیٹ ہے، جب ان سے کہا گیا کہ اس قول سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا پیٹ کے کیڑے ہیں، پھر انہوں نے غُول کی تعریف نہیں کی،  البتہ ابوزبیر نے اپنی طرف سے کہا کہ غُول سے مراد وہ چیز ہے جس کو لوگ چڑیل یا جن کہتے ہیں ـ3. حدیث نمبر 5797، صحیح مسلم = ابنِ جریج نے کہا مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے جابر بن عبدالله کو کہتے سنا،  میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں لگ جاتا،  نہ صفر ( کی نحوست) اور نہ چھلاوا ( جن بھوت) کوئی چیز ہے ـ4. حدیث نمبر 5796، صحیح المسلم = یزید تِستری نے کہا ہمیں ابوزبیرنے، حضرت جابر رضہ سے روایت کی کہا، رسول اللہﷺ نے فرمایا کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں چمٹتا، نہ چھلاوا کوئی چیز ہے، نہ صفر کی ( نحوست)  کوئی حقیقت ہے ـ5. حدیث نمبر 4580، مشکوٰۃ المصابیح = حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا،  کوئی بیماری متعدی ہے نہ ماہِ صفر منحوس ہے، نہ کوئی بھوت ہے ـ رواہ مسلم ـ واضح ہوکہ عربی زبان میں لفظ " غُول " کے لغوی معنی ہیں، جن بھوت، دیو، چھلاوا، چڑیل، وغیرہ، جوکہ سب خیالی نظریات ہیں ـ وماعلینا الی البلاغ المبین ـ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ـ ( آمین) ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 28 ستمبر، سال 2022ء بروز بدھ ـ

قرآنِ کریم میں بیان کردہ لفظ " جن " کے میرے تحقیق شدہ اصل معانی اور مفہوم کی، مستند احادیث کی روشنی میں تصدیق = -- ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ. ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ.ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ میری کتاب " جنّات کی حقیقت " کی تقریبِ رونمائی 12 نومبر، سال 2016ء بروز ہفتہ " کراچی پریس کلب " کراچی میں منعقد کی گئی تھی، جدید تحقیق کے اس موضوع پر یہ دنیا بھر میں پہلی کتاب ہے ـ اس کتاب میں قرآنِ کریم میں ذکر کئے گئے لفظ " جن " کے عام مروّج روایتی معنی، آسیب، بھوت، پریت، دیو، جن، چڑیل، وغیرہ کے بجائے اس کے حقیقی معنی ہم نے دلائل کے ساتھ بیان کئے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ـ لفظ " جن " کے لغوی معنی ہیں عام طور پر نظر نہ آنے والی مخلوق ـ یعنی شیطان اور شیطان کے پیروکار افراد، اسلام دشمن جاسوس، انتہائی طاقتور سرکش لوگ، خفیہ تخریب کار، ناقابلِ یقین امور انجام دینے والے لوگ مثلاﹰ سائنسدان، اور انجنیئر وغیرہ جو تخریب کاری کے لئے اپنے امور انجام دیں ـ اور دلوں میں وسوسے پیدا کرنے والی خفیہ تنظیمیں اور ادارے، اور پُراسرار علوم کے ماہر لوگ، ان کے علاوہ جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، ریڈیائی لہریں، وغیرہ ـلفظ " جن " کے یہ مفاہیم قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اور مختلف واقعات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں ـ ایک غلط فہمی کا ازالہ = جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 130 میں فرمایا گیا ہے کہ " اے جماعتِ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے؟ ـ میری کتاب میں اس آیت کی تشریح کچھ لوگوں پر واضح نہیں ہوسکی تھی، یا شاید کچھ مبہم رہ گئی تھی، اس لئے یہاں اس کی مزید وضاحت کی جا رہی ہے ـ" عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیه السّلام، جنوں ( جنّات) کے بادشاہ تھے، میرے نظرئیے کے مطابق بھی یہ بات درست ہے، دراصل حضرت سلیمان کی اکثر رعایا سرکش اور تخریب کار افراد پر اور انجنیئرز و سائنسدانوں پر اور پُراسرار علوم کے ماہر افراد پر مشتمل تھی، وہ لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے رہتے تھے اسی لئے انہیں " جن " کہا گیا ہے ـ اور ظاہر ہے کہ جنوں کا جو حکمران ہوگا وہ بھی " جن " ہی ہوگا، جس طرح جانوروں کا بادشاہ جانور، شہد کی مکھیوں کی ملکہ مکھی، اور چیونٹیوں کی حکمران چیونٹی ہی ہوتی ہے ـ اسی طرح جنوں کا بادشاہ بھی " جن " ہی کہلائے گا، اور یہ ہی مذکورہ آیت کی تشریح بنتی ہے ـ میں نے اپنی کتاب میں ان باتوں کو واضح کرنے کے لئے عقلی، سائنسی، اور روزمرّہ کے مشاہدات و تجربات پر مبنی دلائل دئے تھے، اور قرآنِ کریم سے بھی دلائل پیش کئے تھے ـ جب کہ صحیح بخاری سے بھی چند ایک دلائل بیان کئے تھے ـ لیکن اُس وقت مجھے اس سلسلے میں واضح آحادیث نہیں مل سکی تھیں، اب حسنِ اتفاق سے الحمدللہ، مجھے چند ایسی مستند احادیث مل گئی ہیں جن سے میرے نظرئیے کی تصدیق احادیث مبارکہ کے مطابق بھی ہو رہی ہے ـ ان میں سے چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں، ملاحظہ فرمائیں ـ1. حدیث نمبر 3913، سُنن ابوداؤد = حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، " کوئی جن بھوت نہیں " ـ 2. حدیث نمبر 7757، مُسند احمد = سیدنا جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا " کوئی بیماری متعدی نہیں ہے، نہ کوئی صفر ہے اور نہ غُول " ـ اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ صفر سے مراد پیٹ ہے، جب ان سے کہا گیا کہ اس قول سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا پیٹ کے کیڑے ہیں، پھر انہوں نے غُول کی تعریف نہیں کی، البتہ ابوزبیر نے اپنی طرف سے کہا کہ غُول سے مراد وہ چیز ہے جس کو لوگ چڑیل یا جن کہتے ہیں ـ3. حدیث نمبر 5797، صحیح مسلم = ابنِ جریج نے کہا مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے جابر بن عبدالله کو کہتے سنا، میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں لگ جاتا، نہ صفر ( کی نحوست) اور نہ چھلاوا ( جن بھوت) کوئی چیز ہے ـ4. حدیث نمبر 5796، صحیح المسلم = یزید تِستری نے کہا ہمیں ابوزبیرنے، حضرت جابر رضہ سے روایت کی کہا، رسول اللہﷺ نے فرمایا کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں چمٹتا، نہ چھلاوا کوئی چیز ہے، نہ صفر کی ( نحوست) کوئی حقیقت ہے ـ5. حدیث نمبر 4580، مشکوٰۃ المصابیح = حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، کوئی بیماری متعدی ہے نہ ماہِ صفر منحوس ہے، نہ کوئی بھوت ہے ـ رواہ مسلم ـ واضح ہوکہ عربی زبان میں لفظ " غُول " کے لغوی معنی ہیں، جن بھوت، دیو، چھلاوا، چڑیل، وغیرہ، جوکہ سب خیالی نظریات ہیں ـ وماعلینا الی البلاغ المبین ـ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ـ ( آمین) ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 28 ستمبر، سال 2022ء بروز بدھ ـ

