غزل کے عام مروّج اور قدیم معانی، جس پر آج کے اہلِ علم و ماہرِ لسانیات نظرِ ثانی کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اس مسئلے پر مجھ ناچیز نے آج سے سینتیس سال قبل ایک گزارش پیش کی تھی، ملاحظہ فرمائیں روزنامہ " نوائے وقت کراچی " مورخہ 31 اگست 1985ء بروز ہفتہ .....
غزل کے معنی
اہلِ قلم، ادباء، شعراء و دانشورانِ پاکستان کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں، جیساکہ آج کے دور میں متعلقہ ہر شخص جانتا ہے کہ اب غزل کے معنی وہ نہیں رہے جو غالب اور غالب سے پیشتر شعراء کے وقت میں سمجھے جاتے تھے، اب غزل کا میدان بہت وسیع ہوگیا ہے جس میں صرف حسن و عشق ہی نہیں بلکہ فلسفہ، معاشیات، مذہب اور اخلاقیات کے پہلو بھی شامل ہیں، غرض یہ کہ آج کی غزل زندگی کے تقریباﹰ ہر شعبے پر محیط ہے، مگر افسوس کہ اب بھی لغت اور معلوماتی کتب میں غزل کے معنی صرف " عورتوں سے گفتگو کرنا یا عورتوں کی گفتگو کرنا " ہی لکھا جاتا ہے ـ حالاں کہ موجودہ دور میں یہ بات بڑی مضحکہ خیز نظر آرہی ہے کہ اگر مذکورہ معنی درست مان لئے جائیں تو آج کے دور میں جو خواتین شاعرات غزل گوئی کر رہی ہیں ان کے نزدیک غزل کے معنی کیا ہوں گے؟
چنانچہ اس فقیرِ کم علم کی صرف اتنی سی گزارش ہے کہ براہِ کرم جدید غزل کے معانی عام مکتبہء فکر پر محیط ہونے چاہئیے، یا کم از کم " عورتوں " کے لفظ کے بجائے لفظ " محبوب " لکھا جائے تاکہ اس سے خواتین و مرد ہر دو شعراء کی غزلوں کا بھرم رہ سکے ـ
( غلام محمد وامِق، جنرل سیکریٹری بزمِ ادب محراب پور جنکشن سندھ) ـ