قرآنِ کریم میں بیان کردہ لفظ " جن " کے میرے تحقیق شدہ اصل معانی اور مفہوم کی، مستند احادیث کی روشنی میں تصدیق = --
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ. ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ.ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
میری کتاب " جنّات کی حقیقت " کی تقریبِ رونمائی 12 نومبر، سال 2016ء بروز ہفتہ " کراچی پریس کلب " کراچی میں منعقد کی گئی تھی، جدید تحقیق کے اس موضوع پر یہ دنیا بھر میں پہلی کتاب ہے ـ اس کتاب میں قرآنِ کریم میں ذکر کئے گئے لفظ " جن " کے عام مروّج روایتی معنی، آسیب، بھوت، پریت، دیو، جن، چڑیل، وغیرہ کے بجائے اس کے حقیقی معنی ہم نے دلائل کے ساتھ بیان کئے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ـ لفظ " جن " کے لغوی معنی ہیں عام طور پر نظر نہ آنے والی مخلوق ـ یعنی شیطان اور شیطان کے پیروکار افراد، اسلام دشمن جاسوس، انتہائی طاقتور سرکش لوگ، خفیہ تخریب کار، ناقابلِ یقین امور انجام دینے والے لوگ مثلاﹰ سائنسدان، اور انجنیئر وغیرہ جو تخریب کاری کے لئے اپنے امور انجام دیں ـ اور دلوں میں وسوسے پیدا کرنے والی خفیہ تنظیمیں اور ادارے، اور پُراسرار علوم کے ماہر لوگ، ان کے علاوہ جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، ریڈیائی لہریں، وغیرہ ـ
لفظ " جن " کے یہ مفاہیم قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اور مختلف واقعات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں ـ
ایک غلط فہمی کا ازالہ =
جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 130 میں فرمایا گیا ہے کہ " اے جماعتِ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے؟ ـ
میری کتاب میں اس آیت کی تشریح کچھ لوگوں پر واضح نہیں ہوسکی تھی، یا شاید کچھ مبہم رہ گئی تھی، اس لئے یہاں اس کی مزید وضاحت کی جا رہی ہے ـ
" عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیه السّلام، جنوں ( جنّات) کے بادشاہ تھے، میرے نظرئیے کے مطابق بھی یہ بات درست ہے، دراصل حضرت سلیمان کی اکثر رعایا سرکش اور تخریب کار افراد پر اور انجنیئرز و سائنسدانوں پر اور پُراسرار علوم کے ماہر افراد پر مشتمل تھی، وہ لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے رہتے تھے اسی لئے انہیں " جن " کہا گیا ہے ـ اور ظاہر ہے کہ جنوں کا جو حکمران ہوگا وہ بھی " جن " ہی ہوگا، جس طرح جانوروں کا بادشاہ جانور، شہد کی مکھیوں کی ملکہ مکھی، اور چیونٹیوں کی حکمران چیونٹی ہی ہوتی ہے ـ اسی طرح جنوں کا بادشاہ بھی " جن " ہی کہلائے گا، اور یہ ہی مذکورہ آیت کی تشریح بنتی ہے ـ
میں نے اپنی کتاب میں ان باتوں کو واضح کرنے کے لئے عقلی، سائنسی، اور روزمرّہ کے مشاہدات و تجربات پر مبنی دلائل دئے تھے، اور قرآنِ کریم سے بھی دلائل پیش کئے تھے ـ جب کہ صحیح بخاری سے بھی چند ایک دلائل بیان کئے تھے ـ لیکن اُس وقت مجھے اس سلسلے میں واضح آحادیث نہیں مل سکی تھیں، اب حسنِ اتفاق سے الحمدللہ، مجھے چند ایسی مستند احادیث مل گئی ہیں جن سے میرے نظرئیے کی تصدیق احادیث مبارکہ کے مطابق بھی ہو رہی ہے ـ
ان میں سے چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں، ملاحظہ فرمائیں ـ
1. حدیث نمبر 3913، سُنن ابوداؤد =
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، " کوئی جن بھوت نہیں " ـ
2. حدیث نمبر 7757، مُسند احمد =
سیدنا جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں، کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا " کوئی بیماری متعدی نہیں ہے، نہ کوئی صفر ہے اور نہ غُول " ـ اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ صفر سے مراد پیٹ ہے، جب ان سے کہا گیا کہ اس قول سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا پیٹ کے کیڑے ہیں، پھر انہوں نے غُول کی تعریف نہیں کی، البتہ ابوزبیر نے اپنی طرف سے کہا کہ غُول سے مراد وہ چیز ہے جس کو لوگ چڑیل یا جن کہتے ہیں ـ
3. حدیث نمبر 5797، صحیح مسلم =
ابنِ جریج نے کہا مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے جابر بن عبدالله کو کہتے سنا، میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں لگ جاتا، نہ صفر ( کی نحوست) اور نہ چھلاوا ( جن بھوت) کوئی چیز ہے ـ
4. حدیث نمبر 5796، صحیح المسلم =
یزید تِستری نے کہا ہمیں ابوزبیرنے، حضرت جابر رضہ سے روایت کی کہا، رسول اللہﷺ نے فرمایا کسی سے کوئی مرض خودبخود نہیں چمٹتا، نہ چھلاوا کوئی چیز ہے، نہ صفر کی ( نحوست) کوئی حقیقت ہے ـ
5. حدیث نمبر 4580، مشکوٰۃ المصابیح =
حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، کوئی بیماری متعدی ہے نہ ماہِ صفر منحوس ہے، نہ کوئی بھوت ہے ـ رواہ مسلم ـ
واضح ہوکہ عربی زبان میں لفظ " غُول " کے لغوی معنی ہیں، جن بھوت، دیو، چھلاوا، چڑیل، وغیرہ، جوکہ سب خیالی نظریات ہیں ـ
وماعلینا الی البلاغ المبین ـ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ـ ( آمین) ـ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 28 ستمبر، سال 2022ء بروز بدھ ـ