قرآنِ کریم میں بیان کردہ لفظ " جن " کے میرے تحقیق شدہ  اصل معانی اور مفہوم کی،  مستند احادیث کی روشنی میں تصدیق = --
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ. ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ.ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

میری کتاب " جنّات کی حقیقت " کی تقریبِ رونمائی 12 نومبر، سال 2016ء بروز ہفتہ " کراچی پریس کلب " کراچی میں منعقد کی گئی تھی، جدید تحقیق کے اس موضوع پر یہ دنیا بھر میں پہلی کتاب ہے ـ اس کتاب میں قرآنِ کریم میں ذکر کئے گئے لفظ  " جن " کے عام مروّج روایتی معنی،  آسیب، بھوت، پریت، دیو، جن، چڑیل، وغیرہ کے بجائے اس کے حقیقی معنی ہم نے دلائل کے ساتھ  بیان کئے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ـ لفظ " جن " کے لغوی معنی ہیں عام طور پر نظر نہ آنے والی مخلوق ـ یعنی شیطان اور شیطان کے پیروکار افراد، اسلام دشمن جاسوس، انتہائی طاقتور سرکش لوگ، خفیہ تخریب کار، ناقابلِ یقین امور انجام دینے والے لوگ مثلاﹰ سائنسدان، اور انجنیئر وغیرہ جو تخریب کاری کے لئے اپنے امور انجام دیں ـ اور دلوں میں وسوسے پیدا کرنے والی خفیہ تنظیمیں اور ادارے، اور پُراسرار علوم کے ماہر لوگ، ان کے علاوہ جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، ریڈیائی لہریں، وغیرہ ـ
لفظ " جن " کے  یہ مفاہیم قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اور مختلف واقعات کے ضمن میں بیان کئے  گئے ہیں ـ 
ایک غلط فہمی کا ازالہ = 
جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 130 میں فرمایا گیا ہے کہ " اے جماعتِ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے؟ ـ
میری کتاب میں اس آیت کی تشریح کچھ لوگوں پر واضح نہیں ہوسکی تھی، یا شاید کچھ مبہم رہ گئی تھی، اس لئے یہاں اس کی مزید وضاحت کی جا رہی ہے ـ
" عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیه السّلام،  جنوں ( جنّات)  کے بادشاہ تھے، میرے نظرئیے کے مطابق بھی یہ بات درست ہے، دراصل حضرت سلیمان کی اکثر رعایا سرکش اور تخریب کار افراد پر اور انجنیئرز و سائنسدانوں پر اور  پُراسرار علوم کے ماہر افراد  پر مشتمل تھی، وہ لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے رہتے تھے اسی لئے انہیں " جن " کہا گیا ہے ـ اور ظاہر ہے کہ جنوں کا جو حکمران ہوگا وہ بھی " جن " ہی ہوگا،  جس طرح جانوروں کا بادشاہ جانور، شہد کی مکھیوں کی ملکہ مکھی، اور چیونٹیوں کی حکمران چیونٹی ہی ہوتی ہے ـ اسی طرح جنوں کا بادشاہ بھی " جن " ہی کہلائے گا، اور یہ ہی مذکورہ آیت کی تشریح بنتی ہے ـ
میں نے اپنی کتاب میں ان باتوں کو واضح کرنے کے لئے عقلی، سائنسی، اور روزمرّہ کے مشاہدات و تجربات پر مبنی دلائل دئے تھے، اور قرآنِ کریم سے بھی دلائل پیش کئے تھے ـ جب کہ صحیح بخاری سے بھی چند ایک دلائل بیان کئے تھے ـ لیکن اُس وقت مجھے اس سلسلے میں واضح آحادیث نہیں مل سکی تھیں، اب حسنِ اتفاق سے الحمدللہ، مجھے چند ایسی مستند احادیث مل گئی ہیں جن سے میرے نظرئیے کی تصدیق احادیث مبارکہ کے مطابق بھی ہو رہی ہے ـ
ان میں سے چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں، ملاحظہ فرمائیں ـ
1. حدیث نمبر 3913، سُنن ابوداؤد = 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،  " کوئی جن بھوت نہیں " ـ 

