میری شاعری کی کتاب " نقشِ وفا " کا تعارف، اور اس پر تبصرہ ماہنامہ " روحانی ڈائجسٹ " کے مئی 2001ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا ـ اب یادِ ماضی کے طور پر اسے اپنی فیس بک کی نذر کر رہا ہوں ـ ملاحظہ فرمائیں ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ نقشِ وفا ـ مصنف ـ غلام محمد وامِق ـ ناشر ـ المہران بک ڈیپو، محراب پور جنکشن سندھ ـ صفحات 160قیمت 80 روپئے ــ ساغر و مینا اور بادہ و جام اردو شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن دورِ جدید میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت سی قدروں کو یکسر بدل دیا ہے وہیں شاعری پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے ـ اب نئے نئے استعارے سامنے آرہے ہیں ـ غلام محمد وامِق کی زیرِ تبصرہ کتاب " نقشِ وفا " میں شایع کی گئی مختلف غزلوں اور نظموں میں بھی ہمیں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید طرزوں کا مشاہدہ ہوتا ہے، یہ غلام محمد وامِق کی آگے بڑھتی ہوئی اس سوچ کا مظہر ہے جو ماضی سے رشتہ توڑے بغیر حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو دیکھتی ہے ـ وامِق نے اپنی غزلوں میں محض زلفِ درازِ یار کی مدح خوانی میں اپنی ذہنی توانائی کو خرچ نہیں کیا بلکہ معاشرے اور معاشرتی اقدار پر ایک چبھتی ہوئی نگاہ ڈالی ہے، اور اس نگاہ سے فرسودہ روایات اور منافقانہ قدروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں افرادِ معاشرہ کے شعوری ارتقاء میں حائل اہم رکاوٹ قرار دیا ہے ـ وامِق کے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجئے ـ جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو ـ جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو، اور اوپر نیچے حدت ہو ـ جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعین مدت ہو ـ کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے؟ ـ ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری ـ کہ اب ہے یہود و نصاریٰ سے یاری ـ یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی ـ کہ دنیا ہے کافر کی، مسجد ہماری ـ تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ـ صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ـ مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ـ ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ــ محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ـ محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالَم ہے ـ محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ـ محبت در حقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ـ کتاب میں وامِق کی سندھی شاعری سے بھی کچھ اقتباس موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے کم وسائل میں شایع ہونے کے باوجود یہ کتاب یقیناً منفرد مقام حاصل کر لے گی کہ اس میں افکار کی آبیاری کے لئے خاصا مواد موجود ہے ـ ہم توقع کرتے ہیں کہ وامِق نے افکار کے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ " منزل نہ کر قبول " کے مصداق سے ہمیشہ آگے بڑھتا رہے گا ـ( تبصرہ نگار ـ ‏یوسفی) ‏

میری شاعری کی کتاب " نقشِ وفا " کا تعارف، اور اس پر تبصرہ ماہنامہ " روحانی ڈائجسٹ " کے مئی 2001ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا ـ اب یادِ ماضی کے طور پر اسے اپنی فیس بک کی نذر کر رہا ہوں ـ ملاحظہ فرمائیں ـ
ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ 

نقشِ وفا
مصنف ـ غلام محمد وامِق ـ 
ناشر ـ المہران بک ڈیپو، 
محراب پور جنکشن سندھ ـ 
صفحات 160
قیمت 80 روپئے ـ 

ساغر و مینا اور بادہ و جام اردو شاعری میں بطورِ استعارہ استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن دورِ جدید میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت سی قدروں کو یکسر بدل دیا ہے وہیں شاعری پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے ـ اب نئے نئے استعارے سامنے آرہے ہیں ـ غلام محمد وامِق  کی زیرِ تبصرہ کتاب " نقشِ وفا " میں شایع کی گئی مختلف غزلوں اور نظموں میں بھی ہمیں قدیم روایات کے ساتھ ساتھ جدید طرزوں کا مشاہدہ ہوتا ہے،  یہ غلام محمد وامِق کی آگے بڑھتی ہوئی اس سوچ کا مظہر ہے جو ماضی سے رشتہ توڑے بغیر حال میں رہتے ہوئے مستقبل کو دیکھتی ہے ـ
وامِق نے اپنی غزلوں میں محض زلفِ درازِ یار کی مدح خوانی میں اپنی ذہنی توانائی کو خرچ نہیں کیا بلکہ معاشرے اور معاشرتی اقدار پر ایک چبھتی ہوئی نگاہ ڈالی ہے، اور اس نگاہ سے فرسودہ روایات اور منافقانہ قدروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے انہیں افرادِ معاشرہ کے شعوری ارتقاء میں حائل اہم رکاوٹ قرار دیا ہے ـ 
وامِق کے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجئے ـ 

جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو ـ 
جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو،  اور اوپر نیچے حدت ہو ـ 
جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعین مدت ہو ـ
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے؟ 

ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری ـ 
کہ اب ہے یہود و نصاریٰ سے یاری ـ 
یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی ـ 
کہ دنیا ہے کافر کی، مسجد ہماری ـ 
تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ـ
صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ـ 
مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ـ 
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ـ 

محبت ہی جہاں میں باعثِ تخلیقِ آدم ہے ـ 
محبت معرفت ہے اور یہ ہی مقصودِ عالَم ہے ـ 
محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے انساں میں درویشی ـ
محبت در حقیقت جوہرِ ارواحِ آدم ہے ـ 

کتاب میں وامِق کی سندھی شاعری سے بھی کچھ اقتباس موجود ہے، ہمیں امید ہے کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سے کم وسائل میں شایع ہونے کے باوجود یہ کتاب یقیناً منفرد مقام حاصل کر لے گی کہ اس میں افکار کی آبیاری کے لئے خاصا مواد موجود ہے ـ 
ہم توقع کرتے ہیں کہ وامِق نے افکار کے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ  " منزل نہ کر قبول "  کے مصداق سے ہمیشہ آگے  بڑھتا رہے گا ـ 
( تبصرہ نگار ـ یوسفی ) 

SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.