 2. حدیث نمبر  7757، مُسند احمد = 
سیدنا جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا  " کوئی بیماری متعدی نہیں ہے، نہ کوئی صفر ہے اور نہ غُول " ـ اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ صفر سے مراد پیٹ ہے، جب ان سے کہا گیا کہ اس قول سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا پیٹ کے کیڑے ہیں، پھر انہوں نے غُول کی تعریف نہیں کی،  البتہ ابوزبیر نے اپنی طرف سے کہا کہ غُول سے مراد وہ چیز ہے جس کو لوگ چڑیل یا جن کہتے ہیں ـ

3. حدیث نمبر 5797، صحیح مسلم = 
ابنِ جریج نے کہا مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے جابر بن عبدالله کو کہتے سنا،  میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں لگ جاتا،  نہ صفر ( کی نحوست) اور نہ چھلاوا ( جن بھوت) کوئی چیز ہے ـ

4. حدیث نمبر 5796، صحیح المسلم = 
یزید تِستری نے کہا ہمیں ابوزبیرنے، حضرت جابر رضہ سے روایت کی کہا، رسول اللہﷺ نے فرمایا کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں چمٹتا، نہ چھلاوا کوئی چیز ہے، نہ صفر کی ( نحوست)  کوئی حقیقت ہے ـ

5. حدیث نمبر 4580، مشکوٰۃ المصابیح = 
حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا،  کوئی بیماری متعدی ہے نہ ماہِ صفر منحوس ہے، نہ کوئی بھوت ہے ـ رواہ مسلم ـ

واضح ہوکہ عربی زبان میں لفظ " غُول " کے لغوی معنی ہیں، جن بھوت، دیو، چھلاوا، چڑیل، وغیرہ، جوکہ سب خیالی نظریات ہیں ـ
 وماعلینا الی البلاغ المبین ـ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ـ ( آمین) ـ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 28 ستمبر، سال 2022ء بروز بدھ ـ
یادش بخیر = میری پہلی کتاب  " نقشِ وفا " ( شاعری) دسمبر 2000ء میں شایع ہوئی تھی، یہ کتاب میں نے اس وقت کے ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات، نامور مصنف، شاعر اور تنقید نگار، جناب ڈاکٹر عبدالحق خاں حسرت کاسگنجوی ( مرحوم) کو بھی بھجوائی تھی، جسے پڑھ کر انہوں نے ذرہ نوازی فرمائی اور مجھے یہ جوابی خط تحریر فرمایا ـ از ـ غلام محمد وامِق ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  تاریخ ـ ۱۸ جون ۲۰۰۱ ء .... جناب غلام محمد وامِق صاحب،السلام علیکم ـ آپ کی کتاب پڑھ رہا ہوں، لطف لے رہا ہوں، جس سادگی سے آپ نے دل کی کیفیت کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ پر خود بڑی چیز ہے ـ میری نظر میں بڑی شاعری وہ ہے جو دلوں کی کیفیت بدلنے کی قوت رکھتی ہو، اور اس کے لئے کسی فلسفیانہ اور نفسیاتی تحریکوں کے اظہار کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کردینا ایک نصابی شاعری کا وجود تو عمل میں لاسکتی ہے لیکن روح سنے اور روح سنائے والی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی، آپ کی شاعری یقیناّ اس اسٹیج پر نہیں ہے، لیکن جس خلوص کے ساتھ آپ آگے بڑھے  اور انسانیت کے جس جذبے اور ولولے کو آپ نے عام کرنے کی سعی کی ہے وہ بڑی شاعری کے دائرے میں آنے والی چیز ہے ـ فنی طور پر کہیں کہیں انگلی رکھی جاسکتی ہے لیکن اس بات کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ یہ شاعری کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنی ہے ـ فقط والسلام ....          مخلص ـ دستخط ....

یادش بخیر = میری پہلی کتاب " نقشِ وفا " ( شاعری) دسمبر 2000ء میں شایع ہوئی تھی، یہ کتاب میں نے اس وقت کے ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات، نامور مصنف، شاعر اور تنقید نگار، جناب ڈاکٹر عبدالحق خاں حسرت کاسگنجوی ( مرحوم) کو بھی بھجوائی تھی، جسے پڑھ کر انہوں نے ذرہ نوازی فرمائی اور مجھے یہ جوابی خط تحریر فرمایا ـ از ـ غلام محمد وامِق ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تاریخ ـ ۱۸ جون ۲۰۰۱ ء .... جناب غلام محمد وامِق صاحب،السلام علیکم ـ آپ کی کتاب پڑھ رہا ہوں، لطف لے رہا ہوں، جس سادگی سے آپ نے دل کی کیفیت کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ پر خود بڑی چیز ہے ـ میری نظر میں بڑی شاعری وہ ہے جو دلوں کی کیفیت بدلنے کی قوت رکھتی ہو، اور اس کے لئے کسی فلسفیانہ اور نفسیاتی تحریکوں کے اظہار کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کردینا ایک نصابی شاعری کا وجود تو عمل میں لاسکتی ہے لیکن روح سنے اور روح سنائے والی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی، آپ کی شاعری یقیناّ اس اسٹیج پر نہیں ہے، لیکن جس خلوص کے ساتھ آپ آگے بڑھے اور انسانیت کے جس جذبے اور ولولے کو آپ نے عام کرنے کی سعی کی ہے وہ بڑی شاعری کے دائرے میں آنے والی چیز ہے ـ فنی طور پر کہیں کہیں انگلی رکھی جاسکتی ہے لیکن اس بات کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ یہ شاعری کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنی ہے ـ فقط والسلام .... مخلص ـ دستخط ....

یادش بخیر = میری پہلی کتاب  " نقشِ وفا " ( شاعری) دسمبر 2000ء میں شایع ہوئی تھی، یہ کتاب میں نے اس وقت کے ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات، نامور مصنف، شاعر اور تنقید نگار، جناب ڈاکٹر عبدالحق خاں حسرت کاسگنجوی ( مرحوم) کو بھی بھجوائی تھی، جسے پڑھ کر انہوں نے ذرہ نوازی فرمائی اور مجھے یہ جوابی خط تحریر فرمایا ـ از ـ غلام محمد وامِق ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

تاریخ ـ ۱۸ جون ۲۰۰۱ ء .... 

جناب غلام محمد وامِق صاحب،
السلام علیکم ـ 
آپ کی کتاب پڑھ رہا ہوں، لطف لے رہا ہوں، جس سادگی سے آپ نے دل کی کیفیت کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ پر خود بڑی چیز ہے ـ میری نظر میں بڑی شاعری وہ ہے جو دلوں کی کیفیت بدلنے کی قوت رکھتی ہو، اور اس کے لئے کسی فلسفیانہ اور نفسیاتی تحریکوں کے اظہار کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کردینا ایک نصابی شاعری کا وجود تو عمل میں لاسکتی ہے لیکن روح سنے اور روح سنائے والی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی، آپ کی شاعری یقیناّ اس اسٹیج پر نہیں ہے، لیکن جس خلوص کے ساتھ آپ آگے بڑھے  اور انسانیت کے جس جذبے اور ولولے کو آپ نے عام کرنے کی سعی کی ہے وہ بڑی شاعری کے دائرے میں آنے والی چیز ہے ـ فنی طور پر کہیں کہیں انگلی رکھی جاسکتی ہے لیکن اس بات کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ یہ شاعری کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنی ہے ـ
فقط والسلام .... 
         مخلص ـ دستخط .... 
ایک ادبی دستاویز ـ ( محترم رئیس امروہوی کی چونتیسویں برسی پر) ... غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے، لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور غلطی کی نشاندہی کرنے والے کو شاباش دینا بڑی بات ہوتی ہے، یہ عظیم انسانوں کا وطیرہ ہے، ایسے ہی عظیم انسان اور نابغہء روزگار شخصیت محترم رئیس امروہوی صاحب بھی تھے، جو کہ آج کے دن بائیس (۲۲) ستمبر ۱۹۸۸ء کو شہید کردئے گئے تھے ـ رئیس صاحب نے مجھ جیسے کم علم انسان کو بھی اپنی غلطی کی نشاندہی کرنے پر نہ صرف شاباش دی بلکہ مستقل رابطہ رکھنے کی بھی ہدایت فرمائی ـ ان کا  " روزنامہ جنگ کراچی " میں مستقل شایع ہونے والے قطعہ کی غلطی پر میرا لکھا گیا خط اور ان کے جوابی خط کا عکس بھی پیشِ خدمت ہے ـ ملاحظہ فرمائیں ـ ان کے خط کی تحریر بھی یہاں درج کر رہا ہوں تاکہ جو دوست رئیس صاحب کی تحریر نہ پڑھ سکیں وہ بھی پڑھ لیں  ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ                        تاریخ ـ ۱۸ جنوری ۱۹۸۸ ءبرادر عزیزم  غلام محمد وامِق، السلام علیکم یادآوری کا شکریہ، آپ نے بالکل برمحل  نشاندہی کی ہے اس  قطعے میں قافیے کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بہت عجلت میں ٹیلیفون پر میں نے یہ قطعہ ایڈیٹر جنگ کو کہلوایا تھا،  عجلت میں خیال ہی نہ رہا کیا کہلوا رہا ہوں، بہت شدید فنی سقم ہے، لیکن تعجب ہے میرے قطعے کو لاکھوں آدمی پڑھتے ہیں، سوائے آپ کے اور کسی نے اس غلطی کی نشاندہی نہیں کی ـ شاباش،  جزاک اللہ ـ کبھی کبھی یاد فرماتے رہا کریں .....       رئیس ـ

ایک ادبی دستاویز ـ ( محترم رئیس امروہوی کی چونتیسویں برسی پر) ... غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے، لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور غلطی کی نشاندہی کرنے والے کو شاباش دینا بڑی بات ہوتی ہے، یہ عظیم انسانوں کا وطیرہ ہے، ایسے ہی عظیم انسان اور نابغہء روزگار شخصیت محترم رئیس امروہوی صاحب بھی تھے، جو کہ آج کے دن بائیس (۲۲) ستمبر ۱۹۸۸ء کو شہید کردئے گئے تھے ـ رئیس صاحب نے مجھ جیسے کم علم انسان کو بھی اپنی غلطی کی نشاندہی کرنے پر نہ صرف شاباش دی بلکہ مستقل رابطہ رکھنے کی بھی ہدایت فرمائی ـ ان کا " روزنامہ جنگ کراچی " میں مستقل شایع ہونے والے قطعہ کی غلطی پر میرا لکھا گیا خط اور ان کے جوابی خط کا عکس بھی پیشِ خدمت ہے ـ ملاحظہ فرمائیں ـ ان کے خط کی تحریر بھی یہاں درج کر رہا ہوں تاکہ جو دوست رئیس صاحب کی تحریر نہ پڑھ سکیں وہ بھی پڑھ لیں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تاریخ ـ ۱۸ جنوری ۱۹۸۸ ءبرادر عزیزم غلام محمد وامِق، السلام علیکم یادآوری کا شکریہ، آپ نے بالکل برمحل نشاندہی کی ہے اس قطعے میں قافیے کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بہت عجلت میں ٹیلیفون پر میں نے یہ قطعہ ایڈیٹر جنگ کو کہلوایا تھا، عجلت میں خیال ہی نہ رہا کیا کہلوا رہا ہوں، بہت شدید فنی سقم ہے، لیکن تعجب ہے میرے قطعے کو لاکھوں آدمی پڑھتے ہیں، سوائے آپ کے اور کسی نے اس غلطی کی نشاندہی نہیں کی ـ شاباش، جزاک اللہ ـ کبھی کبھی یاد فرماتے رہا کریں ..... رئیس ـ

ایک ادبی دستاویز ـ ( محترم رئیس امروہوی کی چونتیسویں برسی پر) ... 
غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے، لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور غلطی کی نشاندہی کرنے والے کو شاباش دینا بڑی بات ہوتی ہے، یہ عظیم انسانوں کا وطیرہ ہے، ایسے ہی عظیم انسان اور نابغہء روزگار شخصیت محترم رئیس امروہوی صاحب بھی تھے، جو کہ آج کے دن بائیس (۲۲) ستمبر ۱۹۸۸ء کو شہید کردئے گئے تھے ـ
رئیس صاحب نے مجھ جیسے کم علم انسان کو بھی اپنی غلطی کی نشاندہی کرنے پر نہ صرف شاباش دی بلکہ مستقل رابطہ رکھنے کی بھی ہدایت فرمائی ـ 
ان کا  " روزنامہ جنگ کراچی " میں مستقل شایع ہونے والے قطعہ کی غلطی پر میرا لکھا گیا خط اور ان کے جوابی خط کا عکس بھی پیشِ خدمت ہے ـ ملاحظہ فرمائیں ـ
ان کے خط کی تحریر بھی یہاں درج کر رہا ہوں تاکہ جو دوست رئیس صاحب کی تحریر نہ پڑھ سکیں وہ بھی پڑھ لیں  ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ                        

تاریخ ـ ۱۸ جنوری ۱۹۸۸ ء
برادر عزیزم  غلام محمد وامِق، السلام علیکم
یادآوری کا شکریہ، آپ نے بالکل برمحل  نشاندہی کی ہے اس  قطعے میں قافیے کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بہت عجلت میں ٹیلیفون پر میں نے یہ قطعہ ایڈیٹر جنگ کو کہلوایا تھا،  عجلت میں خیال ہی نہ رہا کیا کہلوا رہا ہوں، بہت شدید فنی سقم ہے، لیکن تعجب ہے میرے قطعے کو لاکھوں آدمی پڑھتے ہیں، سوائے آپ کے اور کسی نے اس غلطی کی نشاندہی نہیں کی ـ شاباش،  جزاک اللہ ـ کبھی کبھی یاد فرماتے رہا کریں .....       رئیس ـ 
  اپنی گزری ہے زندگی ایسی ...  سرد موسم میں چاندنی جیسی ...   دیکھو اتنا  شعور ہے مجھ کو ...  جان لیتا ہوں چال ہو جیسی ...   جو بھی کہتے ہیں، دل ربا تجھ کو ...  ایسے لوگوں کی ایسی کی تیسی ...   جیسی چاہی تھی زندگی ہم نے ۔۔۔  اپنی گزری نہ زندگی ویسی ۔۔۔   بات وامِق کی چھوڑو جی دیکھو ...  اِس بڑھاپے میں،  آرزو کیسی؟ ...  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔  بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔  شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ  مورخہ 29 نومبر، 2021ء  میں کہی گئی غزل ۔

اپنی گزری ہے زندگی ایسی ... سرد موسم میں چاندنی جیسی ... دیکھو اتنا شعور ہے مجھ کو ... جان لیتا ہوں چال ہو جیسی ... جو بھی کہتے ہیں، دل ربا تجھ کو ... ایسے لوگوں کی ایسی کی تیسی ... جیسی چاہی تھی زندگی ہم نے ۔۔۔ اپنی گزری نہ زندگی ویسی ۔۔۔ بات وامِق کی چھوڑو جی دیکھو ... اِس بڑھاپے میں، آرزو کیسی؟ ... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ مورخہ 29 نومبر، 2021ء میں کہی گئی غزل ۔

===  غزل   ===
           غلام محمد وامِق  

اپنی گزری ہے زندگی ایسی ... 
سرد موسم میں چاندنی جیسی ... 

دیکھو اتنا  شعور ہے مجھ کو ... 
جان لیتا ہوں چال ہو جیسی ... 

جو بھی کہتے ہیں، دل ربا تجھ کو ... 
ایسے لوگوں کی ایسی کی تیسی ... 

جیسی چاہی تھی زندگی ہم نے ۔۔۔ 
اپنی گزری نہ زندگی ویسی ۔۔۔ 

بات وامِق کی چھوڑو جی دیکھو ... 
اِس بڑھاپے میں،  آرزو کیسی؟ ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ 
بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ 
مورخہ 29 نومبر، 2021ء  میں کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بارہ (12) ستمبر رئیس امروہوی ( سید محمد مہدی) کی تاریخِ پیدائش ہے ( سال 1914ء) ـ اس مناسبت سے کچھ یادیں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ ادبی لحاظ سے سند رہے ـ فروری سال 1986ء کے اوائل میں، رئیس امروہوی کے دفتر " گارڈن ایسٹ کراچی " میں، میں نے ان سے ملاقات کی، اور انہیں محراب پور آنے کی دعوت دی، انہوں نے بڑی شفقت سے میری دعوت قبول کی اور 27 مارچ کی تاریخ طے کرلی، ( میری ان سے بالمشافہ اور خط و کتابت کے ذریعے ایک عرصہ سے مختلف امور پر مثلاﹰ ادب، سیاست، لسانی تنظیمیں، اور روحانیت وغیرہ پر گفتگو ہوتی رہتی تھی) ہم نے ان کے اعزاز میں شہر کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی ( مرحوم) کے بنگلے پر تقریب منعقد کرنے کا پروگرام ترتیب دیا تھا، ( شوکت لودھی صاحب ہماری ادبی تنظیم " بزمِ ادب " کے سرپرست بھی تھے) ان کو جب مذکورہ تاریخ بتائی گئی تو انہوں نے کہا کہ ستائیس مارچ کو تو مجھے اپنے ضروری کام سے پنجاب جانا ہے، لہٰذا آپ رئیس صاحب سے کوئی دوسری تاریخ طے کرلیں، جب میں نے اس سلسلے میں رئیس صاحب کو خط لکھا تو انہوں نے جواب میں مجھے دو خطوط ارسال کئے جن کا عکس یہاں دیا جارہا ہے، جن میں انہوں نے پروگرام اپریل میں رکھنے کا کہا، مگر پھر سیاسی اور سماجی حالات اس قدر تبدیل ہوتے گئے کہ پروگرام منعقد نہ ہوسکا، جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ـ رئیس امروہوی کی آمد کی خبر جب اخبارات میں چھپی تو ان کے کچھ چاہنے والوں نے بھی خطوط لکھے جس میں ان سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا گیا تھا، جن میں سے ایک خط جو کہ خیرپور میرس سے لکھا گیا تھا اس کا عکس بھی شامل ہے ـ  تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ

آج بارہ (12) ستمبر رئیس امروہوی ( سید محمد مہدی) کی تاریخِ پیدائش ہے ( سال 1914ء) ـ اس مناسبت سے کچھ یادیں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ ادبی لحاظ سے سند رہے ـ فروری سال 1986ء کے اوائل میں، رئیس امروہوی کے دفتر " گارڈن ایسٹ کراچی " میں، میں نے ان سے ملاقات کی، اور انہیں محراب پور آنے کی دعوت دی، انہوں نے بڑی شفقت سے میری دعوت قبول کی اور 27 مارچ کی تاریخ طے کرلی، ( میری ان سے بالمشافہ اور خط و کتابت کے ذریعے ایک عرصہ سے مختلف امور پر مثلاﹰ ادب، سیاست، لسانی تنظیمیں، اور روحانیت وغیرہ پر گفتگو ہوتی رہتی تھی) ہم نے ان کے اعزاز میں شہر کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی ( مرحوم) کے بنگلے پر تقریب منعقد کرنے کا پروگرام ترتیب دیا تھا، ( شوکت لودھی صاحب ہماری ادبی تنظیم " بزمِ ادب " کے سرپرست بھی تھے) ان کو جب مذکورہ تاریخ بتائی گئی تو انہوں نے کہا کہ ستائیس مارچ کو تو مجھے اپنے ضروری کام سے پنجاب جانا ہے، لہٰذا آپ رئیس صاحب سے کوئی دوسری تاریخ طے کرلیں، جب میں نے اس سلسلے میں رئیس صاحب کو خط لکھا تو انہوں نے جواب میں مجھے دو خطوط ارسال کئے جن کا عکس یہاں دیا جارہا ہے، جن میں انہوں نے پروگرام اپریل میں رکھنے کا کہا، مگر پھر سیاسی اور سماجی حالات اس قدر تبدیل ہوتے گئے کہ پروگرام منعقد نہ ہوسکا، جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ـ رئیس امروہوی کی آمد کی خبر جب اخبارات میں چھپی تو ان کے کچھ چاہنے والوں نے بھی خطوط لکھے جس میں ان سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا گیا تھا، جن میں سے ایک خط جو کہ خیرپور میرس سے لکھا گیا تھا اس کا عکس بھی شامل ہے ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ

آج بارہ (12) ستمبر رئیس امروہوی ( سید محمد مہدی) کی تاریخِ پیدائش ہے ( سال 1914ء) ـ اس مناسبت سے کچھ یادیں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ ادبی لحاظ سے سند رہے ـ
فروری سال 1986ء کے اوائل میں، رئیس امروہوی کے دفتر " گارڈن ایسٹ کراچی " میں، میں نے ان سے ملاقات کی، اور انہیں محراب پور آنے کی دعوت دی، انہوں نے بڑی شفقت سے میری دعوت قبول کی اور 27 مارچ کی تاریخ طے کرلی، ( میری ان سے بالمشافہ اور خط و کتابت کے ذریعے ایک عرصہ سے مختلف امور پر مثلاﹰ ادب، سیاست، لسانی تنظیمیں، اور روحانیت وغیرہ پر گفتگو ہوتی رہتی تھی) ہم نے ان کے اعزاز میں شہر کے چیئرمین شوکت علی خان لودھی ( مرحوم) کے بنگلے پر تقریب منعقد کرنے کا پروگرام ترتیب دیا تھا، ( شوکت لودھی صاحب ہماری ادبی تنظیم " بزمِ ادب " کے سرپرست بھی تھے) ان کو جب مذکورہ تاریخ بتائی گئی تو انہوں نے کہا کہ ستائیس مارچ کو تو مجھے اپنے ضروری کام سے پنجاب جانا ہے، لہٰذا آپ رئیس صاحب سے کوئی دوسری تاریخ طے کرلیں، جب میں نے اس سلسلے میں رئیس صاحب کو خط لکھا تو انہوں نے جواب میں مجھے دو خطوط ارسال کئے جن کا عکس یہاں دیا جارہا ہے، جن میں انہوں نے پروگرام اپریل میں رکھنے کا کہا، مگر پھر سیاسی اور سماجی حالات اس قدر تبدیل ہوتے گئے کہ پروگرام منعقد نہ ہوسکا، جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ـ رئیس امروہوی کی آمد کی خبر جب اخبارات میں چھپی تو ان کے کچھ چاہنے والوں نے بھی خطوط لکھے جس میں ان سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا گیا تھا، جن میں سے ایک خط جو کہ خیرپور میرس سے لکھا گیا تھا اس کا عکس بھی شامل ہے ـ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
گیارہ ستمبر، قائداعظم محمد علی جناح کی تاریخِ وفات ہے، اسی نسبت سے نظم  " محمد علی جناح " پیشِ خدمت ہے ـ===   محمد علی جناح   ===          غلام محمد وامِق =  ہے رہنمائے ملّت،  محمد علی جناح ... بنیادِ فخر و عزّت، محمد علی جناح ... نظم و یقین، اور کیا پیدا  اتحاد ... سرمایۂ اخوّت، محمد علی جناح ... گفتار میں بھی اعلیٰ، کردار بھی عظیم ...منبعء مہر و الفت، محمد علی جناح ... پاکر تیرا اشارہ، جانیں لٹادی لاکھوں ... تجھ سے تھی وہ عقیدت، محمد علی جناح ... رکھتے ہیں ملکِ پاک کو جاں سے عزیز ہم ... تیری ہے یہ امانت، محمد علی جناح ... تُو پیکرِ انسانیت ہے،  رہنمائے قوم ... بے لوث ہے قیادت، محمد علی جناح ... وامِق، ہر ایک دل میں تیری ہی تا ابد ... قائم رہے گی عظمت، محمد علی جناح ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـمورخہ 30 دسمبر، 1984ء کو کہی گئی نظم ـ

گیارہ ستمبر، قائداعظم محمد علی جناح کی تاریخِ وفات ہے، اسی نسبت سے نظم " محمد علی جناح " پیشِ خدمت ہے ـ=== محمد علی جناح === غلام محمد وامِق = ہے رہنمائے ملّت، محمد علی جناح ... بنیادِ فخر و عزّت، محمد علی جناح ... نظم و یقین، اور کیا پیدا اتحاد ... سرمایۂ اخوّت، محمد علی جناح ... گفتار میں بھی اعلیٰ، کردار بھی عظیم ...منبعء مہر و الفت، محمد علی جناح ... پاکر تیرا اشارہ، جانیں لٹادی لاکھوں ... تجھ سے تھی وہ عقیدت، محمد علی جناح ... رکھتے ہیں ملکِ پاک کو جاں سے عزیز ہم ... تیری ہے یہ امانت، محمد علی جناح ... تُو پیکرِ انسانیت ہے، رہنمائے قوم ... بے لوث ہے قیادت، محمد علی جناح ... وامِق، ہر ایک دل میں تیری ہی تا ابد ... قائم رہے گی عظمت، محمد علی جناح ... ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـمورخہ 30 دسمبر، 1984ء کو کہی گئی نظم ـ

گیارہ ستمبر، قائداعظم محمد علی جناح کی تاریخِ وفات ہے، اسی نسبت سے نظم  " محمد علی جناح " پیشِ خدمت ہے ــ 

===   محمد علی جناح   === 
         غلام محمد وامِق

ہے رہنمائے ملّت،  محمد علی جناح ... 
بنیادِ فخر و عزّت، محمد علی جناح ... 

نظم و یقین، اور کیا پیدا  اتحاد ... 
سرمایۂ اخوّت، محمد علی جناح ... 

گفتار میں بھی اعلیٰ، کردار بھی عظیم ...
منبعء مہر و الفت، محمد علی جناح ... 

پاکر تیرا اشارہ، جانیں لٹادی لاکھوں ... 
تجھ سے تھی وہ عقیدت، محمد علی جناح ... 

رکھتے ہیں ملکِ پاک کو جاں سے عزیز ہم ... 
تیری ہے یہ امانت، محمد علی جناح ... 

تُو پیکرِ انسانیت ہے،  رہنمائے قوم ... 
بے لوث ہے قیادت، محمد علی جناح ... 

وامِق، ہر ایک دل میں تیری ہی تا ابد ... 
قائم رہے گی عظمت، محمد علی جناح ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 30 دسمبر، 1984ء کو کہی گئی نظم ـ 
  رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے ... دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے ...   تیری تمام خواہشیں پوری جو کر سکے ۔۔۔  ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟ ...    اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے اِس خیال سے ...  بلبل کو میرے سامنے، نیچا  دکھا  سکے ...    تیری  تباہ کار  جوانی  کے  سامنے ...    دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے ...   یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے کبھی ۔۔۔  ہم کو بلایا  اور  نہ خود ملنے آ سکے؟ ...   لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر ...  دِل سے تمہاری یاد  نہ ہرگز مٹا سکے ...   وامِق ! تمہارے پیار میں ہر رنج و غم سہا ...  لیکن غمِ فراق کبھی نا اٹھا سکے ...  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔  مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔  مارچ 1985ء میں کہی گئی غزل ـ

رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے ... دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے ... تیری تمام خواہشیں پوری جو کر سکے ۔۔۔ ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟ ... اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے اِس خیال سے ... بلبل کو میرے سامنے، نیچا دکھا سکے ... تیری تباہ کار جوانی کے سامنے ... دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے ... یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے کبھی ۔۔۔ ہم کو بلایا اور نہ خود ملنے آ سکے؟ ... لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر ... دِل سے تمہاری یاد نہ ہرگز مٹا سکے ... وامِق ! تمہارے پیار میں ہر رنج و غم سہا ... لیکن غمِ فراق کبھی نا اٹھا سکے ... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ مارچ 1985ء میں کہی گئی غزل ـ

★★★  غــــــزل ★★★ 
         غلام محمد وامِق 

رازِ دروں سے کوئی تو پردہ اٹھا سکے ...
دِل سے کوئی تو دِل کا تعلق بتا سکے ... 

تیری تمام خواہشیں پوری جو کر سکے ۔۔۔ 
ہے کون میری طرح جو نخرے اٹھا سکے؟ ...  

اِک پھول اُس کے ہاتھ میں ہے اِس خیال سے ... 
بلبل کو میرے سامنے، نیچا  دکھا  سکے ...  

تیری  تباہ کار  جوانی  کے  سامنے ...   
دِل کو کہاں مجال کہ وہ تاب لا سکے ... 

یہ کیا ستم کہ شہر میں رہتے ہوئے کبھی ۔۔۔ 
ہم کو بلایا  اور  نہ خود ملنے آ سکے؟ ... 

لاکھوں نقوشِ ماضی مٹائے تو ہیں، مگر ... 
دِل سے تمہاری یاد  نہ ہرگز مٹا سکے ... 

وامِق ! تمہارے پیار میں ہر رنج و غم سہا ... 
لیکن غمِ فراق کبھی نا اٹھا سکے ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ 
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ 
مارچ 1985ء میں کہی گئی غزل ـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Powered by Blogger.